قائداعظم محمد علی جناح اور انڈین نیشنل کانگریس

قائداعظم محمد علی جناح اور انڈین نیشنل کانگریس

قائداعظم محمد علی جناح اور انڈین نیشنل کانگریس

مصنف: ڈاکٹر مجیب احمد اگست 2021

انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت سی سیاسی و علمی تحاریک سامنے آئیں-انگلستان جو اس وقت کا علمی مرکز تھا، اس کی لبرل تحریک نے قریباً تمام دنیا ،خاص کر اپنی نوآبادیاتی اشرافیہ کو متاثر کیا- برٹش انڈیا بھی ان خیالات سے بہت متاثر ہوا بالخصوص جب لوگ مغرب سے تعلیم حاصل کرکے واپس اپنے وطن آنا شروع ہوئے-

انڈین نیشنل کانگریس لبرل تصورات سے جنم لینے والے سیاسی شعور کامظہر تھی- ایک ریٹائرڈ برطانوی افسر اے -او- ہیوم نے دسمبر 1885ءمیں اس کی بنیاد رکھی- اس کی قومی وضع، لبرل تصورات اور ہندوستان کے لیے کام کرنے کے عزم کی وجہ سے مختلف گروہوں کےقریباً تمام ممتاز قائدین اس میں شامل ہو گئے-

مغربی تعلیم یافتہ اور لبرل تصورات کے حامل قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی انڈین نیشنل کانگریس کی شمولیت کو معقول سمجھا- قائد اعظم انڈین نیشنل کانگریس کے معتمدین بدرالدین طیب جی ، دادابھائی نارو جی ، سر فیروز شاہ مہتا اور گوپال کرشنا گوکھلے کے بہت قریب تھے- یہ ان ہی قائدین کا اثر تھا کہ قائد اعظم نے 1906ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے کلکتہ میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی-جس سے ان کا انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ 14سالہ تعلق شروع ہوا-

ہندی مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس پرکچھ تحفظات تھے، چنانچہ اُن میں سے بہت کم اِس میں شامل ہوئے- تقسیمِ بنگال (1905ء-1911ء) ، پر انڈین نیشنل کانگریس کے سخت، موضوعی اور مسلم مخالف رویہ نے اسے انڈین نیشنل کانگریس کی بجائے ایک ہندو پارٹی کے طور پر پیش کیا- مسلم اشرافیہ اپنی ہندوستانی سیاست کے مستقبل کے حوالے سے کافی زیادہ الجھاؤکا شکار تھی- انہوں نے دسمبر 1906ء میں ڈھاکہ کے مقام پر ایک مشاورتی اجلاس میں مسلمانوں کے مفادات کی خدمت سر انجام دینے کے لئے اپنے سیاسی پلیٹ فارم، آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی-

قائد اعظم مسلم لیگ کے قیام کے فوراً بعد ہی اس میں شامل نہ ہوئے- قائد اعظم انڈین نیشنل کانگریس کو ایک بڑی پارٹی کے طور پر لیتےتھے جس میں برٹش انڈیا کی تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی- لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کےلئے نہ صرف انڈین نیشنل کانگریس بلکہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑنا بھی بہت مشکل تھا اس لئے انہوں نے 1913ء میں مسلم لیگ میں بھی باقاعدہ شمولیت اختیار کی- تاہم یہ شمولیت غیر مشروط نہ تھی- قائداعظم نے مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیر حسن سے یہ گارنٹی لی کہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے سے ان کی وسیع تر ہندوستانی قوم پرستانہ سیاست پر ضرب نہیں پڑے گی -

جب انڈین نیشنل کانگریس کے افکار ونظریات پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شخصیت اور سیاسی خیالات کی چھاپ پڑنے لگی تو قائد اعظم نے کانگریس کی رکنیت سے 1920ء میں استعفیٰ دے دیا-

دسمبر 1906ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کوآئینی طریقےسےخود مختار حکومت کے راستے پر گامزن کرنے کا اعلان کیا- قائد اعظم نے کانگریس کی افتتاحی تقریب میں اے چودھری کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرارداد پر تنقید کی اور اس میں تبدیلی کی تجویز دی- قائد اعظم نے مسلمانوں پر” پسماندہ تعلیمی طبقہ“ کے تاثر کی بجائے مسلم قوم سے ہندو قوم کی طرح مساوی سلوک کیے جانے کو کہا-

چونکہ قائد اعظم اپنے آپ کو ہندوستانی قومی سیاست میں متعارف کروانا چاہتے تھےاس لئے انہوں نے ہندوستانیوں کی فلاح کے تمام تر اقدامات کی حمایت کی-گاندھی ایک ہندوستانی وکیل تھے جوجنوبی افریقہ میں رہنے والے ہندوستانیوں کی فلاح کےلئے کام کرتے تھے- چنانچہ جب 1909ء میں قائد اعظم امپیرئیل لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئےتو انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں گاندھی کی جنوبی افریقہ میں سرگرمیوں کی حمایت کی-

ایک ہندوستانی قوم پرست کے طور پر قائد اعظم نےمسلمانوں کے لئے علیحدہ رائے دہی کے مطالبےکو مسترد کیا-حتیٰ کہ انہوں نے بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں بھی ایسا کرنے کی مخالفت کی- انہوں نے یہ قدم کانگریسی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا-

انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاسوں میں قائد اعظم کو جلد ہی اہم حیثیت حاصل ہوگئی اور 1913ءمیں پارٹی کی جانب سے ایک سیاسی مشن لے کر برطانیہ گئے-

جب قائد اعظم اکتوبر 1913ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی دوہری رکنیت کی بنا پر ہندو مسلم اتحاد کے لئے زیادہ مؤثر طریقے سے کام کر سکتے ہیں- ان کو یقین تھا کہ وہ مسلمانوں کے لئے کانگریس میں رہ کر مسلم لیگ سےزیادہ کام کر سکتے ہیں-

مسلم لیگ اپنے سیاسی لائحہ کار میں تبدیلی (مارچ 1913ء) کی وجہ سے کانگریس کے مقاصد سے زیادہ قریب ہو گئی جو کہ ”ہندوستان میں موزوں خود مختار حکومت کےحصول“سے متعلق تھا-قائد اعظم دونوں پارٹیوں میں اتحاد کی فضا قائم کرنے میں اس طرح کامیاب ہو گئے کہ مسلم لیگ اور کانگریس کے قائدین ، 1915ء سے 1921ء تک سالانہ اجلاسوں میں ایک ہی وقت اور ایک ہی جگہ پر اکٹھے ہوئے- اگرچہ قائد اعظم 1916 ء میں طے پانے والے معاہدہ لکھنؤ میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کے مطالبے کے خلاف تھے ، تاہم ان کو کانگریس کی قیادت کی جانب سے اِسے تسلیم کرنے پر راغب کیا گیا-اس معاہدہ سے خود مختار حکومت کا متفقہ مطالبہ بھی سامنے آیا-

اپریل 1919ء فائرنگ کے واقعےکے نتیجے میں ہندوستانی سیاست میں گاندھی کے نظریات کی چھاپ کا آغاز ہوا جو کہ قائد اعظم اور دوسرے معتدل پسند کانگریسی قائدین کو نامنظور تھا- ناگ پور (1920ء) کے خصوصی اجلاس کے موقع پرکانگریس نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا جس سے غیر آئینی طریقے اختیارکرنے کا جواز ملا اورخود مختار حکمرانی کےلئے عدم جارحیت اور عدم تعاون اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا -

اس کے برعکس قائداعظم کو یقین تھا کہ ہندوستان کی نجات، ہندوستانیوں کےحقیقی اتحاد میں ہے اور ان کی ترقی کا سفر آئینی اور تعمیری طریقوں پر ہی منحصرہے -انڈین نیشنل کانگریس کی سیاست کا یہ نیا فلسفہ قائد اعظم اور دیگر شخصیات مثلاً سی- آر داس اور لالالجپت رائے کو قابلِ قبول نہ تھا- اس لئے قائد اعظم نے نہ صرف اس اجلاس سے بلکہ انڈین نیشنل کانگریس سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی - در حقیقت قائد اعظم نے محسوس کیا کہ گاندھی ہندوستان کو نامعلوم مقام کی جانب دھکیل رہے ہیں جہاں ہر ایک شے تباہی کی جانب جائے گی- انہوں سے محسوس کیا کہ گاندھی کی تقلید انڈین نیشنل کانگریس کے لئے خودکشی ہے-اس لئے دادابھائی نورو جی اور گوپال کرشنا گوکھلے کی اصلی انڈین نیشنل کانگریس کےقدیم سپاہی، محمد علی جناح نے ’’گاندھی زدہ‘‘ کانگریس چھوڑ دی-

قائد اعظم نے جوکانگرس چھوڑی اس کی تنظیم اس مقصد سے بالکل مختلف تھی جس کے لیے انہوں نے ایک پرجوش جانثار کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں-1910ء کے عشرہ میں قائد اعظم انڈین نیشنل کانگریس کی مشہور و معروف شخصیت تھے- 1908ء سے 1920ء تک وہ باقاعدگی سے انڈین نیشنل کانگریس کمیٹی کے رکن منتخب ہوتے رہے- 1918ء میں وہ خصوصی ممبئی کانگریس کی ریسیپشن کمیٹی کے وائس چیئر مین منتخب ہوئے- کانگریس کے مختلف اجلاسوں میں انہوں نے کئی اہم قرادادیں پیش کیں یا ان کی تائید کی اور کانگریس کو کئی سال تک باقاعدگی سے ماہانہ ایک ہزار روپے کا فنڈ دیتے رہے- برٹش انڈیا کی سیاست میں قائد اعظم کو اتنا اہم سمجھا جاتا تھا کہ1917ء میں ایک ہندو خاتون نے ان کی مختلف تقاریراور تحریروں کو اکٹھا کر کےشائع کیا-قائداعظم کے اعزاز میں ممبئی کے لوگوں نے ایک ماہ میں65ہزار روپے جمع کر کے کانگریس ہاؤس کے احاطے میں جناح پیپلز ہال تعمیر کروایا-

قائد اعظم کے نزدیک ” گاندھی وہ واحد شخص ہے جو کانگریس کو ہندومت کی تجدید کے آلہ کار میں بدلنے کا ذمہ دار ہے“- اس لیے ایسی کانگرس قائداعظم کے لیے قابل قبول نہ تھی اور 1929ء کی نہرو رپورٹ کے بعد قائداعظم نے اپنی سیاست کا رخ مسلم قوم پرستی کی طرف کر دیا اور آنے والے سالوں میں برٹش انڈیا کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے واحد راہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور اپنی سیاسی بصیرت اور مسلمانوں کی حمایت اور جدوجہد سے اگست 1947ء میں قیام پاکستان کو ممکن بنا دیا-

٭٭٭

(بحوالہ روزنامہ دی مسلم ، 8 ستمبر1995ء ،ترجمہ:اسامہ بن اشرف )

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر