مشتعل ہجوم کااِنصاف اور فقہائے اَحناف

مشتعل ہجوم کااِنصاف اور فقہائے اَحناف

منصفانہ سماعت کا حق ’Right to fair trail‘ ہرشہری بلکہ ہرشخص کے بنیادی حقوق میں سے ہے-ملزم کاعدالت کے سامنے پیش ہونا اور بلا خوف و خطر اپنا دفاع وصفائی پیش کرنا قانون کی حکمرانی کا اہم تقاضا ہے اور قانون کی حکمرانی کا ایک مفہوم یہ ہے کہ سب لوگ قانون کے سامنے برابر ہیں یعنی:“No one is above the law”.

اپنی طاقت یا کج شعوری اور کم عقلی کی بنیاد پر عدالت کے سامنے پیش نہ ہونا یا ریاست کا انکار کرتے ہوئے اپنی الگ عدالت قائم کربیٹھنا اور زعم باطل میں قاضی بن کر لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرنے کو قانون کی زبان میں ماورائے عدالتی عمل (Beyond Judicial process) اور ماوراء عدالتی قتل (Extrajudicial killings) کہا جاتا ہے-

چونکہ عدالت انصاف سے عبارت ہے اور انصاف کیلئے قرآن کریم میں عدل کا لفظ استعمال ہوا ہے -[1] عدل اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے -جس کے ایک معنی راہ اعتدال اور اصول توازن کو ترک کرنے کے بھی ہیں : جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’بَلْ ہُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ‘‘

’’بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو (راہِ حق سے) پرے ہٹ رہے ہیں ‘‘-[2]

 عدل کی تفسیر میں مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ عدل کا قیام حاکم،امام ، خلیفہ یا مزید جامع اصطلاح میں ریاست کی بنیادی ذمہ داری اور اولین فرائض میں سے ہے- اس لئے عدالت لگانا اور فیصلہ صادر کرنا حاکم کا کام ہے- اگر عوام میں سے اس کے برعکس کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو یہ براہ راست حاکم کے اختیارات میں مداخلت ہو گی-

ریاست ایک شہری کو جہاں کئی طرح کے حقوق فراہم کرتی ہے وہیں شہریوں پر کئی قسم کے فرائض بھی عائد کرتی ہے جن میں سے قانون کا احترام یعنی قانون کی پابندی کرنا بھی آتی ہے-

اس اصول کہ ’’No one is above the law‘‘ کے تحت اسلام عدالت کو خود مختاری اور آزاد ی فراہم کرتا ہے اور عدالتی نظام کو اتنا مضبوط کرتا ہے کہ حکومت وقت بھی عدالت کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے -

عینیہ بن حصن (رضی اللہ عنہ)جو اپنے قبیلہ کے سردار تھے رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں تالیف قلب کےطور پر کچھ زمین دی تھی- حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) کے زمانہ خلافت میں وہ حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ)کے پاس آئے اور ان سے بھی ایک قطعہ زمین حاصل کر لیا اور اس بارے میں ایک تحریر بھی لکھوالی- اُس کی تائیدِ مزید کیلئے وہ زمین کی دستاویز حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کے پاس لے گئے اور ان سے کہا کہ مجھے خلیفۂ رسول اللہ (ﷺ) نے قطعہ زمین دیا ہے اور ساتھ ہی یہ تحریر بھی لکھ دی ہے- آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی اس پر اپنی مہر ثبت کر دیں - حضرت عمر، جوعینیہ بن حصن اور اقرع بن جابس کے مسلمانوں کے ساتھ رویے سے واقف تھے، مسلم معاشرہ بھی ان کے رویہ پر مطمئن نہیں تھا، نہ صرف یہ کہ حضرت عمر فاروق نے دستخط کرنے سے انکار کردیا بلکہ دستاویزہی کو چاک کر دیا- عینیہ بن حصن (رضی اللہ عنہ)غصہ میں واپس حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)کے پاس آئے اور بھڑکانے کے انداز میں کہا کہ اے ابوبکر بتائیےکہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر؟ حضرت ابوبکر مسئلہ کی نوعیت کو سمجھ گئے- عینیہ نے جب یہ دیکھا کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)کی طرف سے حضرت عمر کے خلاف کوئی ردعمل پیدا نہیں ہوا، تو اس نے درخواست کی کہ اسے نئی دستاویز لکھ دی جائے- اس پر حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ جس فیصلہ کو عمر نے رد کر دیا ہو مَیں اس کے بارے میں اب کچھ نہیں کرتا- [3]

تاریخ اسلام میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں – معروف مثال ہے کہ جب حاکم وقت مولائے کائنات حضرت علی (رضی اللہ عنہ) قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوکر اپنے خلاف ہونے والے فیصلہ کو تسلیم کر رہے ہیں تو پھر عوام کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ عدالت کے اختیارات پر قدغن لگائے یا عدالت کے اختیارات میں مداخلت کرےیا عدالت کو یرغمال بنائے - یا ریاست کی متعین کردہ عدالت کی جگہ ایک مشتعل ہجوم عدالت لگا لے -

یہاں پر یہ بھی یاد رکھناچاہئے کہ عدالت کیلئے بھی فرض عین ہے کہ وہ اپنے اوپر کتاب و سنت کو حاکم سمجھے، ہر ذی مرتبت اپنے منصب کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھے اور مخلوق ِخدا کو’’الخلق عیال اللہ ‘‘ کے منصب ِجلیلہ پر فائز سمجھتے ہوئے اُن کے ساتھ احترام ، خیر خواہی اور انصاف کا سلوک کرے -عدالت کی لوگوں کے ساتھ اس سے بڑی اور اعلیٰ خیرخواہی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے مسائل کو کم سے کم وقت میں نمٹایا جا سکے، انصاف کے طریقہ کار کو واضح رکھا جائے اور بیرونی دباؤ یا مداخلت کو قبول نہ کیا جائے -

باقی رہی قانونی پیچیدگیاں تو اس حوالے سے صرف اتنا ضرور جاننا چاہئے کہ قانون و شریعت کا بنیادی اصول یہ ہے:

’’الأصل براءۃ الذمۃ ‘‘[4]

یعنی اصل یہ ہے کہ انسان ہرطرح کی ذمہ داری سے بری ہوتا ہے-

اُس وقت تک جب تک کوئی شخص کسی دلیل سے اس کے خلاف کوئی چیز ثابت نہ کردے، اسے بری الذمہ ہی تصور کیا جائےگا- یہی وجہ ہے کہ مدعا علیہ کے ذمے بار ثبوت نہیں ہے- البتہ دروغ گوئی کے احتمال سے بچنے کےلیے اس کو قسم دینے کا اصول رکھا گیا ہے بشرطیکہ مدعی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہو اور وہ مدعا علیہ کوقسم دلانے کا مطالبہ کرے - اس لئےاگر کوئی الزام لگا رہا ہے تو اس کوجرم ثابت کرنا پڑے گا ،جو باقاعدہ عدالتی کاروائی کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے - یوں ہی مجاز عدالت میں دعوٰی ثابت نہ ہونے تک کسی کو مجرم ٹھہرانا یا ماورائے عدالت سزا دینا غلط و غیر قانو نی ہوگا چاہے الزام کی نوعیّت جیسی بھی ہو -

محض الزام یابغیر باقاعدہ عدالتی کاروائی کےصرف سنی سنائی بات پر کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا- کیونکہ کسی شخص کو عدالت میں ملزم سے مجرم ثابت کرنےکےلئے ایک واضح طریقہ کار ہے جس کی بنا پر اُسے سزا یا بَری قرار دیا جاسکتا ہے- بغیر کسی ضابطہ یا معیار ثبوت کے(جو شواہد، گواہوں، واقعاتی شہادتوں اور قرائن عدالت میں قابل قبول ہوں)کسی کو مجرم ثابت نہیں کیا جاسکتا- عدالت صرف کسی ایک چیز کو نہیں دیکھتی بلکہ نیت، فعل کو سرزد کرنے کی نوعیت اور شک کا فائدہ وغیرہ دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے-

اسی طرح مذہبی مقدسات کی بابت ہرقسم کی توہین آمیزی کے مسئلہ میں مسلم و غیر مسلم دونوں کی سزاؤں میں فرق ہے اور ان کی سزاؤں کے نفاذ کی ذمہ داری خالصتا ً حکومت کا کام ہے -

حکمران کے فرائض میں سےاولین، بنیادی اور اہم فریضہ معاشرے کو فساد اور انتشار سے بچانا ہے- اس لئے حاکم وقت کو شریعت نے اختیار دیا ہے کہ وہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو مناسب تادیبی سزا سنائے- ایسے بہت سے امور ہیں جنہیں شریعت نے ممنوع قرار دیا لیکن ان کے لیے قرآن یا سنت میں کوئی دنیوی سزا معین و مقرر نہیں کی- ایسے امور میں قانون سازی کا اختیارسیاسہ شرعیہ کے اصول کے تحت حاکم وقت کو حاصل ہوتا ہے- اس قسم کی تادیبی کاروائی کیلئے حکمران کو جو اختیار حاصل ہے، اُسے حنفی فقہ کی اصطلاح میں ’’سیاسۃ‘‘ کہتے ہیں- یہ حنفی فقہ کا ایک نہایت اہم قاعدہ ہے- خاتمۃ المحققین علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی سیاسہ شرعیہ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حکمران کو شریعت کا عطا کردہ وہ اختیار ہے جس کے تحت وہ معاشرے سے فساد کے خاتمے کے لیے ان امور میں مناسب سزا سنا سکتا ہے جن کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہو-

اَحناف کے نامور امام شمس الآئمہ سرخسی نے اپنی نادر تصنیف المبسوط، جلد: 9 میں تصریح کی ہےکہ:

’’استیفاء الحد الی الامام‘‘

’’حد کا استیفاء امام کا کام ہے‘‘-

یعنی اصول یہ ہے کہ حکمران کے سوا کوئی شخص حد نافذ نہیں کر سکتا- یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیئے اور نا ہی کسی غلط فہمی میں رہ کرگڈ مڈ کرنی چاہیئے کہ شاید حد کےعلاوہ تعزیرکی سزا دینے کا اختیارعوام کا ہے، قطعاً نہیں- یاد رہے کہ وہ حق بھی حاکم کا ہے-

حنفی فتووں کے معروف مجموعہ ’فتاوی عالمگیری، جلد: 3‘ میں درج ہے کہ:

’’حد کا رُکن یہ ہے کہ امام المسلمین اس کو قائم کرے یا ، جو قائم کرنے میں امام کا نائب ہو‘‘-

اسی ضمن میں ’رد المختار، جلد: 6‘ میں حجۃ الاَحناف علامہ ابن عابدین شامی کی یہ بات پڑھی جائے تو صورتحال مزید واضح ہوجاتی ہے:

’’فالوجوب لا یثبت بمجرد الفعل، بل علی الامام عند الثبوت عندہ‘‘

’’یعنی حد کا وجوب محض فعل کے سرزد ہونے سے نہیں ہو گا- بلکہ امام کے ہاں اس کا ثبوت بھی ضروری ہے‘‘-

فقہائے احناف کے مطابق حدود و تعزیرات کا نفاذ حاکم یا قاضی کی ذمہ داری ہے- فقہاء یوں بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی کا جرم عدالت میں ثابت ہوجائے توپھر بھی اس کومجاز اتھارٹی کے علاوہ کسی دوسرےکو اختیار و حق نہیں پہنچتا کہ سزا دے، چاہےوہ سزا حد کی ہو یا تعزیر کی- اگر ایسی صورتحال ہوتو اسےفقہائے کرام نے’’افتیات‘‘ کے زمرے میں شمار کیا ہے - یعنی قانون کو ہاتھ میں لینا جس کا سادہ اور عام فہم مفہوم یوں ہے کہ کسی شخص نے اپنی طرف سے حدود کو نافذ کیا تونہ صرف حکمران کے حق پر ڈاکہ ڈالا بلکہ فساد کا مرتکب بھی ٹھہرا اور ایسے شخص کو تادیباً قاضی سزا دے گا-

اس صورتحال میں ’رد المحتار‘ میں ہے کہ اب اگرکسی نےافتیات کا ارتکاب کیا اورجو سزا تھی وہ نہیں دی تو وہ فساد کا مرتکب ہوا جس کےلئے وہ سزا کا مستحق ہے- اس کے علاوہ اگر اس نے بعین وہی سزا دی جوقانون کے مطابق تھی تب بھی حاکم کا حق غصب کرنے، ریاست کے اختیار کو چیلنج کرنے اور فساد کے مرتکب ہونے کی وجہ سے سزا کا مستحق ٹھہرے گا اور فساد کے ارتکاب پرحاکم وقت اُسے تادیبی سزا دے سکتا ہے-

لیکن یہ یاد رہے کہ مذکورہ بالا صورتحال تب ہوگی جب کسی کا جرم ایک عدالت میں ثابت ہوا ہو-اگر ایسا شخص جس کا جرم قانوناً ابھی ثابت نہ ہوا ہو یا بغیر باقاعدہ عدالتی کاروائی کے کسی جتھہ، جنونی گروہ یا مشتعل ریوڑ نے انصاف کے نام پرکسی کو سزا دی ہو، تو اُسے فقہاء عدوان کے عنوان کے تحت لائے ہیں - بس عدوان کی صورتحال و نوعیت کو دیکھتے ہوئے اس پر قصاص، دیت، ارش یا حکومۃ عدل (جسے مجموعۂ تعزیرات پاکستان میں ’’ضمان ‘‘ کہا گیا ہے ) کے اَحکام کا اِطلاق ہوگا-

حد کے نفاذ سے پہلے جرم کا ثبوت ضروری ہے اور جرم کا ثبوت صرف قاضی کرے گا اور وہ بھی صحیح العقیدہ مسلمانوں کی شہادتوں کے ساتھ- محض الزام، شک یا گمان سے کسی پر کوئی حد یا تعزیز نافذ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-

اگر کسی کو ہجومی انصاف کے بھینٹ چڑھا دیا جائے اور بعد میں سزا پانے والے کو توہین کنندہ یا مرتد ثابت نہ کیا جاسکے تو قاتلین کو قصاصاً سزا دی جائے گی یا دیگرسزا فساد کے مرتکب ٹھہرنے پر دی جائےگی-

حنفی فقہاء نے دو قسم کی سزائیں بیان کی ہیں ایک حد اور دوسری سیاستہ-

حد حقوق اللہ ہے اور سیاستہ "حقوق الامام" یعنی حاکمِ وقت کا حق ہے- اگر کسی مسلمان پر گستاخی ثابت ہو چکی ہے اور اس گستاخ کو کوئی قتل کر دیتا ہے تو اس پر قصاص نہیں ہو گا لیکن افتیات کی وجہ سے قاضی اسے تادیباً سزا دے گا- اگر گستاخی ثابت نہیں ہوئی یعنی تحقیق کے بعد پتا چلا کہ وہ تو کسی نے ذاتی دشمنی، سیاسی مخالفت ، کسی بھی قسم کے تعصب یا کسی نے اپنے زعم میں اُسے گستاخ ٹھہرایا تھا اور وہ ہرگز گستاخ نہ تھا بلکہ وہ تو محب رسول (ﷺ) تھا ، اور تحقیق سے پہلے اس کو قتل کر دیا تو یہ قتل عمد ہو گا جس کے قصاص میں یہ قاتل خود قتل کیا جائے گا-

آج کے اشتعال انگیز ہجومی انصاف کو دیکھا اور فتاوی نوریہ جلد سوم میں شیخ الحدیث، فقیہ العصر ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی صاحب کا یہ فتوی دیکھا تو معلوم ہوا کہ عوام کسی صورت قانون کو ہاتھ میں نہیں لےسکتی- فرمایا گیا:

ایک امام مسجد جو فاسق و فاجر ثابت ہوا-اس کے بارے میں مقتدیوں و دیگر کو فرماتے ہیں-’’ شرعا وہ مجرم ہے، اس کی تعزیر لگائی جائے جو حاکم شرعی کا کام ہے- بس آپ کا صرف یہی کام ہے کہ اس سے الگ ہو جائیں "-

تاہم مشتعل ہجوم کے درندگانہ طریقہ ، قانون کو ہاتھ میں لینے کے، بلکہ ان کا اصل مقصد توقانون کو پاؤں تلے روندنا ہوتا ہے، کے حامی دلائل دیتے ہیں کہ شمس الآئمہ سرخسی کے فتوی میں مباح الدم (یعنی جس کا خون بہانا حلال ہو چکا ہو) کو قتل کرنا جائز ہے کہ شمس الآئمہ سرخسی  ’المبسوط‘ میں فرماتے ہیں:

’’من قتل حلال الدم لا شی علیہ کمن قتل مرتدا‘‘

لیکن اِس میں جو سمجھنے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ قتل کرنے سے پہلے اُس کے ’’مباح الدم‘‘ ہونے کا مکمل شواہد کے ساتھ مکمل یقینی ہونا ضروری ہے اور اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ اُسے ’’مباح الدم‘‘کس اتھارٹی نے قرار دیا ہے؟ اور گستاخ کا حکم لگانے کی یہ اتھارٹی کس کے پاس ہے؟ آئین و قانون کی حکمرانی پہ یقین رکھنے والوں اور علم و شعور سے واسطہ و علاقہ رکھنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ ریاست کی مقرر کردہ عدالت ہی الزام ثابت ہو جانے کی صورت میں کسی کو ’’مباح الدم‘‘ قرار دے سکتی ہے - تو اس میں نکتہ یہ ہے کہ پہلے اس کے ’’مباح الدم‘‘ ہونے کا من جانب قاضی (مجاز عدالت) ثبوت ہو پھر اس کو قتل کرنے پر قصاص نہیں ہو گا- تاہم ماورائے عدالت قتل پر افتیات کی وجہ سے پھر بھی تعزیز نافذ ہو گی-

اگر ہر آدمی اپنے زعم میں گستاخ رسول اور توہین کنندہ کا خود ساختہ معیار بنا کر اپنے تئیں "مباح الدم" (یعنی خون بہانا حلال) ہونے کی اجازت دینا شروع کردے تو جو ریاست کی صورت حال ہوگی یا اس کے نتیجے میں اسلام کے ساتھ لوگوں کی جو وابستگی رہے گی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے-

ہجوم کے انصاف میں باقی مسائل کے ساتھ شک کا فائدہ بھی ملزم کو دیا جانا ممکن نہیں - اسلامی قانون کا یہ ایک مسلمہ اصول شک کا فائدہ (Benefit of the Doubt) کے بارے ہے کہ ملزم کو شک کا فائدہ دینا چاہیےاور یہ فائدہ اس حد تک دیا جاتا ہے کہ قاضی اگر کسی مجرم کو معاف کردینے میں غلطی کرے تو یہ اس غلطی سے بہتر ہے کہ وہ کسی بے گناہ کو سزا دے- لہٰذا! ملزم قانون کا ’accused is the favourite child of law‘ہوتا ہے-

علاوہ ازیں، فوری یعنی بغیر تحقیق کے اور فساد آمیز و اشتعال انگیز ہجومی انصاف اصل میں عدل و انصاف کا قتل ہےجیساکہ انگریزی کا مقولہ ہے:

Justice Hurried Is Justice Buried-

ہجومی انصاف میں ملزم کے پاس نہ تو صفائی کا امکان باقی رہتا ہے اور نہ ہی اس کی جانب سے توبہ اور رجوع کےلیے گنجائش چھوڑی جاتی ہے-

مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے کی دیت کس پر ہوگی؟ ذمہ کس کے ہوگا؟ جیسےحضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دور میں ایک ہجومی/ بھگدڑ میں ایک شخص کی جان چلی گئی تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کا فیصلہ کہ انسانی جان ضائع نہیں کی جا سکتی، اس کی دیت ادا کرنی ہوگی-

ایسے مشتعل ریوڑ کے انصاف میں بہت سے بے گناہ کسی کے نفس کی خواہش، پسِ پردہ سازش اورتعصب و عداوت وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں- جیسے کوئی کسی پر مذہبی و سیاسی و سماجی فرقہ وارانہ اختلافات و تعصبات کے سبب یا دیگر مفادات و اغراض (مثلاً اراضی یا لین دین کا تنازعہ ، محرمات میں مداخلت کا شک وغیرہم) کےلئے گستاخی یا توہین کا الزام لگا دے تو (موجودہ روشِ جاہلانہ میں) اس ملزم کا ماورائے عدالت قتل یقینی ٹھہرتا ہے-

ہم سب نے مل کر جو معاشرت بنائی ہے نہایت بد قسمتی سے اس میں جھوٹ، ملاوٹ، بے ایمانی، دھوکہ دہی اور استحصال عام روش بن چکا ہے اس لئے جھوٹے مقدمات، بے بنیاد سنگین الزامات اور انائے نفس کی تسکین و انتقام کیلئے حد درجہ تک گر جانا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے- جھوٹے مقدمات بنانا اور الزام عائد کرنا ،پاکستان کے قانونی نظام کی رو سے الزام کا ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہے، نہ کہ شکایت کنندہ کا -جیسا کہ سنن ترمذی میں مروی حدیث مبارکہ میں اصولی قاعدہ بیان ہوا کہ:

’’الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ‘‘

’’بار ثبوت مدعی پر اور قسم مدعیٰ علیہ پر ہے‘‘-

اس طرح ہجومی انصاف اس قاعدہ کی خلاف ورزی کی بد ترین شکل ہے - ہاں اگر کوئی کسی کے خلاف جھوٹی شکایت و جھوٹا مقدمہ دائر کرے اورنظام عدل کو ظلم کےلئے استعمال میں لائے تو اس کےلئے اسے مختلف دفعات مجموعۂ ضابطۂ فوجداری اور مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کے تحت سزا دی جاسکتی ہے- یوں اس قانون کا غلط استعمال ممکنہ حد تک رُک سکتا ہے لیکن ہجومی انصاف سے یہ ناجائز استعمال اور بے گناہ جانوں کا قتل لازم ٹھہرتا ہے-

ان تمام نتائج سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلہ یا معاملہ میں مشتعل افراد یا بپھری ہوئی عوام کو ہرگز ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے خود فیصلہ کریں اور مجرم پرحدود وقصاص نافذ کریں- اگر عوام الناس کو یہ حق دیں تو ریاست اور ریاست اسلامیہ کے شعبۂ قضاۃ کےقیام کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے- اس لئے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسی حرکات کا ارتکاب کرنے والوں کو آئینی و قانونی سزا دی جائے تاکہ اِس فروغ پاتی شدت پسندانہ و جاہلانہ رسم و روش کا سد باب کیا جا سکے -

مشتعل ہجومی انصاف پسندوں کو یہ بھی یاد رہے کہ ہر قسم کے ارتداد کی سزا مختلف ہے-

آخر میں عوام کا اپنی عدالت خود لگانے(ہجومی انصاف) کے حوالے سے واقعہ نقل کرتا ہوں جو خود مدعی، خود گواہ اور خود ہی منصف ہوتے ہیں:

’’تین دوست سفر کو نکلے- راستے میں انہیں سونے کی تین اینٹیں ملیں- ان میں سے ایک دوست نے کہا کہ سونے کی بڑی اینٹ میری ہے- باقی دو نے وجہ پوچھی کہ بڑی اینٹ کیسے آپ کی ہوگئی ؟ تو کہا کیونکہ میں قافلہ کا امیر ہوں- پھرپوچھا گیا کہ آپ کو امیر کس نے بنایا؟ کہا کیونکہ بڑی اینٹ میرے پاس ہے‘‘-

شاعر نے کیا خوب کہا تھا:

اُسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا

٭٭٭


[1]قرآن میں کسی جگہ ’انصاف‘ کا لفظ نہیں آیا- اسی طرح انصاف کی اصطلاح کو فقہا نے بھی استعمال نہیں کیا البتہ عدل و انصاف کیلئے کتب فقہ میں ایک دوسرا لفظ ’’قضاء‘‘ کا آتا ہے-

[2]عدل کی تعریف میں جامع تعریف اسی لئے یہی سمجھی جاتی ہے کہ کسی شے کو اس کے درست مقام پر رکھنا ہی عدل ہے- یعنی کسی کو ناحق سزا دینا یا کسی کا کسی دوسرے کو اپنی اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے کوئی کام کرنا خلاف عدل ہے- اگر کسی کے اختیار میں کسی کو بری الزمہ کرنا یا کسی کو سزا دینا اختیار نہیں اور ایسا کرنا اس کا خلاف عدل ہے-

[3](اخبار القصاۃ، ج: 1، ص: 104)

[4]شہاب الدین السید أحمد بن محمد الحموی ، غمز عیون البصائر شرح کتاب الأشباہ و النظائر ( بیروت - دار الکتب العلمیۃ ، 1985 م ) – ج:1 ، ص:203

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر