اہلِ سنت میں امام حسن وامام حسین(رضی اللہ عنہما) کا مقام: مختلف تاریخی ادوار کا مختصر مطالعہ

اہلِ سنت میں امام حسن وامام حسین(رضی اللہ عنہما) کا مقام: مختلف تاریخی ادوار کا مختصر مطالعہ

اہلِ سنت میں امام حسن وامام حسین(رضی اللہ عنہما) کا مقام: مختلف تاریخی ادوار کا مختصر مطالعہ

مصنف: باسط ضیاءشیخ جولائی 2025

ابتدائیہ:

اہلِ سنت اسلامی روایت کا علمی و روحانی بھی اور عددی اعتبار سے بھی سب سے بڑا طبقہ ہے جو تاریخی طور پر عقائد، فقہ اور روحانیت کے مختلف اور متنوع انداز کا حامل رہا ہے- قرآن مجید، رسول اللہ (ﷺ) کی سنت، اور چار بڑے فقہی مکاتبِ فکر، حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کی تشریحات پر قائم اہلِ سنت نےتفسیر و حدیث، فقہ، علمِ کلام اور تصوف کے درمیان ایک متحرک اور ہم آہنگ تعلق کو برقرار رکھا ہے- اسلام کا روحانی پہلو یعنی تصوف اہلِ سنت کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے جس نے مسلم معاشروں میں عبودیت اور اخلاقی طرزِ زندگی کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے -[1]

اہلِ سنت میں جن ہستیوں کو سب سے زیادہ عزت و احترام حاصل ہے، اُن میں حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ شامل ہیں- یہ دونوں عظیم شخصیات، رسول اللہ (ﷺ) کے نواسے ہیں، بنتِ رسول اللہ (ﷺ) حضرت سیدہ فاطمہ الزہرہ ؓ اور حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے صاحبزادے ہیں- ان دونوں ہستیوں کو بشاراتِ نبویہ (ﷺ)، اِن کے حسب و نسب، تقویٰ، اعلیٰ اخلاق اور عظیم قربانی کے باعث اعلیٰ مقام حاصل ہے- یہ مضمون حضراتِ حسنین کریمین ؓ سے متعلق اہلِ سنت کے تین تاریخی ادوار یعنی قبل از نوآبادیات، نوآبادیات اور بعد از نوآبادیات میں رجحانات اور ان میں تغیر کا جائزہ لے گا - اس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ سماجی و سیاسی دباؤ، نوآبادیاتی حکمتِ عملی اور جدید نام نہاد مصلحانہ (reformist) تحریکوں نے محبتِ اہلِ بیت کے روحانی و علمی ورثہ کے ساتھ اہلِ سنت کے تعلق کو کس طرح متاثر کیا -

نوآبادیاتی دور سے پہلے کا سُنی اسلام:

نوآبادیاتی دور سے پہلے کا زمانہ، جو تقریباً آٹھویں صدی عیسوی سے اٹھارہویں صدی عیسوی تک محیط ہے، اہلِ سنت کے فکری، ادارہ جاتی اور ثقافتی تنوع کے اعتبار سے ایک زرخیز دور تھا- چاروں فقہی مکاتب یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی دنیا کے مختلف خطوں میں رائج تھےاور اکثر اوقات ایک ہی ریاست میں بھی باہم موجود رہتے تھے- اجتہاد ، علمِ کلام اور تصوف دینی زندگی کے مربوط پہلوؤں کے طور پر ایک ساتھ موجود رہے- صوفی سلاسل، خصوصاً قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ ، سہروردیہ ، رفاعیہ اور شاذلیہ، روحانی اور سماجی و سیاسی اثر و رسوخ کے حامل تھے- ان سلاسل نے تعلیم، اجتماعی شناخت اور اخلاقی رویوں کو فروغ دیا -[2]

تصوف کا اہلِ سنت کے دینی طرزِ زندگی میں انضمام زمانہء تابعین سے شروع ہو کر امام الغزالی تک بامِ عروج پہ جا پہنچتا ہے–ان کی مشہور کتاب احیاء علوم الدین میں یہ مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ روحانی تطہیر کے بغیر محض ظاہری شریعت کی پیروی سے دین نامکمل رہتا ہے -[3]اس دور میں علماء (فقہاء) اور صوفی مشائخ کے مابین تعلق اکثر باہمی تعاون پر مبنی ہوتا تھا، جہاں تعلیم و تربیت اور فقہی رہنمائی کے میدانوں میں ان کے کردار ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے تھے- خانقاہیں اورصوفی زاویے حصولِ علم، خیرات بانٹنےاور سماجی یکجہتی کو فروغ دینے کے مراکز کے طور پر کام کرتے تھے جنہیں شرق تا غرب مسلم حکمرانوں کی طرف سے ایک مستحکم اور معاشرتی نظم قائم رکھنے والے اداروں کے طور پر نہایت احترام حاصل ہوتا تھا [4]- عامۃ الناس کے ساتھ ساتھ مختلف مملکتوں کے شہزادوں کو اخلاقی ، روحانی اور سماجی تربیت کیلئے صوفیائے کرام کی صحبتوں میں رکھا جاتا تھا -

قبل از نوآبادیاتی دور میں امام حسنؓ اور امام حسینؓ کا مقام:

اس دور میں امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو اہلِ سنت کی اجتماعی فکر میں کسی اختلافی رائے کے بغیر بلند مقام حاصل تھا- ان کا ذکر خطباتِ جمعہ میں، کتبِ عقیدہ ، تذکروں تاریخوں، ادبی تحاریر اور مذہبی شاعری میں کثرت سے ذکرکیا جاتا تھا، جہاں انہیں رسول اللہ (ﷺ) کی روحانی وراثت کا مظہر سمجھا جاتا تھا- حضرت امام حسنؓ کی طرف سے حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبرداری کو اہلِ سنت علماء نے بشارتِ رسول (ﷺ) کی حقانیت اور امتِ اسلامی کی عظیم ترین خیر خواہی و دور اندیشی کا عمل قرار دیا جس کا مقصد امتِ محمدیہؐ کا خانہ جنگی سے بچاؤ تھا - [5]دوسری جانب، امام حسینؓ کی شہادت کو کربلا میں ظلم و جبر کے خلاف حریت و بقائے اسلام کی ایک عظیم جد و جہداور فیصلہ کن قربانی کے طور پر یاد کیا جاتا تھا-

اہلِ سنت مؤرخین، جیسے امام ابن عساکر اور ابن کثیر نے واقعہ کربلا کو نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ قلمبند کیااور امام حسینؓ کے اخلاق ،وقار اور عظمت کو اجاگر کیا- حدیث کی مشہور کتب جیسے صحیح بخاری، میں وہ روایات شامل ہیں جن میں حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

’’حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں‘‘- [6]

کتبِ صحاح کی ایسی روایات نے اہلِ سنت میں امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے تقدس اور حرمت کو مزید مضبوط کیا-

صوفی شعراء جیسے مولانا جلال الدین رومی اور شیخ فریدالدین عطار نے واقعہ کربلا کو روحانی سفر کی تمثیل کے طور پر پیش کیا جہاں امام حسینؓ کی مزاحمت کو نفسِ امّارہ کے خلاف روح کی جدوجہد سے تعبیر کیا گیا- شہادتِ حسینؓ کو اہلِ سنت کی اکثریت والے خطوں، جیسے برصغیر پاک و ہند میں، عقیدت سے یاد کیا جاتا تھا اور محرم الحرام میں مدارس اور خانقاہوں میں شہدائے کربلا کے عرس اور ختم کی محافل منعقد کی جاتی تھیں [7]- بڑے بڑے اہلسنت علما و مشائخ نے حضرات حسنین کریمین کی مدحت و منقبت میں قصیدے ، مثنویاں اور دیگر اصنافِ سخن میں لازوال شاعری تخلیق کی - اس بات سے متصل یہ امر جاننا دلچسپی سے خالی نہیں کہ صوفی روایت کے اولین عظیم شعراء میں سلسلہ چشتیہ کے بانی خواجہ معین الدین اجمیریؒ ہیں جن کا مصرعہ اہلسنت کی زبانوں پہ محاورے کی طرح گردش کرتا ہے ’’سر داد نداد دست در دستِ یزید‘‘ - جبکہ اس صوفیانہ فارسی شعری روایت کے آخری عظیم شاعر علامہ اقبال ہیں جنہوں نے امام حسین کو سعیء حضرت موسیٰ کا تسلسل کہا اور یزید کو فرعونی روایت کا نمائندہ کہا -

نوآبادیاتی دور میں اہلِ سنت :

اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر سے جب یورپی استعمار نے مسلم سرزمینوں پہ قدم جمانا شروع کیا تو اس نے اسلامی معاشروں میں گہرا ارتعاش پیدا کیا- ہندوستان، شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں نوآبادیاتی طاقتوں نے اسلامی اداروں پر کنٹرول حاصل کرنے اور ان کی سمت تبدیل کرنے کی کوشش کی تاکہ سیاسی استحکام قائم رکھا جا سکے اور نوآبادیاتی تسلط کے خلاف کسی بھی ممکنہ مزاحمت کو روکا جا سکے -[8]

مثال کے طور پر برصغیر میں برطانوی حکومت نے اُن سخت گیرنام نہاد اصلاح پسند اسلامی تحریکوں کی حمایت کی جو لوتھرانیت (Lutheranism) سے متاثر ہو کر متن کی ظاہریت اور قانونی شدت پسندی پر زور دیتی تھیں، کیونکہ ایسے رجحانات نوآبادیاتی طرزِ حکمرانی سے ہم آہنگ تھے- ان تحریکوں نے عوام میں معروف تصوف اور اُن اقدار سے خود کو الگ کر لیا جو نظریاتی طور پر عوام کو مجتمع اور متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں - [9]اس کے متبادل میں ان نام نہاد مصلحانہ تحریکوں کو ریاست کی منظور شدہ دینی درسگاہوں، عدالتی عہدوں، منظم تحریکی ڈھانچوں اور طباعت و نشر و اشاعت کے ذرائع تک رسائی حاصل ہوئی-

نوآبادیاتی مداخلت کے ردِ عمل اور حضرت امام حسین کے درسِ حریت کے تسلسل میں مختلف صوفی سلاسل مزاحمت کے مراکز بن گئے- ہندوستان میں اس کی سب سے نمایاں مثال 1857 ءکی جنگِ آزادی ہے، جسے عام طور پر پہلی جنگِ آزادی قرار دیا جاتا ہے- مولانا فضلِ حق خیرآبادی، جو ایک جید صوفی عالمِ دین تھے، انہوں نے مزاحمت کا فتویٰ جاری کیا اور شمالی ہندوستان بھر میں عوامی حمایت کو منظم کیا اور انہوں نے برطانوی راج کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دیا- اسی طرح سندھ میں قادریہ سلسلہ سے تعلق رکھنے والے تیسرے پیر پگارا، حضرت حزب اللہ شاہ راشدی نے سنہ 1880 میں برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی- مختلف سلاسل سے وابستہ صوفیاء نے مسلمانان ہند کی آزادی کیلئے کربلا کے واقعے سے مزاحمت کا سبق اخذ کیا اور عملی جد و جہد کی -

اسی دوران، صوفیاء کی قیادت میں ہونے والی مزاحمت نوآبادیاتی حکومتوں کیلیے ایک حقیقی خطرہ بن گئی- شیخ الحدّاد کی قیادت میں الجزائر میں 1871 کی رحمانیہ بغاوت کو فرانسیسی حکومت کی جانب سے قتل عام اور صوفیاء کی املاک کی ضبطگی کے ذریعے انتہائی سفاکی سے کچلا گیا -[10] اس سے پہلے، باکمال اور بااثر رہنما اور صوفی شیخ، امیر عبدالقادر الجزائری نے 1832 میں فرانسیسی استعمار کے خلاف ایک منظم اور متحدہ مزاحمت کی قیادت کی- انہوں نے قادریہ صوفی سلسلے کی روحانی روایت اور قبائلی اتحاد پر انحصار کرتے ہوئے اسلامی اصولوں پر مبنی ابتدائی ریاست قائم کی- تاہم، 1847ء میں انہیں جلاوطنی پر مجبور کیا گیا- ان کی قیادت میں عسکری مہارت کے ساتھ ساتھ تصوف میں گُندھی اعلیٰ اخلاقی اور روحانی وابستگی بھی نمایاں تھی -[11]

لیبیا میں سنوسی سلسلے نے عمر مختار کی قیادت میں اطالوی استعمار کے خلاف مسلسل مزاحمت کی جو 1931ء میں عمر مختار کی شہادت پر اختتام پذیر ہوئی - [12]صومالیہ میں، برطانوی اور اطالوی افواج نے درویش تحریک پر شدید حملے کیے، جس کی قیادت شاعر اور جنگجو سید محمد عبداللہ حسن کر رہے تھے جنہوں نے صوفیانہ خطابت کو مزاحمتی تحریک کا ذریعہ بنایا -[13] قفقاز کے علاقے میں نقشبندی صوفی رہنما امام شامل نے داغستان اور چیچنیا میں روسی سامراجی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف کئی دہائیوں پر مشتمل گوریلا جنگ کی قیادت کی، جہاں انہوں نے دینی اتھارٹی کو عسکری حکمتِ عملی کے ساتھ جوڑ کر عوامی مزاحمت کو منظم کیا -[14]

امام حسنؓ اور امام حسینؓ کا مقام: نوآبادیاتی اثرات

نوآبادیاتی حکمران ایسی مذہبی علامات سے چوکنا رہتے تھے جو عوام میں بغاوت کے رحجانات کو جنم دے سکتی تھیں- امام حسینؓ کی شہادت، جو ظلم کے خلاف حق پر مبنی مزاحمت کی علامت تھی، انہیں سیاسی طور پر بغاوت انگیز محسوس ہوتی تھی- چنانچہ برطانوی حکام نے ہندوستان میں محرم الحرام کے معمولات پر پابندیاں عائد کیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور نوآبادیاتی حکومت کے خلاف جذبات ابھرنے کا خدشہ تھا -[15]

نوآبادیاتی پالیسیوں نے صوفیانہ معمولات و روایات کو دبانے کی کوشش کی جن میں فضائل و مناقبِ اہلبیت اور مزارات پر عرس اور ختم کی صورت میں ادا کی جانے والی متعلقہ رسومات شامل تھیں- نام نہاد اصلاح پسند علماء، جن میں سے بعض نوآبادیاتی سرپرستی میں تھے، انہوں نے نوآبادیاتی ایجنڈا ’’لوتھرانیت‘‘ کے تحت ایسی صوفیانہ روایات کو بدعت قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا نتیجتاً ایک اہم نظریاتی تبدیلی آئی جس نے ’’مین اسٹریم‘‘ سنّی اسلام کو اہلِ بیت سے وابستہ عوامی مذہبی رجحان سے الگ کرنا شروع کیا -[16]

نوآبادیاتی نصاب میں حضرت امام حسینؓ جیسی تاریخی شخصیات کو اکثر نظرانداز کیا گیا اور جہاں نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا وہاں غیر اہم انداز میں پیش کیا گیا- ان حکمتِ عملیوں سے اہلسنت تدریس و تعلیم اور عوامی یادداشت کو ان ہستیوں کے انقلابی اور اخلاقی پہلوؤں سے دانستہ طور پہ دور کرنے کی کوشش کی گئی -

نوآبادیاتی دور کے بعد سنّی اسلام:

آزادی کے بعد مسلم معاشروں میں نظریاتی تقسیم پیدا ہوئی- سیکولر قوم پرستی، سیاسی اسلام اور سخت گیر نام نہاد مصلحانہ تحریکیں مذہبی شناخت کو تشکیل دینے کے لیے باہم متصادم ہو گئیں- کئی ریاستوں میں اسلامی اداروں کو یا تو قوم پرست حکومتوں نے اپنے ماتحت کر لیا یا انہیں دیوار سے لگا دیا- اس دوران بہت سے ممالک اور تحاریک اشتراکیت کے نظریات سے بھی متاثر ہوئے- نیو امپیرئیل فورسز کے نظریات بہت سی جگہوں پہ سبقت لے گئے- ایسے میں اشتراکیت بمقابلہ سرمایہ داری، جمہوریت بمقابلہ دیگر رائج نظام کے مباحث معاشروں میں حاوی ہو گئے اور اصل نظریات سے توجہ ہٹنے لگی-

ایک اور اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ تیل سے دریافت شدہ نودولتی وسائل کو بڑے پیمانے پر نشر و اشاعت کے ذریعے انتہا پسندانہ نظریات اور حسینی مزاحمت کے استعارے کی مخالفت کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا - اس مابعد نو آبادیاتی نظریاتی رجحان نے تصوف اور اس کی کئی اقدار کی تکفیر کی -’’سرد جنگ‘‘ کی پیدا کردہ صورتحال میں جو عالمی اتحاد بنے ان میں نوآبادیاتی عہد میں اسلامی ممالک میں پروان چڑھائی گئی ’’لوتھرانیت‘‘ایک بار پھر سابقہ دوستوں کی صف میں کھڑی ہو گئی ، جس کا اظہار امریکہ کی سابق سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن بھی کر چکی ہیں - جس کے نتیجے میں دنیائے اسلام کے مختلف خطوں اور ممالک میں ایک اقلیتی تعداد پیدا ہوئی جو اہلسنت کے مرکزی دھارے کی اہلبیت خاص کر حضراتِ حسنین کریمین (رضی اللہ عنھم) سے تاریخی و غیر متزلزل محبت کرنے والوں کے خلاف رائے رکھتی تھی - [17]

تاہم بحیثیت مجموعی صوفی روایات عوامی عقائد اور ثقافتی ورثے میں برقرار رہیں- جنوبی ایشیا میں کئی روایتی سنّی تحریکوں نے صوفی عقیدت سے وابستہ اقدار و روایات کو جاری رکھا اور امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی مؤدت میں علمی و عوامی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں- اگرچہ محرم الحرام میں اہلسنت کے بڑے بڑے علمی و روحانی مراکز پہ شہدائے کربلا کے ختم اور عرس کی تقریبات کو شدت پسندوں کی جانب سے چیلنج کیا گیا، لیکن یہ تقریبات آج بھی بہت سے علاقوں میں سنّی مذہبی زندگی کا اہم حصہ ہیں -[18]

نام نہاد مصلحانہ تحریکوں سے متاثر سیاسی دینی جماعتوں نے ابتدا میں نظریاتی تجدید اور حکومت پر توجہ مرکوز رکھی، لیکن بعد میں ملوکیت کی حمایت کیلئے کربلا کے مزاحمتی استعارے کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا – اور عالمِ اسلام کی اہل بیتِ رسول (ﷺ) خاص کر حضرت امام حسینؓ سے لازوال محبت کو ’’منظم طریقہ کار‘‘ کے تحت کم کرنے کا فرسودہ بیانیہ تشکیل دیا اور اس کی نشر و اشاعت پہ بے تحاشہ وسائل پانی کی طرح بہائے -

نوآبادیاتی دور کے بعد امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی حیثیت:

عصرِ حاضر میں ’’مرکزی دھارے‘‘ کے سنّی بیانیے میں امام حسنؓ اور امام حسینؓ سے وابستگی مجموعی طور پہ برقرار ہے، اگرچہ اس میں علاقائی اور مسلکی سطح پر (اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ) اقلیتی نوعیت کا فرق پایا جاتا ہے - نوآبادیاتی دور کے اثرات اب بھی نظر آتے ہیں- ان ریاستوں میں جو سخت گیر مصلحانہ فکر سے متاثر ہیں، وہاں ان ہستیوں کیلئے عوامی عقیدت کے اظہار کو محدود کر دیا گیا ہے اور نصابی کتب میں ان کی زندگیوں کا ذکر نہایت مختصر انداز میں کیا جاتا ہے- حتیٰ کہ علامہ محمد اقبال کے فارسی مجموعہ کا جب عربی زبان میں ترجمہ شائع کیا گیا تو اس میں سے وہ نظمیں خارج کر دی گئیں جو حضرت علی ابن ابی طالب، بنت رسول اللہ (ﷺ) حضرت سیدہ فاطمہ الزہرہ اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنھم)  کے بارے علامہ اقبال نے لکھی تھیں - [19]

اس کے برعکس، صوفی تربیت رکھنے والے معاشروں میں ان بابرکت شخصیات کی یاد روحانیت، شاعری اور خدمتِ خلق میں رچی بسی ہوئی ہے- امام حسینؓ کا کربلا میں قیام اعلیٰ کردار اورقربانی کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے، جبکہ امام حسنؓ کی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے صلح اور مفاہمت کی کوششوں کو تنازعات کے حل سے متعلق بیانیوں میں بطور مثال پیش کیا جاتا ہے-

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور علمی حلقوں نے اہلِ بیت کو اتحاد کے موجب ورثے کے طور پر دوبارہ توجہ کا مرکز بنا دیا ہے- سنّی علماء اب امام حسینؓ کی مزاحمت کو جدید اخلاقی اور سیاسی مسائل کے حل میں تعلیمی لحاظ سے مؤثر تسلیم کرتے ہیں- کانفرنسز، آن لائن لیکچرز اور بین المسالک مکالمے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ان ہستیوں کی اخلاقی عظمت پر ایک نیا اجماع ابھر رہا ہے-

اختتامیہ :

قبل از نوآبادیاتی دور کی ہم آہنگ فقہی روایات اور روحانیت سے لے کر، نوآبادیاتی دور میں صوفی اداروں کو دیوار سے لگا کر سنّی اعتقادات میں مداخلت، انقلابی علامتوں کے استعمال اور سخت گیر مسلکیت کی حمایت تک اور بعد از نوآبادیاتی دور میں نبردآزما مگر پائیدار عقیدت کے اظہار تک، امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے ساتھ سنّی اسلام کے تعلق کا سفر وسیع تاریخی تغیرات کی عکاسی کرتا ہے- اگرچہ اہلِ بیت سے محبت سنّی عقیدے کی پہچان ہے، تاہم اس کے اظہار کی صورتیں طاقت کے ڈھانچوں، تعلیمی اصلاحات اور نظریاتی رجحانات کے زیرِ اثر تشکیل پاتی رہی ہیں-

امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے اخلاقی اور روحانی ورثے کو دوبارہ مکمل طور پہ اپنانا اہلسنت کو ایک ایسا راستہ فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ تقسیم سے بلند ہو سکتے ہیں، اخلاقی قیادت کو زندہ کر سکتے ہیں اور عدل و انصاف اور صلہ رحمی کے اپنے عزم کو مضبوط بنا سکتے ہیں - اس کے لیے تاریخی تجزیے کے ساتھ ساتھ اِن دونوں عظیم شخصیات کو سنّی تعلیم و تربیت اور اجتماعی زندگی کے مرکز میں دوبارہ شامل کرنے کی مسلسل شعوری کوشش بھی بہت ضروری ہے-

٭٭٭


[1]Ernst, C. (1997) The Shambhala Guide to Sufism. Boston: Shambhala.

[2]Trimingham, J. S. (1971) The Sufi Orders in Islam. Oxford: Oxford University Press.

[3]Ghazali, A. H. M. (2001) The Revival of the Religious Sciences (Ihya Ulum al-Din), trans. by N. A. Faris. Lahore: Ashraf Press.

[4]Berkey, J. (2003) The Formation of Islam: Religion and Society in the Near East, 600–1800. Cambridge: Cambridge University Press.

[5]Ibn Kathir, I. (2003) Al-Bidaya wa’l-Nihaya. Beirut: Dar al-Fikr.

[6]Al-Bukhari, M. I. (1997) Sahih al-Bukhari, Beirut: Dar Ibn Kathir.

[7]Schubel, V. (1993) Religious Performance in Contemporary Islam: Shi’i Devotion in South Asia. Columbia: University of South Carolina Press.

[8]Metcalf, B. D. (1982) Islamic Revival in British India: Deoband, 1860–1900. Princeton: Princeton University Press

[9]Zaman, M. Q. (2002) The Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change. Princeton: Princeton University Press.

[10]Ruedy, J. (2005) Modern Algeria: The Origins and Development of a Nation. 2nd ed. Bloomington: Indiana University Press.

[11]Ruedy, J. (2005) Modern Algeria: The Origins and Development of a Nation. 2nd ed. Bloomington: Indiana University Press.

Abu-Rabi', I. (2003). “Emir Abdelkader and the Islamic Ideal of Coexistence.” Islamic Studies, 42(4), pp. 621–640.

[12]Anderson, L. (1986) The State and Social Transformation in Tunisia and Libya, 1830–1980. Princeton: Princeton University Press.

[13]Samatar, S. S. (1989) Oral Poetry and Somali Nationalism: The Case of Sayyid Mahammad Abdille Hasan. Cambridge: Cambridge University Press.

[14]Gammer, M. (2006). The Lone Wolf and the Bear: Three Centuries of Chechen Defiance of Russian Rule. London: Hurst. (for Imam Shamil)

[15]Robinson, F. (1975) ‘The British Empire and Muslim Identity in South Asia’, Modern Asian Studies, 9(3), pp. 271–287.

[16]Green, N. (2012) Terrains of Exchange: Religious Economies of Global Islam. London: Hurst.

[17]Meijer, R. (ed.) (2009) Global Salafism: Islam’s New Religious Movement. London: Hurst.

[18]Sanyal, U. (1996) Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Riza Khan Barelwi and His Movement, 1870–1920. Oxford: Oxford University Press.

[19]سید عبد الماجدالغوری، ’’ديوان محمد اقبال،الاعمال الكاملہ ‘‘،(دار ابن کثیر، دمشق-بیروت)1432ھ -

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر