سیدناعباس بن عبدالمطلب ؓ

سیدناعباس بن عبدالمطلب ؓ

سیدناعباس بن عبدالمطلب ؓ

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری مئی 2021

آقا کریم(ﷺ) کے قرابت داروں میں جن لوگوں کے دلوں میں رب تعالیٰ کی بندگی کا ذوق راسخ ہوا انہوں نے محبتِ رسول (ﷺ) سے سرشار ہو کر ترک و توکل اختیار کرتے ہوئے دین اسلام کی نصرت میں بھرپور حصہ لیا-آقا کریم (ﷺ) کی صحبت نے ان کو نئی فکر اور ایسے اصول و ضوابط سے آشنا کیا جس کے مطابق زندگی گزار کر وہ لوگ فقید المثال بن گئے - ان شریف النسب و اعلیٰ حسب لوگوں میں خاتَم المہاجرین، حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب ؓ کی ذاتِ اقدس ایک منفرد ونمایاں مقام رکھتی ہے- آپ ؓ سرور کائنات (ﷺ) کے عم بزرگوار (محبوب چچا ) ہیں- آپ ؓ کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام ؓ  میں ہوتا ہے -

اسم مبارک و کنیت:

آپؓ کا اسم گرامی عباس بن عبدالمُطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہے-آپ ؓکی کنیت ابو الفضل ہے- [1]

ولادت باسعادت وبچپن:

حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓعام الفیل سے تین سال پہلے پیدا ہوئے -[2] آپ ؓ آقا کریم (ﷺ) سے تین سال بڑے ہیں- مغیرہ بن ابی رزین ؓ فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓسے پوچھا گیا کہ آپ ؓ بڑے ہیں یا حضور نبی کریم (ﷺ) ؟آپ ؓنے فرمایا:عمر میری زیادہ ہے لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) مجھ سے بڑے ہیں ‘‘- [3]

آپ ؓ کے بچپن کے بارے میں ایک روایت منقول ہےکہ:

’’حضرت عباس ؓ بچپن میں لاپتہ ہو گئے؛ آپ ؓ کی والدہ ماجدہ’’نَتِيلَةُ بِنْتُ جَنَابٍ‘‘[4]نے منت مانی کہ انہیں حضرت عباس ؓ مل جائیں تو بیت اللہ شریف کو لباس پہنائیں گی- جب آپ ؓ مل گئے تو آپ ؓ کی والدہ نے نذر پوری کی- یوں آپ ؓ کی والدہ ماجدہ وہ پہلی عربی خاتون ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کعبۃ اللہ پر ریشمی پردے لٹکائے اور مختلف اقسام کے قیمتی کپڑوں (حریر و دیباج ) سے بیت اللہ شریف کو مزین کیا ‘‘ -[5]

آپ ؓ کی حیاتِ مبارکہ کے ابتدائی حالات :

آپ ؓ دراز قد، سفید رنگ والے، بہت خوبصورت تھے-[6] اللہ پاک نے آپؓ کو حسن و جمال سے نوازا تھا یہی وجہ ہے کہ اہل قریش نے آپ ؓ کے علم، شجاعت، سخاوت، سیادت اور خاندانی صلہ رحمی دیکھ کر آپ ؓ کو بیت اللہ شریف کا محافظ منتخب کیا - جیسا کہ ابو عمر یوسف بن عبداللہ القرطبی ؓ رقم طراز ہیں کہ:

’’ حضرت عباس ؓ مکہ کے سردار اور بہت بڑے رئیس تھے- آپ ؓ کی اطاعت کی جاتی تھی مسجد حرام کی تعمیر اور آب زم زم کے پلانے کا اہتمام آپ ؓ کے سپرد تھا-بیت اللہ شریف کی تعمیر اس لیے آپ ؓ کے سپرد ہوئی کیونکہ آپ ؓاخلاق حسنہ کے مالک تھے اور کعبۃ اللہ کی حرمت کا اس قدر پاس تھا کہ تعمیر کے وقت فضول گفتگو نہ فرماتے تھے- نیز آپ ؓ کے احسن نظم کو دیکھ کر قریش نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ یہ کام صرف حضرت عباس ؓ ہی سر انجام دیں گے اور قریش آپ ؓ کے معاون و مددگار ہوں گے‘‘-[7]

قبول اسلام:

بلاشبہ تاجدارِ انبیاء (ﷺ) کے معجزات کا اظہار تخلیقِ کائنات سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا اور ہر دور میں آپ (ﷺ) کا نورنبوت اپنی تابانیاں دیکھاتارہا،اس لیے اللہ پاک نے اہل کتاب کے بارے میں ارشادفرمایا:

’’یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ‘‘[8]

’’وہ اس نبی (ﷺ) کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے آدمی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے‘‘-

اسی طرح مکہ والوں پہ بھی آپ (ﷺ) کے اوصافِ حمیدہ کسی طرح بھی مخفی نہ تھے- امام بیہقیؒ نے روایت فرمایا کہ حضرت عباس ؓ  عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہ!(ﷺ) مجھے تو آپ (ﷺ) کی نبوت کی نشانیوں نے آپ (ﷺ) کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی-مَیں نے دیکھا کہ آپ (ﷺ) بچپن میں گہوارے میں چاند سے باتیں فرماتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ فرماتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آوازکو سنا کرتا تھا-[9]

آپ ؓ کے باقاعدہ اظہارِ اسلام کے بارے میں امام شمس الدين محمد بن احمد ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’جب حضرت عباس ؓ سے فدیے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ ؓ نے عرض کی میرے پاس تو کوئی رقم نہیں حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ چچا! وہ مال کہاں ہے جو مکہ میں (جنگ کے لیے روانہ ہوتے وقت ) چچی اُم فضل کو دے آئے ہو ( اس میں سے فدیے کی رقم ادا کر دو) -آپ ؓ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ (ﷺ) کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا اور بے شک میں ضرور جانتا ہوں کہ آپ (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول (ﷺ)ہیں ‘‘-[10]

فضائل ومناقب:

آقا کریم (ﷺ) نے حضرت عباس ؓ کے فضائل و مناقب میں کثیر ارشادات فرمائے جن میں آپؓ کو بشارتوں اور دعاؤں سے نوازا ہے -ان میں کچھ فرامین مبارکہ پیش کرتے ہیں :

1- حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’عباس مجھ سے ہیں اور میں عباس سے ہوں‘‘-[11]

2-حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ سےمروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی:

’’یا رسول اللہ(ﷺ)! جب قریش آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں )حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں:حضور نبی کریم (ﷺ) یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور ارشادفرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کےدل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) اور میری قرابت کی خاطر آپ سے محبت نہ کرے ‘‘-[12]

3-حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ :

’’رسول اللہ (ﷺ) حضرت عباس ؓ کا احترام ایسے کیا کرتے تھے جیسے کوئی بیٹا اپنے باپ کا احترام کرتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) ان کو یہ تخصیص اس لیے دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو لوگوں میں سے خاص کیا تھا‘‘-[13]

4-حضرت ابو رافعؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت عباس ؓ سے ارشاد فرمایا :

’’اے ابو الفضل آپ کو اللہ تعالیٰ کی اتنی رحمتیں ملیں گی حتٰی کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘-[14]

5-حضرت ابو ہریرہ  ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) باہر تشریف لے گئے آپ (ﷺ) حضرت عباس ؓ سے ملے اور ارشاد فرمایا:

’’کیا میں آپ کو خوشخبری نہ سناؤں، آپ ؓ نے عرض کی ہاں کیوں نہیں! رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ سے اس کام (حکومت و سلطنت )کی ابتدا فرمائی اور آپ کی اولاد پر اس کو ختم فرمائے گا‘‘-[15]

آقا کریم () سے آپ ؓ کا اظہارِ عقیدت:

حضور نبی کریم (ﷺ) سے آپ ؓ کے تعلق و نسبت کے بے شمار واقعات کتب احادیث میں مذکور ہیں یہاں صرف ایک روایت رقم کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں- خریم بن اوس بن حارثہ بن لام ؓ فرماتے ہیں:

’’ رسول اللہ (ﷺ) جب تبوک سے واپس لوٹے میں آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اسلام لے آیا، میں نے سنا کہ حضرت عباس بن عبد المطلب ؓکہہ رہے تھے:یا رسول اللہ (ﷺ) میں آپ (ﷺ) کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کو کبھی خالی نہ کرے ( یعنی آپ (ﷺ)نے اجازت فرمائی ) ‘‘-

پھر آپ ؓنے حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان میں اشعار پڑھے -

تنقل من صالب الٰی رحم
اذا مضٰی عالم بدا طبق

’’آپ (ﷺ )پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتے رہے زمانہ گزرتا رہا اور صدیا ں بیت گئیں‘‘-

 حتٰی احتوٰی بیتک المھیمن من
خندف علیاء تحتھا النطق

’’آپ (ﷺ ) کی شرافت جو کہ آپ کے فضل وکمال پر شاہد ہے بڑے بڑے خاندانوں پر غالب آ گئی کہ باقی تمام خاندان اس بلند مرتبہ کے نیچے ہیں‘‘-

و انت لما و لدت اشرقت الارض
 و ضاءت بنورک الافق

’’جب آپ( ﷺ) کی ولادت با سعادت ہوئی تو زمین روشن ہو گئی اور آپ(ﷺ ) کے نور سے آسمان چمک اٹھا‘‘-

فنحن فی ذٰ لک الضیاء و فی النور
و سبل الرشاد نخترق[16]

’’ہم اسی نور اور اس کی روشنی میں نیکی کے راستوں میں چلتے ہیں‘‘-

علمی و فقہی مقام :

حافظ صفی الدین احمد بن عبدا للہ الخزرجیؒ لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ سے 35 احادیث مروی ہیں جن میں سے ایک حدیث پر امام بخاری و امام مسلمؒ متفق ہیں؛ اور امام بخاریؒ ایک حدیث کے ساتھ اور امام مسلمؒ تین حدیثوں کے ساتھ منفرد ہیں‘‘- [17]

صحابہ کرامؓ کی نظر میں

حضرت عباس ؓ کا مقام :

صحابہ کرامؓ آپ ؓ کا بے حد ادب و احترام کرتے اور اپنی ذات پر آپ ؓ کو فضیلت دیتے تھے -بوجہ اختصار ذیل میں صرف دو روایات پر اکتفاء کرتے ہیں:

1-ابن ابی الزِناد ؓ فرماتے ہیں کہ:

’’جب حضرت عباس ؓ حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے پاس سے گزرتے تو وہ (دونوں) اپنی سواری سے نیچے اتر آتے یہاں تک کہ آپ ؓ ان کے پاس سے گزر جاتے اس حال میں کہ آپ (دونوں) رسول اللہ (ﷺ) کے چچا کی تعظیم کرتے‘‘- [18]

2-عز الدین ابن الاثیرؓ لکھتے ہیں کہ:

’’صحابہ کرامؓ حضرت عباس ؓ کو آپؓ کی فضیلت کی وجہ سے پہچانتے، ہمیشہ مقدم رکھتے، مشورہ فرماتے اور آپ ؓ سے رائے لیتے تھے ‘‘- [19]

حضرت عباس ؓ کے وسیلے سے بارانِ رحمت ہوئی :

’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ:

’’جب لوگوں پہ قحط پڑا تو حضرت عمر بن خطاب ؓ  نے حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ کے وسیلے سے بارش طلب فرمائی اور آپ ؓ نے عرض کی: اے اللہ بے شک ہم تیر ی بارگاہ ِ اقدس میں اپنے نبی مکرم (ﷺ) کا وسیلہ پیش کرتے  تھے پس تُو ہم پر بارش نازل فرماتا تھا اور اب ہم تیر ی طرف اپنے نبی پاک (ﷺ) کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں سو تو ہم پر بارش نازل فرما، راوی فرماتے پھران پر بارش نازل ہوتی ‘‘-[20]

مزید روایات مبارکہ میں:

’’جب حضرت عباس ؓ نے بھی بارش کے لیے دعا فرمائی تو اسی وقت اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ گھٹنوں گھٹنوں تک پانی میں چلتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آئے اور لوگ (جذبہ عقیدت اور جوش مسرت) سے آپ ؓکی چادر مبارک کو چومنے لگے اور کچھ لوگ آپ ؓ کے جسم مبارک پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے‘‘-

امام بخاری روایت فرماتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت ؓنے جو بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) کے منظورِ نظر شاعر تھے اس واقعہ کا ذکر اپنے اشعار میں یوں فرماتے ہیں:

سئل الامام و قد تتابع جدتنا
 فسقٰی الغمام بغرۃ العباس
 احیی الا لہ بہ البلاد فاصب
 مخضرۃ الاجناب بعد الیاس[21]

’’امیر المؤمنینؓ نے اس حالت میں دعا مانگی کہ لگاتار کئی سال سے قحط پڑا ہوا تھا تو بادل نے حضرت عباس ؓکی روشن پیشانی کے طفیل میں سب کو سیراب کر دیا- معبود برحق نے اس بارش سے تمام شہروں کو زندگی عطا فرمائی اور نا امیدی کے بعد تمام شہروں کے اطراف ہرے بھرے ہو گئے‘‘-

ایمان افروز واقعہ:

عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم ؓاپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ سے  کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ہم مسجد کی توسیع کرنا چاہتے ہیں اور آپ ؓ کا گھر مسجد کے قریب ہے -اس لیے آپ ؓ اپنا گھر ہمیں دے دیجیے ہم مسجد کی توسیع میں اس کو شامل کر لیں گے اور اس کے بدلے میں آپ ؓ کو اس سے بھی زیادہ وسیع گھر دیتے ہیں- حضرت عباس ؓ نے منع کر دیا- حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (اگر آپ ؓنے رضا مندی کے ساتھ یہ مکان ہمیں نہ دیا تو ) ہم آپ سےیہ مکان لے لیں گے-حضرت عباس ؓنے فرمایا:آپؓ کو یہ حق نہیں پہنچتا، یہ لوگ حضرت حذیفہ ؓ کے پاس آئے اور ان کو پورا معاملہ سنایا-حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: اس سلسلے میں میرے پاس ایک حدیث موجود ہے -انہوں نے پوچھا : وہ کیا ؟ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: جب حضرت داؤد ؑ نے بیت المقدس کی توسیع کرنا چاہی اور مسجد کے قریب جو مکان تھا وہ ایک یتیم کا تھا- حضرت داؤد ؑ نے وہ مکان مانگا لیکن اس نے دینے سے انکار کر دیا، حضرت داؤد ؑ اس سے وہ مکان لینا چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ میرے گھر کو دوسروں کے گھروں پر ناانصافی سے بچایا جائے تو حضرت داؤدؑ نے وہ ارادہ ترک فرما دیا-حضرت عباس ؓنے حضرت عمرؓ سے کہا: کیا اب بھی کوئی بات باقی رہ گئی ہے؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا:نہیں- راوی کہتے ہیں: پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ مسجد میں آئے، حضرت عباس ؓ کے پرنالے کا رخ مسجد نبوی (ﷺ) کی جانب تھا اور بارش کا پانی اس کے ذریعے مسجد میں گرتا تھا -حضرت عمر ؓ نے وہ پرنالہ اکھیڑ ڈالا اور کہا کہ یہ پرنالہ رسول اللہ (ﷺ) کی مسجد میں نہیں گر سکتا-حضرت عباس ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد (ﷺ) کو حق کے ساتھ بھیجا ہے حضور نبی کریم (ﷺ) نے بذات خود یہ پرنالہ اسی مقام پر رکھا تھا اور اے عمر ؓ آپ نے (رسول اللہ (ﷺ) کا لگایا ہوا پرنالہ) اکھیڑ دیا ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا اب آپ ؓ اپنے پاؤں میری گردن پر رکھ کر چڑھ جائیے اور یہ پرنالہ جہاں پر تھا وہاں لگا دیجیے- حضرت عباس ؓ نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا میں نے یہ مکان آپ ؓکو دیا- آپ مسجد نبوی (ﷺ) شریف کی توسیع کر لیں تب حضرت عمر ؓ نے ان کا مکان مسجد میں شامل کر لیا اور آپ ؓ کو اس کے بدلے مقام زوراء پہ ایک وسیع و عریض مکان دیا‘‘- [22]

اس واقعہ کے بنظر غائر مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کس قدر حضورنبی کریم(ﷺ) کی ذات بابرکات سے والہانہ محبت وعشق کرتے تھے اوران کے قلوب و اذہان میں کس قدر آپ (ﷺ) کے فرامین مبارکہ کا پاس و لحاظ تھا کہ حضرت عمرفاروق ؓ باوجود امیرالمؤمنین ہونے کے جب آپ ؓ کو ایک حدیث مبارک کاحوالہ پیش کیا جاتا ہے تو وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیتے ہیں اور پرنالہ اکھیڑنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ اس کو تو میرے لجپال آقا (ﷺ)نے اپنے دستِ اقدس سے نصب فرمایاتھاتو حضرت عباس ؓکو اپنے کندھوں پہ سوار کرکے دوبارہ اسی جگہ پہ لگواتے ہیں جہاں تاجدارِ مدینہ، سرور انبیاء (ﷺ) نے نصب فرمایاتھا-

ازواج و اولاد :

آپ ؓ کی ازواج میں’’حضرت اُم فضل ’’لُبَابَةَ بِنْتِ الْحَارِث‘‘ اور ’’حُجَيْلَةُ بِنْتُ جُنْدُب‘‘ شامل ہیں - [23]

بیٹیوں کےعلاوہ آپ ؓکے دس بیٹے تھے جن میں حارث، عبداللہ، عبیداللہ، عبدالرحمٰن، عون، فضل، قثم، کثیر اورمعبدؓ شامل ہیں - [24]

وصال باکمال نماز جنازہ او رمزار پرانوار:

’’علی بن عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عباس ؓنے اپنے وصال کے وقت 70 غلام آزاد کیے- [25]

’’آپؓنے مدینہ منورہ میں جمعہ کے روز 88 سال کی عمر میں 12رجب 32ھ کو وصال مبارک فرمایا - [26]

’’امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنی ؓنے آپ ؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ ؓکا مزار پر انوار جنت البقیع مدینہ منورہ میں مرجع خلائق ہے - [27]

حرفِ آخر:

جن خوش نصیب اہل ایمان کے دلوں میں حضور نبی کریم (ﷺ)، اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام ؓ کی والہانہ محبت کے جذبات فروغ پا جاتے ہیں ان کے دل احکام خداوندی کی تابعداری کے لیے بے اختیار ہو کر جذبہ روحانی سے معمور ہو جاتے ہیں-مقصود ایمان وایقان اور آج کی اشد ضرورت بھی یہی ہے کہ آقا کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام ؓ کے تذکرے عا م کر کے ان کی عزت و تکریم کے نقوش قلب پر ثبت کیے جائیں، ان کی تعلیمات اور طریق کو اپنی زندگی میں نمونہ عمل بنائیں تاکہ عصر حاضر کی مادی فکر کو قرون اولیٰ کے روحانی جذبے پر فوقیت کے تصورات دلوں میں جاگزیں ہوں- آج جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے پرچم کے سائے میں اس روحانی و فکری اصلاح کو فروغ دیا جا رہا ہے جس میں محبتِ اہل بیت و صحابہ کرامؓ کی تعلیمات دی جا رہی ہیں اور اسلاف کی پیروی میں فقر محمدی (ﷺ) کی تربیت دی جا رہی ہے جس سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں-مالک پاک ہمارے قلوب و اذہان کو معرفتِ الٰہی کی توفیق نصیب فرمائے- آمین!

٭٭٭


[1]( جامع الاصول ،باب العباس بن عبد المطلبؓ)

[2]( صفۃ الصفوۃ،باب العباس بن عبد المطلبؓ)

[3](مصنف ابن ابی شیبہ،باب،کتاب التاریخ)

[4](فتح الباری لابن حجر،باب قولہ کسوۃ الکعبۃ)

[5](مرقاۃ المفاتیح:باب مناقب اہل بیتؓ)

[6](البدایہ و النھایہ، باب:ذکر عباس بن عبدالمطلبؓ)

[7](الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،باب عباس بن عبد المطلبؓ)

[8](البقرۃ:147)

[9](دلائل النبوة للبیہقی، باب: ما جاءنی حفظہ اللہ تعالیٰ رسولہ(ﷺ)

[10](سیر اعلام النبلاء،باب العباس عم رسول اللہ (ﷺ)

[11](سنن الترمذی: رقم الحدیث:3759، الناشر :شرکہ مصطفٰے البابی الحلبی مصر)

[12](النسائی فی السنن الکبرٰی، باب عباس بن عبد المطلبؓ)

[13]( اتحاف المھرۃ لابن حجر ، باب کریب بن ابی مسلم مولی ابن عباس)

[14](المستدرک الحاکم،باب:ذکر اسلام العباسؓ)

[15]( حلیۃ الاولیاء و طبقات الاولیاء ،باب عبداللہ بن عباس)

[16](المستدرک الحاکم، باب:ذکر اسلام العباسؓ)

[17](خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال، باب من اسمہ عباس)

[18](سیر اعلام النبلاء، باب العباس عم رسول اللہ (ﷺ)

[19](اسد الغابہ الفکر، باب عباس بن عبد المطلبؓ)

[20](صحیح البخاری،کتاب المناقب)

[21](صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی (ﷺ)

[22](وفاء الوفاء باخبار دار المصطفٰے ،باب بین عمر و العباسؓ)

[23](تلقیح فھو اھل الاثر، باب مسطح بن اثاثہ)

[24](تاریخ ابن کثیر،ذکر عباس بن عبدالمطلبؓ )

[25](تاریخِ دمشق، باب: العباس بن عبدالمطلب ؓ)

[26](البدایہ و النھایہ، باب ذکرعباس بن عبد المطلبؓ)

[27](سیر اعلام النبلاء، باب: العباس عم رسول اللہ (ﷺ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر