مُہرِنبوتﷺ

مُہرِنبوتﷺ

حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرة طیبہ کی جامعیت و اکملیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیائے انسانیت کی کسی بھی عظیم ہستی کے احوالِ زندگی، معمولاتِ زندگی، اطوارِ زندگی،   عادات و خیالات ِ زندگی اس قدر مفصّل و مدلل طریقہ پر محفوظ نہیں کئے گئے  جس طرح آپ (ﷺ) کی حیات طیبہ کا ہر پہلو تحریری شکل میں محفوظ کیا گیا ہے-

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو جو نعمتیں، فضیلتیں اور خصائص عطا فرمائے ہیں آپ (ﷺ)کے علاوہ کسی دوسرے نبی اور رسول (علیہم السلام) کے حصے میں نہیں آئے اور جس اعزاز و اکرام سے آپ (ﷺ) کو نوازا گیا وہ آپ (ﷺ)ہی کاامتیاز ہے-اللہ رب العزت نے آپ (ﷺ) کو جن امتیازی اوصاف سے نوازا ان میں سے کچھ تو وہ کمالات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آپ (ﷺ) کو نوازا اور کچھ وہ کمالات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں آپ (ﷺ) کو نوازا-اِس دُنیا میں عطا ہونے والے اوصاف میں سے ایک وصف مہر نبوت (ﷺ) ہے جو صرف آپ (ﷺ) کا خاصہ ہے-یہ آپ (ﷺ) کی ایک ایسی منفرد شان ہے جو آپ (ﷺ) کے خاتم النبیین ہونے کی دلیل ہے کہ آپ (ﷺ)  کےبعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ (ﷺ) اللہ تعالی کے آخری پیغمبر ہیں؛آپ (ﷺ)کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ  کیلئے بند ہوچکا ہے -

صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا مہرِ نبوت کا مشاہدہ کرنا :

محدثین کرام ؒ نے  کتب ا ِ حاد یث میں  مہر نبوت سے متعلق مستقل ابواب باندھے ہیں؛ خوفِ طوالت کی وجہ سے فقط  برکت کیلئے  چند روایات عرض کرتا ہوں :-

حضرت امام بخاری’’صحيح البخارى، کتاب الوضوء‘‘ میں نقل کرتے ہیں  کہ حضرت جعد (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سائب بن یزید (رضی اللہ عنہ) سے سنا کہ آپ(ﷺ) فرماتے ہیں کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ) :

’’إِنَّ ابْنَ أُخْتِى وَجِعٌ . فَمَسَحَ رَأْسِى وَدَعَا لِى بِالْبَرَكَةِ ، ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ ، فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِثْلِ  زِرِّ الْحَجَلَةِ ‘‘

’’میرے بھانجے کے سر میں درد ہے - اس پر آپ (ﷺ) نے میرے سر پر دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی - اس کے بعد آپ (ﷺ)نے وضو کیا تو میں نے آپ (ﷺ)کے وضو کا پانی پیا، پھر آپ (ﷺ)کی پیٹھ کی طرف جاکے کھڑا ہو گیا اور میں نے مہر نبوت کو آپ (ﷺ) کے دونوں کندھوں کے درمیان دیکھا جو کبوتر کے انڈے جیسی تھی ‘‘-

علامہ بدر الدین عینی حنفی (المتوفی:855ھ) ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’آپ (ﷺ) کے کندھوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر ابھرا ہوا گوشت ظاہر ہوگیا اسی وجہ سے میدانِ حشر میں آپ (ﷺ) کا نمایاں ظہور ہوگا اور تمام رسولوں میں سے سب سے پہلے آپ (ﷺ) کو شفاعت عطا کی جائے گی اور آپ (ﷺ) مقامِ محمود پر فائز ہوں گے‘‘-[1]

امام مسلم، ’’صحیح مسلم‘‘ میں  مہر نبوت (ﷺ) سے متعلق باب باندھتے ہیں :

’’باب إِثْبَاتِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَصِفَتِهِ وَمَحِلِّهِ مِنْ جَسَدِهِ (ﷺ)‘‘

’’مہر نبوت (ﷺ) کا اثبات اور اس کی صفت اور آپ (ﷺ) کے جسم مبارک میں اس کا محل‘‘-

’’عَنْ عَبْدِ اللّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِىَّ (ﷺ) وَأَكَلْتُ مَعَهُ خُبْزًا وَلَحْمًا أَوْ قَالَ ثَرِيْدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ أَسْتَغْفَرَ لَكَ النَّبِىُّ (ﷺ) قَالَ نَعَمْ وَلَكَ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الآيَةَ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ) قَالَ ثُمَّ دُرْتُ خَلْفَهُ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عِنْدَ نَاغِضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى جُمْعًا عَلَيْهِ خِيْلاَنٌ كَاَمْثَالِ الثَّآلِيْلِ‘‘

’’سیدنا حضرت عبد اللہ بن سرجس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا اور آپ  (ﷺ) کے ساتھ روٹی اور گوشت یا فرمایا  ثرید کھایا، راوی کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: تمہارے  لیے بخشش چاہی رسول اللہ (ﷺ)نے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور تیرے لیے بھی، پھر یہ آیت پڑھی ’’وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ‘‘[2]یعنی بخشش مانگ اپنے گناہ کی اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے گناہ کی“ عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا: پھر میں آپ (ﷺ)کے پیچھے گیا تو مَیں نے آپ (ﷺ)  کے دو کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت دیکھی ، وہ آپ (ﷺ) کے بائیں کندھے کی چپنی ہڈی کے پاس مسوں کے تل کی طرح تھی‘‘-

امام ابوعیسی ترمذیؒ، سنن ترمذی میں  حضرت ابراہیم بن محمد ؒ کی ایک طویل روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے (حضور نبی اکرم (ﷺ) کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے) فرمایا:

قَالَ: بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَ هُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ‘‘[3]

آپ (ﷺ)کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ (ﷺ) خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہیں‘‘-

مہرِ نبوت کی ہیئت و شکل :

صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)نے مہر نبوت کی ہیئت و شکل کو مختلف تشبیہات کے ساتھ بیان کی ہے کسی نے کہا مسوں کے تل کی طرح تھی کسی نے کہا بالوں کے گچھے کی طرح تھی-کسی نے کہا کبوتری کے انڈے کی طرح تھی کسی نے کہا کہ وہ ابھرے ہوئے گوشت کا ٹکڑا تھا-یہ دیکھنے والے نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق مہر نبوت کو تشبیہ دی -چند روایات ذکر کر دیتا ہوں:

’’عَنْ سِمَاكٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ خَاتِمًا فِى ظَهْرِ رَسُولِ اللهِ(ﷺ)كَاَنَّهُ بَيْضَةُ حَمَامٍ‘‘[4]

’’حضرت سماک(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ (رضی اللہ عنہ ) سے سنا آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ میں نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی پشت مبارک میں مہر (نبوت)دیکھی  جیسے  کبوتری کا انڈہ  ہو‘‘-

 امام مسلم، صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب شَيْبِهِ (ﷺ) میں ایک روایت نقل کرتے ہیں  کہ:

جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللّهِ(ﷺ) قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ وَكَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ قَالَ لاَ بَلْ كَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ وَ كَانَ مُسْتَدِيْرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ كَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ يُشْبِهُ جَسَدَهُ.

’’حضرت جابر بن سمرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کے سرمبارک  کے اگلے بال اور ڈاڑھی مبارک کے بال سفید ہوگئے، جب آپ (ﷺ) (ان بالوں میں) تیل لگاتے تو سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب آپ (ﷺ) کے بال مبارک بکھرے ہوئے ہوتے تو سفیدی معلوم ہوتی،آپ (ﷺ) کی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ایک شخص نے کہاکہ آپ (ﷺ) کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح تھا،نہیں بلکہ سورج اور چاند کی مثل تھا اور آپ (ﷺ)  کا چہرہ مبارک گول تھا اور میں نے آپ (ﷺ) کے کندھے مبارک کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابرمہرِ نبوت دیکھی جس کا رنگ جسم کے رنگ کے مشابہ تھا‘‘-

مہر نبوت کا خوشبودار ہونا :

حضرت امام قاضی عیاض مالکی ؒ حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کی روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’قال: اردفنی رسول اللہ (ﷺ) خلقہ فالتقمت خاتم النبوة بفي فكان ينم علي مسكا‘‘[5]

’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے ایک دفعہ سواری پر  مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا، پس میں نے اپنے منہ کو مہر نبوت کے قریب کیا تو اس کی دل نواز مہک مجھ پر غالب آ رہی تھی‘‘-

حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کو پادری نے نبی آخر الزماں (ﷺ) کی پہچان کیلئے جو نشانیاں بتائی تھیں ان میں سے بھی ایک نشانی دو کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی جس کے مشاہدے کے بعد حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) نے ایمان لایا-

آئمہ کرام  اس مہرِ نبوت کو ختمِ نبوت کی ایک دلیل کے طور پر بھی لیتے ہیں- احادیث مبارکہ بھی ختم ِ نبوت کے اسی معنی کی تشریح کرتی ہیں، جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’بنی اسرائیل کی قیادت انبیا ء (علیھم السلام) کیا کرتے تھے- جب کوئی نبی انتقال فرما جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، بلکہ خلفاء ہوں گے‘‘-[6]

امام فخر الدین رازیؒ فرماتے ہیں:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) خاتم النبیین ہیں اور آپ (ﷺ) کے بعد کوئی نبی نہیں، کیونکہ اگر ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آنا ہوتاتو پہلا تبلیغ ِ اسلام اور توضیح ِ احکام کا مشن کسی حد تک نا مکمل چھوڑ جاتا اور پھر بعد میں آنے والا اسے مکمل کرتا‘‘- [7]

لیکن حضورنبی کریم (ﷺ) کے تشریف لے جانے سے قبل دین کی تکمیل کی گواہی دیتے ہوئے قرآن ِکریم نے واضح اعلان فرما دیا :

’’اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيْنًا‘‘[8]

’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا‘‘-

دین کی تکمیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ (ﷺ) کے بعد کسی نبی یا رسول کے آنے کی ضرورت نہیں رہی  اور نہ کوئی آئے گا -

 امام ابن ِ جریر طبری ؒرقم طراز ہیں:

’’آپ(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں، جنہوں نے تشریف لا کر سلسلۂ نبوت ختم فرما دیا ہے اور اس پر مہر ثبت کر دی ہے، اب یہ قیامت تک کسی اور کے لیے نہیں کھولی جائے گی‘‘-

امام بیہقی اور امام طبرانی ؒروایت  کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں‘‘- [9]

امام بیضاویؒ بھی خاتم النبیین کی یہی تشریح کرتے ہیں:

’’آپ(ﷺ) انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے آخری نبی ہیں، جس سے انبیاء (علیھم السلام) کے سلسلے پر مہر لگ گئی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آپ(ﷺ) کے بعد نازل ہونا اس ختم ِ نبوت میں مانع نہیں ہے کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپ(ﷺ) ہی کے دین پر ہوں گے‘‘- [10]

ان تما م آیات اور احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)کی مہرِ نبوت آپ (ﷺ) کے اُن  اوصافِ حمیدہ میں سے ایک ہے جن کا ظہُور اِس دُنیا میں بھی ہوا اور یہ منفرد شانِ نبوت بھی ہے اور نشانِ ختمِ نبوت بھی ہے -

 آپ (ﷺ) اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں، آپ (ﷺ)  کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، نبوت کا سلسلہ آپ (ﷺ) پر ختم ہو چکا ہے اور آپ(ﷺ) کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور کذاب ہےاور قرآن پاک کے الفاظ ’’خاتم النبیین‘‘ خود اس معاملے میں حجت ہیں اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب قرآن اور سنت خود ایک لفظ کی تشریح کر رہے ہیں  تو دوسرے کی کیا مجال ہے کہ اپنی من گھڑت تاویل لائے -

اسی مہر نبوت (ﷺ) کو اور آقا علیہ السلام کے ’’امام القبلتین‘‘ ہونے کو پہلی آسمانی کتب میں آخری نبی (ﷺ)  کی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے -

٭٭٭


[1](عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج:3، ص:117)

[2](محمد:19)

[3](جامع الترمذی، ابواب المناقب عن رسول الله ()

[4]( صحیح مسلم ،کتاب الفضائل)

[5](الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ (ﷺ) (فصل) و اما نظافۃ جسمہ و طیب ریحہ و عرقہ (ﷺ))

[6](صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب ما ذکر عن بنی اسرایل)

[7](تفسیر کبیر)

[8](المائدہ:3)

[9](بیہقی، کتاب الرؤیا- طبرانی)

[10](انوار التنزیل، ج:4، ص:164)

حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرة طیبہ کی جامعیت و اکملیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیائے انسانیت کی کسی بھی عظیم ہستی کے احوالِ زندگی، معمولاتِ زندگی، اطوارِ زندگی،   عادات و خیالات ِ زندگی اس قدر مفصّل و مدلل طریقہ پر محفوظ نہیں کئے گئے  جس طرح آپ (ﷺ) کی حیات طیبہ کا ہر پہلو تحریری شکل میں محفوظ کیا گیا ہے-

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو جو نعمتیں، فضیلتیں اور خصائص عطا فرمائے ہیں آپ (ﷺ)کے علاوہ کسی دوسرے نبی اور رسول (﷩) کے حصے میں نہیں آئے اور جس اعزاز و اکرام سے آپ (ﷺ) کو نوازا گیا وہ آپ (ﷺ)ہی کاامتیاز ہے-اللہ رب العزت نے آپ (ﷺ) کو جن امتیازی اوصاف سے نوازا ان میں سے کچھ تو وہ کمالات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آپ (ﷺ) کو نوازا اور کچھ وہ کمالات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں آپ (ﷺ) کو نوازا-اِس دُنیا میں عطا ہونے والے اوصاف میں سے ایک وصف مہر نبوت (ﷺ) ہے جو صرف آپ (ﷺ) کا خاصہ ہے-یہ آپ (ﷺ) کی ایک ایسی منفرد شان ہے جو آپ (ﷺ) کے خاتم النبیین ہونے کی دلیل ہے کہ آپ (ﷺ)  کےبعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ (ﷺ) اللہ تعالی کے آخری پیغمبر ہیں؛آپ (ﷺ)کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ  کیلئے بند ہوچکا ہے -

صحابہ کرام (﷢) کا مہرِ نبوت کا مشاہدہ کرنا :

محدثین کرام (﷭) نے  کتب ا ِ حاد یث میں  مہر نبوت سے متعلق مستقل ابواب باندھے ہیں؛ خوفِ طوالت کی وجہ سے فقط  برکت کیلئے  چند روایات عرض کرتا ہوں :-

حضرت امام بخاری’’صحيح البخارى، کتاب الوضوء‘‘ میں نقل کرتے ہیں  کہ حضرت جعد (﷜) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سائب بن یزید (﷜) سے سنا کہ آپ(﷜) فرماتے ہیں کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ) :

’’إِنَّ ابْنَ أُخْتِى وَجِعٌ . فَمَسَحَ رَأْسِى وَدَعَا لِى بِالْبَرَكَةِ ، ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ ، فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِثْلِ  زِرِّ الْحَجَلَةِ ‘‘

’’میرے بھانجے کے سر میں درد ہے - اس پر آپ (ﷺ) نے میرے سر پر دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی - اس کے بعد آپ (ﷺ)نے وضو کیا تو میں نے آپ (ﷺ)کے وضو کا پانی پیا، پھر آپ (ﷺ)کی پیٹھ کی طرف جاکے کھڑا ہو گیا اور میں نے مہر نبوت کو آپ (ﷺ) کے دونوں کندھوں کے درمیان دیکھا جو کبوتر کے انڈے جیسی تھی ‘‘-

علامہ بدر الدین عینی حنفی (المتوفی:855ھ) ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’آپ (ﷺ) کے کندھوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر ابھرا ہوا گوشت ظاہر ہوگیا اسی وجہ سے میدانِ حشر میں آپ (ﷺ) کا نمایاں ظہور ہوگا اور تمام رسولوں میں سے سب سے پہلے آپ (ﷺ) کو شفاعت عطا کی جائے گی اور آپ (ﷺ) مقامِ محمود پر فائز ہوں گے‘‘-[1]

امام مسلم، ’’صحیح مسلم‘‘ میں  مہر نبوت (ﷺ) سے متعلق باب باندھتے ہیں :

’’باب إِثْبَاتِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَصِفَتِهِ وَمَحِلِّهِ مِنْ جَسَدِهِ (ﷺ)‘‘

’’مہر نبوت (ﷺ) کا اثبات اور اس کی صفت اور آپ (ﷺ) کے جسم مبارک میں اس کا محل‘‘-

’’عَنْ عَبْدِ اللّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِىَّ (ﷺ) وَأَكَلْتُ مَعَهُ خُبْزًا وَلَحْمًا أَوْ قَالَ ثَرِيْدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ أَسْتَغْفَرَ لَكَ النَّبِىُّ (ﷺ) قَالَ نَعَمْ وَلَكَ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الآيَةَ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ) قَالَ ثُمَّ دُرْتُ خَلْفَهُ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عِنْدَ نَاغِضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى جُمْعًا عَلَيْهِ خِيْلاَنٌ كَاَمْثَالِ الثَّآلِيْلِ‘‘

’’سیدنا حضرت عبد اللہ بن سرجس (﷜) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا اور آپ  (ﷺ) کے ساتھ روٹی اور گوشت یا فرمایا  ثرید کھایا، راوی کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ (﷜) سے پوچھا: تمہارے  لیے بخشش چاہی رسول اللہ (ﷺ)نے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور تیرے لیے بھی، پھر یہ آیت پڑھی ’’وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ‘‘[2]یعنی بخشش مانگ اپنے گناہ کی اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے گناہ کی“ عبد اللہ (﷜) نے کہا: پھر میں آپ (ﷺ)کے پیچھے گیا تو مَیں نے آپ (ﷺ)  کے دو کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت دیکھی ، وہ آپ (ﷺ) کے بائیں کندھے کی چپنی ہڈی کے پاس مسوں کے تل کی طرح تھی‘‘-

امام ابوعیسی ترمذی (﷫)، سنن ترمذی میں  حضرت ابراہیم بن محمد (﷫) کی ایک طویل روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’حضرت علی (﷜) نے (حضور نبی اکرم (ﷺ) کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے) فرمایا:

قَالَ: بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَ هُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ‘‘[3]

آپ (ﷺ)کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ (ﷺ) خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہیں‘‘-

مہرِ نبوت کی ہیئت و شکل :

صحابہ کرام (﷢)نے مہر نبوت کی ہیئت و شکل کو مختلف تشبیہات کے ساتھ بیان کی ہے کسی نے کہا مسوں کے تل کی طرح تھی کسی نے کہا بالوں کے گچھے کی طرح تھی-کسی نے کہا کبوتری کے انڈے کی طرح تھی کسی نے کہا کہ وہ ابھرے ہوئے گوشت کا ٹکڑا تھا-یہ دیکھنے والے نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق مہر نبوت کو تشبیہ دی -چند روایات ذکر کر دیتا ہوں:

’’عَنْ سِمَاكٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ خَاتِمًا فِى ظَهْرِ رَسُولِ اللهِ(ﷺ)كَاَنَّهُ بَيْضَةُ حَمَامٍ‘‘[4]

’’حضرت سماک(﷜) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ (﷜) سے سنا آپ (﷜)نے فرمایا کہ میں نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی پشت مبارک میں مہر (نبوت)دیکھی  جیسے  کبوتری کا انڈہ  ہو‘‘-

 امام مسلم، صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب شَيْبِهِ (ﷺ) میں ایک روایت نقل کرتے ہیں  کہ:

جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللّهِ(ﷺ) قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ وَكَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ قَالَ لاَ بَلْ كَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ وَ كَانَ مُسْتَدِيْرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ كَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ يُشْبِهُ جَسَدَهُ.

’’حضرت جابر بن سمرہ (﷜) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کے سرمبارک  کے اگلے بال اور ڈاڑھی مبارک کے بال سفید ہوگئے، جب آپ (ﷺ) (ان بالوں میں) تیل لگاتے تو سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب آپ (ﷺ) کے بال مبارک بکھرے ہوئے ہوتے تو سفیدی معلوم ہوتی،آپ (ﷺ) کی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ایک شخص نے کہاکہ آپ (ﷺ) کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح تھا،نہیں بلکہ سورج اور چاند کی مثل تھا اور آپ (ﷺ)  کا چہرہ مبارک گول تھا اور میں نے آپ (ﷺ) کے کندھے مبارک کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابرمہرِ نبوت دیکھی جس کا رنگ جسم کے رنگ کے مشابہ تھا‘‘-

مہر نبوت کا خوشبودار ہونا :

حضرت امام قاضی عیاض مالکی (﷫) حضرت جابر (﷜) کی روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ (﷜) نے فرمایا:

’’قال: اردفنی رسول اللہ (ﷺ) خلقہ فالتقمت خاتم النبوة بفي فكان ينم علي مسكا‘‘[5]

’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے ایک دفعہ سواری پر  مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا، پس میں نے اپنے منہ کو مہر نبوت کے قریب کیا تو اس کی دل نواز مہک مجھ پر غالب آ رہی تھی‘‘-

حضرت سلمان فارسی (﷜) کو پادری نے نبی آخر الزماں (ﷺ) کی پہچان کیلئے جو نشانیاں بتائی تھیں ان میں سے بھی ایک نشانی دو کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی جس کے مشاہدے کے بعد حضرت سلمان فارسی (﷜) نے ایمان لایا-

آئمہ کرام  اس مہرِ نبوت کو ختمِ نبوت کی ایک دلیل کے طور پر بھی لیتے ہیں- احادیث مبارکہ بھی ختم ِ نبوت کے اسی معنی کی تشریح کرتی ہیں، جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’بنی اسرائیل کی قیادت انبیا ء (﷩) کیا کرتے تھے- جب کوئی نبی انتقال فرما جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، بلکہ خلفاء ہوں گے‘‘-[6]

امام فخر الدین رازی(﷫) فرماتے ہیں:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) خاتم النبیین ہیں اور آپ (ﷺ) کے بعد کوئی نبی نہیں، کیونکہ اگر ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آنا ہوتاتو پہلا تبلیغ ِ اسلام اور توضیح ِ احکام کا مشن کسی حد تک نا مکمل چھوڑ جاتا اور پھر بعد میں آنے والا اسے مکمل کرتا‘‘- [7]

لیکن حضورنبی کریم (ﷺ) کے تشریف لے جانے سے قبل دین کی تکمیل کی گواہی دیتے ہوئے قرآن ِکریم نے واضح اعلان فرما دیا :

’’اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيْنًا‘‘[8]

’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا‘‘-

دین کی تکمیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ (ﷺ) کے بعد کسی نبی یا رسول کے آنے کی ضرورت نہیں رہی  اور نہ کوئی آئے گا -

 امام ابن ِ جریر طبری (﷫)رقم طراز ہیں:

’’آپ(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں، جنہوں نے تشریف لا کر سلسلۂ نبوت ختم فرما دیا ہے اور اس پر مہر ثبت کر دی ہے، اب یہ قیامت تک کسی اور کے لیے نہیں کھولی جائے گی‘‘-

امام بیہقی اور امام طبرانی (﷭)روایت  کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں‘‘- [9]

امام بیضاوی (﷫) بھی خاتم النبیین کی یہی تشریح کرتے ہیں:

’’آپ(ﷺ) انبیاء کرام (﷩) میں سے آخری نبی ہیں، جس سے انبیاء (﷩) کے سلسلے پر مہر لگ گئی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آپ(ﷺ) کے بعد نازل ہونا اس ختم ِ نبوت میں مانع نہیں ہے کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپ(ﷺ) ہی کے دین پر ہوں گے‘‘- [10]

ان تما م آیات اور احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)کی مہرِ نبوت آپ (ﷺ) کے اُن  اوصافِ حمیدہ میں سے ایک ہے جن کا ظہُور اِس دُنیا میں بھی ہوا اور یہ منفرد شانِ نبوت بھی ہے اور نشانِ ختمِ نبوت بھی ہے -

 آپ (ﷺ) اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں، آپ (ﷺ)  کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، نبوت کا سلسلہ آپ (ﷺ) پر ختم ہو چکا ہے اور آپ(ﷺ) کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور کذاب ہےاور قرآن پاک کے الفاظ ’’خاتم النبیین‘‘ خود اس معاملے میں حجت ہیں اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب قرآن اور سنت خود ایک لفظ کی تشریح کر رہے ہیں  تو دوسرے کی کیا مجال ہے کہ اپنی من گھڑت تاویل لائے -

اسی مہر نبوت (ﷺ) کو اور آقا علیہ السلام کے ’’امام القبلتین‘‘ ہونے کو پہلی آسمانی کتب میں آخری نبی (ﷺ)  کی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے -

٭٭٭



[1](عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج:3، ص:117)

[2](محمد:19)

[3](جامع الترمذی، ابواب المناقب عن رسول الله ()

[4]( صحیح مسلم ،کتاب الفضائل)

[5](الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ (ﷺ) (فصل) و اما نظافۃ جسمہ و طیب ریحہ و عرقہ (ﷺ))

[6](صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب ما ذکر عن بنی اسرایل)

[7](تفسیر کبیر)

[8](المائدہ:3)

[9](بیہقی، کتاب الرؤیا- طبرانی)

[10](انوار التنزیل، ج:4، ص:164)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر