اکبر کی شاعری میں قرآنی تلمیحات

اکبر کی شاعری میں قرآنی تلمیحات

اکبر کی شاعری میں قرآنی تلمیحات

مصنف: ڈاکٹر شاکرکنڈان اپریل 2021

شاعری میں تلمیحات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے نثر میں جس کہانی یا واقعہ کوبیان کرنے میں کئی صفحات درکار ہوتے ہیں شاعری میں ایک لفظ میں اس کی وضاحت بڑی خوبصورتی سے کی جا سکتی ہے-اردو زبان کی تشکیل چونکہ مختلف زبانوں کے اختلاط سے ہوئی ہے لہٰذا اردو شاعری میں اُن زبانوں کی اصطلاحات اور تلمیحات کے استعمال سے جہاں وسعت پیدا ہوتی ہے وہیں وہ الفاظ حسن و خوبی کا سبب بھی بنتے ہیں-

قرآنِ مجید فرقانِ حمید چونکہ عربی زبان میں ہے اور اردو زبان کی تشکیل میں عربی زبان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے -مولانا عبد السلام ندوی کے مطابق ’’اردو شاعری کا آغاز مذہبی حیثیت سے ہوا‘‘ اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ ابتدا سے ہی صوفیا اور علماء نے اردوو شاعری کو اپنی تبلیغ کا ذریعہ بنایا اور شاعری کو اختیار کر کے اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جس سے ہمارے ہاں اردو شاعری میں قرآنِ مجیدمیں سے بہت سے الفاظ در آئے- یہ الفاظ جب استعمال ہوتے ہیں تو انفرادی حیثیت سے بھی وسیع پس منظر کے حامل ہوتے ہیں -گویا یہ الفاظ تلمیحات کا روپ ڈھال کر قاری کو کسی بڑی داستان،تاریخ یا واقعے سے آگاہ کر دیتے ہیں -

سیّد اکبر حسین اکبر الہ آبادی ( نومبر 1846ء-ستمبر 1921ء) ماضی کے ایک معتبر اورعمدہ پائے کے شاعر ہوئے ہیں-اُن کے ہاں طنز اور اخلاقیات نے نئے نئے پہلؤوں کو اجاگر کرکے ایک ایسی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ پڑھنے والے سوچتے اور الفاظ کی باریکیوں پر غور کرتے رہتے ہیں -اکبر نے قرآنی الفاظ کے استعمال سے بہت سے دینی ،مذہبی ، فکری اور اخلاقی پہلؤوں کو اجاگر کیا ہے- ایک طرف تو اُن کے ہاں قرآنِ مجید میں سے وہ الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں جو ہماری روزمرہ کا حصہ ہیں، جیسے اللہ، واللہ، رب، الہٰ، محمدؐ، موسیٰ، طور، عیسیٰ، دین، اسلام، قرآن، حشر، ماشااللہ، شیطان وغیرہ وغیرہ -تو دوسری طرف انہوں نے قرآن مجید میں سے ایسے الفاظ کو بھی اپنی شاعری کی زینت بنایا ہے جو قرآنِ مجید کی آیات اور اُن میں بیان ہونے والے واقعات کی تفہیم و تفسیر کا سبب بنتے ہیں- یہ وہ الفاظ ہیں جنہیں ہم تلمیحات کے زمرے میں شامل کرتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ جن آیات سے لئے گئے ہیں اُن آیات کا اپنا ایک پس منظر ہے یاان کا تعلق کسی نہ کسی تاریخی بیان سے جڑا ہوا ہے- اکبر الہ آبادی کی شاعری میں ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو قرآنِ مجید سے لیے گئے ہیں اور وہ شاعری میں تلمیحات کی صورت اختیار کر گئے ہیں-ان تمام الفاظ کا احاطہ کرنا کسی ایک مختصر سے مضمون میں مشکل ہے کیونکہ  اگر صرف وہ آیات ہی نقل کر دی جائیں تب بھی کئی صفحات درکار ہیں چہ جائیکہ اُن کی تفہیم اور وضاحت-بہر حال ایسی چند ایک تلمیحات کا ذکر اُن اشعار اور آیات کے ترجمہ کے ساتھ نقل کر رہا ہوں جن میں وہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں-

بہت مشکل ہے بچنا بادۂ گلگوں سے خلوت میں
بہت آساں ہے یاروں سے مَعَاذَ اللہ کہہ دینا[1]
ایک لیکچر کی ضرورت ہوتی ہے ہر بات پر
کام مطلق اب نہیں چلتا مَعَاذْ اَللہ سے[2]
کمپ میں محروم ہوں میں لطفِ خاطر خواہ سے
آ گیا ہوں تنگ مذہب کی مَعَاذْ اَللہ سے[3]

ان اشعار کے علاوہ بھی بہت سے مقامات پر اکبر الہ آبادی نے معاذ اللہ کو استعمال کیا ہے حتیٰ کہ ایک پوری غزل بھی معاذ اللہ کی ردیف کے ساتھ کہی ہے جسے کلیاتِ اکبر (مرتبہ محمد نواز  چوہدری) کے ص:236پر دیکھا جا سکتا ہے -

معاذ اللہ قرآنِ مجید کی سورۃ یوسف :23میں آیا ہے جس کے معنی ہیں ’’اللہ کی پناہ‘‘-اس پوری آیت کے معانی ’بصیرتِ قرآن‘ میں جو دیئے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں :

’’اُسے (یوسفؑ کو) اس عورت نے اپنی طرف بہکانے کے لئے کہاجس کے گھر میں وہ رہتا تھا -اس نے دروازے بند کر لیے اور اس عورت نے کہا کہ ’آ جلدی کر‘-یوسف ؑ نے کہا کہ اللہ کی پناہ میرے ربّ نے مجھے اتنابلند مقام اور ٹھکانہ عطا کیا ہے -بے شک جو ظالم ہیں وہ فلاح نہیں پاتے‘‘-[4]

شاعر نے اسے جن معانی میں بھی استعمال کیا ہو لیکن جس شخص نے قرآنِ مجید کا مطالعہ اسے سمجھ کر کیا ہو گا یہ الفاظ پڑھتے ہی اس کی توجہ فوری طور پرحضرت یوسف ؑ کے قصے کی طرف جائے گی اور پورا قصہ اس کے دماغ میں گردش کرنے لگے گا-

گو حافظے کو یاد نہ ہو قصۂ ازل
ہم تو جمے ہوئے ہیں قرارِ الست پر[5]

اردو میں جب الست کو مست کے ساتھ بطور لاحقہ ترکیب بنا کر استعمال کرتے ہیں تو یہ لفظ مست کے معنی میں ضم ہو جاتا ہے لیکن یہاں یہ لفظ قرآنِ مجید کی سورۃ الاعراف: 172 کی تفصیل بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے اور ہمارے ذہنوں میں میثاقِ ازل کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارواحِ انسانی سے مکالمہ یاد آ جاتا ہے- اس پوری آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے :

’’اور یاد کرو جب آپ کے ربّ نے بنی آدم کی پشت سے اُن کی نسلوں کو نکال کر ان کو ان کی اپنی جانوں پر گواہ بنا کر پوچھاکہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟سب نے کہا جی ہاں! کیوں نہیں-ہم نے اقرار لیا تاکہ تم قیامت میں یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے‘‘-[6]

جو گزر گیا خودی سے تو وہ مل گیا اسی سے
نہ ہوائے رَبِّ اَرنی نہ صدائے لَنْ تَرَانِی[7]
ہوائے وادی ٔ ایمن کہاں اب گلشنِ دل میں
نہ وہ ارنی کا خرمن ہے نہ شوقِ لن ترانی ہے[8]
دلوں کا مالک، نظر کا حاکم، سمجھ کا صانع، خرد کا بانی
 جمال اسی کا، جلال اسی کا، اُسی کو زیبا ہے لن ترانی[9]

پہلے شعر میں ’’ربّ ارنی‘‘ اور ’’لن ترانی‘‘ جبکہ دوسرے شعر میں ارنی اور لن ترانی،لیکن تیسرے شعر میں صرف لن ترانی استعمال کیا گیا ہے-یہ حوالے سورۃ اعراف: 143سے لیے گئے ہیں -پوری آیت کا مفہوم ہے :

’’اور جب موسٰیؑ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر آئے اور اُن کے رب نے اُن سے کلام فرمایا تو انہوں نے عرض کیا،اے میرے ربّ مجھے دکھا دیجیے کہ میں آپ کو دیکھ لوں-فرمایا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن پہاڑکی طرف دیکھو، سو اگر پہاڑ اپنی جگہ بر قرار رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے-پھر جب ان کے ربّ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو پہاڑ کو چورا کر دیا اور موسٰیؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے،پھر جب ان کو ہوش آیا تو کہنے لگے،آپ کی ذات پاک ہے میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والا پہلا شخص ہوں‘‘-[10]

قرآن ِ مجید فرقانِ حمید میں سب نبیوں سے زیادہ ذکر حضرت موسٰیؑ اور آپ کی امت بنی اسرائیل کا ہوا ہے-قرآنِ مجید کا قاری جب بار بار آپؑ کی قوم کے حوالے سے پڑھتا ہے تو اسے بنی اسرائیل کے اکثر واقعات از بر ہو جاتے ہیں سو ربّ ارنی اور لن ترانی کے الفاظ سے اسے یہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ ان الفاظ کے پسِ پردہ کون سی کہانی دہرائی جا رہی ہے -

جھکتا نہیں بندہ کسی بد خواہ کے آگے
کیا غم ہے توکلت علی اللہ کے آگے[11]

جب آدمی کو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور توکل ہوتو اس میں خودّاری کا عنصر پایا جاتا ہے وہ پھر کسی غیر اللہ کے سامنے جھکتا ہے نہ ہی ہاتھ پھیلاتا ہے -اس شعر میں اسی انا یا اقبالؒ کی خودی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے -’’توکلتُ علی اللہ‘‘سورۃ ھود:56سے لیا گیا ہے-اس میں حضرت ھودؑ کا اپنی قوم کو تبلیغ کرنے اور قوم کا کسی معجزے کے بغیر بتوں کی پوجا ترک کرنے سے انکارکر دینا نیز حضرت ہودؑ کا انہیں ڈرانے، ربّ سے معافی مانگنے اور توبہ کی طرف رجوع کرنے اور پھر اُس قوم پر عذابِ الٰہی کے نازل ہونے کے پورے حالات ہمارے سامنے آ جاتے ہیں -قوم کا اپنے بتوں کی پرستش نہ چھوڑنے اور ڈرانے دھمکانے پر حضرت ھودؑ کے توسط سے ارشادِ ربانی ہوتا ہے :

’’میں نے اُس اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے جو میرا اور تمہاراربّ ہے-حقیقت یہ ہے کہ زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ(قبضہ) میں نہ ہو- یقیناً میرا رب صراطِ مستقیم پر چلنے سے ملتا ہے ‘‘-[12]

من علیہا فان ہی پر ختم ہے قولِ فٹسٹ
کیوں عبث برپا ہے اتنا شورِ طفلاں ان دنوں[13]
توپیں خود آ کے اب تو میدان میں
کہتی ہیں کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانْ[14]

ان دونوں اشعار میں سورۃ رحمٰن:26 کو اگر چہ ایک الگ رنگ سے استعمال کیا گیا ہے لیکن یہ آ یت اپنے پورے مفاہیم کے ساتھ حقیقت کو بیان کر رہی ہے-اس آیت کا مطالعہ آدمی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے -اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمٰن میں اپنی بے شمار نعمتوں کا ذکر کیا ہے اور ہر آیت کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ آخر’’تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنا کچھ عطا کرنے کے بعد اس حقیقت سے بھی آگاہ کر دیاکہ’’زمین پر جو کوئی ہے فنا ہونے والا ہے ‘‘ -اس تلمیح سے پورا نظامِ کائنات اور اس کا انجام ذہن کی سکرین پر ابھر آتا ہے نیز روزِ قیامت پر جہاں ایمان پختہ ہوتا ہے وہیں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنے کو بھی دل چاہتا ہے-

کارِ دنیا سے فراغت ہی عزیزوں کو نہیں
پھر کہیں اُن سے اِلیٰ ربِّک فَارْغَب کیوں کر[15]

اکبر نے کارِ دنیا میں غرق لوگوں کے حوالے سے یہاں بات کی ہے اور قرآنِ مجید کی سورۃالم نشرح کی آٹھویں آیت کو تلمیح بنا دیا ہے -اس آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اپنے پروردگار ہی کی طرف توجہ رکھیے‘‘- اس پوری صورت کو ذہن میں رکھیں تو حضور نبی ِ کریم (ﷺ) کا سینہ مبارک دو بار کھولنے کا واقعہ، آپ (ﷺ) کے رنج و غم دور فرمانے، آپ (ﷺ)کے ذکر کی بلندی، مشکلات سے چھٹکارا اور آخر میں فراغت کے اوقات میں اپنے پالنے والے کی طرف رجوع کی ہدایت فرمائی گئی ہے-اگر چہ اللہ تعا لیٰ نے بظاہر اپنے محبوب کریم (ﷺ) کو مخاطب فرمایا ہے لیکن مذکورہ آیت کا آخری حصہ ہمیں آگاہی دیتا ہے کہ یہ حکم ہر شخص (مومن و مسلم، مرد و زن)کے لئے ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے غافل نہ ہونے پائے اور اُس کی عنایات کو یاد رکھے-اسی سورت کی ایک اور آیت کو اکبر الہ آبادی نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں استعمال کیا ہے:

حضرت (ﷺ) کی نبوت میں ہو کس طرح مجھے شک
ہر ذرہ کو ہے وِرد رفعنا لکَ ذکرک[16]

’’ہم نے آپ کے لئے آپ کا ذکر بلند کر دیا‘‘-[17]

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم اپنی کھلی آنکھوں سے آج دیکھ رہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان دن بدن حضور (ﷺ) کے ذکر کے اضافے کے ساتھ سچ ثابت ہو رہا ہے -آج غیر مسلم اسلام قبول کر رہے ہیں اور مسلمان خواہ کوئی اور عبادت کریں یا نہ کریں حضور (ﷺ) پر درود بھیجنا اور آپ (ﷺ)  کا ذکر کرنا ان کی زندگی کا حصہ ہے- یہ بھی ’’و رفعنالک ذکرک‘‘  کا نتیجہ ہے کہ مسلما ن کسی اور گستاخی پر سیخ پا ہو یا نہیں لیکن حضور(ﷺ) کی شان میں گستاخی پر جان کی پرواہ بھی نہیں کرتااور ہر طرح کی سختی برداشت کرنے کو تیار ہو جاتا ہے-اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے دیگر ارشادات بھی ہمارے ذہنوں میں آ جاتے ہیں جیسا کہ آپ(ﷺ) پر درود بھیجنے کا حکم،آپ(ﷺ)کی اطاعت کا حکم وغیرہ-

قولِ ملحد ہے کہ نیچر ہو گیا میرا معین
اور فلک کی ہے صدا وَاللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن[18]

ذرا حضور نبیِ کریم(ﷺ) کی مکی زندگی کو سامنے رکھیے اور اس واقعے پر غور کیجیے کہ جب دارالندوہ میں کفار نے ایک اجلاس بلایا اور اس میں آقائے دو جہاں (ﷺ) سے (نعوذ باللہ) چھٹکارا پانے کے منصوبوں پر مشورے کئے جا رہے تھے، ہر سردار اپنی اپنی رائے دے رہا تھا، ہشام بن عمرو کی رائے تھی کہ ایک اونٹ پر سوار کر کے مکہ سے نکال دیا جائے -ابو البختری نے گھر میں بند کرکے کھانا پانی بند کر دینے کا مشورہ دیا، ابو جہل کا مشورہ تھا ہر قبیلہ سے ایک ایک جوان لے کر گھر کا گھیراؤ کر لیا جائے اورپھر ایک ہی دفعہ وار کرکے (نعوذ باللہ) آپ (ﷺ) کو قتل کر دیا جائے اس طرح کسی قبیلے پر الزام نہیں آئے گا -ابلیس لعین بھی وہاں موجود تھااُس نے ابو جہل کی رائے سے اتفاق کیا -یہ پوری رُو داد اور حضو(ﷺ) کے بحفاظت مکہ سے نکل کر مدینہ پہنچنے کا ایک ایک واقعہ’’واللہ خیر الماکرین‘‘میں پوشیدہ ہے اور ہمیں اُن دکھ بھرے لمحوں کی یاد دلا رہا ہے-

اب ذرا سورۃ انفال:30 کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:

’’اور جب کافر لوگ آپ کے بارے تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو جلا وطن کر دیں اور وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیر فرما رہا تھا اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے ‘‘-[19]

مسلّم ہے جب سب کو اِلَّا قَلِیْلَا
تو ہر علم ہے ذہنِ انساں میں ڈھیلا[20]

قرآنِ مجید کے پارہ :29 ، سورۃ مزمّل کی دوسری آیت ’’رات کو(نماز کے لئے) قیام فرمایا کیجیے مگر تھوڑا‘‘کی طرف اشارہ ہے -لیکن اس کے ساتھ پہلی اور آگے والی تین آیات کو ملا کر پڑھنے سے حضور (ﷺ)  کی عبادت، شب بیداری، خوفِ خدا پہلی وحی کا نزول اور آپ (ﷺ) کی کیفیت،قبل از بعثت غارِ حرا میں آپ (ﷺ) کے قیام کی نوعیت ،آنے والے دنوں میں قرآنِ پاک کے نزول، گویا کہ تفاسیر، سیرت النبی (ﷺ) اور تواریخِ اسلامی میں پڑھے ہوئے تمام واقعات ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں- پہلی سے پانچویں آیت تک ترجمہ پیر محمد کرم شاہ ؒ نے یوں کیا ہے:

’’اے چادر لپیٹنے والے-رات    کو  (نماز کیلئے )قیام فرمایا کیجیے مگر تھوڑا-یعنی نصف رات یا کم کر لیا کریں اس سے بھی تھوڑا سا-یا بڑھا دیا کریں اس پر اور(حسبِ معمول) خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجیے قرآنِ کریم کو-بے شک ہم جلد ہی القا کریں گے آپ(ﷺ) پر ایک بھاری کلام‘‘-[21]

وہاں قَالُوْا بَلیٰ یاں بت پرستی
ذرا سوچو کہا کیا تھا، کیا کیا[22]

سورۃ احقاف:34 میں ارشادِ ربّ العالمین ہے’’اور جس روز کافروں کو دوزخ کے سامنے لایا جائے گا اور اُن سے پوچھا جائے گا ،کیایہ دوزخ امرِواقعی نہیں ہے؟’وہ کہیں گے قسم ہے اپنے ربّ کی -امر ِ واقعی کیوں نہیں (ضرور ہے) ‘ تو ارشاد ہو گا تو اب اپنے کیے ہوئے عذاب کا مزا چکھو‘‘-[23]

اب ذرا تعلیماتِ قرآن اور تعلیماتِ نبی (ﷺ) کو ذہن میں لائیے تو پورا پس منظر، پیش منظر بن جائے گا اور قالوا بلیٰ کو کس بنا پر تلمیحات میں شامل کیا گیا یہ بھی سمجھ میں آ جائے گا -

یاد آ رہی ہے مجھ کو موسیٰ ؑ کی گفتگو اب
ہوں محو استعینو باللہ واصبرو اب[24]

یہ الفاظ قرآنِ مجید کی سورۃ البقرہ:153سے لیے گئے ہیں جس کا ترجمہ ہے’’اے ایمان والو !صبر اور نماز سے مدد چاہو-بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘-

اکبر الہ آبادی نے یہاں استعینوباللہ اور اصبرو کے استعمال سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور صبر کرنے کے بہت سے پہلؤوں کوسمو دیا ہے -قرآن مجید میں اور احادیثِ مبارکہ میں اس حوالے سے کئی مقامات پر ارشاد ہوا ہے یہاں تک کہ صبر کرنے والے جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والوں میں سے ہوں گے اور ان سے حساب کتاب بھی نہیں لیا جائے گا -اللہ تعالیٰ نے صابروں کو پورا پورا اجر دینے کا بھی وعدہ فرمایا ہے-

کام کو اٹھو چڑھاؤ آستیں
لَا یُضِیْعُ اللہ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْن[25]

اکبر الہ آبادی نے مولانا حسرت موہانی کو موہان ایک خط لکھا جس میں غالباً سیاست کے ترک کرنے اور تجارت شروع کرنے کی تلقین کی تھی-اس حوالے سے لکھے گئے اشعار میں سورۃ توبہ:120 کااستعمال اس نسبت سے کیا گیا کہ ’’اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا‘‘ جب پوری آیت کی تلاوت کرتے ہیں تو غزوۂ تبوک کا پورا نظارہ نگاہوں میں سماجاتا ہے-حضور(ﷺ) کا تبوک کی طرف روانگی کا حکم، سامان کی کمی، صحابہ کرام کا قربانی کا جذبہ، منافقین کے اعتراضات اور عدم شمولیت کا فیصلہ،چند صحابہ کا شاملِ قافلہ نہ ہونا، تبوک کی فتح،حتیٰ کہ اُس موقعہ پر پیش آنے والا ایک ایک منظر ذہنوں میں در آتا ہے -پوری آیت کا ترجمہ کچھ یوں کیا گیا ہے :

’’مدینہ کے رہنے والے اور وہ دیہاتی جوان کے ارد گرد ہیں اُن کے لئے یہ بات شایانِ شان نہ تھی کہ وہ اللہ کے رسول (ﷺ) سے پیچھے رہ جائیں اور یہ بھی مناسب نہیں تھا کہ اُن (نبی(ﷺ)کی جان سے اپنی جانوں کو زیادہ عزیز رکھتے -اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اوربھوک کی جو مشقت پہنچی اور وہ جو اللہ کی راہ میں چلے جن کا چلنا کفار کو سخت ناگوار تھا یا انہوں نے دشمن سے انتقام لیا مگر یہ کہ اُن کے لئے (ان سب چیزوں پر) ایک عملِ صالح لکھا گیا تاکہ اللہ عمل کرنے والوں کو اس سے بہتر اجر عطا فرمائے-بے شک اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘-[26]

اکملت کا اشارہ کافی ہے تجھ کو اکبرؔ
پھر دل کا کیا ہے مرکز جب یہ مقام چھوڑا[27]
اکملت لکم دینکم اسلام کو بس ہے
باقی ہے اگر کچھ تو وہ دنیا کی ہوس ہے[28]

پہلے شعر میں اکملت اور دوسرے شعر میں اکملت لکم دینکم کے الفاظ قرآنِ مجید کی سورۃمائدہ :3میں سے لیے گئے ہیں -اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے کھانے کو حرام قرار دیا ہے اُن کے نام درج ہیں جن میں خون، خنزیر کا گوشت،غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا،اپنے آپ مر جانے والا جانور،درندوں کا مارا ہوا، پرستش گاہوں پر چڑھایا ہوا،قرعہ کے تیروں سے تقسیم کیا گیا وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے-اس حکم کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ آج کے دن ’’میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا‘‘-

اِن الفاظ سے جہاں اور کئی حوالے ذہن میں آتے ہیں وہاں حضور نبی ِمکرم (ﷺ) کے آخری حج ،یومِ عرفہ،شام کا وقت،خطبہ حجۃ الوداع اور اس سے متعلقہ تمام واقعات نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں -

تمہاری شاعری یہ پھل جھڑی ہے یا پٹاخا ہے
یہ حافظ ہی کی محفل ہے جہاں کَاساً دِہَاقَا ہے[29]

کاساً دہاقا کا لفظ اگر چہ یہاں حافظ شیرازی کی غزل کی طرف اشارہ کر رہا ہے لیکن قرآنِ مجید کی قرأت کرنے والا شخص فوراً ’’سورۃ النبا: 34‘‘ کی طرف رجوع کرے گا جس کے معنی ’’چھلکتا ہوا جام ‘‘کے ہیں -لیکن اسے سمجھنے کے لئے ہمیں کم از کم اس سے پہلے کی چار اور اس کے بعد کی دو آیات کو بھی ساتھ ملانا پڑے گاتبھی اس کوتلمیح ماننے کے لئے تیار ہو سکیں گے -پیر محمد کرم شاہ ؒنے ان آیات کا ترجمہ ان الفاظ میں لکھا ہے:

’’ بلا شبہ پرہیز گاروں کے لئے کامیابی(ہی کامیابی) ہے-ان کے لئے باغات اور انگوروں کی بیلیں ہیں اور جواں سال ہم عمر لڑکیاں-اور چھلکتا ہوا جام-نہ سنیں گے وہاں کوئی بیہودہ بات اور جھوٹ-یہ بدلا ہے آپ کے رب کی طرف سے بڑا کافی انعام‘‘-[30]

یہ جنت کی ان نعمتوں کی وہ منظر کشی ہے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں سے فرمایا ہے لہٰذا ایک نیک آدمی اس آیت کو پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور عرض کرتا ’’اے میرے رب چلا مجھے بھی اُن لوگوں کے نقشِ قدم پر جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل فرمائی ہیں نہ کہ اُن لوگوں کی راہ پر جن پر تیرا غضب نازل ہوا‘‘-

اتممتُ علیکم کا تو کچھ کر نہ سکے پوپ
اُملی لہم ارشاد تھا ایجاد ہوئی توپ[31]

اس شعر میں اکبر نے قرآنِ مجید میں سے دو اشارے نقل کیے ہیں -اتممت علیکم سورۃ مائدہ:3جس کاحوالہ اوپر دیا گیا ہے کے ساتھ ہی منسلک ہے جو اسی سلسلے کو آگے بڑھاتا ہے اس پوری آیت کے معنی درج کرنے سے تمام صورتِ حال سمجھنے میں آسانی رہے گی -             

’’ آج کفار تمہارے دین سے نا امید ہو گئے ہیں -خبردار تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہا کرنا،آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تمہیں اپنا انعام بھر پور دے دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر میں رضا مند ہو گیا ‘‘-[32]

دوسرا اشارہ اُملی لہم اللہ تعالیٰ کے ارشاد کردہ اس فرمان کی طرف ہے جو سورۃ اعراف:183 میں ہے یعنی’’میں انہیں ڈھیل دوں گا- میری تدبیر بہت ہی مضبوط ہے‘‘-اس آیت کا پس منظر اس سے سابقہ آیت کو ساتھ ملا کر پڑھنے سے صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے-سورۃ اعراف :182-183 سامانِ تعیّش کی کثرت اور عتابِ الٰہی سے متعلق ہیں-ابن ِ کثیر  اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ :

’’ایسے لوگوں کو روزی میں کشادگی دی جائے گی معاش کی آسانیاں ملیں گی، وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے اور حقانیت کو بھول جائیں گے -جب پورے مست ہو جائیں گے اور ہماری نصیحت کو گئی گزری کر دیں گے تو ہم انہیں ہر طرح کے آرام دیں گے یہاں تک کہ وہ مست ہو جائیں گے تب انہیں ہم ناگہانی پکڑ میں پکڑ لیں گے -اُس وقت وہ مایوسی کے ساتھ منھ تکتے رہ جائیں گے اور اُن ظالموں کی رگ کٹ جائے گی -حقیقتاً تعریفوں کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے-انہیں میں تو ڈھیل دوں گا اور وہ میرے اس داؤ سے بے خبر بھی ہوں گے-میری تدبیر کبھی ناکام نہیں ہوتی وہ بڑی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے ‘‘-[33]

اکبر الٰہ آبادی کے کلیات میں قرآنی تلمیحات اتنی تعداد میں ہیں کہ ایک پوری کتاب تالیف کی جا سکتی ہے-اُن میں سے یہ چند تلمیحات مضمون کی طوالت کے پیش نظر شامل کی گئی ہیں -

قرآنِ مجید کا کوئی بھی لفظ اگر کسی تحریر میں شامل کیا جائے تو وہ لفظ ایک تلمیح بن جاتا ہے کیونکہ ہر لفظ کے پیچھے ایک داستان، قصہ یا واقعہ ہوتا ہے جو ہمیں ایک وسیع تناظر میں لے جاتا ہے اور کئی نہاں اسرار ذہنوں پر وا کر دیتا ہے-اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تلمیحات اور ان کے پس منظر کو سمجھنے نیز قرآنِ مجید کو پڑھنے اور اسے سمجھنے کی توفیق کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی ہمت بھی عطا فرمائے -آمین

٭٭٭


[1](کلیاتِ اکبر، اکبر الہ آبادی، مرتبہ: محمد نواز چوہدری،   مکتبہ شعرو ادب لاہور،س ن، ص:12)

[2]( ایضاً،ص:63)

[3]( ایضاً ، ص:208)

[4](تفسیر بصیرتِ قرآن، ج:3، مولانا محمد آصف قاسمی، مکتبہ بصیرتِ قرآن کراچی،س ن،ص:28)

[5]( کلیاتِ اکبر،ایضاً، ص:19)

[6]( تفسیر بصیرتِ قرآن،ج:2،ایضاً،ص:288)

[7]( کلیاتِ اکبر،ایضاً، ص:45)

[8]( ایضاً،ص:294)

[9]( ایضاً، ص:429)

[10](تفسیرِ مدارک، ج:1، عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی، مترجم:مولانا شمس الدین،مکتبۃ العلم لاہور، س ن، ص:995)

[11]( کلیاتِ اکبر،ایضاً،ص:65)

[12](تفسیر بصیرت القرآن، ج:1،ایضاً،ص:651)

[13]( کلیاتِ اکبر،ایضاً،ص:227)

[14]( ایضاً،ص:338)

[15]( ایضاً،ص:259)

[16]( ایضاً، ص:275)

[17]( آسان اردو ترجمہ قرآنِ مجید،حافظ نذر احمد،مسلم اکادمی لاہور، 1987ء ، ص:1269)

[18]( کلیاتِ اکبر، ایضاً، ص:277)

[19]( تفسیر مدارک ،ایضاً، ص:1057)

[20]( کلیاتِ اکبر،ایضاً،ص:296)

[21](ضیاء القرآن،ج:5، پیر محمد کرم شاہ، ضیاء القرآن پبلی کیشنزلاہور ، 1400ھ،ص:402)

[22]( کلیاتِ اکبر، ایضاً،ص:306)

[23](تفسیرِ مظہری،جلددہم،علامہ قاضی محمد ثنا اللہ عثمانی، مترجم: مولانا سیّد عبد الدائم الجلالی، دار الاشاعت کراچی،1999ء ،ص:310)

[24]( کلیاتِ اکبر،ایضاً،ص:413)

[25]( ایضاً،ص:414)

[26]( تفسیر بصیرتِ قرآن،ج:2، ایضاً،ص:495)

[27]( کلیاتِ اکبر،ایضاً، ص:436)

[28]( ایضاً، ص:504)

[29]( ایضاً ، ص :437)

[30]( ضیاء القرآن،ج:5،ایضاً،ص:473)

[31]( کلیاتِ اکبر، ایضاً، ص:504)

[32]( تفسیر ابن ِ کثیر، ج:2،حافظ عماد الدین ابو الفداء ابن ِکثیر، مترجم:مولانا محمد جونا گڑھی،مکتبہ قدوسیہ لاہور،2006ء،ص:12)

[33]( ایضاً،ص:355)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر