ظاہری اور باطنی طہارت کی اہمیت

ظاہری اور باطنی طہارت کی اہمیت

ظاہری اور باطنی طہارت کی اہمیت

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی جون 2022

طہارت کی تعریف :

’’الطَّهَارَةُ بِفَتْحِ الطَّاءِ الْفِعْلُ لُغَةً، وَهِيَ النَّظَافَةُ وَبِكَسْرِهَا الْآلَةُ وَبِضَمِّهَا فَضْلُ مَا يُتَطَهَّرُ بِهِ‘‘[1]

’’پاک کرنے کو طَھارۃ (پاکیزگی) ’’ط‘‘ کے فتحہ کے ساتھ، پاک کرنے کا آلہ (جیسے پانی اورمٹی اس کو طِھارۃ) ’’ط‘‘ کے کسرہ کے ساتھ اور پاک کرنے کے بعد جو پانی باقی رہ جائے اس طُھارۃ ’’ط‘‘ کے ضمہ کے ساتھ بولتے ہیں‘‘-

طہارت عربی زبان کا لفظ ، طَہَرَ یَطْہُرُباب’’کَرَمَ یَکْرُمُ‘‘ اور’’نَصَرَ یَنْصُرُ‘‘دونوں سے مصدرہے اور پاک ہونے کے معانی میں آتاہے (المنجد)- شرعاً طہارت اللہ پاک کی منع کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روکنے، خود کو گناہوں سے پاک رکھنے اور اللہ تعالیٰ کے اوامر سے خود کو مزین کرنے کو کہتے ہیں- فقہی اعتبار سے حدث اور نجاست سے پاکیزگی حاصل کرنے کو طہارت کہتے ہیں- بعض دفعہ شریعت میں اس کا اطلاق’’طہارت من الارجاس‘‘ یعنی کفر و شرک اور معصیت سے پاک ہونا بھی ہوتاہے-اس لیے علماء کرام طہارت کو بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:

  1. ظاہری طہارت( پانی سے وضو یا غسل کرنا اس کے علاوہ کپڑا،جسم اور جگہ کا نجاست سے پاک ہونا)
  2. باطنی طہارت(شرک ،کینہ وغیرہ یعنی د ل کا ماسوی اللہ سے پاک ہونا)-

ظاہری طہارت کی اہمیت و فضیلت:

سیدی رسول اللہ(ﷺ) نے جسمانی طہارت و روحانی پاکیزگی کی تاکید فرمائی،آپ (ﷺ)نے ماحول، آس پاس، گھر، برتن اور راستوں تک کو صاف رکھنے کاحکم فرمایا،  راستوں اور گزر گاہوں اور پانی کے تالابوں اور دریاؤں میں بول و براز اور گندگی ڈالنے سے منع فرمایا ،راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیا، کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونا کھانے کی برکت قرار دیا- آپ(ﷺ )نے پیتے ہوئے برتن میں سانس لینے اور کھانے پر پھونکنے سے منع فرمایا- نیند سے بیدار ہوکر ہاتھ تین بار دھونے سے قبل برتن میں نہ ڈالنے کا حکم ارشاد فرمایا- تکلیف دہ بو سے ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے لہسن اور پیاز کھا کر مساجد سے دور رہنے کی تلقین فرمائی -قرآن وحدیث میں ظاہری طہارت و پاکیزگی کے بارے میں کئی فرامین مبارکہ ہیں اُن میں چندروایات مبارکہ لکھنےکی سعادت حاصل کرتے ہیں :

1: ’’إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ‘‘ [2]

’’بےشک اللہ پسندر کھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو‘‘-

’’اَلتَّوَّاب‘‘ اور’’اَلْمُتَطَہِّر‘‘ دونوں میں مبالغہ پایا جاتا ہے  یعنی اللہ عزوجل کو حددرجہ کی توبہ اور طہارت پسند ہے -

2:’’وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْــئًا وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْقَآىٕمِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ‘‘[3]

’’اور جب کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام)کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتادیا اور حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ کر اور میرا گھر ستھرا رکھ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کیلئے ‘‘-

اس آیت مبارک کی تفسیر میں صاحب نورالعرفان فرماتے ہیں کہ:

’’اس سے معلوم ہو اکہ مسجدوں میں جھاڑو دینا، انہیں صاف سُتھرا رکھنا،وہاں کی زینت کرنا سُنت ِابراہیمی اور اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ‘‘-[4]

 صاحبِ رُوح البیان اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

حضرت کاشفیؒ نے لکھا ہے کہ مذکورہ بالا ارشادات اہل علم ظاہرکے تھےاور اہل باطن فرماتے ہیں کہ گویا اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ اے انسان !اپنے دل کو صاف سُتھرا رکھ کر، اس لیے کہ تیرا دل میرا دارالحکومت ہے- لہٰذا میرے سوا کسی دوسرے کو اس میں مت آنے دے تاکہ تیرا دل میری عظمت و کبریائی ہی کا مرکز رہے- اسی لیے اللہ عزوجل نے حضرت داؤد(علیہ السلام)کو وحی فرمائی کہ میرے گھر کو پاک اور صاف کرو-انہوں نے عرض کی،یااللہ عزوجل! تیرا گھر کہاں ہے؟ اللہ رب العزت نے ارشاد  فرمایا: میرے بندہِ مؤمن کادل-اس کو پاک صاف کرنے کا طریقہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ عشق کی آگ سے پاک ہوگا، یعنی اس میں آتش عشق جلا تاکہ ماسوی اللہ جل کر راکھ ہوجائے-

خوش آں آتش کہ در دل بر افروزد
بجز حق ہر چہ پیش آید بسوزد

’’وہ آتش بہت مبارک ہے جوکسی دل میں روشن ہوکر حق کے ماسوا سب کو جلاکر راکھ کردے ‘‘-

حضرت سہلؒ نے فرمایا:

’’جیسے بیت اللہ (کعبہ)کو بتوں سے صاف اور پاک کرنا ضروری ہے ایسے ہی دل کو شرک، شک و شبہ، غل و غش، کھوٹ اور حسد سے بھی پاک وصاف کرناواجب ہے‘‘-

حضرت مغربیؒ فرماتے ہیں :

گُلِ توحيد نرويد ز زمينى كه درو
 خار شرك وحسد وكبر وريا وكينست
مسكن دوست ز جان مي طلبيدم كفتا
مسكن دوست اگر هست دل مسكين است

’’اس زمین میں تو حید کا پھول نہیں اگتا جس میں شرک و حسد، تکبر و ریا اور کینہ کا کانٹاہو، مجھے دوست کے گھر کی تلاش تھی جواب ملا کہ دوست کا فقیر کا دل ہے‘‘-[5]

3: جس طرح بادشاہوں کے دربار میں بھی میں آنے والوں کیلئے صاف سُتھرے لباس کا اہتمام ضروری سمجھاجاتا ہے ایسے ہی احکم الحا کمین و مالک الملک پاک ذات کو صفاء قلب (دل کی پاکیزگی) اور لباس ومکان کی صفائی دونوں مرغوب و پسندیدہیں اس لیے ارشادفرمایا :

’’یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ‘‘[6]

’’ اے اولاد آدم! ہر نماز کے وقت خود کو سنوارو‘‘-

4:’’قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْٓ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِطقُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِطكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ‘‘[7]

’’تم فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کیلئے نکالی اور پاک رزق تم فرماؤ کہ وہ ایمان والوں کیلئے ہے دنیا میں اور قیامت میں تو خاص انہیں کی ہے ہم یونہی مفصل آیتیں بیان کرتے ہیں علم والوں کے لیے‘‘-

اسی آیت مبارک کی تفسیر میں علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:

’’سیدی رسول اللہ(ﷺ) کے صحابہ کرامؓ کا ایک گروہ دروازے پہ آپ (ﷺ) کا انتظار کر رہا تھا-آپ (ﷺ) ان سے (ملاقات کے) ارادہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور گھر میں ایک برتن تھا جس میں پانی تھا ،تو آپ (ﷺ) پانی میں دیکھنے لگے اور اپنی داڑھی مبارک اور اپنے بال مبارک درست کرنے لگے تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ)!کیاآپ (ﷺ) بھی یہ کررہے ہیں ؟تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’نَعَمْ إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى إِخْوَانِهِ فَلِيُهَيِّئْ مِنْ نَفْسِهِ فَإِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ‘‘

’’ہاں جب آدمی اپنے بھائیوں کے پاس جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو تیار کرے، کیونکہ اللہ عزوجل خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے-مزید حضرت خالد بن معدانؓ سے مروی ایک روایت مبارک نقل کرکے لکھتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) دوران سفر کنگھی، شیشہ، تیل، مسواک اور سُرمہ اپنے ساتھ رکھتے اور حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ایک روایت لکھتے ہیں کہ سید ی رسول اللہ (ﷺ) اکثر اپنے سرمبارک کو تیل لگاتے تھے‘‘- [8]

سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے معمولات مبارکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ مناویؒ لکھتے ہیں کہ:

’’وقد كان المصطفےٰ (ﷺ) يحافظ على النظافة وكان يربط على بطنه الحجر من الجوع ولا يترك الطيب‘‘[9]

’’تحقیق سید ی رسول اللہ (ﷺ )ہمیشہ صفائی کا خیال رکھتے تھے حالانکہ آپ (ﷺ)نے بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ مبارک پہ پتھر باندھتے تھے ا ورآپ (ﷺ) خوشبو بھی تر ک نہیں فرماتے تھے‘‘-

5:اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے دانتوں کی صفائی کے بارے میں ارشادفرمایا:

’’السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ‘‘[10]

’’مسواک کرنا منہ کی صفائی اور رب کی رضا ہے‘‘-

آپ (ﷺ) نے مزید ارشادفرمایا :

’’اگر مجھے امت پہ دُشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حکم فرماتا‘‘- [11]

6: کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ کی صفائی کے بارے میں رسول اللہ(ﷺ) کا ارشاد مبارک حضرت سلمانؓ سے مروی ہے کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:’’کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونا کھانے کی برکت ہے‘‘- [12]

7: اسلامی عقائد میں جو اہمیت توحید کی ہے وہی حیثیت عبادت میں طہارت کی ہے-یعنی جس طرح توحید کے بغیر کوئی عقیدہ اور عمل قبول نہیں ہو سکتا، ویسے ہی طہارت کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہو سکتی-جیساکہ تاجدارِ کائنات، سیدی رسول اللہ (ﷺ)  نے ارشادفرمایا:

’’لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ‘‘[13]

’’اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا‘‘-

آپ (ﷺ) نے مزید ارشاد فرمایا:

’’مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ‘‘[14]

’’طہارت نماز کی چابی ہے‘‘-

8:حضرت عبد اللہ بن بِشر مازنیؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد  فرمایا:

’’قُصُّوا أَظَافِيركُمْ وَادْفِنُوا قُلَامَاتكُمْ وَنَقُّوا بَرَاجِمَكُمْ وَنَظِّفُوا لِثَاتَكُمْ مِنَ الطَّعَامِ وَ تَسَنَّنُوا  وَلَا تَدْخُلُوا عَلَيَّ قُخْرًا بُخْرًا‘‘[15]

’’اپنے ناخن تراشو، ناخنوں کے تراشے دفن کردو، انگلیوں کے جوڑ صاف کرو،مسوڑھوں سے طعام کے ذرات صاف کرو،دانت صاف کرو اور میرے پاس گندہ اور بدبودار منہ لے کر نہ آیاکرو‘‘-

9: حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’اپنی وسعت وحیثیت کے بقدر پاک و صاف رہنے کا اہتمام کرو، کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کی بنیاد ہی نظافت پر رکھی ہے،اور جنت میں داخل ہی وہ شخص ہوگا جو پاک وصاف رہنے کا اہتمام کرتا ہو‘‘-[16]

10: حضرت انس بن مالکؓ سےمروی ہے، فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’غَسْلُ الإِنَاءِ وَطَهَارَةُ الْفِنَاءِ يُورِثَانِ الْغِنَى‘‘[17]

’’برتنوں اور گھروں کی صحن کی صفائی سےغنا ومال داری نصیب ہوتی ہے‘‘-

11: حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’اللہ عزوجل کی طرف سے ہرمسلمان پہ واجب ہے کہ وہ سات دن میں ایک دن غسل کرے‘‘-[18]

12:حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’ان اجسام کو پاک وصاف کرو،اللہ عزوجل تمہیں پاک کرے،کیونکہ کوئی بھی آدمی طہارت کی حالت میں رات گزارتا ہے ،تو ایک فرشتہ اس کے بالوں میں رات گزارتا ہے ،وہ رات کی جس گھڑی کروٹ بدلتا ہے تو وہ فرشتہ (اللہ عزوجل کی بارگاہ اقدس میں) عرض کرتا ہے ،یااللہ عزوجل اس بندے کو معاف فرمادے کیونکہ اس نے طہارت کی حالت میں رات گزاری ہے‘‘-[19]

13: سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’طہارت کی حالت میں سونے والا(یعنی باوضو سونے والا)ایسے ہے جیسے دن کو روزہ رکھنے والا اور رات کو قیام کرنے والا‘‘- [20]

14: حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ:

’’سیدی رسول اللہ (ﷺ) ہمارے پاس تشریف لائے،  آپ (ﷺ) نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے بال بکھرئے ہوئے تھے،آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اس کے پا س کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ا س کے بالوں کو درست کردے،پھرآپ (ﷺ) نے ایسے شخص کو دیکھا ،اس کے کپڑے بہت بوسیدہ ،میلے کچیلے تھے تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:اس آدمی کو ایسی چیز نہیں ملتی جس کے ساتھ یہ اپنے کپڑوں کو دھولے ‘‘-[21]

15:سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’بے شک تم اپنے بھائیوں کےپا س جاؤگے،پس تم اپنے لباس اچھے رکھنااور اپنی سواریوں کا خیال رکھنایہاں تک کہ تم لباس میں تل کی مانند ہو(یعنی جس طرح تل جسم پر واضح ہوتا ہے تم بھی لوگوں میں اتنے صاف سُتھرے رہو کہ تم سب سے الگ تھلگ نظر آؤ‘‘-[22]

16:اسلام کی انہیں تعلیمات کے پیش نظر صحابہ کرامؓ طہارت و پاکیزگی کا خوب اہتمام فرماتے تھے جس کی وجہ سے قرآن کریم مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف میں ارشاد فرمایا:

’’فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاط وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ‘‘[23]

’’ اس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں اور اللہ عزوجل صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘-

یہ آیت اہلِ مسجدِ قُبا کے حق میں نازِل ہوئی- سرکار دو عالَم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:اے گروہِ انصار اللہ عزوجل  نے تمہاری ثنا فرمائی تم وضو اور استنجے کے وقت کیا عمل کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ(ﷺ) ہم بڑا استنجا تین ڈھیلوں سے کرتے ہیں اس کے بعد پھر پانی سے طہارت کرتے ہیں‘‘-[24]

17:یہ بات ذہن نشین رہے!تکبر اور صاف سُتھرے لباس میں فرق ہے- جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جس کے دل میں رتی برابر تکبّر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا،ایک شخص نےعرض کیا،آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کا جوتا عمدہ ہو،آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے،تکبّر اپنی انانیت کی وجہ سے حق بات کو جھٹلانا اور دوسرے کو حقیر سمجھنے کا نام ہے‘‘-[25]

باطنی طہارت کی اہمیت وفضیلت:

حقیقی کامیابی کے لیے فقط ظاہر کی طہارت کافی نہیں ہے بلکہ باطن کی طہارت بھی لازمی ہے-کیونکہ اقرار باللسان، ایمان کیلئے کافی نہیں جب تک تصدیق بالقلب کا عمل جاری نہ ہو جائے تو ایمان کامل نہیں ہوتا-یہاں ذیل میں ظاہری احکاماتِ طہارت کی طرح باطنی طہارت کے بارے میں مرقوم فرامین مبارکہ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

1:جس طرح ظاہری اجسام مختلف بیماریوں (بخار، کھانسی، کینسر وغیرہ) کے شکار ہوتے ہیں،اسی طرح قلوب بھی مختلف بیماریوں (شرک، کفر، غرورتکبر،خود پسندی،کینہ، حسد ،نفاق، فتنہ ،تعصب اور ریاء وغیرہ) کی زدمیں آتے ہیں-جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نکتہ دل لگ جاتاہے ، پس جب اس گناہ سے باز آتا ہے اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کے دل کو صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ وہ دوبارہ گناہ کرے تو اس سیاہی میں اضافہ ہوتا جاتاہے یہاں تک کہ وہ سیاہی اس کے دل پہ چھا جاتی ہے اور یہی رَین یعنی وہ زنگ ہے جس کا ذکرفرماتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا :

’’ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ‘‘

’’ کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے‘‘-[26]

2: معاذ اللہ بعض اوقات بندہ ایسے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کے دل پہ ایسا پختہ نکتہ لگتا ہے جس کا مٹنا محا ل ہوتا ہے جیساکہ سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’مَنِ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينٍ كَاذِبَةٍ كَانَتْ نُكْتَةً سَوْدَاءَ فِي قَلْبِهِ لَا يُغَيِّرُهَا شَيْءٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ‘‘[27]

’’جس نے کسی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال چھین لیاتو اس کی وجہ سے اس کے دل پہ سیاہ نکتہ لگ جائے گا جس کو قیامت تک کوئی چیز نہیں مٹاسکے گی ‘‘-

3:بندہ مؤمن پہ لازم ہے کہ وہ اپنے اوپر استغفارکو لازم کرے اور بتقاضا بشریت سرزد ہونے والی خطاؤں کی مالک الملک کی بارگاہ اقدس سے معافی طلب کرتا رہے کیونکہ جیسے انسان کو کوئی ظاہری مرض لگتا ہے اور وہ بیماری کے خاتمے کی کوئی دوا اور تدبیر نہ کرے تو وہ مرض بڑھتا ہی رہتا ہے- بعض اوقات وہ لاعلاج ہوجاتا ہے اور موت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا- اسی طرح دل کا باطنی مرض بھی بغیر اصلاح اور بغیر علاج کے بڑھتا رہتا ہے- حتی کہ وہ مرضِ باطنی دل کو مکمل اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے- نتیجتاً وہ ہدایت سے خود کو دور کرلیتاہے-ایسے ہی دلوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

’’خَتَمَ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰی سَمْعِهِمْ ط وَعَلٰی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ‘‘[28]

’’اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے‘‘-

4:ا نسانی جسم میں دل کی حیثیت ایک حاکم کی ہے،ا س کی اصلاح پہ پورے جسم کی اصلاح کا دارومدار ہے اوراس کے فساد ہونے کی وجہ سے پورےجسم میں فساد پھیل جاتا ہے- جیسا کہ آقا کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ‘‘[29]

’’خبردار جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اور اگر وہ فاسد تو سارا جسم فاسد ہے خبردار وہ دل ہے‘‘-

5:یادرہے! حقیقت میں نابینا وہی ہے جو دل کا اندھا ہےجس کی بناء پہ انسا ن بصیرت کھو بیٹھتا ہے اور اشیاء میں اصل ونقل،پائیدار وناپائیدار،کھوٹے اور کھرے کی تمیز سے محروم ہوجاتا ہے- جیسا کہ اللہ ربُّ العزت نے ارشادفرمایا:

’’فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘‘[30]

’’تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘-

6:بلاشبہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ ربُّ العزت کےسامنے عیاں ہے اور ہرچیز اس کے تصر ف میں اورزیرِ تسلط ہے لیکن اپنے بندوں کے اعمال پہ جزا ء کی باری آتی ہے تو حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ، وَلَا إِلَى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ‘‘ [31]

’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اجسام اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے‘‘-

7: دل کو بھی ظاہری اعضاء کی طرح پاک کرنا پڑتا ہے یعنی جس طرح ظاہری اجسام پہ میل کچیل لگتی ہے تو اس کو صابن وغیرہ سے دھونے کا اہتمام کیاجاتا ہے ایسے ہی زنگ آلود دلوں کی صفائی اورطہارت نہایت ہی لازم ہے-سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے دل کے تصفیہ کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:

’’ہرچیزکوصاف کرنے والا کوئی نہ کوئی آلہ ہوتاہے اور دلوں کو صیقل کرنے کے لیے اللہ پاک کا ذکرہےاور اللہ عزوجل کے عذاب سے نجات دینے والی، اللہ عزوجل کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے-صحابہ کرامؓ نے عرض کیا! یارسول اللہ (ﷺ) اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ وہ اپنی تلوارسے جہاد کرے یہاں تک شہید ہوجائے (پھر بھی اللہ عزوجل کی بارگاہ اقدس میں عذابِ الٰہی سے نجات دینے والی ذکر  اللہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے) ‘‘-[32]

اس حدیث مبارک کی شرح میں ملاعلی قاریؒ لکھتے ہیں:

’’کیونکہ دل سے اللہ عزوجل کے ذکر کے ذریعے اغیار کا غبار اترتا ہے اور دل (انوارِ الٰہیہ) کے آثار کامطالعہ کرنے کا آئینہ بن جاتاہے‘‘- [33]

8: بندہ مومن کو ظاہر و باطن دونوں تقاضے پورے کرنا لازم ہیں-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ‘‘[34]

’’اور تم ظاہری اور باطنی (یعنی آشکار و پنہاں دونوں قسم کے) گناہ چھوڑ دو‘‘-

9:سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے باطنی بیماریوں کی نشاندہی اور اُن سے بچنے کی تلقین فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’آپس میں حسد نہ کرو ،بھاؤ پہ بھاؤ نہ کیاکرو(بیع پہ بیع نہ کرو)، آپس میں بغض نہ رکھو،آپس میں دشمنی نہ رکھواور نہ تم سے کوئی کسی کی خریدو فروخت کے معاہدہ پر معاہدہ کرے بلکہ اللہ کے بندو! سب ایک دوسرے کی بھائی بھائی بن جاؤ- مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے،نہ اس پر ظلم کرتاہے،نہ اسے ذلیل ورُسوا کرتا ہےاور نہ اسے حقیر جانتا ہے-تقویٰ یہاں (دل میں) ہے، آپ (ﷺ) نے اپنے سینہ مبارک کی طرف تین بار اشارہ فرمایا-(مزید ارشادفرمایا )ایک آدمی کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی مسلما ن کو حقیر جانے،ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون ،اس کامال اور اس کی عزت وآبرو حرام ہے‘‘- [35]

10:جسمانی پاکیزگی عبادت کیلئے بنیادی شرط ہے جب کہ دل کی پاکیزگی دخول جنت کی بنیادی شرط ہے- جیساکہ اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

’’ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَلا اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ‘‘[36]

’’جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت(بے عیب) دل لے کر)‘‘-

11: اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘[37]

’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا‘‘-

چونکہ حقیقی کامیابی کا دار و مدار بھی دل کی بینائی اور باطنی تزکیہ وتصفیہ پہ ہےاس لیے اللہ عزوجل نے قرآن میں 8 قسمیں کھانے کے بعد ارشادفرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا-وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا‘‘[38]

’’بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیااور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چُھپایا‘‘-

محی السنہ ابو محمد حسين بن مسعود البغویؒ ’’تفسیر معالم التنزیل‘‘ میں’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا‘‘ کی تفسیر میں حضرت امام حسن بصریؒ کا قول مبارک نقل فرماتے ہیں:

’’اس کا معنٰی یہ ہے بے شک وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیااور اس کی اصلاح کرلی اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر آمادہ کر لیا‘‘-

طہارت،صوفیاءکرام کی تعلیمات کی روشنی میں :

اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے- بلکہ آقا کریم (ﷺ) نے اس کو نصف ایمان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اَلطَّھُوْ رُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ‘‘[39]

 ’’طہارت و پاکیزگی نصف ایمان ہے ‘‘-

لیکن یاد رہے! اس صفائی کا ہرگز صرف یہ مطلب نہیں کہ آپ صر ف نہا دھوکر صاف لباس پہن لیں تو اس حدیث مبارک پہ عمل ہوجائے گا ،بلکہ اس کا لطیف مفہوم محی الدین سیدنا الشیخ عبدالقادرجیلانی الحسنی والحسینیؓ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ :

’’طہارت دوقسم کی ہے: (1)طہارتِ ظاہر جس کا تعلق شریعت سے ہے اور وہ پانی سے حاصل ہوتی ہے-(2) طہارت باطن جو توبہ،تلقین،تصفیۂ قلب اورسلوک طریقت سے حاصل ہوتی ہے-جب اخراج ِنجاست کے باعث شریعت کا وضو ٹوٹ جائے تو پانی سے تازہ وضو کرنا لازم ہو جاتا ہے- جیساکہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:’’جس نے وضوکو تازہ کیا، اللہ تعالیٰ نے اُس کے ایمان کو تازہ فرمایا‘‘-حضور نبی کریم (ﷺ) کا مزیدفرمان مبارک ہے: ’’وضو پر وضو نور پر نور  چڑھانا ہے‘‘-اسی طرح جب افعالِ بد اور اخلاقِ رزیلہ مثلاً بر و عُجب و حسد و کینہ و غیبت و بہتان و جھوٹ اور آنکھ و کان و ہاتھ و پاؤں کی خیانت سے باطنی وضو ٹوٹ جائے- جیسا کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’آنکھیں بھی زناکرتی ہیں‘‘- تو اس کی تجدید اِن مُفسدات سے سچی توبہ ،ندامت،استغفار اور ان اشتغال سے کرے کہ جن سے باطل کا قلع قمع ہو جائے-عارف پر لازم ہے کہ ان آفات سے اپنی توبہ کی حفاظت کرتا رہے تاکہ اس کی نماز کامل ہوجائے جیساکہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا :یہ وہ ہے کہ جس کا وعدہ تم میں سے ہررجوع کرنے والے اور نگہداشت کرنے والے سے کیاگیاتھا‘‘-ظاہری وضو کاوقت ہررات اور دن مقرر ہے لیکن باطنی وضو کاوقت عمرکی انتہا تک ہے اورعمر سے مراد دنیااور آخرت کی عمر ہے اورباطنی عمر کی کوئی انتہانہیں ،وہ بے انتہاہے ‘‘-[40]

سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھوؒ باطنی بیماریوں اور اُن کا علاج بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’سیدی رسول اللہ (ﷺ)کا فرمان مبارک ہے: ’’بے شک اولادِ آدم کے وجود میں دس قسم کی آگ بھری ہو ئی ہے یعنی شہوت کی آگ، حرص کی آگ، حسد کی آگ، نظر کی آگ، غفلت کی آگ، جہالت کی آگ، پیٹ کی آگ، زبان کی آگ، گناہوں کی آگ اور شرمگاہ کی آگ- شہوت کی آگ روزے کے بغیر نہیں بجھتی، حرص کی آگ ذکر ِموت کے بغیر نہیں بجھتی ، حسد کی آگ طہارتِ قلب کے بغیر نہیں بجھتی، نظر کی آگ ذکر ِقلب کے بغیر نہیں بجھتی، غفلت کی آگ ذکر اللہ کے بغیر نہیں بجھتی، جہالت کی آگ علم کے بغیر نہیں بجھتی، پیٹ کی آگ رزقِ حلال کے بغیر نہیں بجھتی، زبان کی آگ تلاوت ِقرآن کے بغیر نہیں بجھتی، گناہوں کی آگ توبہ و استغفار کے بغیر نہیں بجھتی اور شرمگاہ کی آگ نکاح کے بغیرنہیں بجھتی ‘‘-

قطعہ: ’’ایک مرد ِخدا دین و دنیا سے کیا کچھ حاصل کرسکتا ہے؟ ارے دنیا کو چھوڑ دے اور حرص و ہوا کو بھی چھوڑ دے کہ یہ ہر دو جہان کی روسیاہی ہے - ہاں مگر تُوروشن ضمیرونیک کرداربن جا ‘‘ -[41]

مزیدارشادفرمایا:

’’کلمہ طیب’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّ سُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا تعلق اِقرارِ زبان اور تصدیقِ قلب سے ہے اور اِسی کو اِیمانِ مطلق کہتے ہیں- کہو ! آمین - جان لے کہ کلمہ طیب کے چوبیس پاک و طیب حروف ہیں جن پر کوئی نقطہ نہیں ہے یعنی اُن پر دروغ و ستم و نفاق و تکبر و ہوا و طمع و رشوت و بغض و عجب و حسد وحرص و بخل و غیبت وغیرہ کا کوئی نقطہ نہیں ہے - اگر کوئی آدمی اِن ناشائستہ نقاط کو دل میں رکھ کر یہ کلمہ ٔ مجید پڑھتا ہے اور اُس کا ذکر اپنی زبان سے کرتا ہے تو اِس کے معنی بدل جاتے ہیں اور اِس سے زبان ہرگز پاک نہیں ہوتی اور نہ ہی دل صفائی پکڑتا ہے‘‘-[42]

ایک اور مقام پہ قلبی بیماریوں کی تعداد اور اُن  کا علاج اپنے ان الفاظ مبارکہ میں ارشادفرماتے ہیں:

’’اگر کوئی طالب چاہے کہ اپنے دل کو ان تمام وساوس شیطانی اور وہمات نفسانی سے پاک کر لے جو آدمی کے وجود میں ہزاراں ہزار آثا ر کی صورت میں موجود رہتے ہیں اور جن کی مجموعی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے اور ان کا رشتہ زنار رشتہ یہود و نصاریٰ سے سخت تر ہے اور اسی سبب سے اس کا دل سیاہ و مردہ و افسردہ رہتاہے تو مرشد کو چاہیے کہ ایسے طالب اللہ کو تصور اسم اللہ ذات کا حکم دے اور تفکر و توجہ سے طالب کے دل کے اردگرد حروف اسم اللہ ذات و حروف کلمہ طیبات لکھ دے کہ ان حروف کے لکھنے سے طالب کے وجود میں سر سے قدم تک انوار قرب و دیدار پروردگار کی ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے جو ان تمام بدکردار زناروں کو ایک ہی دم میں جلا ڈالتی ہے اور طالب اللہ طہارت دل اور تصدیق یقین کے ساتھ مسلمان حقیقی بن جاتاہے اور توحید و دیدار پروردگار میں غرق ہو کر کفر و شرک سے بیزار ہوجاتاہے- سن اے جان من! کہ مرشدوں او ر طالبوں کے لئے یہی ایک نکتہ ہی کافی ہے کہ تیرےبائیں پہلو میں نفس اور دائیں پہلومیں شیطان کا ڈیرہ ہے اور ان دونوں دشمنوں سے تیری جنگ چھڑی ہوئی ہے-پس جس شخص کے دونوں پہلوؤں میں مثل زخم تیر یا مثل درد خار ایسے دشمن ہر وقت موجود رہتے ہوں اور انہوں نے اس میں تباہی مچا رکھی ہو، اسے بھلا خواب و خوش وقتی سے کیا واسطہ؟ اے عقلمند! ہوش سے کام لے اور ہمیشہ یاد رکھ کہ موت کا کوئی بھروسہ نہیں، اسے بلا فرصت آنا ہے- پس طالب اللہ کو چاہیے کہ ہر وقت تصور اسم اللہ ذات میں مشغول رہے اور حروف اسم اللہ ذات سے پیدا ہونے والے شعلہ تجلی انوار میں غرق ہوکر اس شان سے مشرف دیدار پروردگار رہے کہ نہ اسے بہار بہشت یاد رہے اور نہ ہی نار جہنم‘‘-[43]

دیدارِ مصطفٰے (ﷺ) کے حصول کیلئے باطنی طہارت اولین شرط ہے- جیسا کہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’ظاہرکی دو آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے باطن کی ایک ہی آنکھ سے دیکھ کہ ظاہر کی آنکھیں تو بیل و گدھے بھی رکھتے ہیں ‘‘-باطنی آنکھ کے مشاہدے سے جب تجھے جان و دل کی طہارت نصیب ہو جائے گی تو تُو رُخِ مصطفٰے (ﷺ)کی زیارت بھی کرے گا‘‘ -[44]

حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

ان آیات اور روایات سے اہلِ بصیرت کویہ علم ہواکہ باطن کوپاک کرنا سب سے اہم ہے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان مبارک ’’طہارت نصف ایمان ہے‘‘ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ظاہر کو پانی بہاکر صاف سُتھرا کر لیا جائے جبکہ باطن بدستور پلیدیوں اورنجاستوں سے پراگندہ رہے-اس لیے کہ طہارت کے چار درجات ہیں:

  1. ظاہری بدن کو ناپاکیوں ،نجاستوں اور پاخانے وغیرہ سے پاک کرنا-
  2. اعضاءکو خطاؤں اور گناہوں سے پاک کرنا-
  3. دل کو بداخلاقی اورناپسندیدہ خصلتوں سے پاک رکھنا-
  4. باطن کو اللہ عزوجل کے سوا ہرچیز سے پاک کرنا-

آخرالذکر نبیوں اور صدیقوں کی طہارت ہے -

آپؒ مزیدارشادفرماتے ہیں کہ:

’’طہارت میں انتہائی مقصود یہ ہے کہ بندے پراللہ ربُّ العزت کی شانِ جلالت و عظمت ظاہر ہوجائے اور بندہ کو باطن میں اللہ عزوجل کی حقیقی معرفت اُس وقت تک ہرگزحاصل نہیں ہو سکتی جب تک ماسوی اللہ (اللہ عزوجل کے سوا ہرچیز) کو دیس نکالانہ مل جائے‘‘ - [45]

صوفیاءکرام ؓ کی مذکورہ وضاحت معلوم ہو ا کہ ظاہری و باطنی طہارت جُدا جُدا ہیں اور صرف ظا ہر نہیں بلکہ دونوں درجات پر پاکی نصف ایمان ہے- بدن اور کپڑے کی طہارت و پاکیزگی کی طرف تو سب لوگ متوجہ بھی ہوتے ہیں اور اس کیلئے کوشش بھی کرتے ہیں حالانکہ یہ تو آخری درجے کی پاکی ہے- اس میں توجہ اور انہماک کی وجہ یہ ہے کہ طہارت کی باقی اقسام سے یہ آسان ہے اور اس سے نفس خوشی اور آرام محسوس کرتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس ظاہری پاکی کو دیکھتے اور اسی سے اس کے زہد و پارسائی کا چرچا ہوتا ہے- اس وجہ سے یہ لوگوں کو آسان معلوم ہوتی ہے- لیکن جہاں تک حسد، ریا، حبِ دنیا سے دل کو پاک کرنے اور گناہوں سے بدن کو صاف کرنے کا تعلق ہے، اس میں نفس کا کچھ حصہ نہیں یعنی اس میں نفس کو لطف نہیں ملتا اور نہ ہی مخلوق کی نگاہ اس پر پڑتی ہے- یہ باتیں تو اللہ عزوجل دیکھتا ہے، مخلوق نہیں دیکھتی- یعنی عام لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے- اس لیے نہایت ضروری ہے کہ ظاہر و باطن کی طہارت کو اپنے اوپر لازم کیاجائے -

خلاصہ کلام :

اللہ عزوجل کے ظاہری اورباطنی طہارت کے احکام مرتب فرمانے کا مقصد انسان کو محض مشقت میں ڈالنا نہیں، بلکہ مقصد یہ ہے تاکہ بندہ ِ مومن کا ظاہر و باطن پاک اور صاف ہوکر اللہ عزوجل کے انوار و تجلیات کو اپنے اند ر سمیٹنے کے قابل ہوسکے جیساکہ اللہ عزوجل نے ایک مقام پہ اسی چیز کی نشاندہی فرماتے ہوئے ارشادفرمایا :

’’مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ‘‘[46]

’’اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے ہاں یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب ستھرا کردے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دے کہ کہیں تم احسان مانو‘‘-

اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم کو اپنے آخری نبی سیدی رسول اللہ (ﷺ)کے وسیلہ جلیلہ سے زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق کتاب وسنت کی شکل میں جو احکام اور ہدایات عنایت فرمائی ہیں-اگر حقیقی معنوں میں ان پر عمل پیرا ہوجائیں توہر فرد کا ظاہر و باطن، اس کا جسم و لباس، رہنے کی جگہ، گھر بار، گلی، محلہ، ماحول حتیٰ کہ پورا معاشرہ سب پاکیزگی کے مظہر بن جائیں گے-لیکن بات ذہن نشین رہے کہ اللہ عزوجل کی اپنے بندہ پہ یہ بہت بڑی پھٹکار ہے کہ اللہ عزوجل انسان کو قلبی بصیرت سے محروم کردے ،جیساکہ اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

’’اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْط لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌج وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘‘[47]

’’ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنے کااﷲ نے ارادہ (ہی) نہیں فرمایا-ان کے لیے دنیا میں (کفر کی) ذلّت ہے اور ان کیلئے آخرت میں بڑا عذاب ہے‘‘-

چونکہ تمام عبادات کا مقصد انسان کے دل  کی بیداری ہے  تاکہ انسان اپنی زندگی اور روزمرہ کے معاملات میں فیصلے اللہ رب العزت کو حاظر و ناظر جان کراپنے ضمیر کے مطابق کر سکے، ورنہ عبادت اپنے مقاصد سے خالی رہتی ہے- بقول علامہ محمداقبالؒ:

یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی دیا 'لا الٰہ' تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

اللہ عزوجل اپنے محبوب کریم (ﷺ) کے نعلین پاک کے وسیلہ جلیلہ سے ہم سب کو ظاہراً باطناً کامل طہارت عطا فرمائے –آمین!

٭٭٭


[1]ابن نجيم،زين الدين بن إبراهيم بن محمد (المتوفى: 970هـ)، البحرالرائق شرح کنزالدقائق(الناشر: دار الكتاب الإسلامی)، كِتَابُ الطَّهَارَةِ، ج:01،ص:07

[2]البقرۃ:222

[3]الحج:26

[4]حکیم الامت،احمد یار خآن نعیمی بدایونی(ؒ)،نورالعرفان،(پاکستان:نعیمی کتب خانہ گجرات،اگست،2013ء)، زیر آیت :الحج:26

[5]حقی(ؒ)، إسماعيل  بن مصطفٰے(ؒ)ٰ(المتوفى:1127هـ)، روح البیان،(بيروت: دار الفكر) ،الحج،زیرِآیت:26،ج:06،ص:26

[6]الاعراف:31

[7]الاعراف:32

[8]القرطبی، محمد بن أحمد (ؒ)، الجامع لأحكام القرآن-ایڈیشن دوم (القاهرة:دار الكتب المصرية-1384ھ)، زیر آیت: الاعراف:32، ج:07، ص:197-198

[9]المناوی ، محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علی(ؒ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير،(المكتبة التجارية الكبرى– مصر، الطبعة: الأولى، 1356)،باب،حرف التاء،ج:02،ص:165

[10]البخاری،محمدبن اسماعیل(ؒ)، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)، كِتَابُ الصَّوْمِ ،ج 03،ص:31

[11]ایضاً

[12]الطیالسی، سليمان بن داود،(المتوفى: 204هـ)،مسند أبي داود، الطبعة: الأولى، 1419ھ،(الناشر: دار هجر ، مصر)،باب، سَلْمَانُ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالیٰ،ج،2،ص:46

[13]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابُ الطَّهَارَةِ، ج،1،ص:203

[14]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،(بیروت:المكتبة العصرية، صيدا) كِتَاب الطَّهَارَةِ،ج،01،ص:16،رقم الحدیث:61

[15]القرطبي، محمد بن أحمد (ؒ)، الجامع لأحكام القرآن-ایڈیشن دوم (القاهرة:دارالكتب المصرية-1384ھ)، زیرآیت: البقرۃ: 124، ج:12، ص:102

[16]المناوی، محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علي (ؒ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير،(المكتبة التجارية الكبرى – مصر،الطبعة: الأولى، 1356)،باب،حرف التاء،ج،3،ص:270،رقم الحدیث:6234

[17]الذهبي، محمد بن أحمد بن عثمان(ؒ)،(المتوفى: 748هـ)، ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، (دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت، لبنان، الطبعة:  الأولى، 1382)،باب،علي بن محمد الزهری(ؒ)،ج:3،ص:155

[18]البخاری،محمدبن اسماعیل(ؒ)، الجامع الصحیح، ایڈیشن اولی، (دارالطوق النجاة-1422ھ)، كِتَابُ الجُمُعَةِ، ج:2، ص:5، رقم الحدیث:898

[19]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الأوسط،(دارالقاھرۃ،دارالحرمین)، بَابُ الْمِيمِ ،مَنِ اسْمُهُ،مُحَمَّدٌ ،رقم الحدیث:5087،ج: 5،ص:204

[20]المناوی، محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علي(ؒ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير،(المكتبة التجارية الكبرى– مصر، الطبعة: الأولى، 1356)،باب، حرف الطاء،ج،04،ص:288

[21]حاکم، محمد بن عبد اللہ (ؒ)، المستدرك على الصحيحين (بيروت، دار الكتب العلمية،1411ھ)، كِتَابُ اللِّبَاسِ، ج: 4، ص:206، رقم الحدیث:7380

[22]حاکم، محمد بن عبد اللہ (ؒ)، المستدرك على الصحيحين (بيروت، دار الكتب العلمية، 1411ھ)، كِتَابُ اللِّبَاسِ، ج: 4،ص:203، رقم الحدیث:7371

[23]التوبۃ:108

[24]صدرالافاضل،محمد نعیم الدین(ؒ) ،مُراد آبادی،خزائن العرفان،(پاکستان، تاج کمپنی لمیٹڈ،1989ء)،زیرآیت:التوبہ:108

[25]صحیح مسلم ،كِتَابُ الایمان ، ج:1،ص:93-رقم الحدیث:147

[26]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ھ) ، بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ،ج:5،ص:434- رقم الحدیث:3334

[27]حاکم،محمد بن عبداللہ(ؒ)، المستدرك على الصحيحين(بيروت ،دار الكتب العلمية 1411ھ)، كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ، ج: 4،ص:327-رقم الحدیث:7800

[28]البقرۃ:07

[29]البخاری،محمدبن اسماعیل(ؒ)، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دارالطوق النجاة-1422ھ)،کتاب الایمان، ج:1، ص:20، رقم الحدیث: 52

[30]الحج:46

[31] صحیح مسلم ،مسلم بن الحجاج، (بیروت،دار إحياء التراث العربي) كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ،ج:4،ص:1986

[32]ملا علي القاری، علي بن (سلطان) محمد(ؒ) (المتوفى: 1014هـ)، مرقاة المفاتيح (ا لناشر: دار الفكر، بيروت ۔لبنان)، بَابُ ذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّقَرُّبِ إِلَيْهِ،ج:04،ص:1560

[33]ایضاً

[34]الانعام:120

[35]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) ،كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ، ج:04،ص:1986

[36]الشعراء:88-89

[37]الاعلیٰ:14

[38]الشمس:9-10

[39]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابُ الطَّهَارَةِ، ج:1،ص:203

[40]الجیلانی(ؓ)،عبدالقادر،سرالاسرارفی مایحتاج الیہ الابرار ،سیدامیرخان نیازی،مترجم (لاہور:العارفین پبلی کیشنز،2003ء)،ص:133

[41]کلیدالتوحید(کلاں)

[42]محک الفقر(کلاں)

[43]شمس العارفین

[44]محک الفقر (کلاں)

[45]الغزالی(ؒ)، محمد بن محمدؒ،(المتوفى: 505هـ)، إحياء علوم الدين،(بیروت،دارالمعرفۃ)، كتاب أسرار الطهارة،ج: 1،ص:125۔126

[46]المائدہ:06

[47]المائدۃ:41

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر