سوشل میڈیا کے فرد کی اخلاقی قوت اور صلاحیتوں پر مضر اثرات: سیرت طیبہ کی روشنی میں ان کا حل

سوشل میڈیا کے فرد کی اخلاقی قوت اور صلاحیتوں پر مضر اثرات: سیرت طیبہ کی روشنی میں ان کا حل

سوشل میڈیا کے فرد کی اخلاقی قوت اور صلاحیتوں پر مضر اثرات: سیرت طیبہ کی روشنی میں ان کا حل

مصنف: ڈاکٹرحافظ فیض رسول اکتوبر 2022

انسان حیوان ِ ناطق ہے اور اسے اپنی خواہش، اپنی ضرورت اور اپنا مدعا دوسروں تک پہنچنانا پڑتا ہے- خواہش کے اظہار کے عمل کو ’ ابلاغ ‘ کہتے ہیں- قدرت کی طرف سے ابلاغ کیلئے انسان کو جوذرائع مہیا کئے گئے ہیں- ان میں سب سے مؤثرابلاغی ذریعہ زبان ہے، جس کے توسط سے ہم قریب کے لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکتے ہیں- جبکہ ابلاغ کادوسرا مؤثر اور محفوظ ترین ذریعہ قلم ہے-ہم تحریر کے ذریعے اپنا نکتۂ فکر، اپنے خیالات سے وابستہ کوئی بھی بات لکھ سکتے ہیں اور اسے کسی بھی ذریعہ سے دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں- ابلاغ کے یہ دو ذرائع شروع سے استعمال ہوتے رہے ہیں- قرآنِ حکیم میں انبیاء (علیھم السلام) کی دعوت و تبلیغ کا ذکر بکثرت آیا ہے، وہ قوم کو اپنی بات سمجھانے کے لئے زبانی تخاطب کا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے- ابلاغ و تبلیغ کے سلسلے میں رسولِ کریم (ﷺ) کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ِ عالی شان ہے:

’’يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ‘‘[1]

’’اے رسول (ﷺ) جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے‘‘-

اسی طرح بلاغ کا دوسرا مؤثر و موزوں طریقہ یعنی بذریعہ تحریر، دور تک اپنی بات پہنچانے کی مثالیں بھی قرآنِ حکیم میں موجود ہیں- جیساکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا بلقیس کو خط ہی کے ذریعہ اپنا پیغام پہنچایا تھا اور ایک پرندے نے نامہ بر کا فریضہ انجام دیا تھا- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ اذْهَبْ بِكِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ‘‘ [2]

’’سلیمان (علیہ السلام) کہا عنقریب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا، یا تو جھوٹوں سے تھا- میرا یہ خط لے جا، پس اسے ان کی طرف پھینک دے، پھر ان سے لوٹ آ، پس دیکھ وہ کیا جواب دیتے ہیں‘‘-

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے جو بے پناہ ترقی کے مدارج طے کئے ہیں ان میں انسان کے ابلاغی طریقہ کار میں بھی خوب ترقی ہوئی ہے اور انسان نے اپنی عصری ضرورتوں کے پیشِ نظر اپنی ابلاغی حکمتِ عملیوں میں نئے نئے طریقہ کار وضع کئے ہیں- مزیدبرآں یہ ترقی کی منازل زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری رہنے کے ساتھ ساتھ، اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز گامی کے ساتھ جاری و ساری ہیں- بلکہ ابلاغ کے میدان میں ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلہ میں زیادہ مؤثر اور تیز ہے- گزشتہ چند دہائیوں میں ’’ابلاغ‘‘ کے کئی ذرائع وجود میں آئے ہیں، لیکن ان سب میں زیادہ برق رفتار، فعال اور مؤثر ابلاغی ذریعہ سوشل میڈیا ’’Social Media‘‘ ہے-

اس کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس میں خاصا تنوع ہے اور اس پر اب تک حکومت یا کسی خاص گروہ کی اجارہ داری بھی نہیں ہے- سوشل میڈیا کے ابلاغی ذرائع میں اب تک جو شامل ہیں ان میں واٹس ایپ(WhatsApp)، فیس بک (Facebook)، یوٹیوب (YouTube)، ٹیوٹر (Twitter)، اسکائپ (Skype)، زوم (Zoom)، انسٹا گرام (Instagram)، ٹیلی گرام(Telegram)، ٹک ٹاک (Tiktok)، مسینجر (Messenger)، لنکڈ اِن (LinkedIn)، سنیپ چیٹ (Snapchat)، وغیرہ زیادہ فعال اور متحرک ہیں- لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذرائع میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے- لیکن یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی ، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بدبودار فُضلہ بھی ، اس سے دینی ، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی ڈالی جاسکتی ہیں-

دوسری طرف اس کا اثر ہر خاص و عام پراتنا وسیع ہوچکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ اس درجہ کا ہے کہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت مزید بڑھتی جارہی ہے- لہٰذا ہمیں اس کے مثبت و منفی اثرات سے وابستہ تمام ممکنہ امور کو جاننا، ان کاخیال رکھنا اور انہیں دوسروں کو سیکھانا اور سمجھانا از حد ضروری ہے - یہ ہمارا دینی، قومی و ملی فریضہ بھی ہے کہ ہم ’’امر بالمعروف ونھی عن المنکر‘‘ کاپرچار کریں اورجو کچھ اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کریں-

جیسا کہ حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے مروی رسول ِ کریم (ﷺ)کا ارشادِمبارک ہے:

«لا يؤمنُ أحدُكم حتى يحبَّ لأخيه ما يحبُّ لنفسِه»(متفق علیہ)

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے‘‘-

دنیا کے تمام امور میں خیر وشر کا پہلو چھپا ہوتا ہے- اب یہ ہماری استعداد پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پہلو اختیار کرتے ہیں-ہم جو بھی پہلو اختیار کریں گے اس کے اثرات یقیناً دوسروں پر بھی مرتب ہوں گے- یعنی اگر کسی چیز کا استعمال صحیح اور جائز کاموں کیلئے کیا جائے جس سے دنیائے انسانیت فیض یاب ہوتی ہوتو ظاہر سی بات ہے کہ اس کے فیوض و برکات اور ثمرات بہت فائدے مند ہوں گے- یہی حال سوشل میڈیا کے استعمال کا بھی ہے- سوشل میڈیا ابلاغ کا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس کےبے پناہ فوائد ہیں لیکن اسی قدر اس کے نقصانات بھی ہیں، یعنی سوشل میڈیا کے تمام ذرائع دو دھاری تلوار کی صورت ہیں- اس کے فوائد و ثمرات اور نقصانات ہرسطح کے افراد کے لئے یکساں نوعیت کے ہیں-

سوشل میڈیا کے فرد پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ جسمانی، معاشرتی، اخلاقی، قومی، ملی اور دینی ومذہبی ہر نوعیت کے ہیں- اب یہ استفادہ کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیسے مستفیض ہوتے ہیں؟ حالانکہ حالات و واقعات شاہد ہیں کہ سوشل میڈیا کا جائز استعمال کرنے والے بھی ناجائز چیزوں سے اپنی حفاظت نہیں کرپاتے-آج سوسائٹی کا کوئی بھی فرد چاہے وہ والدین ہوں، اولاد ہو، گھر کے بڑے بزرگ ہوں، استاد و شاگرد ہوں، غرض بچے، بوڑھے، جوان، مرد و خواتین، کوئی ایک بھی سوشل میڈیا کے اثرات سے بالاتر نہیں ہے-اب سوشل میڈیا کے وہ کونسے اثرات ہیں جن سے نہ صرف ہمیں محفوظ رہنا ہے بلکہ اپنی نسل ِ نو کو بھی بچانا ہے - آئیے ملاحظہ کرتے ہیں:

من گھڑت اور جھوٹی خبروں کی اشاعت:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے- اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے- ارشادِ خداوندی ہے:

’’وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا ‘‘ [3]

’’اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی‘‘-

ایک حدیثِ پاک میں جن چار خصلتوں کو رسول اللہ (ﷺ)نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے-ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلتِ نفاق سے متصف ہے- ارشادِ نبوی (ﷺ) ملاحظہ فرمائیے:

’’اَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِيہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِيْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی يَدَعَہَا: إِذَا اؤتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ‘‘[4]

’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے‘‘-

صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے- اللہ کے رسول (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’وَيْلٌ لِّلَّذِيْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيْثِ لِيُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَيَکْذِبُ، وَيْلٌ لَہٗ، وَيْلٌ لَہٗ‘‘ [5]

’’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسےشخص کیلئے بربادی ہو، ایسے شخص کیلئے بربادی ہو‘‘-

جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے- لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے،دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے- اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے- اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّ ِعمل نہ دیں- اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں- اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرپاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں کیونکہ جھوٹ اعتماد اور یقین کو ختم کرتا ہے-

تفکر و تدبر کی صلاحیت کا فقدان:

تمام الہامی کتابوں اورقرآن ِ حکیم میں بالخصوص تفکر یا غور و فکر کو بہت اہمیت دی گئی ہے- جگہ جگہ انسان کو تفکر اور تدبر کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور اپنی تخلیق پر غور کرے- قرآنِ حکیم کا بنیادی موضوع ’’اِنسان‘‘ ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش میں وُقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کیلئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں-قرآنِ حکیم نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اوصاف ذِکر کئے ہیں اُن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر اور فلسفہ انتظامِ کائنات کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے-قرآ نِ حکیم نے آئیڈیل مسلمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا :

’’إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِ‘‘ [6]

’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کےلئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں‘‘-

غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رک جاتا ہے اور ارتقائے نسلِ انسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے- مسلمانوں نے اپنے سفر کی ابتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذریعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ انسان کو قرآنی احکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی- چنانچہ اس دور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو ایسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی ہے-

اپنوں سے دوری بے گانوں سے یاری:

یہ سوشل میڈیا کی کرشمہ سازی ہے کہ حقیقی رشتوں سے دوری بڑھتی جارہی ہے حالانکہ اسلام میں خونی رشتوں کو پامال کرنے سے سختی سے روکا گیاہے- اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے:

’’وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَاء لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ‘‘[7]

’’اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو- یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘-

خاندان کے استحکام کیلئے ضروری ہے کہ رشتہ داروں کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان سے گہرا ربط رکھا جائے-اسلامی معاشرہ میں رشتہ داروں کو عزت اور عظمت کا مقام دیا گیا ہے اور تفصیل سے ان کے حقوق بیان کیے گئے ہیں- ان حقوق میں حسن سلوک، مالی تعاون، عزت و احترام اور عفو و درگزر خصوصیت سے قابل ذکر ہیں- صلہ رحمی کو نیکی اور قطع رحمی کو جرم قرار دیا گیا ہے- رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک ان پراحسان نہیں ہے، بلکہ یہ فرض ہے، جس کی ادئیگی انسان پر لازم ہے- قرآن کریم کی بہت سی آیات میں رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور ان سے حقوق ادا کرنے پر ابھارا گیا ہے- اسلام نے صلہ رحمی کی بھرپورتلقین کی ہے-اسلام نے خاندان کے استحکام کیلئے قوانین اور اخلاقی تعلیمات دونوں سے مدد لی ہے- اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی بار بار تاکید کی ہے- جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:

’’وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ‘‘ [8]

’’رشتہ دار کو اس کا حق دو‘‘-

قرآن میں رشتوں کا پاس و لحاظ رکھنے والوں کو ’’اُولُوا الأ لبَاب‘‘( دانش مند) کہا گیا ہے- ان کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں یہ بھی ہے:

’’وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓئَ الْحِسَاب‘‘ [9]

’’ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو بر قرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے‘‘-

نفرت آمیز مواد کی تشہیر:

فساد فی الارض ’’نوع انسانی‘‘ کی سب سے بڑی بد نصیبی بلکہ کائنات کی ہر چیز کی سیاہ بختی کی بات ہے، کیونکہ تخریب اور تخریب کاری انسان کی سیاہ کاری کا نتیجہ ہوتی ہے اور بطور سزا اور قہرِ الٰہی کے پھلتی پھولتی اور پھیلتی ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ‘‘[10]

’’گو خدا کی زمین میں یہ بگاڑ اور خرابی ایک سزا اور قہرِ الٰہی ہے، لیکن اس سے غرض بندوں کی مکمل تباہی نہیں ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ مزہ چکھ کر شاید لوٹ آئیں اور سیدھی راہ پر پڑ جائیں‘‘-

اسی طرح جولوگ حقِ کے انکاری یعنی منکرینِ حق ہوں ان کی دوستی بھی فساد فی الارض کے زمرے میں ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ‘‘[11]

’’جو منکرین حق ہیں، وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں- اگر تم یوں نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ پھیلے گا اور بڑی خرابی ہو گی اور اس کے نتیجے میں عذاب پر عذاب کے امکانات بڑھ جاتے ہیں‘‘-

خودنمائی اور ریاکاری کا بڑھتا رجحان:

ریا کاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل اللہ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتااور ریاکاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹاعمل بھی اللہ کے ہاں پہاڑ کے برابر حیثیت رکھتا ہے- اللہ رب العزت نے ریاکاری کی مذمت مختلف آیات میں بیان فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد ِ ربانی ہے:

’’وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِر وَ مَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا‘‘[12]

’’جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیےخرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پرایمان نہیں رکھتےاور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بدترین ساتھی ہے‘‘-

ایک اور مقام پر اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللہ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘‘ [13]

’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کیلئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر‘‘-

ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریاکار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اللہ سے اس کو اجر کی توقع نہیں-کیونکہ جس سے توقع ہوگی اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریاکار کو خالق کے بجائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے-اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں کہ اگر ایمان ہوتا تو ہرگز خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

’’جوشخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے رسوا کر دے گا‘‘ -[14]

لغویات کابڑھتا ہوا رجحان :

لغو ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، بیکار اور لاحاصل ہو- یعنی جن باتوں اور کاموں کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو، نہ کوئی حقیقی ضرورت ہو اور نہ کوئی اچھامقصد حاصل نہ ہو- ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ق صلے وَّ یَتَّخِذَهَا هُزُوًاط اُولٰٓئكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ‘‘[15]

’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جولغوباتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے‘‘-

’’لھو الحدیث‘‘سے مراد ہر وہ چیز جو انسان کو خیر اور معروف سے غافل کردے اور انسان اسلامی احکامات کاخیال نہ رکھے اور ان سے دوری اختیارکرے- حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ایک حدیث  پاک میں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’انسان کے اسلام کی خوبی اس کا لایعنی (لغو) باتوں سے بچنا ہے‘‘ -[16]

اسی طرح آن لائن رشتے اور دوستیاں بنا کر حقیقی رشتے نظر انداز کیے جا رہے ہیں، نامحرموں سے گفتگوکے رجحانات بڑھ رہے ہیں حالانکہ اسلام نا محرم مردوں اور عورتوں کے اختلاط،میل ملاپ اور بات چیت کی ممانعت کرتا ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر روزانہ لاکھوں مرد اور عورتیں باہمی روابط کو بڑھاتے ہیں-معلومات کے سیلاب سے سوچنے کی صلاحیت مفقود ہوتی جا رہی ہے- اخلاقی مضر اثرات یہ بھی ہیں کہ چھوٹے بڑوں کا احترام نہیں کرتے- بزرگوں کے سامنے موبائل کی اسکرین سے نظریں نہیں ہٹاتے، سوشل میڈیا سے لوگوں میں نفرت، بدلہ، دشمنی، حسد اور جلن جیسے مضر اثرات پیدا ہو رہے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں-الغرض! ہمیں اپنے نوجوانوں کواس کے مضر و منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے انہیں مستقل اسلام کے اخلاقی اصولوں سے روشناس کروانے کے لئے ایک مستقل لائحہ عمل کے طور پر تربیت دینے کی منظم کاوشیں کرنی ہونگی، اسی میں ہمارے مستقبل کی فلاح اور کامیابی ہے-

٭٭٭


[1](المائدہ:67)

[2]( النمل :27-28)

[3](الاسراء:36)

[4](صحیح بخاری، رقم الحدیث : 34)

[5](سنن ترمذی، رقم الحدیث: 2315)

[6](آل عمران:190)

[7](النساء:1)

[8]( بنی اسرائیل:26)

[9](الرعد:21)

[10](الروم:21)

[11](التوبۃ:10)

[12](النساء:38)

[13](البقرہ:264)

[14](بخاری)

[15](لقمان: 6)

[16](سنن ترمذی)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر