شیخ الائمہ امام و کیع بن جراح الرواسی الکوفی ؒ

شیخ الائمہ امام و کیع بن جراح الرواسی الکوفی ؒ

شیخ الائمہ امام و کیع بن جراح الرواسی الکوفی ؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری مئی 2022

نام و نسب:

آپ کا نام وکیع ،کنیت ابوسفیان اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے وکیع بن جراح بن ملیح بن  عدی بن فرس بن جمجمہ بن سفیان بن حارث بن عمروبن عبید   بن رواس-[1]

ولادت و وطن :

آپ کی ولادت سن 129ھ کو کوفہ میں ہوئی جبکہ  بعض نے 128ھ کا قول کا بھی ذکر کیا ہے-[2]اُن کے آباءواجداد نیشاپور کی ایک بستی استوا کے رہنے والے تھے- آپ الرواسی اور الکوفی کی نسبتوں سے جانے جاتے ہیں- الرواسی اُن کو جداعلیٰ کی وجہ سے کہا جاتا ہے وہ حارث بن عمروبن  عبید بن رواس ہیں کیونکہ آپ کوفہ کے باشندہ تھے اس لیے اُن کو الکوفی بھی کہا جاتاہے -

تحصیل علم :

آپ نے تحصیل علم کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا- علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ:

’’واشتغل فی الصفر‘‘[3]

’’ وہ بچپن ہی سے علم میں مشغول ہوگئے ‘‘-

آپ نے کئی مرتبہ حج کیا تو احتمال ہے کہ آپ نے حرمین شریفین کے جید علماءسے استفادہ بھی کیا ہوگا- اس کے علاوہ آپ نے بغداد، بصرہ، شام، دمشق اور مصر کا بھی سفر اختیار کیا اور وہاں کے علماء ومشائخ سے اکتساب علم کیا- لیکن زیادہ تر کوفہ میں ہی رہ کر علم حاصل کیا کیونکہ کوفہ اُس وقت علم کا عظیم مرکز تھا اور امام ابوحنیفہ جیسی عظیم علمی شخصیت بھی کوفہ میں موجود تھی تو امام اعظم سے بھی اُن کو شرف تلمذ حاصل ہُوا ہے- یہی وجہ ہے کہ خطیب بغدادی امام یحیی بن معین کے حوالے سے فرماتے ہیں :

’’و یفتی بقول ابی حنیفۃ و کان سمع منہ شیئا کثیرا ‘‘[4]

’’وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر فتوٰی دیتے تھے اور انہوں نے امام اعظم سے بہت زیادہ اکتساب فیض کیا‘‘-

اسی چیز کے پیش نظر اُن کا شمار نامور حنفی علماء و محدثین میں ہوتا ہے -

اساتذہ :

آپ نے اپنے وقت کے نامور آئمہ فن سے اکتساب علم کیا اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:

’’ھشام بن عروہ، سلیمان الاعمش، اسماعیل بن ابی خالد ابن عون، ابن جریج، یونس بن ابی اسحاق، اسودبن شیبان، امام اوزاعی، جعفر بن برقان،  زکریا بن ابی زائدہ، طلحہ بن عمر والمکی، فضیل بن غزوان، حنظلہ بن ابی سفیان، ابان بن عبد اللہ البجلی، ابراھیم بن فضل المخرومی، اسماعیل بن رافع المدنی، اسماعیل بن سلیمان الازرق، افلح بن حمید، بدربن عثمان، بشیربن المھاجر، حریث بن ابی مطر، خالدبن طھمان، سعدبن اوس، سعید بن سائب، سعید بن عبید الطائی، سلمہ بن نبیط، طلحہ بن یحیی، ابن ابی لیلیٰ مسعربن حبیب، مسعر بن کھام، سفیان ثوری‘‘-[5]

تلامذہ:

امام صاحب سے نامور علماء و مشائخ اور آئمہ فن نے اکتساب فیض کیاہے- جن حضرات کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہُواہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

’’عبد اللہ بن مبارک، فضل بن موسیٰ، یحیی بن آدم، عبد الرحمٰن بن مھدی، امام حمیدی، امام مسدد، امام احمدبن حنبل، علی بن مدینی، یحیی بن معین، بنو ابی شیبہ، ابوخیثمہ، ابوکریب، ابن نمیر، ابو ھشام الرفاعی، عبد اللہ بن ھاشم الطوسی، احمدبن عبدالجبار ابراھیم بن عبداللہ عبسی‘‘-[6]

علمی مقام اور آئمہ فن کی توثیقات:

امام وکیع بن جراح علمی میدان کے عظیم شاہکار تھے وہ ایک مایہ ناز محدث تھے اُن کا شمار وقت کے نامور محدثین اور آئمہ فن میں ہوتا تھا- وہ ایک ایسی مسلمہ علمی شخصیت تھے کہ جن کے علم و فضل، حفظ وضبط اور ثقاہت و اتقان پر علمائے فن کا اتفاق ہے اور انہوں نے مختلف انداز میں اُن کی ثقاہت و علمی مقام کو بیان کیاہے اور اُن کی توثیق کی ہے- امام ابو یعلیٰ الخلیلی اُن کی ثقاہت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ابو سفیان وکیع بن جراح ثقۃامام متفق علیہ مخرج فی الصحیحین عارف بالحدیث حافظ‘‘[7]

’’ابو سفیان وکیع بن جراح ثقہ اور متفق علیہ امام ہیں اور صحیحین میں ان سے روایات لی گئی ہیں- وہ حدیث کے عارف اور حافظ تھے‘‘-

علامہ یوسف بن عبدالرحمن المز ی اُن کی علمی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’کان ثقۃ، مامونا، عالیا، رفیعا، کثیر الحدیث، حجۃ‘‘[8]

’’وہ ثقہ، مامون بلندرتبے والے، کثیر حدیث والے اور صاحب حجت امام تھے ‘‘-

یہی امام مزی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ امام عجلی نے ارشاد فرمایا :

’’کوفی ثقۃ، عابد  صالح، ادیب من حفاظ الحدیث‘‘[9]

’’وہ ایک ثقہ، عابد، صالح، ادیب اور حفاظِ حدیث میں سے  تھے ‘‘-

امام ابو حاتم، امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے وکیع بن جراح کے بارے پوچھا تو انہوں نے ارشاد فرمایا :

’’مارایت احدا اوعی العلم من وکیع بن جراح‘‘[10]

’’میں نے وکیع بن جراح سے زیادہ علم کو جمع کرنے والاکوئی نہیں دیکھا ‘‘-

امام یحیی بن معین اُن کی علمی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فر ماتے ہیں :

’’مارا یت افضل من وکیع بن الجراح قیل لہ ولا ابن مبارک قال قد کان لا بن مبارک فضل و لکن مارایت افضل من وکیع کان یستقبل القبلۃ ویحفظ حدیثہ‘‘[11]

’’میں نے وکیع بن جراح سے افضل کوئی نہیں دیکھا تو اُن کو کہا گیا کہ اُن سے ابن مبارک بھی افضل نہیں ہیں تو انہوں نے کہا کہ ابن مبارک کی اپنی ایک فضیلت ہے لیکن میں نے وکیع سے افضل کوئی نہیں دیکھا وہ قبلہ کی طرف منہ کرکے احادیث کو یاد کر تے تھے ‘‘-

یہی امام یحیی بن معین ایک اور مقام پر امام صاحب کی علمی شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’وکیع فی زمانہ کاالا وزاعی فی زمانہ ‘‘[12]

’’امام وکیع اپنے زمانے میں ایسے تھے جیسے امام اوزاعی اپنے زمانے میں تھے ‘‘-

حافظ احمد بن سہل النیشاپوری فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں امام احمد بن حنبل کے پاس حاضر ہُوا تو میں نے اُن سے سناوہ فرمارہے تھے :

’’کان وکیع امام المسلمین فی زمانہ ‘‘[13]

’’امام وکیع اپنے زمانہ میں امام المسلمین تھے ‘‘-

علامہ ابن عمارامام صاحب کا علمی مقام و مرتبہ کچھ اس اندازمیں بیا ن کرتے ہیں :

’’ماکان بالکوفۃ فی زمان وکیع بن الجراح افقہ ولا اعلم باالحدیث من وکیع‘‘[14]

کوفہ میں وکیع بن جراح کے زمانہ میں نہ اُن سے زیادہ فقیہہ اور نہ ہی اُن سے زیادہ حدیث کو جاننے والاتھا ‘‘-

امام عبد الرزاق علمی میدان میں اُن کی امتیازی شان کو بیان کر تے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’رایت الثوری و معمرا و مالکا فمارات عینای مثل وکیع قط‘‘[15]

’’میں نے امام ثوری، معمر اور امام مالک کو دیکھا لیکن میری آنکھوں نے وکیع جیسا نہیں دیکھا‘‘-

اسی علمی شان کے پیش نظر امام سفیان ثوری جو کہ امام صاحب کے شیوخ میں سے ہیں انہوں نے ایک دن امام وکیع کی آنکھوں میں دیکھا تو فرمایا :

’’لا یموت ھذالرواسی حتی لیکون لہ شان فمات سفیان وجلس وکیع مکانہ ‘‘[16]

’’یہ رواسی یعنی امام وکیع بن جراح نہیں فوت ہوگا یہاں تک کہ ان کی بڑی شان ہوگی تو جب سفیان ثوری کا وصال ہوا تو ان کی مسند پر امام وکیع جلوہ افروز ہوئے‘‘-

حفظ و ضبط میں مہارت :

امام وکیع بن جراح حفظ و ضبط میں  بھی کمال رکھتے تھے-آپ جب بھی حدیث کا سماع کرتے تو وہ تمام احادیث اُن کو فورًا یادہو جاتیں- انہیں سماع کے وقت احادیث کو ساتھ ساتھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی- امام یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ میں نے وکیع سے سنا، وہ فرماتے ہیں:

’’ماکتبت عن الثوری حدیثا قط کنت احفظہ فاذارجعت الی المنزل کتبتہ‘‘[17]

’’میں امام ثوری سے سماع کے وقت احادیث کو نہیں لکھتا تھا بلکہ انہیں یاد کر لیتا تھاجب میں اپنے گھر لوٹتا تو اُس وقت اُن کو لکھ لیتاتھا‘‘-

امام سفیان ثوری آپ کے کمال درجہ حفظ و ضبط پر تعجب کا بھی اظہار کرتے تھے- امام ابن عساکر فرماتے ہیں کہ:

’’ابھی آپ کا بچپن تھا کہ ایک دن امام ثوری نے اُن کو بلایا کہ اے رواسی اِدھر آؤ پھر پوچھتے کہ تو نے کونسی کونسی چیز سنی ہے تو امام وکیع نے جو کچھ سنا ہوتا وہ سارا سنادیتے تو امام ثوری مسکراتے اور اُن کے کمال حفظ پر تعجب کا اظہارفرماتے‘‘- [18]

اُن کے اسی کمالِ حافظہ کی وجہ سے امام اسحاق بن راہویہ فرماتے تھے:

’’حفظی و حفظ ابن المبارک تکلف و حفظ وکیع اصلی قام وکیع یوماقائماووضع یدہ علی الحائط و حدث سبع ما ۃ حدیث حفظا‘‘[19]

’’میرا اور ابن مبارک کا حفظ تو محض ایک تکلف ہے اصل حفظ تو امام وکیع کا ہے وہ ایک دن دیوار پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوئے اور 700 حدیثیں زبانی بیان کیں‘‘-

امام احمد بن حنبل سے یحیی بن سعید، عبد الرحمٰن بن مہدی اور امام وکیع کے بارے سوال کیاگیا تو آپ نے جواب ارشاد فر مایا کہ: امام وکیع اُن کا سردارہے -[20]

محمودبن آدم المروزی فرماتے ہیں کہ :

’’میں نے امام وکیع اور علامہ بشربن السری کو دیکھا کہ وہ ایک رات حدیث کے مذاکرہ میں شروع ہوئے اور مذاکرہ عشاء کی نماز سے صبح کی اذان تک جاری رہا تو میں نے بشربن السری سے پوچھا کہ آپ نے وکیع کو کیسے پایا -تو انہوں نے فر مایا:

’’مارایت احفظ منہ‘‘[21]

’’میں نے ان سے زیادہ حافظ نہیں دیکھا‘‘-

امام صاحب کے حفظ و ضبط کا یہ عالم تھا کہ خطیب بغدادی علامہ ابن عمار کے حوالہ سے فر ماتے ہیں کہ:

’’میں نے امام وکیع سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے 15 سال سے کتاب کو نہیں دیکھا ‘‘-[22]

یہی وجہ ہے کہ فیاض بن زہیر فرماتے ہیں:

’’ماراینا بید وکیع کتاباقط کان یقرامن حفظہ‘‘[23]

’’ہم نے وکیع کے ہاتھ میں کبھی کتاب نہیں دیکھی وہ زبانی قراءت کرتے تھے‘‘-

زہدو تقوی :

امام وکیع بن جراح زہد وتقوٰی جیسی دولت سے بھی مالا مال تھے- اللہ تعالیٰ نے اُن کو عبادت و ریاضت کے جذبہ اور شوق سے سرشار فرمایاتھا -قرآن مجید کی تلاوت اور نوافل کی کثرت آپ کا معمول تھا- اس لیے آپ کے اصحاب جو کہ تحصیل علم کی خاطر ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ:

’’امام صاحب اُس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک قرآن کا تہائی حصہ نہیں پڑھ لیتے تھے پھر رات کے آخری حصے میں کھڑے ہوتے اور قرآن مجید کی تلاوت اور استغفار میں  مصروف ہو جاتے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی پھر نمازفجر ادا فرماتے‘‘-[24]

اُن   کے صاحبزادے ابراہیم فرماتے ہیں :

’’کان ابی یصلی اللیل فلایبقی فی دارنا احد الاصلی حتی ان جاریۃ لنا سوداءلتصلی‘‘[25]

’’میرے باپ رات کو نماز پڑھتے تو اُن کی وجہ سے سارے گھروالے نماز پڑھتے یہاں تک کہ ہماری ایک لونڈی تھی، وہ بھی نماز پڑھتی ‘‘-

آپ نہایت ہی خشوع و خضوع والے تھے- احمد بن ابی الحواری فرماتے ہیں:

’’مارایت فیمن لقیت اخشع من وکیع‘‘[26]

’’میں نے جن لوگوں سے ملاقات کی ہے اُن میں سے کسی کو بھی امام وکیع سے بڑھ کر خشوع والا نہیں دیکھا‘‘-

آپ کی شخصیت نہایت پُر وقار اور آداب سے معمور تھی- علامہ ابو السائب سلم بن جنادہ فرماتے ہیں کہ:

’’میں 7سال وکیع کے پاس بیٹھا، نہ آپ کو تھوکتے ہوئے اور نہ ہی مجلس میں حرکت کرتے ہوئے دیکھا- آپ جب بھی بیٹھے تو قبلہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے ‘‘-[27]

علامہ فلاس فرماتے ہیں کہ:

’’میں نےامام وکیع کو کبھی بھی کسی کی برائی بیان کرتے ہوئے نہیں سنا‘‘-[28]

اسی زہدوتقوی اور ریاضت وعبادت کا اثر تھا کہ اُن کے چہرے پر نور تھا- ابوجعفرجمال فرماتے ہیں کہ:

’’ہم امام وکیع کے پاس آئے تو جب وہ ہمارے پاس تشریف لائے تواچانک ہم نے اُن پر نور دیکھاجواُن کے چہرے سے چھلک رہاتھا- تو میرے پہلو میں جو آدمی بیٹھا تھا اُس نے کہا کہ کیا یہ فرشتہ ہیں تو ہمیں اُن کے اس نور سے بڑاتعجب ہُوا‘‘-[29]

تصنیفات:

آپ ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مصنف بھی تھے- آپ نے تفسیر، حدیث، تاریخ اور زہد میں کتب تصنیف فرمائیں- اصحاب سیرنے آپ کی جن چند کتب کا ذکر کیا ہے- وہ درج ذیل ہیں :

v     تفسیر القران

v     کتاب السنن

v     کتاب المعرفۃ والتاریخ

v     کتاب الزھد

v     کتاب فضائل الصحابہ[30]

وفات :

آپ کا وصال محرم الحرام سن197ھ کو حج سے واپسی پر مقام فید میں ہُوا-[31]

٭٭٭


[1](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:141)

[2](ایضاً)

[3](ایضاً)

[4](تاریخ بغداد، جز:15، ص:647)

[5](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:141)

[6](ایضاً)

[7](الارشادفی معرفۃعلماءالحدیث، جز:2،  ص: 570)

[8]( تہذیب الکمال، جز: 30،  ص:482)

[9](ایضاً)

[10](الجرح و التعدیل، جز:1،  ص:220)

[11](تاریخ بغداد، جز:15، ص:647)

[12](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:147)

[13](ایضاً)

[14](تاریخ بغداد، جز:15، ص:647)

[15](تاریخ الاسلام، جز: 13،  ص:441)

[16](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:147)

[17](تاریخ بغداد، جز:15، ص:647)

[18]( تاریخ دمشق، جز: 63،  ص:67)

[19](الجرح و التعدیل، جز:1،  ص:220)

[20](ایضاً)

[21](ایضاً)

[22](تاریخ بغداد، جز:15، ص:647)

[23]( الثقات، جز: 7 ،  ص:562)

[24](تاریخ بغداد، جز:15، ص:647)

[25](ایضاً)

[26](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:148)

[27]( تہذیب الکمال، جز: 30،  ص:482)

[28](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:157)

[29](ایضاً)

[30](سیر اعلام النبلاء، جز:8، ص:117)

[31]( تاریخ دمشق ، جز: 63،  ص:61)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر