اردو ادب کی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اردو شعراء نے ہر عہد میں وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی نہ کسی صورت میں حقائق کو شعر کے قالب میں ڈالنے کی بے مثال کاوشیں کی ہیں- اس ضمن میں بالخصوص نظم کے پیکر میں مو ضو عات کو قید کرنے کے ایسے تجربے اردو شاعری میں ملتے ہیں جن کی نظیر کسی اور صفِ شاعری میں ملنا محال ہے-اردو غزل جہاں مخصو ص موضوعات سے اپنی تاریخ کا دامن بھرے ہوئے ہے وہاں اردو نظم بھی کسی طور پر کم نہیں بلکہ مقصدیت کے حوالے سے اردو نظم زیادہ وسعت اور دوام کی مالک دیکھائی دیتی ہے-اس میں قلی قطب شاہ کی نظمیں ہوں یا نظیر اکبر آبادی کی نظمیہ شاعری، حفیظ جالندھری کا ’’شاہنامہ ِاسلام‘‘ہو یا اقبال کا ’’شکوہ  اور جوابِ شکوہ ‘‘ تمام کے موضو عات انسانی زندگی سے براہِ را ست تعلق رکھتے ہیں -اس حوالے سے مولانا الطاف حسین حالیؔ کی مشہور زمانہ نظم ’’مدو جزر اسلام‘‘ المعروف مسدس حالیؔ  کسی طور پر کم نہیں -یہ نظم جن حالات و واقعات کے پسِ منظر میں لکھی گئی وہ اس طرح کی نظم کے متقاضی تھے -لیکن باعثِ مسرت یہ ہے کہ حالیؔ کی مسدس آج بھی تر و تازہ اور جدت کے ساتھ اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے-یہ نظم بالخصوص ان دو سوالات کا جواب ہے-

  1. ہم (مسلمان )کیا تھے ؟
  2. ہم (مسلمان )آج کیا ہیں؟

اس پوری نظم میں حالیؔ قرآن کے دامن سے وابستہ دیکھائی دیتے ہیں- بلکہ اس بات کا تذکرہ انہوں نے ’مسدس‘  کے مقدمہِ اول میں خود ان الفاظ میں کیا :

’’اس میں تاریخی واقعات ہیں یا چند آیتوں اور حدیثوں کا ترجمہ ہے یا آج کل قوم کی حالت ہے اس کا صحیح صحیح نقشہ کھنچا گیا ہے‘‘-[1]

 الطاف حسین حالیؔ نے یہ نظم سر سید احمد خان کی تحریک پر لکھی اور اس نظم نے جس قدر شہرت اور پذیرائی حاصل کی، اس مقبولیت کے پیشِ نظر سر سید احمد خان جیسا شخص بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا  کہ خدا نے اگر مجھ سے پوچھا کہ دنیا میں گئے تھے تو کیا کر لائے تو میں کہوں گا حالیؔ سے مسدس لکھوا کر لایا ہوں-مسدس حالی یوں تو متفرق مو ضوعات اور علوم کا مجموعہ ہے -لیکن یہاں پر ہم یہ دیکھنے کی سعی کرتے ہیں کہ مد و جزر اسلام میں قرآنی مو ضوعات کو کہاں کہاں اور کس کس طرح بیان کیا گیا ہے-

اس ضمن میں مسلمانوں کی شاندار اور بے مثال ماضی کا تذکرہ ہویا امت کی بد حالی کی وجوہات کا ذکر ہو ،مسلمانوں کی اخلاقی پستی اور سماجی و معاشرتی انحطاط کے مباحث ہوں یا ان حالا ت سے نکلنے کے گُر بتائے گئے ہوں ،زوالِ امت کا نوحہ ہو یا عروج حاصل کرنے کا نسخہ، ہر صورت میں حالیؔ قرآن کا دامن پکڑے ہوئے نظر آتے ہیں - انہوں نے پوری نظم میں قرآن حکیم کے موضوعات کو سمویا ہے-اسں حوالہ سے محمد سلیم اپنے مضمون ’’حالیؔ کی شاعری میں عربی و اسلامی اثرات‘‘ میں رقمطراز ہیں:

’’وہ نہ صرف اپنی شاعری میں قرآن ِ کریم کی آیات سے اقتباسات پیش کرتے ہیں بلکہ بعض قرآنِ کریم کی آیات کا مفہوم بخوبی اشعار کی صورت میں بیان کرتے ہیں‘‘-[2]

تو حیدِ باری تعالیٰ کے بارے میں قرآنِ حکیم اول تا آخر انسان کی راہ نمائی کرتا ہے-’’مسدس ‘‘میں الطاف حسین حالیؔ نے بھی کئی مقامات پر توحید کی طرف تو جہ دلائی ہے-توحیدِ باری تعالیٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں :

کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرمان اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگاؤ تو لُو اُس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ

تو حید ِ باری تعالیٰ کے بعد رسالت ِ محمدی (ﷺ) ’’مسدس‘‘ کا سب سے اہم ترین مو ضوع ہے-رسالت کے ضمن میں حالیؔ کی مسدس منفرد مقام و مرتبہ رکھتی ہے-اس کو نعتیہ کلام کا درجہ حاصل ہے-حضور نبی کریم (ﷺ)کی شان مبارک میں حالیؔ نے تفصیل سے لکھا ہے-بالخصوص رسالت مآب (ﷺ) کے منصب ِنبوت و رسالت کا تذکرہ بھر پور انداز میں کیا گیا ہےاور قرآن ِ حکیم میں ربِ کعبہ نے جس طرح آپ(ﷺ)کے اوصاف ِحمیدہ کا تذکرہ کیا ہے -حالیؔ نے بھی قرآن ِ پاک کے ان موضوعات کو بیان کیا ہے -سورۃ الا انبیا:107 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اور ہم نے آپ(ﷺ) کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ‘‘-

 اس ضمن میں حالیؔ لکھتے ہیں:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ قدسیہ کا خاتم النبیین ہو نا قرآن حکیم کا واضح حکم ہے - اس مو ضوع کو بھی حالیؔ نے خوب صورت انداز میں یوں قلم بند کیا ہے :

نبوت نہ گر ختم ہوتی عرب پر
کوئی ہم پر مبعوث ہوتا پیمبر

مسدس چونکہ مسلمانوں کے زوال کا نوحہ ہے- اس لیے حالیؔ ان اسباب کو بیان کرتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمان قوم زوال کا شکار ہو ئی اور ان اسباب کو بھی انہوں نے قرآ ن حکیم سے تلاش کیا ہے- ہم ذیل میں ان اسباب کو مسدس میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں بھی کیا گیا ہے-اس نظم میں حالیؔ مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں عقائد کے بعد میدانِ عمل میں سب سےبڑا سبب ان کی علم سےدوری کو قرار دیتے ہیں -قرآن ِ حکیم میں کئی مقامات پر حصولِ علم و حکمت کا حکم فرمایا گیا ہے-بلکہ پہلی وحی میں ہی پڑھنے کا حکم فرمایا گیا -

’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘- [3] 

مسدس میں الطاف حسین حالیؔ مسلمانوں کے زوال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ہنر ہم میں ہیں جو وہ معلوم ہیں سب
 علوم و کمالات معدوم ہیں سب
چلن اور اطوار مذموم ہیں سب
فراغت سے دولت سے محروم ہیں سب
جہالت نہیں چھوڑتی ساتھ دم بھر
تعصب نہیں بڑھنے دیتا قدم بھر

اسلام دینِ انسانیت ہے- اسلام انسانیت سے ہمدردی، محبت، رواداری اور حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے-اسلام سے بڑھ کر انسان دوست کوئی اور مذہب نہیں -لیکن انسانوں نے خود انسانیت کو رنگ، نسل، قومیت، علاقائیت وغیرہ میں تقسیم کر رکھا ہے-قرآنِ حکیم میں بھی انسانیت کو کنبہ ِخدا کہا گیا ہے-مولانا حالیؔ اس ضمن میں لکھتے ہیں:

یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
 کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالق دو سرا کا
 خلائق سے ہے جس کو رشتہ وِلا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

معاشرتی محاسن کا قرآن حکیم میں بہت تذکرہ کیا گیا -اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے -اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں راہ نمائی کی گئی ہے-اس حوالے سے قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مساوات،عملِ مسلسل ، بھائی چارے، عزتِ النساء، وغیرہ جیسے احکام کے بارے میں حکم فرمایا ہے-ان مو ضوعات کو حالیؔ نے بھی ’’مسدس‘‘ میں بیان کیا ہے- حالیؔ  ’’مسدس‘‘ میں عملِ مسلسل اور جہد ِ دوام کا پیغام دیتے ہیں اور بے عملی کو زوال کا سبب قرار دیتے ہیں-

یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے!
 بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھِرا ہے!
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا ہے!
گماں یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے!
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوئے ہیں بے خبر اہلِ کشتی

اخوت کا درس دیتے ہوئے سورۃ الحجرات میں فرمان ِ باری تعالیٰ ہے :

’’(یاد رکھو ) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ‘‘-[4]

اس حوالہ سے حالیؔ نوحہ کناں ہیں کہ مسلمانوں میں اخوت کی دولت نہ رہی جس کی وجہ سے ان کی حالت ا بتر ہو چکی ہے-

اگر بھولتے ہم نہ قولِ پیمبر
کہ ہیں سب مسلمان باہم برادار
برادار ہے جب تک برادر کا یاور
معین اس کا ہے خود خدا دِوند داور
تو آتی نہ بیڑے پہ اپنے تباہی
فقیری میں بھی کرتے ہم بادشاہی

ظاہری احکامات میں شریعت مطہرہ کی مکمل پابندی کا درس حالیؔ نے  ’’مد و جزر اسلام ‘‘میں کچھ ان الفاظ میں دیا ہے کہ ہمارے اسلاف کا ہر قول و فعل شریعت مطہرہ کے مطابق ہوتا تھا اور آج ہم نے شریعت محمدی(ﷺ) کو چھوڑ دیا ہے-

شریعت کے احکام تھے وہ گوارا
 کہ شیدا تھے اُن پر یہود اور نصاریٰ
گواہ اُن کی نرمی کا قرآں ہے سارا
خود "الذین یسر" نبی نے پکارا
مگر ہاں کیا ایسا دشوار ان کو
کہ مومن سمجھنے لگے بار ان کو

اس کے علاوہ حالیؔ اس نظم میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب کے باب میں سستی، کاہلی، خواب غفلت، بتوں کی پوجا، قتل و غارت، جھگڑے، اسلاف کو فراموش کرناوغیرہ کو شامل کرتے ہیں - اس کے ساتھ ساتھ اُن کی اس نظم میں زوال سے نکلنے اور اپنی عظمت ِ رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کا گُر بھی بتایا ہے-اس ضمن میں انہوں نے قرآنِ حکیم سے جس نسخہ ِ کیمیا کو بیان کیا ہے-وہ ہر مسلما ن کیلیے انفرادی اور امت ِ مسلمہ کے لیے اجتماعی طور پر یکساں اہمیت کا حامل ہےاوروہ فقط اور فقط تو حید ہےکہ ہر سبب کو چھوڑ کر مسبب الاسباب پر یقین کیا جائے اور اپنی تمام مناجات اور حاجات کو اسی کی بارگاہ میں پیش کیا جائے جو کار کشا اور کار ساز ہے-

ہے بشر کو لازم کہ ہمت نہ ہارے
جہاں تک ہو کام آپ اپنے سنوارے
خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے
 کہ ہیں عارضی زور کمزور سارے

قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح طور پر ان الفاظ میں فرقہ واریت سے بچنے کی تلقین کی ہے:

’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی میں نہ پڑو‘‘-[5]

جس عہد میں حالیؔ نے یہ نظم لکھی اس میں مسلمانوں میں فرقہ واریت عام تھی-یہ فرقہ واریت بھی ان کے نزدیک زوال کے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب تھا -اس کی وجہ سے امت کا اتحاد ختم ہو کر نفاق میں بدل گیا -اس فرقہ واریت کی وجہ سے مسلمان ملت دوسری اقوام کے لیے ذلت کا شکار بن چکی ہے-

نہ سنی میں اور جعفری میں ہو اُلفت
نہ نعمانی و شافعی میں ہو ملت
وہابی سے صوفی کی کم ہو نہ نفرت
 مقلد کرے نہ مقلد پہ لعنت
رہے اہلِ قبلہ میں جنگ ایسی باہم
کہ دین ِ خدا پر ہنسے سارا عالم

آخر پر حالیؔ نے عرض ِ حال کے نام سے رسالت ِ ماب (ﷺ)  کی بارگاہ ِ الٰہی میں گذارشات پیش کی ہیں کہ امت مسلمہ کی اس ابتر حالت پر رحم فرمائیں اور اس امت کا سہارا بنیں-اس امت کی داد رسی فرمائیں تا کہ یہ امت اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکے-اس میں بھی حالیؔ فرقہ واریت کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :

جو تفرقہ اقوام میں آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے

حالیؔ کی پوری نظم قرآنی موضوعات کو اپنے اندار سموئے ہوئے ہے-یہاں پر چند ایک مثالیں دی گئی ہیں: مجموعی طور پر نظم اسلام کی ابتداء، اسلام سے قبل اہلِ عرب کی جہالت،اسلام کی انقلابی فکر سے مسلمانوں کو حاصل ہونے والے عروج اور حالیؔ کے عہد میں مسلمانوں کا مرثیہ کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا -

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہماری ملت کچھ بدلی نہیں-حالیؔ کی ’مسدس‘آج بھی ہماری حالت کی عکاس ہے- ہمیں بھی اس نظم سے سیکھنے کے لیے مکمل راہ نمائی مل سکتی ہے-آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے شاندار ماضی کو دوبارہ یاد کریں اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر نادم ہو کر تجدید عہد کریں کہ ہم ہی اسلام کے ماننے والے ہیں اور اسلام ہی ہماری زندگی کا پہلا اور آخری مقصد ہے-اس تبدیلی کیلیے بارگاہ ِ رسالت ماب(ﷺ) میں دست بستہ یہی فریاد ہے:

نگا ہے یا رسول اللہ ()
نگا ہے یا رسول اللہ (
)

٭٭٭


[1]( الطاف حسین حالی،مسدس حالی، لاہور: تاج کمپنی لمیٹڈ)

[2]( محمد سلیم،حالی کی شاعری میں عربی و اسلامی اثرات،مشمولہ بازیافت،لاہور: پنجاب یونیورسٹی)

[3](العلق:1)

[4](الحجرات:10)

[5](آلِ عمران:103)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر