حضرت سلطان باھوؒ کی شاہکار تصنیف

حضرت سلطان باھوؒ کی شاہکار تصنیف

حضرت سلطان باھوؒ کی شاہکار تصنیف

مصنف: لئیق احمد اپریل 2018

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) 1039ھ  میں شورکوٹ میں پیدا ہوئے-آپؒ کے والد حضرت محمد بازید (قدس اللہ سرہ) ایک صالح حافظ قرآن اور فقیہ شخص تھے جو مغلیہ دَور میں قلعہ شور کوٹ جھنگ کے قلعہ دار تھے-ان کی اہلیہ بی بی راستیؒ اولیائے کاملین میں سے تھیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا تعلق قطب شاہی اعوان (علوی) قبیلے سے ہے جو 31واسطوں سے سیّدنا حضرت علی(رضی اللہ عنہ)سے جا ملتا ہے-آپؒ کی والدہ ماجدہ کو الہامی طور پر بتا دیا گیا تھا کہ عنقریب آپؒ کے بطن سے ایک ولی کامل پیدا ہوگا اس کا نام ’’باھُو‘‘ رکھنا-چنانچہ مائی صاحبہ نے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا نام باھُو ہی رکھا-

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) کے حالاتِ زندگی پر لکھی گئی تصنیف ’’مناقب سلطانی‘‘اور دیگر سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے نورِ ہدایت عامۃ الناس میں مروّج فرمانے کے لیے کم و بیش 140کتب تصنیف فرمائیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی جملہ تصانیف طالبانِ مولیٰ کے لیے ایک کسوٹی ہے جو طالبانِ مولیٰ کی ہر مقام پر رہنمائی فرماتی ہیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصانیف میں جہاں طالبانِ مولیٰ کو شریعت مطہرہ پر چلنے کی سختی سے تلقین فرماتے ہیں وہیں طالبانِ مولیٰ کو راہِ تصوّف میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ بھی فرماتے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف میں تصوّف کے مسائل کو فلسفیانہ رنگ میں پیش کیا ہے لیکن آپؒ کی تمام تصانیف کا خاصہ یہ ہے کہ آپؒ اپنی ہر بات کی دلیل قرآن و سنت سے پیش فرمائی- جیسا کہ سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصانیف کے متعلق خود فارسی اشعار میں فرماتے ہیں:

ہیچ تالیفی نہ در تصنیف ما
ہر سخن تصنیف ما را از خدا
علم از قرآن گرفتم و ز حدیث
ہر کہ منکرمی شود اہل از خبیث

’’ہماری تصانیف میں کوئی تالیف نہیں ہیں ہماری تصانیف کا ہر سخن الہام خداوندی ہے-میں نے ہر علم قرآن و حدیث سے پایا ہے- لہٰذا میری تحریر کا انکار کرنے والا قرآن و حدیث کا منکر ہے اس لیے وہ پکا خبیث ہے‘‘[1]-

منقول و مشہور روایت کے مطابق آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی 140تصانیف ہمارے لیے بیش بہا یادگار ہیں مگر اس وقت آپؒ کی صرف 31کتب دستیاب ہیں جن میں سے ایک لہندی زبان میں (جس سے پنجابی، سرائیگی اور ہند کو الگ ہوئی ہیں) اور 30فارسی زبان کی کتب میں موجود ہیں- اس وقت جو کتب دستیاب ہیں ان کے نام یہ ہیں:

’’1-ابیات باھوؒ (لہندی زبان)، 2-دیوانِ باہوؒ، 3-تیغ برہنہ، 4-گنج الاسرار، 5-کلید التوحید(کلاں)، 6-محبت الاسرار، 7-مجالسۃ النبی (ﷺ)، 8-اورنگ شاہی، 9-رسالہ روحی، 10-امیر الکونین، 11-محک الفقرخورد،  12-محک الفقر (کلاں)، 13-کشف الاسرار،  14-حجت الاسرار، 15-فضل اللقاء، 16-توفیق الہدایت، 17-طرفۃ العین، 18-نور الہدی (کلاں)، 19-کلید جنت، 20-جامع الاسرار، 21-محکم الفقراء، 22-مفتاح العارفین، 33-اسرار القادری، 24-عین الفقر، 25-عقلِ بیدار، 26-قرب دیدار، 27-نور الہدی (خورد)، 28-شمس العارفین، 29-دیدار بخش، 30-سلطان الوہم، 31-عین العارفین‘‘

عین الفقر شریف کی عظمت و اہمیت:

عین الفقر شریف حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرہ) کی کتب میں سب سے زیادہ قیمتی اور معروف کتاب ہے جو کہ طالبانِ مولیٰ کے نزدیک حق نما کے نام سے پہچانی جاتی ہے-اس تصنیفِ لطیف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر سیّد احمد سعید ہمدانی لکھتے ہیں:

’’عین الفقر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خانوادہ سلطان باھوؒ کے صاحبزادگان کو یہ کتاب درسی انداز میں پڑھانے کا اہتمام کیا جاتا تھا گویا یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اسے اگر پڑھ لیا جائے تو سلطان باھوؒ کے فقر و تصوّف کو سمجھنے کی کچھ اہلیت پیدا ہوجاتی ہے اور دوسری تصنیف نور الہدیٰ بھی پڑھ لی جاتی تھی تو سمجھ لیا جاتا تھا کہ اب طالب خودبخود سلطان العارفینؒ کی دیگر تصانیف پڑھ سکتا ہے اور آپؒ کی تعلیمات کو سمجھ سکتا ہے‘‘-[2]

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی یہ تصنیف علماء، صلحاء اور راہِ تصوّف کے سالکین کے لیے مرشد کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے اسی تصنیف لطیف میں تصوّف کے دقیق ترین نکات کو ایسے دلکش آسان اور مختصر انداز میں قلم بند فرمایا ہے کہ گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہو-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی اس تصنیف کے مطالعے سے پُر کیف لطف و سرور اور اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے اور تعجب خیز حقائق اور معارف کا انکشاف ہوتا ہے-

عین الفقر نثر اور نظم کا حسین امتزاج ہے، مجموعی طور پہ کتاب نثر میں ہے لیکن کوئی صفحہ ایسا نہیں جِسے حضرت سُلطان العارفین نے اپنے ذوقِ شعر سے مزین نہ کیا ہو، جابجا آپ کے اشعار مثنوی کے انداز میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں بعض رباعیات ہیں بعض قطعات ہیں اور ایک ترانہ بھی شامل ہے جسے آپؒ نے ’’ترانۂ عشق‘‘ کا خطاب دیا ہے-آپ کے اپنے اشعار کے علاوہ کہیں کہیں دیگر صوفیا کرام کے اشعار بھی اِس میں ملتے ہیں-اشعار کے ساتھ ساتھ اس کتاب کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس پہ آیتِ قرآنی، حدیثِ قُدسی، حدیثِ نبوی (ﷺ) یا صوفیائے کرام کے عربی اقوال درج نہ ہوں-کتاب کا اسلوب انتہائی پرکشش اور نکات آفرین ہے-اِس کتاب میں صُوفیانہ اطلاعات، عارفانہ تجلیات، مُقربانہ مُشاہدات، متصوفانہ اصطلاحات، عاشقانہ ترجیحات، حکیمانہ نکات، عالمانہ تشریحات، مفسرانہ تاویلات، عابدانہ عبادات اور زاہدانہ تسبیحات کے موتیوں کو محققانہ نگارشات اور فلسفیانہ خیالات کے دھاگے میں اِس خُوبی و خُوبصورتی اور عُمدگی و مہارت سے پرویا گیا ہے کہ ہر عہد و زمان کا طالبِ مولیٰ اِس کی تلقین و ارشادات سے بہرہ وَر ہوتا رہے گا-جہاں اِس کتاب میں طریقت کے عمومی و خاص مسائل پہ بھر پور راہنمائی ملتی ہے وہیں سلُوکِ قادریہ کی جامع ترتیب سے بھی آگاہی ملتی ہے-

عین الفقر شریف کی تصنیف کے وقت ہندوستان کے سیاسی و مذہبی حالات

’’آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی ولادت باسعادت سے قبل الحاد کا وہ بیج جو جلال الدین اکبر نے وحدتِ ادیان کے نام پر ہندوستان کی سر زمین پر کاشت کیا تھا اور جس کے عزائم کو ناکام اس وقت کے عظیم صوفی حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے اپنی روحانی و عِلمی قوت سے فرمایا تھا وہی الحاد ایک دفعہ پھر اکبر بادشاہ کے پڑ پوتے دارالشکوہ کی صورت میں سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) کے دَور میں ظاہر ہوا-دارالشکوہ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)کا ہم مشرب ہم مسلک و ہم طریقہ تھا لیکن اس کے باوجود سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)نے اکبر و دارالشکوہ کی ’’شرکت میانۂ حق و باطل‘‘کو رد کرتے ہوئے دین کے دفاع اور اس شراکتِ ادیان کے الحاد کی بیخ کنی کے لیے دارالشکوہ کے مقابل اورنگ زیب عالمگیر کا ساتھ دیا جو دین و شریعت کے حوالے سے متعصبین کے بقول سخت گیریت کا نمائندہ جبکہ اہلِ حق کے نزدیک استقامت کا پیکر تھا اور سلطنت میں شریعت ِ اسلامی کے نفاذ پر یقین رکھتا تھا-آپؒ نے اورنگ زیب عالمگیرؒ کیلئے ایک مستقل رسالہ اورنگ شاہی تصنیف فرمایا اور اپنی متعدد تصانیف میں اورنگ زیب عالمگیر کا ذکر امیر المومنین کے طور پر کیا تاکہ عوامی سطح پر اورنگ زیب عالمگیر کی تائید میں اضافہ ہو-تاریخی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے  حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) سے تین ملاقاتیں مختلف اوقات میں فرما کر اکتساب فیض حاصل کیا-اورنگ زیب عالمگیر جہاں شریعت کے نفاذ پر یقین رکھتا تھا وہی دارالشکوہ وحدت ادیان کے نام پر تصوف کا سہارا لے کر ایک ایسی صوفی تحریک کھڑی کرنے کی کوشش کررہا تھا جس میں وہ قرآن اور ویدوں میں مماثلت کے دلائل پیش کرکے اسلام کو ہندو ازم میں ضم کرنے کے عزائم رکھتا تھا تاکہ خاندانِ مُغلیہ کے اقتدار کو یہاں کی اکثریت آبادی کیلئے مزید قابلِ قبول بنایا جائے‘‘-[3]

یہ تھے ہندوستان کے وہ سیاسی اور مذہبی حالات جس دوران سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی شاہکار تصنیف ’’عین الفقر‘‘کو تصنیف فرمایا اور اپنے روحانی تصرف اور تلقین و نصیحت کے ذریعے اپنے دَور میں اُٹھنے والے فتنہ الحاد کا نہ صرف سر کچلا  بلکہ تصوّف کے صحیح معانی کو قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں پیش بھی فرمایا-

عین الفقر شریف کے بارے میں خود حضرت سلطان باھوؒ کے ارشادات:

’’عین الفقر شریف‘‘ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے 46 برس کی عمر مبارک میں تصنیف فرمائی جس کا اظہار آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے خود اپنی تصنیف عین الفقر شریف کے آخری باب میں ان الفاظ میں فرمایا:

’’اس نکتہ وحدت الٰہ (عین الفقر) کو شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دَورِ حکومت میں 1085ھ میں تحریر کیا گیا ہے‘‘[4] -

آپ کی ولادت با سعادت 1039ھ کی ہے اس حساب سے 1085ھ میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی عمر مبارک 46 برس بنتی ہے-

اس تصنیف مبارک کا نام ’’عین الفقر‘‘ کیوں رکھا گیا اس بات کا جواب آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی اسی کتاب کے ابتدائیہ میں ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ اِس کتاب کا نام عین الفقر رکھا گیا ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے طالبوں اور فنا فی اللہ فقیروں کی ہر خاص و عام مقام پر خواہ وہ مقام مبتدی ہو یا منتہی ہو، راہنمائی کر کے صراطِ مستقیم پر قائم رکھتی ہے اور اُنہیں مشاہداتِ اسرارِ پروردگار اور مشاہداتِ تجلیاتِ انوارِ توحید ِ ذات سے مشرف کر کے ’’علم الیقین،عین الیقین اور حق الیقین‘‘کے مراتب پر پہنچاتی ہے‘‘-

عین الفقر شریف کا مختصر خاکہ:

(i)ابواب کی تفصیل

1.       آپ(قدس اللہ سرّہٗ)نے اس تصنیف کو گیارہ (11)حصوں میں تقسیم فرمایا ہے-پہلے حصے کا کوئی عنوان نہیں ہے اسے ہم ابتدائیہ یا تمہید کَہ سکتے ہیں اس تصنیف کے دس ابواب ہیں جن کی ترتیب یہ ہے:

2.       باب اوّل میں آپؒ نے توحید کے اسرار کو بیان فرمایا ہے اور اسم اللہ کی شرح اور فضائل پر گفتگو فرمائی ہے-

3.       باب دوم میں آپ نے تجلیات کا ذکر فرمایا ہے کہ جو راہِ سلوک میں چلتے ہوئے سالک پر وارد ہوئی ہے آپ نے ان تجلیات کی تحقیق پر گفتگو فرمائی ہے کہ کون سی تجلی اللہ ربّ العزت کی جانب سے ہوئی ہے اور کون سی تجلی نفس و شیطان کا پھندہ ہوتی ہے-

4.       باب سوم میں مرشد و طالب کی تعریف ہے اور راہِ سلوک کے مدارج کو بیان فرمایا ہے-

5.       باب چہارم میں آپ نے نفس کی مخالفت و تسخیر سے متعلق گفتگو فرمائی ہے کہ کسی طرح توفیق الٰہی سے نفس کو تابع کیا جاسکتا ہے-

6.       باب پنجم میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے علمائے عاملین اور فقرائے کاملین کی شان کو بیان فرمایا ہے اور علم کی فضیلت اور اقسام پر گفتگو فرمائی ہے-

7.       باب ششم میں آپؒ نے مراقبہ و مشاہدہ کے مراتب کو بیان کیا ہے- مراقبہ و خواب میں رویت باری تعالیٰ اور مجلس محمدی (ﷺ) کی حضوری کی شرعی حیثیت پر بھی گفتگو فرمائی ہے اور بعض خوابوں کی تعبیر کا بھی ذکر فرمایا ہے-

8.       باب ہفتم میں آپؒ کلمہ طیبہ کے ذکر کی فضیلت اور ذکر جہرو خفیہ پر گفتگو فرمائی ہے-

9.       باب ہشتم میں آپؒ نے عشق و محبت کے احوال اور فقر کی حقیقت پر گفتگو فرمائی ہے-

10.    باب نہم میں آپؒ نے تین اہم موضوعات ذکر شراب، حقائق اولیائے اللہ اور ترک ماسویٰ اللہ پر گفتگو فرمائی ہے-

11.    باب دہم میں آپؒ فقر فنا فی اللہ اور ترک دنیا پر گفتگو فرمائی ہے-

(ii) صفحات کی تعداد:

عین الفقر شریف کے فارسی متن کے صفحات کی تعداد 182 ہے-

(iii) آیات کی تعداد:

 عین الفقر شریف کے 182صفحات کے فارسی متن میں آیات کی تعداد 151 ہے-

(iv) احادیث مبارکہ و اقوالِ صوفیا کی تعداد:

احادیث نبوی  (ﷺ) و اقوالِ صوفیا کی تعداد 184ہے-

(v) احادیث قدسیہ کی تعداد:

احادیث قدسیہ کی تعداد 20ہے-

(vi) ابیات کی تعداد:

ابیات کی تعداد 265 ہے-

(vii) اشعار کی تعداد:

1 رباعی، 3غزل اور ایک ترانہ ہے-

(نوٹ: یہ اَعداد و شُمار اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے سرپرستِ اعلیٰ اور مُسلم انسٹیٹیوٹ کے بانی حضرت سُلطان مُحمد علی صاحب کے تین روزہ بین الاقوامی حضرت سُلطان باھُو کانفرنس (اسلام آباد و لاہور) کے اختتامی سیشن کے خُطبۂ صدارت سے اخذ کئے گئے ہیں)

عین الفقر شریف کا موضوع:

عین الفقر شریف کا اُسلوبِ علمی

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کی مایہ ناز تصنیف ’’عین الفقر ‘‘کا انداز نہایت سادہ مگر پُر دلیل ہے-اس تصنیفِ لطیف میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اس قدر آیات کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قرآن سے باہر کوئی تصوّف ہے ہی نہیں-اس کتاب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس میں 26 پاروں کی آیات موجود ہیں-151 آیات میں سے ہر پارے کی صرف ایک آیت کا حوالہ پیش خدمت ہے تاکہ قارئین کو اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے اور ساتھ یہ بھی اندازہ ہو سکے کہ حضرت سُلطان العارفین کے علم کا سر چشمہ قرآنِ حکیم ہے :

v      پارہ -1،سورۃ البقرۃ :44

v      پارہ -2،سورۃ البقرۃ:255

v      پارہ -3،سورۃ آلِ عمران:31

v      پارہ -4،سورۃ آلِ عمران:92

v      پارہ -5،سورۃ النساء:43

v      پارہ -6،سورۃ المائدہ:54

v      پارہ -7،سورۃ المائدہ:118

v      پارہ -8،سورۃ الانعام:122

v      پارہ -9،سورۃ الاعراف:182

v      پارہ -11،سورۃ یونس :62

v      پارہ -12،سورۃ ھود:4

v      پارہ -13،سورۃ ابراہیم:27

v      پارہ -14،سورۃ الحجر:99

v      پارہ -15،سورۃ بنی اسرائیل:72

v      پارہ -16،سورۃ طہٰ:48

v      پارہ -20،سورۃ القصص:56

v      پارہ -21،سورۃ الاحزاب:4

v      پارہ -22،سورۃ السباء:13

v      پارہ -23 ،سورۃ ص:78

v      پارہ -24،سورۃ المومن:44

v      پارہ -25،سورۃ الزخرف:32

v      پارہ -26،سورۃ الحجرات:13

v      پارہ -27،سورۃ النجم:17

v      پارہ -28،سورۃ التغابن:15

v      پارہ -29،سورۃ المزمل:9

v      پارہ -30،سورۃ بینات:54

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) تصوف کے کسی بھی نکتے کی وضاحت فرماتے ہوئے سب سے پہلے دلیل کے طور پر قرآنِ مجید کی آیات پیش کرتے ہیں پھر احادیث مبارکہ اور اقوال کو پیش فرماتے ہیں- آپ(قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی اس تصنیف میں دیگر کئی صوفیاء کا بھی ذکر فرمایا ہے-کئی جگہوں پر صوفیاء کے اقوال کو پیش کیا ہے اور کئی جگہوں پر صوفیاء کے واقعات کو بیان کیا ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) جن صوفیاء کا ذکر اس تصنیف میں فرماتے ہیں ان کے اسماء درج ذیل ہیں:

’’سیّدنا امام حسن بصری، سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت ابراہیم بن ادھم، بازید بسطامی، منصور حلاج، رابعہ بصری، شیخ ابو بکر شبلی، حضرت حاتم اصم، امام اعظم ابو حنیفہ، شیخ فرید الدین عطار، مخدوم جہانیان جہاں گشت، حضرت بہاؤ الدین، شاہ رکن عالم، مالک بن دینار، شفیق ملنجی اور شیخ واجد کرامانیؒ ‘‘-

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اس تصنیف میں دیگر صوفیاء کی طرح احادیث نبوی(ﷺ)کو بیانِ سند کے بغیر نقل فرماتے ہیں لیکن بعض جگہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اس روایت کو بیان کرنے والے صحابی یا امام کا ذکر بھی فرمایا ہے-

جیسے اس کتاب کے باب ہفتم میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے دو احادیث مبارکہ حضرت معاذ(رضی اللہ عنہ) کی روایت کردہ بیان فرمائیں اور ایک مقام پر دو احادیث مبارکہ حضرت ابو ذر غِفاری(رضی اللہ عنہ ) کی روایت کردہ بیان فرمائی ہیں-ایک جگہ ایک حدیث کے متعلق فرمایا ہے کہ اسے امام باہلیؒ  نے روایت کیا ہے- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی اس تصنیف میں دو کتابوں کا ذکر بھی فرمایا ہے-جس میں سے ایک تفسیر ’’اسرار الفاتحہ‘‘ ہے جس کی ایک حکایت آپ نے رقم فرمائی ہے اور ایک رسالہ ’’غوث العالم محی الدین‘‘ہے جس میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ)نے چند اقوال سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) کے نقل فرمائے ہیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی تصنیف نہایت لطیف تلقین و ارشاد پر مبنی ہے جو نہ صرف سالکین تصوف بلکہ علمی دنیا کے لیے بھی بہترین شاہکار ہے-

عین الفقر کا نثری اُسلوب:

’’عین الفقر شریف‘‘ کی نثر کی چاشنی جہاں قاری کی بصیرت و بصارت میں رس گھولتی ہے وہیں اُسے فصاحت و بلاغت کے ایک نئے جہان پہ لے جا کر کھڑا کرتی ہے-دیگر تصانیفِ حضرت سُلطان العارفین میں بھی یہ کمال اِسی اظہار ہی سے عیاں ہوتا ہےکہ آدمی جیسے جیسے پڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے فقرِ سُلطانی کا رنگ چڑھتا جاتا ہے- یوں محسوس ہوتا ہے کہ نثر، نثر نہیں رہی بلکہ نظم بن گئی ہے اور نظم سے جہانِ باطن کھُلنے اور کِھلنے لگا ہے، بالکل ایسے جیسے خوشبو سے رنگ نظر آنے لگیں اور رنگوں سے صوت پھوٹنے لگے-اگر کسی نے نثر میں نظم کا لُطف لینا ہو تو شاید فارسی ادب میں حضرت سُلطان العارفین کے شہ پاروں سے بڑھ کر کوئی لطیف نثر دستیاب نہ ہو-بطورِ نمونہ تین فارسی عبارات نظرِ قارئین ہیں :

i)        ’’فقیر نیز چہار قسم است: صاحب حیرت حیران صاحب جرم گریاں، صاحب عشق جان بریاں و صاحب شوق قلب ذکر وحدت وجد جریان ‘‘-

ii)      ’’ سرّخداتعالی در سینہ صاحب راز است اگر بیائ در باز است و اگر نیائ حق بی نیاز است ‘‘-

iii)    ’’فقیر درویشی نہ در گفتگو نہ در خواندن و نوشن مسلہ مسائل حکایت قصّہ خوانی ، فقر دریافت معرفت و محو شدن در توحید رحمانی و گشتن از خویش فانی و بیزار شدن از ہوا ء نفسانی و معصیت شیطانی و بستن لب با ادب زبانی ، کردن غیر نسیانی و نگہداشت جوہر ذکر پاس انفاس جسمانی جانی ، صاحب شریعت دانش و بینش در کانی ، غوطہ خوردن در لاھوت لا مکانی توبہ کردن از در دیدن روء اہل دنیا ظلمانی‘‘-

اِس موضوع پہ حضرت سُلطان العارفین کی تصانیف کے مترجم و محقق استادِ من سید امیر خان نیازی (مرحوم و مغفور) کا رقم کردہ[5] نسبتاً مختصر رسالہ ’’تفہیم الکلامِ حضرت سُلطان باھُو‘‘ ایک قابلِ مُطالعہ تحقیق ہے -

عین الفقر میں موجود صوفیانہ نکات:

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی مایہ ناز تصنیفِ لطیف ’’عین الفقر شریف‘‘میں تصوف کے دقیق ترین نکات کو قرآن و سنت کے دلائل سے پیش فرمایا ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کسی ایسے قول و فعل کے قائل نہیں  ہیں جن سے شریعت محمدی (ﷺ) کی خلاف ورزی ہو-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) باطن کو ظاہر سے الگ نہیں فرماتے جیسے اسی کتاب کے ابتدائیہ میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا یہ شعر موجود ہے:

علم باطن ہم چوں مسکہ علم ظاہر ہم چوں شیر
کی بود بی پیر مسکہ کی بود بی پیر پیر

’’علم باطن مکھن ہے اور علم ظاہر دودھ، بھلا دودھ کے بغیر مکھن کہاں سے آئے گا اور پیر کے بغیر بزرگی کہاں سے آئے گی‘‘-

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی اس کتاب میں اکثر تصوف کے اہم مضامین پر گفتگو فرماتے ہوئے پہلے دیگر صوفیاء کی آراء کو نقل فرماتے ہیں اور پھر اپنی رائے کا اظہار فرماتے ہیں اس تصنیف میں صوفیانہ نکات کی وضاحت میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے فارسی ابیات کا بھی اہم کردار ہے-جب آپ نثر میں کسی موضوع پر فصیح و بلیغ گفتگو فرما چکے ہوتے ہیں تو اس کے بعد جو فارسی ابیات آپ(قدس اللہ سرّہٗ) رقم فرماتے ہیں وہ اس تمام نثری گفتگو کا ایسا نچوڑ ہوتا ہے گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہو-

عین الفقر میں موجود اصطلاحات: 

ایک رویہ جو کہ آپ کی دیگر تصانیف میں بھی واضح طور پہ محسوس ہوتا ہے وہ عین الفقر میں بھی عیاں ہے کہ آپ بعض دفعہ کسی مسئلہ کو بیان فرمانے لگتے ہیں تو اس کے وجودِ جامعیت پہ مروجہ اصطلاحات کا جامہ تنگ ہونے لگتا ہے تو آپ اپنی طرف سے اصطلاح قائم فرما دیتے ہیں اور اپنی ہی اصطلاح میں اُس مسئلہ کی جامعیت قائم کرتے ہیں-اکثر محققین کو آپ کی تصانیف کی تشریح میں بالخصوص اور مطالعہ میں بالعموم یہ مسئلہ در پیش ہوتا ہے کہ وہ آپ کی بیان کردہ اصطلاح کو مروجہ اصطلاحات کے تناظر میں سمجھنا چاہتے ہیں جو کہ فی الحقیقت اُن سے یکسر مُختلف ہوتی ہے، اِس لئے وہ اُسے نہ صرف سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ زیرِ نظر مسئلہ کی تفہیم میں بھی مغالطہ کا ذائقہ چکھ بیٹھتے ہیں-اِس لئے حضرت سُلطان العارفین کی اصطلاحات بذاتِ خود ایک الگ موضوعِ تفہیم و تحقیق ہیں-اُن اصطلاحات کی تفہیم کیلئے محض فصاحت و بلاغت کا سہارا کافی نہیں ہوتا بلکہ اُس کیلئے کسی ایسے شیخ کی صُحبت و معیت اور کسبِ تربیت ضروری ہے جس کی سالکانہ تربیت حضرت سُلطان العارفین کے منہجِ طریقت و تصوف پہ ہوئی ہو-

عین الفقر شریف میں آیات کی صوفیانہ تفسیر :

آپ نے اپنی اس تصنیف میں آیات کریمہ کی جو صوفیانہ تفسیر فرمائی ہے اُن میں سے صرف دو مقامات درجِ ذیل ہیں:

1-فرمان حق تعالیٰ ہے:

’’اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یَا بَنِیْ آدَمَ اَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ‘‘[6]

’’اے بنی آدم! کیا میں نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہ کرنا، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘-

’’جس آدمی کے دل کا میلان نفس کی طرف ہو جاتا ہے اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اس میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے- جب نفس و دل ایک ہوجاتے ہیں تو رُوح عاجز و کمزور ہوجاتی ہے اور جب دل و رُوح ایک ہوجاتے ہیں تو نفس کمزور و عاجز ہوکر غریب و تابع ہوجاتا ہے- یہ فقیر باھو کا کہنا ہے کہ ایک ہدایت الٰہی بہتر ہے ہزاروں دشمنِ نفس و شیطان سے،جس دل پر رحمت خداوندی کی نظر ہے وہ نفس و شیطان سے جدا ہے‘‘-[7]

2- فرمان حق تعالیٰ ہے:

’’وَالَّذِینَ اْوتْو العِلمَ دَرَجٰتٍ‘‘[8]

’’اللہ ان لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا ‘‘-

’’علم ہو تو باعمل ہو نہ کہ محض ایک بوجھ، حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے: علم ایک نکتہ ہے-جس کی کثرت اس کی عملی تفسیر ہے جو عالِم علم پر عمل نہیں کرتا، علم اس کے لیے وبال جان بن جاتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان ہے: ’’علماء انبیاء کا ورثہ ہیں‘‘- انبیاء کا ورثہ وہ عالم ہیں جو قدم بقدم انبیاء کی پیروی کرتے ہیں اور جن کے وجود میں فسق و فجور دروغ و حسد اور کبرو حرص نہ ہو بلکہ حق ہی حق ہو اور وہ راہِ راست کے رہنما ہوں‘‘-

عین الفقر شریف میں احادیث نبوی کی صوفیانہ تفسیر :

آپ (ﷺ)نے احادیث نبوی (ﷺ)کی جو صوفیانہ تفسیر فرمائی ہے، اس میں صرف دو مقامات کا ذکر درج ذیل ہے:

1- حضور نبی کریم (ﷺ)کا فرمانِ عالی شان ہے:

’’جس گھر میں کتا ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے‘‘-

دل گھر کی مثل ہے ذکر اللہ فرشتے کی مثل ہے اور نفس کتے کی مثل ہے جو دل حب دنیا کی ظلمت میں گِھر کر خطراتِ شیطانی و ہوائے نفسانی کی آماج گاہ بن چکا ہو-اس پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہیں پڑتی اور جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمراہ ہوکر حرص و حسد و کبر سے بھرجاتا ہے‘‘-

2- حضور اکرم (ﷺ)کا فرمان  مبارک ہے:

’’جس راہ کو شریعت رد کردے وہ زندیقہ کی راہ ہے‘‘-

جس راہ کو شریعت ٹھکرا دے وہ کفر کی راہ ہے- شیطان و ہوائے نفس اور دنیائے ذلیل کی راہ ہے لوگوں کو چاہیے کہ اس سے خبردار رہیں‘‘-

اختتامیہ:

یہ تصنیفِ لطیف آپ نے طالبان مولا کی رہنمائی کے لئے تصنیف فرمائی ہے اور اس تصنیف کا موضوع بھی عرفان الہی ہے لیکن یہ تصنیف اہل علم کو تحقیق کی بھی دعوت دیتی ہے کیونکہ آپ نے اس تصنیف میں علم القرآن، علم الحدیث، علم الفقہ، علم تاریخ، علم قانون، علم فلسفہ اور علم منطق جیسے اہم علوم کے نکات کو بھی بیان فرمایا ہے-اب یہ اہل علم پر فرض بنتا ہے کہ وہ اس تصنیف لطیف پر تحقیق کر کے اس کے اسرار کو منصہء شہود پر لائیں -

٭٭٭


[1](سیّد امیر خان نیازی، ’’تفہیم الکلام‘‘ العارفین پبلیکیشنز، لاہور، مارچ  2012 ء، ص:5)

[2](حضرت سلطان باھوؒ، ’’عین الفقر‘‘، تقریظ اَز پروفیسر سیّد احمد سعید ہمدانی، العارفین پبلیکیشنز، لاہور، جنوری 2016، ص:6)

[3](صاحبزادہ سلطان احمد علی، ’’محبت فاتح عالم‘‘، ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل، ستمبر 2013، ص:31)

[4]( حضرت سلطان باھوؒ، ’’عین الفقر‘‘، العارفین پبلیکیشنز، لاہور، جنوری 2016، ص:387)

[5](عین الفقر، ص:41)

[6](یسین:60)

[7](عین الفقر:153)

[8](المجادلہ:11)

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) 1039ھ  میں شورکوٹ میں پیدا ہوئے-آپؒ کے والد حضرت محمد بازید (قدس اللہ سرہ) ایک صالح حافظ قرآن اور فقیہ شخص تھے جو مغلیہ دَور میں قلعہ شور کوٹ جھنگ کے قلعہ دار تھے-ان کی اہلیہ بی بی راستیؒ اولیائے کاملین میں سے تھیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا تعلق قطب شاہی اعوان (علوی) قبیلے سے ہے جو 31واسطوں سے سیّدنا حضرت علی(﷜)سے جا ملتا ہے-آپؒ کی والدہ ماجدہ کو الہامی طور پر بتا دیا گیا تھا کہ عنقریب آپؒ کے بطن سے ایک ولی کامل پیدا ہوگا اس کا نام ’’باھُو‘‘ رکھنا-چنانچہ مائی صاحبہ نے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کا نام باھُو ہی رکھا-

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) کے حالاتِ زندگی پر لکھی گئی تصنیف ’’مناقب سلطانی‘‘اور دیگر سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے نورِ ہدایت عامۃ الناس میں مروّج فرمانے کے لیے کم و بیش 140کتب تصنیف فرمائیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی جملہ تصانیف طالبانِ مولیٰ کے لیے ایک کسوٹی ہے جو طالبانِ مولیٰ کی ہر مقام پر رہنمائی فرماتی ہیں-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصانیف میں جہاں طالبانِ مولیٰ کو شریعت مطہرہ پر چلنے کی سختی سے تلقین فرماتے ہیں وہیں طالبانِ مولیٰ کو راہِ تصوّف میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ بھی فرماتے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف میں تصوّف کے مسائل کو فلسفیانہ رنگ میں پیش کیا ہے لیکن آپؒ کی تمام تصانیف کا خاصہ یہ ہے کہ آپؒ اپنی ہر بات کی دلیل قرآن و سنت سے پیش فرمائی- جیسا کہ سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصانیف کے متعلق خود فارسی اشعار میں فرماتے ہیں:

ہیچ تالیفی نہ در تصنیف ما
ہر سخن تصنیف ما را از خدا
علم از قرآن گرفتم و ز حدیث
ہر کہ منکرمی شود اہل از خبیث

’’ہماری تصانیف میں کوئی تالیف نہیں ہیں ہماری تصانیف کا ہر سخن الہام خداوندی ہے-میں نے ہر علم قرآن و حدیث سے پایا ہے- لہٰذا میری تحریر کا انکار کرنے والا قرآن و حدیث کا منکر ہے اس لیے وہ پکا خبیث ہے‘‘[1]-

منقول و مشہور روایت کے مطابق آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی 140تصانیف ہمارے لیے بیش بہا یادگار ہیں مگر اس وقت آپؒ کی صرف 31کتب دستیاب ہیں جن میں سے ایک لہندی زبان میں (جس سے پنجابی، سرائیگی اور ہند کو الگ ہوئی ہیں) اور 30فارسی زبان کی کتب میں موجود ہیں- اس وقت جو کتب دستیاب ہیں ان کے نام یہ ہیں:

’’1-ابیات باھوؒ (لہندی زبان)، 2-دیوانِ باہوؒ، 3-تیغ برہنہ، 4-گنج الاسرار، 5-کلید التوحید(کلاں)، 6-محبت الاسرار، 7-مجالسۃ النبی (ﷺ)، 8-اورنگ شاہی، 9-رسالہ روحی، 10-امیر الکونین، 11-محک الفقرخورد،  12-محک الفقر (کلاں)، 13-کشف الاسرار،  14-حجت الاسرار، 15-فضل اللقاء، 16-توفیق الہدایت، 17-طرفۃ العین، 18-نور الہدی (کلاں)، 19-کلید جنت، 20-جامع الاسرار، 21-محکم الفقراء، 22-مفتاح العارفین، 33-اسرار القادری، 24-عین الفقر، 25-عقلِ بیدار، 26-قرب دیدار، 27-نور الہدی (خورد)، 28-شمس العارفین، 29-دیدار بخش، 30-سلطان الوہم، 31-عین العارفین‘‘

عین الفقر شریف کی عظمت و اہمیت:

عین الفقر شریف حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرہ) کی کتب میں سب سے زیادہ قیمتی اور معروف کتاب ہے جو کہ طالبانِ مولیٰ کے نزدیک حق نما کے نام سے پہچانی جاتی ہے-اس تصنیفِ لطیف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر سیّد احمد سعید ہمدانی لکھتے ہیں:

’’عین الفقر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خانوادہ سلطان باھوؒ کے صاحبزادگان کو یہ کتاب درسی انداز میں پڑھانے کا اہتمام کیا جاتا تھا گویا یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اسے اگر پڑھ لیا جائے تو سلطان باھوؒ کے فقر و تصوّف کو سمجھنے کی کچھ اہلیت پیدا ہوجاتی ہے اور دوسری تصنیف نور الہدیٰ بھی پڑھ لی جاتی تھی تو سمجھ لیا جاتا تھا کہ اب طالب خودبخود سلطان العارفینؒ کی دیگر تصانیف پڑھ سکتا ہے اور آپؒ کی تعلیمات کو سمجھ سکتا ہے‘‘-[2]

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی یہ تصنیف علماء، صلحاء اور راہِ تصوّف کے سالکین کے لیے مرشد کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے اسی تصنیف لطیف میں تصوّف کے دقیق ترین نکات کو ایسے دلکش آسان اور مختصر انداز میں قلم بند فرمایا ہے کہ گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہو-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی اس تصنیف کے مطالعے سے پُر کیف لطف و سرور اور اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے اور تعجب خیز حقائق اور معارف کا انکشاف ہوتا ہے-

عین الفقر نثر اور نظم کا حسین امتزاج ہے، مجموعی طور پہ کتاب نثر میں ہے لیکن کوئی صفحہ ایسا نہیں جِسے حضرت سُلطان العارفین نے اپنے ذوقِ شعر سے مزین نہ کیا ہو، جابجا آپ کے اشعار مثنوی کے انداز میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں بعض رباعیات ہیں بعض قطعات ہیں اور ایک ترانہ بھی شامل ہے جسے آپؒ نے ’’ترانۂ عشق‘‘ کا خطاب دیا ہے-آپ کے اپنے اشعار کے علاوہ کہیں کہیں دیگر صوفیا کرام کے اشعار بھی اِس میں ملتے ہیں-اشعار کے ساتھ ساتھ اس کتاب کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس پہ آیتِ قرآنی، حدیثِ قُدسی، حدیثِ نبوی (ﷺ) یا صوفیائے کرام کے عربی اقوال درج نہ ہوں-کتاب کا اسلوب انتہائی پرکشش اور نکات آفرین ہے-اِس کتاب میں صُوفیانہ اطلاعات، عارفانہ تجلیات، مُقربانہ مُشاہدات، متصوفانہ اصطلاحات، عاشقانہ ترجیحات، حکیمانہ نکات، عالمانہ تشریحات، مفسرانہ تاویلات، عابدانہ عبادات اور زاہدانہ تسبیحات کے موتیوں کو محققانہ نگارشات اور فلسفیانہ خیالات کے دھاگے میں اِس خُوبی و خُوبصورتی اور عُمدگی و مہارت سے پرویا گیا ہے کہ ہر عہد و زمان کا طالبِ مولیٰ اِس کی تلقین و ارشادات سے بہرہ وَر ہوتا رہے گا-جہاں اِس کتاب میں طریقت کے عمومی و خاص مسائل پہ بھر پور راہنمائی ملتی ہے وہیں سلُوکِ قادریہ کی جامع ترتیب سے بھی آگاہی ملتی ہے-

عین الفقر شریف کی تصنیف کے وقت ہندوستان کے سیاسی و مذہبی حالات

’’آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی ولادت باسعادت سے قبل الحاد کا وہ بیج جو جلال الدین اکبر نے وحدتِ ادیان کے نام پر ہندوستان کی سر زمین پر کاشت کیا تھا اور جس کے عزائم کو ناکام اس وقت کے عظیم صوفی حضرت مجدد الف ثانی (﷫)نے اپنی روحانی و عِلمی قوت سے فرمایا تھا وہی الحاد ایک دفعہ پھر اکبر بادشاہ کے پڑ پوتے دارالشکوہ کی صورت میں سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) کے دَور میں ظاہر ہوا-دارالشکوہ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)کا ہم مشرب ہم مسلک و ہم طریقہ تھا لیکن اس کے باوجود سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)نے اکبر و دارالشکوہ کی ’’شرکت میانۂ حق و باطل‘‘کو رد کرتے ہوئے دین کے دفاع اور اس شراکتِ ادیان کے الحاد کی بیخ کنی کے لیے دارالشکوہ کے مقابل اورنگ زیب عالمگیر کا ساتھ دیا جو دین و شریعت کے حوالے سے متعصبین کے بقول سخت گیریت کا نمائندہ جبکہ اہلِ حق کے نزدیک استقامت کا پیکر تھا اور سلطنت میں شریعت ِ اسلامی کے نفاذ پر یقین رکھتا تھا-آپ(﷫)نے اورنگ زیب عالمگیر (﷫)کیلئے ایک مستقل رسالہ اورنگ شاہی تصنیف فرمایا اور اپنی متعدد تصانیف میں اورنگ زیب عالمگیر کا ذکر امیر المومنین کے طور پر کیا تاکہ عوامی سطح پر اورنگ زیب عالمگیر کی تائید میں اضافہ ہو-تاریخی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے  حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) سے تین ملاقاتیں مختلف اوقات میں فرما کر اکتساب فیض حاصل کیا-اورنگ زیب عالمگیر جہاں شریعت کے نفاذ پر یقین رکھتا تھا وہی دارالشکوہ وحدت ادیان کے نام پر تصوف کا سہارا لے کر ایک ایسی صوفی تحریک کھڑی کرنے کی کوشش کررہا تھا جس میں وہ قرآن اور ویدوں میں مماثلت کے دلائل پیش کرکے اسلام کو ہندو ازم میں ضم کرنے کے عزائم رکھتا تھا تاکہ خاندانِ مُغلیہ کے اقتدار کو یہاں کی اکثریت آبادی کیلئے مزید قابلِ قبول بنایا جائے‘‘-[3]

یہ تھے ہندوستان کے وہ سیاسی اور مذہبی حالات جس دوران سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی شاہکار تصنیف ’’عین الفقر‘‘کو تصنیف فرمایا اور اپنے روحانی تصرف اور تلقین و نصیحت کے ذریعے اپنے دَور میں اُٹھنے والے فتنہ الحاد کا نہ صرف سر کچلا  بلکہ تصوّف کے صحیح معانی کو قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں پیش بھی فرمایا-

عین الفقر شریف کے بارے میں خود حضرت سلطان باھوؒ کے ارشادات:

’’عین الفقر شریف‘‘ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے 46 برس کی عمر مبارک میں تصنیف فرمائی جس کا اظہار آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے خود اپنی تصنیف عین الفقر شریف کے آخری باب میں ان الفاظ میں فرمایا:

’’اس نکتہ وحدت الٰہ (عین الفقر) کو شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دَورِ حکومت میں 1085ھ میں تحریر کیا گیا ہے‘‘[4] -

آپ کی ولادت با سعادت 1039ھ کی ہے اس حساب سے 1085ھ میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی عمر مبارک 46 برس بنتی ہے-

اس تصنیف مبارک کا نام ’’عین الفقر‘‘ کیوں رکھا گیا اس بات کا جواب آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی اسی کتاب کے ابتدائیہ میں ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ اِس کتاب کا نام عین الفقر رکھا گیا ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے طالبوں اور فنا فی اللہ فقیروں کی ہر خاص و عام مقام پر خواہ وہ مقام مبتدی ہو یا منتہی ہو، راہنمائی کر کے صراطِ مستقیم پر قائم رکھتی ہے اور اُنہیں مشاہداتِ اسرارِ پروردگار اور مشاہداتِ تجلیاتِ انوارِ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر