کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰے(ﷺ) : ایک تعارف

کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰے(ﷺ) : ایک تعارف

کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰے(ﷺ) : ایک تعارف

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری نومبر 2019

مصطفےٰ کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی سیرت و شمائل پر مشتمل ’’کتاب الشفاء‘‘ ابو الفضل قاضی عیاض مالکی اندلسی ؒ کی ایک شہرہ آفاق کتاب ہے- قاضی عیاضؒ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے بلکہ آپ گوناں گوں اوصاف و کمالات سے متصف ، مختلف علوم و فنون کے جامع، امام وقت اور علامہ الدہر تھے وہ اکابر آئمہ حفاظ  و محدثین اور افاضل فقہاء و ادباء میں سے تھے فنِ حدیث میں ان کا انہماک غیر معمولی اور بے مثال تھا آپ کی ذات در حقیقت لائق فخر اور سرمایۂ کمال تھی-

قاضی عیاضؒ ان تمام مذکورہ اوصاف و کمالات کے ساتھ متصف ہونے کے ساتھ ساتھ نامور مصنف بھی تھے ان کی تصنیفات کمیت و کیفیت دونوں اعتبار سے اہم بلند پایہ اور علم و فن کے ذخیرہ میں بیش بہا قیمت خیال کی جاتی ہیں اس لئے ان کو بڑی شہرت و اعتبار حاصل ہوا اور وہ ہر زمانے کے اہل علم میں مقبول و متد اول رہی ہیں مؤرخین نے ان کو مفید، معلومات افزا اور تحریر و انداز بیان کے لحاظ سے انوکھی اور دلکش بتایا ہے - ابن الانباری لکھتے ہیں ان کی مفید کتابوں کو نقل کر کے لوگ ان سے خوب فیض یاب ہوئے اور وہ ہر طبقہ کے لوگوں میں نہایت مقبول ہوئیں علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ ان کی اہم تصنیفات کا پورے عالم میں چرچا ہے ان کی بدولت مصنف کا نام روشن ہوا ان کے وطن سبتہ میں ان کے زمانے میں کسی شخص نے اتنی زیادہ کتابیں نہیں لکھی تھیں-[1]

قاضی صاحب کی اہم تصنیفات میں سے ایک مشہور تصنیف کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ (ﷺ) بھی ہے جس کی فضیلت و اہمیت پر ہم تبصرہ کرنے جارہے ہیں-

کتاب الشفاء میں رسول اکرم (ﷺ) کی عظمتِ شان اور آپ کے جلیل القدر منصب و مقام کو قرآن مجید، حدیث نبوی اور آئمہ کے اقوال کی روشنی میں واضح  کیا گیا ہے قاضی عیاض صاحب کتاب الشفاء کے مقدمہ میں فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تم نے مجھ سے رسول اللہ (ﷺ) کی قدر و منزلت، آپ کے اوصاف و محامد، آپ کی توقیر و احترام کا تذکرہ کرنے اور ان امور میں کمی اور کوتاہی کرنے والوں کے احکام بیان کرنے کے لئے مسلسل اصرار کیا ہے یہ بڑا دقت طلب اور مشکل کام ہے اور اس میں لغزش کا بھی اندیشہ ہے لیکن چوں کہ اس سے ثواب اور اللہ کے فضل و انعام کی توقع ہے اور اس کو ترک کرنا  کتمانِ علم کا موجب ہے جس کے متعلق سخت وعید آئی ہے اس لئے میں نے یہ کتاب لکھی ہے[2]

کتاب الشفاء کی جدت و ندرت کا چرچا ہر طبقہ و مسلک کے لوگوں میں رہا ہے اور اس کے انداز تحریر کی دلکشی اور دل آویزی کا قاضی عیاض کےمعاصرین، اربابِ سیر اور علمائے فن نے اعتراف کیا ہے صاحب دیباج لکھتے ہیں کہ:

مصنف کی انفرادیت، جدت اور سبقت و تقدم کا شرف مسلم ہے لوگوں نے اس کتاب کی نقل و درایت کر کے اس سے بڑا استفادہ کیا ہے اور شرق و غرب ہر جگہ اس کا غلغلہ بلند ہے-[3]

صاحب کشف الظنون فرماتے ہیں:

’’یہ نہایت بیش قیمت اور مفید کتاب ہے اس سے پہلے ایسی عمدہ کتاب نہیں لکھی گئی -[4]

صاحب روضات کا بیان ہے کہ ہمارے اصحاب یعنی فرقہ امامیہ کے لوگوں نے بھی اس کے بکثرت اقتباسات نقل کئے ہیں در حقیقت اس میں بے شمار فوائد، بلند تحقیقات اور رسول اللہ (ﷺ) کی ولادت سے وفات تک کے حالات و واقعات کے متعلق حدیثیں شامل ہیں مصنف نے اس میں اکابر شیوخ سے روایتیں نقل کی ہیں-[5]

علامہ شہاب الدین احمد بن یحیی اپنی کتاب مسالک الابصار میں فرماتے ہیں:

’’ولہ کتاب الشفاء بتعریف حققوق المصطفےٰ (ﷺ) لم یسبق الی مثلہ‘‘[6]

’’قاضی عیاضؒ کی ایک کتاب کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ ہے اور اس کی مثل اور کوئی کتاب نہیں گزری‘‘-

کتاب الشفاء کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امام علامہ محی الدین بن شرف النووی ؒ اپنی شرح مسلم میں جگہ جگہ ان کا حوالہ دیتے ہیں-امام بدر الدین عینی عمدۃ القاری میں اور حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں جابجا ان سے فوائد و نکات احادیث میں خوشہ چینی کرتے نظر آتے ہیں شارحین حدیث میں جہاں قال القاضی کہتے ہیں وہاں قاضی عیاضؒ ہی مراد ہوتے ہیں- بلاشبہ محققین و محدثین نے اس سے استفادہ کیا اور مابعد کے سیرت نگاروں نے اسے ماخذ کی حیثیت دی یہ کتاب دلوں کا نور اور ایمان کی رونق ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس میں نبی کریم (ﷺ) کے شمائل و فضائل صحیح اور مستند احادیث سے بیان کئے گئے ہیں-

کسی کتاب کی فضیلت و مقبولیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ بارگاہ رسالت میں مقبول ہو جائے تو یہ شرف شفاء شریف کو نصیب ہے کہ وہ بارگاہ نبوی (ﷺ) میں مقبول ہے جیسا کہ ایک دفعہ قاضی عیاضؒ کے بھتیجے نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ قاضی صاحب حضور نبی اکرم (ﷺ) کےساتھ ہونے کے تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں یہ منظر دیکھ کر ان پر ہیبت طاری ہوگئی حضرت قاضی عیاض نے ان کی حالت کو محسوس کیا اور فرمایا بھتیجے میری کتاب شفاء  کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو اسے اپنے لئے دلیل راہ بناؤ گویا یہ اشارہ تھا کہ مجھے یہ منصب و کرامت اس کتاب کی بدولت ملی ہے-[7]

کتاب الشفاء کو پڑھنے کی فضیلت کے بارے علامہ احمد شہاب الدین خفاجی فرماتے ہیں:

’’و اسمہ موافق لمسماہ فان السلف الصالحین قالوا انہ جرب قراء نہ لشفاء الامراض وفک عقد الشدائد وفیہ امان من الفرق و الحرق والطاعون ببرکۃ (ﷺ) و اذا صحح الاعتقاد حصل المراد‘‘[8]

’’شفاء شریف کا اسم اس کے مسمی کے موافق ہے کیونکہ سلف صالحین فرماتے ہیں کہ اس کا پڑھنا بیماریوں سے شفا اور مشکلات کے حل کیلئے بہترین اور محرب عمل ہے اور نبی کریم (ﷺ) کی برکت سے اس کتاب کو پڑھنے سے ڈوبنے،  جلنے اور طاعون کی بیماریوں سے نجات رہتی ہے اگر اعتقاد صحیح ہو تو مراد حاصل ہوجاتی ہے‘‘-

کتاب الشفاء کو ایسا مقام و مرتبہ نصیب ہوا ہے کہ بارگاہ رسالت مآب (ﷺ) میں مقبولیت پانے کے بعد ہر زمانے کے علماء و صلحاء کی نظر میں یہ کتاب ایک خصوصی مقام کی حامل ہو گئی ہے انہوں نے نہ صرف نثر میں اس کی تعریف کی بلکہ  نظم اور اشعار کی صورت میں بھی اس کی فضیلت و اہمیت کو بیان کیا-

جیسا کہ لسان الدین خطیب تلمسانی نظم کی صورت میں فرماتے ہیں:

شفاء عیاض للصدور شفاء
 و لیس للفضل قد حواہ خفاء

’’شفاء عیاض دلوں کی شفا ہے اور جس  فضیلت پر یہ مشتمل ہے وہ مخفی نہیں‘‘-

ھدیۃ بر لم یکن لجز یلھا
 سوی الاجر و الذکر الجمیل کفاء

’’یہ ایک نیک شخصیت کا ہدیہ ہے جس کی عظمت کا بدلہ صرف ثواب اور ذکر جمیل ہے‘‘-

و فی لبنی اللہ حق و فائہ
و اکرم اوصاف الکرام وفاء

’’انہوں نے آپ (ﷺ) کےساتھ وفا کا حق ادا کر دیا اور کریموں کا بہترین وصف وفا ہی ہے ‘‘-

و جاء بہ بحرا یفوق لفضلہ
علی البحر طعم طیب و صفاء

’’وہ ایسا سمندر لائے ہیں جو اپنی برتری کے اعتبار سے پانی کے سمندر پر فائق خوش مزہ اور صاف ہے‘‘-

حق رسول اللہ بعد و فاتہ
رعاہ و اغفال الحقوق جفاء

’’انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے وصال کے بعد آپ کے حق کی رعایت کی ہے اور آپ کے حقوق سے غفلت جفا ہے‘‘-

ھو الاثر المحمود لیس ینالہ
دثور و لا یخشی علیہ عفاء

’’وہ ایسی یادگار ہے جو پرانی نہیں ہوتی اور اس کے فنا ہونے کا خوف بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘-

حرصت علی الاطناب فی نشر فضلہ
 و تمجیدہ لو ساعدتنی وفاء

’’اگر وفا نے میری ہمنوائی کی تو میں اس کی فضیلت اور بزرگی کو بھر پور طریقے پر پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہوں‘‘-[9]

حضرت علامہ ابو الحسین زیدی فرماتے ہیں:

کتاب الشفاء شفاء القلوب
 قد ائنلفت شمس برھانہ

’’کتاب شفاء (بلاشبہ) دلوں کی شفا ہے جس کے برہان کا سورج پوری طرح جگمگارہا ہے‘‘-

فاکرم بہ ثم اکرم بہ
 و اعظم مدی الدھر من شانہ

’’تو اس کی عزت و تکریم کرتا رہ اور زندگی بھر اس کی عظمت و شان و بیان کرتا رہ‘‘-

اذا طالع المرء مضمونہ
رسی فی الھدی اصل ایمانہ

’’جب کوئی اس کے مضمون کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے ایمان کی جڑ ہدایت میں مضبوط ہوجاتی ہے‘‘-

و جاء بروض التقی ناشقا 
ارائح از ھار افنانہ[10]

’’وہ تقوی اور لطافت کا ایسا باغ لائے ہیں جس کی شاخوں کی خوشبوئیں مہکتی رہتی ہیں‘‘-

شفاء شریف کی مقبولیت عامہ اور  اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ افاضل کی بہت بڑی جماعت نے اس پر شروح اور حواشی لکھے ہیں ان تمام کی تعداد تقریباً 26 ہے –ان میں چند قابل ذکر اور مشہور شرحیں یہ ہیں:

v     نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض(اس کے شارح علامہ احمد شہاب الدین خفاجی ہیں)-

v     شرح الشفاء  علامہ ملا علی قاری

v     المدد الفیاض(اس کے شارح الشیخ حسن العدوی الحمزاوی)

v     کتاب مزیل الخفا عن الفاظ الشفا (تالیف از علامہ تقی الدین احمد بن محمد بن حسن التمیمی)

v     کتاب المقنفی فی حل الفاظ الشفاء (تالیف: علامہ برہان الدین ابراہیم بن محمد بن خلیل الحلبی)

v   مناہل الصفافی تخریج احادیث الشفاء[11] (تالیف علامہ جلال الدین سیوطی)

علامہ قاضی عیاضؒ نے کتاب الشفاء کی ترتیب کچھ اس طرح رکھی ہے کہ اس کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:

قسم اول:

ان ارشادات الٰہیہ کے بیان میں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قول و فعل میں اپنے نبی (ﷺ) کی تعظیم و توقیر کی ہے اس میں چار باب ہیں:

باب اول: اس میں بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی تعریف کی ہے اور آپ (ﷺ) کی قدر و منزلت جواس کی بارگاہ میں ہے اس کا اظہار کیا ہے-

باب دوم: اس میں بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ)  کی پیدائش اور اخلاق کے بارے میں مناقب بیان کیے ہیں اور آپ میں تمام دینی اور دنیاوی فضائل جمع کردیے ہیں-

باب سوم: اس میں وہ صحیح اور مشہور حدیثیں ہیں جن میں آپ (ﷺ) کی قدر و منزلت جو بارگاہ الٰہی میں پائی جاتی ہے ان کا ذکر ہے اور آپ کو دارین کے فضائل میں جو خصوصیات مرحمت فرمائیں ان کا بیان ہے-

باب چہارم: اس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے جو معجزات اور نشانیاں ظاہر فرمائیں اور جو آپ کو خاص طور پر بزرگیاں عنایت فرمائیں ان میں ان کا بیان ہے-

قسم دوم:

اس میں آپ (ﷺ) کے ان حقوق کا بیان ہے جن کی  بجاآوری ہر ایک پر واجب ہے اس میں چار باب ہیں:

باب اول:اس میں بیان ہے کہ آپ پر ایمان لانا فرض ہے  اور آپ (ﷺ) کی اطاعت اور آپ (ﷺ) کی سنت کا اتباع لازم ہے اس میں چار فصلیں ہیں-

باب دوم: اس میں بیان ہے کہ آپ (ﷺ) کی محبت لازم ہے-

باب سوم: اس میں بیان ہے کہ آپ (ﷺ) کی  تعظیم و توقیر لازم ہے اس میں چھ فصلیں ہیں-

باب چہارم: اس میں بیان ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) پر صلوٰۃ و سلام کا حکم کیا ہے-

قسم ثالث:

اس میں ان امور کا بیان ہے جو نبی اکرم (ﷺ) کے لئے جائز ہیں اور جو امور ممتنع ہیں اور وہ امور بشریہ جن کی نسبت کرنا آپ کی طرف کرنا صحیح ہے یہ قسم کتاب کی جان اور پہلے ابواب کا نتیجہ ہے اور پہلے ابواب تمہید کی حیثیت رکھتے ہیں-

اس قسم میں دو باب ہیں:

باب اول: امور دینیہ میں

باب دوم: امورِ دنیاویہ میں

قسم رابع:

اس میں بیان ہے کہ آپ (ﷺ) کی شان میں تنقیص کرنے اور گالی بکنے والے کا حکم کیا ہےا س قسم میں تین باب ہیں:

باب اول: وہ امور جو نبی اکرم (ﷺ) کے حق میں نقص اور گالی ہیں-

باب دوم: بارگاہِ اقدس کے گستاخ کا حکم اور اس کی سزا پر مشتمل ہے-

باب سوم: بارگاہِ الٰہی، رسولانِ گرامی ، ملائکہ، کتب سماویہ اہل بیت کی شان میں گالی بکنے والے کے حکم پر مشتمل ہے-

٭٭٭


[1](تذکرۃ الحفاظ، ج:4، ص:100)

[2](کتاب الشفاء، مقدمہ)

[3](الدیبان المۃزب، ص:170)

[4](کشف الظنون، ج:2، ص:62)

[5](تذکرۃ المحدثین، ج:2، ص:170)

[6](مسالک الابصار، ج:5، ص:715)

[7](تذکرۃ المحدثین، ج:4، ص:98)

[8](نسیم الریاض، ج:1، ص:52)

[9](بستان المحدثین، ص:342-343)

[10](ایضاً، ص:344)

[11](شرح الشفا؍،ص:3-4)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر