ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

Hearts are deeper than the oceans who would know about hearts Hoo

Within it are ships, boats, bargepoles and seamen lots Hoo

Stretched like tent fourteen realms are within the hearts slots Hoo

The one who is acquainted with heart Bahoo such will attain Lord’s recognition Hoo

Dil darya smundaru’N Doghay kon dilaa’N diya’N janay Hoo

Wichay be’Ray wichy jhe’Ray wichy wanjh mohanay Hoo

Chodaa’N tabaq dilay day andar jithay ishq tamboo wanj tanay Hoo

Jo dil da maHram howay Bahoo sohi Rabb pechanay Hoo                      (Translated by: M.A.Khan)

 

 تشریح:

پورے صوفیانہ ادب میں قلبِ انسانی کی وُسعت و و بلندی اور عمیقیت و گہرائی پہ اس سے زیادہ پُرجوش ، پُر اثر اور پُر زور مصرعے کہیں اور نہ ملیں گے-سمندروں ودریاؤں کی گہرائی ووسعت کی پیمائش توممکن ہے مگر دِل وہ سمندر ہے جس کی گہرائی وپہنائی کاناپنا ناممکن ہے-اِس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے دِل کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عرش بنایا ہے -

حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) دل کی وُسعت و گہرائی کے متعلق اپنی فارسی تصنیف میں فرماتے ہیں: ’’دل کیا چیز ہے ؟ دل چودہ طبقات سے وسیع تر مقام ہے- حدیث ِقدسی میں فرمانِ الٰہی ہے: ’’ مَیں نہ تو زمین میں سماتا ہوں اور نہ ہی آسمانوں میں سماتا ہوں مَیں صرف بندۂ مومن کے دل میں سماتا ہوں[1]-’’یہ فقیر باھُو کہتا ہے کہ دل کی صورت نیلوفر کے پھول جیسی ہے- اُس کے پہلو میں چار خانے ہیں ، ہر خانے میں زمین و آسمان کے چودہ طبقات سے وسیع تر ولایت ہے- ایک خانہ نشیب ِدل میں ہے جس میں سرِّلامکان پایا جاتا ہے-ہر خانے میں خزانۂ الٰہی ہے- پہلا خزانہ علم ہے، دوسرا خزانہ ذکرِاللہ ہے،تیسرا خزانہ معرفت ِالٰہی ہے اور چوتھا خزانہ فقر فنا فی اللہ بقا باللہ ہے-دل اسرار ِمعرفت ِوحدانیت ِالٰہی کا گنجینہ ہے کہ اِس میں اُلوہیت و ربوبیت کا اظہار ہوتا ہے- دانا بن اور یاد رکھ ! فرمانِ الٰہی ہے:- ’’اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے‘‘-[2]

(۲)اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت قرب کے لیے انسان کو خود سے باہر جانے کی ضرورت نہیں اگر وہ تفکر کرے توعرفان ذات ووصالِ حق کاسازوسامان توانسان کے دل میں موجود ہیں،جیسےفرمایاگیاکہ:-چنانچہ اُس وقت اسمِ اللہ ذات سے سورج کی طرح روشن تجلی ٔنور ظاہر ہوتی ہے جس کی روشنی میں طالب اللہ کو دل کے ارد گرد چودہ طبق سے وسیع تر میدان دکھائی دیتاہے جس میں دونوں جہان اسپند کے دانے کی مانند ایک کونے میں پڑے نظر آتے ہیں-اِس میدان میں طالب اللہ کو ایک گنبد دار روضہ نظر آتاہے جس کے دروازے پر کلمہ طیب ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّاااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کا قفل لگا ہوتاہے، اُس قفل کی چابی اسمِ اللہ ذات ہے- جب طالب اللہ اسمِ اللہ ذات پڑھتاہے تو قفل ِکلمہ طیب کھل جاتاہے اور طالب اللہ روضہ کے اندر داخل ہوجاتاہے جہاں اُسے سرورِ کائنات حضرت محمد (ﷺ) کی عظیم مجلس دکھائی دیتی ہے جس میں اصحابِ کبار (رضی اللہ عنہُ) موجود ہوتے ہیں[3]-

(۳)دِل میں محض چودہ طبقات کی وسعت ہی نہیں ہے بلکہ حضرت عشق اپنی حشرسامانیوں سمیت یہاں پہ رونق افروز ہے-حضورغوث الاعظم فرماتے ہیں کہ :- اللہ کے سوا اُس کے دل میں کسی چیز کی سمائی نہ ہو جیسا کہ حدیث ِقدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’  مَیں زمین و آسمانوں میں نہیں سماتالیکن بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں ‘‘- یہاں بندۂ مومن سے مراد وہ شخص ہے جس کا دل صفاتِ بشریہ اور خیالِ غیر سے پاک ہو گیا ہو اور اُس کے آئینۂ دل میں ذاتِ حق کا عکس سما گیا ہو-بایزید بسطامی (رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :’’ جو کچھ عرش اوراُس کے اطراف میں ہے اگر کسی عارف باللہ کے دل کے ایک گوشے میں رکھ دیا جائے تو اُسے اِس کا احساس تک نہ ہوگا[4]-

اہل ِدل کا حو صلہ اور دل کی کشاد گی بہت وسیع ہے کہ دل ’’ ن ‘‘ کی مثل ہے جس میں چودہ طبق  محض ایک نقطہ ہیں-یہ ایک ایسا بھید ہے جسے محرم کے علاوہ اورکوئی بیان نہیں کر سکتا -’’وَ الْقَلَمِ وَیَسْطُرُوْنَ‘‘کلام الٰہی کی وہ سطر ہے جس میں دل کی بزرگی وپاکیزگی کی وہ شان بیان کی گئی ہے جو اُسے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسمِ’’اللہ ‘‘کی عظمت و برکت و رحمت سے حاصل ہے [5]-

(۴)سادہ سی بات ہے جو سالک اپنے دِل (باطن)تک رسائی صرف وہی سالک خداوندقدوس کے قرب ووِصال کاسزاوار ہوتاہے-جیسے فرمایا کہ :-

معرفت توحید حکمت ہر سہ شد راہبر خدا

 

 

با مطالعہ دل ورق شد غرق فی اللہ با  بقا

 ’’اگر تُو اوراقِ دل کا مطالعہ کرتا رہے تو معرفت و توحید و حکمت خدا کی طرف تیری راہنمائی کریں گی اور تُوغرق فنا فی اللہ ہو کر بقا باللہ ہو جائے گا‘‘[6]-



[1](عین الفقر:۵۹)

[2](عین الفقر:۳۰۱)

[3](نورالہدٰی:۴۷۷)

[4](سرالاسرار:۱۲۹)

[5](محک الفقر:۷۸۳)

[6](امیرالکونین:۳۰۳)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر