حصہ اول:
بغاوت: لغوی و اصطلاحی مفہوم
’’بغاوت‘‘ عربی مصدر ’’البغی‘‘ سے مشتق ہے- لغوی اعتبار سے ’’بغی‘‘ کے دو بنیادی مفہوم پائے جاتے ہیں: طلب اور جستجو (یعنی کسی چیز کا خواہاں ہونا)
تعدّی اور ظلم (یعنی حد سے تجاوز کرنا یا زیادتی کرنا)-
فقہاء کی اصطلاح میں ’’بغاوت‘‘ سے مراد ایسی حکومت کے خلاف مسلح خروج کرنا ہے جو ’’شریعت یا مروجہ آئینی اصولوں‘‘ کے تحت جائز طور پر قائم ہوئی ہو اور جس کی اطاعت مسلمانوں پر لازم ہو- اس تناظر میں بغاوت صرف نافرمانی نہیں بلکہ ایک منظم اور مسلح مخالفت ہوتی ہے جو ریاستی نظم کو چیلنج کرتی ہے-
اسلامی روایت میں ریاست اور قیادت کی اصطلاحات:
اسلامی علمی ذخیرے، جیسے کہ حدیث، تفسیر، فقہ اور علمِ عقائد کی بنیادی کتب میں مسلم ریاست، حکومت اور اجتماعی نظم کے لیے جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، وہ محض الفاظ نہیں بلکہ ایک ’’مکمل فکری نظام‘‘ کی عکاس ہیں-ریاستی و اجتماعی نظام کیلیے عموماً ’’جماعت‘‘ اور ’’امارت‘‘ جیسے الفاظ اختیار کیے گئے،جبکہ حکمران کے لیے ’’خلیفہ‘‘، ’’امیر‘‘ اور ’’امام‘‘ جیسے الفاظ استعمال ہوتے رہے ہیں، جو نہ صرف سیاسی قیادت بلکہ ’’دینی و اخلاقی راہنمائی‘‘ کے منصب کو بھی ظاہر کرتے ہیں-اسی مفہوم کوآقا کریم (ﷺ) نے ایک حدیث میں نہایت واضح انداز میں بیان فرمایا:
’’من خرج من الطاعة، وفارق الجماعة، فمات، مات میتة جاهلية ‘‘
’’جو شخص حکمران کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہو گیا، پھر اسی حالت میں مر گیا تو اُس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘-
یہ ارشادِ نبوی اس امر کی صراحت کرتا ہے کہ اجتماعی نظم اور قیادت کی اطاعت صرف سیاسی تقاضا نہیں بلکہ ایک ’’دینی فریضہ‘‘ بھی ہے-خلافت کا تصور ایک ایسے نظامِ حکومت کا ہے جو فقط سیاسی انتظام و انصرام تک محدودنہ ہو بلکہ ’’دینی قیادت‘‘ کا بھی ترجمان ہو –
گو کہ زیر نظر مضمون کے موضوع سے الگ ایک مکمل بحث ہے لیکن یہاں اس سے صرف ایک سوال ضرور توجہ چاہتا ہے کہ جس امیر کی اطاعت اور بیعت سے حضرت امام حسین نے انکار کیا ، کیا اس کی حکومت "اسلامی" تھی؟ اور کیا حدیث میں بیان کردہ اصطلاحات کا مستحق وہ کسی طور بن سکتا ہے جس نے یہ کارہائے سیاہ سرانجام دیئے ہوں:
- حضرت رسول اللہ (ﷺ) کےخانوادے کا سفاکانہ قتلِ عام
- قرآن کی متعدد آیات بشمول آیتِ مباہلہ اور آیتِ مودت کے مصداق اور حدیثِ صحیح کے مطابق جس شخص کو رسول اللہ (ﷺ) نے شبابِ اہلِ جنت کی بشارت دی ہو اس شخص کے سرِ اقدس کی بد ترین توہین کرنا
- خاندانِ نبوت کی قابلِ تحریم و تکریم بیبیوں کو قیدی بنانا اور صعوبتوں میں رکھنا
- سید العرب، افضل النسب حضرت رسول اللہ (ﷺ) کے نسب شریف کا تمسخر اڑانا
- جن حرمین کی حدود میں شکار اور درخت کاٹنا منع ہو ان حرمین الشریفین میں قتل و غارت کروانا
- حرمتِ مدینہ کو پامال کرنا ، مسجد نبوی میں گھوڑے خچر بندھوانا ، کئی دن تک مسجد نبوی میں اذان بند رکھوانا
- مکۃ المکرمہ پہ حملہ ، عمارتِ کعبہ کو نقصان پہنچانا اور غلافِ کعبہ کا جل جانا
کیا ایسے امور کی مرتکب حکومت ’اسلامی حکومت‘ کہلانے کی مستحق ہے؟ اور ایسے حکمران کو ’’جائز حکمران‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب اہلسنت سنت و جماعت کی چوتھی فقہ کے بانی حضرت امام احمد ابن حنبل کی رائے سے معلوم ہوتا ہے جسے مقدسی نے الآداب الشریعہ میں اور شیخ الاسلام ابن حجر ہیثمی نے الصواعق المحرقہ میں نقل کیا ہے کہ جب ان کے بیٹے عبد اللہ ابن احمد نے یزید کے بارے سوال کیا تو امام احمد نے فرمایا :
’’میرے بیٹے! کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرے اور پھر یزید سے بھی دوستی رکھے اور ایسے شخص پر میں (یعنی احمد ابن حنبل) لعنت کیوں نہ کروں جس پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود لعنت فرمائی ہو ‘‘–
فرزند نے عرض کیا : قرآن میں کس جگہ اس پر لعنت ہوئی ہے ؟
امام احمد نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں
’’فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَ اَعْمٰٓی اَبْصَارَہُمْ‘‘[1]
’’تو کیا تمہارے یہ لچّھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللّٰہ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ‘‘-
کیا رسول اللہ (ﷺ) کے نواسے حسین ابن علی کے قتل سے بڑھ کر بھی کوئی فساد ہو سکتا ہے؟ ‘‘
اختصار کے پیشِ نظر اتنے پہ اکتفا کرتے ہوئے زیر نظر مضمون کے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں -
فقہاء کی نظر میں بغاوت اور باغی :
فقہائے احناف میں ایک قابل قدر نام علامہ ابن ہمام ؒ ہے جن کے مطابق، آئینی و قانونی طور پر قائم حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے کو ’’باغی‘‘ کہا جاتا ہے اور بغاوت کرنے والوں کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے:
1- راہزن اور لٹیرے: وہ لوگ جو (اسلامی) حکومت کی اتھارٹی کے خلاف خروج کرتے ہیں، عوام کا مال لوٹتے، قتل کرتے اور راستے بند کرتے ہیں- ان پر ’’راہزن‘‘ (محارب) کا حکم لاگو ہوتا ہے-
2-تاویلی راہزن: وہ لوگ جو حکومت (آئینی و قانونی) کے خلاف غلط دینی جواز (تاویل) کے ساتھ بغاوت کرتے ہیں، مگر ان کے پاس قوت نہیں ہوتی- ان کا حکم بھی راہزنوں جیسا ہے: اگر قتل کریں تو قتل کیے جائیں، اور اگر مال لوٹیں تو شرعی سزائیں دی جائیں-
3- خوارج: وہ جن کے پاس قوت، اجتماع اور جنگی تیاری ہو اور کسی مذہبی تاویل کی بنیاد پر (اسلامی) حکومت کو باطل سمجھ کر اس سے ٹکر لیں- ان سے قتال واجب ہے-
4- باغی: وہ جو (اسلامی) حکومت کے خلاف مسلح اقدام کریں، مگر خوارج کی طرح قتلِ مسلم یا اموال و عورتوں کو حلال نہ سمجھیں- یہ ’’باغی‘‘ کہلاتے ہیں-
علامہ ابن عابدینؒ الحنفی کے نزدیک باغی کی تعریف:
علامہ ابن عابدین کے مطابق ’’باغی‘‘ اُس گروہ کو کہا جاتا ہے جو ’’مضبوط ٹھکانوں‘‘ اور ’’واضح طاقت‘‘ کے بل پر ’’منظم ‘‘ہو کر ’’اسلامی کی ریاست‘‘ کے خلاف جنگ کرتا ہے- وہ ایک خاص فکری یا دینی تاویل پریہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہی حق پر ہے اور حکومت کا اصل حقدار بھی وہی ہے-
فقہائے مالکی میں سے امام محمد بن احمد بن جُزَی الکلبی الغرناطی اپنی کتاب القوانین الفقہیۃ میں فرماتے ہیں کہ:
’’باغی وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود ساختہ دینی یا فکری تاویل کی بنیاد پر "مسلم ریاست" کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں، وہ ان فرائض کی ادائیگی بھی نہیں کرتے جو ایک پُرامن شہری پر لازم ہوتے ہیں، جیسے زکوٰۃ یا دیگر شرعی واجبات‘‘-
علامہ زکریا انصاری الشافعی کے مطابق:
’’باغی وہ لوگ ہیں جو کسی باطل یا غلط فکری تاویل کا سہارا لے کر، اپنی طاقت و قوت کے بل پر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں- ایسے باغیوں کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے تاکہ ریاستی نظم قائم رکھا جا سکے‘‘-
مزید یہ کہ:
’’خوارج وہ گروہ ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتا ہے اور مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے- تاہم، ان کے خلاف اس وقت تک قتال (جنگ) نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ خود جنگ چھیڑ نہ دیں‘‘-
حنبلی فقہاء میں سے امام ابن ہبیرہؒ نے ’’باغیوں‘‘ کی تعریف یوں کی ہے کہ:
’’تمام ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی طاقتور اور منظم گروہ کسی قابلِ تاویل شبہے کی بنیاد پر ’’اسلامی حکومت‘‘ کی اطاعت سے نکل جائے، تو ایسے گروہ کے خلاف قتال جائز ہے، تاوقتیکہ وہ دوبارہ حکومتی نظم و اطاعت کو تسلیم نہ کر لیں-ابن ہبیرہ رحمہ اللہ کا یہ اقتباس اسلامی سیاسی فقہ کے ایک اہم اصول کو بیان کرتا ہے، یعنی:اگر کوئی منظم اور طاقتور گروہ تاویلی بنیاد پر حکومت کی رٹ (writ) کو چیلنج کرے، تو ’’اسلامی ریاست‘‘ کو اختیار ہے کہ وہ اس کے خلاف اقدام کرے‘‘-
فقہی اصطلاحات کی روشنی میں بغاوت کے اقدام اور اصول:
فقہی اصطلاحات میں ’’راہزن‘‘ (محارب)، ’’تاویلی راہزن‘‘، ’’خوارج‘‘ اور ’’باغی‘‘ کے جو تصورات سامنے آتے ہیں، ان سب میں ایک بنیادی عنصر مشترک ہے: ریاستی نظم کے خلاف مسلح بغاوت، عوام کے مال و جان کو نقصان پہنچانا، یا ریاست کے خلاف جنگی اقدام- (حکومت سے اختلاف رکھنا بغاوت نہیں ) فقہاء کی تعریف کے مطابق باغی وہ ہے جو :
- جو قوت اور ٹھکانوں کا مالک ہو
- عوام کو نقصان پہنچائے
- ریاست کے خلاف منظم طور پر ہتھیار اٹھائے
- کسی فکری یا دینی تاویل کی بنیاد پر حکومت (ریاست) کا انکار کرےاور اپنی طاقت کے بل پر کھڑا ہو اور خود کو اقتدار کا اصل حقدار سمجھے
- ریاستی فرائض سے انکار جیسے زکوۃ وغیرہ ادا نہ کرنا
اب اگر فقہاء کی تعریف کی روشنی میں بغاوت کو حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے اقدام پر منطبق کرنے کی کوشش کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ آپؓ ان میں سے کسی بھی تعریف کے تحت ’’باغی‘‘ یا ’’محارب‘‘ قرار نہیں دیئے جا سکتے-
امام حسین(رضی اللہ عنہ) نے عوام کا مال یا جان نقصان نہیں پہنچایا :
فقہی طور پر جو لوگ قتل، لوٹ ماراور دہشت پھیلائیں، وہ ’’محارب‘‘ یا ’’راہزن‘‘ کہلاتے ہیں- امام حسین(رضی اللہ عنہ) کا کردار سراسر قربانی، صبراور عدمِ تشدد پر مبنی تھا- آپؓ نے کسی شہری، کسی قافلے، کسی سپاہی کو نقصان نہیں پہنچایا-
آپؓ کے ساتھ کوئی مسلح ریاستی قوت یا منظم لشکر نہ تھا
فقہاء کے مطابق ’’باغی‘‘ وہ ہوتا ہے جس کے پاس منظم لشکر، افرادی قوت اور ٹھکانے ہوں- امام حسین (رضی اللہ عنہ)کے ساتھ تو صرف چند اہلِ بیت اور اصحاب تھے- آپؓ نے کربلا پہنچ کر نہ جنگ کی ابتدا کی، نہ کسی حملے کا حکم دیا تھا -
بغاوت کی تعریف پر فقہی نقطہ نظر سے ایک طائرانہ جائزہ :
شرط |
فقہی تعریف |
حضرت امام حسینؑ |
ریاست کے خلاف منظم اور طاقتور گروہ |
ہاں |
ریاست کے خلاف کوئی گروہ نہ تھا |
ہتھیار اٹھانا یا پہل کرنا |
ہاں |
آپؑ نے پہل نہیں کی بلکہ آپؑ پر جنگ مسلط کی گئی |
حکومتی نظم کو توڑنا |
ہاں |
آپؓ نے کوئی ریاستی نظم نہیں توڑا اس کے باوجود کہ یزید کو حکمران نہیں مانتے تھے |
شہری فرائض و دینی امور سے انکار |
ہاں |
آپؑ نے کسی بھی ذمہ داری اور فرض سے انکار نہیں کیا |
فکری تاویل کے تحت خروج |
ہاں |
آپؑ نے کوئی فکری تاویل پیش نہیں کی بلکہ فرمایا کہ میں ظلم و فساد کیلئے نہیں اصلاح امت کیلئے نکلا ہوں اور یزید کی بیعت نہیں کر سکتا- |
اہلِ سنت کے جلیل القدر فقہاء جیسے امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ کے ہاں ایسی حکومت جو ظالم، فاسق اور شریعت کے خلاف ہو، اس کی اطاعت واجب نہیں- یزید کی حکومت کو تو خود صحابہ، تابعین اور علماء کی اکثریت نے قبول نہ کیا- اس لیے امام حسینؓ کا اس سے انکار بغاوت نہیں بلکہ شرعی غیرت کا مظہر تھا-
(حصہ دوئم)
ادراکی نقطہ ِنظر (Cognitive Theory)
ادراکی نقطہ نظر انسانی سوچ اور فیصلہ سازی کے بارے میں نفسیات کو بنیاد بناتا ہے- یہ طریق مانتا ہے کہ افراد اپنے ماحول کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں اور اپنے مخصوص ’’نفسیاتی ماحول‘‘ کے اندر رہ کر عمل کرتے ہیں- اس کے مطابق ہر فرد اپنی نشوونما کے دوران مادی اور سماجی ماحول کے بارے میں عقائد اور ذاتی تصورات کا ایک مجموعہ قائم کرتا ہے- یہ عقائد اسے ایک نسبتاً مربوط طریقہ سے اردگرد کے ماحول سے حواس کے ذریعے حاصل ہونے والے مختلف اشاروں اور علامات (حالات و واقعات ) کو سمجھنے اور منظم کرنے میں معاون ہوتے ہیں-دوسرے الفاظ میں، ’’ادراک‘‘ (cognition) یعنی ذہن کے اندر جاری عمل، وہ عقائد اور تصورات پیدا کرتا ہے جو ہمیں اپنے ماحول کو سمجھنے اور اس کا مطلب اخذ کرنے کے قابل بناتے ہیں- یہ مطلب ہمارے اپنے تجربات اور عقائد پر مبنی ہوتے ہیں -
حضرت امام حسین ؓکا ادراکی تناظر
(Cognitive Environment):
حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)نے جو مؤقف اختیار کیا، وہ ان کے ذاتی عقائد، دینی شعور، اخلاقی بصیرت اور اسلامی سیاسی اصولوں کی گہری بنیاد پر تھا- ان کا ادراک یہ تھا کہ:
- یزید کی حکومت( عملاً ) اسلامی اقدار اور خلافتِ راشدہ کے اصولوں سے انحراف کر چکی ہے-
- اقتدار شخصی مفاد، ظلم، بدعنوانی اور دین کے استحصال کا ذریعہ بن چکا ہے-
- ایک فاسق حکمران کی بیعت کرنا، دین کی روح کے خلاف ہے-
حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے لیے یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہ تھا، بلکہ ایک اخلاقی اور دینی ذمہ داری تھی جس کا تعلق حق و باطل کی تمیز سے تھا- ان کا ’’نفسیاتی ماحول‘‘ (psychological environment) رضائے الٰہی، رسول اکرم (ﷺ) کی سنت، امن کا حصول ، دنیا سے بے رغبتی اور شہادت کی عظمت سے تشکیل پایا تھا-اس کے برعکس یزید کے فیصلے اور طرزِ حکومت، غالباً طاقت، اقتدار کے تحفظ، سیاسی جبر اور ملوکانہ و آمرانہ سوچ پر مبنی تھے- اس کا ’’ادراک‘‘ یہ تھا کہ:
- اقتدار کو بچانے کیلئے کسی بھی طرح کی مخالفت کو دبانا ضروری ہے-
- سید العرب افضل النسب پیغمبرِ اسلام (ﷺ) کے نواسے حضرت امام حسینؓ کی مقبولیت ایک سیاسی خطرہ بن سکتی ہے، جسے روکا جانا چاہیے-
اس کے ’’ادراکی ماحول‘‘ میں اقتدار کی مرکزیت، ذاتی مفاد اور خوف پر مبنی فیصلہ سازی نمایاں تھی جو کہ Cognitive theory کے مطابق ایک مخصوص ذہنی فریم ورک کا نتیجہ ہوتی ہے-
پہلو |
امام حسین (رضی اللہ عنہ) |
یزید |
ادراکی بنیاد |
دینی، اخلاقی، روحانی، اجتماعی اور شریعت |
جابرانہ سیاسی، شخصی اور بدعت و الحاد |
فیصلہ سازی کا محرک |
حق کا قیام، دین کی بقا |
اقتدار کا تحفظ، جبری بیعت و اطاعت |
نفسیاتی ماحول |
تقویٰ، شعور، قربانی |
ذاتیات، حمیتِ جاہلیہ ، خوف و جبر |
عمل کی نوعیت |
پُرامن انکار، احتجاج، شہادت |
رشوت، سیاسی دباؤ، قتل و غارت گری |
ادراکی نقطہ نظر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کا اقدام کسی وقتی جذبات یا سیاسی بغاوت کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ ایک گہری فکری، اخلاقی اور دینی ادراک کا اظہار تھا- اس کے برعکس، یزید کا رویہ ایک ساختیاتی (structural) جبر اور نفسیاتی خوف کی بنیاد پر تھا، جو انسانوں کی سوچ اور فیصلوں پر اثر انداز ہونے والے منفی cognitive biases کا مظہر تھا-لہٰذا، Cognitive theory کے مطابق حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی قربانی ایک اعلیٰ شعوری اور اخلاقی فیصلہ تھا، نہ کہ بغاوت یا طاقت کی جدوجہد- اس تھیوری کے مطابق حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی اپروچ عقلی، منطقی اور حقیقت پسند تھی آپ حالات کا مشاہدہ کر رہے تھے آپ کی فہم و فراست یہ بتا رہی تھی کہ یزید حکومت آنے والے دنوں میں اسلامی اصولوں کو مسخ کر دے گی جس کا ثبوت واقعہ حرہ کی صورت میں رُونما ہوا -
تشدد(Violence):
تشدد کو یوں تعریف کیا جا سکتا ہے کہ: ’’اپنی خواہشات یا ترجیحات کو حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانا‘‘-امن (Peace) محض تشدد کی غیر موجودگی کا نام ہے- اگرچہ مکمل یا مطلق امن حاصل کرنا ممکن نہیں ، لیکن امن کو ایک بامعنی ہدف کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے- امن کیلئے کام کرنے کا مطلب ہے تشدد میں کمی کے لیے کوشش کرنا- منفی امن (Negative Peace) سے مراد صرف جسمانی تشدد کا خاتمہ ہے، جبکہ مثبت امن (Positive Peace) وہ حالت ہے جس میں ہر قسم کے تشدد — جسمانی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی — کا خاتمہ ہو-یہ بات بھی اہم ہے کہ امن کا مطلب اختلاف (Conflict) کی غیر موجودگی نہیں ہے- بلکہ ایسا اختلاف جو احسن طریقے سے سنبھالا جائے، معاشرتی طور پر مفید اور تعمیری ثابت ہو سکتا ہے- تشدد کی دو اقسام ہیں ایک جسمانی تشدد (Physical violence) براہِ راست (Direct) تشدد جبکہ دوسرا ساختی یا بالواسطہ (Structural or Indirect) تشدد ، معاشی، سیاسی اور ثقافتی تشدد ساختی یا بالواسطہ تشدد کی شکلیں ہیں-ساختی تشدد وہ نقصان ہے جو کچھ افراد دوسروں پر بالواسطہ طور پر سماجی نظام کے ذریعے اس وقت ڈالتے ہیں جب وہ اپنی ترجیحات کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
پہلو |
امام حسین (رضی اللہ عنہ) |
یزید |
رویہ |
تشدد سے مکمل اجتناب، حتیٰ کہ شہادت قبول کی |
اقتدار کی خاطر ہر حد پار کی ، قتل، قید، ظلم |
امن کی تعریف پر عمل |
مثبت امن کے مظہر، جان و مال کی قربانی دے کر جسمانی، سیاسی، سماجی، تشدد کا مقابلہ |
ساختی و جسمانی تشدد کے ذریعے طاقت کا تحفظ، سفاک کارندوں کا تقرر |
ساختی تشدد |
اس کے خلاف مزاحمت کی، جیسے فاسق حکمران کی اطاعت سے انکار |
حکومتی نظام کو ذاتی مفاد، خوف اور جبر سے آلودہ کیا |
جسمانی تشدد |
نہ شروع کیا، نہ اجازت دی، بچوں، جوانوں اور ساتھیوں کی قربانی دی |
اہل بیتؑ اور ان کے ساتھیوں پر ظلم، قتل، جھوٹے بیانیہ اور اسیری کو ہتھیار بنایا |
سیاسی ترجیح |
خلافت کو عدل، شریعت، اور اصولوں کے تابع رکھنا |
اقتدار کو شخصی ملکیت سمجھنا، شرعی حدود سے آزاد |
عمل کا اخلاقی پہلو |
اعلیٰ درجے کا اخلاقی احتجاج، پرامن انکار، دعوتِ اصلاح |
سیاسی جبر، مذہبی تحریف اور طاقت کا اندھا استعمال |
اگر موجودہ تشدد کی تعریف کو سامنے رکھیں تو کسی بھی عمل سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ حضرت امام حسینؓ کا کوئی بھی عمل تشدد کے زمرے میں آتا ہو بلکہ آپؓ اور آپؓ کے خاندان کا مسلسل عمل، امن اور بقائے اسلام کی خاطر قربانی دینے کی تاریخی گواہی سے بھرا ہے اس کے برعکس یزید کا حسی ادارک اور عمل اور اس کی اپنی خواہشات اور ترجیحات کو حاصل کرنے کے لئے دوسروں کو جسمانی ، معاشی ، سیاسی ، نقصان پہنچانے کا بیّن ثبوت ہے -
بدقسمتی سے ’’مابعدِ نو آبادیات کی اسلامی دُنیا‘‘میں چند لوگ ایسے ہیں جو اسی سوچ کو اپناتے ہوئے سیدنا امام حسینؓ کی عظمت، وقار اور حق پر قائم رجلِ حریت کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں- یہ لوگ یزید ، ابن زیاد، ، عمر ابن سعد، شمر اور دیگر مخالفین کے اقدام کو جواز فراہم کرتے ہیں اور نواسہ رسولؓ کو نعوذ باللہ ’’سیاسی باغی‘‘ قرار دیتے ہیں- حالانکہ حضرت امام حسینؓ کی حیثیت بطور ہیرو قانون، ثقافت، تاریخ سے مسلمہ ہے-
مخالفینِ حسین کے متعصبانہ بیانیے کی کی کوئی عقلی ، علمی ، منطقی، اخلاقی ، تاریخی ، ثقافتی و تہذیبی حیثیت نہیں ہے -یہ اس دنیا میں بھی ایک پسماندہ اور گرا ہوا بیانیہ ہے اور آخرت میں بھی اللہ کے حضور اور سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے روبرو سوائے ندامت و رسوائی کے کچھ لانے والا نہیں -
اسی فساد آلود ذہنیت کی وجہ سے ملکِ پاکستان پہلے ہی مذہبی منافرت جیسے واقعات کی وجہ سے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھا چکا ہے- صرف 2009 سے 2013 کے درمیان پاکستان میں 1000 سے زائد افراد فرقہ وارانہ حملوں میں جاں بحق ہوئے-[2] یہ فسادات نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہیں، بلکہ ریاستی وسائل، امن و امان اور قومی سلامتی کو بھی شدید متاثر کرتے ہیں-
نتیجہ :
حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کا عمل فقہاء، اقوام متحدہ یا تشدد کی جدید تعریفات کے مطابق ہرگز بغاوت نہیں تھا-یزید نے ذاتی مفادات کے لیے ظلم و جبر کا سہارا لے کر اہلِ بیتؓ کو نشانہ بنایا اور ایک جھوٹا بیانیہ قائم کیا-امام حسینؓ کی قربانی اسلام کی بقا، عدل و حق کی سربلندی اور شریعت کے احیاء کے لیے تھی، نہ کہ احصولِ قتدار کے لئے - خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین کا کربلا کا قیام نہ ’’محاربت‘‘ تھا، نہ ’’بغاوت‘‘ نہ ’’خروج‘‘- بلکہ وہ احیائے دین، امر بالمعروف، نہی عن المنکراور شریعتِ محمدی کے تحفظ کے لیے ایک پر امن، مگر جری اقدام تھا- آپؓ کے اقدامات بغاوت کے زمرے میں نہیں آتے ، بلکہ یہ ظلم و زبردستی کے خلاف قیام و حریت کا کامل نمونہ ہیں-
٭٭٭
[1](سورۃ محمد (ﷺ):22-23)
[2]M. Kalin and N. Siddiqui, “About the RepoRt SPECIAL REPORT Religious Authority and the Promotion of Sectarian Tolerance in Pakistan,” 2014, Accessed: Jun. 09, 2025. [Online]. Available: www.usip.org