فقہ حنفی کی تدوین: معاشرتی و سیاسی اثرات کا جائزہ

فقہ حنفی کی تدوین: معاشرتی و سیاسی اثرات کا جائزہ

فقہ حنفی کی تدوین: معاشرتی و سیاسی اثرات کا جائزہ

مصنف: ڈاکٹرشہلانور جون 2023

امام اعظم ابو حنیفہؒ کی ولادت 80ھ اور وفات 150ھ میں ہوئی، 132 ھ میں امیہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ابوالعباس سفاح کے ہاتھوں حکومتِ عباسیہ کی بنیادپڑی، اس طرح امام صاحب نے اموی اور عباسی دونوں حکومتوں کا زمانہ پایا- اموی حکومت میں سرحدی فتوحات کی کثرت ہوئی اور عباسی حکومت میں علمی اورقلمی ترقیاں ہوئیں، لیکن مجموعی طور پر دونوں سلطنتوں میں عوام ظلم و بربریت کا شکار ہوئے -سب سے بدتر حالت امام صاحب کے شہر کوفہ کی تھی جہاں مدت تک ابن زیاد اور اس کے بعد حجاج کی تلوار مظلوموں پر 20برس تک چمکتی رہی- یہ امام صاحب کے اوائلِ شباب کا زمانہ تھا- جب عمرِ ثانی عمربن عبد العزیز نے باگ ڈور ہاتھ میں لی اور ان کی ہی اصلاحی تحریک کا اثر امام صاحب پر اتنا گہرا ہوا کہ آپ کلام کے مسائل پر غور وفکر کرنے سے الگ ہو گئے اور شرعی مسائل یعنی فقہ کی طرف متوجہ ہوئے- عمر بن عبد العزیز کی مدتِ خلافت اڑھائی برس رہی اور ان کے بعد عبد الملک کا بیٹا یزید تخت پر بیٹھا (عمر بن عبد العزیز نے جب مسندِ حکومت سنبھالی اُس وقت امام ابو حنیفہ کی عمر بیس برس کے لگ بھگ تھی ) - اس نے وہ تمام احکامات کالعدم قرار دیے جو عمر بن عبد العزیز نے جاری کیے تھے- یزید کے بعد امام صاحب کی زندگی میں بنی امیہ کے چھ اور حکمران ہوئے لیکن ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ تھے جنہوں نے عمر بن عبد العزیز کے اسوہ کو اپنانے کی بجائے روایتی تسلط کے طریقے کو اختیار کیا-

ڈاکٹر صبحی محمصانی نے فقہ حنفی کی ابتدا کا ذکر اور امام اعظم کا مختصر تعارف ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

’’مذہب حنفی کوفہ میں پیدا ہوا جس کے بانی ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ ہیں جوامام اعظم کے لقب سے مشہور ہیں- آپ کی علمی زندگی کی ابتدا علم الکلام کے مطالعے سے ہوئی- پھر آپ نے اہل کوفہ کی فقہ اپنے استاذ حماد بن ابی سلیمان (م 120ھ) سے پڑھی- عملی زندگی کے لحاظ سے آپ ریشمی کپڑوں کے تاجر تھے-علم کلام اور پیشہ تجارت نے آپ میں عقل ورائے سے استصواب کرنے، احکام شرعیہ کو عملی زندگی میں جاری کرنے اور مسائل جدیدہ میں قیاس و استحسان سے کام لینے کی صلاحیت تامہّ پیدا کر دی تھی‘‘-[1]

فقہ حنفی کی تدوین کا دور:

فقہ حنفی کی تدوین کا دور 120ھ سے 150ھ تک ہے- خلافت بنو عباس کے ابتدائی دور میں امام اعظم نےاپنے مذہب کو شورٰی پر مبنی کردیا-

’’فوضع ابو حنیفۃ مذھبہ شوری بینھم لم یستد فیہ بنفسہ دونھم‘‘[2]

’’پھر امام صاحب نے اپنے مذہب کو باہمی مشورے پر مبنی کر دیا یعنی مجلس شوریٰ کے اراکین سے الگ ہو کر فقہ کی تدوین کو خود اپنی انفرادی ذات کے ساتھ وابستہ نہیں کیا‘‘-

موفق نے لکھا ہے:

’’امام جب بیٹھتے تو ان کے اردگرد اصحاب بیٹھ جاتے جن میں قاسم بن معن، عافیہ بن یزید، داؤد طائی، زفر بن ہذیل اور اسی قسم کے لوگ ہوتے- اس کے بعد کسی مسئلے کا ذکر چھیڑا جاتا پہلے امام کے تلامذۃ اپنی اپنی معلومات کے لحاظ سے بحث کرتے اور خوب بحث کرتے یہاں تک کہ آوازیں بلند ہوجاتیں-آخر میں امام اپنی تقریر کرتے تو سب خاموش ہوجاتے، کوئی کچھ نہیں بولتا‘‘-[3]

بنو امیہ کے آخری دور میں آپ حجاز چلے گئے اور وہاں سے واپسی کے بعد سے آپ کی زندگی کے آخری ایام تک وضعِ قوانین کا سلسلہ جاری رہا - اس عرصہ میں امام کو مختلف حوادث کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن یہ کام رُکا نہیں اور اس میں مسلسل اضافے ہوتے رہتے تھے عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں:

’’کتبت کتاب ابی حنیفۃ غیر مرۃ کان یقع فیھا زیادت فاکتبھا‘‘[4]

’’میں نے ابو حنیفہ کی کتابیں ایک سے زیادہ دفعہ نقل کی ہیں ان کتابوں میں اضافے ہوجاتے تھے جنھیں لکھنا پڑتا تھا‘‘-

خوارزمی نے امام ابو حنیفہ کی مجلس کے مرتب قوانین کی دفعات کی تعداد و تفصیل یوں بیان کی کہ:

’’ان 83 ہزار دفعات میں سے صرف 38 ہزار مسائل کا تعلق عبادات سے اور باقی 45 ہزار دفعات کا تعلق براہ راست معاملات سے ہے‘‘-[5]

فقہ حنفی کی تدوین اور معاشرتی صورتحال و اثرات:

آپ کے زمانے میں اہلِ سنت کے اہلِ علم دو گروہوں میں تقسیم تھے:

اہلِ اَثَر: اس سے مراد وہ لوگ تھے جن کی توجہ اور کاوشوں کا اصل محور آثار یعنی احادیثِ نبویہ تھیں اور اجتہادی مسائل کی طرف توجہ بس ضرورت کے کم سے کم درجے تک محدود تھی-

اہلِ رائے: اس سے مراد وہ لوگ تھے جن کی توجہ اور کاوشوں کا اصل محور فقہی مسائل اور اجتہادی مباحث تھیں، اور اسی لیے یہ حضرات عموماً انہی احادیثِ نبویہ تک اپنی توجہ مبذول رکھتے تھے، جن کا تعلق مسائل و احکام سے ہوتا تھا-

امام فخرالاسلام علی بن محمد البزدوی الحنفیؒ  (متوفیٰ: 482ھ) تفقہ فی الدین کی فضیلت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’و الرأيُ: اسم للفقہ الذي ذکرنا‘‘[6]

’’اور یہ بات ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ’’رائے‘‘ فقہ کا ہی نام ہے ‘‘-

حکمرانوں کی غیر اسلامی زندگی کا ایک اثر عام لوگوں پر یہ بھی پڑا تھا کہ ان میں شرعی علوم یعنی قرآن و حدیث اور ان سے مسائل مستنبط کرنے کا عام رجحان جسے فقہ کہتے ہیں، کا رجحان کم ہوتا چلا گیا تھا- لوگوں کی توجہ شرعی علوم سے ہٹ کر شعر و شاعری، ادب وغیرہ کی طرف زیادہ مائل تھی، دینی مسائل میں سب سے زیادہ اہمیت ان مسائل کو حاصل تھی جن پر فلسفیانہ رنگ غالب تھا یہی وجہ ہے کہ اہل الاثر اپنا کام جانفشانی سے کررہے تھے، جبکہ اہل الرائے یعنی حاملین علم الفقہ کا چرچا امام اعظم ابو حنیفہ کے اس طرف مائل ہونے اور علم فقہ کی تدوین کا عمل شروع ہونے سے ہوا- یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی حکومت کا رقبہ سندھ سے اندلس تک طولاً اور شمالی افریقہ سے ایشیائے کو چک تک عرضاًپھیل گیا تھا -اسلامی مدنیت میں بڑی وسعت آچکی تھی- عبادات و معاملات کے متعلق اس کثرت سے واقعات پیدا ہو چکے تھے اور ہو رہے تھے کہ ایک مرتب قانون کے بغیر محض روایتوں اور وقتی طور پر واقعات میں غور و فکر سے کسی طرح کام نہیں چل سکتا تھا- لہٰذا انہی ضرورتوں نے فقہ حنفی کو پنپنے کا بھرپور موقع دیا -ہم انسانی زندگی سے متعلق شرعی احکامات کو درج ذیل اہم شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

  1. عبادات
  2. معاملات
  3. اخلاقیات
  4. جنایات
 

فقہ حنفی نے جہاں عبادات و اخلاقیات و جنایات پر مسائل کا حل پیش کیا وہیں معاملات پر کام اس کا عظیم کارنامہ ہے- اس میں کامیابی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ جہاں معاشرتی وجوہات اور حالات کی ضرورتیں تھیں، وہیں معاملات کے مسائل کو احسن طور پر پیش کرنے اور حل تلاش کرنے میں معاون یہ ذرائع بھی ہوئے:

  1. امام صاحب کا صاحبِ تجارت ہونا: چونکہ امام صاحب خود تجارت سے وابستہ تھے اور بڑے تُجّار میں شمار ہوتے تھے، اس لیے شب و روز تجارتی معاملات سے آپ کو جس قدر واقفیت رہتی ہوگی وہ بالکل عیاں ہے- اس طرح آپ کی فقہ کا دائرہ کار محض درسی مجالس تک محدود نہیں تھا، بلکہ معاشرے کے اہم ترین حصے کے براہِ راست مشاہدے پر مبنی تھا-
  2. جب امام ابویوسف قاضی القضاۃ بنے تو نت نئے مسائل میں انہوں نے جتنے بھی فیصلے کیے، وہ اپنے استاذ امام ابوحنیفہ کے ہی اصول اور قواعد کی روشنی میں کیےا ور یہی چیز خود فقہِ حنفی کے لیے بھی بے پناہ وسعت کا سبب ہوئی کہ بہت سے مسائل جو پہلے فقہ حنفی میں موجود نہ تھے، مگر جب وہ وقوع پذیر ہوئے اور فقہ حنفی کے ماہرین نے ان کے شرعی حل مستنبط کیے تو اس سے خود فقہِ حنفی کا تحریری ذخیرہ وسیع تر ہوتا گیا اور اس طرح دیگر فقہی مذاہب کی بہ نسبت فقہِ حنفی معاشرے میں زیادہ اثر انداز ہوتی رہی، جس کا اثر اب بھی علمی حلقوں میں تسلیم کیا جاتا ہے-

علامہ مناظر احسن گیلانی یہ کہتے تھے کہ فقہ حنفی اور مالکی تعمیری فقہ ہیں اورفقہ شافعی وحنبلی تنقیدی ہیں اوراس کی توجیہہ وہ یہ کرتے تھے:

’’لوگ جانتے ہیں کہ حنفی اورمالکی فقہ کی حیثیت اسلامی قوانین کے سلسلہ میں تعمیری فقہ کی ہے اور شافعی و حنبلی فقہ کی زیادہ تر ایک تنقیدی فقہ کی ہے- حنفیوں کی فقہ کومشرق اور مالکی فقہ کو مغرب میں چونکہ عموماً حکمتوں کے دستور العمل کی حیثیت سے تقریباً ہزار سال سے زیادہ مدت تک استعمال کیاگیاہے؛ اس لیے قدرتاً ان دونوں مکاتبِ خیال کے علماء کی توجہ زیادہ تر جدید حوادث و جزئیات و تفریعات کے ادھیڑبن میں مشغول رہی-بخلاف شوافع و حنابلہ کے بہ نسبت حکومت کے ان کا زیادہ ترتعلیم وتعلّم،درس وتدریس اور تصنیف وتالیف سے رہا؛ اس لیے عموماًتحقیق وتنقید کا وقت ان کو زیادہ ملتارہا“-[7]

یہاں یہ بات یاد رہے کہ کتاب و سنت سے استنباط عرب کی ذہنیت کے لیے بہت مناسب ہے کیونکہ وہ قرآن کریم بچپن سے سمجھتے تھے-احادیث اور آثار کے متعلق بھی ان کے علماء کو فی الجملہ علم ہوتا ہے- ان کے نزدیک اکثر مسائل کتاب وسنت سے بہ آسانی مستنبط ہوسکتے ہیں- البتہ بعض دقیق مسائل میں وہ کسی امام کی تقلید کر لیتے ہیں- نیز بنی اُمیہ کے دور میں ساری توجہ فتوحات پر مرکوز رہی اور صوبوں کے گورنروں کو اپنے اپنے لیے قاضی مقرر کرنے کا اختیار حاصل تھا- جب کبھی مرکز خلافت میں فقہا میں نزاع پیدا ہوتا، تو بنی امیہ کا خلیفہ اتنا علم رکھتا تھا کہ وہ فقہا کے مختلف اقوال سن کر ایک قول کو ترجیح دے سکے جب خلیفہ ترجیح سے عاجز آ جاتا تو فقہائے مدینہ کا فیصلہ دریافت کرلیتا- واضح رہے کہ بنی امیہ نے علمی مرکز مدینہ ہی میں رہنے دیا تھا- اسے دمشق میں منتقل نہیں کیا تھا- مگر جب خلافت کا نظام اہل فارس کے ہاتھ آگیا، ان کی ذہنیت اس طرز تفقہ کی متماد نہیں تھی اور وہ ہر چیز کو ایک عقلی اصول کے ذریعہ حل کرنا ضروری جانتے تھے- عباسیوں نے سیاسی مرکز بغداد کو بنایا تو علمی مرکز بھی وہیں منتقل کر لیا-عباسی خلفاء میں اتنی علمیت نہیں تھی کہ وہ مختلف اقوالِ فقہ میں ترجیح دینے کی استعداد رکھیں-جیسے بنی اُمیہ کے خلفاء میں تھی-چنانچہ خلافت کے تمام اطراف بعیدہ سے مختلف فتاوی فقہیہ مرکز میں جمع ہونے لگے-ان حالات میں خلیفہ کے ساتھ ایک زبردست عالم کا ہونا ضروری تھا جو ان تمام مسئلوں سے اس کو نجات دلا سکے- اس سلسلے میں پہلے پہل خلیفہ منصور عباسی نے سعی کی کہ علمائے اہل مدینہ اس کے طرفدار بنیں، مگر ان سے اس کا توافق نہ ہو سکا -اب منصور محتاج ہوا کہ اہل عراق کے فقہا سے  استمداد کرے - وہ امام ابوحنیفہ کو اس کا اہل سمجھتا تھا، امام اعظم ابوحنیفہ انقلابی سیاست کے مالک تھے- آپ فقہ کو ایسے طریقہ پر مرتب کرنا چاہتے تھے کہ عجمی ذہنیت اسے آسانی سے قبول کر سکے اور آپ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئے- مگر حضرت امام کے سیاسی اختلافات کے باعث وہ ان سے استفادہ نہ کر سکا- امام ابو یوسف نے یہ ہمت دکھائی اور تمام ممالک خلافت کے فقہا کو منظم کر دیا جس سے آپ کا لقب "قاضی فقہۃ العالم" ہوا- امام ابو یوسف کے قاضی بننے سے فقہ حنفی کو جہاں مقبولیت ملی وہیں معاشرتی مسائل کا حل جدت و تنوّع کے ساتھ پیش کرنے کا موقع ملا اور معاشرے میں رائج کئی غلط رویوں کی کاٹ بھی عمل میں آسکی- معاشرتی طور پر پنپنے والے چند رویّے ملاحظہ ہوں:

اموی عہد میں عربی عصبیت: امویوں میں عربوں کے لیے شدید تعصب پایا جاتا تھا-غیر عربوں کے خلاف تعصب سے کام کیا جانے لگا ان کے حقوق غصب کیے گئے-موالیوں پر بڑے مظالم ڈھائے گئے-[8]

غیر ضروری مسائل کا آغاز: عراق مختلف عقائد و افکار کا مرکز تھا- جہاں فقہ نے پنپنا تھا، مسلمانوں میں ایسے جھگڑے گہری سازش اور خاص ترتیب سے پھیلائے جاتے تاکہ ان کا دینی شعور مضطرب ہوجائےاور دشمنان اسلام کو طعن کا موقع مل سکے-مشہور عربی ادیب جاحظ نے اپنے بعض مسائل میں ان عیسائیوں کا تذکرہ کیا ہے جو و ہ عیسائیت کی تائید کے لیے مسلمانوں میں پھیلانا چاہتے تھے- یوحنا دمشقی اموی حکومت میں مسلمانوں کو ایسی چیزیں سکھاتا تھا جن سے وہ دوسرے مسلمانوں سے جھگڑنے لگتے-[9]

یونانی فلسفہ کی اشاعت: عباسی دور میں یہ خطہ یونانی فلسفے سے متاثر ہونے لگا تھا اور کم علم لوگ جلد ہی اس فلسفے کا شکار ہو جاتے تھے - یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا قرآن و سنت اور اس میں سے مسائل کے استنباط کا رجحان بہت ہی کم ہو کر رہ گیا تھا- ہاں ایسے دانشمند لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنی دینی اساس پر اسے غالب نہ آنے دیا- فقہ حنفی کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا کہ وہ وہ بذات خود اس کا اثر قبول کیے بغیر لوگوں کو قرآن و سنت کے مسائل کے قبول کی طرف راغب کرے -

علماء کا اختلاف:چونکہ مختلف مذہبی و سیاسی مسالک موجود تھے تو جب علماء میں اختلاف پایا جاتاتو وہ فریق مخالف کو ہر طرح زیر کرنا چاہتے اور یہ سلسلہ مخالف پر جرح تک جا پہنچتا- حکومت بھی اپنے حامی علماء کے سر پر ہاتھ رکھتی -

روایات کا وضع کرنا:روایات وضع کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ مسلمانوں کے مختلف فرقے اپنے مخصوص افکار و نظریات سے متعلقہ شکوک و شبہات جو زبانی یا تحریری ان پر وارد کیے جاتے تھے،ان کو دور کرنے کے لیے روایت وضع کرتے اور انہیں مسلمانوں میں شائع کرتے اور بعض لوگ بالکل غلط بات تو رسول اللہ (ﷺ) کی طرف منسوب نہ کرتے لیکن تبدیلی کرتے-[10]

جبکہ عراق میں رائے کا غلبہ تھا،انہوں نے صحبت تابعین وتبع تابعین پائی تھی - روایات منسوب کرنے سے بھی ڈرتے تھے- اہل عراق فتویٰ دینا ضروری خیال کرتے، نہ سوالات سے ڈرتے، نہ جوابات سے گھبراتے، فقہ کو دین کی اساس سمجھتے- یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی نے معاشرتی حالات کے تناظر میں مسائل کا حل پیش کیا -

فقہ حنفی کی تدوین اور سیاسی صورتحال و اثرات:

عہد اُمیہ:

امام اعظم کا مسلک یہ تھا کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر حکومت کے ساتھ بھی کیا جائے گا- بنو امیہ کے عہد میں سیدنا امام زین العابدین کے صاحبزادے حضرت زیدبن علی الشہید نے کوفہ میں خروج کیا-ان کے متعلق امام صاحب نے فتوی دیا: حضرت زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہو نا رسول اللہ (ﷺ) کی بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے-گو چند وجوہات کی بنا پر عملاً امام صاحب حضرت زید شہید کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوئے؛ لیکن آپ نے اس جہاد کے لیے کثیر رقم بھی عنایت فرمائی- چونکہ امام صاحب اپنے تجارت و سخاوت، امانت و دیانت، علم و فن اور تقوٰی و طہارت کی وجہ سے کوفہ میں انتہائی بااثر لوگوں میں شمار ہوتے تھے اس لیے حکومتِ بنو امیہ آپ کو حکومت کا حصہ بنا کر عوام سے ہمدردی حاصل کرنا چاہتی تھی-چنانچہ آپ کو نرمی وگرمی ہر طرح سے مختلف عہدوں کی پیش کش کی گئی لیکن امام صاحب، ظالم حکومت کے خلاف جو مقاطعہ کا فیصلہ کر چکے تھے،اس سے سرِ مو انحراف نہ کیا، تاآ نکہ بنو امیہ حکومت کا سورج غروب ہوگیا-

عہد عباسی:

بنو امیہ کے خاتمہ اورعباسی حکومت کے آغاز میں امام صاحب مکہ معظمہ میں مقیم رہے، عباسی حکمراں منصور کے عہد میں امام صاحب کوفہ آئے، منصور حضرت زید شہید کی تحریک میں امام کی اس شرکت سے یقیناً وا قف تھا اور کو فہ میں امام صاحب کے اثر و رسوخ کو اپنی آنکھوں دیکھ رہا تھااس لیے سابقہ فرماں رواوٴں کی طرح منصور نے امام صاحب کو اپنی حکومت کا حصہ بنانا ضروری خیال کیا چنانچہ منصور نے جب بغداد کی تعمیرکا فیصلہ کیا تو اس نے علماء، فقہاء، انجینئر اور اربابِ فضل و کمال کو جمع کیا-اس میں امام صاحب بالخصوص بلائے گئے اور ناظمِ تعمیرات کی حیثیت سے امام صاحب کا تقرر ہوا -ابتداء منصور کے حکم کی مخالفت مناسب خیال نہ کیا اور وقتی طور پر اس عہدہ کو قبول کرکے منصور کے قریب ہو گئے، منصور بڑا مدبر اور سیاسی تھا، اس نے دھیرے دھیرے امام صاحب کو اپنی گرفت میں کرنے کی کو شش کی؛ چنانچہ امام صاحب کی خدمات سے خوشی ظاہر کرکے دس ہزار کا انعام یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ میری خواہش ہے کہ آپ یہ رقم قبول فرمالیں، امام صاحب نے کسی حیلے کے ذریعہ رقم وصول کرنے سے معذرت کردی؛ اس لیے کہ امام صاحب جانتے تھے کہ حکومت کے لقمہء تر ہضم کرلینے کے بعد حکومت کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت ختم ہوجاتی ہے-

ان تمام سیاسی محرکات و اسباب کے باوجود تدوین فقہ کا سلسلہ برابر چلتا رہا، بلکہ ان تمام مسائل نے فقہ حنفی کو مزید جدت سے ہم آہنگ کیا اور اس کے اثرات یہ مرتب ہوئے کہ فقہ حنفی کو جہاں قبول عام حاصل ہوا وہیں فقہ حنفی پر سرکاری ظلم و استبداد بھی خوب ہوئے ہیں- دیگرمسالک اس سے بہت حد تک بچے رہے ہیں-

اندلس وغیرہ میں کچھ عرصہ فقہ حنفی رواج پذیرتھی لیکن وہاں کے سلطان نے شاہی استبداد سے کام لے کر فقہائے احناف کو اپنی مملکت سے جلاوطن کردیا- مقدسی احسن التقاسیم میں بعض اہل مغرب کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

’’ایک مرتبہ سلطان کے سامنے دونوں فریق جمع ہوئے سلطان نے پوچھا: امام ابو حنیفہ کہاں کے ہیں؟ کہا گیا: کوفہ کے-پھراس نے پوچھا:امام مالک کہاں کے ہیں؟ جواب دیا گیا: مدینہ کے- تواس نے کہا: ہمارے لیے صرف امام دار الہجرت کافی ہیں -اس کے بعد اس نے تمام فقہائے احناف کو ملک سے باہر نکل جانے کاحکم دے دیا اور کہنے لگامیں اپنی سلطنت میں دو مذہب پسند نہیں کرتا“-[11]

مصر میں فقہ مالکی، شافعی اورحنفی سبھی موجود تھے؛ لیکن فاطمی حکمرانوں کے دورمیں صرف فقہ حنفی کووہاں کے حکام نے نشانہ بنایااوراس کی وجہ سیاسی تھی؛ کیونکہ فقہ حنفی سلطنت عباسیہ کاسرکاری مذہب تھا اور عباسی خلفاء اورفاطمی حکمرانوں میں ہمیشہ چپقلش رہتی تھی، دونوں دینی سیادت و قیادت کے دعویدار تھے-ایک سنیوں کا نمائندہ تو دوسرا شیعوں کا نمونہ تھا-اسی وجہ سے فاطمی حکمرانی کے دورمیں جوطویل عرصہ تک ممتد رہا-فقہ حنفی کونشانہ بنایاگیا-

اسی طرح فارس یعنی موجودہ ایران کا ایک بہت بڑا حصہ فقہ حنفی پر عمل پیرا تھا ، امام الحرمین الجوینی، فخر الدین رازی، امام الغزالی اور اس طرح کے دیگر قد آور شافعی علماءبھی موجود  تھے - آلِ سلجوق کے عہد میں شافعی اور حنفی دونوں رائج رہے لیکن زیادہ تر احناف کو فوقیت تھی -گوکہ صفوی خاندان کی حکومت کے بعد مذہب اہل تشیع ایران میں عام ہوا، لیکن عثمانیوں کے اثر کی وجہ سے سنی مکاتب بالخصوص احناف کا کہیں نہ کہیں اثر و رسوخ قائم رہا - سلاجقہءِ روم مکمل حنفی تھے، اس لئے ان کے تسلسل میں قائم ہونے والی سلطنتِ عثمانیہ بھی مکمل طور پہ حنفی مذہب پہ قائم تھی -

اگر ماورا النہر، فرغانہ اور سمر قندکے علاقوں کی مختلف مسلمان بادشاہتوں اور سلطنتوں کو دیکھا جائے تو تقریباً تقریباً سبھی کا سرکاری مکتب ’’حنفی‘‘ رہا ہے - برصغیر پاک و ہند میں بھی زیادہ تر سلطنتوں کا سرکاری مکتب اصولِ حنفی پہ قائم رہا ہے-

اس لئے اگر دیکھا جائے تو دیگر فقہی مذاہب کی نسبت فقہ حنفی کو حکومتوں کی سطح پہ اپنے اصول آزمانے کا زیادہ موقعہ ملا ہے جس میں اس نے اپنے اصولوں کی آفاقیت ، ہمہ گیریت ، جامعیت اور صداقت کو ثابت کیا ہے کہ اس میں اتنی وسعت اور گہرائی ہے کہ عباسیوں سے لے کر تیموری مغلوں اور عثمانیوں تک یہ قضا و عدالت کو بطریقِ احسن رہنمائی فراہم کرتی رہی ہے - آج بھی اس کے دامن میں اتنی وسعت ہے کہ حکومتیں اس کے اصولوں سے نہ صرف ’’مکمل انصاف‘‘ فراہم کر سکتی ہیں بلکہ عہدِ جدید کے بڑے بڑے اجتہادی مسائل امام الآئمہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کے اصولوں کی مدد سے حل کئے جا سکتے ہیں -

٭٭٭


[1](صبحی محمصانی :’’فلسفہ التشریع فی الاسلام ‘‘،بیروت ،1961،ص :41)

[2](موفق بن احمد مکی، مناقب ابی حنیفۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج:2، ص:123)

[3](مناقب للموفق،ج:2، ص:150)

[4](سید مناظر احسن گیلانی، حضرت امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، مکتبہ الحق،ممبئی، ص:269)

[5](حضرت امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، ص:271)

[6])https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_16.html?m=1(

[7](سید مناظر احسن گیلانی، شاہ ولی اللہ نمبر،ص:200)

[8](شیخ محمد ابو زہرہ،حیات حضرت امام ابو حنیفہ، مترجم :غلام احمد حریری، مکتبہ کشمیر، فیصل آباد، ص:146)

[9](حیات حضرت امام ابو حنیفہ، ص:150)

[10](حیات حضرت امام ابو حنیفہ، ص:168)

[11](احسن التقاسیم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر