مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کا حالیہ بحران اور یورپی نوآبادیات

مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کا حالیہ بحران اور یورپی نوآبادیات

مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کا حالیہ بحران اور یورپی نوآبادیات

مصنف: دی مسلم ڈیبیٹ دسمبر 2014

مسلم انسٹیٹیوٹ ایک غیر سرکاری و غیر سیاسی تحقیقی ’’تھنک ٹینک‘‘ ہے جس کا مقصد آزادانہ تجزیہ و تحقیق کے ذریعے اسلامی دُنیا کو درپیش مختلف الانواع مسائل کی نشاندہی کرنا اور پالیسی سازوں کو اِس سلسلہ میں نئے اور ٹھوس آئیدیاز و تجاویز فراہم کرنا ہے - اِن عظیم مقاصد کے حصول کیلئے مسلم انسٹیٹیوٹ مختلف نوعیت کے پراجیکٹ / منصوبہ جات تشکیل دیتا ہے جس میں انٹرنیشنل لیول کا ایک اہم پراجیکٹ آن لائن ڈیبیٹ فورم ’’دی مسلم ڈیبیٹ ہے - دی مسلم ڈیبیٹ کو اِستدلال، سوچ کی آزادی، عقلی دلائل، حقائق اور سائنسی طرزِ فکر پر ترتیب دیا گیا ہے- ایسی فکر جسے صدیوں تک اپنے عروج کے وقت اِسلامی تہذیب نے اپنائے رکھا- یہ ایک ایساپلیٹ فارم مہیا کر رہی ہے جہاں اِسلامی حدود کے اندر آزاد سوچ کے ساتھ مُسلم دُنیا کو در پیش مسائل کے حل کیلئے حکمتِ عملی ترتیب دی جا سکے - یہ مباحثہ تحقیق کیلئے کثیر الجہتی نقطۂ نظر اور سائنسی طرز کے ساتھ آگے بڑھے گا تا کہ مسلمانوں میں مفکرانہ طریق کو پروان چڑھایا جائے-یہ مباحثہ عقلی اور سائنسی ترقی، جدیددُنیا کے تقاضوںاور چیلینجز کو سامنے رکھتے ہوئے مُسلم دُنیا کے قدرتی اور معاشرتی سائنسز، کلچر اور تہذیب میں منفرد اور نمایاں خِدمات سر انجام دینے کیلئے اپنا کردار ادا کرے گا- اس سلسلے میں دانشور ، پروفیسرز، تجزیہ نگاروں اور دیگر ماہرین کو دلائل اور مباحثہ کے ساتھ مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کیلئے شامل کیا جائے گا -

مُسلم ڈیبیٹ فورم کو مشہور ’’آکسفورڈ ڈیبیٹ فارمولا‘‘ کی طرز پرترتیب دیا گیا ہے جسے دُنیا میں سالہا سال سے سربراہانِ ریاست، دانشور طبقہ اور معروف اسکالرز کی جانب سے اپنایا گیا ہے- یہ مباحثہ ایک خاص موضوع کو سوالیہ انداز میں سامنے رکھ کر تشکیل دیا جاتا ہے جس کے خلاف اور اس کے حق میں دلائل دیئے جاتے ہیں اور اس سارے عمل کو ایک ماڈریٹر/ اینکر چلاتا ہے- بیان کے حق اور اس کے خلاف اُس خاص موضوع کا ایک ایک ماہر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے- اس دوران اس موضوع کے ماہرین یا اس سے متعلقہ شخصیّات کو بطورِ مہمان بھی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ کسی کی طرف داری کئے بغیر اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرے- شروع سے آخر تک قارئین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ بھی اپنی رائے کا اظہار کریں اور دونوں اطراف میں سے کسی کے حق میں ووٹ ڈالیں-ووٹنگ کے نظام میں یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ قارئین جب چاہیں اپنا ووٹ تبدیل کر سکتے ہیں- مزید برآں قارئین مباحثہ کے متعلق اپنا تبصرہ اور دلائل ماڈریٹر کو بھجوا سکتے ہیں جو اُن میں سے منتخب دلائل کو ڈیبیٹ کا حصہ بنا تا ہے- دُنیا بھر سے کوئی بھی شخص اس آن لائین ڈیبیٹ کا حصہ بن سکتا ہے-

"دی مسلم ڈیبیٹ"کی مشرقِ وسطیٰ اور شُمالی اَفریقہ کے حالیہ بحران پر آن لائن ڈیبیٹ اختتام پذیر ہوگئی جسکا مو ضوع تھا " کیا مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے حالیہ بحران کی جڑیں یورپین نو آبادیاتی میںہیں ؟ "- یہ آن لائن ڈیبیٹ ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۴ سے ۹ نومبر ۲۰۱۴ تک جاری رہی-اس موضوع کے حق میں دلائل ڈاکٹرمارک این کیٹز (پروفیسر گورننس اور سیاسیات ، جارج میسن یونیورسٹی، امریکہ) نے دیئے اور اس کی مخالفت میں دلائل تارک فتح نے دیئے، جوکہ دی سن کینیڈا کے مصنف ، براڈکاسٹر اور کالم نگار ہیں- شام اور سعودی عرب کیلئے سابق امریکی سفیر رچرڈ ڈبلیو مرفی اور ٹائمز بک آف دی ایئر "لوزنگ سمال وارز"کے مصنف، فرینک لیڈوج نے بطور مہمان حصہ لیا- ڈیبیٹ کے ماڈیریٹر ڈاکٹر اقبال حسین تھے- ڈیبیٹ میں 80 سے زائد ممالک کے لوگوں نے اپنے ووٹ اور رائے کے ذریعے ڈیبیٹ میں شرکت کی-

مُباحثہ کا ابتدائی حصہ:

ڈاکٹراقبال حسین نے ڈیبیٹ کا آغاز مشرقِ وسطیٰ اورشمالی افریقہ کے حا لیہ بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ کس طرح عرب ممالک میں ۲۰۱۱ء کے حکومت مخالف مظاہروں نے اس خطے کو خانہ جنگی سے دوچار کردیا ہے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں معصوم جانیں ضائع ہوچکی ہیں- انہوں نے اس حالیہ بحران پر چند سوالات مقررین کو بھیجے اور ان کا جواب دلائل کے ساتھ دینے کو کہا-

ڈاکٹر مارک کیٹز نے اس موضوع کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس حالیہ بحران کی وجہ یورپین نو آبادیاتی نظام اور اس میں ہونے والی سرحدوں کی تقسیم تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ سرحدوں کی تقسیم یورپی صوابدید کی بنیاد پر ہوئی-اس کی وجہ سے آزادی کے بعد بہت سے بڑے گروہوں مثلاً کرد، بربر اور سوڈان کے افریقی گروہوں کی اقلیتی حیثیت سے نسل کشی ہوئی ہے۔ اس پر مزید بحث کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ کس طرح یورپی نوآبادیاتی نظام نے اس خطے کی جمہوری اقدار کو شدید نقصان پہنچایا ہے- یورپی طاقتوں نے سرحدوں کی غلط تقسیم کی اور اقلیتی گروپوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا جس نے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں-

دوسری طرف اس کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے تارک فتح نے اس دلیل کو کو یکسر رد کردیاکہ یورپی طاقتیں اس حالیہ بحران کی ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے اپنے دلائل کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ اسلامک سٹیٹ ، لیبیا، سوڈان، صومالیہ، دارفر اور مغربی صحارا، اور فلسطین اور اسرائیل کا معاملہ۔ پہلے حصے میں تاریخِ اسلام اور عصرِ حاضر کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے یہ اختلافات ، یورپ کے مشرقِ وسطیٰ آنے سے پہلے کے ہیں۔ دوسرے حصے میں سوڈان کے ۲۰۰۳ء-۲۰۰۵ء کے قتلِ عام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے اس آپس کے قتلِ عام میں کوئی یورپی طاقت ملوث نہ تھی۔ آخری حصے میں فلسطین اوراسرائیل کے مسئلے کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان ممالک کے سربراہوں نے اس کے حل کے کئی مواقع ضائع کئے ہیں خصوصی طورپر ۱۹۱۹ء کا فیصل ویزمن معاہدہ، ۱۹۳۷ء کا پیل کمیشن اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ۱۹۴۷ء کا تقسیم کا فارمولہ-

سابق امریکی سفیررچرڈ ڈبلیو مرفی نے بطورمہمان اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فقط یورپی نو آبادیاتی نظام کو اس حالیہ بحران کا ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ پرانے مسائل اب بھی موجود ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ طاقتورنے اپنی عسکری اور معاشی طاقت کے بل بوتے پر کمزور کو دبایا ہے-خطے کے حالیہ بحران اور سرحدوں کومٹانے کی کاوشوں کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ عرب ممالک میں یورپی نو آبادیات کی باقیات کو ختم کرنے کی آخری کو شش ہے۔ اپنے اختتامی تاثرات میں انہوںنے کہا کہ حالیہ بحران میں کچھ حصہ یورپین طاقتوں کا بھی ہے ۔یہ دعویٰ درست ہوسکتا ہے کہ اِس بُحران کو نوآبادیات اور قومیت پرستی نے تاریخی جدت بخشی لیکن طاقت کو ہاتھ میں رکھ کر جمہوریت کو قید کرنے کی بات زیادہ سچ معلوم ہوتی ہے-

مُباحثہ کا درمیانی حصہ:

جوابی حصہ کا آغاز کرتے ہوئے  ڈاکٹر اقبال حسین نے "رییچور" اخبارکی اس دن کی بغداد میں خودکش دھماکوں کے حوالہ سے شہ سرخی کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اس مسئلے کی شدت اور بحرانی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے- اس کے بعد انہوں نے ڈیبیٹرز اورمہمان مقرر کی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا-

ڈاکٹر مارک کیٹز نے اپنے جوابی حصے میں یورپی طاقتوں کی غلطیوں اور مخالف مقرر کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیا۔ انہوں نے تارک فتح کے دلائل پر اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا کہ یورپی طاقتوں کو اقتدار کی منتقلی کے وقت ان اقلیتو ں کو بھی ریاست کا حصہ دینا چاہئے تھا، جن کا حق آج کسی حد تک تسلیم کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کردوں کی لیونٹ میں مقامی حکومت، افریقہ میںدارفر اور جنوبی سوڈان، شمالی افریقہ میں مراکش اور موریشیئس کا حوالہ پیش کیا- اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کا ذکر کیا جوکہ بیسویں صدی کے آغاز میں یورپی طاقتوں کی اپنی کمزور ہوتی ریاستوں کی وجہ سے پیش آیا-۱۹۳۷ء کے پیل کمیشن کی سفارشات پر برطانیہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ ڈاکٹر مارک کیٹز کے دلائل کا مرکزی نقطہ مشرقِ وُسطیٰ اور شُمالی افریقہ کے نقشوں کے بنانے میں بے ضابتگیوں اور بد نیّتیوں کے گرد گھومتا رہا-

اس کا جواب دیتے ہوئے تارک فتح نے کہا کہ یورپی طاقتوں کی بنائی ہوئی سرحدوں پر کسی عرب ریاست نے اپنے ہمسایہ ملک سے تنازعہ کھڑا نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ جو سیدھی سرحد یمن اور اومان کی ہے، مصر اور لیبیا کی ہے، مراکش اور الجیریا کی ہے،ان پر کوئی تنازعہ کھڑا نہیں ہوا حتیٰ کہ ایران اور شام میں بھی کبھی کوئی سرحدی تنازعہ نہیں کھڑا ہوا جبکہ دوسری طرف پاکستان اور بھارت میں کشمیر کا سرحدی تنازعہ پہلے دن سے چلا آرہا ہے۔انہوں نے اس بات کو ردکردیا کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جمہوریت نہ ہونے کی ذمہ دار یورپی طاقتیں ہیں - اس کے لئے انہوں نے بھارت کی مثا ل پیش کی - انہوں نے کہا کہ اِن ممالک میں جمہوریت کا نہ آنا نوآبادیاتی خرابی سے زیادہ ’’رولنگ ایلیٹ‘‘ کا مسئلہ ہے اور خطے میں پھیلی تباہی ’’رولنگ ایلیٹ‘‘ کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے -

بعد ازاں ڈیبیٹ کے جوابی حصہ میں برطانوی مصنف فرینک لیڈویج نے بطور مہمان اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر مارک کیٹز کے دلائل کی تصدیق کی اور سایکس پیکو (Sykes-Picot)معا ہدے اور اعلانِ بیلفور(Balfour Declaration) کا ذکر کیا۔ تاہم انہوں نے کسی حد تک مخالف مقرر کی اس دلیل سے اتفاق کیا کہ اس حالیہ بحران کی وجوہات مو جودہ وقت میں بھی ہیں-انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مغربی پالیسی سازوں کو عصرِ حاضر میںاس خطے میں اپنی عسکری اور سفارتی مداخلت کا جائزہ لینا چاہئے-ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہمیں کس نکتہء نظر سے دیکھتے ہیں- فرینک لیڈویج کا کہنا تھا کہ ہمیں حا لیہ عراق جنگ سے سبق سیکھنا چاہئے، جس میں سچائی یہ ہے کہ ہم یہ بھول گئے کہ عراقی ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں-

مُباحثہ کا اختتامی حصہ:

ڈیبیٹ کے اختتام پر ڈاکٹر اقبال حسین نے مقرین کے درمیان اختلاف ِ رائے پر روشنی ڈالی اور ڈیبیٹ کی ویب سائٹ پہ سوال کے حق اور مخالفت میں اس وقت کی ووٹنگ کی صورتحال پرگفتگو کی، جن میں صرف ۹ فیصد کا فرق باقی رہ گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مجموعی طور پر مقررین اور مہمانوں کے دلائل کا احاطہ کیا-

اپنے اختتامی دلائل میں ڈاکٹر کیٹز نے تارک فتح کے دو بیانات کو چیلنج کیا- ایک یہ کہ کسی عرب ملک نے اپنے ہمسایہ ملک سے سرحد پر تنازعہ نہیں کیا اور دوسرا یہ کہ امریکہ اور یورپی ممالک نے برطانیہ کی سرحدی تقسیم پر اس کی حمایت کی، انہوں نے کہا کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ انہوں نے ان دونوں کیلئے تاریخی حوالہ پیش کیااور پہلی بات کے جواب میں کہا کہ سعودی عرب اور قطر، اومان، کویت اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سرحد پر تنازعہ ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ۱۹۷۰ء کے لیبیا اور چاڈکے تنازعہ کا حوالہ بھی دیا۔ تارک فتح کی دوسری بات کے جواب میں ڈاکٹر مارک کیٹز نے کہا کہ جب ۱۹۹۰ء میں صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تو ، لبنا ن اور یمن نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اس کے علاوہ مسٹر فتح کا یہ کہنا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت نہ ہونے کی ذمہ دار یورپین طاقتیں نہیں،کو بھی انہوں نے غلط بیان قراردیا- جہاں تک بھارت کی بات ہے وہ ایک بڑی جمہوریت ہے ، لیکن وہاں سکھ آج بھی الگ وطن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اسی طرح کشمیر کے مسلمان بھی اپنا حقِ خود ارادیت مانگ رہے ہیں -یہ مسائل حل کرنے میں بھارتی جمہوریت ناکام رہی ہے اور یہ مسائل برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح عرب ممالک میں بھی جمہوریت کی مخدوش حالت یورپی نوآبادیاتی کی وجہ سے ہے-

تارک فتح نے اپنے اختتامی دلائل کا آغاز پاکستان اور بھارت کے درمیان واہگہ بارڈر پر ہوئے حالیہ ہولناک خودکش دھماکے سے کیا جس میں ۵۰ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور بہت سے افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ۲۰ اکتوبر کو کینیڈا میں ہونے والی دہشت گردی کا ذکر کیا جس میں دو فوجی مارے گئے، انہوں نے بتایا کہ کس طرح دو کینیڈی دہشت گرد بے رحم دہشت گرد نیٹ ورک میں شامل ہوئے۔ ان دو اقعات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ دونوںواقعات دنیا کے دو مختلف علاقوںمیں رُونما ہوئے ہیں لیکن یہ بہت حد تک واضح ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے حالیہ بحران کا سو سال پہلے رونما ہوئے واقعات سے کوئی تعلق نہیں - اپنی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے انیسویں اور بیسویں صدی کے یورپین راج نے مشرقِ وسطیٰ میں بادشاہت میں جدت لائی ہو لیکن یہ دو سفید فام کیوبک نوجوانوں کے اپنے ہی ملک کے خلاف دہشت گردانہ اقدام اور دہشت گردوں کے ہاتھوںاپنے ہی ۵۰ پاکستانی بھائیوں کے قتل کی وجہ نہیں ہے- آخر میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حالیہ بحران کی وجہ عرب ممالک خود ہیں اور مسلمانوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے-

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) آغا عُمر فاروق نے ڈیبیٹ کے حق میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہـ تاریخی، قبائلی اور نسلی تنازعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھیں تو تنازعات کی شدت کی جڑیں نوآبادیاتی طاقتوں کی پالیسیوں اور ان کے مفادات سے وابستہ ہیں- تنازعات کی ترتیب کو بنیادی طور پر تین عناصر نے تبدیل کیا ہے، پہلا: تیل اور گیس، دوسرا: جغرافیائی و اقتصادی حالات، تیسرا: مذہبِ ابراہیمؑ کے پیروکاروں کے مابین مقابلہ۔ ان تین عناصر نے نو آبادیاتی طاقتوں کے مفادات، خواہشات اور پالیسیوں کو مرتب کرنے میں کردار ادا کیا-

ڈیبیٹ میں عام لوگوں کا اظہارِ خیال:

ڈیبیٹ میں دنیا بھر کے مختلف ممالک کے لوگوں نے اظہارِ خیال کیا جس میں سے چند منتخب کئے گئے ہیں۔ ڈیبیٹ کے ابتدائی ایام میںافشاں فہیم نے ڈاکٹر مارک کیٹز کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سامراجی طاقتیں ہمیشہ سے مداخلت کرتی رہی ہیں اور صوابدیدی بنیادوں پرانہوں نے تقسیم کی ۔ انہوں نے مصر کے نوآبادی دور کا تاریخی حوالہ پیش کیاکہ کس طرح فرانس، عثمانوی خلافت اور پھر برطانوی حکومتوں نے مصر پر حکومت کی۔ اگرچہ مختلف نکتہء نظر سے مگر مارک پارسن نے بھی انہی خیا لات سے اتفاق کیا- ان کے خیال میں دنیا کا وجود ریاست کے قومی نظریے پر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ ، تیسری دنیا کے ممالک جیسے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ابھی بھی نظریے میں فرق تہذیب اور مذہب کے نام پر کرتے ہیں۔ اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے مشرقِ وسطیٰ پر عثمانوی دور حکومت کا حوالہ دیا، جس میں لوگوں میں زیادہ مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی تھی تا کہ وہ دین کو پھیلا سکیں ۔ لیکن یہ سب یورپی نو آبادیات کے دوران بدل گیا اور ہمیشہ کے لئے مشرقِ وسطیٰ میں اندرونی و بیرونی نفرتوں کا بیج بو دیا گیا-

بیزمین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بحران کی مکمل ذمہ داری یورپی نو آبادیات پر ڈالنا اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔  یورپی نو آبادیات نے صرف مسلمانوں کے ہاں صاحبِ بصیرت قیادت کے فقدان کی وجہ سے فائدہ اٹھایا-

آئن ٹیموتھی نے کہا کہـ ـیورپی نو آبادیاتی نظام نے سرمایہ دارانہ نظام کیلئے ایک عمل انگیز کا کردار ادا کیا جسے کمزور قوموں پر ظالمانہ طاقت، دھوکہ دہی اور تجارتی معاہدوں کے ذریعے نافذ کیا گیا-سلطنت عثمانیہ کو چھوٹی چھوٹی معمولی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے بعد مغرب نے ایک صدی سے زائد عرصہ سے جابرانہ حکمرانوں کو سپورٹ کیا ہے جنہوں نے مسلمانوں کے اسلام کو زندگی کا نظم و نسق کے طور پر اپنانے اور حقیقی طور پر آزاد ہونے میں رکاوٹ کا کام کیا ہے-

عبداللہ شاہنواز نے جمہوریت کیلئے سابق نو آبادیاتی طاقتوں کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نوآبادیات کو اس وقت تک ختم نہیں کیا گیا تھا جب تک کہ جابر طاقتوں کو یہ یقین نہیں ہو گیا تھا کہ انہوں نے ایسے ادارے اور شخصیات اہم پوزیشنز پر موجودکر لئے ہیں جو ان کے ایجنڈا کو لے کر چلتے رہیں گے - کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں جو کسی عادل حکمران کا مغربی لابی کی منظوری کے بغیر تقرر کر سکے-

منظور احمد خان نے مسلمانوں کے مابین تقسیم کے متعلق بہت سے سوالات اٹھاتے ہوئے مثالیں پیش کیں جہاں مسلمانوں کے مابین تقسیم کو نوآبادیاتی طا قتوں نے سپورٹ کیا- انہوں نے مسلمانوں کی بد عنوان ’’رولنگ ایلیٹ‘‘ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ نوآبادیاتی طاقتوں نے مسلمانوں کو تقسیم کیا اور پراکسی کے ذریعے حکومت کی-

اسکے علاوہ ابُو طاہر الحقیقی ، عدنان حنیف اور میاں عا طف نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ ان سب کے خیال میں یورپین نوآبادیاتی نظام ہی حالیہ بحران کا ذمہ دار ہے ، لیکن اس خطہ کے آج کے حکمران بھی اس کے ذمہ دار ہیں ۔ ابو طاہر الحقیقی نے اپنے طویل مگر دلچسپ دلائل میں کہا کہ اس سب میں ہمیں ان خود غرض مسلمان حکمرانوں کو نہیں بھولنا چاہئے جو اپنے چھوٹے مفاد کی خاطر پوری اُمتِ مسلمہ کو نقصان پہنچاتے ہیں- عدنان حنیف نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے حا لیہ بحران کے ذمہ دار گلف اور ایران کے فرقہ پرست طبقات بھی ہیں-

ڈیبیٹ کا نتیجہ:

 بیس دنوں کی سیر حاصل گفتگو کے بعد ماڈیریٹر نے ڈیبیٹ کے نتائج کا اعلان کیاجوکہ ۴۹ فیصد اس کے حق میں اور ۵۱ فیصد اس کے مخالف رہا-اس ڈیبیٹ نے ووٹنگ میں پہلے دن سے لیکر آخری لمحات تک بہت سے اتار چڑھا ئو دیکھے-ابتدائی ایام میں ڈیبیٹ کے حق میں ووٹ کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا مگر پانچویں روز کے بعد سے مخالفت میں ووٹوں میں تیزی سے اضافہ ہوا- ڈیبیٹ کے اختتامی حصہ میں ایک مرتبہ پھر ڈیبیٹ کے حق میں ووٹوں میں اضافہ ہوا اور نتائج کے اعلان سے ایک روز قبل تک ڈیبیٹ کے حق میں ووٹوں کی شرح ۵۲ فیصد تک جا پہنچی مگر آخری روز نتیجہ کے وقت ڈیبیٹ کے مخالفت میں ووٹ ۵۱ فیصد پر پہنچ گئے-  اسی لیے اہم ۴۹ فیصد لوگوں اور ڈاکٹر مارک کیٹز کے دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں حالیہ بحران کا ذمہ دار یورپی نو آبادیاتی نظام ہے-دونوں طرف کے مقررین کی مکمل گفتگو اور مہمانوں کے اظہارِ خیال پڑھنے کے لئے  www.themuslimdebate.com وزٹ کریں-

٭٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر