غزہ شہر کے اہم تاریخی حقائق

غزہ شہر کے اہم تاریخی حقائق

غزہ شہر کے اہم تاریخی حقائق

مصنف: بابرجان خوازی خیل دسمبر 2023

غزہ کے مستقبل کو تو تاریکی میں دھکیلا جا رہا ہے لیکن اس کی تاریخ پر روشن رکھنا از حد ضروری ہے- شاید اس کی تاریخ کی آگاہی ہی اس کے مستقبل کی ضمانت بن سکے- یہودی غزہ کی زمین اس کی تاریخ کو مسخ کرکے ہی حاصل کر سکتے ہیں جبکہ فلسطینیوں کو بھی اپنی بقاء کا راز اسی تاریخ سے تلاش کرنا پڑے گا- یہودیوں کے اس خطے پر حق حکمرانی کا واحد جواز جو تاریخ سے اخذ کیا جاتا ہے اس جواز کا جواب بھی تاریخ کے جھروکوں میں جانکے بغیر نہیں دیا جا سکتا -تماشہ باز مداری مؤرخین تاریخ کے دھاروں کو بدلنے کی کسی کوشش سے باز نہیں آئیں گے -یہی ان کی فطرت رہی ہے کے ہمیشہ حق اور سچ کو جھٹلاتے رہے ہیں -اس مضمون میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا غزہ کی تاریخ اس کے حال اور مستقبل میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہے ؟

غزہ شہر کی معلوم تاریخ کم و بیش چار سے پانچ ہزار سال پر محیط ہے -اس دوران غزہ کسی ایک حکومت کے زیر اثر یا کسی واحد تہذیب کی آماجگاہ نہیں رہا بلکہ:

“Gaza was ruled, destroyed and repopulated by various dynasties, empires, and peoples”. [1]

’’غزہ پر مختلف خاندانوں، سلطنتوں اور لوگوں کی حکومت، آباد کاری اور تباہی رہی‘‘-

معلوم تاریخ کے مطابق دراصل یہ ایک کنعانی بستی تھی-یہ کنعانی کون تھے؟کیا یہ یہودی تھے؟کنعانیوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہی غزہ کے اصل مکینوں کی شناخت ممکن ہو سکے گی-

“Canaan was a Semitic-speakaing civilization and region of Southern Levant in the Ancient Near East during the 2nd millennium BC”.[2]

’’کنعان اصل میں سامی زبانیں بولنے والی تہذیب تھی جو تقریبا ً2000 سال ق -م میں قدیم مشرق قریب کے جنوبی لیونٹ میں آباد تھی‘‘-

کنعان کی بیان کردہ دونوں خصوصیات، (لسانی اور جغرافیائی پہچان) کا تجزیہ کرنےسے ہمیں کنعانیوں کی اصل پہچان واضح ہو جاتی ہے-سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سامی( سمیٹک ) زبانیں کون سی ہیں -

سامی زبانیں افریقی ایشیائی زبانوں کے خاندان کی شاخ سے ہے-جن میں عربی،امہاری،عبرانی کے علاوہ متعدد دیگر قدیم اور جدید زبانیں شامل ہیں- کنعان کے لوگ ان میں سے 5مختلف قسم کی سامی زبانیں بولتے تھے جو پونیشین، عمونائی ،موآبی ،عبرانی اور ادومی ہے-

  • پونیشین ایک معدوم کنعانی سامی زبان ہے جو صور(لبنان) اور صیدا (لبنان)کے شہروں کے آس پاس کے علاقے میں بولی جاتی تھی -[3]
  • ’’صور لبنان کا ایک شہر ہے جو دنیا کے قدیم ترین مسلسل آباد شہروں میں سے ایک ہے ‘‘-[4]جبکہ صایدون یا صیدا لبنان کاتیسرا بڑا شہر ہے -
  • عمونی ایک کنعانی زبان ہے جو جدید دور کے اردن میں بولی جاتی تھی-اسی کے نام پر اردن کے دارلحکومت کانا م عمان رکھا گیا ہے -
  • موآبی جدید دور کے وسطی مغربی اردن میں بولی جاتی تھی-
  • عبرانی
  • ادومی جنوب مغربی اردن اور موجودہ اسرائیل کے کچھ حصوں میں بولی جاتی تھی -

لہٰذاپہلی حقیقت جو یہاں سے واضح ہوتی ہے کہ کنعانی جو غزہ کے باشندے تھے وہ صرف عبرانی زبان بولنے والے اور یہودی نہیں تھے- نہ ہی صرف عبرانی زبان کو سامی زبان سے منسوب کیاجا سکتا ہے-البتہ سامی عبرانی زبان کے علاوہ متعدد دیگر زبانوں کا مجموعہ ہے -

اسی طرح کنعان کی جغرافیائی خدوخال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جنوبی لیونٹ (کنعان) کا علاقہ موجودہ اسرائیل، فلسطین، اردن اور کچھ محققین کے نزدیک جنوبی لبنان، جنوبی  شام اور سنائی جزیرہ پر مشتمل ہے- اسی طرح قدیم مشرق قریب ایک ایسا خطہ ہے جو ابتدائی تہذیبوں کا گھر تھا اور جو تقریباً جدید مشرق وسطیٰ پر مشتمل تھا:

’’میسپوٹامیا (جدید عراق، جنوبی ترکی، جنوب مغربی ایران اور شمال مشرقی شام وغیرہ)‘‘[5]

’’قدیم مصر، قدیم پارس، اناطولیہ اور مغربی آذربیجان‘‘ [6]

کنعان آٹھ مختلف پولٹی،علاقوں یا لوگوں پر مشتمل تھا جو پونیشین، فلسطینی، اسرائیلی، موآب، عمون، ٹجیکا، گیشور اور ادومی کہلاتے تھے - ان لوگوں کا موجودہ پتہ اور شناخت درجہ ذیل ہے:

  • پونیشین مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں شروع ہونے والی ایک قدیم سامی تہذیب تھی جو بنیادی طور پر جدید لبنان میں واقع ہے -[7]
  • موآب بحیرہ مردار کے مشرقی ساحل کے ساتھ جدید اردن کے جنوب میں واقع ہے -[8]
  • عمون دریائے ذرقہ اور وادی مجیب کے درمیان موجود اردن کاعلاقہ ہے -[9]
  • ٹجیکا مصری سمندری لوگ تھے -
  • گیشور جدید دور کے گولان کے پہاڑیوں کے علاقے میں واقع ہے -[10]
  • ادوم موجودہ جنوبی اسرائیل اور اردن کے درمیان تقسیم ہے -

جغرافیائی حقائق سے بھی یہ بات واضح ہے کہ کنعانی جو کے غزہ کے قدیم باشندے تصور کیے جاتے ہیں، وہ صرف موجودہ اسرائیل میں رہنے والے یہودی نہیں تھےبلکہ کنعانی اُوپر بیان کردہ علاقوں میں بسنے والے مختلف قوموں کے مختلف زبانیں بولنے والے لوگ تھے- آسان الفاظ میں کنعان اوپر بیان کیے گئے 8علاقوں میں رہنے والے لوگوں اور بیان کردہ 5زبانیں بولنے والوں پر مشتمل ہے-

اب غزہ کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو مختلف ادوار اور عہد حکمرانی کے تناظر میں بیان کیا جاتا ہے -

کانسی کا دور:

غزہ میں آباد کاری کی تاریخ اور ابتدائی آثار 3300 سے  3000ہزار سال قبل مسیح ہے -یہ آباد کاری ٹیل ازسکن کے مقام پر موجود تھی جو کہ موجودہ غزہ شہر کے جنوب میں واقع ہے -

“Tell es – Sakan standing some 5 km south of Gaza City in what is today the Gaza strip”.[11]

’’ٹیل ازسکن موجودہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں 5کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے ‘‘-

یہاں پر قدیم مصر کا قلع موجود تھا جو کہ کنعانی علاقہ پر قائم کیا گیا تھا-اس دورمیں کنعانیوں اور مصر کے درمیان زرعی اجناس کی تجارت کے بدولت غزہ نے کافی خوشحالی دیکھی لیکن بعد میں مصر کے تجارتی مفادات اور رجحان لبنان کی طرف بڑھنے سے غزہ کا کردار صرف سامان کی ترسیل کیلیے بندرگاہ کے طور پر محدود ہو گیا-کانسی کے ابتدائی دور کے دوسرے فیز (3000سے 2700ق- م) میں تقریباً اس علاقے کو ترک کردیا گیا-

یہاں ایک بات کی وضاحت بڑی ضروری ہے کہ یہ ساری پیش رفت جس کانسی کے دور میں ہو رہی ہے اس کے اختتام پر یہودی قوم کا آغاز ہوتا ہے-’’کانسی کا دور تقریبا 3300ق -م سے 1150ق -م تک ہے‘‘-[12]یہودی قوم کی ابتداء ہی کانسی کے دور کے اختتام پر ہو رہی ہے -

کنعانیوں نے 2500ق -م میں ٹیل ازسکن کو دوبارہ آباد کیا اور 2250ق-م میں غزہ شہر کی تہذیب نےایک بار پھر مکمل اختتام دیکھا اور غزہ کے تمام شہروں میں سکونت ختم ہو گئی-اس کے بعد ابتدائی کانسی کے دور کے چوتھے فیز میں 2200سے 2100ق -م میں ایک نیم خانہ بدوشی دیہاتی آباد کاری قائم رہی اور وادی غزہ میں دریا کے کنارے ٹیل الا جل کے مقام پر ایک نیا شہر ی مرکز قائم ہونے لگا-

“It is located at the mouth of Wadi Ghazzah just south of the town of Gaza”.[13]

’’ٹیل الاجل غزہ ٹاؤن کے جنوب میں بالکل وادی غزہ کے منہ پر قائم ہے‘‘-

کانسی کے وسطی دور 1550-2100 ق -م کے دوران ٹیل ازسکن کنعان کے جنوب میں واقع ایک قلعہ تھا جس کو 1650 ق -م میں کنعانی ہائکسوس نے فتخ مصرکے بعد پرانے شہر کی باقیات پردوبارہ تعمیر کیا-

“Hyksos is a term which, in modern Egyptology, Designates the kings of the fifteenth Dynasty of Egypt”.[14]

’’ہائکسوس ایک اصطلاع ہے جو جدید مصریات میں مصر کے پندرویں خاندان کے بادشاہ کےلیے استعمال ہوتی ہے‘‘-

یہ کنعانی ہائکسوس بھی ممکنہ طور پر یہودیوں کو ظاہر نہیں کرتا جیسا کہ ہائکسوس کو مغربی لیونٹ سے تعلق رکھنے والا ظاہر کیاگیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ اسرائیل جنوبی لیونٹ میں واقع ہے -مذکورہ بالا مطالعہ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ غزہ میں آثار قدیمہ کہ قدیم ترین آثار ٹیل از سکن کے مقام پر ہے جہاں مصری آبادکاری کے آثار کنعانیوں سے بھی پہلے موجود تھے -

قدیم دور:

ایک صدی کے بعد یہ شہر پھرتباہ ہوا جب ہائیکسوس کو مصر سے نکالا گیا -مصر نے تیسری دفعہ ٹیل الاجل پہ ایک شہر قائم کیا -جو کانسی کے دور کے اختتام پر ایک دفعہ پھر تباہ ہوا- العرض! وہ شہر جو موجودہ غزہ ہےمسلسل مصر، شام (آشوری)  اور  میسپوٹامیا (عراق) کے درمیان جنگوں کا مرکز بنا رہا- مثال کے طور پر:

“Egyptian Pharaoh Ahmose1 completed his victory over the Hyksos by conquering their stronghold Sharuhen near Gaza after a three-year siege”.[15]

’’مصر کے فرعون آہموس نے غزہ کے قریب شاروہن کو تین سال کے محاصرہ کے بعد فتح کیا اور ہائیکسوس کو شکست دی‘‘-

قدیم مصری اور شامی ریکارڈ میں غزہ کا بار بار تذکرہ ملتا ہے - جیسے ’’امرنا کے خطوط میں اسے :ھزاتو‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے -

امرنا محفوظ شدہ دستاویزات ہیں جو دراصل مصر اور کنعان میں ان کے نمائندوں اور قریبی ریاستوں کے درمیان سفارتی خط و کتابت ہے - جس کا دورانیہ کم و بیش 30سال ہے (1332-1360)-[16]

تھتموسس جو کہ مصر کے اٹھارہویں خاندان کا چھٹا فرعون تھا کے دور (1425-1479ق- م) غزہ کو شام اور مصر کے تجارتی راستے کے طور پر بیان کیا اس کے بعد تقریباً 350سال غزہ مصر کے ہاتھ میں رہا اور 12ویں صدی ق -م میں اسے فلسطینیوں نے آباد کیا -

’’فلسطینی ایجین سے ہجرت کرکے کانسی کے دور کے اختتام پر 1175میں کنعان میں آباد ہوئے- وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ انہوں نے سامی معاشروں سے بھی کچھ تہذیبی عناصر اپنائے لیکن اپنا جداگانہ کلچر بھی برقرار رکھا‘‘-[17]

ایجین کا تعلق یونانی تہذیبوں سے ہے-

’’ایجین کی اصطلاح تین الگ الگ لیکن ایک دوسرے سے رابطے میں اور جغرافیائی طور پر جڑے ہوئے علاقے تھے جو کریٹ، سائیکلیڈز اور یونان سرزمین پر مشتمل ہے ‘‘-[18]

’’نو آشوریوں کے ہاتھوں 604ق -م میں صدیوں محکوم رہنے کے بعد بالا آخر اس فلسطین پولٹی کو نئی بیبی لونک (Babylon) سلطنت کے بادشاہ نیکیوبدنزارنے تباہ کیا‘‘-[19]

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ غزہ شہر کئی بار تباہ ہونے کے بعد دوبارہ آباد ہوا اور یہاں یونان سے آنے والے جن لوگوں نے فلسطین کو 1175 ق-م میں آباد کیا اور جنہیں فلسطینی کہا گیا یہ غالباً موجودہ فلسطینیوں کے متعلق نہیں ہے- کیونکہ مختلف حوالہ جات میں ان ایجین فلسطینیوں سے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ یہ تاریخ کے صفحات سے غائب ہو گئے اور بعد میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا- (مزید تحقیق درکار ہے)

’’اس سلطنت کا حصہ بننے کے بعد اور اس کی جانشین فارس سلطنت کے بعد فلسطینیوں کی شناخت کھو گئی اور 5 ویں صدی ق- م میں تاریخ اور آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے غائب ہوگئے‘‘-[20]

’’بائبل میں بیان کردہ حقائق کے مطابق پہلی بار غزہ حضرت داؤد (علیہ السلام)  کے دور میں 11ویں صدی ق-م کے اوائیل میں اسرائیلیوں کے قبضہ میں آیا ‘‘-[21]

یہاں پر ایک حیران کن تحقیق کا حوالہ دینا بڑا ضروری ہے -یہ تحقیق ڈاکٹر آرنلڈٹائن بی کی ہے -ان کی ماضی بعید میں پائی جانے والی تہذیبوں کی تحقیق پر مبنی ایک شہرہ آفاق اور مستند کتاب ’تاریخ کا مطالعہ‘ (A Study of History)  ہے-یہ کتاب بارہ جلدوں پر مشتمل ہے جس میں ماضی میں پائی جانے والی کم و بیش 36 تہذیبوں کا تذکرہ ملتا ہے -ڈاکٹر موصوف کی تحقیق کے مطابق یہودیت کا جنم بیبی لونک (Babylon) تہذیب سے ہوا-[22]

’’تحقیق کےمطابق بیبی لونک سلطنت (عراق) کا دورانیہ (1894-539ق -م ) ہے‘‘-[23]

اسی تہذیب کے لوگوں میں یہودیت کا جنم ہوا-  توریت کے بعد یہودیت کی سب مقدس کتاب تالمود بھی اسی نسبت سے بائبلونئین کہلاتی ہے

بیبی لونک تہذیب کا ماخذ سمیری تہذیب ہے-اس کے متوازی مصر میں مصری تہذیب اپنی الگ شناخت کے ساتھ موجود تھی گو کہ مصری تہذیب پر سمیری تہذیب کے اثرات موجود تھے، لیکن اس بارے میں محققین بغیر کسی ابہام کے متفق ہیں کہ سمیری اور مصری دو الگ تہذیبیں تھیں- بیبی لونک تہذیب (1894-539ق-م) کے پہلے وسط میں کہیں جا کر یہودیت کا جنم ہوا تاہم غزہ پر مصری حکمرانی کے آثار ان کے وجود میں آنے سے بھی قبل موجود ہیں -

’’جب کنگ ڈم آف اسرئیل پر تِغلات پلیسر 111اور سرگون11نے قبضہ کیا تو غزہ 730ق -م میں نو آشاری سلطنت میں شامل ہوگیا ‘‘-[24]

’’آج اگر گوگل پہ کنگڈم آف اسرائیل (720-930 ق -م )اور یہودہ کا نقشہ دیکھیں تو غزہ کا علاقہ اس وقت بھی ان دونوں ریاستوں میں شامل نہیں تھا بلکہ آزاد دیکھایا گیا ہے‘‘-[25]

’’600-601ق -م میں بیبی لون کے بادشاہ نیکیوبد نزار کو دوبارہ مصر کے فرعون نیچو اور میگڈول نے غزہ کے قریب شکست دی‘‘-[26]

’’332ق -م میں الیگزینڈرمقدونی نے 5 ماہ کے محاصرے کے بعد غزہ فتح کیا ‘‘- [27]

’’پھر اس نے غزہ کو سٹی اسٹیٹ یا پولس بنایا اور یونانی تہذیب نے غزہ میں جڑیں پکڑنی شروع کی اور ہلینک فلسفے اور تعلیم کا مرکز بنا ‘‘-[28]

’’غزہ کو ایلوس گبینیس نے از سر نو تعمیر کیا جب 63ق -م میں اس کو سلطنت روم میں شامل کیا ‘‘-[29]

’’ سلطنت روم کے 600 سالہ دور میں غزہ امن اور ترقی کا گہوارہ بنا رہا -اور مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے درمیان تجارت کیلئے ایک معروف بندر گا رہا‘‘-[30]

’’66صدی عیسوی میں یہودیوں نے بغاوت کرکے غزہ کو جلا دیا -اور اگلے سال ٹائٹس کے یروشلم کو تباہ کرنے کے بعد غزہ پھر اہمیت اختیار کر گیا ‘‘-[31]

اسلامی دور:

637عیسوی میں تین سال محاصرے کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دور میں غزہ کو فتح کیا گیا-اس کے بعد 1917ء تک کچھ تعطل کے ساتھ غزہ مسلسل مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہا -خلفائے راشدین کے بعدغزہ 750ء تک بنوامیہ کے زیر اثر رہا پھر 750سے غزہ پر عباسی خلافت کادور شروع ہوا- 767ء میں غزہ شہر میں محمد ابن ادریس الشافی پیدا ہوئےجن کو اما م شافعی کے نام سے جانا جاتا ہے اور شافعی مسلک کے بانی ہیں-977ء میں غزہ فاطمی سلطنت کے زیر اثر آیا اور 1100ء میں صلیبیوں نے فاطمیوں سے غزہ کا کنٹرول حاصل کرلیا جو زیادہ عرصہ قائم نہیں رہا اور صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں غزہ کو واپس فتح کرلیا- 1260ء میں منگولوں نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا اور بہت جلد مصر کے مملوک سلطان رکن الدین بائبرس نے منگولوں کو باہر نکال کر غزہ دوبارہ فتح کرلیا -پھر غزہ میں 1348،1294اور 1352میں بالترتیب شدید زلزلہ ،مہلک وباء اور تباہ کن سیلاب آیا -1516ء میں غزہ خلافتِ عثمانی میں شامل ہوا جو کم و بیش پہلی جنگ عظیم تک عثمانی خلافت کے زیر اثر رہا -

موجودہ دور:

پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کا علاقہ ہونے کی وجہ سےغزہ 1948ء تک تاج برطانیہ کے زیر تسلط آ گیا-1948ءعرب-اسرائیل جنگ کے بعد مصر نے غزہ کا کنٹرول حاصل کرلیا جو 1967ء تک قائم رہا-اسی سال عرب-اسرائیل جنگ کے نتیجہ میں اسرائیل غزہ پر قابض ہو گیا اور بے پناہ ظلم کے نتیجے میں غزہ کے لوگوں نے مسلح جد و جہد کا آغاز کیا -

’’2008ءمیں انسانی حقوق اتحاد نے دعویٰ کیاکہ 1967ءسے غزہ پر اسرائیلی قبضہ کے بعد انسانیت سوز واقعات اپنی آخری حد پر پہنچ گئے ہیں‘‘-[32]

ستمبر 1993ء میں اسرائیل اور ’’فلسطین لبریشن آرگنائزیشن‘‘نے اوسولو معاہدہ پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں غزہ پر فلسطین کا انتظامی اختیار تسلیم کر لیا گیا -2005ء میں اسرائیل نے یک طرفہ طور پر غزہ سے فوج اور آبادکاری کا انخلاء کیا لیکن ساتھ ہی سمندری تجارتی پابندی عائد کردی -2007ء سے اب تک اسرئیل نے کئی بار غزہ پر تباہ کن حملے کیے جو درجہ ذیل ہیں :

  1. Operation Summer Rains
  2. Operation Cast Lead
  3. 2009میں ٹینکوں ،توپ خانے اور نیوی کا سمندری حملہ
  4. 2012کاآٹھ روزہ حملہ
  5. 2021کاگیارہ روزہ حملہ

مذکورہ بالا تحقیق اور مطالعہ سے واضح طور پر نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ریاست اور یہودیوں کا کسی طور غزہ پر کوئی تاریخی حق تسلیم نہیں کیا جاسکتا - اگر یہودی ربی تاریخ کی بنیاد پر حق جتلاتےہیں توجناب آپ سے بھی دو ہزار سال قبل غزہ آباد تھا - اگر مذہبی بنیاد پر آپ کا دعویٰ مان لیا جائے تو زرتشی اور بت پرستوں کو آپ خود ہی یہ علاقہ حوالہ کردیں - بات ہو عہدحکمرانی کی تو پھر شامی اور مصریوں کو امور سلطنت اور حکمرانی سونپ دیں- کیونکہ وہ آپ سے دو ہزار سال قبل حکمرانی کررہے تھے - اور غزہ کی معلوم 5ہزار سالہ تاریخ میں آپ صرف 2 سے اڑھائی سو سال حکمران رہے ہیں- اگر باشندگی کی قد یمیت کو بنیاد بنایا جائے تو کنعانی صرف اسرائیلی نہیں تھے بلکہ لبنان، اردن، شام، فلسطین کے علاقوں میں رہنے والے آٹھ مختلف قسم کے لوگ تھے- کنعانی صرف موجودہ اسرائیل اور یہودیوں کو نہیں کہاجاسکتا- لسانی بنیاد پر بھی آپ کی دلیل کمزور ہے کیونکہ کنعانی پو نیشین، عمونائی، موآبی، ادومی اور عبرانی بولتے تھے-عہد حاضر کے کسوٹی پہ آپ کے عزائم کو پرکھا جائے تو مذہبی بنیاد پر آپ دعویٰ نہیں کرسکتے کیونکہ غزہ کی 99فیصدآبادی مسلمان ہے - جمہوریت کے اصولوں پر آپ کا دعویٰ پرکھیں تو آبادی کے99 فیصد لوگوں کی رائے آپ کے خلاف ہے- معیار اگر عالمی جرگہ رکھا جائے تو (یواین او) میں آپ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں -بظاہر لگتا تو ایسا ہی ہے کہ حملے اور قبضے کے جائز اور ناجائز ہونے کا اخلاقیات، قانون یا کسی اصول سے تعلق نہیں رہا البتہ یہ صرف طاقت کا معاملہ بن گیا ہے - دنیا جنگل کے قانون پر چل پڑی ہے جہاں طاقتور ہونا جائز اور ناجائز طے کرنے کا معیار بن گیاہے -کیونکہ آپ کریں تو نو آباد دیاتی نظام جائز ،کالے اور گورے کی نسلی عصبیت جائز، عراق، افغانستان، لیبیاء اور مشرقی وسطیٰ کے حملے جائز ، فلسطینیوں کی نسل کشی جائز- قصہ مختصر! طاقتوروں کے اقدامات کے جائز اور درست ہونے کا معیار اخلاقیات،قانون یا کوئی بین الاقوامی اصول نہیں -

٭٭٭


[1]Filfil, Rania; Louton, Barbara (September2008). “The Other Face of Gaza; The Gaza Continuum’’

[2]En.m.wikipedia.org, November 16,2023

[3]en.m.wikipedia.org(17-11-2023).

[4]The world’s 20 oldest cities. The Telegraph 30 May 2017.

[5]‘’Nemet-Nejat, Karen Rhea, Daily Life in Ancient Mesopotamia (1998).’’

[6]‘’Armenian Highland’’  Encylopaedia Britannica.August 28,2017

[7]Kitto, John (1851).A Cyclopedia of Bibilical Literature. Adan and Charles Black.

[8]LaBianca, oystein S.;Younke, Randall W.(1995).

[9]Marilyn J. Lundberg.”Ancient Texts Relating to the Bible:

[10]Avraham Negev and Shimon Gibson(2001).

[11]de Miroschedji, Pirre; Sadeq, Moain (31Agust 2015)

The New Encyclopedia of Archaeological Excavations in the Holy Land. Vol 5

[12]En.m.wikipedia.org, November 16,2023

[13]‘’ll. Preliminary Results 1 Swedish Archaeology in Jordan, Palestine and Cyprus, Peter Fischer”

Retrieved 19 october 2020

[14]Bietak 2001,p. 136.

[15]Grimal 1988, p. 193

[16]Moran, p.xxxiv

[17]Aaron j. Brody; Roy j. King (2013). “ Genetics and the Archaeology of Ancient Israel  Human Biology. 85(6):925

[18]"Aegean Civilizations "Encyclopedia Britannica. Retrieved February 1, 2019.

[19]"St. Fleur, Nicholas. 2019." DNA Begins to Unlock Secrets of the Ancient Philistines" The New York Times .

[20]" Meyers 1997, p.313.

[21]Gaza- (Gaza, al –Azzah), Studium Biblicum Franciscanum – Jerusalem, 2000-12-19, archived from the original on 2012-07-28, retrieved 2009-02-16 ."

[22]Dr Arnold Toyn Bee (Vol=vii. Table iii & iv).

[23]En.m.wikipedia.org ,November 16,2023

[24]Gaza- (Gaza, al –Azzah), Studium Biblicum Franciscanum – Jerusalem, 2000-12-19, archived from the original on 2012-07-28, retrieved 2009-02-16 "

[25]En.m.wikipedia.org,November 16,2023

[26]Bassir 2017, P. 9.

[27]Gaza- (Gaza, al –Azzah), Studium Biblicum Franciscanum – Jerusalem, 2000-12-19, archived from the original on 2012-07-28, retrieved 2009-02-16 "

[28]Ring, 1996, P. 287

[29]Gaza- (Gaza, al –Azzah), Studium Biblicum Franciscanum – Jerusalem, 2000-12-19, archived from the original on 2012-07-28, retrieved 2009-02-16 "

[30]Ring, 1996, P. 287

[31]Dowling, 1913, P. 33.

[32]“Human rights coalition: Gaza at worst since 1967

CNN.2008-03-06. Archived from the original on May 6, 2008. Retrieved 2009-01-19.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر