دستک: سیدالشہداء امام حسین(رضی اللہ عنہ) اور عصر ِحاضر

دستک: سیدالشہداء امام حسین(رضی اللہ عنہ) اور عصر ِحاضر

دستک: سیدالشہداء امام حسین(رضی اللہ عنہ) اور عصر ِحاضر

مصنف: جولائی 2025

سید الشہداء امام حسین (رضی اللہ عنہ) اور عصرِ حاضر

ہم ایک ایسے ہنگامہ خیز زمانے میں جی رہے ہیں جہاں سچ بولنا دیوانگی، اصولوں پر ڈٹ جانا کم عقلی اور طاقت کو ہی ’’حق‘‘ سمجھا جاتا ہے- تہذیبوں کی بقا زندہ ضمیر سے مشروط ہے اور جب ضمیر سلانے کی کوشش کی جائے تو کربلا سے اٹھنے والی صدا ’’مثلی لا یبایع مثله ‘‘ ( مجھ جیسا  شخص کبھی یزید جیسے کی بیعت نہ کرے گا)وقت کی گردن پر بجلی بن کر گرتی ہے- یہ اعلان یاد دلاتا ہے کہ جھک جانا زندگی نہیں، بلکہ اٹھ کھڑے ہونا اصل زندگی ہے- امام حسین(رضی اللہ عنہ) کا نام یقین اور مسلسل بیداری کا استعارہ ہے جو ہر دور کے یزیدی نظام پر دائمی عدمِ اعتماد کی مہر توانا ہاتھوں سے ثبت کرتا ہے-

امامت صرف محراب کی حد تک محدود نہیں، بلکہ کردار کا چراغ ہے جو شبِ ظلمت میں راستہ روشن کرتا ہے- امام  حسین(رضی اللہ عنہ) اسی امامت کے وہ مینار ہیں جنہوں  نے  طاقت کو فانی، اصول کو باقی اور سچائی کو کسوٹی بنا دیا- آپؓ کا مؤقف وقتی سیاست سے نہیں، روشن  ضمیر ی، حق اور عدل سے بندھا تھا-

واقعہ کربلا کو صرف تاریخی سانحہ سمجھنا حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کے پیغام کو محدود کرنا ہے- یہ مظلوم و ظالم کے مابین دائمی فکری جنگ ہے- آج کے ’’یزید‘‘ تلواروں کی بجائے میڈیا کی زبان، اسٹاک ایکسچینج اور منافرت کے ہیش ٹیگ میں لپٹے ہوئے ہیں- مگر حضرت  امام حسین (رضی اللہ عنہ)  کا چراغ ہر اس اندھیرے کو چیر دیتا ہے جہاں ضمیر سسکنے لگے اور سچائی دم توڑنے لگے-

حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کے قافلے میں صرف72 رفقا تھے، مگر صدیاں بیت گئیں، یزید کتابوں میں رہ گیا اور حسینؓ دلوں میں- یہ بقا اصول  اور استقامت سے ملی- یہی سبق نئی نسلوں کو سکھانا ہماری ذمہ داری ہے- اگر ہم سچ سے گریزاں رہیں گے تو حضرت اما م حسین(رضی اللہ عنہ) کی میراث کے وارث نہیں بن سکتے- اُن کی سب سے بڑی عطا حریتِ فکر ہے-سچائی کی راہ تنہا اور پرخار ہو سکتی ہے، مگر وہی دائمی ہے- وقت کی دھول سچ کو ڈھانپ بھی دے، اصول پھر بھی معیارِ صداقت رہتے ہیں-

یزیدیت صرف بت شکنی سے انکار یا کھلے کفر کا نام نہیں؛ بلکہ یہ وہ نظام ہے جو عدل کا گلا گھونٹے، بیت المال کو عیش پرستی پر لُٹائے اور دین کو اقتدار کا اوزار بنائے- وہ زبان سے اسلام کا نام بھی لے اور عمل سے دھوکہ بھی دے- حسینیت برعکس ہے: عدل، دیانت، حریّت اور استقامت کا تصور- حسینیت کا تقاضا ہے کہ جہاں بھی ظلم کا چہرہ نظر آئے، حسینی عزم کے ساتھ اس نقاب کو چاک کیا جائے اور صلہ صرف خدا سے طلب کیا جائے- حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد ہے- اُنہوں نے جسم و جاں کی قربانی دے کر اعلان کیا کہ جبر کے ساتھ سمجھوتا حق تلفی ہے- اُن کا انکار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ طاقتور ظالم بظاہر جیت کر بھی تاریخ میں شکست خوردہ رہتا ہے، جبکہ اصول پر قربان ہونے والا ابد تک زندہ رہتا ہے- رسمِ شبیری ہم سے رسمی آنسو نہیں، بیدار مغزی اور کردار کی استقامت چاہتی ہے-

یہ سوال ہر محرم میں خود سے پوچھیے: کیا میں اپنے دور کے یزید کو پہچانتا ہوں؟ میرا قلم، میری آواز، میرا لائک اور میرا شیئر کس صف میں ہے؟ کیا میں مفاد کے ساتھ کھڑا ہوں یا مظلوم کے؟ اگر میں خاموش ہوں تو کیا میں بھی جبر کے تمدن کا حصہ تو نہیں؟

حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا فلسفۂ شہادت صرف مسلمانوں  کیلئے نہیں، پوری انسانیت کے لیے دستورِ حیات ہے -  باطل چاہے کتنا ہی طاقتور ہو، حق کا عَلَم سرنگوں نہیں ہوتا- اسی لیے آج، ڈیڑھ ہزار برس بعد، علمی و تحقیقی سطح پر بھی حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کی ذات رہنمائی کا سرچشمہ ہے- نئی نسل اگر فرقہ واریت اور تنگ نظری سے بلند ہو کر اخلاص و محبت کا دامن تھامے تو  حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) کی تعلیمات اسے فکری آزادی اور عملی جرأت عطا کر سکتی ہیں- حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی امامت قیامت تک قائم ہے، کیونکہ وہ ضمیر کا چراغ، آزادی کی صدا ، حریت  کی اذاں اور انسانیت کی نبض ہیں- حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) ہر دور کے امام ہیں، اور زمانے کی ہر کروٹ پر ، ہر گردش پر  سچ کا پرچم اُنہی کے ہاتھ میں ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر