سیرتِ طیبہ(ﷺ) : اسلام اور بین المذاہب ہم آہنگی

سیرتِ طیبہ(ﷺ) : اسلام اور بین المذاہب ہم آہنگی

سیرتِ طیبہ(ﷺ) : اسلام اور بین المذاہب ہم آہنگی

مصنف: محمدرضوان دسمبر 2017

اقوام عالم میں جب بھی تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے عالم انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لینے کی ناکام کوشش کی تو رحمت خداوندی نے ان کا سد باب بڑی خوش اسلوبی سے فرمایا-انبیاء کرام (علیھم السلام)کا سلسلہ شروع فرما یا جس کا آغاز آدم علیہ السلام سے ہو کر آقأ نامدار تاجدارِ حرم خاتم الانبیاء حضرت محمدمصطفےٰ (ﷺ)پر اختتام پذیر ہو گیا-مختلف قبائل،علاقوں،اقوام میں انبیاء کرام کا ظہور وقتاً فوقتاً ہوتا رہا جنہوں نے اپنے فرائض کو مستحسن انداز میں ادا کرنے کی سعی جمیل کی-قبل از ظہور نبی آخر الزماں حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کے کئی مذاہب نور ہدایت کے پیغام سے سر شار دنیا میں ظہور پذیر ہوئے- آسمانی مذاہب کی تعلیم نفرت و تفرقہ سے ماوراء انسانیت کی بنیادوں پر رکھی گئی- علاوہ ازیں بھی ادیانِ عالم میں امن و محبت کی تعلیم کو فروغ ملتا رہا – ادبِ ادیان کا مُطالعہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ انسان کی جستجو ہمیشہ ایک سیدھا راستہ رہی ہے جس کیلئے انسانوں نے مذاہب سے پُختہ وابستگی اختیار کی - بنی نوع انسان راہ ہدایت حاصل کرنے اور اس پر گامزن رہنے کےلئے ہر دور میں کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کرتے رہے ہیں-

اس پیغامِ ہدایت کو پہنچانے کےلئے کس قد ر مشکل اور صبر آزما مراحل سے انبیاء کرام کو گزارا جاتا-کہیں آرے کے ساتھ چیرا گیا تو کہیں زندانوں میں ڈالا گیا،کہیں مصر کے بازاروں میں فروخت ہوئے اور سالہاسال کا ہجر-فراقِ یوسف علیہ السلام میں یعقوب علیہ السلام کی بینائی گئی، کہیں صبرِِ ایوب روشنی بن کر چمکا، کبھی آگ کے آلاؤ میں جھونکا گیا، کبھی گلے پر چھری پھیرنے کا حکم، کبھی بے آب و گیاہ وادیوں میں اہل و عیال کو چھوڑ دینے کا حکم، کہیں پتھروں سے لہو لہان کیا جاتا، کہیں حالات کی بے رحم لہروں سے واسطہ پڑتا-مگر تمام مشکلوں اور آزمائشوں کوپسِ پشت ڈالےاور پیٹ پر پتھر باندھے وہ اپنی ڈیوٹی نبھاتے رہے- غرض یہ کہ ان مردان ِحق اورمحبوبانِ الٰہی پر کو نسے مظالم تھے جو نہ ڈھایے گئے، کونسا ستم تھا جو روا نہ کیاگیا- مگر بدلے اور جواب میں اِن شرفِ انسانیت انسانوں نے پتھر مارنے والوں کو بھی دعائیں دیں،ہجرت پہ مجبور کرنے والوں کو بھی سینے سے لگایا ،قتل کی ناپاک سازش میں ملوث لوگوں کو بھی معاف کیا، درگزر، صبر ، حسنِ اخلاق، صلہ رحمی، حکمت [1]اور تدبر کی تلوارو ں کوپیغامِ حق پہنچانے میں کبھی بھی نیام پوش نہیں ہونے دیا بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی اسی کی تلقین فرمائی – اخلاقِ عالیہ اور محبت سے دلوں کو تسخیر کرنا انبیاء کرام (علیھم السلام)کا وطیرہ تھا -

قبل از ظہورِ نبوت(ﷺ) عرب کے حالات کا جائز لیں تو انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے کہ جہاں بیٹی کا پیدا ہونا شگون ِبد کی علامت تھی،جس کے گھر بیٹی پیدا ہوتی وہ مہینوں کسی کو منہ دِکھانے کے قابل نہ ہو تا،بنتِ حوا کو زندہ درگور کرنے کی روایت عام تھی بلکہ قابل ِفخر بھی، چھوٹی چھوٹی بے بنیاد باتوں پہ قبائل کی لڑائیاں سالوں پر محیط ہوتیں، غلاموں کو جانوروں کی طرح نہ صرف فروخت کیا جاتا بلکہ ان سےایسا ناروا سلوک روا رکھا جاتا جس کی ظالمانہ مثال ناقابلِ بیاں ہے،ان کی اہمیت چوپائیوں سے بڑھ کر نہ تھی ، غلاموں کو قبائل کے سرداروں کا مال تصور کیا جاتا-ایسے جاہلانہ دور میں مظلوموں کی داد رسی کیلئے ،بے سہاروں اور بے کسوں کی چارہ جوئی کیلئے خدا کی رحمتِ خاص نےانسانیت پر اپنا احسانِ عظیم فرماتے ہوئے، ’’نویدِمسیح کو درست ثابت کیا‘‘[2]،’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا کوشرف ِقبولیت بخشا‘‘[3]اور قبیلہ قریش میں اپنے محبوب ِ کریم(ﷺ) کا ظہور فرمایا-جن کی شان اقدس میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں ؒ یوں گویا ہیں:

جس کے جلوے سے مرجھائی کلیاں کھلیں
اُس گلِ پاک مَنبت پہ لاکھوں سلام
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اُس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام

مذاہب کے ذریعہ شریعتیں وجود میں آ چکی تھیں ، انسانی عقل استقرا کی تلاش میں تھی ، فلسفہ و حکمت عروج پہ تھے ، انسان نے تمدن ، ریاست ، مدنیّت اور تہذیب کو بہت قریب سے سیکھ لیا تھا - گویا عقل اور بدن سے متعلق انسان ترقی کرنا سیکھ چکا تھا ، انسان نہ صرف روحانی بلکہ عقلی اعتبار سے بھی اس اضطراب میں تھا کہ مجھے کوئی ایسی ہدایت ملے جو میرے ہر مسئلہ کو حل کرے جسے ’’مکمل ہدایت‘‘ کہا جا سکے ، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پہ ترقی انگیز راہنمائی فراہم کرے - ایسے میں اللہ جل شانہٗ نے اس رُوحِ مقدس کو اس سیّارۂ ارضی پہ ظہور عطا فرمایا جو ’’ہدایتِ کاملہ‘‘ کیساتھ آئے اور انسان کی ہر اضطراب اور ہر سوال کو حل فرمادینے والا نسخۂ کیمیا لائے-وہ پیغام لائے جو سراپا رحمت ، سراپا نور اور سراپا سعادت ہے-

مولانا محمد علی جوہر اپنے شعر میں فرماتے ہیں:

جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دنیا
تو زندگی کے لئے آخری نظام آیا


اسلام آفاقی و عالمگیرمذہب ہونے کے ناطے (تحریف سے پاک) تمام الہامی مذاہب کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی توثیق کرتا ہے-ایک طرف وہ کسی مذہب کو مسترد نہیں کرتےتو دوسری طرف اُمت مسلمہ کو تمام الہامی مذاہب و انبیاء اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا پابند کرتا ہے اور اُسکوایمان کا جزو قراردیا گیاہے-

قرآن مجید میں ارشاد ِباری تعالی ہے:

’’وَالَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ‘‘[4]

’’اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں‘‘-

 بلکہ قرآن نے تو اصل نیکی ہی اسی کو قرار دیا ہے-

’’وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَ الْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ ‘‘[5]

’’ہاں اصلی نیکی یہ ہے کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر‘‘-

’’كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ‘‘[6]

’’سب ایمان لائے خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں میں باہم فرق نہیں کرتے‘‘-

قران مجید میں بڑے واضح الفاظ میں حکم خداوندی ہے اور جو اس حکم کی پاسداری نہیں کرتے ان کے لیے وعید بھی سنائی گئی:

’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِااللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِااللہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاًم بَعِیْدًا‘‘[7]

’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (ﷺ) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جواس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بے شک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘-

درج بالا آیات ِ مقدسات کے بعد ذہن کے دریچوں میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا اور اسلام کےعالمگیرمذہب ہونےپر یقین کامل ہو جاتا ہے-حضور پاک(ﷺ) کا یہ اعجاز ہے کہ آپ (ﷺ) رحمت للعٰلمین بناکر بھیجے گئے اور دین بھی وہ عطاء ہوا جو آفاقی ہے-اسلام دینِ دعوت ہے جس کا دائرہ کار تمام عالم پر محیط ہے-ترویج ِاسلام مسلمانوں کا دینی فریضہ قرار دیا گیا ہے -تبلیغ اسلام کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کا مرکز و محور کسی مخصوص رنگ وروپ،ملک و وطن ، تہذیب و تمدن ، قوم و نسل اور زبان و لہجہ تک محدود نہ تھا بلکہ یہ تمام خاندانوں، تمام قوموں ، ملکوں اور تمام زبانوں کے لیے تھا -اسی نقطے کی وضاحت حکیم الامت علامہ اقبال نے بھی فرمائی:

مذہب او قاطع ملک و نسب
از قریش و منکر از فضلِ عرب
در نگاہِ او یکے بالا و پست
با غلام خویش بریک خواں نشست
احمراں با اسوداں آمیختند
آبروے دود مانے
ریختند[8]

’’آپ (ﷺ) کا مذہب (اسلام) جغرافیہ پرستی اور خاندان پرستی کی جڑ یں کاٹ دیتا ہے-گوکہ آپ (ﷺ) کا تعلق قریش خاندان سے ہے مگر آپ عرب کی فضیلت (کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں) کو نہیں مانتے-آپ(ﷺ) کی نگاہ میں اعلیٰ و ادنیٰ سبھی برابر ہیں-آپ (ﷺ) اپنے غلام کے دستر خوان پر بیٹھے ہیں -آپ(ﷺ) نے گوروں کو کالوں کے ساتھ ملا دیا اور (اِسلام کے مقابلے میں ) خاندان کی وقعت ختم کردی‘‘-

چونکہ اشاعتِ اسلام کی بُنیاد دعوت و تبلیغ پہ ہے ، اور دعوت میں مکالمہ کرنا ہوتا ہے دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے - اس لیے رسول اللہ (ﷺ)نے نہ صرف بین الاقوامی اور بین المذاہب مکالمے کی اپنی ذاتِ اقدس سے عملی مثال قائم کی بلکہ ایسے افراد بھی تیا ر کئے جو دیگر اقوام و مذاہب سے مکالمے کی صلاحیت سے مالا مال تھے-صحابہ کرام کو مختلف زبانیں سیکھنے کا حکم دیا جاتا - مثلاً: حضور رسالت مآب (ﷺ)نے حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ)(المتوفی44ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا تاکہ یہود سے انہی کی زبان میں گفت و شنید کی جاسکے اور خطوط کا جواب انہیں کی زبان میں تحریر کیا جا سکے-جیساکہ حضرت زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت کردہ واقعہ کوسیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے مسند شریف میں نقل کیا ہے:

’’فتعلمت کتابھم ما مرت بی خمس عشرۃ لیلۃ حتی حذ قتۃ و کنت اقراء لہ کتبھم اذا کتبوا الیہ واجیب عنہ اذا کتب‘‘ [9]

’’پس میں نے انکی زبان(سریانی) میں لکھنا سیکھ لیا - ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ میں اس میں ماہر ہو گیا-جب یہود کا کوئی خط آپ(ﷺ) کی بارگاہ میں آتا تو میں آپ(ﷺ) کو پڑ ھ کر سنا دیتا اور اس کا جواب بھی لکھتا‘‘-

قرآنِ مجید فرقانِ حمید اور سیرت طیبہ کے مطالعہ سےیہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آقا پاک (ﷺ) جب بنفس نفیس یہود و نصاری کو پکارتے تو اکثر آپ ان کو ’’اہل کتاب‘‘ کے لقب سے موسوم فرماتے -

حکیم اعظم(ﷺ) نے بہر صورت کوشش کی کہ جہاں تک ممکن ہو مکالمہ اور صلح جوئی سے مسائل کا حل نکا لا جائے- حتی الوسع جنگ و جدال سے اجتناب کیا جائے-قرآن مجید نے بھی یہی درس دیا کہ اگر اہل کتاب کو مدعو کرنا ہے تو اس کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کی جائے:

’’قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ‘‘ [10]

’’تم فرماؤ!، اےاہلِ کتاب ! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں اور ہم میں کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنالے اللہ کے سوا‘‘-

حضور پاک (ﷺ) کی سیرت ِ طیبہ میں ’’جامعیت‘‘ کا پہلو واضح نظر آتا ہے-اللہ رب العزت نے سب ادیان کا جامع دین ’’اسلام‘‘ کا حامل حضور(ﷺ)کی ذاتِ مبارک کوٹھہرایا-خاتم النبین حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی جامع ترین شخصیت سے حاصل ہونے والی سیرت ایسی جامعیت کی مظہر ہے کہ حسنِ یوسف کا وارث، دمِ عیسٰی کا مالک،یدِ بیضا داری جیسے لاکھوں معجزات عطا کرکے آپ(ﷺ) کو ’’آنچہ خوباں ہمہ دارند‘‘ کا حامل ٹھہرا کر کائنات کے لیے آپ(ﷺ) کی سیرت کو نمونہ اکمل بنا دیا-حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے:

’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ (ﷺ) يَنْتَظِرُونَهُ قَالَ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَسَمِعَ حَدِيثَهُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ عَجَبًا إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلاً اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً. وَقَالَ آخَرُ مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ كَلاَمِ مُوسَى كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ فَعِيْسَى كَلِمَةُ اللہِ وَ رُوحُهُ . وَقَالَ آخَرُ آدَمُ اصْطَفَاهُ اللہُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَسَلَّمَ وَقَالَ ’’ قَدْ سَمِعْتُ كَلاَمَكُمْ وَعَجَبَكُمْ إِنَّ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلُ اللہِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَمُوْسَى نَجِيُّ اللہِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَعِيْسَى رُوحُ اللہِ وَكَلِمَتُهُ وَ هُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللہُ وَهُوَ كَذَلِكَ أَلاَ وَأَنَا حَبِيْبُ اللہِ ‘‘[11]

’’حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ: چند صحابہ کرام حضور نبی کریم (ﷺ) کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ، اتنے میں حضور نبی کریم (ﷺ) تشریف لے آئےجب ان کے قریب پہنچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سُناان میں سےبعض نے کہا:تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا،دوسرے نے کہا:یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلیم اللہ ہونے سے زیادہ تعجب خیز تو نہیں ہے،ایک نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور روح ہیں، کسی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چُن لیا،حضور نبی کریم (ﷺ) ان کے پاس تشریف لائے،سلام کیا اور فرمایا:مَیں نے تمہاری گفتگو اور اظہار تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں ،بے شک وہ ایسے ہی ہیں،حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں بے شک وہ ایسے ہی ہیں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں،واقعی وہ اسی طرح ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نےچُن لیا وہ بھی یقیناً ایسے ہی ہیں-سُن لو میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں ‘‘-

جبکہ عبد الرحمٰن جامی ؒ  یوں بیان فرماتے ہیں:

حسنِ یوسف ؑ، دمِ عیسیٰؑ، یَدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

یوسف علیہ السلام کا حسن، عیسٰی علیہ السلام کا دم (وہ الفاظ جس سے وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے) اور موسٰی علیہ السلام کا سفید ہاتھ والا معجزہ یعنی کہ وہ تمام کمالات جو باقی سب حسینوں (نبیوں) کے پاس تھے وہ تنہا آپ (ﷺ) کی ذات میں اللہ رب العزت نے جمع فرما دیئے-

آپ(ﷺ) کے مندرجہ بالااوصاف حمیدہ کو اٹھارویں صدی کے ناموَر محقق و مستشرق اور تاریخ دان لیمرٹین (Lamartine) یوں پیش کرتے ہیں:

Philosopher, orator, apostle, legislator, warrior, conqueror of ideas, restorer of rational dogmas; the founder of twenty terrestrial empires and of one spiritual empire, that is Muhammad. As regards all standards by which human greatness may be measured, we may ask, is there any man greater than he”?[12]

’’فلاسفر،مقرر،رسول،قانون دان،جنگجو، ذہنوں کو فتح کرنے والے، حکمت کے اُصول قائم کرنے والے،بیس دنیوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کے بانی یہ سب کچھ تھے (حضرت) محمد (ﷺ)-وہ تمام معیارجن سے انسانی عظمت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے، ان کے لحاظ سے ہم بجا طور پریہ سوال کرسکتے ہیں کیا اس (محمد(ﷺ) سے عظیم تر بھی کوئی انسان (دنیا میں) ہے‘‘-

ایسی جامع سیرت کے حامل نبی حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کے پیغام سے وابستہ و آراستہ ہونے کےلئےاللہ تعالی نے اہل کتاب کوان کے آنے کی بشارت بازبانِ عیسی ٰسنائی- جس کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

’’يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍفَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ‘‘[13]

’’اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول (ﷺ) تشریف لائے کہ تم پر ہمارے احکام ظاہر فرماتے ہیں بعد اس کے کہ رسولوں کا آنا مدتوں بند رہا تھا کہ کبھی کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشی اور ڈر سنانے والا نہ آیا تو یہ (محبوب پاک (ﷺ) خوشی اور ڈر سنانے والے تمہارے پاس تشریف لائے ہیں‘‘-

مزیدفرمان باری تعالیٰ ہے :

’’وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِيْ قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوْا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِيْنَ‘‘[14]

’’اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا؟ سب (پیغمبروں)نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں (اللہ رب العزت )آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں‘‘-

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيْرٍقَدْ جَاءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَكِتَابٌ مُّبِيْنٌ‘‘ [15]

’’اے کتاب والو!بیشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرماتے ہیں بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب‘‘-

بعض اہل کتاب کے اوصاف کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا :

’’ لَيْسُوْا سَوَاءً مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُوْنَ آيَاتِ اللَّـهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُوْنَ‘‘[16]

’’یہ سب برابر نہیں ہیں، اہلِ کتاب میں سے کچھ لوگ حق پر (بھی) قائم ہیں وہ رات کی ساعتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود رہتے ہیں‘‘-

شائد یہی وجہ ہے کہ آقا پاک (ﷺ) بہ نسبت مشرکین کے اہل کتاب کو ترجیح دیتے اور ان کے بعض افعال (جو کہ تحریف سے پاک تھے ) کو آپ (ﷺ) نے پسند فرمایا- اگر یہاں ایک دو امثال دوں تو صرف اتنا دیکھ لیا جائے کہ یہودِ مدینہ عاشور کا روزہ رکھتے تھے آپ(ﷺ) نے نہ صرف عاشور کا روزہ رکھا بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی عاشور کا روزہ رکھنا پسند فرمایا[17]- اگر آپ (ﷺ) کے سامنے سے کبھی کسی یہودی کا جنازہ گزرتا تو آپ (ﷺ) اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے [18]-

مندرجہ بالا حوالہ جات میں مذکور آپ (ﷺ) کی سیرت سے نہ صرف یہودیوں کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہوجانے کا ثبوت ملتا ہے بلکہ امام ابن جریر نے حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت نکل کی ہے:

’’نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا باہر نکلو اور اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو-حضور (ﷺ) نے ہمیں نماز جنازہ پڑھائی-آپ (ﷺ) نے چار تکبیرات پڑھیں-فرمایا یہ اصحمہ نجاشی ہے‘‘-[19]

نبی کریم (ﷺ)نے مدینہ کا اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد اہل کتاب کو دعوت و تبلیغ اسلام کا مخاطب بنائے رکھا-ان سے دوستانہ مراسم استوار اور سیاسی معاہدات فرمائے-مسلمان کسی مشرک کا ذبیحہ نہیں استعمال کرسکتے، کسی مشرکہ سے نکاح جائز نہیں لیکن مسلمانوں کے لیے اہل کتاب کا ذبیحہ اور نکاح دونوں جائز ہیں-قرآن مجید کی یہ آیت شاہد ہے اس بات کی:

’’وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوْتُوْا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ ‘‘[20]

’’اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہوا اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان (اہل ِکتاب)میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی‘‘-

اسلام نے مسلمانوں کے لئے اہل کتاب کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح جائز کیا-

جس طرح دیگر انبیاء کرام نے آقاپاک (ﷺ) کی بشارت دی تو حضور نبی کریم (ﷺ)نے گزشتہ انبیاء (علیہھم السلام) اور ادیان کی تصدیق فرمائی-اسلام نے روداری کا درس دیا ہے اور اس کے ساتھ دوسرے مذہب کا احترام کرنا بھی سکھایاہے-اسلامی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مکالمہ اور بات چیت کی نہ صرف اسلام کی طرف سے اجازت ہے بلکہ پیغمبر اسلام کی سنت بھی ہے-مکالمے سے بڑھ کر معاہدہ بھی اہم ہے-صلح حدیبیہ اسلامی تاریخ کا معروف و مشہور معاہدہ ہے-حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں اس وقت بنو نضیر،بنو قریضہ اور بنو قینقاع کے مشہور قبیلے آباد تھے-حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ)نے ان سے لین دین کے معاملات اور معاہدات فرمائے جیساکہ حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے :

’’حضور پاک (ﷺ)نے ایک یہودی سے کھانے کی کوئی چیز خریدی اور اس کے پاس زرہ رہن رکھی‘‘[21]-جب حضور (ﷺ) نے خیبر فتح کیا تو یہودِ خیبر کی درخواست پر انہیں کاشتکاری کی اجازت دی- جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو حضور (ﷺ) نے حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہ) کو وصولی کے لیے بھیجا آپ (ﷺ)نے اس وقت کی جو فصل (کھجوریں) تھی دو حصوں میں برابر تقسیم فرمائی- اس پر انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں ہمارے حصہ سے زیادہ دے رہے ہیں( کیونکہ ان کے اپنے اصول کے مطابق ان کا حصہ آدھا نہیں بنتا تھابلکہ اس سے بھی کم) لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا تمہیں ضرور آدھی ہی ملیں گی کیونکہ تم سے معاہدہ اسی طرح ہوا تھا[22]-

مذکورہ واقعہ سے آنحضور (ﷺ) کا غیر مسلموں سے کاروباری معاملات میں تعلق کی نوعیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہےجس کا واضح استدلال بھی ملتا ہے- رنگ، نسل،آقا، غلام،کا کوئی فرق روا نہ رکھتے-عدل و مساوات کی جو مثالیں آپ(ﷺ) نے قائم کیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے -انصاف کے معاملے میں اپنے، پرائے برابر تھے-سب کی مدد و اعانت فرماتے‘‘[23]- جب کوئی بیمار ہوتا تو اس کی تیمارداری فرماتے چہ جائے کہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو-حضور نبی کریم(ﷺ) ایک (عبدوس نامی)یہودی کی عیادت کو تشریف لے گئے جب وہ بیمار تھا‘‘-[24]

سرکار دو عالم (ﷺ) نے غیر مسلموں سے معاہدہ بھی کیا جو ’’میثاق مدینہ ‘‘کے نام سے مشہور ہے جس سے اسلام کی تعلیمات میں برداشت اور احترام کا رویہ جزواؤل کے طور پر سامنے آتا ہے-یہاں میں ریسرچ سکالر جناب ایس ایچ قادری مرحوم کے ایک ریسرچ آرٹیکل کا مختصر خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا:

’’میثاقِ مدینہ پہلی اسلامی ریاست کا اساسی دستور ہے-رسول اللہ (ﷺ) نے ایک ہی سلطنت میں جو رسول اللہ (ﷺ) کی کاوشوں سے معرض ِ وجود میں آئی ہر ایک کو دین کی آزادی بھی دی اور دین کے اختلاف کے باوجود معاہدہ سلطنت (میثاقِ مدینہ)کی بدولت مسلم اور غیر مسلم دونوں کو (باعتبارِ سیاسی) ایک ہی قوم اور یکساں شہریت کا حامل بھی قرار دیا-اس معاہدے کی رو سے مسلم اور غیر مسلم برابر اور یکساں حقوق رکھتے تھے-’’میثاق مدینہ‘‘ نے ریاست مدینہ میں امن عامہ فراہم کیا،امر ونہی کا نظام پیش کیا،ظلم و ناانصافی کی مخالفت کی،اصلاح انسانیت کو فروغ دیا اور مذہبی آزادی فراہم کی کسی فرد یا قبیلے کے حقوق کو غصب نہیں کیا گیا - میثاق مدینہ مذہبی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی بہترین مثال ہے-اس میں طے کردہ بنیادی اصولوں کی روشنی میں ایک اسلامی مثالی ریاست کی تشکیل کے ساتھ ساتھ دنیا کو امن،بقائے باہمی اور فلاح کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے‘‘- [25]

سیرت طیبہ و طاہرہ میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ آقاءِ نامدار تاجدار مدینہ حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی پوری زندگی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی کاوشوں سے عبارت ہے- امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے روایت نقل فرمائی ہے کہ نجران کے عیسائیوں کو رسالت مآب (ﷺ) نے مسجدِ نبوری شریف میں ادائیگیٔ نماز کی اجازت عطا فرمائی :

’’قال ابن اسحاق و حدثنی محمد بن جعفر بن الذبیر قال: لما قدموا علی رسول اللہ (ﷺ)المدینہ فدخلو علیہ مسجدہ حین صلی العصر،علیھم ثیاب الحبرات جبب و اردیۃ فی جمال رجال بن الحارث کعب قال:یقول بعض من رآھم من اصحاب النبی (ﷺ) یومئذ ما رائینابعدھم وفدا مثلھم وقد حانت صلاتھم ، فقاموا فی مسجد رسول اللہ (ﷺ) یصلون: فقال رسول اللہ (ﷺ) دعوھم ، فصلوا الی المشرق‘‘ [26]

’’نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ آیا ، وفد میں 60 افراد تھے-جب وہ مدینہ منورہ میں حضور (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے،اس وقت حضور (ﷺ)عصر کی نماز ادا کر چکے تھے-یمنی کپڑوں میں ملبوس، قبائیں اور چادریں لپیٹے ہوئے،کچھ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)نے انہیں دیکھ کر کہا کہ ہم نے ان جیسا وفد نہیں دیکھا-ان کی نماز کا وقت ہوگیا وہ اٹھے اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے لگے‘‘-حضور (ﷺ) نے فرمایا انہیں چھوڑ دو ، اُنہوں نے مشرق کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کی‘‘-

فتح مکہ کی ہی مثال لے لیں یہ وہ وقت تھا کہ اگر آپ(ﷺ) چاہتے تو چن چن کر بدلہ لے سکتے تھےکسی کی جرأت نہ تھی کہ آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے یا عرب کے مروّجہ جنگی دستور کے مطابق آپ (ﷺ) کے بدلہ لینے کو غلط کہہ سکے - ہر کوئی زیرِ بارِ خوف تھا کہ اب ہمارے ساتھ خدا جانے کہ کیا ہو جائے گا-لیکن ایسے موقع پر بھی رب اللعالمین کے محبوب رحمت اللعالمین نے ان کے مظالم اور زیادتیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان فرمایا-اس واقع کو یونیورسٹی آف ملایا (ملائیشیا) کے پروفیسر ہلال وانی اپنے ایک ریسرچ آرٹیکل میں کچھ یوں رقمطراز کرتے ہیں:

“The Prophet of Islam (pbuh) was the true reflection of the Holy Qur’an in real life; he always supported peace and dialogue. For example, it was on the day of the conquest of Makkah when he declared that everybody was equal to enter into the house of Abu Sufiyan, the leader of the Quraysh; this included many people who were enemies of Islam. The Prophet Mohammed (peace be upon him), said “Latasreeb alaikum yama” which means “you are free today”. The peace process and dialogue requires tolerance and mercy, and these two qualities were visibly present in the Prophet of Islam (PBUH)”.[27]

’’پیغمبر اسلام (ﷺ)حقیقی زندگی میں قرآن کریم کے واضح (سچے) عکاس ہیں-آپ(ﷺ) نے ہمیشہ امن اورمکالمے (بات چیت) کی حمایت کی-بطورِ مثال، فتحِ مکہ کے دن جب آپ(ﷺ) نے اعلان کیا کہ ہر شخص قریش کےسردار ابو سفیان کے گھر داخل ہونے میں برابر(آزاد)ہے؛ اس (معافی ) میں بہت سےاسلام مخالف لوگ بھی شامل تھے-نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ’’ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ‘‘ [28]جس کا مطلب ہے ’’آج کےدن تم آزاد ہو‘‘-امن کے اس عمل اور مذاکرات و مکالمہ کےلئےتحمل مزاجی اور نرمی (رواداری) کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دونوں خصوصیات پیغمبر اسلام (ﷺ) کی سیرت میں نظر آتی ہیں‘‘-

لہٰذا! اپنے آقا و مولا اور ہادی برحق حضور نبی پاک شہِ لولاک (ﷺ) کی سیر ت طیبہ کے عمیق مطالعہ سے زندگی گزارنے کا جو کامل نمونہ[29] ہمارے سامنے آتا ہے اس کو نہ صرف اپنے وجود و معاشرےمیں نافذ کیا جائے بلکہ اُن فرمودات، تعلیمات کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ یہ ہمارا دینی و ملی فریضہ بھی ہے-شدت پسندی و دہشت گردی کےرویوں کوپسِ پشت ڈالتے ہوئے، اسلام کے عمومی اصول ’’میانہ روی‘‘ کواپناتے ہوئے اپنے نبی کریم رؤف و رحیم (ﷺ) کے عطا کردہ مثبت رویوں تحمل مزاجی، بردباری، رواداری، انکساری، حلم برداری اورحسن اخلاق کو اپنی زندگی کا اٹوٹ انگ بنا لیں-یقیناً ہماری بقاء اور ترقی کا راز مذکورہ رویوں کو نافذ العمل کرنے میں مضمر ہے جن سے معاشرہ امن و آشتی کاگہوارہ بن سکتاہے-

٭٭٭


[1](النحل:125)

[2](الصف:6)

[3](البقرۃ:129)

[4](البقرۃـ4)

[5](ایضاً)

[6](البقرۃ:285)

[7](النساء:136)

[8](جاوید نامہ)

[9](مسند احمد بن حبنل، ج:9، ص:13)

[10](العمران:64)

[11](سنن ترمذی، کتاب المناقب عن رسول اللہؐ)

[12])Alphonse de Lamartine, History of Turkey, (New York: D. Appleton & co., 1855(

[13](المائدہ:19)

[14](آلِ عمران:81)

[15](المائدہ:15)

[16](العمران:113)

[17](سند ابی داودالطیاسی،احادیث ابی قتادہ،عنی النبیؐ)

[18](صحیح البخاری، کتاب الجنائز)

[19]( تفسیر در منثور، ج:2، ص:310)

[20](المائدہ:5)

[21](صحیح البخاری، کتاب البیوع)

[22](سنن ابی داؤد، کتاب البیوع)

[23](اقبال اور محبتِ رسولؐ، ص:70، از محمد طاہر فاروقی)

[24](صحیح البخاری، کتاب المرض)

[25](ایس ایچ قادری، میثاق مدینہ اور قائد اعظم، اگست 2013، ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل)

[26](البدایہ و النہایہ، ج:5، ص:51)

[27]) Recep Dogan, "Contributing to the World Peace - An examination of the Life of Prophet Muhammad as a Leader," Centre for Islamic Sciences & Civilization, Charles Sturt University, Sociology and Anthropology 3(1): 37-44, 2015. (

[28](الیوسف:92)

[29](الاحزاب:21)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر