اردو میں قرآنی محاورات

اردو  میں قرآنی محاورات

اردو میں قرآنی محاورات

مصنف: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ اپریل 2021

قران نے صرف عربی زبان ہی کو نہیں بلکہ دنیا کی متعدد زبانوں کو متاثر کیا ہے-انہیں نئے تصوّرات بھی دیئے ہیں اور نئے الفاظ اور تراکیب بھی، نئی بندشیں اور محاورے بھی دیئے ہیں اور نئی تشبیہات اور استعمارے بھی، حقیقت یہ ہے کہ دنیائے ادب پر قرآن کے احسانات اتنے ہیں کہ ان کا احاطہ ناممکن ہے-محترم ڈاکٹر غلام مصطفےٰ صاحب نے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں اردو اور فارسی میں استعمال ہونے والے ایسے ستانوے محاورات پیش کئے ہیں جو قرآن کے زیر ِ اثر اردو اور فارسی میں مستعمل ہوئے ہیں- ہم موصوف کے اس قیمتی مضمون کی تلخیص پیش کر رہے ہیں-(ایڈیٹر)

1-’’اِہْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ‘‘[1]            ’’ ہم کو سیدھا راستہ چلا‘‘

دنیا کی اکثر زبانوں میں یہ استعمارہ آتا ہے جس سے بھلائی اور خیر مراد ہے- راہِ راست (فارسی Right Path ، فرانسیسیRestewag Bon Cheminc) وغیرہ سب ایک ہی مفہوم اور معنی رکھتےہیں-

2-خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَ عَلٰی سَمْعِہِمْط وَ عَلٰی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ [2]

’’مہر کر دی اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر اور ان کے دلوں پر پردہ ہے‘‘-

اردو میں ’’دلوں پر مہر‘‘ آتا ہے- محمد حسین آزاد نے مان سنگھ کے متعلق لکھا ہے کہ :

’’تو آپ کے سفر میں ایک مقام پر شاہ دولت کے اوصاف و کمالات سنے، خدمت میں حاضر ہوا وہ اس کی پاکیزہ اور سنجیدہ گفتگو سے بہت خوش ہوا اور کہا کے مان سنگھ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے، اس نے مسکرا کر کہا: خدا کی  مُہر ہے- بندہ کیوں کر اٹھا لے کہ گستاخی ہے‘‘- (دربار اکبری)

’’مُہر لگ جانا‘‘ بھی آتا ہے- حالی کہتے ہیں:

کروں تجھ سے بیاں کچھ دردِ غربت
مگر جوشِ سخن مُہرِ دین ہے

’’مُہر برلب‘‘بھی آتا ہے- شبلی کہتے ہیں :

گرچہ وہ حدِّ مناسب سے بڑھا جاتا تھا
سب کے سب مُہر بہ لب تھے چہ اناث و چہ ذکور[3]

3-’’آنکھوں پر پردہ‘‘ بھی آتا ہے-

کیوں ادھر چشمِ عنایت سے نہیں پڑتی نظر
پردے کیا آنکھوں پہ رنجِ بے سبب میں پڑ گئے[4]

4-’’ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ‘‘[5]

’’بہرے ہیں گونگے ہیں، اندھے ہیں،سو وہ نہیں لوٹیں گے‘‘-

اردو میں ’’صُمٌّ بُكْمٌ‘‘ ہی محاورہ بن گیا ہے- یعنی خاموش اور دم بخود ہو جانا- محمد حسین آزاد نے ذوق کے ایک قصیدے کے متعلق (پیری میں پر ضرور ہے جامِ شرابِ تاب) لکھا ہے کہ :

’’صبح کو دربار میں حاضر ہوئے- وقتِ معین پر ایماء ہوا کہ استاد اپنا قصیدہ عرض کریں- انہوں نے پڑھنا شروع کیا مگر کیا دیکھتے ہیں کہ تمام دربار دم بخود، کئی شعر پڑگئے سب ’’صُمٌّ بُكْمٌ

5-يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ‘‘[6]

’’موت کے ڈر سے مارے کڑک کے انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسے لیتے ہیں‘‘-

 خوف سے کانوں میں انگلیاں دینا اردو میں مستعمل ہے- امیر لکھنوی کا شعر ہے :

ڈر گئے مرے نالوں سے موذن ہے
انگلیاں کانوں میں ہنگامِ اذاں رکھتے ہیں

6-’’صِبْغَۃَ اللہِ‘‘[7]              ’’رنگ دیا تم کو اللہ نے‘‘-

صبغۃ مصدر ہے بمعنی رنگ دینا، رنگ چڑھادینا، حالت بدل دینا وغیرہ- اردو میں مستعمل ہے بیان میرٹھی کا شعر ہے:

گو اخوت صبغۃ الٰہی سے تھی رنگی ہوئی
پر ہوائے جاہ و ثروت نے اڑا دی یک قلم

7-’’اُولٰٓئِكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِىْ بُطُوْنِـهِـمْ اِلَّا النَّارَ‘‘ [8]

’’یہ لوگ نہیں کھاتے ہیں اپنے پیٹوں میں مگر آگ- آگ کھانا‘‘-

’’حرام مال پیٹ میں ڈالنا‘‘کے مترادف ہے- حرام مال کیونکہ آخرت میں نارِ دوزخ کا سبب بنے گا- اس لیے اس کو دنیا میں بھی آگ سے تشبیہ دی ہے- اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے - آگ کھائیں اور انگارے - مشہور محاورہ ہے - اس سے مراد حرام کھانا ہی ہے - آگ پھانکنا بھی آتا ہے- ذوق کا شعر ہے کہ :

 یہ رند کہ اے زہد فروخت آگ نہ پھانک
مانگے گر باوۂ نو، زہدِ کہن کی قیمت

8-’’وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْـرَ الزَّادِ التَّقْوٰى‘‘ [9]

’’اور زادِ راہ لو- البتہ بہترین زادِ راہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے‘‘-

 یعنی آخرت کے سفر کیلیے توشہ- اردو میں بھی پاکبازی اور پرہیزگاری کیلئے توشۂ آخرت بولتے ہیں- ظفر کا شعر ہے :

گر فکر میں ہو راہ کے توشہ کا کرو فکر
اے غافلو نزدیک ہے روزِ سفر آیا

رند کے دو شعر ہیں:

چاہیے فکر زادِ راہ ضرور
رند اک دن سفر مقرر ہے
توشۂ آخرت کی فکر رہے
جی سے جانے کا ہے سفر نزدیک

9- ’’وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ‘‘[10]

’’اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر مارے غصے کے انگلیوں کی پوریں کاٹتے ہیں‘‘-

 انامل، انملہ کی جمع ہے یعنی انگلی کی پور-اردو میں اس محاورے کے سلسلے میں تھوڑا سا فرق ہے- غصے میں بوٹیاں کاٹنا اور اپنا جسم دانتوں سے کاٹ کھانا مستعمل ہے- انگلیاں کاٹنا (تاسف کے ساتھ) حیرت زدہ ہونے کی جگہ بولا جاتا ہے-

آتش کہتے ہیں :

منہ آئینہ میں جو دیکھے وہ غیرتِ یوسف
اِدھر یہ اور اُدھر عکس انگلیاں کاٹے

ناسخ کا شعر ہے:

یار کی شیریں ادائی کا جہاں میں شور ہے
پور جو انگلی کی ہے وہ نیشکر کا پور ہے

نسیم لکھنوی لکھتے ہیں :

ایک عمر سے وظیفہ ہے صاحب کے نام کا
ناخن کے خط ہیں انگلیوں کی پور پور پر

10-’’وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً‘‘[11]

اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف (پردے) ڈال دیئے-( پارہ 15/5میں بھی ہے ) اردو میں دلوں پر پردہ آتا ہے-

خلیل(شاگرد آتش) کا شعر ہے:

نہ سمجھا میں، کیا تجھ سے بتِ عیار سے خلطہ
خدا ہی جانے کیا غفلت کا پردہ پڑ گیا دل پر

’’عقلوں پر پردے‘‘ بھی مستعمل ہے- اکبر الٰہ آبادی کا مشہور قطعہ ہے:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
میں نے کہا کہ آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

11-’’فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ ‘‘[12]          ’’پس چھوڑ دو ان کا راستہ‘‘-

اردو میں بھی راستہ دیدینا، راستہ چھوڑنا، سروکار نہ رکھنا وغیرہ مستعمل ہے- جرأت کا شعر ہے :

اب جو ملنا نہیں قسمت میں وہاں جانے کو
استخارہ بھی ہمیں راہ نہیں دیتا ہے

12-’’وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْ‘‘[13]

’’اور بند رکھیں اپنی مٹھی (خرچ کرنے کے اصلی موقعوں پر)‘‘

اردو میں جوڑ جوڑ کر رکھنے کے معنی میں آتا ہے -

ظفر کے دو شعر ہیں :

غنچے کے مٹھی میں زر ہے، پر نہیں دستِ کرم
 تنگئ دل اور ہے اور تنگ دستی اور ہے
برنگِ غنچۂ باغِ دہر میں کیا فکرِ زر کیجئے
بند مٹھی ہے اپنی اور جانا ہاتھ خالی ہے

13-وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا‘‘[14]

’’اور ان کی آنکھوں سے بہتے تھے آنسو اس غم میں کہ نہیں پاتے وہ چیز جو خرچ کریں‘‘-

 تفیض امنڈ کر نکلنا، پھوٹ بہنا مقصود ہے-غم سے آنکھوں کا پھوٹ بہنا اردو میں آتا ہے - درد کہتے ہیں:

معلوم نہیں آنکھیں یہ کیوں پھوٹ بہی ہیں
چھاتی کے تئیں دل کو میرے کوٹ بہی ہیں

آتش کا شعر ہے :

پھوٹ بہنے دو انہیں یار کے آگے آتش
دل کا احوال بھی آنکھوں کو بیاں کرنے دو

14-’’وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ ‘‘[15]

’’اور غم سے ان کی (یعقوب کی) آنکھیں سفید ہو گئیں‘‘-

اردو میں انتہائی گریہ سے آنکھیں سفید ہو جانا آتا ہے-

امیر لکھنوی کا شعر ہے:

ہے یہی گریہ تو پھر کیسی بصارت اے امیر
ایک دن کر دیں گے آنکھوں کو مری آنسو سفید

15-الَّذِیْنَ كَانَتْ اَعْیُنُهُمْ فِیْ غِطَآءٍ عَنْ ذِكْرِیْ‘‘[16]

’’(کافر) جن کی آنکھوں پر پردہ پڑا تھا، میری یاد سے ‘‘-

ظفر کا شعر ہے :

اگر غفلت کا پردہ ہم اٹھاتے اپنی آنکھوں سے
تو جو واں دیکھتے یاں دیکھ جاتے اپنی آنکھوں سے

16- تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّالْجِبَالُ هَدًّا‘‘[17]

’’اللہ پاک کی شان میں کس قدر گستاخی ہے کہ لوگ اس کی شان میں اولاد کی احتیاج کرنے لگے- بعید نہیں کے اس گستاخی پر  ابھی آسمان پھٹ پڑیں، اس بات سے اور ٹکڑے ہو زمین اور گر پڑیں پہاڑ دھے کر ‘‘-

اردو میں بھی یہ دعا کے طور پر کہتے ہیں کہ خدا کا غضب نازل ہو ، آسمان ٹوٹ پڑے ، آسمان پھٹ پڑے وغیرہ -

امیر کا شعر ہے :

گور برساتی نے توڑا آکے جب مینائے مے
ہم یہ سمجھے آسماں ٹوٹا ہماری خاک پر

رند کہتے ہیں:

اجاڑا موسمِ گل ہی میں آشیاں میرا
الٰہی ٹوٹ پڑے تجھ پر آسماں صیاّد

17-فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ‘‘[18]

’’نرم ہو جائیں اس کے آگے ان کے دل ‘‘-

اردو میں بھی دل نرم ہونا، دل کا پگھلنا آتا ہے-جس کے معنی ہیں دل میں اثر ہونا -

ناسخ کا شعر ہے :

کیونکر میرے رونے سے دل نرم ہو اس بت کا
پتھر پہ کبھی پانی تاثیر نہیں کرتا

٭٭٭

(بشکریہ: ’’ سیارہ ڈائجسٹ ، قرآن نمبر ‘‘ اشاعت:جنوری1970ء)


[1](الفاتحہ:5)

[2](البقرہ :7)

[3](عدل فاروقی)

[4](ظفر)

[5]( البقرہ:18)

[6](البقرۃ:19)

[7](البقرۃ:183)

[8]((البقرۃ :174)

[9](البقرۃ :197)

[10](آل عمران:119)

[11](الانعام:25)

[12](التوبہ:5)

[13]( التوبہ :67)

[14](التوبہ :92)

[15](یوسف:84)

[16](الکہف:101)

[17](مریم:90)

[18](الحج :54)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر