نَسَف (اُردو مثنوی)

نَسَف (اُردو مثنوی)

سمر قند کا گاؤں ہے اک نَسَف
عزیز اس کو رکھتے خلف اور سلف

نَسَف ایک مرکز تھا اَحناف کا
مرقع تھا خوشبوئے اَسلاف کا

طُفیلِ لعابِ رسولِ ھُدیٰ
نسف سے ہدایت کا دریا چلا

ہوئیں اس سے سیراب سب وادیاں
عراقی و ہندی، خراسانیاں

روان و دواں فیضِ نامِ عمر
ہوا حق قوی شر کی ٹوٹی کمر

نسف کا عمرؒ سیفِ اسلام ہے
کہ صدیوں کی محنت کا اِنعام ہے

عمر، بن کے خورشید چمکا وہاں
کہ ہیں آج تک اُس کی ضَو پاشیاں

حیات و تصانیف و مرقد شریف
روان و عیاں سب سے فیضِ لطیف

دیا روشنائی کو اپنا لہُو
شجر دین کا تاکہ پائے نمُو

جو تھی گرد آئینہءِ عقل پر
اتارا اُسے لے کے موروں کے پَر

خرد زاغ لے کر پڑی تھی جہاں
کیا مست طاؤوسِ ایماں وہاں

مسلماں کی تلقیں کے پیشِ نظر
مرتب رسالہ کیا مختصر

کیا چند سطروں میں اس کو بیاں
تھا اونٹوں کی پشتوں کا بارِ گراں

کیا نیم کوزے میں قلزم کو قید
کیا جیبِ دامن میں انجم کو قید

وہ ناخن میں دیدارِ کونین ہے
وہ پتے پہ تصویرِ ثقلین ہے

وہ والعصر و کوثر کا فیضان ہے
وہ تقلیدِ ایجازِ قرآن ہے

کہوں جب عمر کو کہ محبوب ہے
نشانی بھی آخر کو مطلوب ہے

ازل سے حسینوں کا ہے یہ شِعار
کہ باتوں میں رکھتے ہیں وہ اختصار

طوالت کی ضِد اُن کا ابلاغ ہے
کہ پتے میں بھی علم کا باغ ہے

ورق پر یہ بوتے ہیں تخمِ سخن
تو معنوں کے اُگتے ہیں لاکھوں چمن

 

حسینوں میں کم گوئی کا ہے رواج
جبھی تو مفسر کی ہے احتیاج

یہ منصب نہیں ایک محجوب کا
مفسر بنے قولِ محبوب کا

بتاتا ہوں ’’بیدل‘‘ کی تائید سے
نہ دیکھ اُس کو تو غیر کی دِید سے

کہ ’’نظارۂ گُل ہو مقصود جب
وطن کر تو بلبل کی آنکھوں میں تب‘‘

نہ چمگادڑوں سے تو کر دوستی
نہ آنکھیں جہالت کے دھاگے سے سی

نہ رکھے وہ صحبت کسی خام سے
کہ ڈرتا ہو جو سوءِ انجام سے

جبھی تفتازانی سے ملتے ہیں ہم
محبت سے روشن ہوا اس کا دَم

محبت ہے صُبحِ ازل کی ضیا
محبت سے آنکھوں نے پائی شفا

ہوئے تفتازانی سے جب فیضیاب
تو ایمان نے جیسے پایا شباب

تلاشا ہے اِک کنزِ انمول کو
نکھارا ہے محبوب کے قول کو

یہ انگشتری میں نگیں جَڑ گیا
رسالہ اُجالا دلوں کا ہوا

رسالہ ہے ایمان کی زندگی
رسالہ ہے احسان کی زندگی

رسالہ حرا کی میں خلوت کہوں
اُسے ’’بدر کی دفعِ ظلمت‘‘ کہوں

وہ زم زم کی لذت وہ عجوہ کھجور
وہ اقصیٰ کی برکت وہ ایمن کا نور

ہے نُورِ خرد، عشق کی زندگی
وہ ہے کنزِ دل، جاں کی پایندگی

وہ کاذب پہ صدّیق کا وار ہے
وہ فاروق کا عدلِ بیدار ہے

وہ ذوالنّور کا فیضِ انوار ہے
وہ خیبر میں حیدر کی للکار ہے

امامِ حسن کی وہ تدبیر ہے
سرِ دجلہ تقریرِ شبّیر ہے

وہ سجاد و باقر کی تسکین ہے
وہ نعماں کو جعفر کی تلقین ہے

وہ جعفر وہ عالی وہ سید، شریف
بنے اُن کے تلمیذ امامِ حنیف

تھا نعمان سے جو عقیدہ چلا
جسے بعد میں ’’ماتریدی‘‘ کہا

نَسَف کے عمر نے وہی ہے لیا
جو جعفر نے نعمان کو تھا دیا

وہ ہے بوحنیفہ کا فیضِ جلیل
وہ ہے ماتریدی کی محکم دلیل

وہ الاشعری کا ہے نُورِ یقیں
وہ ہے باقِلانی کی فتحِ مبیں

جوینی، غزالی کی تائید ہے
پئے دفعِ ظُلمت وہ خورشید ہے

پڑی معتزلہ کو اس سے نکیل
فنا ہو گیا اُن کا مردود کھیل

تھے جہمی، حروری و مرجئی تمام
چڑھی سرکشوں کو نَسَف سے لگام

 

جہانِ ضلالت تھا خاشاک و خَس
نَسَف کا ہوا ایک شعلہ ہی بس

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر