علامہ اقبالؒ کی نظم :

علامہ اقبالؒ کی نظم :

علامہ اقبالؒ کی نظم :

مصنف: وقار حسن نومبر 2018

حکیم الاُمت، عارفِ کامل، دانائے راز، شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ عالمِ ناسوت کی زمانی و مکانی حدود سےماورا اس فکر کا نام ہے جس کے نورِ علم و معرفت سے ہر عہد کا انسان فیض یاب ہو سکتا ہے-علامہ محمد اقبالؒ کی ذاتِ گرامی کو محض شاعر یا فلسفی کہنا اور سمجھنا ان کی ذات کے ساتھ صریحاً ناانصافی ہے-آپؒ کاپیغام بالعموم عالمِ انسانیت اور بالخصوص امتِ مسلمہ کے ہر فرد کی یکساں قدر و قیمت رکھتا ہے-امتِ مسلمہ کی اور بالخصوص اہلِ مملکتِ خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسیوں کی خوش بختی اور خوش نصیبی ہے کہ مالکِ کائنات نے اس خطہِ  سر زمین پر جہاں اور لاتعداد احسانات فرمائے وہاں اسےحضرتِ علامہ محمد اقبالؒ جیسی نابغہِ روزگار ہستی سے بھی نوازا-اس خصوصی فضل وکرم پر ہم خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں کہ اس نے ہم پر اپنی خصوصی شفقت سے یہ انعام کیا-لیکن صد افسوس! کہ ہم اس نعمتِ عظمیٰ کی وہ قدر و قیمت نہ کر سکے کہ جس طرح خوش نصیب قومیں اپنے ہیروز کے احترام اور تکریم کی بجا آوری کرتی ہیں-

علامہ اقبالؒ کی فارسی اور اردو شاعری امتِ مسلمہ کے لیے پیغامِ حیات ہے-آپؒ کے کلام کا ہر شعر بلکہ ہر مصرعہ اپنے اندر معنی کا بحرِ بیکراں رکھتا ہے-آپؒ مقربِ خدا اور منظورِ نظرِ حبیبِ کبریا(ﷺ) ہیں-اسی لیے آپؒ کی زبانِ گوہر فشاں سے نکلنے والی ہر بات اپنے اندر وسعتِ دوام رکھتی ہے- لیکن وہ غواص کس طرح ان موتیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہےجو سمندر کی تَہ میں ہوں اور وہ سمندر میں چھلانگ ہی نہ لگائے اور ساحل کی صحبت سے کنارہ کشی ہی نہ کرے-اگر موتیوں کو پانا ہو تو ساحل کو چھوڑ کر غوطہ زنی شرط اول ہو گی-اسی طرح اگر ہم اس مردِ خود آگاہ کے پیغام سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے کلام سے انمول جوہرات تلاش کرنا اگر ہمارا مقصود ہے تو پھر ہم کو ان کی ذاتِ گرامی سے محبت اور عقیدت کے ساتھ ساتھ ان کے افکار و نظریات کو زیرِ مطالعہ لانا ہوگا-جو ہمیں بارِ گراں محسوس ہوتا ہے-افرنگی تہذیب کی یلغار نے ہم کو اس قدر اپنی مصنوعی چمک پر فدا کر رکھا ہے کہ ہم فکرِ ابلیس کے دامِ فریب میں اسیری کا عملی نمونہ نظر آتے ہیں-ہمارے قلوب و اذہان کو وہ سبق دیا گیا کہ آج اس محسن کی تعلیمات کی فکر پر عمل کرنے کے بجائے ہم اس کی مخاصمت پر اتر آئے- جیسا کہ حضرتِ علامہ اپنی ایک نظم ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘میں ابلیسی فکر کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز 
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو[1]

اگر ہم آج بھی یکسوئی اور سنجیدہ مزاجی سے پیغامِ اقبال کو سمجھ کر اس پرعمل پیرا ہو جائیں تو ہم مذہبی و روحانی،معاشرتی و سماجی،اقتصادی و معاشی،تہذیبی و ثقافتی،علمی و ادبی الغرض ہر شعبہِ زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور ان بحرانوں سے خلاصی پا سکتے ہیں جن کا ہم ’’من حیث القوم شکار‘‘ مجموعی طور پر کئی دہائیوں سے شکار چلے آ رہے ہیں-علامہ اقبالؒ کی نظم ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ اُن کے آخری مجموعہ کلام ارمغانِ حجاز(حصہ اردو) میں شامل ہے-یہ نظم اپنے اندر اختصار اور جامعیت کے علاوہ ایک مسلم نوجوان کے لیے کامیابی کا وہ پیغام رکھتی ہے کہ صرف گیارہ (11) اشعار پر مشتمل اس نظم میں اقبالؒ نےان تمام لوازمات کا تذکرہ فرما دیا جو ایک مسلمان نوجوان کی شخصیت کا زیور ہونے چاہیں-ایک مسلم نوجوان کو حضرتِ علامہ اس نظم میں ایک نصابِ حیات عطا کرتے ہیں-بظاہر دیکھنے میں اس نظم کا عنوان ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بلوچ النسل بوڑھا اپنے بیٹے کو پند و نصیحت کر رہا ہےلیکن حقیقت میں اقبالؒ امتِ مسلمہ کے نوجوان سے مخاطب ہیں-اس نظم کا عنوان استعاراتی اور علامتی نوعیت کا ہے-یہاں پر ہم اس نظم کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی سعی کرتے ہیں کہ ’’اقبالؒ کی نصیحت پاکستانی نوجوان کو‘‘-اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ تصور کیا جائے کہ بحیثیتِ فرد پاکستان اقبالؒ مجھ سے مخاطب ہیں تو آج کے اس پر فتن دور میں جہالت اور گمراہی اپنی آخری حدود کو چھو رہی ہے،عصمت دری، دہشت گردی، معاشرتی منافقت،ظلم و جبر،قتل و غارت الغرض تمام گناہِ کبیرہ کا عروج ہےاور جیسے نوعِ انسان کے زوال کی منہ بولتی تصویر ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے-جب ہمارا علم وادب تعمیری سوچ کے بجائے تخریبی سوچ کا مواد فراہم کرتا دیکھائی دیتا ہےتواس دور میں انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطحوں پر ہم اقبالؒ کی اس نظم سے اکتسابِ فیض کر سکتے ہیں-ہم یہاں پر یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان حالات میں اقبالؒ کی یہ نظم آج کے پاکستانی نوجوان سے کیا تقاضا کرتی ہے؟آج کے پاکستانی نوجوان میں وہ کونسی خصوصیات ہوں کہ وہ تخریب کے بجائے تعمیر کا عملی نمونہ بن سکے؟اس کے ساتھ ساتھ وہ کون کون سے خطوط اور زاویے ہیں کہ جن پر چل کرآج کا پاکستانی نوجوان پاکستان،عالمِ اسلام اور عالمِ انسانیت کیلئے امن اور محبت کے درس کو عملی زندگی میں اپنا نظریہ حیات بنا سکتا ہے؟اور ان افکار کی روشنی میں پاکستانی نوجوان اپنا محاسبہ کرے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کرے کہ کس طرح فکرِ اقبالؒ پر عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے؟

غزلیہ ہیت میں لکھی گئی یہ نظم مجموعی طور پر تو ایک ہی موضوع رکھتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس  نظم کا اعجاز یہ ہے کہ اس کا ہر شعر انفرادی سطح پر بھی آفاقی پیغام کا منہ بولتا ثبوت ہے-ہم فکری سطح پر دیکھتے ہیں کہ اقبالؒ نے اس نظم میں کن آفاقی اور عمیق نکات کو پیش کیا ہے جو ایک پاکستانی نوجوان کے لیے مشعلِ راہ ہو سکتے ہیں-

1-    تصورِ وطن:

اس نظم میں حضرتِ علامہ اقبالؒ گفتگو کا آغاز ہی وطن سے کرتے ہیں کہ نوجوان ِمسلم تیرے لیے کوئی جغرافیائی حدود نہیں ہیں،تو کسی مکانی حدود کا پابند نہیں بلکہ ’’ہر ملک ملکِ ما است‘‘ کا نظریہ پیش کیا گیا ہے اور آگاہ کیا گیا ہے کہ تو جغرافیائی حدود کی سوچ و بچار میں ہی وقت ضائع مت کر بلکہ تو جہاں بھی ہے،تیرا قیام جس جگہ پر بھی ہے،تیرا مسکن چاہے زمین کا کوئی خطہ ہو وہ تیرے لیے مثلِ جنت ہے- اے نوجوان! تجھے دوسرے مادی ترقی یافتہ ممالک یا ان کے مصنوعی روشنیوں والے شہروں کی طرف حسرت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے اور نہ ان کی طرف مرغوب و مرعوب ہونا تیرے حق میں بہتر ہے بلکہ تیرا اپنا وطن سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے -لیکن شرط یہ ہے کہ تو اس کی آب و ہوا یعنی اس کے نظریہ،اس کی تہذیب و ثقافت اور درحقیقت اِس کی اُس بنیاد سے ہم آہنگی پیدا کر جس بنیاد اور نظریے پر اس مملکت کو بنایا گیا-

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا

تیرا مادی زوال تیرا زوال نہیں بلکہ تیرا زوال اس میں ہے کہ تو اپنے نظریے سے دور ہو جائے جو تجھے اسلاف سے ورثے میں ملا ہے-مسلمان کا کوئی ایک ملک نہیں ہوتا بلکہ پوری کائنات تیرے مالکِ حقیقی کی ہے اور تو اس کا حقیقی بندہ بن جا تاکہ تمام کائنات تیرے تسلط میں آ جائے-

جس سِمْت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا

اگر دیکھا جائے تو حضرت علامہ تقریباً ایک صدی قبل ہم کو اس بات کا درس دے گئے کہ اے میرے نوجوان ابلیسی فکر کی مکاریوں میں آ کر اپنی حقیقت کو نہ بھول جانا اور مغربی تہذیب کی رنگ رنگیوں کا شکار نہ ہونا بلکہ اپنی اساس کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا-لیکن افسوس! کہ اگر آج کے پاکستانی نوجوانوں کو دیکھا جائے تو ان کے ذہنوں میں یہ منفی سوچ پروان چڑھائی جا رہی ہے کہ اس ملکِ پاکستان میں رکھا کیا ہے؟ مغرب کو دیکھو وہ کہاں پہنچ گیا؟تاکہ وہ اپنے نظریے سے کوسوں دور ہو کر مادیت پرستی کا شکار ہو جائے- یہاں پر میرا اپنے نوجوان بھائیوں سے ایک عاجزانہ سوال ہے کہ جو اس مملکتِ خداداد کے بارے میں منفی نظریات کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟کیا ہم نے اپنے فرائض کو بخوبی نبھایا یا ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں کہ کوئی خضر آئے گا اور ہماری قسمت اور مقدر کا ستارہ چمکائے گا؟تو یقینا جواب مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا- بحیثیت فردِ قوم میری اور آپ سب کی بھی کچھ ملکی اور ملی ذمہ داریاں ہیں-مگر ہم نے تن آسانی کو اپنا شیوا بنا لیا اور عمل سے غافل ہو گئے اور اپنی ناکامی کو تقدیر سے منسوب کر دیا-

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کر تقدیر کا بہانہ [2]

2-غیرت و حمیّت:

اس نظم کا اگلا اہم نقطہ جوحضرتِ علامہ نے بیان کیا وہ ’’غیرت‘‘ہے-اقبالؒ اپنے نوجوان میں غیرت کی دولت دیکھنا چاہتے ہیں-اس غیرت سے ہر گز وہ غیرت مراد نہیں جو ہماری خود ساختہ یا ہماری انا پرستی،نفسانی خواہشات اور غرور و تکبر کی پیداوار ہےکہ ہم دوسروں کو ذلیل و خوار کریں،ناحق قتل و غارت کریں بلکہ اقبالؒ کے نزدیک غیرت یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان میں اپنے دین و ملت کی غیرت ہو،محسنِ انسانیت (ﷺ)  کی ذاتِ اقدس کی غیرت ہو،آپ (ﷺ)کے پیغام اور مشن کے پاسداروں اور اس کی پاسداری کی غیرت ہو،اپنے ان ہیروز کی غیرت ہو جن نے اس کائنات میں صدائےکلمتہ الحق بلند کرنے کے لیے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہ کی-اس عالمِ رنگ و بو میں ایک مردِ مسلمان کیلئے غیرت سے بڑی کوئی شے نہیں-

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

آج کے پاکستانی نوجوان سے بھی اقبالؒ کا تقاضا یہی ہے کہ اس میں اس نظریہ کی غیرت ہو جو نظریہ سرورِ کائنات (ﷺ)  نے پیش فرمایا جو درحقیقت نظریہ پاکستان بھی ہے-یعنی اپنے نظریے،اپنی تہذیب اور اقدار کی غیرت ہو نہ کہ غیرت کا یہ من گھڑت معیار ہو کہ پٹھان سندھی اور پنجابی بلوچی بھائی سے اس بات پر نفرت کرے کہ مَیں اعلیٰ اور تم ادنی ہو-یا کوئی چوہدری،خان یا ملک صاحب وغیرہ کہیں کہ تو نچلی ذات کا فرد ہے،تو کمی ہے اس لیے تو میرے برابر نہیں بیٹھ سکتا یہ میری غیرت کا سوال ہے-یہ تصورِ غیرت جس کو ہم آج اپنائے ہوئے ہیں یہ تو زمانہ جاہلیت کا تصور تھا،اسلام نے تو ان تصورات کے نفی کر کے برتری کا معیار ’’تقوی‘‘ قرار دیا اور امتِ مسلمہ کو ایک تسبیح کے دانے قرار دیا-لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا ہم زمانہ جاہلیت کے تصورِ غیرت کو تو نہیں اپنائے ہوئے؟کیا ہمیں اسی دقیانوسی تصورِ غیرت کے ذریعے دانہ دانہ کرنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی؟ہمیں آج ان نسلی تفاخرات سے بالا تر ہو کر ملکی اور ملی نظریات کی پاسداری کرنے کی ضرورت ہے-

3-    فرد کی رُوحانی تربیّت:

فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے،فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ تخلیق ہوتا ہے-ملک و ملت کی ابتداء بھی فرد سے ہوتی ہے اس لیےتو ملک یا قوم کی ترقی و تنزلی کی بنیاد بھی اس کے افراد ہوتے ہیں-تبدیلی یا انقلاب بھی ایک فرد سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھاکہ ’’پاکستان اسی روز وجود میں آ گیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا‘‘-یعنی پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا اور اس نظریے سے جب ایک فرد ہم آہنگ ہو گیا تو بنیاد بن گئی یعنی عمارت کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی-اقبالؒ کے نزدیک بھی فرد ایک بہت بڑی طاقت کا نام ہے اور اقبالؒ نے اس کائنات میں کامیابی کے جو اصول وضع کیے ان میں اول فرد کا روحانی استخلاص ہے-سوال یہ ہے کہ فرد کا روحانی استخلاص کیا چیزہے؟مادیت پرستی کے اس دور میں یہ اجنبی سا سوال ہو گاکیونکہ جب انسان کو اشرف المخلوقات کے بجائےفقط گندے آب اور بندر کی ترقی یافتہ شکل سمجھا جائے تو پھر انسانیت کو اسی ہی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا وہ کر رہی ہے-

انسان بنیادی طور پر دو جسموں کا مجموعہ ہے-ایک انسان کا ظاہری مادی سفلی کثیف جسم ہےجس کے اجزائے ترکیبی آگ، ہوا،مٹی اور پانی ہیں-جبکہ دوسرا انسان کا روحانی علوی لطیف جسم ہے جس کو روح کہا جاتا ہے-یہ واضح حقیقت ہے کہ ایک پر پہ پرندہ کبھی پرواز نہیں کر سکتا-اسی طرح انسان ایک وجود کی ترقی سے کامیاب نہیں ہو سکتا بلکہ یہ بنیادی شرط انسان کے ظاہری اور باطنی دونوں وجودوں کی اصلاح و تربیت ضروری ہے-اگر ہم صرف انسان کے ظاہری وجود کے لوازمات کو پورا کرتے رہیں گے اور جیساکہ کر رہے ہیں تو اس کا نتیجہ تعمیر نہیں بلکہ تخریب کی صورت میں سامنے آئے گا چونکہ اس ظاہری وجود کی اساس عناصرِ اربعہ آپس میں ہی متضاد کیفیات اور خصوصیات رکھتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں انسان کا باطنی وجود(روح) جس کا تعلق براہِ راست خالقِ حقیقی سے ہے کی ترقی سے انسان امن و آشتی اور تعمیری سوچ کا مالک بن سکتا ہے-اقبالؒ اسی لیے تو فرماتے ہیں کہ فرد کی ظاہری تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی روحانیت اور اس کے باطنی وجود کا پختہ ہونا بھی ضروری ہے-سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس باطنی وجود کی تعلیم و تربیت کہاں سے ہو گی؟اس کے لیے کسی ایسی کامل ہستی کی صحبت نشینی کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی نگاہِ پاک سے انسان کا تزکیہ کرے جیسا کہ آقائے دو جہان(ﷺ) نے اپنے قرب میں رہنے والوں کا کیا-اس کے لیےکسی ایسے مرشدِ کامل کی ضرورت ہوتی ہے جس کو خدائے بزرگ و برتر کا قرب و وصال نصیب ہو اور وہ یہ کروا بھی سکتا ہو- اس نظم میں حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں:

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

حضرتِ علامہ اقبالؒ اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ اے نوجوان کسی مرشدِ کامل سے وہ دولت حاصل کر،وہ فن سیکھ کہ جس سے تیرا یہ شیشہ نما نازک وجود جو شیطانی طاقتوں اور قوتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں،ان کے سامنے حقیر اور بے بس ہے، وہ وجود پتھر نما ہو جائےاور اس میں وہ طاقت اور قوت آ جائے کہ تیرے نظریات اور افکار پر ان قوتوں کا کوئی اثر نہ ہو بلکہ تو ان تخریبی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے تاکہ تجھے حقیقت انسان کا علم ہو-ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا ہمارا روحانی استخلاص ہو گیا؟ظاہری تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ کیا ہم نے اپنے باطن کے بارے بھی کبھی تفکر کیا؟کیا ہم اس روحانی دولت سے مالامال ہیں جو حقیقتِ انسان سے آگاہی کا واحد ذریعہ ہے؟اگر تو ہمیں کسی کامل کی بارگاہ مل گئی ہے اور ہماری روحانیت بیدار ہے اور ہم حقیقتِ انسان سے واقف ہو گئے ہیں تو مبارک باد ہے پھر کامیابی ہماری منتظر ہےاور اگر ہم اس دولت سے ابھی تک محروم ہیں تو پھر مرشدِ کامل کی تلاش اور اس کی صحبت نشینی اختیار کر کے اپنے روحانی وجود کی اصلاح کرنا ہمارا اولین فرض ہے-جب ظاہری قوت کے ساتھ وہ روحانی طاقت بھی ہوگی تو پھر ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہو گا-

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے مِلّت کے مُقدّر کا ستارا

لیکن شرط صرف یہی ہے کہ مادیت پرستی کی فضاؤں سے نکل کر اپنی اصل کی طرف آنا ہو گا-اس سمندر میں غوطہ زنی کرنا ہو گی جس سے ہمیں وہ گوہرِ نایاب ملے گا اور وہ ہم سے دور نہیں بلکہ اپنا ہی من ہے-بقولِ اقبالؒ:

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن[3]

علامہ اقبالؒ تصوف کے قائل ہیں اور انسان کے باطن کی اصلاح کو ضروری سمجھتے ہیں-اقبالؒ کے نظریہ تصوف میں رہبانیت نہیں بلکہ جہاں گیری اور جہاں بانی کا تصور ملتا ہے-

4-    تصورِ سیاست:

اقبالؒ کا پیغام دراصل دین اسلام کا حقیقی پیغام ہےجو نہ تو رہبانیت کا درس دیتا ہے اور نہ ہی فکر چنگیز کا- اقبالؒ کی اس نظم میں اگلا تصور سیاست کا ہے-اقبالؒ خود بھی عملی زندگی میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر سیاست سے منسلک رہے-آپؒ کا تصورِ سیاست مادیت زدہ تصور سیاست جو کہ آج عمومی طور پر دنیا میں رائج ہے، سے بالکل الگ ہے -آپؒ فرماتے ہیں:

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اقبالؒ پاکستانی نوجوان کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر تو نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنا ہے تو وہ سیاست کر جس میں تیرے دین پر کوئی آنچ نہ آئےاور نہ ہی تیرے روحانی ورثہ پر کوئی حرف نہ آئے- بلکہ ایسی صاف شفاف سیاست کر جس میں ملک و قوم کی خدمت مقصود ہوجو تیرے لیے دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ بنے-کیونکہ حقیقت میں یہ کائنات مالکِ حقیقی کی ملکیت ہے اور اس پر قانون بھی اس کا ہی قائم ہونا چاہیے-اس پر حکومت خدا کے مقرر کردہ بندوں کی ہو-تمام کائنات میں مطلق حاکمیت اللہ تعالی کی ذات کی ہے-اے نوجوان! تیری سیاست کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہو نہ کہ اہل ہوس کے خود ساختہ اصول و ضوابط پر-پاکستانی نوجوان کے لیےلمحہ تفکر ہے کہ کیا آج ہم اقبالؒ کے تصورِ سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں؟ ہمارے سیاسی نظام میں قرآن و سنت کی اہمیت کس حد تک ہے؟ کیا ہم ایسی وقتی نعرہ بازی کی سیاست کے پیروکار تو نہیں جو دینِ مبین کی نفی کر رہی ہو؟اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں اپنے معیارات کو بدلنا ہو گااور اس نظام کی فکر کرنا ہو گی جو ہمیں محسنِ انسانیت (ﷺ)نے عطا کیا-اقبال کے تصورِ سیاست کو اُجاگر کرتے ہوئے معروف دانشور قیّوم نظامی لکھتے ہیں :

’’علامہ اقبال کا نظریہِ سیاست اسلام کے سنہری اصولوں اور اخلاقیات پر مبنی تھا-ان کے نزدیک سیاست عبادت تھی نہ کہ لوٹ مار کا ذریعہ جس کا تماشا آج پاکستانی قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور اس کے نتائج بھگت بھی رہی ہے‘‘-[4]

5-    مومن کی ذمہ داری اور طاقت:

انسان اس کائنات میں خدائے بزرگ و برتر کا نائب اور خلیفہ ہے-تمام مخلوقات میں جتنی افضلیت اور مقام و مرتبہ اللہ تعالی نے انسان کو عطا کیا اتنی بڑی ذمہ داری بھی سونپی ہے-انسان کا اس دنیا میں آنے کا ایک خاص مشن اور مقصد ہے-وہ مقصد اور مشن عرفانِ ذات اور معرفتِ خداوندی ہے-جیسا کی مندرجہ بالا سطور میں ذکر ہوا کہ انسان دو جسموں(روح اور بدن) کا مجموعہ ہےتو انسان کے ان دونوں وجودوں میں اساسی نوعیت کا تضاد بھی ہے-اس لیے ان کے معرکے ہر عہد میں ہوتے رہے ہیں-یہ دونوں جہاں پر تضاد رکھتے ہیں وہاں پر ان کے ماننے والوں کے فکر و عمل میں بھی تضاد نظر آتا ہے-یہ تضاد کبھی جبرائیل و ابلیس کی صورت میں ملتا ہے کہ ابلیس کی نظر فقط حضرت آدم(علیہ السلام) کے ظاہری وجود تک محدود رہی جو اس کی گمراہی کا سبب بنی جبکہ دوسری طرف جبرائیلؑ کی نظر حضرت آدمؑ کے ظاہر و باطن دونوں پر تھی تو وہ فلاح پا گیا-اسی روز سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے کبھی حضرتِ نوحؑ اور قومِ نوح آمنے سامنے ہوئے،کبھی حضرتِ موسیؑ اور فرعون، کبھی حضور اکرم (ﷺ) اور ابوجہل جبکہ کبھی حضرتِ امام عالی مقام (علیہ السلام) اور یزید لعین کے درمیان یہ روح بدن کا معرکہ رونما ہوا-حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں کہ روح و بدن کے یہ معرکے ختم نہیں ہوئے بلکہ یہ ہر دور میں تازہ رہتے ہیں- رحمانی و شیطانی طاقتوں کا ہر دور میں ٹاکرا رہا ہےاور اس دور میں بھی یہ دونوں طاقتیں آمنے سامنے ہیں-

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

یعنی اس کائنات کو پھر اسی معرکۂ روح و بدن کا سامنا ہے-چونکہ دنیا میں فقط دو ہی گروہ ہیں ایک وہ کہ جس کی نگاہ فقط انسان کے ظاہر تک محدود ہے اور اسی کو انسانِ کامل تسلیم کرتا ہے-یہ وہی گروہ ہے جو انسان کو بندر اور گندے نطفے کی اولاد کہتا ہےاور حقیقتِ انسان اس کی نظروں سے اوجھل ہےاور فکرِ ابلیس کا پیرو کا رہے جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جو فکرِ جبرائیل علیہ السلام  کا پیروکار ہے اور اسلام کی ابدی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے انسان کے ظاہری اور باطنی دونوں وجودوں کو تسلیم بھی کرتا ہے اور ان کی اصلاح و تربیت کا بھی قائل ہے- اس گروہ میں پہلے انبیاء کرام (علیھم السلام) تھے اور یہ گروہ صالحین اور عارفین پر مشتمل ہے جو آج بھی انسان کو اس کی حقیقت سے آگہی دلانے کیلئے سرگرداں ہے-جبکہ دوسری طرف ابلیسی مادیت پرست نظام اپنے مادیت میں جکڑے ہوئے درندوں کو فکرِ ابلیس کا عملی نمونہ بنا کر پیش کر رہا ہے-اقبالؒ فرماتے ہیں کہ تم فکر ابلیس کے حصار میں گرفتار ہو کر اپنی اصل سے دور نہ ہونا، اس فرنگی تہذیب اور اس کےانسان شکن درندوں سے بے خبر نہ ہونا-ان کا تو مشن ہی یہ ہے کہ مسلمانوں سے ان کا روحانی سرمایہ چھین کر ان کو مادیت کے کالے پانیوں میں جکڑ دیا جائے-ابلیس کے حواریوں کو بھی علم ہے کہ اگر مسلمانوں سےاگر ان کی روحانیت چھین لی جائے تو ہی ابلیسی نظام کامیاب ہو سکتاہے-

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا 
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو[5]

مومن کی اصل ذمہ داری بھی یہ ہی ہے کہ وہ اپنی اصل سے دور نہ ہو اور ابلیس کے اس انسان شکن نظام کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنی خودی کی حفاظت کرے-پاکستانی نوجوان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا اس کے وجود سے کہیں روحِ محمد(ﷺ) تو نہیں نکال دی گئی؟ اس سےادب و عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کی دولت تو نہیں لے لی گئی؟ کیونکہ مسلمان کا حقیقی سرمایہ ادب و عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) ہی ہے-اگر مسلمان کا وجود اس دولت سے محروم ہو جا ئے تو اس کے بارے علامہ فرماتےہیں:

بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے[6]

یہ عشق ہی مومن کی حقیقی طاقت ہے-اسی عشق سے ایک بندۂ مومن کے وجود میں یقین کی دولت پیدا ہوتی ہے- جس سے وہ قیصر و کسری کے تخت الٹ سکتا ہےجس سے فرعون اور قارون کے سامنے کلمتہ الحق بلند کر سکتا ہے-مسلمان کااصل زوال اس کا مادی زوال نہیں بلکہ اس کا روحانی زوال ہے- اقبالؒ کا پاکستانی نوجوان کو بھی یہ ہی پیغام ہے کہ اے نوجوانِ مسلم! تو اپنے رشتہ و ناطہ خدا اور محبوبِ مصطفےٰ (ﷺ) سے اس حد تک پختہ کر کہ تجھ پر اللہ کا رنگ چڑھ جائے-تیرا ہر قول و فعل خدا کے حکم اور مرضی کے مطابق ہوکیونکہ اللہ تعالی کو بھی مومن کی غیرت،جرأت اور یقین پر بھروسا ہے-جبکہ دوسری طرف ابلیسی نظام معدنیات پر بھروسا کیے بیٹھا ہے-مومن کو خدا نے وہ طاقت اور قوت عطا کی ہے کہ اس کے ایک اشارے سے تقدیر بدل سکتی ہے-

تقدیر امم کیا ہے؟ کوئی کَہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

جب بندۂ مومن اپنی ذات کی نفی کر کے خودکو بارگاہِ الٰہی میں پیش کرتے ہوئے احکاماتِ الٰہی کا پابند ہو جاتا ہےتو خدا اس کے وجود میں وہ طاقت اور تاثیر رکھ دیتا ہےکہ اس کے خط پر دریائے نیل چل پڑتا ہے، حجاز کی زمین پر زلزلہ آنا بند ہو جاتا ہے، دریاؤں اور سمندروں کا پانی ان کے گھوڑوں کے سموں کو بھی مَس نہیں کرتا-یہ کارنامے اس وجود کی برکت سے ہی ہوتے ہیں جس کی رُوحانیّت بیدار ہو-یہ روحانی اورباطنی بیداری کا نتیجہ ہی ہے کہ حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اگر دریائے دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرے تو عمر جواب دہ ہو گا-یہ باطنی ظرف نہیں تو اور کیا ہے؟یہ ہمارے نوجوانوں کے لیےبھی لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا وہ اسلاف کا روحانی ورثہ ہمارے پاس بھی ہے؟ اقبالؒ آج کے پاکستانی نوجوان میں اس روحانی بیداری کو ہی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ نظم بھی آج کے نوجوان سے یہی تقاضاکرتی ہے کہ وہ اپنے ظاہر کے ساتھ اپنے باطن کی اصلاح بھی کرے تاکہ اس میں حقیقی مومنانہ فراست اور طاقت آجائے تاکہ اس کے ذریعے وہ اپنی ذمہ داریوں سےبھی عہدہ برآں ہو سکے-

6-    اسلاف سے نسبت:

چھٹا اہم نقطہ اس نظم میں اقبالؒ جو بیان فرماتے ہیں وہ ہمارا ماضی ہے-قوموں کیلئے ان کے ہیروز اور اَکابرین نعمتِ عظمیٰ ہوتے ہیں-قومیں اپنے اکابرین کا ادب و احترام کرتے ہوئے ان کے نظریات پر عمل پیرا ہو کر سر بلندی سے ہمکنار ہوتی ہیں اورجو قومیں اپنے اسلاف سے ناطہ توڑ دیتی ہیں تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے-اقبالؒ بھی یہی درس دیتے ہیں کہ اے نوجوان! تو اپنے اسلاف کو نہ بھول بلکہ ان سے سبق حاصل کر-

اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے!
’شاہان چہ عجب گر بنوازد گدارا‘!

عمل میں اخلاص اس وقت ہی آ سکتا ہے جب انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو اور زبان کے ساتھ اس کا دل بھی گواہی دے-یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اس کی روحانیت بیدار ہو گی-اقبالؒ درس دیتے ہیں کہ تو اپنے اسلاف کے اطوار کو اپنا-اپنے ہیروز کے قاعدے اور قانون پر عمل کر اور ان کے افکار سے سبق حاصل کر کیونکہ تیری رگوں میں ان پاک لوگوں کا خون ہے جنہوں نے اس سر زمین پر اللہ کے نام کو بلند کیا،تو ان کی بارگاہ میں سائل بن کر جا تاکہ وہ تجھ پر اپنی نظرِ کرم فرمائیں اور تجھے وہ گوہرِ نایاب مل جائے-مجھے اور آپ کو بحیثیت مسلم نوجوان اپنے اندر جھانکنا ہو گا کہ ہمارا رشتہ اور ناطہ اپنے اسلاف سے کتنا مضبوط ہے؟ہماری ناکامی اور تنزلی کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اسلاف اور اپنے ماضی کو بھول گئے جس سے ہم نے سبق حاصل کرنا تھا- بلکہ افسوس صد افسوس! کہ آج ہمیں اسلاف کی نسبت کی وجہ سے طعنہ دیا جاتا ہے کہ تم دقیانوسی افکار رکھتے ہو-ہمیں خبر دار ہونا چاہیے کہ یہ بھی جدید ابلیسی فکر کی ہی ایک مکاری ہے-

مجموعی طور پر اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو آج کا پاکستانی نوجوان فکرِ اقبالؒ کے متضاد چلتا دیکھائی دیتا ہے-لیکن ہماری کامیابی انہی اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں ہے جن کی طرف حضرتِ علامہ نے اس نظم میں اشارہ فرمایا ہے-اگر ہم آج ان اصولوں کو اپنا لیں تو شبانی سے کلیمی دو قدم کا ہی فاصلہ ہے- لیکن یہاں پر اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نوجوانوں کو وہ قیادت کہاں سے میسر آئے جو ہمارے اندر کے ان اوصاف کو اجاگر کرے جو اللہ تعالی نے ہمارے وجود میں رکھ دیے ہیں؟اس دولت کا پردہ کون اٹھائے جو ہمارے سینے میں ہے؟ان حجابات کو کون اٹھائے جو خالق و مخلوق کے درمیان حائل ہیں؟وہ کونسی ہستی ہے جو ہم کو معرفتِ خداوندی اور تکمیلِ انسانیت کا درس دے؟اگر دیکھا جائے تو بحیثیتِ مسلمان کلمہ تو ہم سب پڑھتے ہیں،تلاوت ،تسبیح اور ارکانِ اسلام کی بھی کسی حد تک پابندی کی جا رہی ہے تو پھر ناکامی کس بات کی؟

اصل وجہ یہ کہ ہم اقرار باللسان تک رک گئےاور تصدیق بالقلب کو بھول گئے-ہم نے اپنے ظاہر کو سنوارا مگر ہمارا باطن اسی طرح تاریک ہے- آج ہمیں بقول اقبال اس کامل کی ضرورت ہے جو ہمیں اقرار کے ساتھ تصدیق بھی کروائے- وہ تصدیق کون کرواتا ہے اس کے بارے سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:

زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا دل دا پڑھدا کوئی ھو
جتھے کلمہ دل دا پڑھیے جبھے نہ ملے ڈھوئی ھو
دل دا کلمہ عاشق پڑھدے کی جانن یار گلوئی ھو
ایہہ کلمہ پیر پڑھایا باھوؒ میں سدا سہاگن ہوئی ھو

دل کا کلمہ پڑھانے والی ہستی مرشدِ کامل کی ہستی ہوتی ہے-جو اپنی نگاہ سے انسان کے باطن کا تزکیہ کر کے اس کے دل میں اللہ پاک کا نام ’’اسم اللہ ذات‘‘نقش کر دیتی ہے-ہر عہد میں ایک ہستی روئے زمین پر موجود رہتی ہے جو سنتِ مصطفےٰ (ﷺ) کو اپناتے ہوئے اپنے قرب میں آنے والوں کا تزکیہ بھی کرتی ہے اور ان کو مقام انسان کے مرتبے پر فائز بھی کرتی ہے-ہماری خوش نصیبی اور خوش بختی ہے کہ آج ہم کو بھی وہ قائد، راہبر اور مرشدِ کامل نصیب ہےجن کی صحبت میں آنے والے لاکھوں لوگ اپنے مقصدِ حیات کو جان گئے-آج پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کو دعوتِ عام ہے کہ اگر آپ علامہ محمد اقبالؒ کے حقیقی شاہین بننا چاہتے ہیں تومردِ خود آگاہ،سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی نسبتِ پاک سے چلائی گئی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین وہ پلیٹ فارم ہے جس سے لاکھوں نوجوانانِ ملت دنیا کی تاریکیوں سے نکل کر معرفتِ حق تعالیٰ کا خزانہ حاصل کر چکے ہیں اور ملک وملت کے لیے تعمیری سوچ لے کر اس حق کے پیغام کو عام کر رہے ہیں-سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین،قائدِ ما و مرشدِ ما جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کی صورتِ مبارکہ میں ہمارے لیے وہ ہستی موجود ہے جس کی صحبت نشینی کا درس حضرتِ علامہ ہمیں اس نظم میں دیتے ہیں-آپ مدظلہ الاقدس کا یہ پیغام عالمِ انسانیت کے لئے  ہے کہ اِس تحریک میں شامل ہو کر انسانیت کی بقاء  اور تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور فقرِ محمدی (ﷺ) کے پیغام کو عام کریں-تاکہ ہر انسان اس معاشرے میں اپنے مقام و مرتبے کو پہچان کے تعمیری کردار ادا کر سکےکیونکہ اسلام زندگی کا قائل ہےجیسا کہ اقبالؒ حقیقت اسلام کے بارے فرماتے ہیں:

’’آزردگی اور پریشاں خاطری مسلمان کا شیوہ نہیں-اسلام کی حقیقت فقر ہے‘‘-[7]

پاکستانی نوجوانان کو بالخصوص دعوت ہے کہ مندرجہ بالا نظم میں اقبالؒ نے جن چیزوں کی طرف اشارہ فرمایا وہ سب اس فیضِ تربیّت سے مل رہی ہیں جس سے ہمیں مایوسی اور قنوطیت سے چھٹکارا مل سکتا ہے-آئیے اس روحانی اور ملی تحریک کا حصہ بن کر احکامِ الٰہی،تعلیماتِ آقائے دو عالم(ﷺ) کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کے افکار و نظریات اورفکر اقبالؒ کو اجاگر کریں-

شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے 

٭٭٭


[1](ضربِ کلیم)

[2](ارمغانِ حجاز)

[3](بالِ جبریل)

[4](قیوم نظامی،علامہ اقبال کا سیاسی نظریہ،لاہور:نوائے وقت،9 نومبر2012)

[5](ضربِ کلیم)

[6](بالِ جبریل)

[7](مکتوباتِ اقبال:ص 303)

حکیم الاُمت، عارفِ کامل، دانائے راز، شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ عالمِ ناسوت کی زمانی و مکانی حدود سےماورا اس فکر کا نام ہے جس کے نورِ علم و معرفت سے ہر عہد کا انسان فیض یاب ہو سکتا ہے-علامہ محمد اقبالؒ کی ذاتِ گرامی کو محض شاعر یا فلسفی کہنا اور سمجھنا ان کی ذات کے ساتھ صریحاً ناانصافی ہے-آپؒ کاپیغام بالعموم عالمِ انسانیت اور بالخصوص امتِ مسلمہ کے ہر فرد کی یکساں قدر و قیمت رکھتا ہے-امتِ مسلمہ کی اور بالخصوص اہلِ مملکتِ خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسیوں کی خوش بختی اور خوش نصیبی ہے کہ مالکِ کائنات نے اس خطہِ  سر زمین پر جہاں اور لاتعداد احسانات فرمائے وہاں اسےحضرتِ علامہ محمد اقبالؒ جیسی نابغہِ روزگار ہستی سے بھی نوازا-اس خصوصی فضل وکرم پر ہم خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں کہ اس نے ہم پر اپنی خصوصی شفقت سے یہ انعام کیا-لیکن صد افسوس! کہ ہم اس نعمتِ عظمیٰ کی وہ قدر و قیمت نہ کر سکے کہ جس طرح خوش نصیب قومیں اپنے ہیروز کے احترام اور تکریم کی بجا آوری کرتی ہیں-

علامہ اقبالؒ کی فارسی اور اردو شاعری امتِ مسلمہ کے لیے پیغامِ حیات ہے-آپؒ کے کلام کا ہر شعر بلکہ ہر مصرعہ اپنے اندر معنی کا بحرِ بیکراں رکھتا ہے-آپؒ مقربِ خدا اور منظورِ نظرِ حبیبِ کبریا(ﷺ) ہیں-اسی لیے آپؒ کی زبانِ گوہر فشاں سے نکلنے والی ہر بات اپنے اندر وسعتِ دوام رکھتی ہے- لیکن وہ غواص کس طرح ان موتیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہےجو سمندر کی تَہ میں ہوں اور وہ سمندر میں چھلانگ ہی نہ لگائے اور ساحل کی صحبت سے کنارہ کشی ہی نہ کرے-اگر موتیوں کو پانا ہو تو ساحل کو چھوڑ کر غوطہ زنی شرط اول ہو گی-اسی طرح اگر ہم اس مردِ خود آگاہ کے پیغام سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے کلام سے انمول جوہرات تلاش کرنا اگر ہمارا مقصود ہے تو پھر ہم کو ان کی ذاتِ گرامی سے محبت اور عقیدت کے ساتھ ساتھ ان کے افکار و نظریات کو زیرِ مطالعہ لانا ہوگا-جو ہمیں بارِ گراں محسوس ہوتا ہے-افرنگی تہذیب کی یلغار نے ہم کو اس قدر اپنی مصنوعی چمک پر فدا کر رکھا ہے کہ ہم فکرِ ابلیس کے دامِ فریب میں اسیری کا عملی نمونہ نظر آتے ہیں-ہمارے قلوب و اذہان کو وہ سبق دیا گیا کہ آج اس محسن کی تعلیمات کی فکر پر عمل کرنے کے بجائے ہم اس کی مخاصمت پر اتر آئے- جیسا کہ حضرتِ علامہ اپنی ایک نظم ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘میں ابلیسی فکر کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو[1]

اگر ہم آج بھی یکسوئی اور سنجیدہ مزاجی سے پیغامِ اقبال کو سمجھ کر اس پرعمل پیرا ہو جائیں تو ہم مذہبی و روحانی،معاشرتی و سماجی،اقتصادی و معاشی،تہذیبی و ثقافتی،علمی و ادبی الغرض ہر شعبہِ زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور ان بحرانوں سے خلاصی پا سکتے ہیں جن کا ہم ’’من حیث القوم شکار‘‘ مجموعی طور پر کئی دہائیوں سے شکار چلے آ رہے ہیں-علامہ اقبالؒ کی نظم ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ اُن کے آخری مجموعہ کلام ارمغانِ حجاز(حصہ اردو) میں شامل ہے-یہ نظم اپنے اندر اختصار اور جامعیت کے علاوہ ایک مسلم نوجوان کے لیے کامیابی کا وہ پیغام رکھتی ہے کہ صرف گیارہ (11) اشعار پر مشتمل اس نظم میں اقبالؒ نےان تمام لوازمات کا تذکرہ فرما دیا جو ایک مسلمان نوجوان کی شخصیت کا زیور ہونے چاہیں-ایک مسلم نوجوان کو حضرتِ علامہ اس نظم میں ایک نصابِ حیات عطا کرتے ہیں-بظاہر دیکھنے میں اس نظم کا عنوان ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بلوچ النسل بوڑھا اپنے بیٹے کو پند و نصیحت کر رہا ہےلیکن حقیقت میں اقبالؒ امتِ مسلمہ کے نوجوان سے مخاطب ہیں-اس نظم کا عنوان استعاراتی اور علامتی نوعیت کا ہے-یہاں پر ہم اس نظم کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی سعی کرتے ہیں کہ ’’اقبالؒ کی نصیحت پاکستانی نوجوان کو‘‘-اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ تصور کیا جائے کہ بحیثیتِ فرد پاکستان اقبالؒ مجھ سے مخاطب ہیں تو آج کے اس پر فتن دور میں جہالت اور گمراہی اپنی آخری حدود کو چھو رہی ہے،عصمت دری، دہشت گردی، معاشرتی منافقت،ظلم و جبر،قتل و غارت الغرض تمام گناہِ کبیرہ کا عروج ہےاور جیسے نوعِ انسان کے زوال کی منہ بولتی تصویر ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے-جب ہمارا علم وادب تعمیری سوچ کے بجائے تخریبی سوچ کا مواد فراہم کرتا دیکھائی دیتا ہےتواس دور میں انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطحوں پر ہم اقبالؒ کی اس نظم سے اکتسابِ فیض کر سکتے ہیں-ہم یہاں پر یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان حالات میں اقبالؒ کی یہ نظم آج کے پاکستانی نوجوان سے کیا تقاضا کرتی ہے؟آج کے پاکستانی نوجوان میں وہ کونسی خصوصیات ہوں کہ وہ تخریب کے بجائے تعمیر کا عملی نمونہ بن سکے؟اس کے ساتھ ساتھ وہ کون کون سے خطوط اور زاویے ہیں کہ جن پر چل کرآج کا پاکستانی نوجوان پاکستان،عالمِ اسلام اور عالمِ انسانیت کیلئے امن اور محبت کے درس کو عملی زندگی میں اپنا نظریہ حیات بنا سکتا ہے؟اور ان افکار کی روشنی میں پاکستانی نوجوان اپنا محاسبہ کرے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کرے کہ کس طرح فکرِ اقبالؒ پر عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے؟

غزلیہ ہیت میں لکھی گئی یہ نظم مجموعی طور پر تو ایک ہی موضوع رکھتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس  نظم کا اعجاز یہ ہے کہ اس کا ہر شعر انفرادی سطح پر بھی آفاقی پیغام کا منہ بولتا ثبوت ہے-ہم فکری سطح پر دیکھتے ہیں کہ اقبالؒ نے اس نظم میں کن آفاقی اور عمیق نکات کو پیش کیا ہے جو ایک پاکستانی نوجوان کے لیے مشعلِ راہ ہو سکتے ہیں-

1-    تصورِ وطن:

اس نظم میں حضرتِ علامہ اقبالؒ گفتگو کا آغاز ہی وطن سے کرتے ہیں کہ نوجوان ِمسلم تیرے لیے کوئی جغرافیائی حدود نہیں ہیں،تو کسی مکانی حدود کا پابند نہیں بلکہ ’’ہر ملک ملکِ ما است‘‘ کا نظریہ پیش کیا گیا ہے اور آگاہ کیا گیا ہے کہ تو جغرافیائی حدود کی سوچ و بچار میں ہی وقت ضائع مت کر بلکہ تو جہاں بھی ہے،تیرا قیام جس جگہ پر بھی ہے،تیرا مسکن چاہے زمین کا کوئی خطہ ہو وہ تیرے لیے مثلِ جنت ہے- اے نوجوان! تجھے دوسرے مادی ترقی یافتہ ممالک یا ان کے مصنوعی روشنیوں والے شہروں کی طرف حسرت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے اور نہ ان کی طرف مرغوب و مرعوب ہونا تیرے حق میں بہتر ہے بلکہ تیرا اپنا وطن سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے -لیکن شرط یہ ہے کہ تو اس کی آب و ہوا یعنی اس کے نظریہ،اس کی تہذیب و ثقافت اور درحقیقت اِس کی اُس بنیاد سے ہم آہنگی پیدا کر جس بنیاد اور نظریے پر اس مملکت کو بنایا گیا-

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا

تیرا مادی زوال تیرا زوال نہیں بلکہ تیرا زوال اس میں ہے کہ تو اپنے نظریے سے دور ہو جائے جو تجھے اسلاف سے ورثے میں ملا ہے-مسلمان کا کوئی ایک ملک نہیں ہوتا بلکہ پوری کائنات تیرے مالکِ حقیقی کی ہے اور تو اس کا حقیقی بندہ بن جا تاکہ تمام کائنات تیرے تسلط میں آ جائے-

جس سِمْت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا

اگر دیکھا جائے تو حضرت علامہ تقریباً ایک صدی قبل ہم کو اس بات کا درس دے گئے کہ اے میرے نوجوان ابلیسی فکر کی مکاریوں میں آ کر اپنی حقیقت کو نہ بھول جانا اور مغربی تہذیب کی رنگ رنگیوں کا شکار نہ ہونا بلکہ اپنی اساس کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا-لیکن افسوس! کہ اگر آج کے پاکستانی نوجوانوں کو دیکھا جائے تو ان کے ذہنوں میں یہ منفی سوچ پروان چڑھائی جا رہی ہے کہ اس ملکِ پاکستان میں رکھا کیا ہے؟ مغرب کو دیکھو وہ کہاں پہنچ گیا؟تاکہ وہ اپنے نظریے سے کوسوں دور ہو کر مادیت پرستی کا شکار ہو جائے- یہاں پر میرا اپنے نوجوان بھائیوں سے ایک عاجزانہ سوال ہے کہ جو اس مملکتِ خداداد کے بارے میں منفی نظریات کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟کیا ہم نے اپنے فرائض کو بخوبی نبھایا یا ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں کہ کوئی خضر آئے گا اور ہماری قسمت اور مقدر کا ستارہ چمکائے گا؟تو یقینا جواب مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا- بحیثیت فردِ قوم میری اور آپ سب کی بھی کچھ ملکی اور ملی ذمہ داریاں ہیں-مگر ہم نے تن آسانی کو اپنا شیوا بنا لیا اور عمل سے غافل ہو گئے اور اپنی ناکامی کو تقدیر سے منسوب کر دیا-

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کر تقدیر کا بہانہ [2]

2-غیرت و حمیّت:

اس نظم کا اگلا اہم نقطہ جوحضرتِ علامہ نے بیان کیا وہ ’’غیرت‘‘ہے-اقبالؒ اپنے نوجوان میں غیرت کی دولت دیکھنا چاہتے ہیں-اس غیرت سے ہر گز وہ غیرت مراد نہیں جو ہماری خود ساختہ یا ہماری انا پرستی،نفسانی خواہشات اور غرور و تکبر کی پیداوار ہےکہ ہم دوسروں کو ذلیل و خوار کریں،ناحق قتل و غارت کریں بلکہ اقبالؒ کے نزدیک غیرت یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان میں اپنے دین و ملت کی غیرت ہو،محسنِ انسانیت (ﷺ)  کی ذاتِ اقدس کی غیرت ہو،آپ (ﷺ)کے پیغام اور مشن کے پاسداروں اور اس کی پاسداری کی غیرت ہو،اپنے ان ہیروز کی غیرت ہو جن نے اس کائنات میں صدائےکلمتہ الحق بلند کرنے کے لیے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہ کی-اس عالمِ رنگ و بو میں ایک مردِ مسلمان کیلئے غیرت سے بڑی کوئی شے نہیں-

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں