خطبات اقبال کے دیپاچہ پر ایک نظر

خطبات اقبال کے دیپاچہ پر ایک نظر

خطبات اقبال کے دیپاچہ پر ایک نظر

مصنف: عثمان حسن اپریل 2017

علم بنیادی طو پر جاننے کا نام ہے ،بعض مفکرین کے نزدیک انسانی ارتقاء دراصل انسانی علوم کی ارتقاء ہے - یہ قاعدہ ہمیں فقط عقلی استدلال اور تجربات و مشاہدات سے حاصل ہونے والے علوم میں ہی نہیں بلکہ الہامی مذاہب میں بھی نظر آتا ہے جہاں انسانی تاریخ اور علوم کی ارتقاء کے ساتھ دین اپنی تکمیل تک پہنچا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے نئے مسائل سے نمٹنے کےلئے دینِ اسلام کے احکامات کی تشریحات و تفاسیر بھی ارتقاء پذیر  ہیں اور خاص کر فقہی اجتہاد،جس نے انسانی فکر کی پوشیدہ جہتیں متعارف کروائی ہیں اور انسانی زندگی کے کئی تاریک پہلوؤں کو روشنی بخشی ہے -’’علامہ محمد اقبال‘‘ اسلامی تاریخ میں ایک ایسا نام ہے جنہوں نے امتِ مسلمہ پر کئی صدیوں سے طاری زوال اور جمود کی کیفیت کو توڑنے کے لئے کثیرالجہت مُساعی فرمائیں- نہ صرف اپنی شاعری بلکہ نثری تحریر سے بھی انہوں نے ایسے فلسفیانہ و فکری نکات اٹھائے ہیں جنہوں نے عالمِ اسلام کو مذہبی و فلسفیانہ علوم کے ارتقاء کے لئے نئی راہیں دکھائی ہیں-

اس ضمن میں مدراس کی مسلم ایسوسی ایشن کی خواہش پر لکھے گئے علامہ اقبال ؒ کے خطبات ’’تجدیدِ فکریاتِ اسلام‘‘ (Reconstructions of Religious Thoughts in Islam) خصوصی اہمیت کے حامل ہیں-ان خطبات میں اسلامی فکر کے مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے- تاہم ان خطبات کی تفصیل میں جائے بغیر ان خطبات کا دیباچہ بذاتِ خود ایک مکمل فکری تحریک کی نشاندہی کرتا ہے-ایسی تحریک جو اسلام کی  ابتدائی صدیوں میں مسلم مفکرین کا خاص طرۂ امتیاز رہی مگر پھر بوجوہ یہ عمل آگے بڑھنے سے رُک گیا - زیرِ نظر مضمون میں علامہ اقبال ؒ کے خطبات کے دیباچہ کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا اور یہ بھی کوشش کی جائے گی کہ ہمارے لئے جس تمنا کا اظہار خود حکیم الامت نے کیا، کیا ہم اس جانب چل رہے ہیں؟

علامہ اقبال کے ان خطبات کو جدید دور کے اسلامی لٹریچر میں ایک خاص مقام حاصل ہے کیونکہ ’’گولڈن ایج‘‘ کے عظیم مسلم مفکرین نے جس انداز میں مذہب مخالف ملحدانہ فلسفہ کا فلسفہ ہی سے جواب دیا تھا جدید دور میں،بالخصوص نو آبادیاتی دور سے،مسلم دنیا نِت نئے اٹھنے والے سوالات اور دلائل کا موثر انداز میں جواب نہیں دے سکی -جس دور میں علامہ اقبال ؒ  نے اپنے خطبات مرتب کئے اس دور میں  فلسفیانہ بحث کے ساتھ ساتھ سائنسی بحث مذہب مخالف بلکہ خدا مخالف رُخ اختیار کر رہی تھی اور بدقسمتی سے اس کا موثر جواب بھی اِسلامی دُنیا کے رہے سہے علمی مراکز کی جانب سے نہیں دیاجا رہا تھا-آنے والے دور میں سائنس اور مذہب کی بحث کو بھانپتے ہوئے علامہ اقبال ؒ نے اس مسئلہ پہ ایک تحریک کے طورپر کام کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب اس بحث کا موثر جواب دینے کے لئے مذہبی و سائنسی، دونوں حوالوں سے جواب دینے کی ضرورت ہے-اپنے دیباچہ میں علامہ اقبال ؒ نے قرآن پاک کی ایک ہی آیت مبارکہ تحریر کی ہے-انہوں نے حیاتیاتی وحدت کےقرآن پاک میں بیان زندہ تجربہ کی مثال دی ہے کہ:

’’مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلاَّ کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ‘‘[1]                   ’’ تمہاری تخلیق اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا ایک نفسِ واحد کی تخلیق و بعثت کی مانند ہے‘‘-

علامہ اقبال ؒ نے اس تجربہ کے لئے لازمی قرار دیا کہ آج کے دور میں وہ نفسیاتی اعتبار سے زیادہ موزوں ہونا چاہئے اور یہ بھی واضح کیا کہ اس کی عدم موجودگی میں مذہب کے سائنسی علم کا مطالبہ ایک فطری عمل ہے-آج کے دور میں دنیا کے کئی حلقوں میں مذہب پر سائنسی سوال اٹھایا جانا اسی حقیقت کا غماز ہے-علامہ اقبال ؒ یہ سمجھتے تھے کہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ  ایک جانب اہلِ مذہب جدید سائنسی و فلسفیانہ علوم سے خائف اور مجتنب نہ ہوں کیونکہ علومِ جدید مذہب ہی کی کوکھ سے آگے بڑھے ہیں اور دوسری جانب جدید فلسفی اور سائنسدان مذہب کو لازمی طور پہ ایک جامد و ساکن شئے تصور نہ کریں بلکہ مذہبی و روحانی تجربات کو اپنی سائنسی کسوٹی پہ پرکھ کے دیکھیں یہ ان پہ پورا اتریں گے کیونکہ دونوں کی بنیاد جستجو ہے اور دونوں دکھائی دینے والی چیزوں سے بڑھ کر ایک ان دیکھی دُنیا کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں جسے (اقبال کے بقول) سائنس خارج سے تلاش کرتی ہے اور مذہب انسان کی داخلی صلاحیت سے تلاش کرتا ہے -

انسانی نفسیات کا حصہ ہے کہ انسان  علم کی جستجو میں رہتا ہے اورہر شے کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہے- علوم کی ترقی اور بے پناہ اضافہ کے ساتھ اب یہ تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے کہ کوئی انسان تمام تر علوم پر مہارت رکھتا ہو تاہم انسان ہر علم کے ذریعے اس علم کے زیرِ بحث موضوعات کی حقیقت کے متعلق معلومات ضرور رکھ سکتا ہے اور رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے-جدید دور میں سائنسی علوم کی بے پناہ ترقی اور سائنسی ایجادات نے ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیا ہے-’’سمارٹ فون، ہولو لِنز، ڈی این اے‘‘ کے تجزیہ سے لے کر کائنات کی حقیقت اور’’ بگ بینگ‘‘کے مطالعہ تک زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ان گنت اور حیران کُن ایجادات نے عام انسان کو سائنس کے زیرِ عتاب لا کھڑا کیا ہے-اس عتاب کے باعث سائنس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کی اہمیت بھی عام انسان کے لئے بہت بڑھ گئی ہے اور انسانی فطرت کے عین مطابق اس اولین علم کے شعبہ کے عالموں کے بیانات اور ان کے عقائد عام آدمی کے ذہن پر اپنے کچھ نہ کچھ نقوش ضرور چھوڑتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے مسائل جو سائنس کی دسترس سے باہر ہیں یا سائنس جن پر جواب دینے سے قاصر ہے،ان پر سائنسدانوں کے ذاتی عقائد اور جوابات کو عوام الناس میں ’’سائنس کے نام پر‘‘ ہی پذیرائی ملتی رہتی ہے اور  بعض اوقات کچھ لوگوں کی جانب سے یہ رائے قائم ہوتی ہے کہ شاید یہ سائنس ہی ہے جس نے سائنسدانوں کے عقائد پر اثر کیا ہے- دنیا کے کچھ بڑے سائنسدانوں کے ملحد ہونے اور مذہب مخالف ہونے کے باعث اس نظریے کو تقویت ملی ہے کہ سائنس شاید مذہب اور خدا کے وجود سے متصادم ہے-یہ عجیب معاملہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اسے تقویت تب ہی سے ملی ہے جب سے دنیا کی حکمران قوموں نے مذہب کو ایک محض ذاتی معاملہ قرار دے کر اجتماعی زندگی سے نکالا ہے-تاہم علامہ اقبال ؒ نے  مذہب اور سائنس کے درمیان موجود مشترک بنیادوں پر بحث  کو نئی جہت دے کر اس بحث کی نئی راہ متعین کی ہے-مذہب اور سائنس کے درمیان مشترکہ بنیادیں تلاش کرنے کی بحث کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ سائنس ہر دور میں ارتقاء پذیر رہی ہے اور یہ ارتقاء اس کائنات کو سمجھنے کے بنیادی اصولوں کو بھی بعض اوقات تبدیل کر دیتی ہے وہ  لکھتے ہیں:

’’کلاسیکی فزکس نے اب اپنی ہی بنیادوں پر تنقید شروع کر دی ہے اس تنقید کے نتیجے میں اس قسم کی مادیت جسے ابتداءمیں اس نے ضروری سمجھا تھا تیزی سے غائب ہو رہی ہے -اب وہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس اپنے درمیان ایسی ہم آہنگیوں کو ڈھونڈ لیں گے جن کا ابھی تک وہم و گمان بھی نہیں‘‘-

جدید فزکس کے قوانین نے انسان کی کائنات کی فطرت کے متعلق کلاسیکی نظریہ کو اتنی کاری ضرب لگائی ہے کہ ابھی تک خود سائنسدان سنبھل نہیں سکے اور کوانٹم مکینکس کی حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہیں جس میں باشعور کردار کی اہمیت سائنسی اصولوں کی مدد سے واضح  کرنا ایک بہت بڑا معمہ ہے اسی طرح کائنات کی پیدائش کے متعلق مختلف وضاحتیں بالآخر سائنسدانوں کو کسی قادر و مطلق ذات (مثلاً قوانینِ قدرت)کی موجودگی پر بحث کی جانب لے جا رہے ہیں-ایسے میں ہم پر لازم آتا ہے کہ مذہب و سائنس کی بحث کو اصل اسلامی روح کے مطابق آگے لے کر بڑھیں مگر افسوس اس امر کا ہے کہ عظیم مفکر اور حکیم الامت کی پیش گوئیوں کے باوجود ہم اس راستے پر نہیں چل سکے جس پر چلتا وہ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ شاید ہماری اگلی نسل اس راہ پر چل نکلے گی مگرہماری یہی روش ہمیں پستی سے نکلنے نہیں دیتی-جمود و تعطل کی شکار امتِ مسلمہ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا اور یہ فکر صرف فلسفیانہ یا سائنسی حلقوں کے لئے نہیں ہے بلکہ علامہ اقبال ؒ نے اپنے کلام میں مختلف جگہوں پر تصوف کو زیرِ بحث لایا ہے- جیسا کہ وہ دیباچہ میں بھی تحریر کرتے ہیں کہ:

’’اس میں شُبہ نہیں کہ تصوف کے صحیح مکاتب نے اسلام میں مذہبی تجربے کے ارتقاء کی سمت کو درست کرنے اور اس کی صورت گری کے سلسلے میں نمایاں کام کیا ہے مگر ان مکاتب کے بعد کے دور کے نمائندے جدید ذہن سے لاعلم ہونے کی بنا پر اس قابل نہیں رہے کہ نئے فکر اور تجربے سے کسی قسم کی تازہ تخلیقی تحریک پا سکیں- وہ انہیں طریقوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو ان لوگوں کے لئے وضح کئے گئے تھے جن کا ثقافتی نقطۂ نظر کئی اہم لحاظ سے ہمارے نقطۂ نظر سے مختلف تھا‘‘-

علامہ اقبال ؒ کے یہ فکری الفاظ  واضح کرتے ہیں کہ انہوں نے تصوف کی اسی تحریک کو زندہ کرنے کے لئے کام کیا جو ہر نئے دور کے نئے ذہن اور نئے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھتی ہے اورجو  اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم جدید ذہن سے باعلم ہوں تاکہ اس نفسیات کے مطابق جدید تجربات تشکیل دیں جو جدید علوم و جدید فکر کی روشنی میں  انسان کو اطمینان بخش سکیں اور اُن کے اندر ’’جستجوئے جستجو‘‘ پیدا کر سکیں - انسانی سوچ و فلسفہ میں ارتقاء کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:

’’فلسفیانہ فکر میں قطعی اور حتمی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی -جوں جوں علم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے نئے اُفق کھلتے چلے جاتے ہیں اس امر کا امکان ہے کہ شاید کتنے ہی دوسرے نظریات، ان خطبات میں پیش کئے گئے خیالات سے بھی زیادہ محکم ہوں جو آئندہ ہمارے سامنے آتے رہیں گے- ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکرِ انسانی کی ارتقاء پر بڑی احتیاط سے نظر رکھیں اور اس جانب ایک بے لاگ تنقیدی رویہ اپنائے رکھیں‘‘-

چنانچہ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اقبال کی اس فکری تحریک کا حصہ بنیں اور  روحانی تجربات کے ساتھ ساتھ فکر و فلسفہ کو بھی ارتقاء دیں کیونکہ ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال خود یہی چاہتے تھے کہ ان کے بعد آنے والی نسلیں ان کے فکر و فلسفہ سے بھی بلند ہو جائیں جو اسی صورت ممکن ہے جب ہم نئی فکری منزل کی بنیاد فکرِ اقبال کی منزل  پر رکھیں اور تمام تر فلسفہ و افکار پر مثبت  اور تعمیری تنقید کا رویہ اپنائے رکھیں-

٭٭٭


[1](لقمان:۲۸)

علم بنیادی طو پر جاننے کا نام ہے ،بعض مفکرین کے نزدیک انسانی ارتقاء دراصل انسانی علوم کی ارتقاء ہے - یہ قاعدہ ہمیں فقط عقلی استدلال اور تجربات و مشاہدات سے حاصل ہونے والے علوم میں ہی نہیں بلکہ الہامی مذاہب میں بھی نظر آتا ہے جہاں انسانی تاریخ اور علوم کی ارتقاء کے ساتھ دین اپنی تکمیل تک پہنچا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے نئے مسائل سے نمٹنے کےلئے دینِ اسلام کے احکامات کی تشریحات و تفاسیر بھی ارتقاء پذیر  ہیں اور خاص کر فقہی اجتہاد،جس نے انسانی فکر کی پوشیدہ جہتیں متعارف کروائی ہیں اور انسانی زندگی کے کئی تاریک پہلوؤں کو روشنی بخشی ہے -’’علامہ محمد اقبال‘‘ اسلامی تاریخ میں ایک ایسا نام ہے جنہوں نے امتِ مسلمہ پر کئی صدیوں سے طاری زوال اور جمود کی کیفیت کو توڑنے کے لئے کثیرالجہت مُساعی فرمائیں- نہ صرف اپنی شاعری بلکہ نثری تحریر سے بھی انہوں نے ایسے فلسفیانہ و فکری نکات اٹھائے ہیں جنہوں نے عالمِ اسلام کو مذہبی و فلسفیانہ علوم کے ارتقاء کے لئے نئی راہیں دکھائی ہیں-

اس ضمن میں مدراس کی مسلم ایسوسی ایشن کی خواہش پر لکھے گئے علامہ اقبال (﷫)کے خطبات ’’تجدیدِ فکریاتِ اسلام‘‘ (Reconstructions of Religious Thoughts in Islam) خصوصی اہمیت کے حامل ہیں-ان خطبات میں اسلامی فکر کے مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے- تاہم ان خطبات کی تفصیل میں جائے بغیر ان خطبات کا دیباچہ بذاتِ خود ایک مکمل فکری تحریک کی نشاندہی کرتا ہے-ایسی تحریک جو اسلام کی  ابتدائی صدیوں میں مسلم مفکرین کا خاص طرۂ امتیاز رہی مگر پھر بوجوہ یہ عمل آگے بڑھنے سے رُک گیا - زیرِ نظر مضمون میں علامہ اقبال(﷫) کے خطبات کے دیباچہ کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا اور یہ بھی کوشش کی جائے گی کہ ہمارے لئے جس تمنا کا اظہار خود حکیم الامت نے کیا، کیا ہم اس جانب چل رہے ہیں؟

علامہ اقبال کے ان خطبات کو جدید دور کے اسلامی لٹریچر میں ایک خاص مقام حاصل ہے کیونکہ ’’گولڈن ایج‘‘ کے عظیم مسلم مفکرین نے جس انداز میں مذہب مخالف ملحدانہ فلسفہ کا فلسفہ ہی سے جواب دیا تھا جدید دور میں،بالخصوص نو آبادیاتی دور سے،مسلم دنیا نِت نئے اٹھنے والے سوالات اور دلائل کا موثر انداز میں جواب نہیں دے سکی -جس دور میں علامہ اقبال(﷫)  نے اپنے خطبات مرتب کئے اس دور میں  فلسفیانہ بحث کے ساتھ ساتھ سائنسی بحث مذہب مخالف بلکہ خدا مخالف رُخ اختیار کر رہی تھی اور بدقسمتی سے اس کا موثر جواب بھی اِسلامی دُنیا کے رہے سہے علمی مراکز کی جانب سے نہیں دیاجا رہا تھا-آنے والے دور میں سائنس اور مذہب کی بحث کو بھانپتے ہوئے علامہ اقبال (﷫) نے اس مسئلہ پہ ایک تحریک کے طورپر کام کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب اس بحث کا موثر جواب دینے کے لئے مذہبی و سائنسی، دونوں حوالوں سے جواب دینے کی ضرورت ہے-اپنے دیباچہ میں علامہ اقبال (﷫) نے قرآن پاک کی ایک ہی آیت مبارکہ تحریر کی ہے-انہوں نے حیاتیاتی وحدت کےقرآن پاک میں بیان زندہ تجربہ کی مثال دی ہے کہ:

’’مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلاَّ کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ‘‘[1]                   ’’ تمہاری تخلیق اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا ایک نفسِ واحد کی تخلیق و بعثت کی مانند ہے‘‘-

علامہ اقبال (﷫)نے اس تجربہ کے لئے لازمی قرار دیا کہ آج کے دور میں وہ نفسیاتی اعتبار سے زیادہ موزوں ہونا چاہئے اور یہ بھی واضح کیا کہ اس کی عدم موجودگی میں مذہب کے سائنسی علم کا مطالبہ ایک فطری عمل ہے-آج کے دور میں دنیا کے کئی حلقوں میں مذہب پر سائنسی سوال اٹھایا جانا اسی حقیقت کا غماز ہے-علامہ اقبال (﷫)یہ سمجھتے تھے کہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ  ایک جانب اہلِ مذہب جدید سائنسی و فلسفیانہ علوم سے خائف اور مجتنب نہ ہوں کیونکہ علومِ جدید مذہب ہی کی کوکھ سے آگے بڑھے ہیں اور دوسری جانب جدید فلسفی اور سائنسدان مذہب کو لازمی طور پہ ایک جامد و ساکن شئے تصور نہ کریں بلکہ مذہبی و روحانی تجربات کو اپنی سائنسی کسوٹی پہ پرکھ کے دیکھیں یہ ان پہ پورا اتریں گے کیونکہ دونوں کی بنیاد جستجو ہے اور دونوں دکھائی دینے والی چیزوں سے بڑھ کر ایک ان دیکھی دُنیا کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں جسے (اقبال کے بقول) سائنس خارج سے تلاش کرتی ہے اور مذہب انسان کی داخلی صلاحیت سے تلاش کرتا ہے -

انسانی نفسیات کا حصہ ہے کہ انسان  علم کی جستجو میں رہتا ہے اورہر شے کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہے- علوم کی ترقی اور بے پناہ اضافہ کے ساتھ اب یہ تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے کہ کوئی انسان تمام تر علوم پر مہارت رکھتا ہو تاہم انسان ہر علم کے ذریعے اس علم کے زیرِ بحث موضوعات کی حقیقت کے متعلق معلومات ضرور رکھ سکتا ہے اور رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے-جدید دور میں سائنسی علوم کی بے پناہ ترقی اور سائنسی ایجادات نے ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیا ہے-’’سمارٹ فون، ہولو لِنز، ڈی این اے‘‘ کے تجزیہ سے لے کر کائنات کی حقیقت اور’’ بگ بینگ‘‘کے مطالعہ تک زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ان گنت اور حیران کُن ایجادات نے عام انسان کو سائنس کے زیرِ عتاب لا کھڑا کیا ہے-اس عتاب کے باعث سائنس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کی اہمیت بھی عام انسان کے لئے بہت بڑھ گئی ہے اور انسانی فطرت کے عین مطابق اس اولین علم کے شعبہ کے عالموں کے بیانات اور ان کے عقائد عام آدمی کے ذہن پر اپنے کچھ نہ کچھ نقوش ضرور چھوڑتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے مسائل جو سائنس کی دسترس سے باہر ہیں یا سائنس جن پر جواب دینے سے قاصر ہے،ان پر سائنسدانوں کے ذاتی عقائد اور جوابات کو عوام الناس میں ’’سائنس کے نام پر‘‘ ہی پذیرائی ملتی رہتی ہے اور  بعض اوقات کچھ لوگوں کی جانب سے یہ رائے قائم ہوتی ہے کہ شاید یہ سائنس ہی ہے جس نے سائنسدانوں کے عقائد پر اثر کیا ہے- دنیا کے کچھ بڑے سائنسدانوں کے ملحد ہونے اور مذہب مخالف ہونے کے باعث اس نظریے کو تقویت ملی ہے کہ سائنس شاید مذہب اور خدا کے وجود سے متصادم ہے-یہ عجیب معاملہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اسے تقویت تب ہی سے ملی ہے جب سے دنیا کی حکمران قوموں نے مذہب کو ایک محض ذاتی معاملہ قرار دے کر اجتماعی زندگی سے نکالا ہے-تاہم علامہ اقبال (﷫)نے  مذہب اور سائنس کے درمیان موجود مشترک بنیادوں پر بحث  کو نئی جہت دے کر اس بحث کی نئی راہ متعین کی ہے-مذہب اور سائنس کے درمیان مشترکہ بنیادیں تلاش کرنے کی بحث کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ سائنس ہر دور میں ارتقاء پذیر رہی ہے اور یہ ارتقاء اس کائنات کو سمجھنے کے بنیادی اصولوں کو بھی بعض اوقات تبدیل کر دیتی ہے وہ  لکھتے ہیں:

’’کلاسیکی فزکس نے اب اپنی ہی بنیادوں پر تنقید شروع کر دی ہے اس تنقید کے نتیجے میں اس قسم کی مادیت جسے ابتداءمیں اس نے ضروری سمجھا تھا تیزی سے غائب ہو رہی ہے -اب وہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس اپنے درمیان ایسی ہم آہنگیوں کو ڈھونڈ لیں گے جن کا ابھی تک وہم و گمان بھی نہیں‘‘-

جدید فزکس کے قوانین نے انسان کی کائنات کی فطرت کے متعلق کلاسیکی نظریہ کو اتنی کاری ضرب لگائی ہے کہ ابھی تک خود سائنسدان سنبھل نہیں سکے اور کوانٹم مکینکس کی حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہیں جس میں باشعور کردار کی اہمیت سائنسی اصولوں کی مدد سے واضح  کرنا ایک بہت بڑا معمہ ہے اسی طرح کائنات کی پیدائش کے متعلق مختلف وضاحتیں بالآخر سائنسدانوں کو کسی قادر و مطلق ذات (مثلاً قوانینِ قدرت)کی موجودگی پر بحث کی جانب لے جا رہے ہیں-ایسے میں ہم پر لازم آتا ہے کہ مذہب و سائنس کی بحث کو اصل اسلامی روح کے مطابق آگے لے کر بڑھیں مگر افسوس اس امر کا ہے کہ عظیم مفکر اور حکیم الامت کی پیش گوئیوں کے باوجود ہم اس راستے پر نہیں چل سکے جس پر چلتا وہ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ شاید ہماری اگلی نسل اس راہ پر چل نکلے گی مگرہماری یہی روش ہمیں پستی سے نکلنے نہیں دیتی-جمود و تعطل کی شکار امتِ مسلمہ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا اور یہ فکر صرف فلسفیانہ یا سائنسی حلقوں کے لئے نہیں ہے بلکہ علامہ اقبال (﷫)نے اپنے کلام میں مختلف جگہوں پر تصوف کو زیرِ بحث لایا ہے- جیسا کہ وہ دیباچہ میں بھی تحریر کرتے ہیں کہ:

’’اس میں شُبہ نہیں کہ تصوف کے صحیح مکاتب نے اسلام میں مذہبی تجربے کے ارتقاء کی سمت کو درست کرنے اور اس کی صورت گری کے سلسلے میں نمایاں کام کیا ہے مگر ان مکاتب کے بعد کے دور کے نمائندے جدید ذہن سے لاعلم ہونے کی بنا پر اس قابل نہیں رہے کہ نئے فکر اور تجربے سے کسی قسم کی تازہ تخلیقی تحریک پا سکیں- وہ انہیں طریقوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو ان لوگوں کے لئے وضح کئے گئے تھے جن کا ثقافتی نقطۂ نظر کئی اہم لحاظ سے ہمارے نقطۂ نظر سے مختلف تھا‘‘-

علامہ اقبال (﷫)کے یہ فکری الفاظ  واضح کرتے ہیں کہ انہوں نے تصوف کی اسی تحریک کو زندہ کرنے کے لئے کام کیا جو ہر نئے دور کے نئے ذہن اور نئے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھتی ہے اورجو  اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم جدید ذہن سے باعلم ہوں تاکہ اس نفسیات کے مطابق جدید تجربات تشکیل دیں جو جدید علوم و جدید فکر کی روشنی میں  انسان کو اطمینان بخش سکیں اور اُن کے اندر ’’جستجوئے جستجو‘‘ پیدا کر سکیں - انسانی سوچ و فلسفہ میں ارتقاء کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال (﷫)فرماتے ہیں:

’’فلسفیانہ فکر میں قطعی اور حتمی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی -جوں جوں علم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے نئے اُفق کھلتے چلے جاتے ہیں اس امر کا امکان ہے کہ شاید کتنے ہی دوسرے نظریات، ان خطبات میں پیش کئے گئے خیالات سے بھی زیادہ محکم ہوں جو آئندہ ہمارے سامنے آتے رہیں گے- ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکرِ انسانی کی ارتقاء پر بڑی احتیاط سے نظر رکھیں اور اس جانب ایک بے لاگ تنقیدی رویہ اپنائے رکھیں‘‘-

چنانچہ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اقبال کی اس فکری تحریک کا حصہ بنیں اور  روحانی تجربات کے ساتھ ساتھ فکر و فلسفہ کو بھی ارتقاء دیں کیونکہ ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال خود یہی چاہتے تھے کہ ان کے بعد آنے والی نسلیں ان کے فکر و فلسفہ سے بھی بلند ہو جائیں جو اسی صورت ممکن ہے جب ہم نئی فکری منزل کی بنیاد فکرِ اقبال کی منزل  پر رکھیں اور تمام تر فلسفہ و افکار پر مثبت  اور تعمیری تنقید کا رویہ اپنائے رکھیں-

٭٭٭



[1](لقمان:۲۸)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر