قومی کانفرنس جوناگڑھ : چیلنجزاور امکانات

قومی کانفرنس جوناگڑھ : چیلنجزاور امکانات

قومی کانفرنس جوناگڑھ : چیلنجزاور امکانات

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ نومبر 2021

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام یومِ الحاقِ جوناگڑھ(15 ستمبر  1947ء) کی مناسبت سے  14 ستمبر 2021ء بروز منگل کو نیشنل لائبریری آف پاکستان اسلام آباد میں ’’جونا گڑھ: چیلنجز اور امکانات‘‘ کے موضوع پر ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا- کانفرنس چھ سیشنز پر مشتمل تھی جن میں چار اکیڈیمک سیشن ، افتتاحی سیشن اور اختتامی سیشن شامل تھے-مختلف ممالک کے سفراء ،تاریخ دان ،خارجہ پالیسی کے ماہرین،  یونیورسٹی پروفیسر، وکلاء، صحافی، سیاسی قائدین، طلباء، سماجی کارکنان اور زندگی کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے کانفرنس میں شرکت کی-

کانفرنس کی مختصر روداد اس رپورٹ میں پیش کی جا رہی ہے-

افتتاحی سیشن

افتتاحی سیشن کی صدارت عزت مآب نواب آف جونا گڑھ نواب محمد جہانگیر خانجی نے کی جبکہ جنرل ریٹائرڈ احسان الحق (سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی پاکستان) مہمان خصوصی تھے- ڈاکٹر عظمٰی زرین نازیہ (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی لاہور )نے افتتاحی سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے - مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

افتتاحی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی

دیوان آف ریاست جوناگڑھ و  چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ

قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے سر سٹیفورڈ کرپس کو درست کہا تھا کہ متحدہ ہندوستان ایک افسانہ تھا- ہندستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک خطہ ہے جو بہت سی اقوام پر مشتمل ہے- بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی دھوکہ متحدہ ہندوستان کا نعرہ تھا جبکہ اس جھوٹے نعرے کے خلاف سب سے بلند آواز آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تھی- عزت مآب نواب سر مہابت خانجی کی سربراہی میں 15 ستمبر 1947ء کو جوناگڑھ ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق بھی اس سیاسی دھوکے کے خلاف مضبوط آواز تھی- مَیں عزت مآب نواب سر مہابت خانجی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں- پاکستان کا جوناگڑھ کا مقدمہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو بھی مدد دیتا ہے-اس لیے حکومت پاکستان کو کشمیر اور جوناگڑھ دونوں مسائل کو تمام ممکنہ پلیٹ فارمز پر اکٹھے اجاگر کرنا چاہیے-

کانفرنس کے تحقیقی کام کا جائزہ

پروفیسر ڈاکٹر مجیب احمد

معروف تاریخ دان؛ ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری اینڈ پاکستان اسٹڈیز ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ، اسلام آباد

جونا گڑھ کے مسئلے پر اس قومی کانفرنس کا خاکہ مارچ 2021ء میں زیرِ بحث آیا اور مارچ کے تیسرے ہفتے میں کانفرنس کی تاریخ مقرر کی گئی اور کانفرنس کے تمام پہلوؤں کو حتمی شکل دی گئی- سب سے پہلے ہم نے تحقیقی مقالہ جات کے لئے اعلامیہ 8 اپریل کو جاری کیا اور ایبسٹرکٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ یکم جون تھی-تحقیقی مقالہ جات کی دعوت کے جواب میں ہمیں تقریباً 35 تحقیقی مقالات جات کے ایبسٹریکٹس موصول ہوئے جن کا کانفرنس کی اکڈیمک کمیٹی نے جائزہ لیا- کمیٹی کے ممبران میں مَیں خود، پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ اعوان، ڈاکٹر ساجد محمود اعوان ، ڈاکٹر فاروق احمد ڈار  اور ڈاکٹر فخر بلال شامل تھے- کمیٹی نے 17 جون کو ابتدائی جائزہ لینے کے بعد اپنا اجلاس منعقد کیا اور 31 ایبسٹرکٹ کی منظوری دی- مکمل مقالہ جات جمع کرانے کی درخواست 15 اگست تک کی گئی تھی اور ہمیں 24مقالے موصول ہوئے- ان تحقیقی مقالوں کا دوبارہ کانفرنس کی اکڈیمک کمیٹی نے 31 اگست کو ہونے والے اجلاس میں جائزہ لیا اور اکڈیمک سیشنز میں پریزینٹیشن کے لیے منتخب کیا گیا- تمام ایبسٹریکٹس کا کمیٹی نے جائزہ بھی لیا اور متعلقہ مقالوں کے ایبسٹریکٹس پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا گیا-

خصوصی خطاب

جناب احمر بلال صوفی

سابق وفاقی وزیرِ قانون و ماہر بین الاقوامی قانون، صدر ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جونا گڑھ اور کشمیر کے مسائل میں تضادات ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے- کشمیر کی الحاقی دستاویز مشروط تھیں، تاہم جونا گڑھ کی الحاقی دستاویز غیر مشروط تھیں- یہ ایک خود مختار دستاویز ہے جس کی بین الاقوامی قوانین میں قانونی حیثیت ہے- اقوام متحدہ کے چارٹر کے بعد اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق، آپ ریاستوں پر قبضہ نہیں کر سکتے لیکن آپ ان کو الحاقی دستاویز کے ذریعے اپنے ساتھ شامل کر سکتے ہیں-

آج ریاست پاکستان اور نواب صاحب جوناگڑھ کی آزادی کیلئے کون سے طریق اختیار کر سکتے ہیں؟ نواب صاحب اپنی قانونی حیثیت برقرار رکھ سکتے ہیں اور اس قانونی حیثیت کا احترام پاکستان کے قوانین کے تحت کیا جاتا ہے- کیونکہ ان کے نام سے ہم جوناگڑھ پر اپنے دعوے کو جوڑ رہے ہیں- پاکستان نے وہ نقشہ شائع کیا ہے جس میں جوناگڑھ پر اپنے دعوے کو دوبارہ دستاویزی شکل دی ہے- جوناگڑھ ریاست پاکستان کے لئے جغرافیائی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے- پاکستان میں جوناگڑھ برادری کے لوگوں کو خصوصی اہمیت دینے کی ضرورت ہے- کیونکہ جونا گڑھ کی کمیونٹی بھی مسئلہ جوناگڑھ کی جدوجہد میں مدد گار ثابت ہو گی- اس مسئلے کو مسلسل اجاگر کرنے پر میں نواب صاحب کا شکر گزار ہوں- میں صاحبزادہ سلطان صاحب اور ان کے خاندان کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں کیونکہ وہ جوناگڑھ کے مقصد کے لیے اپنے ذاتی وسائل استعمال کر رہے ہیں-

معزز مہمان

جناب افراسیاب مہدی ہاشمی

سابق سفیر و سابق ایڈیشنل فارن سیکریٹری آف پاکستان

وقت گزرنے کے ساتھ دنیا کی سیاست بدل جاتی ہے-آج ہم بھارت کے ساتھ مختلف طرح سے پیش آرہے ہیں- بھارت کو RSS اور مودی انتہا پسند نظریے کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے -آر ایس ایس اقلیتوں کو نشانہ بناتی ہے اور بالخصوص مسلمانوں کو- جب ہم بین الاقوامی میڈیا کو سنتے ہیں تو وہ RSS کو قومی ادارہ بیان کرتے ہیں -تاہم RSS ایک بنیاد پرست جماعت ہے-نتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو قتل کیا-جب اسے پھانسی دی جانی تھی تو وہ اپنے بھائی گوپال گوڈسے  سے ملا اور اسے نصیحت کی کہ جب تک پاکستان دوبارہ بھارت میں شامل نہیں ہو جاتا اپنی باقیات محفوظ رکھے- آج بھارت نتھورام گوڈسے سے ہمدردی رکھتا ہے-

معزز مہمان

میجر جنرل شاہد احمد حشمت (ریٹائر ڈ )

پاکستان کے سری لنکا میں سابق ہائی کمشنر و سابق پرنسپل سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی، نسٹ اسلام آباد

ہم سب جانتے ہیں کہ جوناگڑھ کا تنازع اتنا ہی پرانا ہے جتنا برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے پاکستان اور ہندوستان کی آزادی- برطانوی ہندوستان کو آزادی ایکٹ 1947ء کے تحت آزادی دی گئی تھی جو کہ برطانوی پارلیمنٹ سے 18 جولائی 1947ء کو پاس ہوا تھا- ایکٹ کے تحت تمام شاہی ریاستوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا - جموں و کشمیر،حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کے علاوہ بیشتر ریاستوں نے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا -جوناگڑھ کے حکمران عالیجاہ نواب سر مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کیا اور الحاق کی دستاویزات کو قبول کرنے کی درخواست بھیجی - پاکستان نے 15 ستمبر 1947ء کو جوناگڑھ کی اپنی سرزمین میں شمولیت کی درخواست قبول کی- میں یہ تجویز کروں گا کہ علمی کوششوں کے ساتھ ساتھ مضبوط اور عملی اقدامات شروع کرنے ہوں گے- وزارت خارجہ کو پورے معاملہ کا مکمل جائزہ لینا چاہئے اور جوناگڑھ کے مسئلہ پر زیادہ مستقل اور مربوط پالیسی اپنانی چاہیے-

مہمان خصوصی

جنرل احسان الحق(ریٹائرڈ)

سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی پاکستان

مَیں مسلم انسٹیٹیوٹ کو اس تقریب کے انعقاد پر مبارکباد  پیش کرتا ہوں- یہ کوئی عام تقریب نہیں ہے جو عموماً تھنک ٹینکس کے زیر اہتمام منعقد ہوتی ہے بلکہ اس میں فکری تحقیق کی بڑی کاوش کی گئی ہے - آج اس کانفرنس میں لوگوں کی بڑی تعداد کی شرکت اس بات کا پیغام ہے کہ یہ موضوع پاکستانی عوام کے دلوں میں گونجتا ہے اور اسلام آباد میں ہمارے سفارتی دوست بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں-

اس تقریب کا مقصد ریاست جونا گڑھ پر ہمارے دعوے  کے متعلق ہماری قوم کو متحرک کرنا ہے-اس کے دو پہلو ہیں: دشمن کو روکنے کی صلاحیت اور عزم، عزم صلاحیت سے زیادہ ضروری ہے-اس طرح کی تقریبات جائز حقوق کے دفاع کے لیے قومی عزم کی عکاسی کرتی ہیں اور دوسرا دشمن کے عزائم کو سمجھنا ہے- خوش قسمتی سے حالیہ دنوں میں بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے- بھارت کا اصل چہرہ ہندوتوا ہے جو کہ نازی ازم کی طرح ہے-حکومت کی جانب سے جوناگڑھ کا نقشہ جاری کرنا کافی نہیں ہمیں بحیثیت قوم ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا- تمام بین الاقوامی فورمز پر جوناگڑھ کے مسئلہ کا پُر عزم دفاع مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر ہمارے منصفانہ اور اخلاقی مؤقف کو تقویت بخشے گا-

صدارتی کلمات

 عزت مآب نواب محمد جہانگیر خانجی(نواب، ریاست جوناگڑھ )

مَیں عزت مآب صاحبزادہ  سلطان محمد علی صاحب کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جو کہ حضرت سلطان باھُو کی پُشت سے ہیں اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں- جونا گڑھ ریاست کی تحریک کو زندہ کرنے کے لیے حضرت سلطان باھُو کے مزار پرآپ کی جانب سے ایک جوناگڑھ ہاؤس تعمیر کیا گیا ہے- آج کی کانفرنس جوناگڑھ کے مقصد سے ان کے عزم کا مظہر ہے- میں پاکستان کے سیاسی نقشے پر جونا گڑھ دکھانے پر وزیراعظم عمران خان کا بھی شکر گزار ہوں- وزیر اعظم مودی کو سننا چاہیے، ہم جوناگڑھ کو کبھی نہیں بھولیں گے اور ہم سب ایک بات کہہ رہے ہیں کہ ’’جونا گڑھ ہے پاکستان ‘‘- آج ہم پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب لیاقت علی خان کی جوناگڑھ پر پالیسی کی دوبارہ تصدیق کرتے ہیں- جوناگڑھ ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق اور اس کے بعد بھارتی غیر قانونی قبضے کے بعد بھارت نے ایک نام نہاد ریفرنڈم کرایا جو بھارتی فوجی ہتھیاروں کے سائے تلے منعقد ہوا- وزیر اعظم لیاقت علی خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’ہم ریفرنڈم کو کبھی قبول نہیں کریں گے‘‘ اور آج میں کہتا ہوں کہ ’’مَیں اس ریفرنڈم کو کبھی قبول نہیں کروں گا‘‘- نوابزادہ لیاقت علی خان کے مطابق، نواب آف جوناگڑھ کو دوبارہ بحال کیا جانا چاہیے-

پہلا اکڈیمک سیشن: ریاست جونا گڑھ کی تاریخ

پہلے اکیڈیمک سیشن ’’ریاست جونا گڑھ کی تاریخ‘‘ کی صدارت میجر جنرل سید خالد عامر جعفری (صدر، سنٹر فار گلوبل اینڈ اسٹریٹجک سٹڈیز ، اسلام آباد) نے کی- اسامہ بن اشرف (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اس سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-

مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

جونا گڑھ کی تاریخ اور الحاق پاکستان 1947 ء

ڈاکٹر فرح گل بقائی

سینئر ریسرچ فیلو، قومی ادارہ برائے تاریخی و ثقافتی تحقیق، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت آزادیٔ ہند ایکٹ کے ثالثوں نے صریحاً ایکٹ کے برعکس فیصلے کیے چاہے وہ جغرافیائی تقسیم کا فیصلہ ہو یا ریاستوں کے الحاق کا معاملہ ہو- تقسیم ہند کے وقت جو غور طلب نکتہ ہے وہ وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کا ہندوستان کی طرف مکمل جھکاؤ تھا- جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق کے بعد شامر داس گاندھی نے 25ستمبر 1947ء میں بمبئی میں جوناگڑھ کی ایک غیر قانونی عارضی حکومت قائم کی- یہ عارضی حکومت جونا گڑھ کے قریب راجکوٹ میں منتقل کر دی گئی جہاں پہ شر پسند عناصر کو اکٹھا کیا گیا جن کے ذریعے جوناگڑھ میں فسادات برپا گئے-’’While Memory Serves‘‘ کے مصنف فرانسس ٹکر کے مطابق جوناگڑھ کو انڈین یونین نے دھمکی دی تھی اور بھارت نے جوناگڑھ پر اپنی حاکمیت قائم کرنے اور جبری قبضہ حاصل کرنے کے لیے فوج کو ریاست جوناگڑھ پہ تعینات کر دیا تھا-

بابی خاندان کے دور حکومت میں جوناگڑھ ریاست کی انتظامی حالت

جناب محمد راشد جہانگیر

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان

ریاست جوناگڑھ کی بنیاد شیر خان بابی نے 1730ء میں رکھی تھی، جن کا تعلق قندھار کے معروف پختون قبیلہ ’’بابی‘‘ سے تھا - جوناگڑھ 1730ء سے 1947ء تک بابی خاندان کی حکمرانی میں رہا- شروع میں، ریاست کا انتظام مغلوں کے منصب داری نظام کے مطابق کیا جاتا تھا- سیاسی اور انتظامی اصلاحات میں نواب حامد خانجی اول نے 1807ء میں کرنل واکر کے ساتھ معاہدہ کیا جب برطانوی افواج کاٹھیواڑ میں داخل ہوئیں تاکہ اس علاقے پر اپنا نظام قائم کرسکیں- اس معاہدے کو واکر سیٹلمنٹ بھی کہا جاتا تھا جس سے کاٹھیاواڑ میں امن آیا- معاشی اصلاحات میں، نواب مہابت خانجی اول نے درآمدی اور برآمدی سرگرمیوں سے محصول وصول کرنے کے لیے محکمہ ریونیو بنایا- 1895ء میں نواب رسول خانجی نے زمینداروں پر ٹیکس طے کرنے کیلیے ایلینیشن ڈیپارٹمنٹ بنایا-انہوں نے ریاست میں صنعت کو فروغ دینے کے لیے سر رسول خانجی کمپنی بنائی- نواب مہابت خانجی سوم نے کئی فیکٹریاں قائم کیں جو کپاس، لکڑی ، آٹا ، اناج اور تیل پروسیسنگ کرتی تھیں- انہوں نے معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ویراوَل بندرگاہ اور زراعت کے شعبے کی ترقی پر توجہ دی- 1886ء میں جوناگڑھ اسٹیٹ ریلوے سسٹم بنایا گیا- 1929ء میں نواب مہابت خانجی سوم نے ریاست میں الیکٹرک پاور ہاؤسز اور ڈیم قائم کئے- انہوں نے ریاست میں کشود ہوائی اڈہ ، ٹیلی فون سروس اور بس سروس بھی بنائی-

جوناگڑھ کا مغلیہ سلطنت سے علیحدہ ہوکر خود

مختار حیثیت اختیار کرنا: ایک تاریخی تجزیہ

جناب محمد عبداللہ

 لیکچرر، شعبہ سوشل سائنسز،  اقراء یونیورسٹی، اسلام آباد

جب جوناگڑھ گجرات سلطنت کے زیر سایہ تھا تو اس کا انتظام تھانیدار کے پاس ہوتا تھا جس کو احمدآباد سے تعینات کیا جاتا تھا- تا تار خان پہلا تھانیدار تھا - اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد (1707ء) مغلیہ سلطنت کا زوال بتدریج شروع ہوا اور اس کے نتیجے میں چھوٹی ریاستوں کی آزادی کا سلسلہ شروع ہوگیا- جوناگڑھ کے پختون بابی نواب نے بھی علیحدہ ریاست کے لیے تگ و دو شروع کردی- شیر خان بابی نے صوبہ گجرات کے مغل گورنر سے آزادی کا اعلان کیا اور 1730ء میں ریاست جوناگڑھ کی بنیاد رکھی-

جونا گڑھ کے دیوان (وزیر اعظم) کا کردار:

ایک تاریخی تناظر

جناب بشیر محمد منشی

معروف مصنف اور صحافی

(نوٹ:تفصیلی مقالہ شمارہ ہٰذا نومبر 2021ء کے صفحہ نمبر  25پہ  ملاحظہ فرمائیں)

جونا گڑھ سے متعلق مفروضوں

اور حقائق کا جائزہ

پروفیسر ڈاکٹر عالیہ سہیل خان

سابق وائس چانسلر راولپنڈی ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی

(نوٹ:تفصیلی مقالہ  کا ترجمہ شمارہ ہٰذا نومبر 2021ء کے صفحہ نمبر32  پہ  ملاحظہ فرمائیں)

وقفہ سوال و جواب

مقررین کے اظہار خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب منعقد ہوا جس کا مختصر خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے-

نواب آف جوناگڑھ کو 1931ء اور 46 میں نائٹ آف دی گرینڈ کمانڈر آف دی آرڈر آف انڈیا کا خطاب دیا گیا-شاہنواز بھٹو شاہی فرمان ایکٹ 359 کے مطابق جوناگڑھ کے دیوان بنے او رتقسیم پاک و ہند سے پہلے تقریبا 160دن تک جوناگڑھ کے دیوان رہے- انہوں نے جوناگڑھ کے پاکستان میں الحاق کے لیے اپنی پوری کوشش کی- اس کام سے پہلے سر ظفر اللہ خان نے جوناگڑھ کا دورہ بھی کیا اور پاکستان کے ساتھ جوناگڑھ کے الحاق کے بارے میں بات چیت کی- 1960ء کی دہائی تک جونا گڑھ کا نقشہ پاکستان کے نقشے کا حصہ تھا اور 70 کی دہائی کے وسط میں یہ نقشہ غائب ہو گیا-1971ء کے وقت پاکستان کی سیاسی صورتحال اور شملہ معاہدہ اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے-

صدارتی کلمات

 میجر جنرل سید خالد عامر جعفری (ریٹائرڈ)

 صدر، سنٹر فار گلوبل اینڈ اسٹریٹجک سٹڈیز ، اسلام آباد

اگست 2020ء میں اس مسئلے کو منظر عام پر لانے کا کریڈٹ حکومت کو بھی جاتا ہے- اگر ہم 1947ء کے ہندوستان کے نقشے کا آج کے ہندوستانی نقشے سے موازنہ کریں تو ہم ایک بہت بڑی غیر قانونی توسیع دیکھتے ہیں- کشمیر سے لے کر حیدر آباد، جوناگڑھ، آسام ، تری پورہ وغیرہ تک انہوں نے آہستہ آہستہ غیر قانونی توسیع کی- یہ نہرو کی ذہنیت تھی اور اب مودی اسے مختلف اور جارحانہ انداز میں اختیار کر رہا ہے- نہرو ڈپلومیٹک تھا لیکن دونوں ایک ہی نظریے پر عمل پیرا ہیں- مودی پاکستان مخالف نظریے کو استعمال کرتے ہوئے 70 فیصد برتری کے ساتھ دوبارہ منتخب ہوا ہے- ہندوستان میں 200 مختلف ثقافتیں ہیں اور ہر ثقافت کو آزادی کا حق ہے-

برصغیر پاک و ہند کی شاہی ریاستوں

اور جوناگڑھ کے الحاق کا جائزہ

دوسرے اکیڈیمک سیشن ’’ برصغیر پاک و ہند کی شاہی ریاستوں اور جوناگڑھ کے الحاق کا جائزہ‘‘ کی صدارت معروف تاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ اعوان نے کی- احمد القادری (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ) نے اس سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-

 

جونا گڑھ ریاست کے پاکستان کے ساتھ

الحاق کی ترکیب سازی

جناب رضوان شہزاد

ایم ایس اسکالر، شعبہ ایجوکیشن، سندھ مدرستہ الاسلام  یونیورسٹی، کراچی

وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے کانگریس کے مفادات کی حمایت کی- انہوں نے تقسیم ہند کے وقت سالمیت اور منصفانہ تقسیم کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کے برطانوی حکومت پر آل انڈیا کانگریس کے مفادات کو ترجیح دی-کانگریس نے شاہی ریاستوں پر ہر طرح سے قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی کیونکہ وہ ریاستوں کے تمام وسائل اور زمینوں پر قبضہ کر کے کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے- وائسرائے کی طرف سے جغرافیائی حد نافذ کرنا ریاستوں کی اکثریت پر قبضہ کرنے کا پروپیگنڈا تھا- جوناگڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد ہندوستان خوفزدہ تھا کیونکہ کانگریس نے سوچا کہ اگر ہم نے جوناگڑھ کے خلاف کوئی سخت کاروائی نہ کی تو ممکن ہے کہ کاٹھیاواڑ کی دیگر ریاستیں پاکستان کے ساتھ مل جائیں کیونکہ کاٹھیاواڑ پاکستان سے ملحقہ ہے- بھارت نے جونا گڑھ کی سرحدوں پر فوج تعینات کر دی اور ریاست کی تمام سپلائی بند کر دی- بھارت نے جوناگڑھ اور اس کی اتحادی ریاستوں پر نومبر میں جنگ مسلط کر دی- جنگ کی تباہی اور فسادات کی وجہ سے لوگوں نے ریاست سے نقل مکانی شروع کر دی-9 نومبر کو قبضے کے بعد ہندو قوم پرستوں نے ہتھیاروں سے مسلمانوں پر حملے بھی کئے-

پاکستان میں شاہی ریاستوں کا الحاق:

جوناگڑھ اور بہاولپور کا تقابلی جائزہ

جناب رانا پرویز اقبال

پی ایچ ڈی ا سکالر، شعبہ سیاسیات، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور

پاکستان کا دو ریاستوں کے ساتھ الحاق دو مختلف نتائج کو ظاہر کرتا ہے- پاکستان کو بطور نئی ریاست کے ایسی اکائیوں کی شدید ضرورت تھی جو معاشی اور سماجی طور پر مضبوط ہوں- جونا گڑھ اور بہاولپور ریاستیں ان میں سے دو تھیں- بھارت نے پاکستان کو اکیلے اور محدود کرنے کے لئے شاہی ریاستوں کے الحاق کے معاملے میں طاقت کا استعمال کیا- بہاولپور کا الحاق آسانی سے مکمل ہوا اور پاکستان میں شامل ہو گئی اور کوئی طاقت اسے کبھی ختم نہیں کر سکی- بہاولپور کے نواب صادق عباسی نے برصغیر کے نئے تخلیق شدہ ملک کے مخلص دوست کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ تعاون میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا- جونا گڑھ کے معاملے میں ’’الحاقی دستاویز‘‘ اب بھی محفوظ اور مستند ہیں جس پر نواب آف جوناگڑھ نے دستخط کیے تھے-قائد اعظم کی قیادت میں نواب آف جونا گڑھ کے ساتھ  پاکستان میں شامل ہونے کے معاہدے کیلئے نتیجہ خیز کوششیں کی گئیں- جوناگڑھ کے نواب کی طرف سے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ پاکستان کی بڑی کامیابی تھی- بھارت نے قوانین کی خلاف ورزی کی اور ریاست جوناگڑھ پر قبضہ کر لیا- جبکہ جونا گڑھ کے لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے-

جونا گڑھ اور قلات کا پاکستان سےالحاق:

ایک تقابلی جائزہ

جناب مدثر ایوب:

پی ایچ ڈی سکالر ، شعبہ تاریخ ، قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد

دونوں ریاستوں کے الحاق کا موازنہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ شاہی ریاستیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے قانونی طور پر آزاد تھیں- قائد اعظم نے ریاستوں کے اس حق کا احترام کیا - اس لیے قائداعظم نے خان آف قلات سے درخواست کی کہ وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں- جونا گڑھ ایک آزاد ریاست تھی لیکن بھارت نے ریاست جوناگڑھ کی خودمختاری کا احترام نہیں کیا- پاکستان یا بھارت میں شامل ہونا ریاست کی خود مختاری کے تحت قانونی حق تھا- لیکن جوناگڑھ کے نواب کو بھارت کی طرف سے دھمکی دی گئی تھی کہ وہ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ واپس لے لیں- جوناگڑھ کی کثیر المذاہب مشاورتی کونسل نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا- قلات کے معاملے میں قلات کا دارالعمرا بھی پاکستان میں شامل ہونے سے گریزاں نہیں تھا اس نے الحاق کی شرائط کا بغور تجزیہ کرنے کیلئے کچھ وقت مانگا - ریاست جوناگڑھ پر بھارت کی طرف سے حملہ کیا گیا اور طاقت کے ساتھ قبضہ کر لیا گیا جبکہ ریاست قلات بغیر کسی فوجی کاروائی کے اور اپنی خود مختاری سے پاکستان میں مکمل طور پہ شامل ہوئی- پاکستان میں چودہ شاہی ریاستیں شامل ہوئیں جن میں بہاولپور، سوات، قلات، خیر پور، اَمب اور دیگر ہیں، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان نے ان میں سے کسی پہ بھی حملہ آور ہوکے غصب کے ذریعے قبضہ نہیں کیا-جبکہ اس کے بر عکس بھارت نے تقریباً تقریباً شاہی ریاستوں کو دھونس، دھاندلی، دھمکی اور غاصبانہ طاقت کے ذریعے قبضہ کیا ہے -

جونا گڑھ کے مسئلے پر پاکستان کے دعوے کی قانونی حیثیت: مسئلہ کشمیرکےتناظر میں ایک تجزیہ

ڈاکٹر جولیانہ عثمان واشانی

لیکچرر، رونقِ اسلام گورنمنٹ کالج برائے خواتین کراچی

جونا گڑھ کاٹھیاواڑ خطے کا ایک معاشی اور انتظامی حصہ تھا جس پر ایک مسلمان حکمران مہابت خانجی کی حکومت تھی- ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل ریاستی کونسل کی مشاورت سے نواب آف جوناگڑھ نے قائداعظم کے ساتھ الحاق کے دستاویزات پر دستخط کیے اور جونا گڑھ کو پاکستان میں شامل ہونے والی پہلی ریاست بنا دیا- الحاق سے متعلق معاملات طے کرنے کیلئے نواب آف جونا گڑھ کراچی روانہ ہو گئے جیسے ہی نواب کراچی پہنچے تو بھارت نے جوناگڑھ کی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوناگڑھ میں افواج کو داخل کر دیا- بھارت کا یہ عمل بلا جواز اور غیر قانونی تھا- بھارت نے بین الاقوامی قانون کے آرٹیکل 2 (4) کی خلاف ورزی کی اور جونا گڑھ پر بھارت کا دعویٰ ایک بے بنیاد ریفرنڈم کے ذریعے ہے جو کشمیر کے معاملے کے برعکس ہے- بھارت نے ریاستی حکمران کی مرضی کے خلاف جونا گڑھ کے معاملات میں غیر قانونی طور پر مداخلت کی اور اس طرح بھارت نے بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں ایک ریاست کی خودمختاری کو چیلنج کیا- بھارت کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ صرف جغرافیائی مطابقت کی بنیاد پر ایک ریاست کسی بھی ریاست سے الحاق حاصل کر سکتی ہے- ان کا یہ بیان پاکستان کے حق میں نہیں تھا تاہم جوناگڑھ کے نواب اور مناوادر کے حکمران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا چونکہ جونا گڑھ اور پاکستان کا سمندری رابطہ موجود تھا -

شاہی ریاستوں کا الحاق:

جوناگڑھ اور جموں و کشمیر کا تقابلی جائزہ

پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز بھٹی

چیئرمین، شعبہ سیاسیات و بین الاقوامی تعلقات، سرگودھا یونیورسٹی

جنگ آزادی (1857ء) کے بعد ، حکومت برطانیہ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858ء کے ذریعے ہندوستان کا کنٹرول سنبھال لیا- اس ایکٹ کے تحت برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے مقامی شہزادوں کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو برقرار رکھا گیا- اس کے نتیجے میں ہندوستان کی انتظامیہ دو زمروں میں تقسیم ہو گئی- صوبے سیکریٹری آف انڈیا کے ذریعے برطانوی ولی عہد کے براہ راست کنٹرول میں تھے جبکہ شاہی ریاستیں بالواسطہ طور پر مقامی شہزادوں کے ذریعے برطانوی حکومت کے زیرِ اثر تھیں- 1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک نئی ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا- جن بنیادی اصولوں کے تحت تقسیم پر اتفاق کیا گیا وہ یہ تھے کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو غیر مسلم اکثریتی علاقوں سے الگ کر کے دو آزاد ریاستوں یعنی پاکستان اور بھارت کو قائم کیا جائے اور شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو بغیر کسی جبر و تسلط کے فیصلے کا حق حاصل ہے- جونا گڑھ، مناوادر اور حیدرآباد ہندو اکثریتی ریاستیں تھیں جن میں مسلم حکمران تھے جو پاکستان میں شامل ہوئے (بعد ازاں طاقت کے استعمال سے بھارت نے ان پر قبضہ کر لیا) اور دوسری طرف جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی جس پر ہندو حکمران تھے لیکن اس پر بھی بھارت قابض ہو گیا-

پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کااجراء :

جوناگڑھ ریاست کے الحاق کا جائزہ

جناب محمد محبوب

شعبہ ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک سٹڈیز، قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد

(نوٹ:تفصیلی مقالہ  کا ترجمہ شمارہ ہٰذا نومبر 2021ء کے صفحہ نمبر46  پہ  ملاحظہ فرمائیں)

وقفہ سوال و جواب

مقررین کے اظہار خیال کے بعد وقفہ سوال و جواب منعقد ہوا جس کا مختصر خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے-

جونا گڑھ سے آگاہی کی کمی کی وجہ سے کئی سالوں سے جونا گڑھ کا مسئلہ نظرانداز کیا جاتا رہا اور یہاں تک کہ لوگوں کی اکثریت کے پاس زیادہ معلومات بھی نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ کشمیر جیسے دیگر مسائل کے مقابلے میں جوناگڑھ کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی- کشمیر اور جونا گڑھ کے مسائل دو اہم اور اپنی نوعیت کے دو مختلف مسئلے ہیں- آزادی کے ابتدائی سالوں میں پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ 1948ء کی جنگ، سیاسی عدم استحکام، دارالحکومت کا کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونا اور سیاسی نظام کا تبدیل ہونا- اب حکومت نے خود پاکستان کے نئے سیاسی نقشے میں جوناگڑھ ریاست کو دکھا کر جوناگڑھ کے مسئلے کو زندہ کیا- اس ڈویلپمنٹ نے جوناگڑھ کے مسئلے کو اجاگر کیا اور بالآخر ہم اس کانفرنس میں بیٹھے ہیں اور اس مسئلے پر بات چیت کر رہے ہیں-

صدارتی کلمات

پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ اعوان

چیئرپرسن ، شعبہ تاریخ ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد

ہم نے قیام پاکستان سے قبل 1931ء میں علامہ محمد اقبال کی قیادت میں لاہور میں یوم کشمیر منایا یہ زندہ قوموں کی نشانی ہے اور میں ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جو جوناگڑھ ریاست کے مسئلہ کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں اور تاریخ کو زندہ کر رہے ہیں- مزید برآں مجھے سب سے زیادہ تین چیزوں نے متاثر کیا جو سیشنز کے مقررین نے تحقیقی مقالوں میں پیش کی ہیں، اول یہ کہ ہم نے جوناگڑھ کے بارے میں اپنی کتابوں میں کبھی زیادہ نہیں سیکھا لیکن جونا گڑھ ہمارے دلوں میں زندہ ہے- دوم، جوناگڑھ کے مسئلے کے بارے میں آگاہی جسے ہم با لکل بھول گئے- تیسرا، جونا گڑھ پر پاکستان کا قانونی مؤقف- اسی طرح پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جو ان تمام ریاستوں کو کبھی نہیں بھولے گی جن میں مسلمان مشکلات کا شکار ہیں- ہم نے جوناگڑھ ریاست کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کے بارے میں آگاہی حاصل کی اور قانونی نکات فراہم کیے اور جوناگڑھ ریاست کے حقیقی مؤقف کو سمجھنے کے لیے دیگر ریاستوں جیسے قلات، بہاولپور اور کشمیر کے ساتھ موازنہ کیا-

جوناگڑھ ریاست کا مسئلہ اور قانونی تناظر

معروف پولیٹیکل سائنٹسٹ پروفیسر ڈاکٹر نذیر حسین (ڈین سوشل سائنسز اینڈ ہیومینیٹز یونیورسٹی آف واہ ) نے تیسرے اکڈیمک سیشن کی صدارت کی- محترمہ سعدیہ سیف نیازی (آئی آر ڈیپارٹمنٹ،  نمل،  اسلام آباد ) نےتیسرے اکڈیمک سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے -

پاکستان کے مقامی قانون میں

جوناگڑھ ریاست کی حیثیت

جناب ناصر عباس شاہ

 سکالر آف لاء

(نوٹ:تفصیلی مقالہ  کا ترجمہ شمارہ ہٰذا نومبر 2021ء کے صفحہ نمبر42  پہ  ملاحظہ فرمائیں)

آزادی ہند ایکٹ 1947ء کے تناظر میں جونا گڑھ کے الحاق پر ہندوستانی موقف میں تضادات

 جناب ڈاکٹر محمد عاصم

 اسسٹنٹ پروفیسر، پولیٹیکل سائنس، گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج ، راولپنڈی

15 اگست1947ء سے 9 نومبر 1947ء کے درمیان ہونے والے مختلف واقعات میں جوناگڑھ کے الحاق پر بھارت کے مؤقف میں متعدد تضادات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس مسئلے پر بھارتی قیادت کا کس قدر دوہرا معیار تھا- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک طرف ہندوستان جوناگڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان کے خلاف شمڑ داس گاندھی کی قیادت میں خودساختہ عارضی حکومت کو سپورٹ کرتا ہے اور ہندو اکثریتی آبادی اور دوقومی نظریے کو اس قبضے کی بنیاد بناتا ہے- دوسری طرف مسلم اکثریتی علاقوں (اتُر پردیش کا اندرونی حصہ، مغربی بنگال، بہار، مہارشٹرہ، آسام، کیرلا، کرناٹیکا، راجھستان، گجرات، اور جموں و کشمیر) پر بھی قبضہ قائم کرتا ہے یا تو نہرو ریڈکلف ناانصافی کے ذریعے یا سیدھا قبضے کے ذریعے- اسی طرح بھارت دعوٰی کرتا ہے کہ جوناگڑھ ریاست کی ہندو آبادی پاکستان کے ساتھ الحاق کے خلاف تھی اور وہ جونا گڑھ کو نواب کی حکمرانی سے آزاد کروانے کیلیے بمبئی میں اکٹھے ہوئے تھے- حالانکہ وہ بھارت کی ہی اپنی قائم کی ہوئی نام نہاد عارضی حکومت تھی-

بین الاقوامی قانون کے تناظر میں

ریاست جوناگڑھ کا مسئلہ

جناب آصف تنویر اعوان

(ایل ایل ایم)

ریسرچ ایسوسی ایٹ، مسلم انسٹیٹیوٹ

جونا گڑھ ریاست پر قبضہ کے عمل سے بھارت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کی خلاف ورزی کی جو کہ ہر ریاست کے علاقائی خودمختاری کے تحفظ کی یقین دہانی کرواتا ہے- ہیگ ریگولیشن 1907ء کے آرٹیکل 42 اور چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 27-34, 47,48 کے تحت جبری قبضہ غیرقانونی ہے- اس تمام غیرقانونیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ نے 15 جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو اجاگر کیا- تاہم اس کیس کو اقوام متحدہ چارٹر کے باب 6 کے تحت دیکھا گیا- 20 جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 39، 20 اپریل 1948ء کی قرارداد 47 اور جون 1948ء کی قرارداد 51 جوناگڑھ کے کیس سے متعلق ہے- ویانا کنونشن کے معاہدے کے قانون کے مطابق جوناگڑھ ریاست کے الحاقی دستاویز ایک درست معاہدہ ہے جوکہ ابھی بھی برقرار اور نافذالعمل ہے- ریاست پاکستان بھی اس معاہدے کا احترام کرتی ہے کیونکہ پاکستان بین الاقوامی قانون ’’پیکٹا سُنٹ سَروانڈا‘‘ کے تحت پابند ہے جس کا مطلب ہے کہ ریاستی فریقوں کو معاہدے  کا احترام کرنا چاہیے-

جوناگڑھ ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق:

مٹی میں دفن مسئلے کو دوبارہ زندہ کرنا

ڈاکٹر سمزہ فاطمہ

اسسٹنٹ پروفیسر آف لاء، یونیورسٹی گیلانی لاء کالج، بہاوٴ الدین  زکریا یونیورسٹی، ملتان

(نوٹ:تفصیلی مقالہ  کا ترجمہ شمارہ ہٰذا نومبر 2021ء کے صفحہ نمبر 35  پہ  ملاحظہ فرمائیں)

جوناگڑھ کا مسئلہ: مردہ یا زندہ

اسسٹنٹ پروفیسر جناب ڈاکٹر عمران نسیم

 کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد، ایبٹ آباد کیمپس

بھارتی نکتہ نظر کے تحت شائع ہونے والی کتب کا یہ دعویٰ ہے کہ جوناگڑھ کی عدالت نے بھارت کی حکومت کو دعوت دی تھی کہ وہ ریاستی انتظامات کا کنٹرول سنبھالے لیکن ایسی کسی دعوت کا کوئی ثبوت موجود نہیں- تاہم بھارت کے دو مختلف دعوے ایک دوسرے کے متضاد ہیں- ایک طرف بھارت یہ دعوٰی کرتا ہے کہ دیوان نے نواب کو متاثر اور مجبور کیا اور دوسری طرف یہ دعوٰی کرتا ہے کہ اسی دیوان نے بھارت کو مداخلت اور انتظامیہ پر قبضہ کرنے کی دعوت دی- اگرچہ جوناگڑھ پہ بھارتی مداخلت اور زبردستی قبضہ کرنا غیر قانونی ہے اور پاکستان کا علاقے پر دعویٰ  de jure ہے، بھارت ان علاقوں پر de facto کنٹرول رکھتا ہے- بھارت ایک طرف حیدرآباد، جوناگڑھ اور دوسری طرف کشمیر میں اپنے متضاد مؤقف کی وضاحت دینے میں بری طرح ناکام ہے- دفترِ خارجہ کو بین الاقوامی سطح پر کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جونا گڑھ پر فعال طور پر آواز اٹھائے دہائیاں گزر گئی ہیں- نواب آف جوناگڑھ کے پاس اس وقت کے موجودہ حالات کے مطابق، تمام اختیارات تھے کہ وہ آزادانہ طور پر کسی بھی ملک کے ساتھ ریاست کے الحاق کا فیصلہ کریں- سلامتی کونسل کی قرار دادیں اب بھی برقرار ہیں لیکن عملی طور پر سرد مہری کا شکار ہیں-

بین الاقوامی قانون کے تناظر میں

شاہی ریاست جوناگڑھ کا مسئلہ

ایڈووکیٹ فیروز ایم صدیقی

چئیرمین آف جوناگڑھ سٹیٹ وکلاء کونسل، وزیٹنگ فیکلٹی، شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء، کراچی

نواب آف جوناگڑھ عزت مآب مہابت خانجی سوئم نے الحاق کے فیصلے کے متعلق تمام اختیارات ہونے کے باوجود اس مقدمے کو سٹیٹ کونسل کے سامنے رکھا- کونسل نے بھی پاکستان کی حمایت میں متفقہ فیصلہ کیا- سٹیٹ کونسل میں مسلم ممبرز کے ساتھ بہت سارے ہندو ممبرز بھی تھے جو کہ اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے تھے- آزادی ہند ایکٹ 1947ء، کے سیکشن 2 کی ذیلی شق (a) اور (b) کے تحت، ایک ریاست کی اجازت کے بغیر کسی بھی علاقے کو کسی بھی ریاست میں شامل یا خارج نہیں کیا جائے گا- کیا پاکستان اور جونا گڑھ دونوں کی جانب سے الحاق کے دستاویزات پر دستخط کرنے کا عمل اسے ایک بین الاقوامی معاہدہ کی حیثیت دیتا ہے؟ یقیناً یہ درست ہے اور پاکستان کے گورنر جنرل کے اس دستاویز پر دستخط ہونے کے بعد جوناگڑھ پاکستانی ریاست کا حصہ بن گیا- بھارت کے جوناگڑھ پر غیر قانونی قبضے کے بعد مقدمے کو اقوام متحدہ میں لے جایا گیا، بین الاقوامی برادری اور غیر جانبدار ہندوستانی جوناگڑھ میں بھارتی ریفرنڈم کو ڈھونگ تصور کرتے ہیں-

ریاست جوناگڑھ: دو متضاد آراء کی جانچ

جناب ڈاکٹر الطاف اللہ

سینئر ریسرچ فیلو، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ کلچرل ریسرچ، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد

پاکستان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس وقت کے جوناگڑھ کے حکمران نواب مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کیے- نواب صاحب نے اس بنیاد پر کہ ان کی ریاست کا پاکستان کے ساتھ سمندری رابطہ ہے ستمبر 1947ءکو پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا لیکن بھارت نے تقسیم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پر غاصبانہ قبضہ کرلیا لیکن کشمیر کے معاملے میں بھارت نے کشمیر اور پاکستان کے اسی حق کا انکار کیا- دوسرا بھارتی نقطہ نظریہ ہے کہ جوناگڑھ تینوں اطراف سے ان ریاستوں سے گھرا ہوا ہے جو بھارت میں شامل ہیں- نہرو نے لیاقت علی خان کو لکھا کہ بھارت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس طرح کی جغرافیائی تقسیم کو قبول کرے- بھارت کے ساتھ جغرافیائی مطابقت اور ہندو اکثریتی آبادی کو بھارت جوناگڑھ پر قبضے کا جواز بناتا ہے- پاکستان کے پاس الحاق کے دستاویزات ہیں جبکہ بھارت کو اپنا دعوٰی ثابت کرنے کے لیے دستاویزات کی کمی ہے- کشمیر اور جوناگڑھ دونوں میں بھارت غیر آئینی اقدامات کررہا ہے اور اپنے مفادات کے خلاف جانے والے فیصلوں کو مؤخر کررہا ہے- بھارتیRSSاور ہندوتوا پالیسزکا احتساب ہونا چاہیے- وگرنہ بھارتی جارحیت ممکنہ طور پر دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے-

معزز مہمان

محترمہ  پروفیسر ڈاکٹر آمنہ محمود

 ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد

میں تمام مقررین سے مکمل طور پر متفق ہوں جنہوں نے ہمارا جوناگڑھ پر دعوٰی اور پاکستان کے نقطہ نظر کو واضح کیا- میں کچھ حقائق بیان کروں گی جو کہ قابل مقررین نے واضح کیے اور جن پر ابھی تک بحث نہیں ہوئی- جب میں جونا گڑھ کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کاروائی کا مطالعہ کررہی تھی تو وہ بیانات بھی میری نظر سے گزرے جوکہ ناروے کے وفد کی جانب سے دیے گئے تھے- انہوں نے واضح طور پر بحث کی کہ کشمیر اور جوناگڑھ کے معاملے پر بھارت ایک مؤقف کیسےاپنا سکتا ہے- اس کی پالیسز اور قانونی مئوقف میں کچھ برابری اور یکسانیت ہونی چاہیے جو اسے واضح کرے- اگر ہم جوناگڑھ اور کشمیر کے الحاق کا متوازی مطالعہ کرتے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا تھا- کشمیر میں اکثریتی آبادی کے حق خود ارادیت کا سوال ہے جسے بھارت نے پورا نہیں کیا اور کشمیر میں عظیم انسانی بحران آیا - جبکہ جوناگڑھ کے معاملے پر بھارت کا مکمل طور پر مختلف نقطہ نظر ہے -

صد ارتی کلمات

جناب پروفیسر ڈاکٹر نذیر حسین

ڈین سوشل سائنسز اینڈ ہیومینیٹز، یونیورسٹی آف واہ

مسلم انسٹیٹیوٹ نے تقریباً 2012ء سے اپنی تشکیل کے بعد سے ہی ان تمام مسائل کو اجاگر کیا ہے جن کا سامنا مسلم ممالک نے کیا جیسے کشمیر، فلسطین، سوڈان، افغانستان اور 2015ء سے جوناگڑھ بھی شامل ہے- آج مختلف پریزنٹیشن پیش کی گئیں جو ریاست جوناگڑھ کے تمام ممکنہ پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں- اس میں قومی قانون، بین الاقوامی قانون، انڈین ایکٹ 1935ء اور انڈین آزادی ایکٹ 1947ء، وغیرہ شامل ہیں- سیاسی تاریخ کوئی قانون نہیں بلکہ ایک حقیقی سیاست (realpolitik) ہے- یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پورے پاکستان سے طلبا اور ماہرین مسئلہ جوناگڑھ کو اجاگر کرنے کیلئے تحقیق پیش کرنے آئے ہیں- کشمیر کے معاملے پر حالات مختلف ہیں لیکن جوناگڑھ کے مسئلے پر ہمارے پاس دعوے کا قانونی حق ہے - بہت سی یونیورسٹیز اس قومی کانفرنس میں شامل ہیں اور اسلام آباد میں 4 سے 5 مختلف یونیورسٹیز بھی اس کانفرنس کا حصہ ہیں- لہٰذا یہ ایک اکیڈیمک سیشن ہے اور ریاست جوناگڑھ پر قانونی اور سیاسی مسائل پر تحقیق کی کاوش ہے- اس طرح کی کانفرنسز میں مسئلہ جوناگڑھ کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے-

مسئلہ جوناگڑھ پہ حالیہ پیش رفت

ڈاکٹر سیف الرحمٰن ملک (ڈائریکٹر انڈیا اسٹڈی سینٹر، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد) نے چوتھے اکڈیمک سیشن(جوناگڑھ ریاست کا مسئلہ اور قانونی تناظر ) کی صدارت کی- جناب احمد القادری (ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹی ٹیوٹ) نے اس سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-

مقررین کی جانب سے پیش کیے گئے خیالات کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے:

مسئلہ جوناگڑھ پہ مختلف بیانیے:

ایک تنقیدی جائزہ

جناب حمزہ ملک

نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)  اسلام آباد

(نوٹ:تفصیلی مقالہ  کا ترجمہ شمارہ ہٰذا نومبر 2021ء کے صفحہ نمبر28  پہ  ملاحظہ فرمائیں)

جوناگڑھ تحریک کا احیاء چیلنجز اور امکانات

جناب طارق خان

ایم ایس اسکالر، انٹرنیشنل ریلیشنز ، بحریہ یونیورسٹی ، اسلام آباد

پاکستان اپنے تاریخی پہلوؤں، نظریاتی اقدار اور اپنے بزرگوں کی کاوشوں کو کبھی نہیں بھول سکتا یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے مسئلہ جوناگڑھ کے احیاء کے لیے نئی تحریک شروع کی ہے- چنانچہ پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی کی ترجیحات جونا گڑھ کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں- پاکستان نے بھارت کے تمام غیر قانونی علاقائی قبضوں کا جواب دینے اور واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ تاریخی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ تھے- جونا گڑھ تحریک، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی برادری کی توجہ کا بھی سبب بنے گی-جونا گڑھ کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے موجودہ حکومت پاکستان نے جوناگڑھ تحریک کے لیے فعال کردار ادا کیا ہے-جوناگڑھ تحریک پاکستان کے عالمی امیج، علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو زندہ کرے گی- جونا گڑھ تحریک خاص طور پر ہندوستان اور کشمیر کے اندر مسلمانوں کے ساتھ بھارتی مظالم کو بے نقاب کرے گی- پاکستان جہاں بھی کشمیر کا مسئلہ اٹھا رہا ہے اسے بیک وقت جوناگڑھ کا مسئلہ بھی اٹھانا چاہیے-

حالیہ دور میں جوناگڑھ تحریک کا جائزہ

 جناب ظفر مسعود

شعبہ سیاسیات ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور

جوناگڑھ تحریک نے پچھلی دو دہائیوں میں ایک نئی جہت حاصل کی- جوناگڑھ ریاست کے موجودہ نواب، نواب جہانگیر خا نجی نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں فعال کردار ادا کیا ہے- وہ مختلف قانون سازوں اور پالیسی سازوں سے ملاقاتیں کرتےرہے تاکہ انہیں جوناگڑھ کے معاملے سے آگاہ کیا جا سکے- جوناگڑھ تحریک کی بحالی میں حضرت سلطان باھُو کے خانوادہ کی طرف سے ایک اہم کردار ادا کیا جا رہا ہے- صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب نے حضرت سلطان باھُو کے دربار کے ایک گیسٹ ہاؤس کو جوناگڑھ ہاؤس کا نام دیا- سالانہ لاکھوں لوگ حضرت سلطان باھُوکے مزار پر جاتے ہیں- مزید برآں مرأۃ العارفین نے چیف ایڈیٹر صاحبزادہ سلطان احمد علی کی نگرانی میں اس مسئلے کو اجاگرکرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا- اس کے علاوہ مسلم انسٹیٹیوٹ نے جوناگڑھ کے مسئلے کو زندہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا- متعدد سیمینار ، گول میز مباحثے اور لیکچرز کا اہتمام مسلم انسٹیٹیوٹ کے پلیٹ فارم سے کیا گیا- پاکستان کی موجودہ حکومت نے گزشتہ سال پاکستان کا ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں جوناگڑھ کو پاکستان کا ایک لازمی حصہ دکھایا گیا- نواب جہانگیر خانجی کی طرف سے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کی جوناگڑھ ریاست کے دیوان کے طور پر تقرری ایک اور اہم پیش رفت ہے-

جوناگڑھ کے مسئلے پہ جدیدآراءو

بیانیے: ایک تنقیدی تجزیہ

 جناب محمد وسیم عباس

ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ

پاکستان کی مختلف حکومتوں نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا اور نواب آف جوناگڑھ کو تسلیم کیا- تاہم بین الاقوامی سطح پر حکومتوں نے اس مسئلے پر مناسب پیشرفت نہیں کی- نواب دلاور خانجی تھے جنہوں نے اس مسئلے کو زندہ رکھا- نظریہ پاکستان ٹرسٹ ایک تحقیقی ادارہ ہے یہ اپنے سیمیناروں میں جوناگڑھ کے مسئلے پر بھی بحث کرتا ہے- تھنک ٹینک، مسلم انسٹیٹیوٹ ایک معروف ادارہ ہے جو دنیا میں جوناگڑھ کے مسئلے کو اجاگر کر رہا ہے- انسٹیٹیوٹ کی بنیاد صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب نے رکھی- انسٹیٹیوٹ نے اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اور حکومت پاکستان کو پالیسی سازی میں مددفراہم کی- صاحبزادہ سلطان احمدعلی، چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ دیوان آف جوناگڑھ بنے، نواب جہانگیر خانجی نے یہ اہم منصب صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب کو جونا گڑھ کے مقصد کیلئے ان کی کوششوں پر دیا ہے- 14 اگست 2020ء کو دیوان آف جوناگڑھ نے اس مسئلے سے متعلق 14 نکاتی قراردادبھی پیش کی تھی جو اس مسئلہ کے حل کے لئے خاص اہمیت کی حامل ہے- 2020 ءمیں سروے آف پاکستان نے پاکستان کے نقشے میں جوناگڑھ اور مناوادر کو دکھایا- اس نقشے کی بھارت کے علاوہ تمام SCO ممبران نے تائید کی-موجودہ دور میں جوناگڑھ مسئلہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی توجہ حاصل کر رہا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے-

پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی کا سماجی،

سیاسی اور اقتصادی کردار

محترمہ ندا کنول

ایم فل سکالر، شعبہ تاریخ اور تہذیبی مطالعہ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان

جوناگڑھ کمیونٹی اصل میں لوہانہ ہندو ذات سے تعلق رکھتی تھی جنہوں نے حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے شاگرد صوفی مبلغ سید یوسف الدین کے ہاتھوں اسلام قبول کیا- انہیں اسی سبب ’’مومن‘‘ کہا جاتا تھا جو بعد میں ’’میمن‘‘ میں بدل گیا- جونا گڑھ کمیونٹی نے تقسیم کے وقت پاکستان کے انتظامی معاملات میں اہم کردار ادا کیا- مزید برآں، پاکستان میں میمن کمیونٹی نے ایک اوکھائی میمن جماعت بنائی جو ہجرت کرنے والے لوگوں کی رہائش کا انتظام کرتی تھی- سیاسی کردار میں نواب دلاور خانجی سندھ کے گورنر رہے- اشرف ڈبلیو تابانی جو کہ مشہور میمن بزنس مین ہیں، سندھ کے گورنر اور صوبائی وزیر خزانہ رہے- پاکستان کے میمن سیاست دان محمود ہارون نے وفاقی وزیر داخلہ اور وفاقی وزیر دفاع کے طور پر خدمات انجام دیں- معاشی کردار میں میمنوں نے کاروبار کےذریعے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تجارتی مہارتوں کو استعمال کرتے ہوئے معیشت کی ترقی میں حصہ لیا- یہ کمیونٹی پاکستان میں سماجی بہبود کے کاموں کے لیے مشہور ہے- ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ، عزیز تابہ فاؤنڈیشن اور داؤد فاؤنڈیشن کمیونٹی کی نمایاں شخصیات چلاتی ہیں- کھیلوں میں محمد فیملی پاکستانی کرکٹ کی سرخیل ہے- پاکستان کے معاشی دارالحکومت کراچی کی اکثر بڑی تاجر شخصیات اور خاندانوں  کا تعلق بھی جونا گڑھ ہی سے ہے مثلاً: رنگون والا ، پردیسی ، داؤد فیملی ، آدم جی اور دیگر-

پاکستان کی سماجی ترقی میں جوناگڑھ

کمیونٹی کا کردار: ایک جائزہ

جناب عبدالباسط

لیکچرر، سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی ، لاہور

پاکستان میں جوناگڑھ کے 30 لاکھ لوگ رہتے ہیں- پاکستان کے صنعتی، تعلیمی، فلاحی، کھیلوں اور بینکنگ کے شعبوں میں ان کا بڑا حصہ ہے- اسی طرح دیگر نمایاں شخصیات میں محمد برادرز، عبدالستار ایدھی اور جاوید میانداد شامل ہیں- جنہوں نے مختلف شعبوں میں پاکستان کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے- بڑے گروہ بشمول دادابھوئے، آدم جی ، پردیسی،  داؤد، قاسم دادا، کریم گروپ، باوانے گروپ، میمن خاندان وغیرہ جن کا تعلق جوناگڑھ سے ہے ، وہ پاکستان کیلئے خدمات انجام دے رہے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے لیے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں- مزید برآں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے قبل جونا گڑھ برطانوی ہندوستان کی ایک فلاحی اور امیر ترین ریاست تھی کیونکہ جونا گڑھ کے لوگ کاروبار اور تجارت میں مہارت رکھتے تھے- انہوں نے ہندوستانی قبضے کو قبول نہ کیا اور ان کی ایک بڑی تعداد پاکستان منتقل ہوگئی- جوناگڑھ کے بہت سے لوگ مالی اور معاشی بہتری میں حصہ لے رہے ہیں اور آزادی کے بعد سے پاکستان کی معیشت میں مکمل طور پر حصہ ڈال رہے ہیں-

برصغیر میں جوناگڑھ ریاست کی

جغرافیائی سیاسی اہمیت

جناب محمد بشیرجنجوعہ

 کمشنر پاکستان شماریات بیورو،  وزارت منصوبہ بندی و ترقی

جونا گڑھ ہندوستان کے مغربی کاٹھیاواڑ علاقے میں ایک ساحلی ریاست کے طور پر بڑی اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے- یہ ریاست بحیرہ عرب سے جڑنے والا جغرافیائی علاقہ ہے- جونا گڑھ ایک ساحلی مقام کے طور پر عالمی سمندری تعلقات میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے- جوناگڑھ کا صنعتی شعبہ معدنیات پر مبنی سیمنٹ انڈسٹری، فش پروسیسنگ انڈسٹری، زرعی انڈسٹری اور پاور سیکٹر وغیرہ ہے- زرعی مصنوعات آم ، کیلا ، کپاس اور گندم وغیرہ ہیں-جوناگڑھ میں سات ہزار کے قریب چھوٹے پیمانے کی صنعتیں ہیں جن میں کھانے کی مصنوعات،  کیمیکلز، برقی آلات اور ٹیکسٹائل شامل ہیں- جونا گڑھ ریاست میں ایک ہوائی اڈا اور دو بندرگاہیں ہیں- ویراول بندرگاہ اچھی سڑک اور ریل رابطہ سے جڑی ہے- جونا گڑھ ’’گیر کا جنگل‘‘ کیلئے مشہور ہے جوایشیائی شیروں کا واحد ٹھکانہ ہے اور پہاڑی سلسلہ گرنار زیارت کا ایک بڑا مقام ہے- جونا گڑھ ریاست میں تعلیمی ، تحقیقی اور صحت کے مراکز بھی ہیں- جونا گڑھ انفراسٹرکچر اور سیاحتی نقطہ نظر سے بھی اہم ہے یہاں دو دریا سونراخ اور کالوو ہیں اور اس میں کئی جھیلیں اور دو ڈیم بھی ہیں- یہ علاقہ بنیادی طور پر پہاڑی ہے جو زمین، آب و ہوا، ہائیڈروگرافک نیٹ ورک، مٹی اور نباتات و حیوانات کے لحاظ سے مختلف انواع پہ مشتمل ہے-

صدارتی کلمات

ڈاکٹر سیف الرحمٰن ملک

 ڈائریکٹر انڈیا اسٹڈی سینٹر، انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد

یہ پہلی کانفرنس نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی جوناگڑھ کے  مسئلے پہ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام تقریبات کا تسلسل ہے- 1948ء میں جوناگڑھ کا مسئلہ اقوام متحدہ میں گیا تھا لیکن بدقسمتی سے کچھ وجوہات کی بناء پر اس مسئلے اتنا کام نہ ہو سکا لیکن آج نواب آف جوناگڑھ نواب محمد جہانگیر خانجی اور دیوان صاحب آف جونا گڑھ سلطان احمد علی صاحب کی کاوشوں کی وجہ سے آج اس مسئلے کو ساری دنیا جان رہی ہے اور آج کی اس کانفرنس کی اصل کامیابی بھی یہی ہے کہ اس کانفرنس میں تحقیقی مقالہ جات و مضامین پیش کیے گئے ہیں اور یہ تعلیمی مواد دنیا بھر میں مسئلہ جوناگڑھ کو اجاگر کرے گا- بھارت پر دباؤ ڈالنے کا یہی مناسب وقت ہے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے اپنی جارحانہ پالیسیوں کے ذریعے سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے- مجھے یقین ہے کے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور جوناگڑھ پاکستان کا ایک باقاعدہ حصہ ہو گا-

اختتامی سیشن

اختتامی سیشن میں صاحبزادہ محمد محبوب سلطان (وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور) مہمان خصوصی تھے- ڈاکٹر فخر بلال (قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد) نے سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے-

معززمہمان

 ائیر وائس مارشل (ر) جناب فیض عامر

سابق وائس چانسلر، ائیر یونیورسٹی اسلام آباد

پاکستان کیلئے یہ مناسب وقت ہے کہ ہم ہر فورم پر جوناگڑھ کے اپنے قانونی حق کو زندہ رکھیں اور اپنی آواز بلند کریں-مسئلہ کشمیر کی بے پناہ اہمیت کی وجہ سے جوناگڑھ کا مسئلہ ماند پڑ گیا تھا- مزید برآں تقسیم کے دوران وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کو غیر محفوظ سرحد اور مہاجرین کی آمد کے ساتھ مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہندوستان کو محفوظ سرحد وراثت میں ملی- تقسیم کے دوران بھارتی رویہ انتہائی منفی تھا جس نے ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات کو متاثر کیا- جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل نے ریاستوں کے الحاق کے حوالے سے انتہائی جارحانہ کردار ادا کیا اور سردار پٹیل نے جوناگڑھ پر حملے کا حکم دیا- جس دن سے ہندوستان وجود میں آیا ہے اپنے تمام پڑوسیوں کے خلاف جارحانہ پالیسیاں دکھا رہا ہے کچھ ہندوستانی غیر جانبدار مصنفین نے بھی بھارت کی جارحانہ پالیسیوں پر لکھا جیسے شری ناتھ رہاسیا اور اے جی نورانی وغیرہ- کئی ریاستیں آزاد رہنا چاہتی تھیں یا پاکستان میں شامل ہونا چاہتی تھیں لیکن مذکورہ لوگوں نے طاقت کے زور پہ بھارت میں شامل ہونے پر مجبور کیا- ان ریاستوں نے دباؤ کے تحت بھارت کے ساتھ الحاق کیا- بھارت نے معاشی ناکہ بندی کی ریاست میں فسادات کو ہوا دی اور آخر کار طاقت کے استعمال سے ریاست جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا- ہم نے افغانستان، عراق اور آذربائیجان سے سیکھا ہے کہ قبضہ ایک پائیدار پالیسی نہیں ہے-

معززمہمان

جناب اعزاز احمد چوہدری

ڈائریکٹر جنرل، انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد-  سابق سیکریٹری خارجہ ،پاکستان

نواب آف جوناگڑھ اور دیوان آف جوناگڑھ نے پاکستان کے بھولے ہوئے ایجنڈے میں سے ایک اہم مسئلے کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے پہل کی اور بروقت اور احسن انداز میں اس مسئلے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں- اس کانفرنس میں جو تحقیقی مقالے پیش کیے گئے وہ اس مسئلے کے سیاسی، قانونی، سفارتی اور تعلیمی جہتوں کا احاطہ کرتے ہیں- سفارتی طور پر یہ مسئلہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں اٹھایا لیکن بدقسمتی سے یہ مسئلہ چند سالوں سے اپنی شناخت کھو بیٹھا اور اب یہ پاکستان کے ایجنڈے پر واپس آگیا ہے- یو این سیکورٹی کونسل میں انڈیا پاکستان کے حل طلب مسائل کے ایجنڈے کے تحت ہم اپنے مسائل جیسے کشمیر  اور جونا گڑھ وغیرہ پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں- اس کانفرنس کے نتائج یہ ہونگے کہ جونا گڑھ تحریک کیلئے قابل عمل اقدام پیدا ہونگے-

اقلیتیں اور تمام پڑوسی ممالک بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کا شکار ہیں- اس کی موجودہ مثال اگست 2019ء ہے جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی- حال ہی میں حکومت پاکستان کے تین وزراء نے ایک رپورٹ کی کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کر رہا ہے-

معزز مہمان

جناب علی محمد خان

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور

جونا گڑھ اور کشمیر کے مسائل اپنی نوعیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں- جوناگڑھ نے پاکستان کے ساتھ قوانین اور قواعد و ضوابط کے مطابق الحاق کیا- پاکستان کے پاس قائداعظم محمد علی جناح اور نواب مہابت خانجی کےدستخط شدہ الحاقی دستاویز موجود ہے جبکہ بھارت کشمیر کے معاملے میں الحاقی دستاویز پیش کرنے میں ناکام رہا ہے- معاہدے کے تحت دفاع ، خارجہ امور اور مواصلات پاکستان کو دیئے گئے جبکہ نواب کو خود مختار حکمران کی حیثیت حاصل ہے-

 15 ستمبر سے 9 نومبر 1947ء تک پاکستان کا جھنڈا جونا گڑھ پر لہراتا رہا، ہم ایک دن پھر جوناگڑھ پر پاکستان کا یہ جھنڈا لہرائیں گے- انسانی تاریخ میں کبھی بھی آزادی آسانی سے حاصل نہیں ہوئی ہمیں اس کے لیے بہت عملی جدوجہد کی ضرورت ہے- جوناگڑھ کے پاکستان سے الحاق سے پہلے یا بعد میں تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے کہ لوگ فیصلے سے ناخوش ہوں- یہ ہندوستان تھا جس نے جوناگڑھ میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کیا- جونا گڑھ ہمارا قومی مقصد ہے اور ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے قانونی حق کیلیے آواز اٹھائیں- قومی مسائل پر ہمیں ایک قوم کے طور پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے-

معزز مہمان

 جناب سید فخر امام

وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ

ریاست جوناگڑھ پاکستان کا ایک اہم جزو ہے- ہاؤس آف کامن نے 1947ء میں فیصلہ کیا کہ شاہی ریاستوں کے حکمران اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے- نواب آف جونا گڑھ بہترین حکمت عملی اور قائدانہ سوچ رکھتے تھے اور یہ ان کا فیصلہ اجتماعی سوچ پر مبنی تھا کہ انہوں نے پاکستان کی خودمختار ریاست کا انتخاب کیا- اس وقت پاکستان کو مختلف چیلنجز اور مسائل کا سامنا تھا- آج تک کسی نے بھارت کے ساتھ کشمیر کی الحاق کی دستاویز نہیں دیکھیں- لیکن پاکستان کے پاس جوناگڑھ کی الحاق کی دستاویز موجود ہے جس پر نواب مہابت خانجی اور قائداعظم محمد علی جناح کے دستخط ہیں- پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو یہ دستاویز پیش کی ہیں- بھارت پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے- میں دنیا کے سب سے بڑے میدان (اقوام متحدہ) میں جوناگڑھ کے نام کی گونج سننے کا منتظر ہوں-

مہمان خصوصی

جناب صاحبزادہ محمد محبوب سلطان

وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور

ہماری حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں جوناگڑھ کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں جوناگڑھ کو پاکستان کا حصہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے- 15 ستمبر 2020ء کو شنگھائی تعاون تنظیم کی ویڈیو کانفرنسں میں پاکستان نے اس خاص نقشے کو بیک گراونڈ کے طور پر استعمال کیا - بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال نے اس نقشہ پر اعتراض کیا اور اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا- لیکن شنگھائی تعاون تنظیم نے بھارت کے اعتراض کو مسترد کردیا اور پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کیا- یہ اس نقشے کی بین الاقوامی پہچان تھی جس میں جونا گڑھ پاکستان کا حصہ تھا- میں ایک بار پھر نواب صاحب کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم بحیثیت حکومت آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اورہم پاکستان کا یہ کیس مل کر لڑیں گے-

کانفرنس کی قرارداد

صاحبزادہ سلطان احمد علی

دیوان ریاست جوناگڑھ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ

نواب آف جوناگڑھ نواب محمد جہانگیر خانجی کی اجازت سے اور کانفرنس کے تمام شرکاء کی جانب سے میں آج کی کانفرنس کی قرارداد پیش کرنا چاہتا ہوں-

14 اگست 2021ء کو منظور کی جانے والی قرار دادِ جونا گڑھ اور نواب آف جوناگڑھ کے پالیسی بیانات کی یاد دہانی کرواتے ہوئے ریاست جونا گڑھ کی آزادی، اس کی خود مختاری، سیاسی آزادی اور جغرافیائی حفاظت کیلئے کمربستہ ہو کر جوناگڑھ کی آزادی کیلئے اپنی پُر امن جدوجہد جاری رکھنے اور کبھی بھی اپنے قانونی حق سے پیچھے نہ ہٹنے کا اعادہ کرتے ہوئے:

  1. حکومت ِ پاکستان پہ زور دیتے ہیں کہ 1972ء کے صدارتی آرڈینینس میں ترمیم کی جائے کہ اس کی شق نمبر 15 جونا گڑھ کی دَستاویزِ الحاق کے آرٹیکل 9 سے براہِ راست متصادم ہے- جبکہ الحاقی دستاویز جوناگڑھ کے خودمختار حکمران نواب مہابت خانجی اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی جانب سے دستخط کی گئی تھی-
  2. حکومتِ پاکستان کو تجویز کرتے ہیں کہ ہر سال 15 ستمبر کو یومِ الحاقِ جونا گڑھ اور 9 نومبر کو جوناگڑھ کے بطور یومِ سیاہ منایا جائے اور اس روز مسئلہ جونا گڑھ پہ نیشنل اور انٹرنیشنل کانفرنسز منعقد کی جائیں جبکہ صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم پاکستان اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ کی جانب سے جوناگڑھ سے متعلق پالیسی بیانات جاری کئے جائیں-
  3. حکومتِ پاکستان کی توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلوایا جائے جس میں ریاست جوناگڑھ پہ پاکستان کی ملکیت کے دعویٰ کا اعادہ کیا جائے اور مسئلہ جونا گڑھ پہ مشترکہ قراردار منظور کی جائے-
  4. حکومتِ پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ کشمیر سیکرٹریٹ کی طرح جوناگڑھ سیکرٹریٹ قائم کیا جائے جو وسیع تناظر میں مسئلہ جونا گڑھ کو اجاگر کرنے میں مددگار ہو گا-
  5. حکومتِ پاکستان  کی تجویز کرتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں جوناگڑھ ہاؤس قائم کیا جائے جو پاکستان کے جوناگڑھ پہ دعویٰ کی نشانی ہو گی-
  6. حکومتِ پاکستان کو تجویز کرتے ہیں کہ کثیرالوزارتی کمیٹی (Inter-Ministerial Committee) تشکیل دی جائے جس میں وزارتِ قانون، وزارتِ خارجہ، وزارتِ سرحدی و ریاستی امور، وزارتِ دفاع، کیبنٹ ڈویژن وغیرہ سے ممبران کو شامل کیا جائے تاکہ مسئلہ جوناگڑھ پہ قومی بیانیہ اور سٹریٹجی تشکیل دی جائے-
  7. پاکستان کے دفترِ خارجہ پہ زور دیتےہیں کہ وہ اس مسئلہ پہ آواز بلند کرے اور تسلسل سے اس مسئلہ کے قانونی پہلوؤں پہ بیانات جاری کرے- اسی مقصد کیلئے دفترِ خارجہ میں جونا گڑھ ڈیسک قائم ہونا چاہئے جو قانونی دعویٰ پہ کام کرنے کیلئے مختص ہو-
  8. حکومتِ پاکستان پہ زور دیتے ہیں کہ ریاست جوناگڑھ پہ نیشنل گزٹ شائع کیا جائے-
  9. حکومتِ پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ جوناگڑھ پہ قلیل مدتی اور طویل مدتی قومی پالیسی مرتب کرے- اسی طرح حکومت کے اعلیٰ سطحی دوروں کے دوران مسئلہ جوناگڑھ کو اجاگر کیا جائے تاکہ عالمی سطح پہ اس مسئلہ پہ سپورٹ حاصل کرنے کیلئے لابنگ کی جا سکے-
  10. حکومتِ پاکستان کو تجویز کرتے ہیں کہ ریاست جونا گڑھ اور مسئلہ جوناگڑھ سے متعلق موضوعات کو قومی تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے-

11.  ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تجویز کرتے ہیں کہ ملک کی اولین پانچ جامعات میں جوناگڑھ چئیر کا قیام عمل میں لایا جائے-

  1. حکومتِ پاکستان کو تجویز کرتے ہیں کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو مسئلہ جوناگڑھ کو اتنی کوریج دینی چاہئے جتنی کا یہ حقدار ہے-

اظہارِ تشکر

 عزت مآب نواب جہانگیر خا نجی

نواب آف جوناگڑھ

مَیں یہاں تمام حاضرین، شرکاء، معزز مہمانوں اور معزز مقررین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے آج کی اس نیشنل کانفرنس آف جوناگڑھ کے لئے کاوشیں کیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامیاب ہوئی- جب بہت سارے دانشوروں اور اسکالرز نے کہا کہ جونا گڑھ پاکستان ہے اور پاکستان کی یہ اخلاقی اور قانونی آواز بلند کی تو وزیر اعظم مودی کو اس کانفرنس سے سیکھنا چاہیے- اگلا دن وہ دن ہے (15 ستمبر) جب پاکستان کی آزاد خودمختار سلطنت اور جوناگڑھ کی خودمختار سلطنت کے مابین الحاق کے دستاویز پر دستخط ہوئے اور جونا گڑھ پاکستان کا قانونی حصہ بنا-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر