مسئلہ فلسطین، اسرائیلی جارحیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تجزیہ

مسئلہ فلسطین، اسرائیلی جارحیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تجزیہ

مسئلہ فلسطین، اسرائیلی جارحیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تجزیہ

مصنف: جاوید اقبال دسمبر 2023

تعارف:

فلسطین کی سرزمین کئی دہائیوں سے تنازعات کا شکار ہے- یہ خطہ تاریخی طور پر مختلف اقوام کا مرکز رہا ہےجن میں نمایاں یہودی، عیسائی اور مسلمان ہیں-بیسویں صدی کے اوائل میں صہیونیوں کی ابھرتی تحریک نے فلسطین میں یہودی وطن قائم کرنے کی کوشش کی- فلسطین میں آباد ہونے والی یہ آبادی اس وقت5 فیصد سے بھی کم تھی لیکن جنگ عظیم اول کے بعد یہودیوں کی آباد کاری میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور یوں یہ تناسب 30 فیصد سے بھی بڑھ گیا - [1]یہ کوشش خطے میں یہودیوں اور عربوں (مسلمانوں) کے درمیان تناؤ کا باعث بنی جو بالآخر تشدد اور تنازعات میں بدل گئی- چونکہ مسلم کمیونٹی کا سرزمین فلسطین سے گہرا تعلق ہے، مسلم کمیونٹی کا یہ تعلق بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی وجہ سے کافی اہمیت کا حامل ہے- ان مقدس مقامات کی حفاظت مسلمان اپنا اخلاقی اور مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں-دوسری جانب دیگر اقوام (یہودی اور عیسائی) بھی اس مقدس سرزمین پر اپنا گہرا تعلق گردانتے ہیں اس تعلق کی وجہ مغربی دیوار اور ٹیمپل ماؤنٹ سمیت کئی اور اہم مذہبی مقامات ہیں- بہت سے یہودیوں کا خیال ہے کہ انہیں اس خطے میں رہنے اور یہودی ریاست قائم کرنے کا حق ہے- مسیحیوں کا بھی اس خطے سے تعلق ہے، کیونکہ یہ یسوع علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے- تاہم، عیسائی زیادہ تر تنازعات میں غیر جانبدار رہے ہیں-

فلسطین تاریخی تناظر میں:

جب سلطنت عثمانیہ بیرونی خلفشار کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی کمزور ہورہی تھی-سرزمین فلسطین بھی اسی سلطنت کا حصہ تھی جس کا نظام ترکوں کے کنٹرول میں تھا- پہلی جنگ عظیم (1918-1914) میں Allied Powers کی فتح کے بعد یہ خطہ برطانیہ کےتسلط میں آیا، جس کے رزلٹ میں یہودیوں کی ایک بڑی تعدادکو فلسطین میں منتقل کیاگیا -[2]

سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد مشرق وسطی کی تقسیم ( نئی ریاستوں کا قیام) کے باوجود برطانیہ نے سر زمین فلسطین کو اپنے زیرتسلط رکھا-[3] یہ وہ مرحلہ اور وقت تھا جب عرب اقوام اور صیہونی تنظیموں کے درمیان کشیدگی نے طوا لت پکڑی - صیہونی تنظیمیں عسکری گروہ قائم کر کے متشدد پالیسی کی بنیادپرایک الگ ریاست کے قیام کے لیےاقدامات کرنے لگیں- یوں وہ دوسری جنگ عظیم (1945- 1939) کے بعد ایک ( ناجائز) ریاست کےحصول میں کامیاب ہوگئے- 1947 میں اقوام متحدہ کی ووٹنگ کے ذریعے یہ فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ جس میں یہودی ریاست ہو اور دوسرا حصہ جس میں مسلم/ عرب ریاست ( رقبہ) ہو گی اور یروشلم کو (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ڈکلیئرکیاگیا-[4] یوں 14 مئی 1948 کو اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا-[5] مسلمانوں کی سرزمین پر ایک ناجائز ریاست کے قیام کو عمل میں لانا مسلم دنیا کیلئے ایک آلارمنگ لمحہ تھا اور یوں یہ غم و غصہ عرب ممالک (اردن، مصر، شام اور عراق) اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا سبب بنا- یہ غم و غصہ عرب اور اسرائیل کے درمیان ( پہلی) جنگ کا سبب بنا- اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق سر زمین فلسطین جو فلسطینیوں کیلئے تھی اسے اسرائیل نے اپنے قبضے میں لے کر فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے کو جنم دیا- ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ساڑھے سات لاکھ فلسطینی یہودیوں کے ستم سے بچنے کیلئے ہمسایہ ممالک ہجرت کر گئے اور ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو (اسرائیلی فوج کی طرف سے) بے دخل کر دیا گیا-اس کے بعد 1967 ءکی عرب اسرائیل جنگ میں عرب اتحاد کے شکست کی وجہ سے، شام سے گولان ، مصر سے غزہ کی پٹی اور سینائی اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت ویسٹ بینک چھین لیا گیا -[6]

یوں اپنے مقبوضہ علاقہ جات کے حصول کیلئے 1973ء میں مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کیا (جسے ’یوم کپور‘ کہا گیا) یہ حملہ بھی مصر کے لیے خاطر خواہ ثابت نہ ہوا -[7]یوں حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے 1979ء میں دونوں ممالک کے درمیان ایک امن معاہدہ[8] کروا کر مقبوضہ علاقے مصر کو واپس کیے گئے- مصر کے اس اقدام کی دیکھا دیکھی 24 اکتوبر 1994ء کو اردن نے اسرائیل کے وجود کو بطور ریاست تسلیم کرکے تعلقات بنا لیے -[9] مسلم دنیا کا اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنا ان کے قومی مفاد میں اضافہ تو نظر آیا لیکن فلسطینیوں پر ہونےوالے جبر اور نسل کشی کو روکا نہ جا سکا-

اقوام متحدہ اور مسئلہ فلسطین:

اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل میں کئی سپر پاورز کے علاوہ ، نیشنل ،ریجنل اور گلوبل آرگنائزیشنز ( اقوام متحدہ ) ، کئی اور بین الاقوامی ادارے شامل رہے ہیں- اقوام متحدہ نے متعدد قراردادیں منظور کی ہیں جن میں تشدد کے خاتمے اور فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے- تاہم، اسرائیل کی طرف سے ان قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس تنازعہ کوطوالت دی گئی ہے- اسرائیل کی فلسطین پرجارحانہ حملہ اورتشدد میں حالیہ اضافے کی عالمی رہنماؤں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے- بہت سے رہنماؤں نے تشدد کے فوری خاتمے اور دونوں فریقوں سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا- تاہم تنازعہ کے پرامن حل کی طرف بہت کم پیش رفت ہوئی ہے- حالیہ کشیدگی کے پیش نظر ترک صدر رجب طیب اردگان نے اسرائیلی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ شہریوں پر حملے اور تشدد کا سلسلہ فوری بند کرے- سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ’’جبری نقل مکانی کی پالیسی‘‘ کو مسترد کرتے ہوئے تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے- متحدہ عرب امارات کے شہزادہ محمد بن زید النہیان نے تشدد کی مذمت کی ہے اور تنازعہ کو فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے- اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کیلئے اپنی مضبوط حمایت کا اعادہ کیا ہے- کئی دہائیوں سے فلسطینیوں پر ہونے والے جبر اور نسل کشی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امن کے دعویدار اور اقوام متحدہ پر اپنا اثر و رسوخ رکھنے والے امریکی صدر نے حماس کے اسرائیل پر حملے کی مذمت کرکے آنے والے دنوں میں اسرائیل کو ہر طرح کی مدد(ایک طرح جنگ میں طول) کی پیشکش کی ہے، اور اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکی عزم پر زور دیا ہے-

کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نےتشدد کے فوری خاتمے اور دونوں فریقوں سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے- چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کو بتایا ہے کہ بیجنگ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے ہونے والی ہلاکتوں سے غمزدہ ہے اور تشدد میں مزید اضافے کو روکنے اور دیرپا امن کے اقدامات کا خواہاں ہے-چین کے سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر سے شروع ہونے والا تنازعہ خطے میں ’’جنگ اور امن کے درمیان ایک اہم انتخاب‘‘ کی نمائندگی کرتا ہے، وانگ یی نے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کو فون پر بتایا کہ ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن انہیں بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کرنی چاہیے اور شہریوں کے تحفظ کا خیال رکھنا چاہیے- روسی صدر نے کہا ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں ناکام پالیسی کی واضح مثال ہے، جس نے اس خطے میں مسلسل اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی ہے-روس سمجھتا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین اسرائیل کی مکمل حمایت کر کے ایک برائی کا مجسمہ بنے ہیں جو کسی بھی طرح درست نہیں- عالمی رہنماؤں کے مؤقف سے یہ بات واضح ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز پر امن فیصلے کے خواہاں ہیں-

اگر بات کی جائے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی تو تمام فیصلے فلسطینیوں کے موقف کی تائید کرتے ہیں- ان قراردادوں میں سے چند ایک کی وضاحت انتہائی ضروری ہے - فلسطین کا مسئلہ پہلی بار 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے لایا گیا اور یوں قرارداد 181 (II) کے ذریعے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا، ایک عرب، ایک یہودی ریاست اور یروشلم کو ایک خصوصی بین الاقوامی حکومت کے تحت رکھا گیا -[10]

1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد، جنرل اسمبلی نے 1949ء کی قرارداد 194 (III) کے ذریعے فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور بحالی کے حقوق کی توثیق کرتے ہوئے فریقین کو حتمی فیصلے تک پہنچنے میں مدد کے لیے مصالحتی کمیشن برائے فلسطین (UNCCP) قائم کیاگیا تاکہ تنازعہ کو احسن انداز (Peaceful)میں حل کیا جاسکے -[11]

1974ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 3236 منظور کی، جس میں فلسطین میں فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کی توثیق کی گئی- جس میں بیرونی مداخلت کے بغیر حق خودارادیت، قومی آزادی اور خودمختاری کا حق، اور ’’ان کے گھروں اور جائیدادوں میں واپس جانے کا حق جہاں سے وہ بے گھر ہوئے تھے کا حق بھی شامل ہے- جنرل اسمبلی نے قرارداد 3237 کی بھی منظوری دی جس نے پی ایل او(PLO) کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دیا گیا -[12] مزید یہ کہ 1975ء میں جنرل اسمبلی کی قرارداد 3376 کے ذریعے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کی مشق ’’CEIRPP: Committee on the Exercise of the Inalienable Rights of the Palestinian People‘‘پر کمیٹی قائم کرکے قراردادوں پر عمل درآمد کی درخواست کی تاکہ فلسطینی عوام بیرونی مداخلت کے بغیر اپنے ناقابل تنسیخ حقوق، حق خود ارادیت، قومی آزادی، خودمختاری اور اپنے گھراور املاک کو واپس لینے میں کامیاب ہوسکیں -[13]

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 478، جو 20 اگست 1980 کو منظور کی گئی، جس میں اسرائیل کے مشرقی یروشلم کے الحاق کی کوشش کی مذمت کی گئی تھی- UNSC 478 نے اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 476[1] کی عدم تعمیل کو نوٹ کیا اور اسرائیل کے 1980 کے یروشلم قانون کی مذمت کی جس میں یروشلم کو اسرائیل کا ’’مکمل اور متحدہ‘‘ دارالحکومت قرار دیا گیا، جو کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے -[14]

29 نومبر 2012ء کو جنرل اسمبلی نے فلسطین کو اقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دیا- اسمبلی اور اس کے ذیلی اداروں جیسے انسانی حقوق کونسل کے ایجنڈے پر متعلقہ امور میں فلسطینیوں کا حق خودارادیت، قدرتی وسائل پر ان کی خودمختاری، امداد، پناہ گزینوں، آئی ڈی پیز (Internally displaced persons)، UNRWA United Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees، انسانی حقوق، اسرائیلی آباد کاری، فلسطین اور یروشلم سمیت دیگر مسائل کے پرامن حل کی بات کی-

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ذیلی شاخیں بھی ذمہ داری کے ساتھ اپنی ڈیوٹی نبھا رہی ہیں- اقتصادی اور سماجی کونسل (ECOSOC) جو 26 جون 1945کو بنائی گئی تین جہتوں (اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی) کو بڑھانے کیلئے اقوام متحدہ کےزیرنگرانی ذمہ داریاں نبھارہی ہے- یہ کونسل اقوام متحدہ کی اہم کانفرنسز اورسربراہی اجلاسوں کی کارروائیوں کی بھی ذمہ دارہے- ECOSOC اقوام متحدہ کی شراکت داری اور سول سوسائٹی کی شرکت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر کام کر رہی ہے- گزشتہ برسوں کے دوران ECOSOC کی طرف سے فلسطینی آبادی کے حالات زندگی پر اسرائیلی قبضے کے بعد معاشی اور سماجی اثرات کے متعلق کئی قراردادیں منظور کی گئی ہیں- فلسطینی خواتین کی مدد اور فلسطینی عوام کےحق خود ارادیت پراس کونسل کا کام نمایاں ہے -[15]

اقوام متحدہ کی قراردادوں اور امن کیلئے کوشاں ممالک کی ممکنہ امن آپشنز پر عمل درآمد نہ ہونا دراصل ان ممالک پر ایک طرح سے فرد جرم ہے جو مثبت تبدیلی لانے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن اسرائیل کی ہمدردی اور بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد اور عالمی نظام کے احترام کے دعوؤں کے برخلاف صورتحال کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے-

یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اسرائیل اورفلسطینی علاقے کا مسئلہ پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہے، جس میں تاریخی، جغرافیائی سیاسی اور ثقافتی عوامل شامل ہیں- اقوام متحدہ (UN) اسرائیل- فلسطین تنازعہ سے متعلق مختلف قراردادوں میں شامل رہا ہے اور ان قراردادوں پرعمل کرنا تنازعہ کا موضوع رہا ہے- یہاں کچھ سماجی، اقتصادی، سیاسی اور نظریاتی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اسرائیل اور دیگر جماعتی گروپ نے مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر پوری طرح عمل نہیں کیا-

تاریخی تناظر میں ریاست اسرائیل کے قیام کے نتیجے میں فلسطینی عربوں کی نقل مکانی ہوئی، جس کے نتیجے میں جاری کشیدگی اور تنازعات شروع ہوئے-اس کے علاوہ اسرائیل نے خود خطے میں کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جو سیکورٹی خدشات کا سبب بنے ہیں-

امریکہ سمیت دیگر مغربی اور کچھ مشرقی (ہندوستان) ممالک نے مفادات کی بنا پر اسرائیل کے ساتھ ایک مستحکم اتحاد برقرار رکھاہے اس اتحاد میں نمایاں جغرافیائی، سیاسی، معاشی ، فوجی تعاون اور ثقافتی تعلقات ہیں - حال ہی میں ہونے والےاتحاد میں جی 20 کی طرف سے لایا جانے والا نیا معاشی (انڈیا، مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور) پلان ہے- اس طرح کے اتحاد ہمیشہ فلسطین اسرائیل تنازعہ پر اثرانداز رہے ہیں-چند دیگر ممالک بشمول ورلڈ سپر پاورز نے اپنے قومی مفاد کا تحفظ کے لیے عالمی قانون کی دھچیاں اڑائی ہیں -

جمہوری ممالک میں ملکی سیاست ، خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر تی ہے- سیاسی رہنما مفاد پرست گروہوں اور انتخابی تحفظات کی بنا پر اسرائیل-فلسطین کے مسئلے پر فلسطینی مؤقف کو متاثر کر رہے ہیں-

کچھ ممالک نظریاتی طور پر اسرائیل کے ساتھ مشترکہ اقدار، تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی تعلقات کے تحفظ کی بنیاد پر اتحاد کیا اور یہ نظریاتی صف بندی اسرائیل فلسطین مسئلے کے حل میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اثرانداز رہی -

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اکثر اسرائیل فلسطین تنازعہ سے متعلق قراردادوں پر اتفاق رائے تک پہنچنے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا رہاہے- رکن ممالک کے درمیان ویٹو کے اختیارات اور مختلف قومی مفادات قراردادوں کے موثر نفاذ میں رکاوٹ کا موجب بنے -

فریقین کےدرمیان اعتماد کی کمی تنازعہ کی شدت اور قراردوں پر عمل نہ کرنے کا موجب بنی ۔ ماہرین کے مطابق اعتماد کی کمی کا اصل محرک یک طرفہ طور پہ طاقت کا سنگین استعمال ہے -

یہ وہ عوامل ہیں جو مؤثر عمل درآمد میں رکاوٹ کا باعث بنے ہیں- اس مسئلے (اسرائیل فلسطین تنازعہ )کے حل کے لیے کئی اقدامات توجہ طلب ہیں- سب سے پہلے دونوں فریقین کو بامعنی مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہونا ہوگا- بامعنی مذاکرات کیلیے سمجھوتہ کرنے اور مراعات دینے کی آمادگی درکار ہے- دوسرا، عالمی برادری کو پر امن حل کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا- خطے میں امن فوج کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جاری رکھنےپر اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہوں گی- اسرائیل فلسطین تنازعہ ایک پیچیدہ اور دیرینہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے ایک جامع اور کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے-

٭٭٭


[10]https://www.un.org/unispal/data-collection/general-assembly/

[11]https://www.hrw.org/legacy/campaigns/israel/return/un194-rtr.htm

[12]https://www.un.org/en/ga/62/plenary/palestine/bkg.shtml

[13]https://www.un.org/unispal/committee/

[14]http://unscr.com/en/resolutions/478

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر