فرعونی چلن (غلامی کی منفرد قسم)

فرعونی چلن (غلامی کی منفرد قسم)

فرعونی چلن (غلامی کی منفرد قسم)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مئی 2017

غلامی کی تھیوری میں تین اہم کردار ہیں:

غلام (غلامی کرنے والا)

آقا (جس کی غلامی کی جائے)  

وجہِ غلامی ( وہ وجہ جس کے باعث انسان غلامی میں مبتلا ہے)

آج کہیں پر وجہِ غلامی دنیا و زینتِ دنیا کی طلب ہے تو کہیں وجہِ غلامی جرُم ضعیفی کی سزا ہے- کہیں وجہِ غلامی بد خصلت نفسِ امارہ کی رفاقت ہے تو کہیں وجہِ غلامی خواہشِ نفس کی پیروی ہے-

اپنی نوعیت کے لحاظ سے غلامی کی کئی اقسام ہیں مثلا جسمانی غلامی،جغرافیائی غلامی، ذہنی و فکری غلامی اقتصادی و معاشی غلامی وغیرہ- انسان غلامی سے مختلف خطوں اور مختلف ادوار میں بر سرِ پیکار رہا ہے -مختلف لوگوں کی مختلف مسائل پہ مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے نظر ہوتی ہے اور وہ تاریخِ انسانی کو اپنے اپنے پیرائے میں بیان (Define) کرتے ہیں ، انسانی غلامی پہ تحقیق کرنے والے کئی دانشوروں نے کَہ رکھا ہے کہ ’’انسانی تاریخ انسانی غلامی کی تاریخ ہے‘‘-عمرانیاتی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو شہری زندگی کے آغاز کےساتھ ہی غلامی کا آغاز ہوتا ہے-بعض مؤرخین کے مطابق باضابطہ انسانی غلامی کا آغاز آٹھ سو(۸۰۰) قبل مسیح میں’’میسوپوٹیمیا‘‘ (Mesopotamia) میں ہوا اورپانچ سو(۵۰۰) قبل مسیح میں قدیم یونان پہنچا،جہاں صرف ایتھنز(Athens) میں محض اکیس سو(۲۱۰۰) شہری اورچار(۴) لاکھ کے قریب غلاموں کا تناسب موجود تھا-دو سو(۲۰۰)قبل مسیح میں غلامی کا دور روم اور اٹلی میں شروع ہوا جہاں آبادی کا تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا-قبل ازاں اگر دیکھیں تو غلامی کا عفریت  قدیم مصر میں نظر آتا ہے  جہاں مصری قوانین کے مطابق پوری رعایا فرعون کی غلام تھی-یوں انسانی غلامی کا یہ سفرعرب،عجم اور ہند سے ہوتا ہوا افریقہ اورمغربی ممالک،بالخصوص یورپ کے علاقے ’’اسکنڈے نیویا (Scandinavian) ‘‘ پہنچا جہاں اِس نے ایک منظم مارکیٹ اور تجارت کی صورت اختیار کر لی-

آج بھی اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں تمام انسانوں کو بنیادی آزادی کی ضمانت فراہم ہونے کے باوجود لاکھوں انسان،مختلف خطوں میں غلامی سے دوچار ہیں-غلامی کی جدید اقسام میں جبری مشقت،انسانی سمگلنگ،چائلڈ لیبر،ذہنی و فکری محکومی اور انسانی اعضاء کی فروخت شامل ہیں-یہ غلامی کی وہ اقسام ہیں جن پر عالمی دنیا میں بحث ہوتی ہے- لیکن ایک غلامی اوربھی ہے جسے ہم غلامی نہیں سمجھتے مگر وہ غلامی کی ایک بد ترین قسم ہے اور وہ ہے ’’حرص و ہوس، حسد، بے قابو جذبات، غصے، جذبۂ انتقام اور طیش کی غلامی‘‘-

اِس منفرد غلامی کا  تعلق انسان کے باطن سے ہے-اِس کے آغاز کی تاریخ روزِ الست کے اُس واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے جب اللہ پاک نے دنیا، زینتِ دنیا اور آرائشِ دنیا کو ارواح کے سامنے پیش کیا تو سب سے پہلے شیطان،بد خصلت نفسِ امارہ  کی رفاقت سے دنیا و زینتِ دنیا میں داخل ہوا-جونہی شیطان دنیا میں داخل ہوا اُس نے کئی نعرے  لگائے جنہیں سن کر نو(۹) حصہ ارواح منفرد غلامی کا طوق گلے میں ڈالے شیطان کی طرف بڑھیں اور اُس کے سلسلے میں داخل ہو گئیں- اُن میں سے کچھ نعرے یہ ہیں:

1۔  حرص کا نعرہ

2۔  حسد کا نعرہ

3۔  طمع کا نعرہ

’’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن  ‘‘کے اعداد و شمار کے مطا بق اِس وقت دنیا میں تقریباً اکیس(۲۱)ملین افراد غلام ہیں-یاد رہے کہ اِن اعداد و شمار کا تعلق جسمانی غلامی کے شکار افراد سے ہے-کتنے افراد باطن سے تعلق رکھنے والی منفرد غلامی کا شکار ہیں اس کےاعداد و شمار گمان اور بیان سے باہر ہیں-

جسمانی غلامی،جغرافیائی غلامی،اقتصادی و معاشی غلامی کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہے- اِس کے اثرات،نتائج،حدود و قیود صرف اس فانی دنیا تک ہی محدود ہیں جبکہ ہوس کی غلامی،حسد کی غلامی،بے قابو جذبات کی غلامی، غصے کی غلامی اور حرص کی غلامی کے اثرات اِس فانی دنیا سے آگے بڑھ کر ہمیشہ قائم و دائم رہنے والے جہاں تک ہیں- جس کے متعلق سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرہٗ)فرماتے ہیں کہ:

’’تمہارا حرص تمہیں یہاں بھی خوار کرے گا اور آخرت میں بھی خوار کرے گا‘‘ -

یعنی حرص، ہوس اور حسد کی ماہیت لامحدود ہے اِس لیے ان کا کسی مقام پر سیر ہونا ناممکن ہے جس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے آقاپاک(ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’اگر کسی (حریص) شخص کی مال سے بھری ہوئی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ چاہے گا کہ ایک تیسری بھی ہواور اُس کے نفس (کی خواہش) کو (قبر کی مٹی) ہی بھر سکتی ہےاور اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے جس نے (اِس حرص) سے توبہ کر لی‘‘-[1] 

یہ منفرد غلامی ایک صفت کے طور پہ ہر درندے کو ودیعت کی جاتی ہے-انسان اور درندے کے درمیان فرق اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہوتا ہے - یہ غلامی افکار و خیالات کو برائی، بدی اور شَر سے مُنسلک رکھتی ہے-اس لیے زندگی میں کسی بھی راستے کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیےکہ جب انسان ایک بار کسی راستے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر اُس پر چل پڑتا ہےتو باقی ماندہ زندگی وہ اُسی راستے کے مطابق  فکر اور عمل کرتے گزارتاہے، خواہ وہ راستہ درست ہو یا غلط-اگر وہ راستہ درست ہے اور اُس نے زندگی اخلاقِ حسنہ کے راستے پر چل کر گزارنے کا انتخاب کیا ہے تو وہ جب بھی صلہ رحمی،شفقت،محبت،ادب،احترام، بھائی چارہ اور عفودرگزر جیسے خوبصورت پہلوؤں کے متعلق فکر کرے گا اور اُنہیں اپنی زندگی میں اختیار کرے گا  تو نتیجتاََ اُس کے اندر ذہنی اطمینان،شگفتگی اور امن پیدا ہوگا وہ خود کو ہلکا محسوس کرے گا جیسے اُس کے اوپر سے کوئی بوجھ سا اُتر گیا ہو-

جیسا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے کہ :

’’تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘-[2]

 یعنی تم خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ شفقت، محبت اور رحم سے پیش آنا شروع کر دو آسمان والا (ربِ ذولجلال) تمہارے اوپر اپنی شفقت، محبت نچھاور کرے گا-پھربھلا اُس شخص سے زیادہ خوش نصیب اور خوش و خرم زندگی گزارنے والا اور کون ہو سکتا ہے جس پر کائنات کا مالک رحم اور شفقت فرماتا ہو-

اِس کے برعکس اگر یہی انسان حرص،ہوا،ہوس،حسد،بے قابو جذبات اور غصے کا راستہ اختیار کرتا ہے تو یہی چیزیں اُس کے لیے ذہنی تناو،پریشانی،بے اطمینانی اور مخلوق سے نفرت کا باعث بن جاتی ہیں-یوں اِن چیزوں میں آسودگی ڈھونڈنے والا انسان ہر وقت اپنے اندرکی آگ میں جلتا اورگھُلتا رہتا ہے-آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ حسد کسی عمل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ کا نام ہے- جس میں آپ دوسروں کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر سوچتے اور اندر ہی اندر جلتے رہتے ہیں کہ یہ اِس کے پاس کیوں ہے- کاش!یہ اِس سے چھن جائے، یہ اس سے محروم ہو جائے-اگر ہم اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)کی نظم ’’سیرِ فلک ‘‘ میں مضمر اس  فلسفے پر غور کریں تو ہماری آنکھیں کھل جائیں کہ جس میں اقبال تخیلاتی طور پہ فرماتے ہیں کہ دوزخ میں آگ نہیں ہے  بلکہ ہر انسان اپنی  آگ اس دنیا میں اکٹھی کر کے  اپنے ساتھ دوزخ  لے جاتا ہے جس میں وہ ہمیشہ جلتا رہتا ہے-نظم میں یہ منظر پیش کیا گیا ہے کہ : جنت سے دُور  ایک تاریک اور خاموش جگہ دیکھ کر فرشتے نے اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)کو بتایا کہ :

یہ مقامِ خُنک جہنّم ہے
اہلِ دنیا یہاں جو آتے ہیں

 

نار سے، نُور سے تہی آغوش
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں![3]

زیست کے سفر میں ایک بات ہمیں ضرور طے کر لینی چاہیئے! وہ یہ کہ اگر ہماری ’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ‘‘سے کوئی نسبت نہیں اور ہم نے ہمیشہ ہی اس دنیا میں رہنا ہے تو پھر مانتے رہیں اپنے نفس کا حکم-جس طرف یہ ہانکے دوڑے چلیں اُسی طرف- جس کی عزت،جس کا حق،جس کی حرمت پامال ہوتی ہے ہوتی رہے-انسان اور جانور کا فرق مِٹتا ہے تو مٹتا رہے،’’احسن التقویم‘‘سے اگر ’’اسفل السافلین‘‘ کی جانب تنزل ہوتا ہے تو ہوتا رہے،روح کی روشنی اور لطافت پہ اگر جسد کی ظُلمت و کثافت غالب آتی ہے تو آتی رہے - اگر بندۂ خُدا کی بجائے بندۂ زمانہ بنتے ہیں تو بنتے رہیں -

 پر اگر! ہم نے ہمیشہ اس دنیا میں نہیں رہنا اور موت کا آنا برحق ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ:

لوک قَبر دا کرسن چارہ لحد بناون ڈیرا ھُو
دے دَروُد گھراں نوں وَنجن کُوکن شَیرا شَیرا ھُو

 

چُٹکی بھَر مِٹی دی پاسن کرسن ڈھیر اُچیرا ھُو
بے پرواہ درگاہ ربّ باھوؒ نہیں فَضلاں بَاجھ نَبیڑا ھُو

 تو  پھر ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جس حرص میں ہم مبتلا ہیں،جس حسد میں ہم جل رہے ہیں اور جس آگ کو اکٹھا کرنے میں ہم اپنے شب وروز صرف کر رہے ہیں اِس کا عذاب صرف اِس دنیا تک ہی محدود  نہیں بلکہ برزخ میں اور  قیامت کے بعد بھی برقرار رہے گا-

بندہِ غلام دنیا کی  ہر چیز میں نفع و نقصان کو گنتے،حساب کتاب لگاتے جب دینِ مبین اور کلامِ الٰہی جیسی پاکیزہ،مُطہر اور آفاقی سچائی کے دروازے پر پہنچتا ہے تو وہاں بھی یہ فائدے اور گھاٹے کی عینک لگا کر  یہ بات  پرکھنا شروع کر دیتا ہے کہ بظاہراًَ تو دین اور قرآن کے احکامات پر عمل پیرا ہونے میں  کوئی  دنیاوی یا  مالی  فائدہ نظر نہیں آرہا تو پھر ضرور اِ س میں اوروں کا فائدہ  اور بھلائی مضمر ہے اور بھلا مَیں کسی  اور کی بہتری  یا بھلائی کے لیے کوئی کام کیونکر کروں-تو ایسی حاسدانہ،خود غرضانہ اور غلامانہ سوچ رکھنے والے افراد کے لئے اللہ پاک نے قرآنِ مجید کی اِس آیت میں ایک نہایت خوبصورت فلسفہ بیان فرمایا ہےکہ:

’’اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ قف وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَاط ‘‘[4]

’’اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنا بھلا کرو گے اور اگر بُرائی کرو گے تو اپنا ہی بُرا کرو گے‘‘-

یعنی اے میرے بندے! اگر تم نے بھلائی کی تو اِس کا فائدہ بھی تمہیں ہے اور اگر تم نے برُائی کی تو اِس کا خسارہ بھی تمہیں ہی ہے-تمہارے اچھا کرنے یا نہ کرنے سے خدا کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ اللہ پاک کی ذات سود و زیاں سے پاک ہے-

محبت،سچائی،قناعت،صبرو شکر، صلہ رحمی اور عفو و درگزر  جیسے اوصافِ حمیدہ  اور اعلیٰ اخلاقیات اپنانے  سے انسان کا وقار بلند ہوتا ہے-لیکن جو انسان منفرد غلامی میں مبتلا ہو کر اوصافِ حمیدہ اور اعلیٰ اخلاقیات  ترک کردے  تو نتیجتاََ    نہ صرف اُس انسان کا شخصی وقار مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہےبلکہ اشیاء کو اپنے لئے نفع بخش بنانے کی بجائے زہرِ قاتل بنا لیتا ہے-جیسا کہ آج ہر دوسرا پاکستانی زہر خوانی (Food Poisoning) کا شکار ہے اور اِس کا بنیادی سبب  ملاوٹ شدہ کھانے اور اشیائے خورد نوش ہیں-سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ ملاوٹ کون کرتا ہے؟ تو اِس کا سادہ سا جواب حرص و ہوس کی منفرد غلامی کا شکار فرد سامنے آتا ہے-اِس غلامی کا شکار فرد ہر ناجائز طریقے سے اپنے آقا کی تعمیل میں کمر بستہ رہتا ہے اور اپنے آقا کی جانب سے ’’ھل من مزید‘‘ کے فرمان کا منتظر رہتا ہے-جب معاشرہ بحیثیتِ مجموعی اس مرض میں مبتلا ہوجائے تو نتیجہ کچھ یوں  نکلتا ہے کہ ہم  سب ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار ہے ہوتے ہیں جہاں کچھ بھی خالص نہیں، نا ہی صحت کی ضامن اشیائے خورد نوش خالص ہیں اور نا ہی  بچوں کو بیماری کی حالت میں میسر آنے والی ادویات اور اس تمام صورتحال کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں-

’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ کے مطابق  دنیا بھر میں ہر سال تقریباًدس (۱۰)لاکھ افراد جعلی ادویات کے استعمال کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور اِس خوفناک انجام کا سہرا اس منفرد غلامی کی بھڑکائی ہوئی آگ کو جاتا ہے جس کا شکار اپنے بھی ہیں اور پرائےبھی-لیکن بدقسمتی سے کسی نے بھی اس نقصان کے متعلق سوچا تک نہیں-

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا[5]

طاقتور ممالک کی جانب سے کمزور ممالک پر مسلط کی گئی جنگیں ہوں یا کرۂ ارض پر پھوٹنے والے فسادات،ان تمام مظالم اور قتل و غارت کی داستانوں کی وجہ کہیں پر مال و دولت اور تیل کا حرص ہے تو کہیں جذبہ ٔانتقام ہے-کہیں پر مذہبی منافرت کی بنا پر لاکھوں معصوم مرد، خواتین اور بچے قتل کیے جارہے ہیں تو کہیں پر خود غرضی کے نتیجے میں لاکھوں معصوم افراد سامان اُٹھائے اللہ کی وسیع و عریض زمین پر اپنے لیے پناہ ڈھونڈنے میں ناکام نظر آتے ہیں-ان تمام فسادات کے بنیادی محرکات انسان کا حرص، ہوا،حسد،بے قابو جذبات اور غصہ ہیں-اگر دیکھا جائے تو عہدِ حاضر میں شرق تا غرب اس منفرد غلامی کا عروج ہے-اگر کسی معاشرے کے بکثرت افراد اس کا شکار ہو جائیں تو خوشیاں اور طمانیتیں ان معاشروں میں ایک خواب کے طور پہ بھی معدوم ہو جاتی ہیں-

اگر دیکھا جائے تو رضا اور قناعت کی ضد ’’حرص‘‘، مسلمان بھائی کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کر خوش ہونے کی ضد ’’حسَد‘‘،صبر و تحمل کی ضد ’’غصہ‘‘،کسی کو معاف کر دینے اور صلہ رحمی کی ضد ’’جذبہِ انتقام‘‘ہے-اسی طرح منفرد غلامی کے دیگر تمام اجزائے ترکیبی اعلیٰ انسانی خصوصیات کے عین منافی ہیں جو کہ انسانی سماج میں منفی رویے اور منفی اعمال کا موجب بن رہے ہیں-انسانی سماج کے اندر سب سے قیمتی چیز کسی بھی فرد کی زندگی ہے اور اِس نعمت کی کوئی  قیمت یا کوئی نعم البدل روئے زمین پر موجود نہیں-اس کی اہمیت اور حقیقت اللہ پاک کے اِس فرمان سے واضح ہو جاتی ہے کہ:

’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط ‘‘[6]

’’جس نے اس زمین پرایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اُس نے ساری انسانیت کو قتل کیا،جس نے ایک انسان کو ناحق مرنے سے زندہ کیا گویا اُس نے ساری انسانیت کو زندہ کیا‘‘-

اس روشن اور تابندہ نظریے کے باوجود کرہ ٔ ارض پر آئے روز ہزاروں انسان قتل کیے جاتے ہیں-۲۰۱۲ء میں روزانہ کی بنیاد پرگیارہ سو ستانوے (۱۱۹۷) انسان قتل کیے گئے-اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ کہ اِس انسانیت کو کسی خلائی مخلوق نے آکر قتل نہیں کیا بلکہ اس کا قاتل بھی خود انسان ہی ہے- افسوس!  صد افسوس کہ:

ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انسان نوعِ انسان کا شکاری ہے![7]

اکثروبیشتر  قتل جیسے گھناونے جرم کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہوتے  ہیں اُن میں ذاتی دشمنی، عورت، مال اور جائیداد کے تنازعات شامل ہیں- زمین کے معمولی تنازعات پر ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی جان لے لینا، بیوی کی معمولی اور درگزر کرنے کے لائق غلطیوں پر شوہر کا غصے اور طیش میں آجانا،ساس،نند اور بہو کے مابین ایک دوسرے سے حسد کرنا،خاندان کے معمولی فروعی تنازعات پر صلح جوئی کے پہلو کو نظر انداز کر کے غصہ،بے قابو جذبات اور انتقام لینے پر اترآنا، درحقیقت فرعونی چلن کی منفرد غلامی ہی کے نتائج ہیں-  کاش!ہم لوگ یہ محسوس کر سکیں کہ ہم ایک غیر مرئی اور باطنی غلامی میں مبتلا ہیں- ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہیں-ہمارے فیصلے،ہمارےخیالات،ہمارے اختیارات،ہماری سوچ،ہماری فکر،ہمارے اعضاء ایک خاموش غلامی اختیار کر چکے ہیں-جس میں آقا،حرص ہے تو کبھی آقا حسد ہے-کبھی ہوا اور بے قابو جذبات آقا بن کر قتل، زنا، فساد اور کساد بازی کا بازار گرم کرنے کا حکم چلاتے ہیں تو کبھی غصہ،عقل سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین کر لڑائی جھگڑے اور ظلم ڈھانے کا حکم صادر کرتا ہے-اسی طرح جب بھی انسان حرص،ہوا، حسد اور غصے پر قابو پانے اور اِس کو اپنے تابع کرنے کی بجائے خود اس کے تابع ہوگا تو ویسے ویسے انسان کے اندر سے قناعت،برداشت اور عفو و درگزر کا پہلو ختم ہوتا چلا جائے گا اور یوں اس غیر مرئی آقا کی محکومی کے باعث سماج میں منفی رویے اور منفی اعمال پنپنا شروع ہو جائیں گے-اس غلامی کا اثر زندگی کے مختلف شعبوں کومتاثر کرتا ہے- مثلاًہر اس محقق کی تحقیق ناقابلِ اعتبار ہوجاتی ہے جو اس غلامی کا شکار ہو- مثلاً علم التحقیق کی معروف کتاب ’’Responsible Conduct of Research‘‘ کےآٹھویں باب میں درجنوں ایسے محققین کی مثالیں موجود ہیں جنہوں  نےمحض اپنی خواہش نفس،ظاہری شُہرت  اور اپنا مستقبل سنوارنے  کی غرض سے دنیا کو غلط حقائق بتائے-اس کتاب میں ’’Piltdown Man‘‘  کا من گھڑت قصہ بھی شامل ہے جس کے مطابق ۱۹۰۸ءمیں لندن سے کچھ فاصلے پر واقع’’ Piltdown‘‘ قصبے میں ایک کھوپڑی دریافت ہوئی- کھوپڑی دریافت کرنے والے شخص نے اسے ہزاروں سال قدیم ایک  ایسے مافوق الفطرت  شخص کی کھوپڑی کے طور پر متعارف کرایا جس میں بندر اور انسان دونوں کی برابر خصوصیات پائی جاتی تھیں-چالیس(۴۰) سال بعد اِس حقیقت سے پردہ اُٹھا کہ محقق نے اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے اور اپنے مستقبل اور اپنی شُہرت کو برقرار رکھنے کی غرض سےانسان اور بندر کی دو الگ کھوپڑیوں کے مختلف ٹکڑوں کو کیمیکلز کی مدد سے جوڑ کر ایک مصنوعی کھوپڑی تراشی تھی-نہ صرف تحقیق بلکہ یہ مرض عدالت و منصفی کی غیر جانبداریت کو بھی ختم کردیتا ہےکیونکہ جب بھی حقائق و قوانین (facts or statues) کے تشریح کی بات ہو یا پھر سزا و ہرجانہ(sentence or damages) کے انتخاب کی بات ہو اِن تمام معاملات میں منصف کو صوابدید حاصل ہے-اگر منصف ہی حرص و ہواکی غلامی سے آزاد نہیں تو انصاف کے حصے بکھرے کیسے ہوں گے اِس کی چھوٹی سی تصویر عرض کرتا ہوں- ییل یونیورسٹی (امریکہ) سشل سائنسز میں ایک بڑا مقام رکھتی ہے اُس کے ۲۰۰۹ کے ’’لاءجرنل‘‘  (The Yale Law Journal : 2009) کے مطابق  صرف  امریکہ میں کچھ یوں ہے کہ گزشتہ پانچ (۵)برسوں میں رشوت کی نظر ہونے والے صرف کمسن بچوں کے مقدمات     کی تعداد پانچ ہزار (۵۰۰۰)ہے- یعنی سالانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک ہزار  ’’Juvenile cases‘‘کے فیصلے ذاتی حرص کی بھینٹ چڑھتے رہے-یہ صرف وہ تعداد ہے جو فوجداری اور دیوانی مقدمات کو شامل کیے بغیر پیش کی گئی ہے- نا صرف  امریکہ  بلکہ پوری دنیا کے اکثر عدالتی نظاموں میں رائج اِس منفرد غلامی کے باعث کتنے انسان روزانہ کی بنیاد پر انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں اس کا کوئی شمارنہیں-

جہاں اخلاقِ رذیلہ کی محکومی میں زندگی بسر کرنے والے انسان کے فکری ارتقاء کو اس  منفرد محکومی نے متاثر کیا وہیں اس نے تاریخ میں کئی شاہنشاہوں کے  تخت الٹے اور اُن کی نسلوں کو بھی بے نشان کردیا-انسدادِ غلامی پر کئی عالمی کنونشنز پاس ہونے کے باوجود جسمانی غلامی کا قلع قمع نہ ہونا اس بات کا بین ثبوت ہےکہ انسدادِ غلامی پرپاس کی گئی کنونشنز اپنے مقاصد میں بُری طرح ناکام رہی ہیں-ان کنونشنز کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مظلوم اور پسی ہوئی انسانیت کو غلامی سے نجات دلانے والے اور غلامی کے خلاف بڑی بڑی تنظیموں میں بیٹھے اکثر لوگ خود،حرص، ہوس، حسد، بے قابو جذبات، اجتماعی مفادات کو ذاتی مفادات پر قربان کرنے والی منفرد غلامی کا شکار ہیں- جس کے نتیجے میں آج بھی اکیس (۲۱) ملین افراد غلامی کی سزا بھگت رہے ہیں-

مذہبی فرقہ وارانہ فسادات کی تہہ میں جو عوامل کار فرما ہیں اُن میں انسان کی شدت پسندی،خود پسندی،تنگ نظری، پست افکار،کبروانا، بنامِ مذہب اقتدار پہ قابض ہونے اور مالِ کثیر جمع کرنے کا حرص،ہوس اور  دیگر مکاتبِ فکر سے حسد شامل ہیں-یہ وہ عوامل ہیں جن میں آج کئی مسلمان اور علماء گرفتار ہیں اور اسی غلامی کا شکار ہونے کے باعث شیطان کو یہ اطمینان حاصل ہے کہ اُس کے نظام کو کم از کم ہم مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں-جس کا برملا تخیلاتی اظہارعلامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ) کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں ابلیس یوں پیش کرتا ہے-

جانتا ہوں مَیں یہ اُمّت حاملِ قرآں نہیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

 

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
بے یدبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں[8]

اگر خواہشاتِ نفس کو ترک کرکے آقا پاک(ﷺ)کے اخلاقِ حسنہ کو اپنا لیا جائے توعین ممکن ہے کہ ہم سب  بھی عقائد،عبادات اور معاملات میں اختلافات کے باوجود اپنے اسلاف کی مانند باہمی ادب و احترام سے زندگی گزار سکیں-

امت کے نبض شناس حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال(رحمتہ اللہ علیہ) غلامی کی روش اور ترکِ غلامی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اسرارِ خودی میں ارشاد فرماتے ہیں-

نفس تو مثل شتر خود پرور است
مرد شو آور زمامِ او بکف
ہر کہ بر خود نیست فرمانش رواں

 

خود پرست و خود سوار و خود سر است
تا شوی گوہر اگر باشی خزف
می شود فرماں پذیر از دیگراں
[9]

’’ (اے انسان) تیرا نفس اونٹ کی طرح اپنی پروش میں لگا رہتا ہےساتھ ہی وہ خود پرست ،خود سوار اور سرکش ہے-تو مرد بن اور اس کی باگ سنبھال،تاکہ اگر تو کنکر بھی ہے تو گوہر بن جائے-جو اپنے اوپر حکم نہیں چلاتا،اسے دوسروں کی حکم برداری کرنا پڑتی ہے‘‘-

نہ صرف حضرت علامہ محمد اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)بلکہ ہر عظیم اور بڑے انسان نے نفسانی خواہشات کے تابع ہو کر زندگی گزارنے کی نفی کی ہے-انسان کو چاہیے کہ بندہ ہوا و ہوس بننے کی بجائے اپنے ضمیر کی آواز کو سُنے،لوگوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئے-صبر وتحمل ،شُکر و رضااور عفو  و درگزر کی تلوار سے غلامی کی زنجیریں توڑ کر ایک آزاد اور خود مختار زندگی کا آغاز کرے-کیونکہ دینِ اسلام میں جہاں بھی عفو و درگزر کی تلقین ملتی ہے وہ درحقیقت اسی ناسور غلامی کے خاتمے کےلئے ہے-

اگر انسان دو سانسوں پرمشتمل یہ زندگی مال و زر کے حرص، لوگوں سے حسد، بے قابو جذبات، غصے اور طیش کی محکومی کی نظر کر جاتا ہے تو یاد رکھیں!ایسے محکوم کی میت سے زمین بھی پناہ مانگتی ہے- بقول حضرت علامہ محمد اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)، جب اعلیٰ انسانی اقدار کو ترک کر کے خواہشِ نفس کی محکومی کرنے والے انسان کی میت کو قبر میں اتارا جاتا ہے تو روحِ زمین بِلبلا اُٹھتی ہے اور مُردے سے یوں مخاطب ہوتی ہے:

آہ ظالِم! تو جہاں میں بندۂ محکوم تھا؟
تیری میَّت سے میری تاریکیاں تاریک تر
اَلحَذَر محکوم کی میَّت سے سَو بار اَلحَذَر

 

میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز ناک
تیری میَّت سے زمیں کا پردۂ نامُوس چاک
اے سرافیل! اے خُدائے کائنات! اے جانِ پاک![10]

یعنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرنے والے ایسے انسان کو بندہ آزاد نہیں کہا جا سکتا-اس لئےایسی محکومی جس میں انسان اپنے حرص کے سامنے،اپنے حسد اور غصے کے سامنے، گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے،اِن خواہشات کے سامنے خود کو بے بس غلام محسوس کرے، خدا کو واحد معبود و مسجود ماننے کے باوجود اپنے نفس کی پیروی کرنے کا پابند ہو تو ایسی صورت میں اِس غلامی کا خاتمہ مذہب کے وظائف میں سے ایک اہم وظیفہ تصور ہوتا ہے-

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہُ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا:

’’وہ شخص بڑا پہلوان نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑ دے، بڑا پہلوان تو وہ شخص ہے جو غصے کے وقت خود کو قابو میں رکھے‘‘-[11]

حسد کی غلامی میں مبتلا حاسد شخص سے پناہ مانگنے کی تلقین اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سکھائی   ہے:

’’وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدٍ ‘‘[12]

’’  (اللہ کی پناہ مانگتا ہوں) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ مجھ سے حسد کرے‘‘-

خدا کی چاہت کو نظرانداز کر کے اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چلنے والے شخص کے متعلق اللہ پاک  نےارشاد فرمایا:

’’أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ‘‘[13]

’’ بھلا دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا‘‘-

غصہ نہ کرنے اور معاف کرنے کی ترغیب و تعلیم دیتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ:

’’وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الأُمُورِ‘‘[14]

’’اور جو صبر کرے اور معاف کردے تو یقیناً ضرور یہ ہمت والوں کے کاموں میں سے ہیں‘‘-

نہ صرف قرآن پاک بلکہ تمام الہامی کتابوں نے ایسے رذیلہ اطوار کی نفی کی ہے-

جب طائف والوں نے آپ(ﷺ)پر پتھر برسائے یہاں تک کہ آپ (ﷺ)کے نعلین پاک خونِ مبارک سے بھر گئے، جبرائیل امین آئے اور عرض کی یارسول اللہ(ﷺ) اگر آپ حکم فرمایں تو اِن دو پہاڑوں کو آپس میں ملا کر اہلِ طائف کچل دوں تو آپ(ﷺ)نے اجازت دینے کی بجائے اُن کے حق میں دعا فرمائی-

سلام اُس پر کہ اِسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اُس پر کہ جس نے فضل کے موتی بکھیرے ہیں

 

سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر بُروں کو جس نے فرمایا کہ ’’میرے ہیں‘‘

حضور(ﷺ)کا وجود مبارک تمام جہانوں کے لیے باعثِ رحمت ہے لہٰذا ہم پر بھی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ ہم دیگر لوگوں کے لیے باعثِ رحمت بننے کی کوشش کریں نہ کہ باعثِ زحمت- اگر ہمیں  حضور (ﷺ)سے نسبت کا دعویٰ ہے تو ہمیں بھی،صبر،شُکر، رضا، معاف کرنے، در گزر کرنے اور رحم کرنے جیسے اخلاقِ حسنہ اپنا کر اپنے دعویِٰ نسبت  کو دلیل فراہم کرنی چاہیے-حضور(ﷺ)کے اُسوہ ٔحسنۃ پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک ایسا خوشگوار معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں  ہر گھر میں نوحوں کی بجائے تبسم پھوٹیں  اور ہر فرد ظاہری و باطنی غلامی سے نجات پا کر ایک آزاد زندگی بسر کرے -جہاں اُس کی جبین صرف خدا کے سامنے جھکےاور قلب ادبِ مصطفےٰ   سے لبریز  ہو کر یہ وِرد کرتا رہے:

ہر کجا بینی جھانِ رنگ و بو
یا زِ نُورِِ مصطفیٰؐ اُو را بہاست

 

آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ  است[15]

’’جہاں کہیں تو جہانِ رنگِ بو دیکھتا ہے ایسا جہاں جس کی خاک سےآرزو پھوٹتی ہو یا تو اس کی قدرو قیمت نورِ مصطفےٰ(ﷺ) سے ہے یا وہ ابھی تک مصطفےٰ(ﷺ) کی تلاش میں ہے‘‘-

٭٭٭


[1](سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد)

[2](ترمذی شریف، ابواب  البر والصلۃ)

[3](بانگِ درا)

[4](الاسراء:۷)

[5](بانگِ درا)

[6](المائدہ:۳۲)

[7](بانگِ درا)

[8](ارمغانِ حجاز)

[9](اسرارِ خودی)

[10](ارمغانِ حجاز)

[11](صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ و الآداب)

[12](الفلق:۵)

[13](الجاشیہ:۲۳)

[14](الشوریٰ:۴۳)

[15](جاوید نامہ)

غلامی کی تھیوری میں تین اہم کردار ہیں:

v      غلام (غلامی کرنے والا)

v      آقا (جس کی غلامی کی جائے)  

v     وجہِ غلامی ( وہ وجہ جس کے باعث انسان غلامی میں مبتلا ہے)

آج کہیں پر وجہِ غلامی دنیا و زینتِ دنیا کی طلب ہے تو کہیں وجہِ غلامی جرُم ضعیفی کی سزا ہے- کہیں وجہِ غلامی بد خصلت نفسِ امارہ کی رفاقت ہے تو کہیں وجہِ غلامی خواہشِ نفس کی پیروی ہے-

اپنی نوعیت کے لحاظ سے غلامی کی کئی اقسام ہیں مثلا جسمانی غلامی،جغرافیائی غلامی، ذہنی و فکری غلامی اقتصادی و معاشی غلامی وغیرہ- انسان غلامی سے مختلف خطوں اور مختلف ادوار میں بر سرِ پیکار رہا ہے -مختلف لوگوں کی مختلف مسائل پہ مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے نظر ہوتی ہے اور وہ تاریخِ انسانی کو اپنے اپنے پیرائے میں بیان (Define) کرتے ہیں ، انسانی غلامی پہ تحقیق کرنے والے کئی دانشوروں نے کَہ رکھا ہے کہ ’’انسانی تاریخ انسانی غلامی کی تاریخ ہے‘‘-عمرانیاتی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو شہری زندگی کے آغاز کےساتھ ہی غلامی کا آغاز ہوتا ہے-بعض مؤرخین کے مطابق باضابطہ انسانی غلامی کا آغاز آٹھ سو(۸۰۰) قبل مسیح میں’’میسوپوٹیمیا‘‘ (Mesopotamia) میں ہوا اورپانچ سو(۵۰۰) قبل مسیح میں قدیم یونان پہنچا،جہاں صرف ایتھنز(Athens) میں محض اکیس سو(۲۱۰۰) شہری اورچار(۴) لاکھ کے قریب غلاموں کا تناسب موجود تھا-دو سو(۲۰۰)قبل مسیح میں غلامی کا دور روم اور اٹلی میں شروع ہوا جہاں آبادی کا تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا-قبل ازاں اگر دیکھیں تو غلامی کا عفریت  قدیم مصر میں نظر آتا ہے  جہاں مصری قوانین کے مطابق پوری رعایا فرعون کی غلام تھی-یوں انسانی غلامی کا یہ سفرعرب،عجم اور ہند سے ہوتا ہوا افریقہ اورمغربی ممالک،بالخصوص یورپ کے علاقے ’’اسکنڈے نیویا (Scandinavian) ‘‘ پہنچا جہاں اِس نے ایک منظم مارکیٹ اور تجارت کی صورت اختیار کر لی-

آج بھی اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں تمام انسانوں کو بنیادی آزادی کی ضمانت فراہم ہونے کے باوجود لاکھوں انسان،مختلف خطوں میں غلامی سے دوچار ہیں-غلامی کی جدید اقسام میں جبری مشقت،انسانی سمگلنگ،چائلڈ لیبر،ذہنی و فکری محکومی اور انسانی اعضاء کی فروخت شامل ہیں-یہ غلامی کی وہ اقسام ہیں جن پر عالمی دنیا میں بحث ہوتی ہے- لیکن ایک غلامی اوربھی ہے جسے ہم غلامی نہیں سمجھتے مگر وہ غلامی کی ایک بد ترین قسم ہے اور وہ ہے ’’حرص و ہوس، حسد، بے قابو جذبات، غصے، جذبۂ انتقام اور طیش کی غلامی‘‘-

اِس منفرد غلامی کا  تعلق انسان کے باطن سے ہے-اِس کے آغاز کی تاریخ روزِ الست کے اُس واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے جب اللہ پاک نے دنیا، زینتِ دنیا اور آرائشِ دنیا کو ارواح کے سامنے پیش کیا تو سب سے پہلے شیطان،بد خصلت نفسِ امارہ  کی رفاقت سے دنیا و زینتِ دنیا میں داخل ہوا-جونہی شیطان دنیا میں داخل ہوا اُس نے کئی نعرے  لگائے جنہیں سن کر نو(۹) حصہ ارواح منفرد غلامی کا طوق گلے میں ڈالے شیطان کی طرف بڑھیں اور اُس کے سلسلے میں داخل ہو گئیں- اُن میں سے کچھ نعرے یہ ہیں:

v      حرص کا نعرہ

v      حسد کا نعرہ

v      طمع کا نعرہ

’’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن  ‘‘کے اعداد و شمار کے مطا بق اِس وقت دنیا میں تقریباً اکیس(۲۱)ملین افراد غلام ہیں-یاد رہے کہ اِن اعداد و شمار کا تعلق جسمانی غلامی کے شکار افراد سے ہے-کتنے افراد باطن سے تعلق رکھنے والی منفرد غلامی کا شکار ہیں اس کےاعداد و شمار گمان اور بیان سے باہر ہیں-

جسمانی غلامی،جغرافیائی غلامی،اقتصادی و معاشی غلامی کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہے- اِس کے اثرات،نتائج،حدود و قیود صرف اس فانی دنیا تک ہی محدود ہیں جبکہ ہوس کی غلامی،حسد کی غلامی،بے قابو جذبات کی غلامی، غصے کی غلامی اور حرص کی غلامی کے اثرات اِس فانی دنیا سے آگے بڑھ کر ہمیشہ قائم و دائم رہنے والے جہاں تک ہیں- جس کے متعلق سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرہٗ)فرماتے ہیں کہ:

’’تمہارا حرص تمہیں یہاں بھی خوار کرے گا اور آخرت میں بھی خوار کرے گا‘‘ -

یعنی حرص، ہوس اور حسد کی ماہیت لامحدود ہے اِس لیے ان کا کسی مقام پر سیر ہونا ناممکن ہے جس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے آقاپاک(ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’اگر کسی (حریص) شخص کی مال سے بھری ہوئی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ چاہے گا کہ ایک تیسری بھی ہواور اُس کے نفس (کی خواہش) کو (قبر کی مٹی) ہی بھر سکتی ہےاور اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے جس نے (اِس حرص) سے توبہ کر لی‘‘-[1] 

یہ منفرد غلامی ایک صفت کے طور پہ ہر درندے کو ودیعت کی جاتی ہے-انسان اور درندے کے درمیان فرق اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہوتا ہے - یہ غلامی افکار و خیالات کو برائی، بدی اور شَر سے مُنسلک رکھتی ہے-اس لیے زندگی میں کسی بھی راستے کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیےکہ جب انسان ایک بار کسی راستے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر اُس پر چل پڑتا ہےتو باقی ماندہ زندگی وہ اُسی راستے کے مطابق  فکر اور عمل کرتے گزارتاہے، خواہ وہ راستہ درست ہو یا غلط-اگر وہ راستہ درست ہے اور اُس نے زندگی اخلاقِ حسنہ کے راستے پر چل کر گزارنے کا انتخاب کیا ہے تو وہ جب بھی صلہ رحمی،شفقت،محبت،ادب،احترام، بھائی چارہ اور عفودرگزر جیسے خوبصورت پہلوؤں کے متعلق فکر کرے گا اور اُنہیں اپنی زندگی میں اختیار کرے گا  تو نتیجتاََ اُس کے اندر ذہنی اطمینان،شگفتگی اور امن پیدا ہوگا وہ خود کو ہلکا محسوس کرے گا جیسے اُس کے اوپر سے کوئی بوجھ سا اُتر گیا ہو-

جیسا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے کہ :

’’تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘-[2]

 یعنی تم خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ شفقت، محبت اور رحم سے پیش آنا شروع کر دو آسمان والا (ربِ ذولجلال) تمہارے اوپر اپنی شفقت، محبت نچھاور کرے گا-پھربھلا اُس شخص سے زیادہ خوش نصیب اور خوش و خرم زندگی گزارنے والا اور کون ہو سکتا ہے جس پر کائنات کا مالک رحم اور شفقت فرماتا ہو-