سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے ابتدائی حالات اور تعلیم و تربیت

سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے ابتدائی حالات اور تعلیم و تربیت

سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے ابتدائی حالات اور تعلیم و تربیت

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی جولائی 2025

ابتدائی حالات:

 سیّدالشھداءحضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی ولادت باسعادت 5شعبان المعظم 4 ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی- آپ (رضی اللہ عنہ) کے مشہور القابات میں سے سید الشہداء، سبط الرسول، سید شباب اہل الجنہ، ریحانۃ الرسول، سلطانِ کربلا، الذبیح اور امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) ہیں-

دنیا میں بہت ہی کم ایسےخوش نصیب و خوش نفوسِ قدسیہ ہیں ،جن کے اسماء مبارکہ اللہ عزوجل کے حکم مبارک سے رکھے گئے- نواسۂ رسول (ﷺ)، سیّد الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) اللہ تعالیٰ کی وہ برگزیدہ ہستی ہیں ، جن کا اسم مبارک آسمانوں پہ اللہ تعالیٰ کے حکم مبارک سے رکھا گیا جیسا کہ سیّدناحضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے :

’’جب (حضرت )حسن (رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام حمزہ رکھااورجب (حضرت)حسین(رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو میں ان کا نام ان کے چچاکے نام پہ جعفر رکھا-آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے بلایا اورفرمایا:اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اپنے ان دونوں بیٹوں کے نام تبدیل کروں -(حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ )میں نے عرض کی : اللہ اوراس کارسول (ﷺ)بہتر جانتے ہیں)رہنمائی فرمائیں)-تو آپ (ﷺ)نے ان کے نام حسن اورحسین رکھے ‘‘-[1]

حضرت عمران بن سلیمان (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں:

’’حسن وحسین (رضی اللہ عنہما)اہل جنت کے ناموں میں سے دونام ہیں یہ دونوں اسماء زمانہ جاہلیت میں نہ تھے‘‘-[2]

امام حسین (رضی اللہ عنہ)کو یہ بھی انفرادیت حاصل ہے کہ آپ(رضی اللہ عنہ) کا ذکر خیر آپ (رضی اللہ عنہ) کی ولادت باسعادت سےپہلے مشہور ہوچکاتھا ،جیسا کہ روایت میں ہے :

’’حضرت ام الفضل بنت حارث (رضی اللہ عنہ)،رسول اللہ (ﷺ)کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں اورعرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ)! میں نے گزشتہ رات ایک خوفناک خواب دیکھا ہے، آپ (ﷺ) نے فرمایا : وہ کیاہے؟ آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا: میں نے دیکھا ہے کہ آپ (ﷺ) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے- رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: تم نے یہ اچھا خواب دیکھاہے (اس کی تعبیر یہ ہے کہ)ان شاء اللہ فاطمہ(رضی اللہ عنہا)کے ہاں بچہ پیدا ہوگا اور وہ تمہاری گود میں دیاجائے گا-چنانچہ سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا)کے ہاں حضرت حسین (رضی اللہ عنہ)کی ولادت ہوئی اور رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان کے مطابق وہ میری گود میں دئیے گئے‘‘- [3]

نسب مبارک ،ازواج و اولاد مبارکہ:

آپ (رضی اللہ عنہ) کا نسب مبارکحسین بن علی ابن ابی طالب بن عبد المطلب[4] بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئ بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان- [5]

امام ابن عساکرؒ آپ (رضی اللہ عنہ) کی والدہ ماجدہ سیدہ خاتون ِ جنت (رضی اللہ عنہا) کی جانب سے نسب نامہ بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:’’(سیّدہ)فاطمۃ بنت رسول اللہ (ﷺ) اور بنت خدیجۃ (الکبرٰی) بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی‘‘-[6]

سیّدالشھداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے کئی نکاح مبارک فرمائے ،تاریخ کی کتب میں جن کو ذکر کیا گیا ہے ،وہ اسماء مبارکہ درج ذیل ہیں:

رباب کلبیہ بنت امراؤ القیس،لیلیٰ بنت ابی مرہ، اُم اسحاق بن طلحہ بن عبیداللہ ، سیّدہ شہر بانو، عائشہ بنت خلیفہ،حفصہ بنت عبد الرحمن، عاتکہ بنت زید بن عمرو، سیّدہ قصاعیہ اورسیّدہ غزالہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن۔[7]

اللہ تعالیٰ نے آپ (رضی اللہ عنہ) کو سیدنا عبداللہ، سیدنا علی اصغر، سیدنا علی اکبر، سیدنا امام زین العابدین، سیدنا جعفر اور اسی طرح سیدہ سکینہ، سیدہ فاطمہ صغریٰ اور سیدہ رقیہ (رضی اللہ عنھم)-[8]

شہادت مبارک سے قبل پیشن گوئیاں :

حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) روایت کرتی ہیں کہ:

’’سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے آرام فرمایا اور پھر بیدار ہوئے اور آپ (ﷺ) کے دست اقدس میں سرخ مٹی تھی جس کو آپ (ﷺ)بوسے دے رہے تھے- میں نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) یہ کون سی مٹی ہے؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: مجھے جبرائیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرایہ بیٹا’’حُسین‘‘عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائے گا میں نے جبرائیل سے کہا: مجھے اس زمین کی مٹی لاکردکھاؤ،جہاں آپ (رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا جائے گا، پس یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے‘‘-[9]

 امام طبرانی کی روایت میں مزید یہ الفاظ بھی ہیں:

’’حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا: اے اُمّ سلمہ! جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو تم جان لیناکہ میرا بیٹا شہید ہوگیاہے‘‘-[10]

اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:’’حسین بن علی ؓکو ساٹھ ہجری کے اختتام پہ شہید کر دیا جائے گا‘‘-[11]

 سیدی رسول اللہ نے ارشادفرمایا:’’بے شک جبریل امین نے مجھے خبردی ہے کہ یہ میرا بیٹا شہید کر دیا جائے گا اور جو بھی اس کوشہید کرے گا اللہ پاک کا اس پر بہت زیادہ غضب ہوگا‘‘- [12]

جائے شہادت کی خبر:

حضرت أَصْبَغ بن نُبَاتَہ حضرت مولی ٰعلی شیرِ خدا (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ:

’’ہم آپ (رضی اللہ عنہ) کےہمراہ سید الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے مرقد انور کی جگہ پرآئے تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:یہ (امام حسینؓ) کے قافلہ والوں کی سواریاں بیٹھانے کی جگہ ہے اوریہ ان کے کجاووں کی جگہ ہے اوریہاں ان کا (مقدس و معطر) خون بہے گا، اس جگہ پر آلِ محمد (ﷺ) کے نوجوان شہید ہوں گےاور ان کی شہادت پر زمین وآسمان روئیں گے‘‘-[13]

 بچپن اور تعلیم وتربیت:

سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی جب ولادت با سعادت ہوئی تو اللہ کے رسول (ﷺ)تشریف لائے اور آپ(رضی اللہ عنہ) کے کان مبارک میں اذان فرمائی اور بطور تحنیک اپنی زبان مبارک آپ(رضی اللہ عنہ) کے دہن میں رکھی اور ساتویں روز عقیقہ کیا-کوئی شخص اندازہ کرسکتاہے کہ کیاکیانسبتیں اورکیسی کیسی عظمتیں سیدنا امام حسین(رضی اللہ عنہ)کے حصے میں آئیں، وہ کس کے نواسے، کس کے نورِ نظر ،کس کے لخت ِ جگر اورکس کے بھائی ہیں-بلاشبہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے ابتدائی تعلیم جن نفوس قدسیہ سے حاصل کی جس کی ایک جھلک ہمیں آپ (رضی اللہ عنہ) آپ (رضی اللہ عنہ) کے خطبات مبارکہ (جوکہ میدانِ کربلاء میں ارشاد فرمائے ) میں نظر آتی ہے -اس کے علاوہ آپ (رضی اللہ عنہ)نے حضورنبی کریم (ﷺ) اورحضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ) سے روایات لیں-آپ (رضی اللہ عنہ) سے آپ کے صاحبزادے علی بن حسین (رضی اللہ عنہ)، آپ (رضی اللہ عنہ) کی شہزادی سیدہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا)اور آپ(رضی اللہ عنہ) کے بھتیجے زید بن حسن، شعیب بن خالد،طلحہ بن عبیداللہ العقیلی ،یوسف الصباغ،عبید بن حنین ،ھمام بن غالب الفرزدق اورابوہشام (رضی اللہ عنھم)نے روایات نقل کیں- [14]

سیدناامام حسین (رضی اللہ عنہ) سے سماع حدیث اور روایت کرنے والے افراد میں حسن بن علی، امام زین العابدین، فاطمہ صغریٰ بنت حسین، سکینہ بنت حسین، باقر، عکرمہ، شعبی، کرزتیمی اور شیبان دولی (رضی اللہ عنھم) شامل ہیں-[15]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’ایک مرتبہ امام حسین (رضی اللہ عنہ) حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس تھےاور آپ (ﷺ) امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے- امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی:میں اپنی والدہ ماجدہ کےپاس جاناچاہتاہوں -حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) عرض کرتے ہیں کہ (یا رسول اللہ ﷺ!)کیامیں ان کے ساتھ چلاجاؤں ؟پس (اسی اثناء میں)آسمان سے ایک روشنی (نور)آیا سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) اس کی روشنی میں چلتے رہے، یہاں تک کہ (اپنی والدہ ماجدہ کے پاس) پہنچ گئے‘‘-[16]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ:

’’کھجور کے درختوں سے کھجوریں اتارتے وقت رسول اللہ (ﷺ)کے پاس کھجوریں لائی جاتیں، حتی کہ آپ (ﷺ) کے پاس کھجوروں کا ڈھیر لگ جاتا-پس حضرت حسن اورحضرت حسین (رضی اللہ عنہما) ان کھجوروں کے ساتھ کھیل رہے تھے،توان میں سے ایک نے کھجور اپنے منہ میں ڈال لی، پس رسول اللہ (ﷺ) نے ان کی طرف دیکھا اور آپ (ﷺ) نے وہ کھجور ان کے منہ سے نکال لی-آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:کیاتم کو معلوم نہیں کہ (سیدنا) محمد (ﷺ) کی آل صدقہ نہیں کھاتی‘‘- [17]

اندازہ لگائیں! سیدناامام حسین (رضی اللہ عنہ) ابھی اپنے بچپن کی زندگی بسرکررہے تھے ،اگر کھجور تناول بھی کر لیتے تو کوئی ذی شعور اس بات پہ اعتراض نہ کرتا،کیونکہ بچپن کا عالم تھا لیکن قربان جائیں،حضور خاتم الانبیاء (ﷺ) کے انداز تربیت پہ کہ آپ (ﷺ) نے اس عمرمیں ان کےحلقوم مبارکہ سے خلاف شرع چیز داخل ہونے کو ناپسند فرمایا- اس سے ہر صاحب اولاد اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کئی اسباق اخذکرسکتاہے -

حرف آخر :

شہید کربلا، سید الشہدا ءسیدناامام حسین (رضی اللہ عنہ)نے محرم الحرام 61 ھ بروز جمعۃ المبارک کوجام شہادت نوش فرمایا-[18] بلاشبہ سیّدنا امام حسین(رضی اللہ عنہ) کی ذات مبارک ایک شش جہات ہیرے کی مانند ہے جس کو جس انداز اور جس پہلوسے دیکھیں آنکھوں کو ٹھنڈک اور روح کو تروتازگی ملتی ہے-آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نواسۂ رسول (ﷺ) سیّدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی سیرت مبار کہ کو سمجھا جائے اور نوجوان نسل کو اس روشناس کرواکر اس پہ عمل کی دعوت دی جائے کیونکہ دونوں جہانوں میں یہی ہمارے لیے ذریعہ نجات ہے -

٭٭٭


[1](مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، كِتَابُ الْأَدَبِ)

[2]طبقات الکبرٰی لابن سعدؒ،باب: ذكر تسمية رسول الله (ﷺ) الحسن والحسين (رضی اللہ عنھما)

[3]( المستدرک علی الصحیحین ،باب:اَوَّلُ فَضَائِلِ أَبِي عَبْدِ اللهِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ الشَّهِيدِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا)

[4](الاستيعاب فی معرفۃ الأصحاب ،ج:2،ص:416)

[5](البدایہ والنہایہ لابن کثیر،ج:7،ص:333)

[6](تاریخ دمشق لابن عساکر،باب: الحسين بن علي بن أبي طالب)

[7]( مقاتل الطالبین للاصفہانی، ص:86)

[8]( ا مقاتل الطالبین للاصفہانی، ص:94)

[9](المستدرك على الصحيحين، كِتَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا)

[10](المعجم الکبیر للطبرانی،باب: الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنھما)

[11]( ایضاً)

[12]( تهذيب الكمال في أسماء الرجال،کتاب: من اسمه الحسين رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

[13](دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني)

[14](تاریخ دمشق لابن عساکر،باب:الحسين بن علي بن أبي طالب(رضی اللہ تعالیٰ عنھما)

[15]( الاصابہ فی تمییز الصحابہ،ص:319)

[16](المعجم الكبير للطبرانی، باب الحاء)

[17](صحیح البخآری ،کتاب الزکوٰۃ)

[18]( سیر اعلام النبلاء،ص:371)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر