قیادت کے اوصاف سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں

قیادت کے اوصاف سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں

قیادت کے اوصاف سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں

مصنف: ڈاکٹرحبیب الرحمٰن نومبر 2019

موسمِ حج میں جزیرہ عرب کے دور دراز علاقوں سے آنے والوں کو رسول اﷲ (ﷺ) حسب معمول بعثت کے گیار ہویں سال اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے تھے کہ ایک روز حضور(ﷺ) کی ملاقات عقبہ میں بنی خزرج کے چند افراد سے ہوئی- عقبہ پہاڑوں میں اوپر چڑھنے کے کٹھن راستہ کو کہتے ہیں- منیٰ و مکہ مکرمہ کے درمیان ایک اونچا ٹیلہ ہے اسے عقبہ کہا جا تا ہے-نبی اکرم(ﷺ) نے جب انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو ان سب نے مخلصاً اس دعوت کو قبول کرلیا اور مشرف با اسلام ہوگئے- اس روز ایمان لانے والوں کی تعداد تقریباً چھ تھی-

یثرب پہنچ کر انہوں نے اپنی قوم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جس کے نتیجہ میں بعثت کے بار ہویں سال اوس و خزرج کے بارہ افراد موسم حج میں مکہ مکرمہ پہنچے اور عقبہ کے مقام پر حضور (ﷺ) کے دست مبارک پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہوئے- اس بیعت کو ’’بیعت عقبہ اولیٰ‘‘ کہا جاتا ہے- جب یہ لوگ واپس جانے لگے تو حضور (ﷺ) نے ان کے ہمراہ مبلغ اسلام حضرت مصعب بن عمیر (رضی اللہ عنہ) کو اسلام کے بنیادی احکامات کی تعلیم کے لئے روانہ فرمایا- ا یک سال کے قلیل عرصہ میں سینکڑوں افراد ( بشمول روساء قبائل) نے اسلام قبول کرلیا- جب موسم حج قریب آیا تو تقریباً  73 انصار کرام حضرت مصعب بن عمیر(رضی اللہ عنہ)کی قیادت میں مکہ مکرمہ حضور(ﷺ)کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عقبہ کی وادی میں مندرجہ ذیل باتوں پر آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی بیعت کی- اس بیعت کو ’’بیعت عقبہ ثانیہ‘‘ کہتے ہیں-

  1.  ہر حال میں میری با ت سنو گے اور میری اطاعت کرو گے-
  2. تنگ دستی و خوشحالی میں اپنا ما ل اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے-
  3. تم نیکی کا حکم دوگے اور برے کاموں سے روکو گے-
  4. اﷲتعالیٰ کیلئے کلام کرو گے اور کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کروگے-
  5. جب میں تمہارے پاس یثرب آؤں تو تم میری مدد کروگے اور ہر اس چیز سے میرا دفاع کرو گے جس سے تم اپنی جانوں ، اپنی ازواج اور اولاد کا دفاع کرتے ہو-
  6. اگر تم نے بیعت کو نبھایا تو تمہارے لئے جنت ہے-

ہجرت مدینہ منورہ :

 بعثت کے بعد نبی اکرم (ﷺ) نے مکہ مکرمہ میں 13 سال تبلیغِ اسلام کے سلسلے میں روح فرسا مظالم کو برداشت کیا- 13برس بعد اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی رہائش و سکونت کیلئے ایک ایسے مقام کو اختیار فرمایا جہاں آزادانہ بلا روک ٹوک اسلام کے احکامات کو نافذ کیا جا سکے-اﷲ تعا لیٰ نے اپنے محبو ب کریم (ﷺ)کیلئے ہجرت گاہ یثرب کو منتخب فرما یا- حضور(ﷺ) کا مقام ہجرت یثرب مکہ مکرمہ سے تقریباً 280میل شمال میں واقع تھا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس جگہ کا نام ’’طیبہ‘‘رکھا اور آئندہ یثرب کہنے سے منع فرما دیا- جب حضورنبی کریم (ﷺ)نے یہاں قیام فرما یا تو اس کا نام’’مدینۃ النبی‘‘ یعنی نبی کا شہر پڑگیا-

جب اکثر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو کفار کو مسلمانوں کی اس اجتماعی ہجرت سے شدید خطرات کا احساس ہونے لگا- انہیں اس بات کا اندیشہ تھا اگر رسول اﷲ(ﷺ) بھی اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گئے تو کچھ عرصہ بعد وہ قوت کوجمع کر کے مکہ پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مکمل بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا- چنانچہ انہوں نے دار الندوۃ میں مجتمع ہوکرخفیہ باہمی مشاورت سے یہ طے کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک بہادر سردار کا انتخاب کیا جائے پھر ان میں سے ہر ایک جوان کو تیز تلوار دی جائے اور وہ تمام مل کر ان(نبی (ﷺ) پر حملہ کر کے انہیں قتل کردیں نعوذ باﷲ!-اس روز اﷲ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے محبوب شفیع المذنبین (ﷺ) کو کفار کے ناپاک ارادوں سے باخبر فرمایا اور ہجرت کی اجازت مرحمت فرما دی-

قرآن پاک میں اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللہُ ط وَ اللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ‘‘[1]

’’اور جب کافر لوگ آپ کے خلاف خفیہ سازشیں کر رہے تھے کہ وہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو (وطن سے) نکال دیں اور (اِدھر) وہ سازشی منصوبے بنا رہے تھے اور (اُدھر) اللہ (ان کے مکر کے رد کیلیے اپنی) تدبیر فرما رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے‘‘-

مشرکینِ رسول پاک (ﷺ) کے در مبارک کے باہر گھات لگا کر بیٹھے تھے- حضور (ﷺ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے ارشاد فرمایا:

’’نم علی فراشی و تسج ببردی ھٰذا الحضرمی الا خضر فنم فیہ فانہ لن یخلص الیک شئی تکرھہ منھم‘‘[2]

’’تم میرے بستر پر سو جاؤ اور میری یہ سبز حضرمی چادر اورڑھ لو -آرام سے بستر پر سو جاؤ تمہارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں آسکے گی جوتمہیں ناپسند ہو‘‘-

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو ساتھ نہ لے جانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ امانتیں ان کے مالکوں تک پہنچا دیں-

رسول اﷲ(ﷺ) نے مشت مبارک میں مٹی اٹھائی اور سورۃ یٰسین کی ابتدائی آیاتِ مقدسات تلاوت کرتے ہوئے در مبارک سے باہر تشریف لائے تو وہ سب اندھے ہو گئے اور نبی (ﷺ) کو نہ دیکھ سکے- حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کے سروں پر مٹی ڈالی اور خود بنفس نفیس حضرت سید نا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کے گھر کی طرف روانہ ہوئے-آپ (رضی اللہ عنہ) اپنے آقا کریم (ﷺ) کے منتظر تھے- حضور (ﷺ) وہاں سے اپنے صاحب (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ غار ثور کی طرف روانہ ہوگئے-

’’حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)سے مروی ہے کہ رسول اﷲ (ﷺ) کو دوپہر کے وقت جس روز ہجرت کی اجازت ملی تھی آپ (ﷺ) ہمارے گھر تشریف لائے اور فرمایا اے صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) سب کو باہر نکال دو- آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ(ﷺ) اس وقت گھر میں صرف آپ کے اہل ہیں- حضور (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’قداذنی لی فی الخروج‘‘

 ’’مجھے ہجرت کا اذن دے دیا گیا ہے‘‘-

آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ﷺ) میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں مجھے بھی شرف صحبت عطا ہو-آپ (ﷺ) نے فرمایا تم اس سفر پر میرے صاحب ہو گے‘‘-[3]

رسول پاک (ﷺ) نے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ کیلئے یہ الوداعی کلمات ادا فرمائے:

’’اے سر زمینِ مکہ اﷲ کی قسم تو اﷲ تعالیٰ کی بہترین زمین ہے اور اﷲ تعالیٰ کی زمینوں میں تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر مجھے مکہ چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں یہاں سے نہ جاتا‘‘- [4]

ہجرت مدینہ منورہ کا واقعہ کتب احادیث و تواریخ میں اس طرح منقول ہے کہ جب نبی علیہ الصلاۃ و السلام نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت اسماء بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) نے ایک توشہ دان میں تھوڑا سا کھانا رکھا اور اسے اپنے کمر بند کا ایک حصہ کاٹ کر باندھ دیا اسی وجہ سے آپ ذات النطاق کمر بند والی کے لقب سے مشہور ہوگئیں- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے صاحب صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تین روز تک غار ثور میں قیام کیا- غارثور مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر جنوبی سمت میں واقع ہے -اس غار کی طرف جاتے وقت کبھی ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)حضور (ﷺ) سے آگے نکل جاتے کبھی پیچھے ہو جاتے، کبھی نبی اکرم(ﷺ) کے دائیں جانب آتے اور کبھی بائیں جانب- حضور اکرم(ﷺ) نے دریافت فرمایا کہ اے ابو بکر صدیق!(رضی اللہ عنہ) اس طرح کیوں کرتے ہو؟ تو آپ(رضی اللہ عنہ)نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ (ﷺ) میں آپ (ﷺ)کے گرد اس لئے طواف کرتا ہوں کہ اگر دشمن حملہ کرے تو میں حضور (ﷺ) کے لئے آڑ بن جاؤں اور آپ (ﷺ)کو کوئی تکلیف نہ پہنچے- مشکل راستوں پر حضرت یارِ غار(رضی اللہ عنہ)حضور اکرم (ﷺ) اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے تاکہ نبی اکرم (ﷺ) کو چڑھنے میں پریشانی نہ ہو-

جب حضور نبی کریم (ﷺ)غار کے منہ تک پہنچ گے تو حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے غار میں تشریف لے جانے سے قبل اندر داخل ہو کر غار کو صاف کیا- سوراخوں کو اپنی چادر مبارک کے ٹکڑوں سے بند کیا ایک سوراخ جوبا قی رہ گیا تھا اس پر آپ اپنی ایڑی رکھ کر بیٹھ گئے- حضور نبی کریم (ﷺ) اندر تشریف فرما ہوئے اور حضرت صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) کی گود میں اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرمانے لگے- اس سوراخ میں سے ایک سانپ نے آپ (رضی اللہ عنہ) کو کئی بار ڈسا لیکن آپ نے اپنے بدن کو حرکت نہ دی تاکہ رسول اﷲ (ﷺ) کی نیند میں خلل پیدا نہ ہو- تکلیف کی شدت کی وجہ سے آپ کے آنسو رسول کریم (ﷺ) کے رُخ انور پر گرے تو آپ (ﷺ) کے استفسار فرمانے پر آپ نے تمام ماجرا عرض کیا-آپ (ﷺ) نے اپنا مبارک و بابرکت لعاب دہن لگایا جس سے زہر کا اثر جاتا رہا-

غارِ ثور میں حضر ت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے جو راتیں حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے ساتھ بسر کیں حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)اپنی تمام عمر کی نیکیوں کو اُن کے برابر نہیں سمجھتے تھے اور فرما تے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ میری تمام نیکیاں صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)کی ایک رات کے برابر ہوجائیں-           

حضرت عبد اﷲ بن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو قریش کے منصوبوں اور حالات سے آگاہ کرتے رہتے تھے- آپ (رضی اللہ عنہ) کے آزاد کردہ غلام حضرت عامر بن فہیرہ (﷜) دن کے وقت بکریاں چراتے اور شام کے وقت بکریاں غار کے قریب لاتے اور نبی مکرم (ﷺ) کی خدمت اقدس میں دودھ پیش کرتے-

کفار جب پیچھا کرتے ہوئے غار کے دہانے پر پہنچے تو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سخت بے چین ہوگئے-آپ (ﷺ) نے فرمایا غمگین نہ ہو بے شک اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے-

قرآن پاک میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

’’اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَاج فَاَنْزَلَ اللہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا السُّفْلٰیط وَکَلِمَۃُ اللہِ ہِیَ الْعُلْیَاط وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘[5]

’’اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ(ﷺ)کی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بے شک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ(ﷺ)اور ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیقؓ) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے‘‘-

اﷲ تعالیٰ کے حکم سے غار کے دہانے پر ایک درخت اگ آیا ،غار کے منہ پر عنکبوت نے ایک جالا لگادیا اور غار کے قریب ہی بحکم خداوندی جنگلی کبوتروں کے ایک جوڑے نے گھونسلہ بنا کر وہاں انڈے دے دیئے-کفار جب غار سے قریب ہوئے تو ان میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر نظر ڈالی اور کبوتروں کو دیکھ کرواپس ہوگیا- اس کے ساتھیوں نے کہا تو غارمیں کیوں نہیں دیکھتا اس نے کہا غار کے منہ پر دو وحشی کبوتر ہیں میں سمجھ گیا کہ اس میں کوئی نہیں-تین دن کے بعد عبداﷲ بن ارقط حسب وعدہ اونٹنیاں لے کر پہنچ گیا- حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے اسے راہبری کیلئے منتخب فرمایا تھا- حضور نبی کریم (ﷺ) تین روز قیام کے بعد یثرب روانہ ہوئے- اس سفر میں حضرت ا بو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے غلام عامر بن فہیرۃ (رضی اللہ عنہ) بھی ساتھ تھے-اثناء سفر رسول پاک (ﷺ) اور اصحاب کا گزر ایک خیمہ کے پاس سے ہوا- اس کے خیمہ کے باہر بنی خزاعہ کے قبیلہ کی ایک عورت اُم معبد بیٹھی ہوئی تھی- حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس فروخت کرنے کیلئے گوشت اور کھجوریں ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ قحط سالی کی وجہ سے میزبانی کیلئے کچھ بھی نہیں- حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی نوروالی نگاہ کرم ایک بکری پر پڑی -آپ(ﷺ) نے اُم معبد سے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دھو لوں- ام معبد نے عرض کیا کہ یہ بڑی لاغر ہے اسی وجہ سے دوسرے ریوڑ کے ساتھ چرنے کیلئے نہیں جاسکی اگر اس میں دودھ ہے تو دھو لیجئے- آپ (ﷺ) نے بکری کے تھن پر اﷲ تعالیٰ کا نام مبارک لے کر اپنا دست مبارک پھیرا فوراً اس میں دودھ اتر آیا - حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے اصحاب نے سیر ہوکہ دودھ پیا آخر میں نبی کریم (ﷺ) نے خود بھی دودھ نوش فرمایا-

بکری اس عورت کے حوالے کرنے کے بعد آپ (ﷺ) اپنے سفر پر روانہ ہوگئے- تھوڑی دیر بعد اس کا بوڑھا خاوند اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا جب گھر آیا تو دودھ کابھرا ہوا برتن دیکھ کر بڑا حیران ہوا- ام معبدنے سارا ماجرا سنایا اس کا شوہر نبی مکرم (ﷺ)کے حلیہ مبارک اور آپ (ﷺ) کی صفات جمیلہ کو سن کر کہنے لگا کہ یہ وہی شخص ہیں جن کی تلاش میں قریش جگہ جگہ پھر رہے ہیں- اگر مجھے آپ (ﷺ) کی زیارت نصیب ہوتی تو میں ضرور ان سے درخواست کرتا کہ مجھے اپنی صحبت میں رہنے کی اجارت مرحمت فرمائیں- کچھ عرصہ کے بعد دونوں میاں بیوی نے مدینہ النبی (ﷺ) پہنچ کر اسلام قبول کیا-

تھک ہار کر قریش نے یہ اعلان کر دیا کہ جو شخص نبی (ﷺ) یا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)کو پکڑ کر لائے گا اسے ایک سو اونٹنیاں انعام میں دی جائیں گی، قسمت آزمائی کرنے والوں میں ایک نوجوان سراقہ بن مالک جعشم بھی تھا- اسے کسی نے آپ (ﷺ) کی خبر دی تو وہ گھوڑا دوڑاتاساحل سمندرطرف روانہ ہوا-جب وہ آپ (ﷺ)کے قریب پہنچا تو اس کے گھوڑے کو سخت ٹھوکر لگی جس کی وجہ سے و ہ نیچے گرگیا- اس نے تیروں سے فال نکالی جو اس کے حق میں نہ تھی تاہم وہ تعاقب میں روانہ ہوا-

حدیث شریف میں آتا ہے سراقہ نے بیان کیا کہ میں نے ان تیروں کی فال کی پروا نہ کی میں دوبارہ ان کے قریب ہوا حتی کہ میں نے رسول(ﷺ) کی تلاوت کو سنا اچانک میرے گھوڑے کے اگلے پاؤں زمین میں گھنٹوں تک دھنس گئے میں زمین پر گرپڑا میں نے پھر فال نکالی اس میں پھر میری ناپسندیدہ بات تھی- میں نے ان حضرات کو امن کیلئے پکارا تو حضور (ﷺ) نے حضرت صدیق (رضی اللہ عنہ) سے فرما یا کہ اس سے پوچھو یہ کیا چاہتا ہے؟ میں نے سارا ماجرا بیان کرکے اپنی سواری کے جانوروں کی پیش کش کی لیکن آپ (ﷺ) نے قبول نہ فرمایا- پھر میں نے آپ(ﷺ) سے درخواست کی کہ مجھے ایک ’’امن نامہ‘‘ کی تحریر لکھ دیں-آپ(ﷺ) نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا انہوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر تحریر لکھ کر مجھے دے دی- جب سراقہ نے لوٹنے کا ارادہ کیا تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس سے فرمایا !’’اے سراقہ اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب کسر یٰ کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے‘‘-سراقہ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا- حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کے عہد مبارک میں جب کسریٰ کا تاج اور اس کے سونے کے کنگن آپ کی خدمت میں پیش کئے گئے تو آپ نے سراقہ کو یاد فرمایا اور وہ کنگن اس کو پہنائے-

اہل مدینہ طیبہ کو جب سے رسول اﷲ(ﷺ) کی آمد کی اطلاع ملی اسی دن سے مقررہ ایام کے بعدوہ روزانہ نبی کریم رحمت عالم(ﷺ) کے استقبال کیلئے شہر سے باہر جمع ہو جاتے- ایک دن ایک یہودی نے جو قلعہ پر کھڑا ہوتا تھا اعلان کیا کہ اے اہل عرب جس کا تم انتظار کررہے تھے وہ آگیا- انصار جاء رسول اﷲ وجاء نبی اﷲ (ﷺ) کہتے ہوئے اپنی خوشی و مسرت کا اظہار کرنے لگے- قبیلہ بنو نجار کی چھوٹی لڑکیاں بھی حضور (ﷺ) کی شان اقدس میں نعتیہ اشعار پڑھتے ہوئے باہر نکل آئیں-

حضور نبی اکرم (ﷺ) کے دیدار سے جن انصار نے اپنی آنکھوں کو خیرہ نہیں کیا تھا وہ یہ گمان کرنے لگے کہ حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)اﷲ کے نبی ہیں- حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) اپنے آقا(ﷺ) میں اتنا فنا ہوچکے تھے کہ نئے لوگوں کو حضور نبی کریم (ﷺ) اور ان کے صاحب کی شناخت میں اشتباہ ہوگیا - اس شبہ کے ازالے  کیلیے آپ (رضی اللہ عنہ) ا پنی چادر مبارک حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سرہانے پھیلا کر کھڑے ہوگئے-

مدینہ منورہ سے تقریباً 3 میل کے فاصلہ پرمقامِ قباء میں آپ (ﷺ) نے نزول فرمایا- اس مقام پر رسول اﷲ (ﷺ) نے تقریباً 14دن قیام فرمایا- یہا ں نبی کریم(ﷺ) کا سب سے پہلا کام مسجد کی تعمیر کرانا تھا- جو آج مسجد قباء کے نام سے مشہور ہے- اس مسجد کی تعمیر میں رسول اﷲ (ﷺ) خود بھی بنفس نفیس مزدوروں کی طرح کام کرتے تھے- اسی مسجد کی شان قرآن مجید میں یوں بیان کی گئی ہے:

’’لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِط فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْاط وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ‘‘[6]

’’(اے حبیب!) آپ اس (مسجد کے نام پر بنائی گئی عمارت) میں کبھی بھی کھڑے نہ ہوں-البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، حقدار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں-اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسندکرتے ہیں اور اﷲ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے‘‘-

جمعہ المبارک کے دن آپ (ﷺ) قباء سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے- راستہ میں بنی سالم کے محلہ میں جمعۃ المبارک کی نماز صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے رسول اﷲ (ﷺ) کی اقتداء میں ادا کی-جب حضور نبی کریم (ﷺ) شہر کے قریب پہنچے تو خواتین رحمت عالم (ﷺ) کی تشریف آوری کا پر کیف نظارہ دیکھنے کے لئے چھتوں پر پہنچ گئیں اور نبی اکرم(ﷺ) کی شان اقدس میں نعتیہ اشعار پڑھنے لگیں:

 طلع البدر علینا
من ثنیات الوداع
و جب الشکر علینا
 ما دعا ﷲ داع
ایھا المبعوث فینا
 جئت بالامر المطاع
جئت شرفت المدینۃ
مرحبا یا خیر داع

ہر ایک جاں نثار کی یہ خواہش تھی کہ رحمت عالم (ﷺ) اس کے گھر قیام فرمائیں لیکن آپ (ﷺ) نے اپنی اونٹنی مبارک کو اس کے حال پر چھوڑ دیا- آپ (ﷺ) کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہ) کے مکان کے سامنے پہنچ کر بیٹھ گئی حضور نبی مکرم (ﷺ) نے آپؓ کے مکان کو تقریباً سات ماہ شرف اقامت سے سرفراز فرمایا-

٭٭٭


[1](الانفال : 30)

[2](سیرت ابن ہشام)

[3](صحیح بخاری، باب ہجرۃ النبی (ﷺ)

[4]( جامع ترمذی )

[5](التوبہ : 40)

[6](التوبۃ :108)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر