اقبال کی تضمیناتِ بیدل

اقبال کی تضمیناتِ بیدل

اقبال کی تضمیناتِ بیدل

مصنف: ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نومبر 2017

تضمین کا شمار صنائع لفظی میں ہوتا ہے-یہ فن قدیم زمانے ہی سے شعراء کی توجہ کا مرکز رہا ہے-’’تضمین‘‘ کا لفظ’’ضمن‘‘سے مشتق ہے-یہ ایک کثیر المعانی لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’’ملانا، ضامن کرنا، پناہ میں لینایا شامل کرنے یا کسی شے کو دوسری چیز میں ملادینے کا عمل‘‘ وغیرہ کے ہیں-

شاعر ی کی اصطلاح  میں جب کوئی شاعر اپنے یا کسی دوسرے شاعرکے کسی مشہور شعر یا مصرعے یا مصرعے کے کچھ حصے کو اپنے کلام میں داخل کرتا ہے یا کسی معروف مصٓرعےپر مصرع یا بند لگاتا ہے تو اسے تضمین کرنا یا گرہ لگانا کہتے ہیں-گویا’’اصطلاح عروض میں کسی کے مشہور مضمون یا شعر کو اپنی نظم میں داخل یا چسپاں کرنا،دوسرے کے شعر پر بند یا مصرعے لگانا‘‘[1]اور ’’کسی دوسرے شاعر کے ایک مصرعے یا ایک شعر کو اپنے کلام میں استعمال کرنا‘‘[2]تضمین کہلاتا ہے-’’اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ شاعر اپنے کلام میں کسی اور کا کلام معروف اس طرح پیوند کرلے کہ مفہوم کی ہمواری اور سیاق کی روانی میں فرق نہ آئےبلکہ ایک دوسرے سے تقویت و تائید حاصل ہو‘‘[3]-مشہور لغت’’المنجد‘‘ میں تضمین کے اصطلاحی معنی اس طرح بیان ہوئے ہیں:

’’التضمین ھو ان یاخذ الشاعر شطراً من شعر غیرہ بلفظہ و معناہ‘‘[4]

 

’’تضمین یہ ہے کہ شاعراپنے لفظ اور اپنے معانی کے ساتھ کسی دوسرے شاعر(کےکلام) سے  کوئی حصہ لے ‘‘-

اگر تضمین شدہ کلام،معروف  ہوتو تضمین نگار کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اصل شاعر کی طرف اشارہ کردے تاکہ سَرقے کا احتمال نہ ہو-

فنِ شاعری میں تضمین نگاری کی اہمیت مسلّم ہے-دنیائے ادب میں آغاز ہی سے متقدمین و معاصرین کے اشعار و مصاریع کو داخل شعرکرکے اپنے کلام کی فکری جہتوں کو ابھارنے اور فنی پہلوؤں کو نکھارنے کا رجحان موجودرہا ہے-تضمین اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں کو خراجِ تحسین پہنچانے کا ایک دل کش شعری رویہ ہے-یہ ایسی ستائش ہے جس کے نتیجے میں متضمن شعر پارے کے ساتھ ساتھ خود کلامِ شاعر کے مرتبے میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے-علمائے شعروفن نے تضمین کو صنائعِ لفظی میں شمار کیا ہے-

کلاسیکی شعرا کے تضمینی سرمایے کے مطالعات سے ظاہر ہوا کہ اس فن میں دلچسپی رکھنے والے بیش تر شعرا ءنے اپنے کلام میں متنوع ابعاد کے حصول کے لئے اسے بطور ایک فنی تکنیک کے اختیار کیا اور ہردور میں اس فنی حربے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا-اس قدر کہ گرہ لگانا یا مصرعے اور شعر پر مصرع یا شعر کَہ ڈالنا اس کی ایک عام اور سطحی صورت ٹھہرتی ہے-سچ تو یہ ہے کہ اصلی و حقیقی اعتبار سے تضمینِ شعر دو مماثل و متخالف ذہنوں، زمانوں اور جذبوں کے اِتّصال سے عبارت ہے-یہ افکارِ عالیہ کے باہمی اشتراک کا ایک ایسا تخلیقی عمل ہے جو روایت کی پیش کش کے ساتھ ساتھ انفرادی صلاحیت کا عکاس بھی ہے-یہی وجہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شاعر نے اس فن کو اپنایا اور بڑے شعراء نے تو اپنے ذاتی طرزِ احساس کی شمولیت سے ایسی جلا بخشی کہ تضمین کے دوگونہ ثمرات یوں ظاہر ہوئے کہ تضمین کے ذریعے روایت کے چراغ کی لو بجھنے نہ پائی بلکہ تازہ داخلی واردات کی شمولیت سے یہ شعروسیلہ ہر دورمیں نئی آب و تاب سے ہم کنار ہوتا رہا-اقبال کی تضامین اس امر کی روشن اور واضح مثال ہیں-

حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے تضمین کی تمام ممکنہ صورتوں کی مکمل فنی استعداد سے اپنایا-تضمین’’ تأبید و استعانہ، ہو یا ’ایداع و رفو، کی صورت، یا تضمینِ ترجم اور تضمین خیال‘‘ یا پھر ’’تضمینِ مکالمہ پیکر‘‘-اقبال نہایت روانی اور برجستگی سے فارسی اور اردو کے معروف اور غیر معروف شعراء کے حرکی و پیغامی فکر کے حامل شعرپاروں کو تائیدِ بیان کے لئے پیوندِ کلام کرلئے ہیں اور کلامِ متضمن کے انتخاب میں ان کی بنیادی ترجیح اپنے خاص نقطۂ نظر سے مطابق ہی ٹھہرتا ہے-چنانچہ شعر اقبال میں بہت سے مقامات پر فارسی اور اردو کے معروف اور غیر معروف شاعروں کے اشعار اور مصرعے ستائش و تائیدِ کلام کےساتھ نئی معنویت کے حصول کے لئے منقول ملتے ہیں-کہیں کہیں اپنے کلام کو برنگِ دگر اپنانے کا رویہ بھی تضمیناتِ اقبال کو دل کشی عطا کرتا ہے-

اس میں کوئی شک نہیں کہ فنی اعتبار سے اقبال کے کلام کی اہمیت و افادیت میں ان کی تضمینوں کا کلیدی کردار ہے-یہ تضمین نہ صرف علوِ فکر کی اعلیٰ مثال ہیں بلکہ علامہ کی ریاضتِ فنی اور دِقّتِ نظری کا بھر پور سُراغ دیتی ہیں-اقبال جتنے عظیم مفکر تھے اتنے ہی باکمال فنکار بھی تھے-تضمیناتِ اقبال کےدلکش زاویے اس اَمْر کا نہ صرف بخوبی اِستنباط کرتے ہیں بلکہ بعد کے شعر ا کے لئے فنی تجربات کا ایک پرکشش در بھی وا کر گئے ہیں-

تضمین کے حوالہ سےعلامہ محمد اقبال ؒ نےاپنے ہم عصر اور سابقہ ادوار کے قریباً تمام معروف شعراء سے استفادہ کیا ہے-ذیل میں ہم صرف مرزا عبد القادر بیدل کے حوالہ سے جو تضمینات کی ہیں اس کا حسب المقدور احاطہ کریں گے-

جیسا کہ بیدل کا زیر تضمین شعر دیکھیے:

دریں حیرت سرا عمریست افسونِ جرس دارم

 

ز فیضِ دل طپید نہا، خروشی بے نفس دارم[5]

بیدل کا کہنا ہے کہ اس حیرت بھرے مقام یعنی دنیا میں مانند جرس ہر طرف شور برپا کرنا چاہتا ہوں مگر شدت جذبات کے باعث بے چینی ہونٹوں پر آنے سے قاصر ہے-گویا فریاد کناں ہونے کی خواہش رکھنے کے باوجود میری فریاد بے صدا ہے-اقبال کے ہاں مصرعِ اوّل میں بیانِ حسرت کے پیش نظر حیرت سرا کے بجائے حسرت سرا کے الفاظ ملتے ہیں بلا شبہ زیر تضمین شعر سے نظم میں اثر انگیزی بڑھ گئی ہے-

نظم‘ ’’نالہء فراق ‘‘ اقبال نے اپنے عزیزاستاد آرنلڈ کی یاد میں اس وقت لکھی جب وہ واپس انگلستان سدھار گئے-اس نظم میں بیدل اور امیر مینائی  کے شعر تضمین کیے گئے ہیں- پہلے بند میں وہ حالتِ فراق کے اظہار کے لئے بیدل کے شعر میں قدرے تصرف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری محبوب ہستی مشرق سے رخصت ہو گئی ہے اور جب سے میری نگاہ نے محبوب کی آغوشِ وِ دَاع سے حیرت کا داغ چنا ہے وہ تحَیُّر سے بجھی ہوئی شمع کے مانند ساکت ہو گئی ہے -گویا میری آنکھ میں نظریوں سو گئی ہے جیسے بجھی ہوئی شمع :

جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
آگیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقین
تاز آغوش وداعش داغِ حیرت چیدہ است

 

آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں
ظلمتِ شب سے ضیاے روزِ فُرقت کم نہیں
ہمچو شمعِ کشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است[6]

بیدل کے ہاں مصرع اول میں وداعش کے بجائے وداعت کا لفظ ملتا ہے[7]-چوتھے بند میں اقبال نے بیدل ہی کے شعر[8] کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے-بند دیکھئے :

تو کہاں ہے اے کلیمِ ذروۂ سینائے علم
اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائی صحراے علم
’’شور لیلیٰ کو کہ باز آرائشِ سودا کند

 

تھی تری موج نفس بادِ نشاط افزاے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سوداے علم
خاکِ مجنوں را غبارِ خاطرِ صحرا کند‘‘[9]

اقبال کا کہنا ہے کہ آرنلڈ کی جدائی کے بعد علم کے عُشّاق اس بات کے خواہاں ہیں کہ کاش کوئی ایسا محبوب دوبارہ آئے جو ان کے دلوں میں نیا جنون ،  ہنگامہ اور ولولہ پیدا کر سکے-شاعر شور لیلیٰ کا از سر نو متمنی ہے تاکہ سودا اور آشفتگی کی نئے سرے سے آرائش ہو سکے اور ایک مرتبہ پھر خاک مجنوں صحرا کا غبار ہو جائے-وہ آرنلڈ کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں سودائے علم آپ کی ہستی سے تھا اور اب آپ کے جانے کے بعد ’’شوق رہ پیمائی صحرائے علم‘‘ باقی نہیں رہا-بیدل کے شعر میں موجود توانا لب و لہجہ اور کیفیت طلب ،اقبال کےاسلوب سے ہم آہنگ ہو کر عمدہ تضمین کی شکل اختیار کر گئی ہے – زیر تضمین شعر سے اس بند کے صور ی حسن میں بھی اضافہ ہوا ہے-

نظم ’’ عبدالقادر کےنام‘‘میں اقبال نژاد نو کے لئے لائحہ عمل کا تعین کرتے ہوئے اس دور کے قیس کو آرزوے نو سے شناسا کرنے اور محوسعدٰی وسلیمٰی کرنے کا عزم کرتے ہیں –پوری نظم جوش و ولولے اور عزم و ہمت کے جزبات سے لبریز ہے – اقبال نسل نو کو شمع کے مانند بزم گِہ عالَم میں جینے کی ترغیب دیتے ہیں اور نظم کے آخر میں بیدل کا شعر ان کے خیالات پر مہر تصدیق کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے –نظم کا آخری ٹکڑا دیکھئے:

دیکھ !یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار
بادۂ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ
شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں
ہرچہ در دل گزرد وقفِ زباں دارد شمع

 

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
جگرِ  شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں
چیر کر سینہ اسے وقفِ تماشا کر دیں
خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں
سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع[10]

بیدل کے شعر کی مدد سے اقبال اس عہد کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم شمع کی طرح اپنے دلی جذبات نوک زبان پر لائیں گے- دنیا کہ بزم میں چلیں گے اور دوسرے کی آنکھ منور کر دیں گے اس لئے کہ جلنا محض خیال نہیں جسے چھپا کر رکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو سب کو نظر آنا چاہیے بیدل کا شعر اقبال کے جذبات کی موثر ترجمانی کر رہا ہے-

اپنی نظم ’’مذہب‘‘ (تضمین بر شعر مرزا بیدل) میں اقبال عقلیت کے مقابلے میں مذہب اور عشق کو فوقیت دیتے ہوئے بیدل کے شعر کی تضمین سے یہ مفہوم پیدا کرتے ہیں کہ ہر قسم کا کمال چوں کہ جنون سے ہی انسانی تصرف میں آتا ہے اس لئے سراسر عقل میں ڈوبے ہوئے فرد کے لئے بھی بے جنوں رہ جانا مناسب نہیں ہے- آج جب کہ جدید تعلیم عقاید کے شیشے کو پاش پاش کر رہی ہے اور مذہب ’’جنون خام‘‘ ہو کر رہ گیا ہے اندریں حالات:

کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور
’’با ہر کمال اند کے آشفتگی خوش است

 

مجھ پر کیا یہ مرشدِ کامل نے راز فاش
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش[11]

اقبال نے بیدل کے زیر تضمین شعر میں تصرف کیا ہے-بیدل کا شعر اس طرح ہے

باہر کمال اند کے دیوانگی خوش است

 

گیرم کہ عقل کل شدۂ بے جنوں مباش[12]

اقبال نے اس شعر کو عہد حاضر کی مذہب بیزار اور عشق نا آشنا تہذیب پر چوٹ کے لئے تضمین کیا ہے اور اس سے تضمین شدہ شعر کی معنویت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے-

ادبیات فنون لطیفہ ہی کے سلسلے کی چار شعروں پر مشتمل نظم ’’مرزا بیدل‘‘ بھی اس ضمن میں نہایت اہم ہے-اس نظم میں اقبال بیدل کی نُدرتِ فکر کو سراہتے ہیں-نظم کے آغاز میں شاعر اس کش مکش سے دوچار ہے کہ اس چمنِ کائنات کی حقیقت کیا ہے؟بالآخر بیدل کا شعر اس گرہ کو کھولتا ہے:

ہے حقیقت یا مری چشمِ غلط بیں کا فساد
کوئی کہتا ہے نہیں ہے کوئی کہتا ہے کہ ہے
میرزا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ
دل اگر میداشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن

 

یہ زمیں یہ دشت یہ کہسار یہ چرخِ کبود!
کیا خبر ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود!
اہلِ حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود!
رنگِ مئے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود‘‘!
[13]

بیدل کے ہاں مصرع اول قدر ے مختلف شکل میں ہے-شعر دیکھیے

بی نشان بود این چمن کر وسعتی میداشت دل

 

رنگ مئے بیرون نشست از بسکہ مینا تنگ بود[14]

اقبال کے تصرف کے نتیجے میں شعر کی معنویت و دل کشی میں اضافہ ہوگیا ہے-انھوں نے ’’دل اگر میداشت وسعت‘‘ کا ٹکڑا مصرعے کے آغاز میں استعمال کر کے شعر میں توانا لب ولہجہ پیدا کر دیا ہے - شاعر کا کہنا ہے کہ اگر دل وسیع ہو تو اس چمنِ کائنات کا کوئی سراغ نہ ملتا مینا اس قدر تنگ تھی کہ شراب کا رنگ باہر چھلک آیا-یوں اقبال نے کائنات کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسئلے کی کشود بیدل کے زیر تضمین شعر سے نہایت مہارت اور خوبی سے کر ڈالی ہے-

٭٭٭


[1](سید احمد دہلوی(مولف)،فرہنگِ آصفیہ،لاہور: مکتبہ حسن سہیل لمیٹڈ‘‘ طبع اول1908ء ج:1، ص:610)

[2](نذیر احمد، اقبال کےصنائع بدائع، لاہور: اشرف پریس، طبع اول1966ء، ص:91)

[3](ناظر حسن زیدی، ڈاکٹر سید: تضمین کے روپ (مضمون) مشمولہ رسالہ صحیفہ لاہور: جنوری1965ء، ش:30، ص:9)

[4](المنجد (عربی-عربی) المطبعتہ الکاثولیکیۃ بیروت 1956ء،ص:455)

[5](کلیاتِ بیدل بکوشش حسین آھی بہ تصحیح خال محمد خستہ و خلیل الخلیلی، تہران:ناشر مراغی 1366ھ، طبع اول، ص:911)

[6](بانگِ درامشمولہ کلیاتِ اقبال(اردو)لاہور:شیخ غلام علی اینڈ سنز1972، ص:77)

[7](کلیاتِ بیدل، ص:214)

[8](ایضاً، ص:582)

[9](بانگِ درا، ص:78)

[10](بانگِ درا، ص:132)

[11](بانگِ درا، ص:246)

[12](کلیاتِ بیدل، ص745)

[13](ضربِ کلیم مشمولہ کلیاتِ اقبال(اردو)لاہور:شیخ غلام علی اینڈ سنز1972، ص:122-123)

[14](کلیاتِ بیدل، ص:574)

تضمین کا شمار صنائع لفظی میں ہوتا ہے-یہ فن قدیم زمانے ہی سے شعراء کی توجہ کا مرکز رہا ہے-’’تضمین‘‘ کا لفظ’’ضمن‘‘سے مشتق ہے-یہ ایک کثیر المعانی لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’’ملانا، ضامن کرنا، پناہ میں لینایا شامل کرنے یا کسی شے کو دوسری چیز میں ملادینے کا عمل‘‘ وغیرہ کے ہیں-

شاعر ی کی اصطلاح  میں جب کوئی شاعر اپنے یا کسی دوسرے شاعرکے کسی مشہور شعر یا مصرعے یا مصرعے کے کچھ حصے کو اپنے کلام میں داخل کرتا ہے یا کسی معروف مصرعےپر مصرع یا بند لگاتا ہے تو اسے تضمین کرنا یا گرہ لگانا کہتے ہیں-گویا’’اصطلاح عروض میں کسی کے مشہور مضمون یا شعر کو اپنی نظم میں داخل یا چسپاں کرنا،دوسرے کے شعر پر بند یا مصرعے لگانا‘‘[1]اور ’’کسی دوسرے شاعر کے ایک مصرعے یا ایک شعر کو اپنے کلام میں استعمال کرنا‘‘[2]تضمین کہلاتا ہے-’’اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ شاعر اپنے کلام میں کسی اور کا کلام معروف اس طرح پیوند کرلے کہ مفہوم کی ہمواری اور سیاق کی روانی میں فرق نہ آئےبلکہ ایک دوسرے سے تقویت و تائید حاصل ہو‘‘[3]-مشہور لغت’’المنجد‘‘ میں تضمین کے اصطلاحی معنی اس طرح بیان ہوئے ہیں:

’’التضمین ھو ان یاخذ الشاعر شطراً من شعر غیرہ بلفظہ و معناہ‘‘[4]

 

’’تضمین یہ ہے کہ شاعراپنے لفظ اور اپنے معانی کے ساتھ کسی دوسرے شاعر(کےکلام) سے  کوئی حصہ لے ‘‘-

اگر تضمین شدہ کلام،معروف  ہوتو تضمین نگار کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اصل شاعر کی طرف اشارہ کردے تاکہ سَرقے کا احتمال نہ ہو-

فنِ شاعری میں تضمین نگاری کی اہمیت مسلّم ہے-دنیائے ادب میں آغاز ہی سے متقدمین و معاصرین کے اشعار و مصاریع کو داخل شعرکرکے اپنے کلام کی فکری جہتوں کو ابھارنے اور فنی پہلوؤں کو نکھارنے کا رجحان موجودرہا ہے-تضمین اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں کو خراجِ تحسین پہنچانے کا ایک دل کش شعری رویہ ہے-یہ ایسی ستائش ہے جس کے نتیجے میں متضمن شعر پارے کے ساتھ ساتھ خود کلامِ شاعر کے مرتبے میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے-علمائے شعروفن نے تضمین کو صنائعِ لفظی میں شمار کیا ہے-

کلاسیکی شعرا کے تضمینی سرمایے کے مطالعات سے ظاہر ہوا کہ اس فن میں دلچسپی رکھنے والے بیش تر شعرا ءنے اپنے کلام میں متنوع ابعاد کے حصول کے لئے اسے بطور ایک فنی تکنیک کے اختیار کیا اور ہردور میں اس فنی حربے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا-اس قدر کہ گرہ لگانا یا مصرعے اور شعر پر مصرع یا شعر کَہ ڈالنا اس کی ایک عام اور سطحی صورت ٹھہرتی ہے-سچ تو یہ ہے کہ اصلی و حقیقی اعتبار سے تضمینِ شعر دو مماثل و متخالف ذہنوں، زمانوں اور جذبوں کے اِتّصال سے عبارت ہے-یہ افکارِ عالیہ کے باہمی اشتراک کا ایک ایسا تخلیقی عمل ہے جو روایت کی پیش کش کے ساتھ ساتھ انفرادی صلاحیت کا عکاس بھی ہے-یہی وجہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شاعر نے اس فن کو اپنایا اور بڑے شعراء نے تو اپنے ذاتی طرزِ احساس کی شمولیت سے ایسی جلا بخشی کہ تضمین کے دوگونہ ثمرات یوں ظاہر ہوئے کہ تضمین کے ذریعے روایت کے چراغ کی لو بجھنے نہ پائی بلکہ تازہ داخلی واردات کی شمولیت سے یہ شعروسیلہ ہر دورمیں نئی آب و تاب سے ہم کنار ہوتا رہا-اقبال کی تضامین اس امر کی روشن اور واضح مثال ہیں-

حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے تضمین کی تمام ممکنہ صورتوں کی مکمل فنی استعداد سے اپنایا-تضمین’’ تأبید و استعانہ، ہو یا ’ایداع و رفو، کی صورت، یا تضمینِ ترجم اور تضمین خیال‘‘ یا پھر ’’تضمینِ مکالمہ پیکر‘‘-اقبال نہایت روانی اور برجستگی سے فارسی اور اردو کے معروف اور غیر معروف شعراء کے حرکی و پیغامی فکر کے حامل شعرپاروں کو تائیدِ بیان کے لئے پیوندِ کلام کرلئے ہیں اور کلامِ متضمن کے انتخاب میں ان کی بنیادی ترجیح اپنے خاص نقطۂ نظر سے مطابق ہی ٹھہرتا ہے-چنانچہ شعر اقبال میں بہت سے مقامات پر فارسی اور اردو کے معروف اور غیر معروف شاعروں کے اشعار اور مصرعے ستائش و تائیدِ کلام کےساتھ نئی معنویت کے حصول کے لئے منقول ملتے ہیں-کہیں کہیں اپنے کلام کو برنگِ دگر اپنانے کا رویہ بھی تضمیناتِ اقبال کو دل کشی عطا کرتا ہے-

اس میں کوئی شک نہیں کہ فنی اعتبار سے اقبال کے کلام کی اہمیت و افادیت میں ان کی تضمینوں کا کلیدی کردار ہے-یہ تضمین نہ صرف علوِ فکر کی اعلیٰ مثال ہیں بلکہ علامہ کی ریاضتِ فنی اور دِقّتِ نظری کا بھر پور سُراغ دیتی ہیں-اقبال جتنے عظیم مفکر تھے اتنے ہی باکمال فنکار بھی تھے-تضمیناتِ اقبال کےدلکش زاویے اس اَمْر کا نہ صرف بخوبی اِستنباط کرتے ہیں بلکہ بعد کے شعر ا کے لئے فنی تجربات کا ایک پرکشش در بھی وا کر گئے ہیں-

تضمین کے حوالہ سےعلامہ محمد اقبال(﷫) نےاپنے ہم عصر اور سابقہ ادوار کے قریباً تمام معروف شعراء سے استفادہ کیا ہے-ذیل میں ہم صرف مرزا عبد القادر بیدل کے حوالہ سے جو تضمینات کی ہیں اس کا حسب المقدور احاطہ کریں گے-

جیسا کہ بیدل کا زیر تضمین شعر دیکھیے:

دریں حیرت سرا عمریست افسونِ جرس دارم

 

ز فیضِ دل طپید نہا، خروشی بے نفس دارم[5]

بیدل کا کہنا ہے کہ اس حیرت بھرے مقام یعنی دنیا میں مانند جرس ہر طرف شور برپا کرنا چاہتا ہوں مگر شدت جذبات کے باعث بے چینی ہونٹوں پر آنے سے قاصر ہے-گویا فریاد کناں ہونے کی خواہش رکھنے کے باوجود میری فریاد بے صدا ہے-اقبال کے ہاں مصرعِ اوّل میں بیانِ حسرت کے پیش نظر حیرت سرا کے بجائے حسرت سرا کے الفاظ ملتے ہیں بلا شبہ زیر تضمین شعر سے نظم میں اثر انگیزی بڑھ گئی ہے-

نظم‘ ’’نالہء فراق ‘‘ اقبال نے اپنے عزیزاستاد آرنلڈ کی یاد میں اس وقت لکھی جب وہ واپس انگلستان سدھار گئے-اس نظم میں بیدل اور امیر مینائی  کے شعر تضمین کیے گئے ہیں- پہلے بند میں وہ حالتِ فراق کے اظہار کے لئے بیدل کے شعر میں قدرے تصرف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری محبوب ہستی مشرق سے رخصت ہو گئی ہے اور جب سے میری نگاہ نے محبوب کی آغوشِ وِ دَاع سے حیرت کا داغ چنا ہے وہ تحَیُّر سے بجھی ہوئی شمع کے مانند ساکت ہو گئی ہے -گویا میری آنکھ میں نظریوں سو گئی ہے جیسے بجھی ہوئی شمع :

جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
آگیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقین
تاز آغوش وداعش داغِ حیرت چیدہ است

 

آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں
ظلمتِ شب سے ضیاے روزِ فُرقت کم نہیں
ہمچو شمعِ کشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است[6]

بیدل کے ہاں مصرع اول میں وداعش کے بجائے وداعت کا لفظ ملتا ہے[7]-چوتھے بند میں اقبال نے بیدل ہی کے شعر[8] کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے-بند دیکھئے :

تو کہاں ہے اے کلیمِ ذروۂ سینائے علم
اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائی صحراے علم
’’شور لیلیٰ کو کہ باز آرائشِ سودا کند

 

تھی تری موج نفس بادِ نشاط افزاے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سوداے علم
خاکِ مجنوں را غبارِ خاطرِ صحرا کند‘‘[9]

اقبال کا کہنا ہے کہ آرنلڈ کی جدائی کے بعد علم کے عُشّاق اس بات کے خواہاں ہیں کہ کاش کوئی ایسا محبوب دوبارہ آئے جو ان کے دلوں میں نیا جنون ،  ہنگامہ اور ولولہ پیدا کر سکے-شاعر شور لیلیٰ کا از سر نو متمنی ہے تاکہ سودا اور آشفتگی کی نئے سرے سے آرائش ہو سکے اور ایک مرتبہ پھر خاک مجنوں صحرا کا غبار ہو جائے-وہ آرنلڈ کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں سودائے علم آپ کی ہستی سے تھا اور اب آپ کے جانے کے بعد ’’شوق رہ پیمائی صحرائے علم‘‘ باقی نہیں رہا-بیدل کے شعر میں موجود توانا لب و لہجہ اور کیفیت طلب ،اقبال کےاسلوب سے ہم آہنگ ہو کر عمدہ تضمین کی شکل اختیار کر گئی ہے – زیر تضمین شعر سے اس بند کے صور ی حسن میں بھی اضافہ ہوا ہے-

نظم ’’ عبدالقادر کےنام‘‘میں اقبال نژاد نو کے لئے لائحہ عمل کا تعین کرتے ہوئے اس دور کے قیس کو آرزوے نو سے شناسا کرنے اور محوسعدٰی وسلیمٰی کرنے کا عزم کرتے ہیں –پوری نظم جوش و ولولے اور عزم و ہمت کے جزبات سے لبریز ہے – اقبال نسل نو کو شمع کے مانند بزم گِہ عالَم میں جینے کی ترغیب دیتے ہیں اور نظم کے آخر میں بیدل کا شعر ان کے خیالات پر مہر تصدیق کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے –نظم کا آخری ٹکڑا دیکھئے:

دیکھ !یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار
بادۂ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ
شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں
ہرچہ در دل گزرد وقفِ زباں دارد شمع

 

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
جگرِ  شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں
چیر کر سینہ اسے وقفِ تماشا کر دیں
خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں
سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع[10]

بیدل کے شعر کی مدد سے اقبال اس عہد کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم شمع کی طرح اپنے دلی جذبات نوک زبان پر لائیں گے- دنیا کہ بزم میں چلیں گے اور دوسرے کی آنکھ منور کر دیں گے اس لئے کہ جلنا محض خیال نہیں جسے چھپا کر رکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو سب کو نظر آنا چاہیے بیدل کا شعر اقبال کے جذبات کی موثر ترجمانی کر رہا ہے-

اپنی نظم ’’مذہب‘‘ (تضمین بر شعر مرزا بیدل) میں اقبال عقلیت کے مقابلے میں مذہب اور عشق کو فوقیت دیتے ہوئے بیدل کے شعر کی تضمین سے یہ مفہوم پیدا کرتے ہیں کہ ہر قسم کا کمال چوں کہ جنون سے ہی انسانی تصرف میں آتا ہے اس لئے سراسر عقل میں ڈوبے ہوئے فرد کے لئے بھی بے جنوں رہ جانا مناسب نہیں ہے- آج جب کہ جدید تعلیم عقاید کے شیشے کو پاش پاش کر رہی ہے اور مذہب ’’جنون خام‘‘ ہو کر رہ گیا ہے اندریں حالات:

کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور
’’با ہر کمال اند کے آشفتگی خوش است

 

مجھ پر کیا یہ مرشدِ کامل نے راز فاش
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش[11]

اقبال نے بیدل کے زیر تضمین شعر میں تصرف کیا ہے-بیدل کا شعر اس طرح ہے

باہر کمال اند کے دیوانگی خوش است

 

گیرم کہ عقل کل شدۂ بے جنوں مباش[12]

اقبال نے اس شعر کو عہد حاضر کی مذہب بیزار اور عشق نا آشنا تہذیب پر چوٹ کے لئے تضمین کیا ہے اور اس سے تضمین شدہ شعر کی معنویت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے-

ادبیات فنون لطیفہ ہی کے سلسلے کی چار شعروں پر مشتمل نظم ’’مرزا بیدل‘‘ بھی اس ضمن میں نہایت اہم ہے-اس نظم میں اقبال بیدل کی نُدرتِ فکر کو سراہتے ہیں-نظم کے آغاز میں شاعر اس کش مکش سے دوچار ہے کہ اس چمنِ کائنات کی حقیقت کیا ہے؟بالآخر بیدل کا شعر اس گرہ کو کھولتا ہے:

ہے حقیقت یا مری چشمِ غلط بیں کا فساد
کوئی کہتا ہے نہیں ہے کوئی کہتا ہے کہ ہے
میرزا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ
دل اگر میداشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن

 

یہ زمیں یہ دشت یہ کہسار یہ چرخِ کبود!
کیا خبر ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود!
اہلِ حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود!
رنگِ مئے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود‘‘!
[13]

بیدل کے ہاں مصرع اول قدر ے مختلف شکل میں ہے-شعر دیکھیے

بی نشان بود این چمن کر وسعتی میداشت دل

 

رنگ مئے بیرون نشست از بسکہ مینا تنگ بود[14]

اقبال کے تصرف کے نتیجے میں شعر کی معنویت و دل کشی میں اضافہ ہوگیا ہے-انھوں نے ’’دل اگر میداشت وسعت‘‘ کا ٹکڑا مصرعے کے آغاز میں استعمال کر کے شعر میں توانا لب ولہجہ پیدا کر دیا ہے - شاعر کا کہنا ہے کہ اگر دل وسیع ہو تو اس چمنِ کائنات کا کوئی سراغ نہ ملتا مینا اس قدر تنگ تھی کہ شراب کا رنگ باہر چھلک آیا-یوں اقبال نے کائنات کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسئلے کی کشود بیدل کے زیر تضمین شعر سے نہایت مہارت اور خوبی سے کر ڈالی ہے-

٭٭٭



[1](سید احمد دہلوی(مولف)،فرہنگِ آصفیہ،لاہور: مکتبہ حسن سہیل لمیٹڈ‘‘ طبع اول1908ء ج:1، ص:610)

[2](نذیر احمد، اقبال کےصنائع بدائع، لاہور: اشرف پریس، طبع اول1966ء، ص:91)

[3](ناظر حسن زیدی، ڈاکٹر سید: تضمین کے روپ (مضمون) مشمولہ رسالہ صحیفہ لاہور: جنوری1965ء، ش:30، ص:9)

[4](المنجد (عربی-عربی) المطبعتہ الکاثولیکیۃ بیروت 1956ء،ص:455)

[5](کلیاتِ بیدل بکوشش حسین آھی بہ تصحیح خال محمد خستہ و خلیل الخلیلی، تہران:ناشر مراغی 1366ھ، طبع اول، ص:911)

[6](بانگِ درامشمولہ کلیاتِ اقبال(اردو)لاہور:شیخ غلام علی اینڈ سنز1972، ص:77)

[7](کلیاتِ بیدل، ص:214)

[8](ایضاً، ص:582)

[9](بانگِ درا، ص:78)

[10](بانگِ درا، ص:132)

[11](بانگِ درا، ص:246)

[12](کلیاتِ بیدل، ص745)

[13](ضربِ کلیم مشمولہ کلیاتِ اقبال(اردو)لاہور:شیخ غلام علی اینڈ سنز1972، ص:122-123)

[14](کلیاتِ بیدل، ص:574)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر