حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کی برحق جدوجہد اور ریاستِ پاکستان(ایک قانونی مطالعہ)

حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کی برحق جدوجہد اور ریاستِ پاکستان(ایک قانونی مطالعہ)

حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کی برحق جدوجہد اور ریاستِ پاکستان(ایک قانونی مطالعہ)

مصنف: آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ جولائی 2025

کسی بھی قوم کی تہذیبی شناخت اور ترقی کا راستہ اس کے رجالِ باکمال /ہیروز کے کردار سے متعین ہوتا ہے- رجلِ باکمال یا ہیرو صرف ایک فرد ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ ہوتا ہے جو آنے والی نسلوں کو حوصلہ، عزم، صداقت اور سچائی کا درس دیتا ہے- ہر مہذب اور بیدار قوم اپنے ہیروز کو نہ صرف یاد رکھتی ہے بلکہ ان کے نظریات کی حفاظت بھی کرتی ہے تاکہ قوم کی تہذیبی شناخت قائم رہ سکے- بچوں کو بچپن سے ہی ان کے واقعات سنائے جاتے ہیں تاکہ بچوں کی شخصیت میں ان ہیروز کی جھلک پیدا ہو- اسی لیے دنیا کی ہر کامیاب قوم، چاہے وہ کسی نسل، مذہب یا جغرافیہ سے تعلق رکھتی ہو اپنے ہیروز کو بھرپور انداز میں Celebrate کرتی ہے-

مثلاً امریکہ میں George Washington جو امریکی جنگِ آزادی کے رہنما اور پہلے صدر تھے ،کو ’’Father of the Nation‘‘ کا درجہ حاصل ہے- ہر سال ’’Presidents’ Day‘‘فروری کے تیسرے سوموار کو منایا جاتا ہے اور اس موقع پر سرکاری چھٹی دی جاتی ہے اور امریکہ کے صدر سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیدار ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں- سکولوں میں ان کے کردار پر مبنی تقریبات ہوتی ہیں تاکہ ان کی قربانیوں سے قوم سبق حاصل کر کے ملکی ترقی میں کردار ادا کرے- اس لیے واشنگٹن ڈی سی جیسا شہر ان کے نام سے منسوب ہے-[1]

امریکہ ہر سال Martin Luther King Jr. Day جنوری کے تیسرے سوموار کو مناتا ہے تاکہ نسل پرستی کے خلاف ان کی جدوجہد کو زندہ رکھا جا سکے- اس دن وفاقی سطح پر تعطیل ہوتی ہے، اسکولوں اور اداروں میں تقاریب ہوتی ہیں اور ان کی تقاریر کو پڑھایا جاتا ہے تاکہ نوجوان نسل ان کی بہادری اور قربانی سے سبق سیکھے -[2]

ان مثالوں سے اخذ کیا جاسکتا ہےکہ ترقی یافتہ قوم اپنے ہیروز کے افکار و اقدار کو نہ صرف یاد رکھتیں ہیں بلکہ ان کو زندہ رکھنے کیلئے باقاعدہ ریاستی سطح پر اقدامات بھی کرتی ہیں-

اس کے برعکس اگرکسی قوم کو شکست دینی ہوتو اس قوم سے اس کا ہیرو چھینا جاتا ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو اس ہیرو کو متنازع بنایا جاتا ہےیا اس کی کردار کشی جیسے حربوں سے کام لیا جاتا ہےتاکہ قوم اور ہیرو کا تعلق دھندلایا جائے - ماضی میں ایسی بیشمار امثال موجودہیں-

1.  صلیبی جنگوں کے بعد یورپ میں چرچ قیادت اور مؤرخین نے سلطان صلاح‌الدین ایوبیؒ کی شخصیت کو پروپیگنڈا کا نشانہ بنایا -چرچ نے وہ دستاویزات رائج کرائیں جن میں سلطان صلاح‌الدین ایوبیؒ کے کردار کو قصداًمسخ کیا گیا- عوامی کتابوں، چرچ تقریروں اور عسکری دستاویزات میں سلطان پر ’’ظالم فاتح‘‘ کا لیبل لگایا گیا اور ان کی رواداری اور عدل کی خصوصیات کو مٹایا گیاجبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی- معروف مصنف Andrew S. Ehrenkreutzنے اپنی کتاب Saladin (1972) میں ان تاریخی تحریفات کو بے نقاب کیا اور یورپی دستاویزات کا تجزیہ کر کے دکھایا کہ سلطان صلاح‌الدین نے حقیقتا ً کسی مذہبی تشدد یا معاشرتی ظلم کا ارتکاب نہیں کیا، بلکہ امن اور رواداری کی سیاست کی-[3]

2.  رومی حکمرانوں نے حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کو ریاستی دشمن اور فسادی قرار دے کر ان کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی، تاکہ تخت قبضہ میں رہے-Eusebius نے Ecclesiastical History, Book II میں درج کیاہے کہ حضرت عیسیٰؑ کےحواریوں کو ریاست کے حوالے سے ’’فسادی‘‘ اور ’’باغی‘‘ بتایا گیا - ان بیانیوں کے ذریعے حضرت عیسٰیؑ کی دعوت کو ’’سیاسی بغاوت‘‘ سے مشابہت دی گئی -[4] حالانہ حضرت عیسیٰؑ کی دعوت خالصتا اللہ تعالیٰ کی دعوت تھی-

ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہیروز کو بدنام کرنے کا مقصد صرف ایک شخص یا فکر کو نشانہ بنانا نہیں ہوتا بلکہ پوری قوم، اس کی ثقافت، تاریخ اور اس کے نظریاتی تشخص کو تباہ کرنا ہوتا ہے-یہ سلسلہ تاریخ انسانی میں چلتا آرہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے بقول اقبالؒ؛

نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
وہی فطرتِ اسَد اللّہی، وہی مرحبی، وہی عنتری

ملک خداداد پاک سر زمین پر بسنے والی پاکستانی قوم قرآن و سنت کے بعد اپنے نظریاتی و ثقافتی رجالِ باکمال ، مقتداؤں اور رہنماؤں یعنی ہیروز کو اپنے بانیانِ پاکستان سے اخذ کرتی ہے جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ سرِفہرست ہیں-قائد اعظمؒ و علامہ محمد اقبال ؒ نے جہاں دیگر بڑی شخصیات کو اپنی ملی شناخت کیلئے Idealize کیاوہیں سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی ذات مقدسہ کو بھی رول ماڈل کے طور پر لیا-اس لیے دونوں قائدین نے سیدنا امام حسینؓ کی فکر اور جہدِ حریت سے رہنما اصول اخذ کر کے قومی شعور کی آبیاری کی-

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سیدنا امام حسینؓ کی عظمت کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی قوم سے فرمایا:

’’دنیا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت سے بڑھ کر کوئی عمدہ اور روشن مثال پیش کرنے سے قاصر ہے-آپ محبت، شجاعت، قربانی اور وفاداری کا مجسم نمونہ تھے-خصوصاً ہر مسلمان کو ان کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور ان سے رہنمائی لینی چاہیے‘‘-

علامہ اقبالؒ نے اسرارِ خودی میں سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو اسلامی فکر کا مرکز قرار دیتے ہوئے فرمایا:

زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

’’حق ہمیشہ زندہ ہے اور اس کی طاقت شبیری (حسینؓ) سے ہے، باطل کا انجام صرف حسرت اور ناکامی ہے-یعنی حق و باطل کی جنگ میں ہیرو امام حسین ؓ ہیں اور ان کے مخالف باطل ہیں‘‘-

حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی

یہ اشعار واضح کرتے ہیں کہ سیدنا امام حسینؓ علام محمد اقبال کے نزدیک صرف ایک عظیم ہستی ہی نہیں بلکہ زندہ ضمیر اور حق پرست معاشرے کی بنیاد کو تقویت بخشنے والے ہیرو ہیں-

بانیانِ پاکستان کے افکار پر سیدنا امام حسین(رضی اللہ عنہ)کے نظریے، قربانی اور ظلم کے خلاف جدوجہد کا گہرا اثر تھا-ان کی سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے والہانہ محبت و عقیدت کے تسلسل میں ریاست پاکستان ہر سال نویں و دسویں محرم کو یومِ عاشور کے موقع پر سرکاری تعطیلات کا اعلان کرتی ہے-[5] ان ایّام کو نہ صرف مکتبِ اہلِ تشیعہ میں اہمیت حاصل ہے بلکہ اہلسنت و جماعت کے چاروں فقہی مکاتب کے لوگ ان ایام میں حضرت امام حسین کی قربانی اور عظمت و فضائل کو یاد کرتے ہیں - خاص کر پاک و ہند میں اہلسنت و جماعت کے بڑے بڑے علمی و روحانی مراکز میں اس حوالے سے عظیم تقریبات منعقد کی جاتی ہیں -

سیدنا امام حسینؓ کا کردار پاکستانی ریاست کیلئے نظریاتی، عسکری اور تہذیبی و اخلاقی ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے-قائد اعظم ؒسے لیکر آج تک سربراہان مملکت اور ریاستی بیانیہ کے مطابق حضرت سیدنا امام حسینؓ ہیرو ہیں-اس لیے ہر سال سیدنا امام حسینؓ کی یاد کو سرکاری و نجی سطح پر بھرپور انداز میں منایاجاتا ہے-

اللہ تعالیٰ نےقرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

’’قُلْ لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[6]

’’کہہ دیجیے: میں تم سے اس (تلقینِ رسالت) پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے قرابتداروں(اہل بیت اطہار) سے محبت کے‘‘-

قرآن کریم کے اس بیّن حکم کے مطابق رسول اکرم (ﷺ) نے اپنی رسالت کے بدلے اپنے اہلِ قرابت خاص کر حضرت امام حسینؓ سے بے پناہ محبت کا درس دیااور اللہ تعالیٰ نے اس محبت کو قرآن میں فرض فرمایا-

جامع ترمذی میں حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہےحضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’حسنؓ اور حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘-[7]

پاکستانی ثقافت و ادبیات میں بھی سیدنا امام حسینؓ پاک کی ذات اقدس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے-پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل PTV پر امام حسین کے افکار کی پذیرائی دراصل پاکستانی ثقافت کی عکاس ہیں- ریاستی ٹی وی اور ریڈیو پہ ماہِ محرم میں سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کو اپنے خصوصی پروگرامز کے ذریعے اجاگر کرتا ہے- مثلاً:

’’پی ٹی وی نے 2021 میں’’ واقعہ کربلا اور پیغام حسینؓ‘‘ عنوان سے ایک خصوصی پروگرام نشر کیا، جس میں واقعہ کربلا کے اہم حصے اور سیدنا امام حسینؓ کی باطل کے خلاف جہدوجہدو قربانی کو تفصیلی انداز میں بتایا گیا‘‘-[8]

اسی طرح پی ٹی وی پر محرم2024 میں’’ہمارے ہیں حسینؓ‘‘عنوان سے پروگرام نشر کیا گیا، جس میں کربلا کے مراحل کو تاریخی تناظر میں بتایا گیا کہ کیسے امام حسین ؓنے اپنا اور اپنے اہل و عیال کے جان کی قربانی پیش کر دی لیکن ناحق یزید کی بیعت قبول نہ کی‘‘-[9]

مزید برآں کسی بھی قوم کے ادب و ثقافت میں شاعری کونہایت ممتاز مقام حاصل ہوتا ہے-بعینہ پاکستانی ادب میں اردو و پنجابی ودیگر علاقائی زبانوں کی شاعری کو نہایت اہم مقام حاصل ہے - پاکستانی ثقافت کے ادب میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ سیدنا امام حسینؓ حق پر ہیں اور ان کے خلاف برسرپیکار قوتیں ناحق تھیں-

قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری نے وارثان دین اور دشمنان دین کے درمیان خط کھینچ کر بتایا ہے کہ ہمارے ہیرو سیدنا امام حسینؓ ہیں-

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط امام ہے

جوش ملیح آبادیؒ کلیات جوش میں سیدنا امام حسینؓ کو تمام انسانیت کی آواز قرار دیتے ہیں:

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر شخص پکارے گا ہمارے ہیں حسینؓ

دنیائے اسلام کے معروف صوفی بزرگ اور پنجابی زبان کے نامو ر شاعر حضرت سلطان باھوؒفرماتے ہیں:

ج -جے کر دین عِلم وِچ ہوندا سر نیزے کیوں چَڑھدے ھو
اَٹھاراں ہَزار جو عَالم آہا اوہ اگے حسینؓ دے مَردے ھو
جے کجھ مُلاحظہ سرورؐ دا کردے تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ھو
جے کر مَندے بیعت رَسُولیؐ پانی کیوں بندے کردے ھو
پر صادق دین تنہاں دے باھوؒ جو سِر قُربانی کردے ھو

سچا دین تو انہیں پاک جانوں کا تھا جنہوں نے کربلا میں سر قربان کر دیا لیکن باطل کے ہاتھ پر بیعت نہ کی-

الغرض!بانیانِ پاکستان، ہماری ثقافت اور ریاستی بیانیہ کے تحت سیدنا امام حسینؓ پاک ہمارے ہیرو ہیں اور پوری پاکستانی قوم کی بے پناہ محبت اور گہرےجذبات امام حسینؓ اور ان کی قربانی سے وابستہ ہیں- اسی اثاثہ کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان میں بے شمار قوانین منظور کیے گئے جن میں سیدنا امام حسینؓ پاک کی حرمت و ادب کے منافی بات کرنا قابل تعزیر جرم ہے-

پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 298-A میں درج ہے کہ:

298A: Whoever by words, either spoken or written, or by visible representation, or by any imputation, innuendo or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of any wife (Ummul Mumineen), or members of the family (Ahl-e-Bait), of the Holy Prophet (Peace be Upon Him), or any of the righteous Caliphs (Khulafa-e-Rashideen) or companions (Sahaaba) of the Holy Prophet (Peace be Upon Him) shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years, or with fine, or with both”.[10]

اس دفعہ کے تحت سیدنا امام حسینؓ پاک کے خلاف زبانی، تحریری، اشارے یا کنایے کے ذریعے الزام لگانا یا ان کے ادب و حُرمت کے منافی بات کرنا جرم ہے- مزید برآں اگر کوئی فرد سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی قربانی کے اعلٰی و ارفعٰ مقصود و معیارکو گھٹا کر پیش کرےیا اس جدوجہد کو تاج کے لیے جنگ، یا دو شہزادوں کے درمیان جنگ قرار دے یا کسی اور انداز میں ناموسِ سیدنا امام حسینؓ کے خلاف بات کرے تو اس پر یہ دفعہ لاگو ہوتا ہے- جس کی سزا تین سال قید اور جرمانہ ہے-

پاکستان پینل کوڈ دفعہ 295-A کے تحت کسی بھی طبقہ کے مذہبی احساسات کومجروح کرنا قابل تعزیر جرم ہے -

. 295‘‘A : Whoever, with deliberate and malicious intention of outraging the religious feelings of any class of the citizens of Pakistan, by words, either spoken or written, or by visible representations insults the religion or the religious beliefs of that class, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to ten years, or with fine, or with both”.

لہذا اگر کوئی بھی شخص امام حسینؓ پاک کی تکریم و تعظیم کے منافی بات کرتا ہے، واقعہ کربلا میں ہونے والے ظلم کا انکار کرتا ہے، سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کے اہل بیت پہ مظالم ڈھانے والوں کی طرف داری و جواز فراہم کرتا ہے اس پر دفعہ 295-Aلاگو ہوتا ہے اور اس جرم کی سزا 10 سال قید و جرمانہ ہے-

پاکستان پینل کوڈ دفعہ153-A کے تحت کسی مذہبی طبقہ کو اشتعال دلانا یا مذہبی طبقات کے درمیان جھگڑا پیدا کرنا قابل تعزیر جرم ہے-

“Section 153-A PPC - Promotion of enmity between different groups: “Whoever promotes enmity between different groups on grounds of religion ………… shall be punished with imprisonment for a term which may extend to five years and with fine.”

اگر کوئی شخص اما م حسینؓ پاک کے خلاف باتیں کر کے یا دشمنان اہل بیت -جسےپاکستانی قوم ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے، کو اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر دفعہ 153-A لاگو ہوتا ہے اور اس جرم کی سزا پانچ سال قید و جرمانہ ہے-

پاکستان میں Prevention of Electronic Crimes Act (PECA) 2016 کے دفعہ 11 کے تحت سوشل میڈیا (یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ)، ویب سائٹ یا ایپ پر نفرت انگریز مواد ا ور مذہبی شخصیات کے ادب و حرمت کے منافی بات کرنا قابل تعزیر جرم ہے-

“Section 11. Hate speechWhoever prepares or disseminates information through any information system or device that advances or is likely to advance inter faith, sectarian or racial hatred, shall be punished with imprisonment for a term which may extend to seven years or with fine or with both”.[11]

لہذا اگر کوئی بھی شخص یزید و اس کی ناجائز حکومت کے حق میں بات کر کے سیدنا امام حسین پاکؓ کی عظمت و حقانیت کو جھٹلاتا ہے اس پر دفعہ 11 لاگو ہوتا ہے اور اس جرم کی سزا 7 سال قید و جرمانہ ہے-

قانونی نظام کے تناظر میں پاکستان Common Law Country ہے اس لیے پاکستان کے قانونی نظام میں عدالتی نظائر Precedents کو قانون کا درجہ حاصل ہے-پاکستانی کی عدالتی نظائر کے مطابق مقدس مذہبی شخصیات کے خلاف بات کرنا جرم ہے-

’’اگر کوئی شخص مقدس اور محترم ہستیوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرے تو وہ توہینِ مذہب کا مرتکب ہوتا ہے- ایسے شخص کو قانون میں کسی رعایت کا حق حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ سزا میں کسی نرمی کا مستحق ہوتا ہے، کیونکہ مذہبی جرائم نہ صرف عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں بلکہ معاشرےو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم بھی تصور کیے جاتے ہیں- مذہبی جرائم قابلِ راضی نامہ (Compoundable) نہیں ہوتے اور نہ ہی ریاست، کوئی فرد، یا کسی مذہبی فرقے کا گروہ ایسے جرم کو معاف کرنے اور مجرم کو بخشنے کا اختیار رکھتا ہے‘‘-

علاوہ ازیں اگر کوئی شخص حضرت امام حسین ؓ کی حرمت کے منافی بات کرتا ہے اور آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار رائے کے تحت جواز پیش کرتا ہے تو قانون کی نگاہ میں اس کا جواز ناقابل قبول ہو گا کیونکہ یہ آزادی غیر مشروط نہیں ہے-[12]آزادی اظہار رائے پر اہم آئینی حدود عائد کی گئی ہیں جن میں اسلام کی عظمت، عوامی نظم و نسق، اخلاقی و مذہبی اقداراور قومی سلامتی کا پاس رکھنا شامل ہیں- حضرت سیدنا امام حسینؓ کی حرمت سب مسلمانوں پر فرض ہے اس لیے سیدالشہداء ؓکی قربانی و جدوجہد کو جھٹلانا یا کم کر کے پیش کرنا درحقیقت عظمت اسلام کے انکار کے مترادف ہے-

نیز پاکستان میں Law of Tort کے تحت کسی بھی شخص کے جذبات کو ٹھیس اور ذہنی اذیت نہیں پہنچائی جا سکتی- یہ بات بہت واضح ہے کہ پاکستانی عوام امام حسین ؓسے بے پناہ عشق و محبت کرتی ہےاور خانوادہء نبوت سے محبت اپنے ایمان کا لازمی جزو سمجھتی ہے - کیونکہ ’’مین اسٹریم سنی تھیالوجی‘‘کے تقریباً تما بڑے آئمہ تفسیر نے سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کے خانوادے سے محبت کو قرآن کریم کی رُو سے فرض کا درجہ دیا ہے - ایسے میں سیدنا امام حسینؓ کے خلاف بات کر کے عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور لوگوں کو ذہنی اذیت پہنچانا civil wrong ہے اور Law of Tort کی خلاف ورزی ہے-جس کے تحت سول کورٹ میں مقدمہ درج کیاجا سکتاہے-

اپنے ہیروز کی نامو س کا تحفظ صرف پاکستان کے قانون میں نہیں ہے بلکہ دنیا کی تمام قومیں اپنے ہیروز کی ناموس کی قانونی حفاظت کرتی ہیں اور اپنی قربانیوں کا احترام چاہتی ہے- مثلاً چین میں ’’Heroes and Martyrs Protection Act‘‘ کے تحت ریاستی طور پر تسلیم شدہ انقلابی ہیروز اور شہداء کی توہین، تضحیک یا ان کی یادگاروں کو نقصان پہنچانا قابلِ سزا جرم ہے-

جرمنی میں کوئی بھی شخص Holocaust کا انکار نہیں کر سکتا کہ نازیوں نے یہودیوں کا قتل عام کیااور انکار تو دور بلکہ یہ بھی بحث نہیں کر سکتا کہ جو تعداد متاثرین کی بتائی جاتی ہے وہ کم ہےاور یہ کہ کوئی بھی شخص پبلک و پرائیویٹ کسی بھی مقام پر اس ظلم کا انکار نہیں سکتا بلکہ اگر کوئی اور انکار کر رہا ہے تو اس سامنے اس کی تائید بھی نہیں کر سکتا اور نہ صرف یہ بلکہ نازی جنہوں نے قتل عام کیا ان کے قتل عام کا کوئی جواز پیش کرنے کی بھی اجازت نہ ہے- بلکہ کوئی ایسا حرف تک نہیں بول سکتے جو قتل ہونے والوں یہودیوں کی تکریم میں کسی طرح کی کمی کا باعث بنے یعنی بولنا تو دور سوچا بھی نہیں جا سکتا- اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو جیل اس کا مقدر ہے-

سوال یہ ہے کہ اگر ہولوکاسٹ کے ذمہ داران کے حق میں کسی بھی طرح کا جواز پیش کرنے کی اجازت نہ ہے تو سید الشہداء حضرت امام حسین ؓاور رسول اکرم(ﷺ) کے بچوں و گھر والوں کو شہید کرنے والوں کے حق میں جواز پیش کرنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟

بین الاقوامی قوانین میں International Covenant on Civil and Political Rights (ICCPR)ایک اہم دستاویز ہے جسے پاکستان نے بھی سائن کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کرنا پاکستان پر لازم ہے- اس کے آرٹیکل(2) 20 کے تحت مذہبی منافرت پھیلانا، مذہبی شخصیات کے خلاف بات کرنا، کسی طبقہ کو اشتعال دلانا، عوامی نظم و نسق خراب کرنے کا باعث بننا جرم ہے-

Any advocacy of national, racial or religious hatred that constitutes incitement to discrimination, hostility or violence shall be prohibited by law.”[13]

مزید یہ کہ ایسی روایات جو کئی ممالک میں تواتر کے ساتھ قائم ہوں انہیں بین الاقوامی قانون (International Law) کی زبان میں International Customary Norms کہتے ہیں اور یہی نارمز ایک مدت و عمل کے بعد Jus Cogens کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں اور جب یہ Jus Cogens بن جائیں اس کےبعد دنیا کے ہر ملک پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس قانون کی پاسداری و عملداری یقینی بنائے خواہ اس ملک نے اس قانون کو دستخط کیا ہو یا نہ کیا ہو- مثلا جبUniversal Declaration of Human Rights دستاویز تیار ہوئی تو شروع کے برسوں میں تقریبا 50 کے قریب ممالک نے اس Treaty پر دستخط کر کے قبول کیا- لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس دستاویز نے Jus Cogens کا درجہ اختیار کر لیا ہے- اس لیے اب کوئی ملک چاہے اس Treaty کا حصہ ہے یا نہیں اس ڈاکومنٹ میں موجود حقوق کو یقینی بنانا اس ملک پر قانونا ً لازم ہے-یعنی معاشرے و ممالک کی پریکٹس سےبین الاقوامی قوانین وجود میں آتے ہیں-

عین اسی طرز پر، سیدنا امام حسینؓ اور اہل بیت اطہارؓ کی تعظیم و تکریم اور انہیں ظلم وجبر کے خلاف مزاحمت کی علامت ماننا مسلم دنیا میں ایک ریاستی اور اجتماعی عمل (State Practice + Opinio Juris) کی حیثیت اختیار کر چکا ہے- ہر سال محرم الحرام کے موقع پر پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، ایران، عراق، لبنان، بحرین، آذربائیجان اور درجنوں دیگر اسلامی ممالک میں سرکاری سطح پر تعطیلات دی جاتی ہیں، سرکاری سیکورٹی کے زیر انتظام جلوس اور مجالس منعقد کی جاتی ہیں جو کہ سنی شیعہ سبھی منعقد کرتے ہیں ، اہلِ بیت اطہارؓ کی توہین پر بیشمار اسلامی ممالک میں قوانین و سخت سزا ئیں موجود ہیں، یہ سب ایک واضح، مسلسل اور منظم ریاستی عمل ہے- جس میں سیدنا امام حسینؓ کو ایک نظریاتی ہیرو کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے-سینکڑوں برسوں کی مسلسل State practice اورOpinio Juris کے مطابق تعظیمِ سیدنا امام حسینؓ مسلم دنیا کے لیے Jus Cogens کا درجہ رکھتی ہے-

دنیا میں ان تمام قوانین کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ دنیا میں ہمیشہ سے کچھ لوگ ایسے رہے ہیں جو فساد، انتشار اورتہذیبی حساسیتوں کو مجروح کرنے کے لیے معمولی مفادات کے تحت قصدا ً اشتعال انگیز عمل کرتے ہیں اور پھر جب ردعمل سامنے آتا ہے تو آزادی اظہار (Freedom of Expression)  کا سہارا لیتے ہیں- لیکن یہ بات واضح ہے کہ آزادی اظہار کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی فرد یا گروہ کو دوسروں کے مذہبی جذبات، تاریخی و ثقافتی ہیروز، یا اجتماعی عقائد کی توہین کرنے کا اختیار دے دیا جائے- بین الاقوامی سطح پر بھی freedom of expression کے حق کو limits کے ساتھ مشروط سمجھا جاتا ہے—جیسا کہ

 International Covenant on Civil and Political Rights (Article 19(3))

میں بھی درج ہے[14]کہ یہ آزادی دوسروں کے حقوق، مذہبی احترام اور امنِ عامہ کی حفاظت کے تحت محدود کی جا سکتی ہے- نیز Article 10(2) of the European Convention on Human Rights (ECHR)بھی آزادیِ اظہار رائے کے حق پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے تاکہ اس حق کی آڑ میں اخلاقیات، عزت، اور عوامی امن و امان کو نقصان نہ پہنچایا جائے-

اس کا واضح واقعہ فرانس کے میگزین Charlie Hebdo کا ہے، جہاں توہین آمیز خاکوں کے ذریعے دانستہ طور پر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی- بعد میں جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو میگزین اور اس کے حمایتی freedom of expression کی آڑ میں چھپنے لگے- حالانکہ یورپی یونین سمیت دنیا کے بیشتر قوانین میں بھی یہ اصول واضح ہے کہ right to insult, blasphemy یا hate speech کسی بھی صورت ’’آزادیِ اظہارِ رائے‘‘ کے دائرے میں نہیں آتے- ایسے لوگ دراصل ’’freedom of expression‘‘ کے قانون کو وہاں تک پڑھتے ہیں، جہاں تک انہیں فائدہ پہنچے - یہ طرزِعمل ان کی بُری نیت (Mens Rea) کو صاف ظاہر کرتا ہے - حضرت امام حسین کی بر حق جد و جہد پہ حرف اٹھانے والے لوگوں کی ذہنیت میں اور چارلی ایبڈو کی گستاخانہ اشاعتوں کے پسِ پردہ ذہنیت میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا-

قانون کا ایک عالمگیر اصول ہے جسے پاکستان اور دیگر ممالک کی عدالتوںمیں زیر عمل لایا جاتا ہے- جسے Res Judicata کہا جاتا ہے- اس کے مطابق ایک معاملے پر جب فیصلہ ہوجائے تو باربار اسی مسئلہ پردوبارہ کیس دائرنہیں کیا جاسکتا - کوئی اور لوگ کئی برسوں بعد بھی اسی سابقہ موضوع پر کورٹ میں کیس داخل نہیں کر سکتے - یہ اصول عمل میں نہ ہو تو فریقین ساری زندگی ایک ہی مسئلے پر لڑتے جھگڑتے رہیں اور کورٹ بھی ایک ہی مسئلہ کو بار بارسنتی رہے-مثلاً یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ حضور(ﷺ)خاتم النبیین ہیں- اب بار بار اس پر بحث کرنے کی اجازت نہیں ہے -نا ہی اس پر ہر وقت کسی ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو دلائل دینے کی ضرورت ہے- اس لیے کہ معاملہ طے ہوچکا ہے-قادیانی غیر مسلم ہیں- اس پر ہر سال نئے سرے سے بحث چھیڑنے یا تحقیق کھولنے کی ضرورت نہیں ہے- اس لیے کہ یہ معاملہ طے ہوچکا ہے-بعینہ حضرت امام حسین کا دینی، ثقافتی ، تہذیبی اور تاریخی طور پہ برحق ہونا اور "ہیرو" ہونا طے ہے- لہذا تحقیق کے لبادے میں اس پرنظر ثانی کی بحث چھیڑنا اصولِ قانون کے منافی ہے-

پاکستانی قوم متفقہ طور پر سیدنا امام حسینؓ کو اپنا ہیرو مانتی ہے اس لیے کسی شخص کو اجازت نہ ہے کہ وہ قوم کے ہیرو کی کردار کشی کرے یا ایسا مواد شائع کرے جس سے قوم کے جذبات مجروح ہوں - تاہم ایسے کسی بھی متنازع موادکے سامنے آنے پر اسے نظر انداز کرنے کی بجائے اس کے خلاف تین طرح سے قانونی کاروائی ہوسکتی ہے-

1- سوشل میڈیا پر اگر کوئی ویڈیو یا پوسٹ ہو تو اسے بطور Hateful Content Report کرنا چاہیے-

2- وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA)کے سائبر کرائم ونگ کو آن لائن شکایت درج کر وا سکتے ہیں- ایف آئی اے کی ویب سائٹ complaint.fia.gov.pk پر جا کر اکاؤنٹ بنائیں، واقعے کی تفصیل، لنکس، ویڈیو واسکرین شاٹس فراہم کریں اور شکایت جمع کر دیں- شکایت کا ٹریکنگ نمبر ملے گا جس سے آپ اپنی درخواست کی پیش رفت چیک کر سکتے ہیں-

3- اس ویڈیو یا پوسٹ کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے پاس محفوظ کریں- اس کا سکرین شاٹ لیں-قریبی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کے نام درخواست لکھیں- درخواست کے ساتھ ویڈیو یا تحریر کو ثبوت کے طور پریو ایس بی میں منسلک کریں- پولیس تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298-Aاور PECA 2016 کی دفعہ 11 کے تحت کارروائی کی پابند ہے-

٭٭٭


[1]“Presidents’ Day 2025 | GovInfo.” Accessed: Jun. 09, 2025. [Online]. Available:

https://www.govinfo.gov/features/presidents-day-2025

[2]“Martin Luther King Jr. Day - U.S. Embassy in Argentina.” Accessed: Jun. 09, 2025. [Online]. Available:

https://ar.usembassy.gov/martin-luther-king-jr-day/

[3]M. W. Dols, “Andrew S. Ehrenkreutz, Saladin (State University of New York Press, Albany, 1972). Pp. 290. $10.00.,” Int J Middle East Stud, vol. 4, no. 4, pp. 489–491, Oct. 1973, doi: 10.1017/S0020743800031147.

[4]“2. Genre and Eusebius’ Ecclesiastical History: Toward a Focused Debate, David J. DeVore - The Center for Hellenic Studies.” Accessed: Jun. 09, 2025. [Online]. Available: https://chs.harvard.edu/chapter/2-genre-and-eusebius-ecclesiastical-history-toward-a-focused-debate-david-j-devore/

[5]“ashura-pr-2024” Accessed: Jun. 14, 2025. [Online]. Available

https://cabinet.gov.pk/Detail/OTE2ODBiYmItZmI0MS00NDAwLWE5NGUtYmE1MGVjYzllMzAz

[6](الشورٰی:23)

[7](جامع ترمذی، رقم الحدیث: 3768)

[8]“(968) WAQIA KARBALA AUR PAIGHAM E HUSSAIN 18 08 2021 - YouTube.” Accessed: Jun. 10, 2025. [Online]. Available: https://www.youtube.com/watch?v=ZL87wHJLgyk&ab_channel=PTVNews

[9]“(968) HAMARAY HAIN HUSSAIN | 02 MUHARRAM | 09 07 2024 - YouTube.” Accessed: Jun. 10, 2025. [Online]. Available: https://www.youtube.com/watch?v=IgtIbQ_9gUQ&ab_channel=PTVNews

[10]“THE PAKISTAN PENAL CODE CONTENTS.”

[11]“BILL lo mqkr proviiions for prevenlion of eleclronic crimes.”

[12]“THE CONSTITUTION OF THE ISLAMIC REPUBLIC OF PAKISTAN NATIONAL ASSEMBLY OF PAKISTAN.”

[13]“International Covenant on Civil and Political Rights | OHCHR.” Accessed: Jun. 09, 2025. [Online]. Available: https://www.ohchr.org/en/instruments-mechanisms/instruments/international-covenant-civil-and-political-rights

[14]“International Covenant on Civil and Political Rights | OHCHR.” Accessed: Jun. 09, 2025. [Online]. Available: https://www.ohchr.org/en/instruments-mechanisms/instruments/international-covenant-civil-and-political-rights

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر