پاکستانی اردو شعراءکی شاعری میں جذبہ حب الوطنی اور پاکستانیت

پاکستانی اردو شعراءکی شاعری میں جذبہ حب الوطنی اور پاکستانیت

پاکستانی اردو شعراءکی شاعری میں جذبہ حب الوطنی اور پاکستانیت

مصنف: مستحسن رضا جامی اگست 2022

وطن اور دھرتی سے محبت انسان کے خمیر میں شامل ہے- وہ اولین ٹھکانہ جہاں انسان اپنی پہلی سانس لیتا ہے، ہمیشہ انسان کو عزیز ہوتا ہے- بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ وہ ٹھکانہ انسان کی پہلی محبت بن جاتا ہے- انسان کو یہاں کسی بھی طرز کی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا-وطن سے محبت اور عشق قومی اور دینی فریضہ بھی ہے -

حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت مبارکہ کا جائزہ لیتے ہوئے اس خوبصورت واقعہ سے وطن کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے- غفار قبیلہ کا ایک شخص ہجرت کے بعد کے زمانہ میں مکہ سے مدینہ آیا (یہ احکام نزول پردہ سے پہلے کا واقعہ ہے) تو حضرت عائشہؓ نے اُس سے پوچھا کہ مکہ کا کیا حال تھا تو اس نے کمال فصاحت و بلاغت سے یہ جواب دیا کہ:

’’سر زمین مکہ کے دامن سرسبز و شاداب تھے- اس کے چٹیل میدان میں سفید اذخر گھاس خوب جوبن پر تھی اور کیکر کے درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے‘‘-

حضور نبی کریم(ﷺ) نے یہ سنا تو آپ (ﷺ)کو مکہ کی مزید یاد آنے لگی جس پہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:

’’بس کرو اور مکہ کے مزید احوال بتا کر ہمیں غمگین نہ کرو“-

 دوسری روایت میں ذکر ہے کہ :

’’رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا تو نے دلوں کو ٹھنڈا کر دیا‘‘-[1]

اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں- شاعری جذبات کے اظہار کا ایک نمایاں ذریعہ ہے- ایک بات عمومی طور پہ گفتگو کے انداز میں بھی کہی جا سکتی ہے لیکن جب اپنی بات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے شعری صورت میں اظہار کیا جائے تو اس کی تاثیر میں اضافہ ہوجاتا ہے- کیونکہ فنون لطیفہ کا ہماری طبیعت اور ماحول کے ساتھ گہرا انسلاک ہے- اپنی رائے کے اظہار کے لئے اور بھی دیگر صورتیں ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے ہاں برصغیر میں عموماً شاعری اور فنون لطیفہ کے ساتھ عوام کی گہری جذباتی وابستگی ہے -اس کی عملی مثالیں صوفیاۓ کرام کی شاعری سے لی جا سکتی ہیں- سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شعر کا ہمارے سماج،ثقافت اور معاشرت کے ساتھ ایک قریبی رشتہ ہے جو ہر خاص و عام کی دسترس میں ہے -قیام پاکستان کی مکمل تحریک میں ہمیں فکر اقبال کارفرما نظر آتی ہے اور اس ضمن میں اقبال کا کلام ہمارے لئے وطنیت اور حب الوطنی کا بے بہا خزانہ لئے ہوئے ہے-

ڈاکٹر انصرعباس لکھتے ہیں:

’’قیام پاکستان کے بعد اردو شاعری میں جو رویہ سب سے غالب رہا وہ پاکستان سے محبت و عقیدت کا رویہ تھا- اس رویے کے زیر اثر اردو شعراء نے پاکستان کی تعمیر نو میں حصہ لے کر اسے پوری اسلامی دنیا کیلئے مینار نور بنانے میں اہم کردار ادا کیا- تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان تک متنوع موضوعات ایسے ہیں جو اردو ملی نغموں کا حصہ بنے- ان موضوعات میں ہجرت، ہجرت کے نتیجے میں فسادات، سیاسی عدم استحکام، مارشل لاء، پاک بھارت جنگیں،شہدائے وطن، قومی و ملی رہنماؤں پر لکھے گئے شعر پارے، تعمیر پاکستان مناظر پاکستان، پاکستانی شہروں سے محبت کا اظہار، مذہبی روایات، اخلاقی روایات اور ضبط آزادی جیسے متعدد موضوعات پر شعرائے پاکستان نے قلم آزمائی کی‘‘-[2]

قیام پاکستان سے تاحال شاعری کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ہر دہائی میں شعراء کی ایسی نمایاں کھیپ موجود رہی ہے جنہوں نے وطن عزیز سے محبت، عقیدت، یگانگت اور خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے خامہ فرسائی کی اور اپنے وطن کو خراج تحسین پیش کیا- اس ضمن میں جو موضوعات بیان ہوئے ان میں وطن کی ضرورت و اہمیت ، شہداء کی قربانیوں، وطن عزیز سے وفاداری اور وطن عزیز کی خوبصورتی کو بڑھ چڑھ کر شعرائے کرام نے خراج تحسین پیش کیا-اگر اس روایت کا قیام پاکستان سے تاحال جائزہ لیا جائے تو ایک مفصل بحث کی ضرورت ہے- لیکن یہاں جامع اور مختصراً چند شعراء کے کلام سے عملی مثالوں سے وضاحت کی جاتی ہے-

حب الوطنی کے ذیل میں بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی شخصیت پہ سینکڑوں خوبصورت ملی نغمے اور نظمیں شعراء نے لکھیں، جن کو قبول عام بھی حاصل ہوا -اس حوالہ سے رسالہ’’ہمایوں‘‘کےایڈیٹر میاں بشیر احمد کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی-

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی
صد شکر پھر ہے گرم سفر اپنا کارواں
اور میر کارواں ہے، محمد علی جناح
رگ رگ میں اس کی ولولہ ہے، حب قوم کا
پیری میں بھی جواں ہے محمد علی جناح

اس نظم کی مقبولیت کتنی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی اور آج بھی یہ نظم خواص و عام کی زبان پہ زد عام ہے-سیماب اکبر آبادی کی ایک اور نظم ’’شکریہ قائد اعظم‘‘ میں یوں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے:

مل گیا مرکز ہمیں بخت آزمائی کے لیے
آئینہ ہم کو ملا جلوہ نمائی کے لیے
ذہن و دل آزاد ہیں، لوح و قلم آزاد ہیں
شکریہ اے قائد اعظم کہ ہم آزاد ہیں[3]

قائد اعظم کی خدمات اور سیاسی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں مولانا ظفر علی خان کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے-

ملت کا تقاضہ ہے کہ اے قائد اعظم
اسلامیوں کی شان میں کچھ چاند لگا اور
ہے سست عناں قافلہ اور دُور ہے منزل
اس قافلہ کی گرمیٔ رفتار بڑھا اور[4]

بانیٔ پاکستان کی شخصیت کو دیگر بھی سینکڑوں نمایاں شعراء نے خراج تحسین پیش کیا- خراج تحسین بنتا بھی تھا کہ ایسا لیڈر قوم کو میسر آیا جس نے اپنی حکمت عملی، محنت اور استقلال سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا-

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہجرت کے موضوع پر بہت سارا ادب تخلیق ہوا جس میں ہجرت و فسادات کے موضوع کو سخن کا حصہ بنایا گیا- اس حوالے سے ڈاکٹر عنصر عباس لکھتے ہیں:

’’تقسیم اور فسادات کے موضوع پر اردو شاعری میں اس کا اظہار زیادہ تر غزل میں ہوا ہے- ناصر کاظمی نے اردو غزل میں ماضی کی یاد کو مستقل موضوع بنایا‘‘-[5]

 یہاں سے نئی زندگی کی ابتداء ہوئی اور ادب کا موضوع بدل گیا- ن.م راشد کی نظم’’ اے وطن اے جان‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

اے وطن ترکے میں پائے تُو نے وہ خانہ بدوش
جن کو تھی کہنہ سرابوں کی تلاش
اور خود ذہنوں میں اُن کے تھے سراب
جن سے پسپائی کی ہمت بھی کبھی ان میں نہ تھی

آزادی کے بعد کی صورتحال میں کچھ ادباء ایسے بھی تھے جو قنوطیت کی بجائے رجائیت کا رنگ بھرنے میں مصروف تھے- ایسے مصنفین کا نصب العین تھا کہ اب تمام احوال کو حقیقت کی نظروں سے تسلیم کیا جائے اور پاکستان کو دل و جان سے قبول کر لینے کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے-ان شعرا میں احمد ندیم قاسمی کا نام سر فہرست ہے وہ لکھتے ہیں:

کس لئے آج کی شب جشن چراغاں نہ کروں
دیس کی جنت ویراں کو فروزاں نہ کروں
اس زمیں پر بھی اندھیروں کو نہ جمنے دوں گا
اپنی دیرینہ اڑانوں کو نہ تھمنے دوں گا[6]

احمد ندیم قاسمی کی اس دعائیہ نظم سے کون واقف نہیں:

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

قوم میں جذبہ تعمیر زندہ کرنے میں اردو شعرا نے اہم حصہ شامل کیا- شعراء نے اپنے نغموں سے قوم کو ایک نئے سفر اور لگن کا درس دیا- ماہر القادری اپنی نظم ’’چلو‘‘ میں لکھتے ہیں:

بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتے چلو
ایقان کے چراغ دکھاتے ہوئے چلو
جن کو مٹا سکے نہ کوئی دورِ انقلاب
کچھ ایسے نقش بھی تو بناتے ہوئے چلو[7]

 آزادی کے بعد وطنِ عزیز کے باسیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا- لیکن آزادی کی نعمت جس ظلم کی چکی میں پسنے کے بعد نصیب ہوئی تھی اس کے بعد تمام مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر گئے کیونکہ اب وطنِ عزیز میں آزاد سانس اور فضا میسر تھی- کسی طرز کا کوئی خوف اور پریشانی لاحق نہ تھی- عبادات اور رسم و رواج کی آزادی تھی- الغرض! ایک امن اور آشتی کا دور چل پڑا-چیدہ چیدہ مسائل کے حل کے لیے قوم یکجان رہی اور نوزائیدہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے لگی- کیونکہ یہ وقت کانٹوں کی تکلیف سے کراہنے کا نہیں  تھا کیونکہ وطن عزیز کے باسیوں نے آگے کا سفر کرنا تھا-اس سارے منظر نامے میں شعراء اپنا نمایاں کام کر رہے تھے- احمد فراز کی نظم ’’اے میری ارض وطن ‘‘کا یہ حصہ بہت اہم ہے:

آج سے میرا ہنر پھر سے اثاثہ ہے تیرا
اپنے افکار کی نس نس میں اتاروں گا تجھے
وہ بھی شاعر تھا کہ جس نے تجھے تخلیق کیا
میں بھی شاعر ہوں ہو تو خوں دے کے سنواروں گا تجھے
اے میری ارضِ وطن اے میری جاں اے مرے فن
جب تلک تابِ تکلم ہے پکاروں گا تجھے[8]

احمد فراز کا نام مزاحمتی شعراء میں نمایاں ہے- انہوں نے مارشل لاء کے دور میں بھی اپنا جھکنا گوارا نہ کیا-ان کی وطن سے محبت ان کی شاعری و شخصیت دونوں میں نمایاں ہے-

یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
پورے ہوئے ایک عمر کے ارمان ہمارے
ہم وہ جو کڑی دھوپ میں جسموں کو جلائیں
ہم وہ ہیں کہ صحراؤں کو گلزار بنائیں
ہم اپنا لہو خاک کے تودوں کو پلائیں[9]

صوفی غلام مصطفی تبسم آزادی کو اجالے سے منور کرتے ہیں اور آزادی کو نعمت سے تعبیر کرتے ہیں:

کیوں ترستے ہو اجالے میں اجالے کے لیے
یہ اجالا ہے اسی صبح ِ منور کی ضیاء
جس کی کرنوں سے مٹے اپنے غلامی کے نشاں
جس کی کرنوں نے کیا اپنی جبیں کو بے داغ
آؤ اس نور سے ہم دل کو منور کر لیں
آؤ اس نور میں ایک اور اجالا بھر لیں[10]

جہاں شعراء نے اپنے وطن عزیز کی محبت میں پرُ خلوص ترانے اور ملی نغمے لکھے وہیں اپنے ملک کی خوبصورتی اور دلکشی کو بھی اپنے اشعار کا حصہ بنایا -اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو مالک کائنات نے حسن فطرت سے ایسا نوازا ہے کہ اس کی مثال ناممکن ہے-وطن عزیز میں صحرا، پہاڑ، دریا، سمندر سب کچھ موجود ہے تمام موسم موجود ہیں اور قدرتی مناظر و سیاحت بھی بے مثال ہے- شمالی علاقہ جات کے حسن کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی- ہر سال لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح پاکستان کے قدرتی مناظر و خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کیلئے آتے ہیں- پاکستان میں برف پوش پہاڑوں، وادیوں، وادی کشمیرجنت نظیر اور دیگر کئی مقامات ایسے ہیں جو سیاحوں اور شعراء دونوں کے لیے یکساں دلچسپی کا باعث ہیں- انہی مقامات کی دلکشی اور خوبصورتی کو شعرا نے اپنے اشعار میں سمویا- قتیل شفائی کس طرح پاکستان کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں:

ہر ایک ذرے کی دلکشی میں چمک رہا ہے ضمیر اپنا
سدا مہکتی رہے وہ مٹی اٹھا ہے جس سےخمیر اپنا
بنی ہوئی ہے نشان منزل تمام تر اس کی شاہراہیں
جواب رکھتا نہیں جہاں میں یہ خطہ بے نظیر اپنا[11]

اسی طرح اسلم انصاری بادشاہی مسجد کی جمالیات کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

دستِ عالمگیر ہو یا تیشہ محنت کشاں
اس کی زیبائی ہے رہنِ سرخیِ خون جگر
تین صدیوں سے فزوں مدت سے ہے ٹھہرا ہوا
یہ ابد کی شاخ پر تخلیق کا تازہ ثمر[12]

پاکستان کے شمالی علاقہ جات بالخصوص گلگت بلتستان اپنی خوبصورتی میں یکتا ہیں اور ان علاقہ جات کی شہرت اور قدرتی مناظر کی شہرت عالمی سطح پر بھی ہے- ان علاقوں کی خوبصورتی کو اقبال عامی نے یوں اجاگر کیا ہے:

سبز وادی کوہساروں کی زمیں
بہتے جھرنوں اور چناروں کی زمیں
ہر بلندی تجھ سے ہی منسوب ہے
چاند، سورج اور ستاروں کی زمیں
سبزہ زار اور لہلہاتی کھیتیاں
ٹھنڈے چشموں مرغزاروں کی زمیں[13]

معروف شاعر محمود الرحمٰن کا یہ کلام دیکھے:

بہر کام پُر کیف رنگیں فضائیں
طرب خیز و جاں بخش ٹھنڈی ہوائیں
فلک پہ رواں کالی کالی گھٹائیں
عروسِ چمن کی یہ دل کش ادائیں
یہ اپنا وطن ہے یہ اپنا وطن[14]

پروین شاکرلکھتی ہیں:

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

قدرتی خوبصورتی کو منظر عام پر لانے کے ساتھ ساتھ اردو شعراء نے وطن عزیز کے مختلف شہروں پر بھی کلام لکھا- مختلف شہروں سے محبت درحقیقت اپنے وطن سے مٹی کا ایک انداز ہے- لاہور سے محبت کرنے والوں نے لاہور کی شان و شوکت اور خوبصورتی پر بہت کچھ لکھا- ناصر کاظمی لکھتے ہیں:

شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

اسی طرح زندہ دلان لاہور کے بارے میں جعفر بلوچ لکھتے ہیں:

یہاں آ کے میں نے بہت فیض پایا
جو میرا ہے سرمایہ سروری بھی
یہ ایک عافیت زار ہے بلکہ جنت
مری بھی میری آل و اولاد کی بھی
رہے شاد و آباد لاہور یا رب
زیادہ ہو اور اس کے زندہ دلی بھی[15]

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو معاشی و تجارتی ہر دو حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے -حافظ امرتسری کراچی سے محبت کس انداز میں کرتے ہیں ملاحظہ ہو:

یہ کراچی نگار مشرق ہے
شوخ چنچل بہار مشرق ہے
ہر قدم روشنی کے فوارے
اجلے اجلے تمام نظارے
فاتح سندھ کے قدم اس پر
کارنامے کئی رقم اس پر[16]

اسی طرح دیگر بڑے شہروں کے بارے میں شعراء کا کلام موجود ہے جیسے اسلام آباد، سیالکوٹ، ملتان، فیصل آباد، سرگودھا وغیرہ- مختلف جگہوں کا ذکر کیا جائے اور کشمیر کا ذکر نہ ہو یہ امر ممکن ہی نہیں- حفیظ جالندھری اپنی نظم تصویر شہر میں لکھتے ہیں:

معرکہ درپیش ہے جذبات کی تقسیر کا
ہو رہا ہے تذکرہ کشمیر میں کشمیر کا
سرخ پھولوں سے زمین کشمیر کی سرخ رو
لالہ بن کر پھوٹ نکلا ہے شہیدوں کا لہو
چھوٹے چھوٹے ڈھیر مٹی کے قطار اندر قطار
راہ آزادی میں لڑنے مرنے والوں کے مزار
معرکہ اس خاک پر گزرا ہے داروگیر کا
لالہ زار اس کو نہ سمجھو کھیت ہے شمشیر کا[17]

صوفی غلام مصطفی تبسم یوں لکھتے ہیں:

ہر گوشہ تیرے گلشن فردوس کی تصویر
حوروں کے فرشتوں کے حسین خواب کی تعبیر
اے وادیٔ کشمیر

احمد فراز اپنی نظم ’’نیاکشمیر‘‘ میں جہاں کشمیر کی دلاویز خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں وہیں استحصالی قوتوں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہیں:

میری فردوس گل و لالہ و نسریں کی زمیں
تیرے پھولوں کی جوانی، تیرے باغوں کی بہار
تیرے چشموں کی روانی تیرے نظاروں کا حسن
تیرے کہساروں کی عظمت تیرے نغموں کی پھوار
کب سے ہیں شعلہ بد اماں و جہنم بکنار[18]

 حب وطن کے موضوع پر بات کرتے ہوئے عساکر پاکستان کو کس طرح فراموش کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہر محاذ پہ عسکری طاقتوں نے وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے-یومِ پاکستان، یومِ آزادی اور دیگر اہم دنوں کے حساب سے پاکستانی شعراء کے ملی نغمے وترانے اپنی مثال آپ ہیں- ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

 جمیل الدین عالی کا یہ ملی نغمہ زبان زد عام ہے:

ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں[19]

 جمیل الدین عالی صاحب کا یہ نغمہ بھی بے حد مشہور و معروف ہے :

اے وطن کے سجیلے جوانو!
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
سرفروشی ہے ایماں تمہارا
جرأتوں کے پرستار ہو تم
جو حفاظت کرے سرحدوں کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم
اے شجاعت کے زندہ نشانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں

حفیظ جالندھری اپنی نظم میں جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

پاکستان کی عزت میں جو لڑنے مرنے جاتے ہیں
ہنس کر جانیں دیتے ہیں ہم سب کی جان بچاتے ہیں
پاکستان کی عزت میں جو فتح کے نغمے گاتے ہیں
قوم کو جوش دلا تے ہیں اسلام کی شان بڑھاتے ہیں[20]

 احمد ندیم قاسمی نظریہ پاکستان اور وطن عزیز سے محبت کا احوال اپنی نظم 6 ستمبر میں یوں تحریر کرتے ہیں:

آخری بار اندھیرے کے پُجاری سُن لیں
میں سحر ہوں، میں اجالا ہوں، حقیقت ہوں میں
میں محبّت کا تو دیتا ہوں محبّت سے جواب
لیکن اعدا کے لیے قہر و قیامت ہوں میں
میرے دشمن مجھے للکار کے جائے گا کہاں
خاک کا طیش ہوں افلاک کی دہشت ہوں میں[21]

 شاعر مزدور احسان دانش کے نغموں میں وطن کی مٹی سے محبت کا جذبہ اپنے عروج پہ کارفرما نظر آتا ہے- افواجِ پاکستان کے نام اپنی نظم میں لکھتے ہیں:

وطن کی آبرو تم ہو، وطن کے پاسباں تم ہو
تمہارا ملک ہے یہ ضامن امن و اماں تم ہو
تمہارے عزم و استقلال کے چرچے ہیں عالم میں
زمین والوں کی جانب سے جواب آسماں تم ہو[22]

 مجید امجد کا نام اردو شعر و ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں-ان کی شاعری بھی جذبہ حب الوطنی کی عکاس ہے- اپنی نظم’’سپاہی ‘‘میں لکھتے ہیں:

اگر اس مقدس سر زمیں پر میرا خوں نہ بہتا
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
میری گڑگڑاتی ہوئی ہڈیاں
خندقوں میں نہ ہوتیں، تو دوزخ کے شعلے
تمہارے معطر گھروندے کی دہلیز پر تھے
تمہارے ہر ایک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اس سرخ مٹی سے ہے
جس میں میرا لہو رچ گیا ہے[23]

6ستمبر کے عنوان سے شورش کاشمیری کی عمدہ نظم کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:

غلامان آلِ نبی زندہ باد
فدایانِ خیرالوریٰ کو سلام
جلال و جمالِ سپاہ وطن
اساطر صدق و صفا کو سلام[24]

 ناصر کاظمی کی کتاب’’نشاطِ خواب‘‘ میں ہمارے پاک وطن کی شان کے نام سے یہ نظم موجود ہے :

ہمارے پاک وطن کی شان
ہمارے شیر دلیر جوان
خدا کی رحمت ان کے ساتھ
خدا کا ہاتھ ہے ان کا ہاتھ
ہے ان کے دم سے پاکستان
ہمارے شیر دلیر جوان

دور حاضر کے شعراء کا کلام اگر سامنے رکھا جائے تو بہت سے نمایاں ملی نغمے، ترانے اور نظمیں موجود ہیں اور موجودہ شعراء بھی عوام الناس میں حبِ وطن اجاگر کرنے میں پیش پیش رہے ہیں کیونکہ یہ موضوع ہی ایسا ہے کہ ہر خاص و عام اس موضوع پہ اپنا اظہار کرنا چاہتا ہے جب عوام الناس دھرتی سے اپنی محبت کے اِظہار کیلئے بے چین ہوتی ہے تو شاعر تو اپنے معاشرہ و عہد کا سب سے سنجیدہ و حساس شخص ہوتا ہے وہ کیسے اپنے خیالات کے اظہار سے رُک سکتا ہے- ذیل میں چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

بزبانِ انجم خیالی:

سنبھال رکھی ہیں دامن کی دھجیاں میں نے
اگست آیا تو پھر جھنڈیاں بناؤں گا

بزبانِ ندیم بھابھہ:

ابھی تو پہلے سپاہی نے جان دی تجھ پر
تُو غم نہ کر کہ مرا خاندان باقی ہے

بزبانِ محمود ہاشمی:

زمیں کی گود میں مائیں بھی جا کے سوتی ہیں
زمین ماں کی بھی ماں ہے زمیں سے پیار کرو

بزبانِ سائل نظامی:

ہجرت کی شب حضور نے آنسو بہائے تھے
سائل میرے عقیدے میں حب وطن بھی ہے !

وطن سے محبت اور عقیدت کسی بھی ملک کے باسیوں کے لیے ازحد ضروری ہےاور یہ کسی بھی شہری کی گھٹی میں شامل ہوتی ہے -اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں- وہ لوگ عجیب و غریب سوچ کے مالک ہوتے ہیں جنہیں اپنے دیس سے محبت نہ ہو- آج بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب مغربی میڈیا و فکر سے متاثرین یہ اعتراض کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم کا نقصان ہوا ہے- اس آزادی کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے ساتھ ساتھ قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر تحریک پاکستان کے قائدین پر اعتراضات کے نشتر چلائے جاتے ہیں اور انہیں ملکی سطح کے ٹاک شوز میں برا بھلا کہا جاتا ہے- اس سے بڑھ کر کسی قوم کی بد بختی اور بدنصیبی کیا ہو گی کہ اپنے محسنین پر کیچڑ اچھالا جائے اور ان کی تضحیک کی جائے -یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے- دوسرے معنوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا- مجھے تو وطن عزیز کی فضائیں ہر لمحہ معطر اور پرنور لگتی ہیں-

آج کوشش ہونی چاہیے کہ نوجوان نسل میں وطن سے محبت اور عقیدت کے نمایاں پہلوؤں پر بات کی جائے اور ان کی فکری اور نظریاتی طور پر تربیت کی جائے کہ وہ وطن عزیز پاکستان مدینہ ثانی کے معزز اور سمجھ دار شہری ثابت ہوں اور مستقبل قریب میں ملک کے باگ ڈور سنبھالیں- کیونکہ یہ ضرورت وقت ہے اور اس پہ مدارس، سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں کام کی ضرورت ہے کہ اساتذہ کرام طلباء و طالبات میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ کریں- تاکہ کل کو ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہو -ہمارا مستقبل پاکستان کا مستقبل ہے- پاکستان محفوظ ہے تو ہم محفوظ ہیں-تمام نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات دفن کرکے ملی یگانگت و اتحاد کا عَلَم تھام لینا چاہیے اور ایک دوسرے کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے ایک دوسرے کا دست وبازو بننا چاہیے-آخر پہ راقم کا ایک شعر:

جامی میں اپنی جان بصد شوق وار دوں
ہر چیز سے عزیز ہے یہ سر زمیں مجھے

٭٭٭


[1](المقاصدالحسنہ از سخاوی ص 298 بیروت)

[2](انصر عباس ، پاکستانی اردو شاعری میں ملی نغمہ کی روایت ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی (اردو) ، اسلام آباد ، وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون ، سائنس و ٹیکنالوجی ، 2019)

[3](قائداعظم، قائد کی خوشبو)

[4](قائداعظم سے خطاب، ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح)

[5](انصر عباس ، پاکستانی اردو شاعری میں ملی نغمہ کی روایت ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی (اردو) ، اسلام آباد ، وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون ، سائنس و ٹیکنالوجی ، 2019)

[6](جشن چراغاں شعلہ گل)

[7](چلو ، فردوس)

[8](اے میری ارض وطن ،شب خون)

[9]( شب خون)

[10](صبح آزادی ، سو بار چمن مہکا)

[11](وطن کے لئے ایک غزل، ہزارہ میں ملی شاعری)

[12](بادشاہی مسجد، منتخب کلیات اسلم انصاری)

[13](گلگت ،شمالی علاقے کا اردو ادب)

[14](قومی نظمیں)

[15](برسبیل سخن ،میرا لاہور)

[16]( کراچی، میرا سوہنا پاکستان)

[17](خون کے چراغ ، فغان کشمیر)

[18](نیا کشمیر)

[19]( اللہ اکبر ،جیوے جیوے پاکستان)

[20](پاکستان کی عزت، جنگ ترنگ)

[21](6ستمبر، محیط)

[22]( افواج پاکستان کے نام ،جنگ ترنگ)

[23](سپاہی، امروز )

[24](چھ ستمبر، الجہاد، الجہاد)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر