منزل مقصود : سفر ابھی باقی ہے

منزل مقصود : سفر ابھی باقی ہے

منزل مقصود : سفر ابھی باقی ہے

مصنف: محمد ذیشان دانش اگست 2022

بنگال کے ہندوں کو یہ منظور نہ تھا کہ ان کی اجارہ داری کسی بھی لمحہ اورکسی بھی جگہ پر کمزور ہو، ان کے علاوہ کوئی بنگال میں پنپ سکے، خوشحال ہو سکے، اپنی آواز کو توانا کر سکے، تاج برطانیہ کے زیر اہتمام برٹش انڈیا کے صوبے بنگال کو 1905ء انتظامی بنیادوں پر مشرقی بنگال اور مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا گیا، یہ تقسیم مسلمانوں کے لئے خوشگوار ہوا کا جھونکا تھی کیونکہ مسلمان مشرقی بنگال میں اکثریت میں تھے یہ تقسیم مسلمانوں کو معاشی، سماجی، سیاسی اور دیگر کئی اعتبار سے خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے کے مواقع فراہم کرنے کی سبیل تھی- ہندوں نے تقسیم بنگال کی مخالفت شروع کر دی اور ہرحربہ آزمایا جس سے تقسیم بنگال کی تنسیخ ہو جائے- پچھلے کئی برسوں سے ریلوئے اسٹیشنوں پر بکتے ہندو پانی اور مسلم پانی نے عالمی دو قومی نظریہ کا رنگ واضح کر دیا تھا لیکن اسے ایک تحریک بننے کے لئے ابھی وقت باقی تھا تقسیم بنگال کا مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت بننے میں اہم نفسیاتی کردار ہے-

تقسیم بنگال کے فورًا بعدہندو ردعمل کے نتیجے اور ماضی قریب میں مسلمانوں کی حالت زار کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم عمائدین نے1906ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور ترقی تھا- 1911ء  میں ہندوں کے مسلسل مظاہرے، سول نافرمانی کی تحریک، بلوئے، لابنگ جیسے اقدامات اور دباؤ کے آگے حکومت گھٹنے ٹیک گئی اور تقسیم بنگال کی تنسیخ ہو گئی ہندو اشرافیہ نے خوشی کے شادیانے بجائے جبکہ مسلمانوں میں مایوسی کی سی صورتحال تھی-

1906ء میں قائم ہوئی مسلم لیگ کے ابھی تک چار سالانہ اجلاس ہو چکے تھے اورمسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور ترقی کا علم تھامے، یہ قدم بہ قدم منزل کی جانب رواں تھے- 1913ء میں مسلم لیگ کا چھٹا سالانہ اجلاس ہوا جس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی شرکت کی - 1916ء لکھنو میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلی بار صدارت کی یہ مسلم لیگ کا نواں سالانہ اجلاس تھا - اس کی دو خصوصیات تھیں ایک یہ کانگریس کے ساتھ مشترکہ اجلاس تھا دوسرا اس اجلاس میں مسلمانوں کے جداگانہ حق انتخاب کا موقف تسلیم کیا گیا تھا جو ’’میثاق لکھنو‘‘ کے نام سے مشہور ہے-

چودھواں اجلاس، 1922ء میں مو لاناحسرت موہانی کی زیر صدارت ہوا- اس میں مسلم لیگ اور کانگریس کے اختلافات سامنے آئے اور میثاق لکھنو ختم ہو گیا کیونکہ کانگریس مسلمانوں کے جداگانہ انتخابات کے مطالبہ سے مکر گئی تھی- 1929ء میں بیسواں اجلاس مہاراجہ محمد علی آف محمود آباد کی زیرصدارت ہوا جس میں قائداعظمؒ کے 14 نکات منظر عام پر آئے- یہی وہ نکات تھے جو برصغیر کے مسلمانوں کےحقوق کے محافظ تھے- یاد رہے یہاں قوم مذہب کی بنیاد پر ہے نہ کہ جغرافیہ کی بنیاد پر - اکیسواں اجلاس شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی زیر صدارت ہوا جس میں انہوں نے الگ وطن کے مطالبے کی تجویز پیش کی کیونکہ وہ ہندو ذہنیت اور سامراجی ہتھکنڈوں کو جان گئے تھے کہ یہ ہمیشہ مسلمانان ہند کو غلام اور پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں ،جداگانہ انتخابات کے مطالبات کو نظر انداز کرنے والوں کے لئے یہ مطالبہ منہ توڑ جواب تھا اور تقسیم بنگال کی تنسیخ سے مایوس مسلمانوں کے لئے نوید صبح تھا- 1930ء کا یہ اجلاس صبح پاکستان کی پہلی کرن تھی-

یوں تو ہندو دشمنی اب عیاں ہو چکی تھی لیکن اس کا کمال ابھی دیکھنا باقی تھا ، 1937ء میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں ، تو ہندو کا چہرہ کھل کر سامنے آیا- سکول میں معصوم بچوں کو زبردستی وندے ماترم پڑھایا جاتا، مسلمانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہوئے ایک تعصب کی آندھی چلی کہ الحفیظ الامان، صدا ئے شکر کہ اقبال سا حکیم، دوراندیش و دیدہ بینا نے سات سال پہلے ہی الگ وطن کیے حصول کا نقارہ بجا دیا تھا اور قائداعظم کی جواں ہمت، باصلاحیت، پر فکر، باتدبر، معاملہ فہم و ذکی قیادت موجود تھی جس نے آل انڈیا مسلم لیگ کےستائیسویں اجلاس، جو کہ 22 سے 24 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں قائداعظم کی زیر صدارت ہوا اس میں قراداد لاہور کو منظور کیا جو پھر ’’قرارداد پاکستان‘‘ کہلائی جسے ہزاروں فرزاندان توحید کی موجودگی میں مولوی فضل الحق نے پیش کیا تھا-

اب ایک بے سرو ساماں قافلہ تھا ، تپتی زمین تھی آگ برساتا سورج تھا ، غربت تھی ، کوئی مددگار نہ تھا، عدو تھے کہ بے شمار اور کیل کانٹوں سے لیس، چو مکھی لڑائی تھی اورکوئی اوٹ دسیتاب نہیں تھی، راستہ دشوار تھا کٹھن بھی، پڑاو کی صورت کوئی نہ تھی، اک جذبہ تھا جو لئے جا رہا تھا ، اک خواہش تھی جو چلائے جا رہی تھی، اک عزم تھا جو قربانی پر آمادہ کئے جا رہا تھا، ایک اخلاص تھا جو سب کچھ لٹانے کا موجب بن رہا تھا، ایک غیر مشروط محبت تھی جو قوت بخش رہی تھی، اک عشق کا سودا تھا جو سروں میں سمایا تھا کہ محمد عربی (ﷺ) کے دین کے نفاذ کے لئے ملک بن رہا ہے جہاں فیصلے حق پر ہوں گے، جہاں انصاف ہوگا، جہاں عدل ہماری دہلیز پر دستیاب ہوگا، ہماری آئندہ نسل کا مستقبل محفوظ ہوگا، ہم آزادی کے ساتھ اپنے سیاسی، معاشی، معاشرتی، عدالتی، خارجہ و داخلہ امور کو سر انجام دے سکیں گے، جہاں محمود وایاز ایک صف میں ہوں گے، جہاں صرف سجدے کی اجازت نہیں ہو گی بلکہ دین اپنے حقیقی جوہر کے ساتھ ہماری زندگیوں پر، ہماری ریاست پر ہمارے معاشرے پر لاگو ہو گا اسی سوچ میں گم یہ بے سرو ساماں قافلہ جب منزل مقصود پر پہنچا تو دنیا دنگ رہ گئی، مملکت خداداد دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوئی، متحدہ ہندوستان پاکستان اور بھارت میں منقسم ہوا، آیا نالوں کا جواب آخر اور مسلماناںِ ہند کو آزادی نصیب ہوئی -

قائد اعظم کی قیادت پر اعتماد تھا، اک نئی تاریخ رقم ہونے کوتھی، مسلماناں ہند اپنی منزل کو چلے، آنکھوں میں تابناک مستقبل کے دیپ جلے تھے، دنیا کی بڑی ہجرتوں میں سے ایک ہجرت ہوئی جس کی داستان لکھنے کو پہاڑ کا کلیجہ چاہیئے، بھرے بسے گھر اجڑ گئے، آباد کھیت کھلیان چھوڑ کر بے سر و سامانی کے عالم میں شیدائی چلے، سواری نہیں تھی تو پا پیادہ عازم سفر ہوئے، دولت اور گہنے سپر د خدا کئے، منزل تک پہنچنا آسان نہ تھا، اک آگ کا دریا تھا، جس کی موجیں تند تھیں، جس کا بہاؤ گہرائی لئے ہوئے تھا، شورش آسمان کو چھوتی تھی، دشمن کی آنکھ میں خون اترا تھا، کرپانیں خون سے تر تھیں، ارادے تہہ تیغ کرنے کو تھے، قیامت کا منظر تھا، لاکھوں مسلمان شہید ہوئے، ہزاروں بہنیں عصمت لٹا بیٹھیں، بچے یتیم ہو گئے، سہاگنیں بیوہ ہو ئیں، بوڑھے بے سہارا ہوئے، جوان زندگی کی بازی ہارے، بچوں نے تلخ حقائق نو عمری میں دیکھے، بھائیوں نے بہنیں کھو دیں، باپوں نے اپنے بچوں کو اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھا، ماوں کے لخت جگر ہوا میں اچھال دیے گئے، آسمان نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ ریل گاڑ ی پلیٹ فارم پر رکی تو ریل سے کوئی مسافر نیچے نہیں اترا کیونکہ سب کو شہید کر دیا گیا تھا- جو زندہ پہنچے ان کے لئے مصائب ابھی ختم نہیں ہوئے تھے بقول شاعر:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

مہاجر کیمپ بھرے پڑے تھے، ہرنفس کی الگ داستان تھی اور ایسی کہ پڑھیں تو آنکھیں خون رو دیں، سنیں تو کلیجہ منہ کو آئے لیکن سب کے چہرے پر ایک اطمینان تھا کہ پاکستان بن گیا اور ہم پاکستان پہنچ گئے اب کوئی غم نہیں، ایک موقع پر جب قائداعظم نے اپنی گاڑی پر مہاجر کیمپ کا دورہ کیا تو لوگ اپنے خیموں سے باہر آ گئے اور پاکستان زندہ باد قائد اعظم پائندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی، تو قائد اعظم نے حیران ہو کر کہا کہ یہ ان حالات میں بھی پاکستان اور مجھے دعائیں دے رہے ہیں- یہ ان حالات کا ایک مختصر سا جائزہ تھا جن میں پاکستان بنا، عوام جس پاکستان کے لئے قربانیاں دے کر آئے تھے کیا وہ منزل مقصود تھی-

سفر، ابھی باقی ہے اورقیادت کا فقدان ہے

قائداعظم محمد علی جناح کی ایک خراب ایمبولینس میں رحلت اور قائد ملت جناب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سول وعسکری بیوروکریسی نے جس طرح مملکت خداد داد کو چلایا کیا وہ اسی وژن کے مطابق تھا- جیسا کہ قائد اور ان کے رفقاء نے پیش کیا تھا؟ جس کے لئے ہزاروں جانیں قربان ہوئیں اوربے تحاشا قربانیاں دی گئیں؟ پاکستان بننے سے ان حروف کے قرطاس پر آنے تک کیا کوئی ایسی حقیقی قیادت آئی، جو واقعی عوامی ہو اور عوامی امنگوں کی ترجمان ہو؟ کیا ہماری قیادت ہم پر مسلط نہیں کی گئیں؟ اگر نہیں تو پاکستان کے حالات ایسے کیوں ہیں کہ ہمیں امداد اور قرض کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے؟ ہماری قیادت کیوں اپنی ذات، اپنے علاقے اپنے صوبے سے بالا تر ہو کر نہیں دکھا رہے؟ کیوں پاکستان کا کوئی ایک مژترک لیڈر نہیں ہے جو پاکستان کی بات کرے ؟ جو پاکستان کی ترقی کی بات کرے، جو پاکستان کو اس ڈگر پر لے کر چلے جو خوشحالی کی جانب جاتا ہو؟ اگر لیڈر شپ کا یہ بحران قائم ہے تو منزل مقصود ابھی دور ہے ہمیں سفر جاری رکھنا ہو گا -

قائد اعظم کا دستور ساز اسمبلی سے خطاب ایک سنگ میل تھا ، پاکستان بن چکا تھا اس پڑاؤ سے منزل مقصود کے سفر کا آغاز ہونا تھا ، جب قائد اعظم نے فرمایا: ’’اب آپ آزاد ہیں‘‘- یہ آزادی صرف یک معنوی نہ تھی ، کہ آپ چرچ میں جائیں، مسجد میں جائیں یا مندر میں، بلکہ یہ آزادی کی نوید ہمہ جہت تھی کہ آپ پاکستان کے شہری ہیں اور ایک فلاحی ریاست میں شہریوں کے حقوق اور حکومت کی ذمہ داری کو پورا کیا جائے گا- قائداعظم کے مندرجہ بالا الفاظ کا اختتام ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں- جس کے لئے آئین پاکستان میںPrinciple of Policy شامل کئے گئے  کہ ریاست میں ان اصولوں کے مطابق پالیسیز بنائی جائیں گئی اور ایسا ماحول پیدا کیا جائےگا کہ لوگ اسلامی طریقہ حیات گزارسکیں-

سوال یہ ہے کہ کیا مملکت کے شہریوں کے ساتھ سلوک بھی یکساں کیا جا رہا ہے یا نہیں؟ کیا جاگیرداروں، زمینداروں، وڈیروں، خانوں، سیاستدانوں، مراعات یافتہ طبقہ ،  زور آوار افراد، اداروں اور عام شہریوں کے لئے قانون یکساں ہے؟ کیا تعلیم، صحت، خوراک، روزگار، تک باآسانی رسائی ممکن ہے؟ کیا مزدور کو محنت کا معاوضہ وہی مل رہا ہے جو حکومت نے طے کیا ہے؟ اور کیا حکومت اس کا احتساب کر رہی ہے کہ مالکان مزدوروں کو پورا معاوضہ دے رہے ہیں؟

شہریوں کے حقوق و فرائض

کیا ساری ذمہ داری حکومت اور اداروں کی ہے یا شہری بھی اپنے حقوق و فرائض رکھتے ہیں اور کیا بحیثیت شہری ہم اپنے حقوق و فرائض ادا کر رہے ہیں ؟ ہم پاکستان کو کچھ لوٹا رہے ہیں ؟ کیا ہم قوانین کی پابندی کر ہے ہیں ؟ کیا ہم ٹیکس ادا کر رہے ہیں ؟ کیا ہم ملک کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور ان سوالات سے ملتے جلتے سوالات کا جواب کھوجیں، اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو سفر ابھی باقی ہے منزل مقصود پر پہنچنا ابھی باقی ہے -

اگر ہم منزل مقصود تک نہ پہنچے ، ہم نے پاکستان کو وہ پاکستان نہ بنایا جس کے لئے ہزاروں افراد نے قربانیاں دیں، عورتوں کی عصمت دری ہوئی، بچے سنگینوں پر چڑھائے گئے، جوانون کو خون میں لت پت کر دیا گیا ، سہاگنوں نے بیوگی کی چادریں اوڑھیں ، بہنوں نے اپنے بھائیوں کو کھویا ، بوڑھے بے سہارا ہوئے ، تو یہ تمام افراد بروز قیامت ہمارا گریبان پکڑیں گے -

منزل مقصود کے حصول کے لئے ہمیں اپنا کردار دا کرنا ہو گا - حصول علم کو اپنا شعار بنانا ہو گا ، سیاسی شعور حاصل کرنا ہو گا ، سوال اٹھانے ہوں گے، نڈر، بے باک ہو کر اپنے حقوق مانگنے سے پہلے دیانتدار اور سچا بن کر منافقت سے پاک ہو کراپنے فرائض ادا کرنے ہوں گے اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب بقول حکیم امت :

کسی یکجائی سے عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل (ﷺ) کو مقامی کر لو

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر