تفسیرِنعیمی کے اُسلوب و منہج کا تحقیقی مطالعہ

تفسیرِنعیمی کے اُسلوب و منہج کا تحقیقی مطالعہ

تفسیرِنعیمی کے اُسلوب و منہج کا تحقیقی مطالعہ

مصنف: شفقت علی مئی 2020

قرآن مجید ہر نوع ِ انسانی کیلئے پیغامِ ہدایت ، علومِ ظاہر ی و باطنی کا سر چشمہ اور متاعِ دو جہاں ہے جو حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کا مفصل و کامل احاطہ کئے ہوئے ہے-مختلف ادوار میں کلامِ الٰہی سے مستفید ہونے اور انسانی فہم ِ و آسانی کی خاطر تعبیر و تشریح نے علم تفسیر کو جنم دیا اور بہت سی عظیم شخصیات نے تفاسیر لکھیں -تفسیر جیسا عظیم و بابرکت اور اہم نوعیت کا کام سر انجام دینے کیلئے  دین کا محض سطحی علم قلیل ہے بلکہ مختلف الانواع کے تقریباً اکیس علوم پر مکمل دسترس ہونا ضروری ہے جن کے بعد ہی حقیقی معنوں میں قرآن کریم سمجھنے اور اس کے مطالب و مفاہیم اور مسائل عام فہم زبان میں بطریق ِ احسن عوام الناس تک پہنچائے جا سکتے ہیں-کلام ِ الٰہی سارے علوم و کل حکمتوں کا منبع ہے اور ہر مفسر اپنی قابلیت و اہلیت کے مطابق قرآن کریم سے گوہرِ نایاب نکالنے کی مساعی جلیلہ کرتا ہے مگر پھر بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے حقیقتِ قرآن کو پالیا ہے- بالفاظ دیگر قرآن پاک بحرِ بیکراں کی مثل ہے جس کا جتنا ظرف اور جتنی وسعت ِ قلبی ہو وہ اس سے اتنا فیض یاب ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی یہ خیال کرے کہ اس نے سمندر کوزہ میں بند کردیا ہے تو یہ ناممکن ہے-گویا قرآن کریم حق تعالیٰ کی عظمت و رفعت کا ایسا لاریب مظہر ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے-

بیسویں صدی کے معروف عالم دین اور نابغہ روز گار شخصیت مفتی احمد یار خان نعیمیؒ[1] نے ’’تفسیر ِ نعیمی‘‘ کے نام سے ایک نایاب تفسیر لکھی ہے جس کا شمار اشرف التفاسیر میں ہوتا ہے؛ اور جسے آپؒ کی تما م تصانیف میں وہ مقام حاصل ہے کہ آپ کے ہم عصر معتبر علماء بھی اس عظیم کارنامے سے حیرت بدنداں ہیں-

سوانحِ حکیم الامت میں درج ہے کہ تفسیر ِ نعیمی کو یہ عظیم شرف بھی حاصل ہے کہ خاتم الانبیاء، حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) نے اسے پسند فرمایا اور بعض الفاظ مقدسات خود آقا پاک (ﷺ) نے مفتی احمد یار خان نعیمی کو اِرشاد فرمائے کہ یہ لکھ دو - بعض دفعہ خواب میں بعض دفعہ مراقبے میں- [2]

مذکورہ تحریر میں ہم تفسیرِ نعیمی کے اسلوب و منہج کا مختصر تحقیقی مطالعہ کرتے ہوئے چند اہم پہلؤوں پر روشنی ڈالیں گے-

مفتی احمد یار خان نعیمی نے تفسیر نعیمی کے مقدمہ میں تفسیر کی جامع تعریف بیان کی ہے:

’’لفظ تفسیر فسر سے مشتق ہے جس کا معنی کھولنا ہے، محاورہ میں تفسیر یہ ہے کہ کلام کرنے والے کا اس طرح بیان کرنا جس میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے اور مفسرین کی اصطلاح میں تفسیر یہ ہے کہ قرآن پاک کے وہ احوال بیان کرنا جس میں عقل کو دخل نہیں بلکہ نقل کی ضرورت ہو جیسے آیات کا شان نزول یا ان کا ناسخ و منسوخ ہونا وغیرہ، تفسیر بالرائے حرام ہے‘‘- [3]

مقدمہ میں آپؒ نے مفسر کی لازمی خصوصیات پر بھی اجمالاً روشنی ڈالی ہے جن میں سے چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں-مثلا ً - مفسر وہ شخص ہو سکتا ہے:

  1. جو قرآن کے مقصد کو پہچان سکے
  2. ناسخ و منسوخ کی پوری خبر رکھتا ہو
  3. آیات وحدیث میں مطابقت کرنے پر قادر ہو
  4. آیتوں کی توجیہ کر سکے جو قرآن پاک کی آیتیں عقل کی رو سے محال معلوم ہوتی ہوں ان کو حل کر سکے
  5. عرب کے محاورے سے پوری طرح واقف ہو
  6. محکم و متشابہ آیات کو پہچانتا ہو -قراتوں کے اختلاف سے واقف ہو

اسلوب ومنہج :

تفسیر ِ نعیمی اپنے اسلوب و منہج میں منفرد نوعیت کی حامل ہے جس میں قرآنی احکام و مسائل کو جامع و مفصل اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے اور ہر قسم کے اعتراضات کا مدلّل جواب دیا گیا ہے- یہ تفسیر تقریبا ً دیگر اہم تفاسیر کا احاطہ کیے ہوئے ہے-

بہ زبانِ مفتی احمد یار خان نعیمی :

v     یہ تفسیر (تفسیرِ نعیمی )، تفسیر روح البیان ، تفسیر کبیر ، تفسیر عزیزی، تفسیر مدارک، تفسیر محی الدین ابن العربی کا گویا خلاصہ ہے-

v     اردو تفاسیر میں سب سے بہتر تفسیر خزائن العرفان کو مشعل راہ بنایا گیا گویا یہ تفسیر اس کی تفصیل ہے -

v     اردو ترجموں میں نہایت اعلیٰ اور بہتر اعلیٰ حضرت ؒکا ترجمہ ’’کنز الایمان‘‘ ہے ؛اسی پر تفسیر کی گئی-

v     ہر آیت کا پہلی آیت سے نہایت عمدہ تعلق اور ربط بیان کیا گیا  ہے-

v     آیات کا شان نزول نہایت وضاحت سے بتایا گیا اور اگر شان نزول چند مروی ہیں تو ان کی مطابقت کی گئی ہے-

v     ہر آیت کی اولاً تفسیر اور پھر خلاصہ تفسیر اور پھر تاویلِ صوفیانہ دلکش اور ایمان افروز طریقہ سے کی گئی ہے-

v     ہر آیت کے ساتھ علمی فوائد اور فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں-

v     تقریباً ہر آیت کے ماتحت آریہ، عیسائی وغیرہ دیگر ادیان اور نجدی، قادیانی، نیچری، چکڑالوی وغیرہم کے اعتراضات، معہ جوابات بیان کیے گئے ہیں- [4]

مزید برآں! ہر آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی نے حضور غوث پاکؒ کی عقیدت میں گیارہ چیزیں درج کی ہیں:

’’1-عربی آیت،  2- لفظی اپنا ترجمہ، 3- اعلیٰ حضرت مجدد بریلویؒ کا ترجمہ، 4 - تعلقاتِ آیات ، 5 - نزول و شانِ نزول، 6 - تفسیر نحوی، 7 -تفسیر عالمانہ، 8-فوائد آیٰت، 9- آیت سے فقہی مسائل، 10- اعتراضات جوابات، 11-تاویلِ صوفیانہ وغیرہ [5]

تفسیرِ نعیمی کے اُسلوب و منہج کے تحقیقی مطالعہ سے متعلق چند مثالیں پیش ِ خدمت ہیں جن پر مفتی احمد یار خان نعیمیؒ نے نہایت مدلّل و مفصل بحث کی ہے:

مثلا ً تاویل و تحریف کے بیان میں لکھتے ہیں کہ :

  1. لفظ تاویل اول سے مشتق ہےاس کے معنی ہیں رجوع کرنا، اصطلاح میں تاویل یہ ہے کہ کسی کلام میں چند احتمال ہوں ان میں سے کسی احتمال کو قرینوں سے اور علمی دلائل ترجیح دینا یا کلام میں علمی نکات وغیرہ بیان کرنا اس کیلیے نقل کی ضرورت نہیں بلکہ ہر عالم اپنی قوت علمی سے قرآن پاک میں نکات وغیرہ نکال سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ خلاف شریعت ہرگز نہ ہو اسی لیے مفسرین بڑے بڑے نکات بیان فرماتے ہیں اور ہر ایک کے لیے نقل پیش نہیں فرماتے- حجّتہ الاسلام امام ابو حامد محمد الغزالیؒ  نے ’’احیاء العلوم شریف باب ہشتم‘‘ میں فرمایا کہ قرآن پاک کے ایک ظاہری معنی ہیں اور ایک باطنی- ظاہری معنی کی تحقیق علماءِ شریعت فرماتے ہیں اور باطنی کی صوفیائے کرام- حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹ بھر دوں مگر یہ باطنی تفسیر ظاہری معنی کے خلاف ہرگز نہ ہو گی-تحریف مشتق ہے حرف سے؛ حرف کے معنی ہیں علیحدگی یا کنارہ- اصطلاح میں تحریف یہ ہے کہ کلام کا مطلب ایسا بیان کیا جائے جو کلام کرنے والے کے مقصد کے خلاف ہو- مفسرین کی اصطلاح میں تحریف دو طرح کی ہے تحریف لفظی  اور تحریف معنوی- تحریف لفظی یہ ہے کہ قرآن کی عبارت کو دیدہ دانستہ بدل دیا جائے جیسا کہ یہودو نصاریٰ نے اپنی اپنی کتابوں میں کیا- تحریف معنوی یہ ہے کہ قرآن پاک کے ایسے معنی اور مطلب بیان کیے جائیں جو کہ اجماع امت یا عقیدہ اسلامیہ یا اجماع مفسرین یا تفسیر قرآن کے خلاف ہوں اور وہ یہ کہے کہ آیت کے وہ معنی نہیں ہیں بلکہ یہ ہیں جو میں بیان کر رہا ہوں جیسا کہ اس زمانہ میں چکڑالوی، قادیانی اور نجدی وغیرہ کر رہے ہیں دونوں قسم کی تحریفیں کفر ہیں- [6]
  2. اسی طرح وباؤوں سے متعلق بحث کرتے ہوئے بڑے احسن انداز میں طاعون کی بیماری(جو بنی اسرائیل پر عذاب کی شکل میں آئی ) سے متعلق مسائل،اعتراضات مع جواب، فائدے احادیث اور اس مسئلے کی تفسیر ِ صوفیانہ و عالمانہ بیان کی ہے-مثلاً ذکر و دعا میں بالکل فرق نہ کیا جائے کیونکہ بنی اسرائیل نے دعا کے لفظ ہی بدلے تھے جس سے ان پر عذاب آ گیا تھا؟ دوسرا اعتراض جب قحط سالی اور دوسری بلاؤں سے بھاگنا جائز ہے تو طاعون سب سے سخت بلا ہے اس سے بھاگنا کیوں حرام ہے؟ اس پر بڑی مدلّل و پر مغز گفتگو فرمائی ہے- امام شافعیؒ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ طاعون کا بہترین علاج تسبیح و تحلیل اور درود شریف ہے بشرطیکہ ظاہری اور باطنی شرطوں کے ساتھ ہو- وبا کے زمانہ میں سورۃ الدخان شریف بلند آواز سے صبح کے وقت پڑھنے سے جہاں تک اس کی آواز جائے وہاں تک امن رہتا ہے- حال ہی میں پھیلنے والی وباء کورونا وائرس طاعون ہی کی ایک شکل ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے -کورونا وائرس کا طاعون سے کا تقابلی جائزہ کرتے ہوئے تفسیر نعیمی میں بیان کردہ شرعی مسائل سے رہنمائی لی جاسکتی ہے- [7]
  3. مزید سورۃ المائدہ (آیت: 35) کی تفسیر میں وسیلہ سے متعلق قرآن کریم، احادیث مبارکہ، فوائد اور تفسیر عالمانہ و صوفیانہ کی روشنی میں وسیلہ پر مفصل و مدلل بحث کی ہے- مثلاً بندوں کا وسیلہ کوئی چیز نہیں صرف اپنے اعمال کا وسیلہ چاہیے؟ اللہ تعالیٰ خود قادر مطلق ہے وہ بغیر وسیلہ ہر چیز ہم کو دے سکتا ہے؟ قا بیل کو حضرت آدم علیہ السلام کا وسیلہ کنعان کو نوح علیہ السلام کا وسیلہ؟  مشرکین و کفار اس وسیلہ کی بیماری میں گرفتار ہیں ان کا شرک و کفر ہی یہی ہے کہ وہ خدا رسی کیلیے بتوں کو وسیلہ مانتے تھے؟ ان تمام اعتراضات کا جواب بڑے احسن انداز میں دلائل کے ساتھ مزین کیا ہے نعیمی صاحب نے وسیلہ سے متعلق ایک مستقل رسالہ (رحمت خدا بوسیلہ اولیاء) بھی تحریر فرمایا ہے جس میں 22 آیاتِ قرآنیہ،21 احادیث ِ نبویہ، 16اقوال علماء و اولیاء اور دس اقوال ِمخالفین سے اس وسیلہ کا ثبوت دیا گیا - [8]
  4. اسی طرح سورۃ البقرہ (آیت: 238) ’’حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُوْمُوْا لِلَّـهِ قَانِتِينَ‘‘ میں ’’صَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ‘‘سے متعلق آیات، شان نزول، فوائد، اعتراض مع جواب،تفسیر، خلاصہ تفسیر، فقہی مسائل اور تاویلِ صوفیانہ کی روشنی میں بڑی احسن تفسیر و تاویل فرما ئی ہے- تفسیر عالمانہ و تاویلِ صوفیانہ میں صلوٰۃ وسطی سے کیا مراد ہے؟ مزید آیت پر اعتراضات کا جواب مذاہب آئمہ کرام کے اقوال سے دیا ہے-اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہمیشہ نماز فجر میں کھڑے ہو کر دعائے قنوت پڑھنی چاہیے کیونکہ یہاں ’’قُوْمُوْا‘‘ کے ساتھ ’’قَانِتِينَ‘‘ فرمایا گیا؟ اور صوفیا کرام نے جو ’’صَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ‘‘ کی تفسیر کی ہے اسے بھی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے- [9]

الغرض! حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی کی یہ تفسیری کاوش عصری حوالے سے موثر و نمایاں ہے جو علمی مباحث و موضوعا ت کا احاطہ کیے ہوئے ہے-آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی نایاب تفسیر کو پڑھا جائے اور متلاشیان ِ علم و دین تک پہنچایا جائے جو عصری مسائل کا حل اور عصری الحادی فتنوں کے رد میں بہترین قرآنی جواب فراہم کرتی ہے- خوف ِ طوالت کے پیش ِ نظر ہم نے بہت سے مضوعات کو ابھی بیان بھی نہیں کیا بالخصوص محکم و متشابہات، ناسخ و منسوخ ،وراثت کے مسائل اور اسی طرح کے دیگراہم نوعیت کے موضوعات پر یہ تفسیر کتاب ہدایت سے نور ہدایت کی طلب رکھنے والوں کو اپنے اندر غور و خوض کرنے کی دعوت دیتی ہےاور فہم قرآن کو عام کرنے کیلئے گراں بہا سرمایہ ہے-

 نوٹ: مفتی احمد یار خان نعیمیؒ نے تفسیر ِ نعیمی صرف 11 ویں پارے کے آخر ربع تک لکھی جس کا ہر پارہ ایک جلد پر مشتمل ہے- آپؒ یہ تفسیر مکمل نہ کرسکے کیونکہ زندگی نے مزید مہلت نہ دی اور آپ دار ِ فانی سے رحلت فرما گئے- اسی لئے بقیہ پاروں کی تفسیر آپ کے فرزند ِ ار جمند حضرت مفتی اقتدار احمد خان نعیمی نے مکمل کی –

٭٭٭


[1]حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمیؒ کا شمار برصغیر پاک وہند کی نامور علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے -آپؒ کی ولادت 4 جمادی الاول 1314 ھ (یکم مارچ 1894ء ) کو بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع بدایواں میں ہوئی اسی وجہ سے شاعری میں بھی آپ کا تخلص سالک بد ایوانی ہے- آپؒ نے تقریباً 3 سال 11ماہ کی عمر میں اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور قرآن مجید اور عربی کی ابتدائی کتب کی تعلیم اور مکمل فارسی کورس گھر پر اپنے والد محترم سے ہی حاصل کی- آپؒ 7 برس کی عمر میں بد ایوان کے مدرسے میں داخل ہوئے اور اس کے یکے بعد دیگرے تین مدرسوں میں تعلیم مکمل فرمائی -اسی طرح محض 18 برس کی عمر میں آپ نے علم میراث پر پہلا نایاب فتویٰ لکھا (جامعہ نعمیہ مراد آبادی میں ) جس پر آپ کو مفتی اسلام کے لقب سے نوازا گیا- آپ نے برصغیر کے مختلف شہروں میں پانچ مدرسے تعمیر کیے اور تقریبا ً گیارہ مدارس میں درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے رہے-شیخ بلال احمد صدیقی آپؒ کی علمی وسعت و تعلیمی قابلیت سے متعلق لکھتے ہیں کہ:

آپ نے 40علوم حاصل کیے جن میں سے 30 درس نظامی کے علوم اساتذہ سے اور10علوم کتب بینی سے حاصل کیے- 1957ء میں حاشیہ قرآن مجید لکھنے پر ملک کے نامور علما کرام اور تحریک پاکستان کے حامی جید علماء کی تنظیم نے حکیم الامت کا لقب عطا فرمایا- (شیخ بلال احمد صدیقی، سوانح حکیم الامت مفتی احمد یار خان)آپؒ وقت کے بہت پابند اور قدر دان تھے اور آپ کی روز مرہ کی زندگی کا آغا ز صلوٰۃ تہجد سے ہوتا -آپؒ نے 7مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی-آپ کی تقریبا ً 500 تصانیف ہیں جن میں سے کچھ تقسیم ِ برِ صغیر کے وقت ہندوستان میں ضائع ہو گئیں اور کچھ ابھی غیر مطبوعہ ہیں- علم تفسیر قرآن میں تفسیر نعیمی و نور العرفان ، علم شرح حدیث میں مراۃ شراح مشکواۃ و شرح ِ بخاری، علم فقہ میں فتاوٰی نعیمیہ کے علاوہ جاءالحق، علم القرآن،شان حبیب الرحمن آپؒ کی شاہکار تصانیف ہیں - مزید آپؒ نے علم میراث اور علم منطق و علم فلسفہ پر تصانیف لکھیں-آپؒ کی وفات 3 رمضان المبارک بروز اتوار 1391 ھ بمطابق 1971 ء کو ہوئی -

[2](شیخ بلال احمد صدیقی، سوانح حکیم الاُمت، ص:22)

[3](تفسیرِ نعیمی،ج:1، ص: 22)

[4](تفسیرِ نعیمی،ج:1،ص:3)

[5](شیخ بلال احمد صدیقی ،سوانح  حکیم الاُمت  ، ص:22 )

[6](تفسیر نعیمی ، ج: 1  ،  ص: 22     )

[7](تفسیر نعیمی ،ج:   ، 1 ص:  360 )

[8](تفسیر نعیمی، ج:6، ص:396)

[9](تفسیر نعیمی، ج:2 ص:472)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر