سیدنا امام حسین(رضی اللہ عنہ) کے پندو نصائح

سیدنا امام حسین(رضی اللہ عنہ) کے پندو نصائح

سیدنا امام حسین(رضی اللہ عنہ) کے پندو نصائح

مصنف: مفتی میاں عابد علی ماتریدی جولائی 2024

کسی شخص کو نصیحت کرنا یا اسےکوئی اچھی بات بتانا گویا کہ اس شخص پر احسان کرنا ہے-قرآن پاک میں کئی مقامات پرپند و نصائح کو ذکر کیا گیا ہےجس سے اس کی اہمیت و افادیت کا پتا چلتاہے- نصیحت کی ضرورت و اہمیت کے پیشِ نظر ہمارے اکابرین نے بھی لوگوں کو بھلائی کی غرض سے بہترین نصیحتیں فرمائی ہیں-ان برگزیدہ ہستیوں میں سےآج ہم اس عظیم ہستی کے پند و نصائح سے اپنی دنیا و آخرت کی راہوں کو روشن کریں گےجن کو شہید کربلا سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے-  کیونکہ ایک پہلو سے ’’حسینیت‘‘ جس طرح امام عالی مقام حضور سید الشہداء (رضی اللہ عنہ)  کی طرح باطل کے خلاف سینہ سپر ہونا ہے ، دوسرے پہلو میں ’’حسینیت‘‘ کا علمبردار ہونے کا یہ ضروری تقاضا ہے کہ ’’حسین (رضی اللہ عنہ)‘‘کی تعلیمات و فرمودات کی جھلک کردار سے بھی جھلکتی ہو - 

اب یہاں سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کےچند پند و نصائح کو ذکر کیا جا رہا ہے جو آپؓ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمائے ہیں-

اخلاق حسنہ:

”اے لوگو! اچھے اَخلاق میں رغبت کرو اور نیک اعمال میں جلدی کرو جس کام کو کرنے میں تم نے جلدی نہ کی ہواسے شمار مت کرو “-

اس نصیحت میں ہمیں اچھے اخلاق اپنانےاور نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہےکیونکہ خوش اخلاقی انسان کے لئے ایک ایسا سرمایہ ہے جو دنیا و آخرت میں کامیابی کا ضامن ہے- اگر آج دنیا سےخوش اخلاقی ختم ہو جائے تو انسانوں اور درندوں میں کوئی فرق نہ رہے،انسان نام ہے انسانیت کا اور انسانیت خوش اخلاقی کو کہتے ہیں اورخوش اخلاقی خندہ پیشانی اور اچھے برتاؤ کا دوسرا نام ہے-خوش اخلاقی انسان کی فطرت میں ایک ایسی شیرینی اور مٹھاس پیدا کر دیتی ہے کہ اس کا ہر قول وفعل خوشگوار معلوم ہوتا ہے اس لئے خوش اخلاق انسان کا وجود انسانی سماج کے لئے اس شہد کی طرح ہوتا ہے جو زندگی کی تلخیوں کو اپنے اثر سے خود شہد بنا دیتا ہے-

نعمت پر شکر:

”جس نے کسی پر احسان کیا ہواوروہ شکر گزار نہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے بدلہ عطا فرمائے گا- پس بے شک وہ عطا کرنے اور بدلہ دینے میں بڑا عظیم ہے“- [1]

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے- اگرانسان ان تمام نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو شمارنہیں کر سکتا-خالق کائنات کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرنا ہم پرفرض ہے اور اُس حق کی ادائیگی خدا کو پسند ہےجبکہ ناشکری اُسے ناپسند ہے-ناشکری کا عقلی اعتبار سے مذموم اور شکر کا محبوب ہونا یوں واضح ہے کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور یہ ہر انسان کی فطرت میں ہے اسی لئے اگر کوئی اپنے محسن کی ناشکری کرے تو اُسے مذموم سمجھا جاتا ہے- اِسی لئے دنیا میں جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو ہر مذہب و ملت اور علاقہ و قوم والا اپنی تہذیب و روایات کے مطابق مختلف الفاظ و اعمال کی صورت میں دوسرے کا شکریہ ادا کرتا ہے- لوگوں کے احسانات پر اُن کا شکریہ ادا کرنا شریعت کو بھی پسند ہے-

حضور نبی اکرم(ﷺ)نےفرمایا:

’’جس کے ساتھ اچھا سلوک کيا جائے اسے چاہیےکہ اسے ياد رکھے کيونکہ جس نے احسان کو ياد رکھاگويا اس نے اس کا شکر ادا کيا اور جس نے اسے چھپايا بے شک اس نے ناشکری کی‘‘- [2]

سخاوت اور عفو:

سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا قول مبارک ہے:

”لوگوں میں سب سے بڑا سخی وہ شخص ہوتاہے جو اس شخص پرسخاوت کرےجسے اُس کی امید نہ ہواورلوگوں میں زیادہ پاک دامن بہادر وہ شخص ہے جوقدرت و اختیارہونے کے باوجود معاف کردے “-

اسلام ہمیشہ ہمیں پیار سے بات کرنے اور آپس میں ایک رہنے کا درس دیتا ہےعفو و درگزر انسانی زندگی کا وہ حسن ہے جو انسان کے کردار میں وسعت و نکھار پیدا کرتا ہے-دوسروں کا قصور اور ان کی غلطیاں معاف کر دینا یہ خدا کی صفت ہےبس یہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے-عفو و درگزر ایک ایسا وصف ہے کہ جس کی وجہ سے دشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے- معافی کی صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا رجحان پروان چڑھتا ہے- جو طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں کی زیادتیوں اورمظالم کو معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتاہے-

رضائے الٰہی اور صلہ رحمی:

”جو شخص اپنے بھائی پر احسان کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہے اللہ تعالیٰ مشکل کے وقت اس بھلائی کا بدلہ دیتا ہے اور اس سےسخت مصیبت ٹال دیتا ہےاور زیادہ صلہ رحمی کرنے والاشخص وہ ہے جو قطع تعلق کرنے والےرشتہ داروں کو آپس میں ملائے“-

اسلام جہاں معاشرے کو گناہوں سے بچانے کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا وسیع نظام دیتا ہے، وہاں خاندانوں اور ان کی عمدہ روایات کو تحفظ دینے کے لیے صلہ رحمی کے اُصول کو لازم قرار دیتا ہے- صلہ رحمی وہ عظیم اصول ہے جس پر پوری زندگی کی عمارت استوار ہوتی ہے-صلہ رحمی اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا، ایک دوسرے کے دکھ، درد، خوشی اور غمی میں شریک ہونا، ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کو کہتے ہیں-قرآن و حدیث میں رشتوں کا پاس رکھنے اور رشتے جوڑے رکھنے کی تلقین بار بار کی گئی ہےجو لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں ان کیلئے باغات، اچھااختتام اورسلامتی کی خوشخبری ہے اور جو رشتوں کو توڑتے ہیں، قطع رحمی کرتے ہیں ان کیلئے دنیا اور آخرت دونوں میں رسوائی ہے- رشتہ ناتا کو توڑنا اور رشتہ داری کا لحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے-

دنیاوی مصیبت کو دور کرنا:

”جس شخص نے اپنے بھائی سے کوئی دنیاوی مصیبت دور کی اللہ تعالیٰ اس سے اُخروی مصائب دور کرتا ہے اور جو کسی پر احسان کرے اللہ تعالیٰ اس پر احسان کرتا ہےاور احسان کرنے والوں کو ثواب دیتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے“- [3]

اسلام ہر معاملے میں احسان کو اپنانے کا حکم دیتا ہے احسان دین اسلام کی بنیادوں میں سے ہے- تمام تر حالات اور معاملات میں احسان اختیار کرنے کا حکم ہے-کسی حاجت مند کی ضرورت کو پورا کرنا بھی احسان ہے،کسی روتے کو ہنسا دینا، کسی غم زدہ کی دلجوئی کرنا بھی حسن سلوک میں آتا ہے جو احسان اور بھلائی کا باعث ہے-کسی کی زیادتی کو برداشت کرنا اور پھر بدلے کی طاقت کے باوجود اسے معاف کر دینا احسان کی سب سے عظیم صورت ہے-احسان کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرفراز ہوتے ہیں-  اگر اہلِ بیت اطہار (رضی اللہ عنہ) کی مبارک سیرتوں میں جھانکیں تو وہ زمین پہ ان تعلیمات کی عملی تفسیر نظر آتے ہیں - 

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر حضرت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے کسی نے دریافت کہ آپؓ نے اپنے نانا جان (ﷺ) سے جو بات سنی ہو اس میں سے کچھ بتائیے تو آپؓ نے فرمایا کہ:

’’میں نے حضور نبی اکرم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ کام اور اہم اُ مور کو پسند فرماتا ہے جب  کہ معمولی، گھٹیا اور بے مقصد کاموں کو ناپسند کرتاہے-میں نے یہ بھی سنا کہ آپ فرما رہے ہیں جو اللہ کا اطاعت گزار بندہ بن جاتا ہے اللہ اس کو سر بلندی عطا کر دیتا ہے اور جو نافرمانی پر ڈٹا رہتا ہے اسے پست کر دیتا ہے- جو اللہ کیلئے خلوصِ نیت اختیار کرتا ہے اللہ اسے تروتازہ رکھتا ہے-جو اللہ کی رزاقیت پر بھروسہ رکھتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہےاور جو اللہ پر تکبر و غرور دکھاتا ہے ذلت و خواری اس کا مقدر بن جاتی ہے‘‘- [4]

اسی طرح سبل الهدى والرشاد میں موجودسیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کےپندونصائح کویہاں ذکر کیا جا رہا ہے-

ضرورت مند کی حاجت روائی کرنا:

”جان لیں کہ ضرورت مند لوگوں کا تمہارے پاس کوئی حاجت لے کرآنا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے لہٰذاتم نعمتوں سے اکتا نہ جانا کہیں وہ زحمت نہ بن جائیں “-

اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیا گیا ہے- دراصل غریبوں، محتاجوں، یتیموں، ضرورت مندوں اور لاچاروں کی مدد، معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے-اہلِ بیت کی زندگیوں کا خلاصہ ہے کہ دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی اور راحت حاصل کرو، یہ رضائے الٰہی کا باعث ہے - حضور نبی اکرم (ﷺ) نے بھی نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیاہے بلکہ عملی طور پر آپ (ﷺ) خود بھی ہمیشہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے-

سخاوت کا اجر:

”یاد رکھیں اے لوگو! جس شخص نے سخاوت کی وہ سردار بن گیا اورجس نے بخل سے کام لیاپھروہ ذلیل و رسوا ہو گیا “-

سخاوت کرنے والا وصف ہمارے اسلاف میں ہوا کرتا تھا کیونکہ ہمارے دین، دینِ اسلام نے ہمیں صدقہ و خیرات اور سخاوت کرنے کا درس دیا ہے-سخاوت ،بخل اورتنگی کی ضد ہے-  بخل میں خرچ کرنے کو دل نہیں کرتا اور خرچ کرنا تکلیف اور اذیت کا سبب بنتا ہے-بخل ایک ایسی باطنی بیماری ہے جو انسان میں موجود کچھ غلط نظریات کی وجہ سے پروان چڑھتی ہے کہ یہ مال، علم اور  نعمت میری ہے اس پر صرف اور صرف میرا حق ہے- جن لوگوں میں سخاوت کا جذبہ پایا جاتا ہے، وہ سب سے زیادہ مطمئن اور خوشحال ہوتے ہیں اورجو لوگ اللہ کی راہ میں اُس کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں وہ اُس کی بارگاہ میں محبوب اور مقبول ہوتے ہیں- زندگی میں اگر بہترین خوشحالی چاہتے ہیں تو دینا سیکھیں -

لوگوں کے ساتھ بھلائی کریں:

”اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ بھلائی کرنے میں جلدی کرے گا کل(قیامت کے دن) جب اس کے اعمال پیش ہوں گے تو وہ اس میں یہ عمل بھی موجود پائے گا“- [5]

بخل کرنا کیسا ہے؟

حضور سید الشہداء (رضی اللہ عنہ)کا فرمان ہے:

’’سارے کا سارا مال دنیا میں ہی چھوڑ کرجانا ہے تو پھر انسان اس مال میں اتنا بخل کیوں کرتا ہے؟“

بخل کنجوسی کرنے کو کہتے ہیں اور جہاں خرچ کرنا ضروری  ہووہاں خرچ نہ کرنا بھی بخل ہے- بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے -بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس پر مال جمع کرنے کی دُھن سوار ہو جاتی ہے- اُس کے لیے وہ جائز اور ناجائز تک کی پروا کرنا چھوڑ دیتا ہے- بخیل شخص کےدل میں ہر وقت مال کی محبت، لمبی امیدیں، تنگدستی کا خوف اور نفس کی خواہشات کا غلبہ رہتا ہے-بخیل انسان اللہ کے ہاں ناپسندیدہ شخص ہے اس لیے ہر مسلمان کا اس سے بچنا لازم ہے-

رزق کے حصول کے لیے محنت:

”اگرچہ رزق تقدیر میں تقسیم ہو چکا ہے لیکن کسب میں انسان کا حرص نہ کرنا اچھا ہے“-

اللہ تعالیٰ نے کمائی کے لئے جد و جہد اور محنت کرنے کا حکم دیا ہے- اسلام محنت اور محنت کشی کو سراہتے ہوئے محنت کشوں اور مزدوروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے- ’’اکل حلال‘‘ اسلامی ضابطۂ حیات کی بنیاد ہے اور کسب معاش اس کا سب سے بڑا ذریعہ ہے-رزق حلال کمانے کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’فرائض کے بعد، حلال روزی کمانا فرض ہے‘‘- [6]

معلوم ہوا کہ انسانی ضروریات پوری کرنے کیلئے حلال روزی کمانے کا حکم شرعی ہے اورجو ہمارے مقدر میں لکھا ہے وہ تقدیرِ الٰہی ہے اور تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے لیکن ہم تقدیر کے مکلف نہیں بلکہ احکام شرع کے پابند ہیں- لہٰذا ہمیں تمام امور اپنے اپنے وقت پر محنت وخلوص اور منصوبہ بندی کے ساتھ سر انجام دینے کا حکم ہے، پھر جو بھی مل جائے، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے-

اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنا:

حضرت امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

”جب زمانہ تجھے تکلیف دے تو تُو مخلوق کی طرف مائل نہ ہو اللہ کے سوا کسی سے سوال مت کر جو سارےجہاں کی فریاد سنتا ہے“- [7]

مخلوق کی طرف سے جب بھی کوئی تکلیف یا پریشانی پہنچے تو ہمیں اپنے ہر معاملے اور ہر حاجت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنا چاہیئے- اللہ پاک کی رحمت کا دروازہ ہر وقت اپنے بندوں کے لئے کُھلا ہوا ہے بس دوری اور کوتاہی ہماری طرف سے ہے-

خلاصۂ کلام:

وعظ و نصیحت کی اہمیت و افادیت ایک مسلمہ حقیقت ہے، ہر دور میں اس کی ضرورت پیش آئی ہے- آج تقریباً 1400 برس گزرنے کے باوجود سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)  کا پیغام اور فلسفہ حق و صداقت دین اسلام کی سربلندی کا روشن باب ہے-آپؓ کے اقوال و ارشادات آپؓ کے علمی ذوق اور اخلاق مبارکہ کی بہترین عکاسی کرتے ہیں جسے دور جدید کے ہر نوجوان کو اپنانے کی ضرورت ہے-

٭٭٭


[1]( التذکرۃ الحمدونیۃ ، ج:1 ص: 102 ، رقم الحدیث : 186)

[2]( معجم کبیر، ج:1،ص: 115،  رقم الحدیث:211)

[3]( نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار ، ص :278-279)

[4]( تاریخ یعقوبی، ص :207)

[5]( سبل الهدى والرشاد  فی سيرة خير العباد ، ج:11،ص:78)

[6]( بیہقی،السنن الكبرى، ج:6،ص:128،رقم الحدیث:11475)

[7]( نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار،ص:279)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر