شام و فلسطینی عرب سے اور دیگر نظمیں

شام و فلسطینی عرب سے اور دیگر نظمیں

شام و فلسطینی عرب سے اور دیگر نظمیں

مصنف: علامہ محمد اقبالؒ ستمبر 2014

جِس گھڑی وہ چلا

توسنِ وقت کی پیٹھ پر بیٹھ کر

تیغ اِک ہاتھ میں

دوسرے ہاتھ میں لے کے شاخِ شجر

جس گھڑی اس وطن کے در و بام میں

کنجِ زنداں کی حسرت بھری شام میں

وہ ہوائیں چلیں

جن میں شامل تھے اِمکان کے نامہ بَر

اُس گھڑی ’’منتھیٰ‘‘

اپنی خوشیوں کے چاندوں سے جھولی بھرے

سُوئے دشتِ فلک  ،  اپنے گھر سے چلی

یہ بتانے کہ اب زندگی کے ہر اِک کُہنہ انداز کی ہو چکی انتہا

یہ بتانے کہ اَب ہو رہی ہے نئے دَوْر کی اِبتدا

- - - - -

اُس کے کمرے میں اُس کی تھکی ماندی ماں

بے خیالی کی پھیلی ہوئی دھند کے درمیاں

اُس کی دَرسی کتابوں کے اَوْرَاق سے کھیلتی کھیلتی

خود کلامی میں تھی

’’میری نُورِ نظر

دُشمنوں کی نگاہیں بہت تیز ہیں

اُن سے کرنا حَذَر‘‘

اُس کا یہ وسوسہ بے حقیقت نہ تھا

واقعی اُس گھڑی  ،  خنجرِ بد گُہر

اُس کی نُورِ نظر کے تعاقُب میں تھا

اُس کے حُلقُوم پر تھی عُدو کی نظر

- - - - -

صُبح دَم جس گھڑی

اُس کے لاشے کے چہرے سے چادر ہٹی

تو گُلابوں کی مہکار وَحشی ہوئی

اور چادر تَلے سُرخ پھولوں کے دَستے ہویدا ہوئے

اور دَرسی کتابوں کے اَوْرَاق میں

جُرأت و آگہی کے وہ سارے سبق

جو کہ محذوف تھے  ،  پھر نمایاں ہوئے

بے ہنر اور سادہ ورق کی جبیں

اُن حدوں کی لکیروں سے روشن ہوئی

جن کا نقشہ عدو کے سیہ ہاتھ سے

پارا پارا ہوا

اُس کی چادر ، سکولوں میں پلتی ہوئی

نوجواں آرزوؤں کا پرچم بنی

جو کُھلا اور پھر

_____________________

از نظر تا نظر پھیلتا ہی گیا

ساحلی بستیوں کے فرازوں پہ چھاتا ہوا

تُند خُو شاہراہوں پہ  ،  بوجھل درختوں پہ  ،  سایہ بنا

کھڑکیوں میں  ،  گھروں کی چھتوں پر

دُکانوں کی شیلفوں پہ ظاہر ہوا

اور یوں ’’ مُنتھیٰ‘‘ دیکھتے دیکھتے

اونچے ساحل پہ بکھری ہوئی بستیوں کے در و بام پر

آسماں کی طرح خیمہ زَن ہو گئی

- - - - -

’’مُنتھیٰ‘‘ لاش ہے پر اِسے قتل کس نے کیا ؟  کب کیا؟

کون ہے جو کہے میں نے مارا اِسے

اِسے کون مصلُوب کرتا کہ جو

سُوئے دشتِ فلک

گھر سے نقشِ فنا لے کے رُخصت ہوئی

اپنی خوشیوں کے چاندوں سے جھولی بھرے

یہ بتانے کہ اب زندگی کے ہر اِک کُہنہ انداز کی ہو چکی انتہا

یہ بتانے کہ اَب ہو رہی ہے نئے دَوْر کی ابتدا  !!!

٭٭٭٭٭

انتخاب کنندہ : احمد القادری}

انتخاب از: عکس (جدید عربی نظموں کا اُردُو ترجمہ)امجد اِسلام امجد

بشکریہ : مجلس ترقی ئِ ادب ، لاہور 

{حکیم الاُمَّت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ

شام و فلسطین

رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت

پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلبؔ کا

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیّہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

مقصد ہے ملُوکیَّتِ انگلیس کا کچھ اور

قِصَّہ نہیں نارنج کا یا شھد و رَطَبْ کا

فلسطینی عرب سے

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجُود میں ہے

تِری دَوَا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہُود میں ہے

سُنا ہے میں نے غُلامی سے اُمّتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لَذّتِ نمُود میں ہے

(ضربِ کلیم )

شام کی سرحد سے رُخصت ہے وہ رندِ لم یزل

رکھ کے میخانے کے سارے قاعدے بالائے طاق

یہ اگر سچ ہے تو ہے کس درجہ عبرت کا مقام

رنگ اِک پَل میں بدَل جاتا ہے یہ نیلی رواق

حضرتِ کرزنؔ کو اب فکرِ مَداوا ہے ضرور

حکم برداری کے معدے میں ہے دردِ لایطاق

وفد ہندوستاں سے کرتے ہیں سرآغاخاں طلب

ہے نیا چورن پئے ہضمِ فلسطین و عراق

(بانگِ درا)

دَامِ تہذیب

جَلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ میرا دِل

تدبیر سے کھُلتا نہیں یہ عُقدۂ دُشوار

تُرکانِ ’جفاپیشہ‘ کے پنجے سے نکل کر

بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

(ضربِ کلیم)

{انتخاب کنندہ ، احمد القادری}

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر