تفہیم قرآن : چندبنیادی پہلو ،آخری قسط

تفہیم قرآن : چندبنیادی پہلو ،آخری قسط

تفہیم قرآن : چندبنیادی پہلو ،آخری قسط

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ ستمبر 2017

’’اقسام کے حوالے سےمنسوخ کی چار اقسام ہیں‘‘[1]-

1)     جس کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہو گئے ہوں:

ایک قسم ایسے احکام  کی ہے جس میں آیت کی تلاوت  اور حکم  دونوں منسوخ کر دئیے گئے ہوں جیساکہ اُم المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:’’عشر رضعیات معلومات یحرمین ‘‘،’’دس (۱۰)مرتبہ دودھ پینا متحقق ہو تو اس کی حرمت ثابت ہوگی‘‘-یہ الفاظ اترے تھے ان کی تلاوت ہوتی تھی اور ان میں مذکورہ حکم نافذ تھا پھر اسے منسوخ کردیا-

2)      تلاوت منسوخ ہواورحکم باقی رہے:

ایسی آیات جن کی تلاوت کا حکم منسوخ ہے لیکن آیت میں اترنے والا حکم باقی ہو-اس کی مثال شادی شدہ زنا کریں تو انہیں رجم کر نے کا حکم- حتیٰ کے حضرت عمر(رضی اللہ عنہ)کو فرمانا پڑا کہ ہم حضور (ﷺ)کے زمانے میں اس کی تلاوت کرتے تھے اور اب اس کی تلاوت منسوخ پاتے ہیں-

3)      حکم منسوخ ہو لیکن تلاوت موجود ہو:

ایسی آیات جن میں نازل کردہ حکم  تو منسوخ ہو گیا ہے لیکن ان آیات کی تلاوت باقی رہتی ہےجیسا کہ شراب کی حرمت کا قطعی حکم  آنے  سے پہلے جو آیات نازل ہوئیں ان کا حکم تو منسوخ ہوالیکن تلاوت باقی ہے-

4)      حکم میں موجود وصف کا منسوخ ہونا:

اس کی مثال یہ کہ مطلق کو مقید کر دیا جائے جیسا کہ قرآن کریم کی نص دونوں پاؤں کا دھونا ’’مطلق‘‘بیان کر رہی ہے اور حدیث مشہور جو کہ موزوں پر مسح کے متعلق ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ جب موزوں کو پہنا ہو ا ہو تو ان کو دھونے کی بجائے ان پر مسح کیا جائے اور مطلق حکم کو مقید کرنا ہے اور نص قرآنی پر زیادتی کرنا ہے-مذہب حنفی میں یہ نسخ کی ایک قسم ہے لیکن مذہب ِشافعی اسے نسخ کی بجائے ’’بیان‘‘کے  زمرے میں لاتے ہیں-

نسخ اور بداء  کی تعریف:

صاحبِ تفسیرین ، شارحِ صحیحین علامہ  غلام رسول سعیدی (رضی اللہ عنہ)تفسیر ’’تبیان القرآن‘‘ میں اس کی   تعریف اور فرق بڑے عمدہ انداز میں یوں  بیان فرماتے ہیں :

’’یہود نے  نسخ کا انکار کیا ہےنسخ اور بداءکو ایک ہی  چیزقرار دیا ،اسی وجہ سے انہوں نے بداء کو ناجائز کہا-نحاس نے کہا :نسخ اور بداء میں  فرق یہ ہے کہ نسخ میں عبارت کے ایک حکم کو دوسرے حکم سے بدل دیا جاتا  ہے مثلاً پہلے کوئی چیز حلال تھی،پھر اس  کو حرام کردیا یا اس کےبرعکس اوربداء اس کو کہتے ہیں کہ آدمی  ایک کام کا ارادہ کرے،پھر اس کو ترک کردے،مثلاََایک شخص کہے :فلاں آدمی کے پاس جاؤ،اس کو خیال آئے کہ اس کے پاس نہ جانا بہتر ہےتو وہ اپنے اس قول سے رجوع کر کےکہے:وہاں مت جاؤاور یہ انسانوں کو عارض ہوتا ہے کیونکہ ان کا علم نا تمام ہے اور مآل کارکو محیط نہیں ہے‘‘-[2]

محکم و مُتشابہ :

محکم احکام سے مشتق مضبوط بنیاد کو کہتے ہیں،محکم بمعنی ممنوع کہ ایک احتمال متعین کرنے کے بعد  دوسرے احتمال کو روک دیا جاتا ہےاور مُتشابہ ہم شکل کو یا دو چیزوں  کے آپس میں ملنے کو کہتے ہیں -

علامہ سید محمد مرتضیٰ زبیدی حنفی (رحمتہ اللہ علیہ) (المتوفیٰ:1205ھ)فرماتےہیں:

’’حکم کے معنی ہیں منع کرنا ،حکمت کو حکمت اس لئے کہتے ہیں کہ عقل اسکے خلاف کرنے کو منع کرتی ہے،اس لئے محکم کا معنی ہے جس میں اشتباہ اور اخفاء ممنوع ہو اور محکم وہ آیات ہیں جن میں تاویل  اور نسخ ممنوع ہو‘‘[3]

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی  (رحمتہ اللہ علیہ)محکم کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’محکم وہ آیت ہے جس میں لفظ کی جہت سے کوئی شبہ پیدا ہو نہ معنی کی جہت سے‘‘[4]-

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی ؒ مُتشابہات کے بارےمیں مزید فرماتے  ہیں:

’’مُتشابہ کی تین قسمیں ہیں:جس کی معرفت کا کوئی ذریعہ نہ ہو جیسے وقت وقوع قیامت اور ’’دابۃ الارض‘‘ کے نکلنے کا وقت،وغیرہ (ثانی )جس کی معرفت کا انسان کے لئے کوئی ذریعہ ہوجیسے مشکل اور غیر مانوس الفاظ اور مجمل احکام  (ثالث)جو ان دونوں کے درمیان ہو علماء  راسخین کے لئے اس کی معرفت  حاصل کرنا ممکن ہےاور عام لوگوں کےلئے ممکن نہیں  ہے‘‘[5]-

علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی ؒ مُتشابہ کو یوں بیان فرماتے ہیں:

’’جن کا معنی نفس لفظ کی وجہ سے مخفی ہو اور اس کی معرفت کی بالکل امید نہ ہو جیسے  اوائل سورۃ میں حروف ِ مقطعات ہیں‘‘[6]-

اسلامی قانون کے مآخذ کی درجہ بندی بہت سے فقہاء نے محکم(قطعی) اور مُتشابہ (ظنی)  کی بنیادوں پر کی ہے-محکم سے مراد جس میں ہم دو رائے نہیں رکھ سکتے جبکہ مُتشابہ سے مراد ایسی چیز جو اس مقام پر نہیں پہنچتی-اگر ان مآخذ کی بات کی جائے ہم تک پہنچنے کے حوالے سے تو ایسی اسناد جو ہم تک   لوگوں کی کثیر تعداد  کی طرف سے بیان کی گئی ہیں اور بلاشک وشبہ  ملی ہیں  وہ قرآن ِ مجید اور سنتِ متواترہے-اگر مآخذ کے الفاظ کا قطعی اور ظنی  ہونا  کہا جائے تو ایسامتن جو ہم تک پہنچا  اس میں  موجود الفاظ کا ایک ہی مطلب ہو وہ محکم ہیں  اور جن کےایک سے زیادہ معانی ہوں وہ اپنے معانی میں مُتشابہ ہے-نص(قرآن و سنت ) کےمتن  میں  کچھ الفاظ ہیں جن کا ایک ہی مطلب ہے اوردوسرے وہ ہیں جن کے ظنی ومُتشابہ مطلب بیان  ہوتے ہیں[7]-

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قرآن کی محکم و مُتشابہ ہونے کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلاَّ اللہُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکََ اَنْتَ الْوَہَّابُ‘‘[8]

 

’’وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے وہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں گمراہی چاہنے اور اس کا پہلو ڈھونڈنے کو اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے اے رب ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر بیشک تو ہے بڑا دینے والا‘‘-

حضرت ابنِ عباس(رضی اللہ عنہ)کا ارشاد ہے کہ قرآن کی آیات چار طرح کی ہیں:

’’(1)  کوئی بھی ان سے ناواقف نہیں رہ سکتا جیسےقل ھو اللہ احد(2)اس کے معانی سمجھنے کے لئے لغات القرآن سے واقفیت کی ضرورت ہے جیسےھی عصای اتوکؤا علیھا واھش بھاعلی غنمی(3) علمائے  راسخین جن کے معانی جانتے ہوں (4)اس کے معانی صرف اللہ کو معلوم ہیں‘‘[9]-

مُتشابہ حضرت ابنِ عباس(رضی اللہ عنہ) کی روایت کے مطابق  آخری دو قسموں میں داخل ہے-

’’اصولیوں کے نزدیک محکم ایسے الفاظ کوکہتے ہیں جس میں نہ دوسرے معنی کا احتمال ہو اور نہ نسخ کااور اس کے مقابل کو مُتشابہ کہتے ہیں-گویا ایک ظہور کے انتہائی آخری مقام پر ہوتا ہے اور دوسرا اخفاء کے آخری مقام پر‘‘[10]-

محکم اور مُتشابہ آیا ت کا فرق اور آسان فہم کےلئے اس مثال کو پیش نظر رکھا جائے تو  مسئلہ کا حل گرفت میں آ جائے گا-

قرآن مجید میں  مومن مردوں کو نکاح کےلئے اجازت دینے  کے ساتھ معاملے میں شرط  رکھ دی گئی کہ:

’’وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ‘‘[11]

 

’’ اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں ‘‘-

اس آیت میں مومنوں کو واضح (محکم ) حکم دیا گیا ہے،ابہام اور شبہ سے دور رہیں-اس حکم پر عمل کرنا آسان ہے-اس کا ایک ایک لفظ کسی تشریح کے بغیر انسانی عقل میں آجاتا ہے ایسی آیات کو محکم کہتے ہیں-اس کے مد مقابل دوسری آیت کو دیکھا جائے تو  اس سےمُتشابہ کا ادراک حاصل ہوتا ہے-

جیساکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہےکہ:

’’اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی‘‘[12]

 

’’وہ بڑی مہر والا، اس نے عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے‘‘-

اس آیت سے بہت سے سوال ذہنی گوشوں میں جنم لیتے ہیں-اس آیت کا تعلق ظاہری عمل سے نہیں بلکہ ایمانیات (عقائد ) کے ساتھ ہے-اس قسم کی دیگر آیات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان پر فوراً ایمان لایا جائے-

مجمل و مفسر:

یہ قرآن کا معجزاتی وجود ہے کہ اس کا وجود اجمال پر مبنی ہے-اجمالی  اندازِ بیان سے بھی قرآن کا فہم ممکن ہے   اس کے ایک ایک لفظ کا اجمالی بیان مکمل طور پر عملی صورت  میں حضور نبی  کریم (ﷺ)کی سیرتِ طیبہ میں  موجود ہے-قرآن کریم کی بعض آیات میں اجمالی احکام ملتے ہیں، ہمیں ان احکام کی تفصیل نہیں ملتی-قرآن مجید کے متعدد مقامات پر باتیں دہرائی گئی ہیں، ان میں کہیں تفصیل اور اجمال کا تعلق ہے ایسی صورت حال کے فہم کے لئے قرآن ِ مجید کی ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘سمجھنا ضروری ہے-ایسی آیات جن میں اختصار اور اجمال ہو ان کو مجمل کہتے ہیں-کچھ آیات ایسی ہیں جن میں ان مجمل آیات کی تفسیر  ہے تاکہ مسئلہ کی نوعیت واضح ہو اور بات آسانی سے سمجھ آجائے ایسی آیات کو مفسر کہتے ہیں-یہ بھی  ضروری ہے کہ مجمل اور مفسر کا علم ہوکہ کس آیت کی تفسیر کس آیت یا سورۃ میں ہے-کون سی مفسر آیت میں کس مجمل آیت کا بیان ہے-یہ لازمی امر نہیں کہ کسی مجمل آیت کی تفسیر کوئی قرآن کریم کی آیت ہی کر رہی ہو بلکہ کسی مجمل آیت کی تفسیر علمی صورت میں(حدیث ) اور عملی صورت (سنت) میں بھی  ہوتی ہے-ہاں اگرکسی مجمل حکم کا کوئی  بیان قرآن میں موجود نہ ہولیکن سنت میں موجود ہو تو اسے مخالف قرآن نہیں کہا جائے گا-اس لئے کہ مخالفت اس جگہ ثابت ہوگی کہ قرآن میں کوئی حکم موجود ہو اور سنت کا کوئی حکم اس کے برخلاف آجائے-ورنہ سنتِ رسول اللہ (ﷺ) قرآن مجید کی واحد متعین تعبیرہے-

مثلاً قرآن میں خنزیر کو حرام کیا گیا ہے اگریہ کہا جائے کہ سنت یہ کہتی ہے کہ خنزیر حلال ہے تو اسے قرآن کے مخالف کہا جائے گا-لیکن کتے کے گوشت کے حرام یا حلال ہونے کے سلسلہ میں قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ہے- اس لئے اگر سنت کہے کہ کتے کا گوشت حرام ہے تویہ مخالف قرآن نہیں ہوگا، بلکہ قرآن کے حکم کی تعبیر اور وضاحت ہوگی-

مثلاً اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:

’’وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ‘‘[13] 

 

’’اور نماز قائم کرو‘‘-

نماز کا حکم قرآن ِمجید میں جگہ جگہ مجمل طورپر بیان ہوا ہے  لیکن    اس مجمل بیان اور نماز کے جامع طریقے کا  بیان اس حدیث میں کر دیا گیا  ہے:

’’صلوا کما رائیتمونی اصلی‘‘[14]

 

’’نماز ایسے ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے دیکھو‘‘-

کسی مجمل آیت کی تفسیر وتشریح جس حدیث مبارکہ سے ملے گی اس کو حدیث ِمفسر کہتے ہیں-

بعض مفسرین و اصولین  نے مجمل و مفسر  آیت کو محکم و مُتشابہ  کے مختلف مدارج  میں بیان کیا ہے:

’’مجمل‘‘اس کا خفا مُتشابہ سے کم ہوتا ہے اور اسے دور کرنے کےلئے شارع کے کلام کی طرف  رجوع کرنالازم ہوتا ہے، یہ گویا دینی اصطلاح ہوتی ہے جس کی تعریف شارع مقرر کرتا ہے-’’محکم کی مراد اگر واضح ہو تو اس کو’’ظاہر‘‘کہتے ہیں-اگر وضاحت میں کچھ زیادتی ہو تو اسے’’ نص‘‘اوراگر مزید زیادتی ہو تو ’’مفسر ‘‘کہتے ہیں-یونہی ’’مُتشابہ‘‘اگر ایسا ہے کہ اس کی مراد پوشیدہ ہے تو اسے ’’خفی ‘‘ کہتے ہیں-اگر خفا زیادہ ہو تو ’’مشکل‘‘اور اگر اور زیادہ ہو تو ’’مجمل‘‘کہتے ہیں-اس طرح صاحب ِ اتقان(امام اسیوطی)  نے ظاہر،نص اور مفسر کو ’’محکم‘‘کے تحت داخل کیا اور خفی،مشکل اور مجمل کو ’’مُتشابہ‘‘کی اقسام کہا‘‘[15]-

مطلق و مقید کا نظریہ:

مطلق سے مراد  کسی عبارت یا فقرے میں سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے عمومی  (general) الفاظ کا    استعمال کہ کسی حکم  یا  چیز پر کوئی قید یا تحدید عائد نہ ہو،مثلاً پرندہ مطلق لفظ ہے جس میں تمام پرندے شامل ہیں لیکن اس کے ساتھ کسی پرندے میں   موجودو صف /شرط لگا دی جائے تو اس تعریف  سےباقی تمام پرندے نکل جائیں گئے جو  اس صفت یا شرط پر پورے نہیں آتے-مثلاًپرندے کے ساتھ برفانی پرندے کہا جائے تو باقی تمام آبی،صحرائی نکل گئے-یہاں لفظ پرندہ مطلق تھا اس کے ساتھ برفانی شامل کر کے مقید کر دیا گیا-دوسری مثال فرضیتِ زکوۃ  کے متعلق ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے  یہ مطلق حکم ہے لیکن اگر کہا جائے زکوٰۃ فرض ہے عاقل پر تو  عاقل مقید کرنےسے مجنوں  نکل گئے پھر کہا جائے کہ بالغ پر تو  مقید کرنے سے بچے نکل گئے اس کے ساتھ ہی جب یہ کہا جائےگاکہ صاحب نصاب پر تو غریب نکل گئے-

’’قرآن ِ مجید میں ہے ’’ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ  ‘‘[16]،’’اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے‘‘-اس آیت میں کسی مومن کے قتل پر کفارہ میں غلام آزاد کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے،اسے لفظ  ’’مومنہ‘‘سے مقید کردیا گیا ہے-

حضر ت علی (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہےکہ جب فرضیت حج کی آیت نازل ہوئی:’’ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ‘‘[17]،’’ اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے ‘‘-تو لوگوں نے پوچھا :یا رسول اللہ (ﷺ)!کیا ہر سال؟آپ(ﷺ)نے سکوت فرمایا پھر لوگوں نے دریافت کیا :کیا ہر سال؟تو آپ (ﷺ)نے فرمایا:’’نہیں،اگر میں ہاں کر دیتا تو ہر سال حج کرنا تم پر فرض ہو جاتااور اگر ہر سال فرض ہو جاتا تو تمہارے بس میں نہ ہوتا‘‘-اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ‘‘[18]-

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُئْوکُمْج وَاِنْ تَسْئَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللہُ عَنْھَا وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا کٰفِرِیْنَ‘‘[19]

 

’’اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی، اللہ انہیں معاف کرچکا ہے اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے، تم سے اگلی ایک قوم نے انہیں پوچھا پھر ان سے منکر ہو بیٹھے‘‘-

آیت کریمہ  کے ذکر کرنے سے یہ مقصود ہے کہ امام فخر الاسلام بزدوی اور صاحب ِتوضیح (رحمتہ اللہ علیہ)نے اس آیت سے اس بات پر تمسک کیا کہ مطلق کو مقید کرنا باطل ہے-اس کی تقریریوں کی کہ جب مطلق کی تقیید  کے بارے میں سوال آتا ہے تو یہ سوال برائی،تنگی اور ندامت کا سبب بنتا ہے-لہذا جب  سوال کرنے سے یہ خرابی آتی ہے تو جب مطلق کو مقید کر دیا جائے تو اس میں مذکورہ خرابی بدرجہ اولیٰ ثابت ہو گی[20]-اللہ تعالیٰ نے مطلق حکم فرما کر دین میں آسانی فرمادی ورنہ حکم جتنا مقید ہوتا صورتحال پچیدہ ہوتی اور اس حکم پر عمل کرنا  محال ٹھہرتا-

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوال اور استفسار ، مُتشابہ ،مجمل ،مشکل اور خفی کے بارے میں ہوتا ہےاگر اس بارے میں سوال ہو تو کوئی حرج نہیں-رسول (ﷺ)نے فرمایا عاجز کی شفاء سوال ہے-سوال کرنا ایسے امر شرعی کے بارے میں ممنوع ہے جس کے بارے میں حکم وارد نہ ہوا ہو-اللہ تعالیٰ نے مطلقہ(طلاق یافتہ)  کی عدت بیان فرمائی،جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو اس کی عدت بیان فرمائی اور حاملہ کی عدت بیان فرمائی چنانچہ بعض عورتوں کی عدت کا حکم نازل ہوا ور بعض کے لئے نہیں ہوا ،اس عورت کی عدت بیان نہیں فرمائی جس کو حیض آتا ہو ،نہ حمل ٹھہرتا ہو ،یعنی وہ بہت بوڑھی ہو، تو صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ)نے اس کے متعلق سوال کیا،جس  پرجواب عطا فرمائے-

امام ابو حنیفہ ؒ کے اصول کے مطابق امر مطلق تکرار کا تقاضا ہی نہیں کرتااور نہ ہی اس کا احتمال رکھتا ہے[21]-فقہ کے کچھ قواعد فقہاء و  اصولیہ  کا استدلال بھی کیا گیا ہے جن میں سےچند چیدہ چیدہ یہ ہیں:

v     ’’مطلق کا حکم مطلق ہی رہے گا جب تک  کسی نص یا دلیل سے اس کے مقید ہونے پر حجت قائم نہ ہو جائے‘‘-

v     ’’صراحت کے مقابلے میں کوئی دلالت قابلِ اعتبار نہ ہوگی‘‘-

v     ’’ہر کلام کا حقیقی معنی مراد لیا جائے گا‘‘[22]-

قرآن مجید الله تعالیٰ کا کلام ہے او راس میں حقیقی تعارض کہیں بھی موجود نہیں ہے اگر کہیں بظاہر تعارض نظر آتا ہے تو وہ انسانی کم علمی وکم فہمی کی بناپر ہوتا ہے،مفسرین نے اس طرح کی آیات کے درمیان توجیہ وتطبیق ذکر کرنے اور تعارض کو حل کرنے کی کوشش کی ہے-فقہاء نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا اور ایسے اصول مرتب فرمائے جس کی مثال ایک قول سے دی جاسکتی ہے جیسا کہ اصول کی مشہور کتاب ’’مسلم الثبوت‘‘ میں عبد العلی محمد بن نظام الدین سہالوی  فرماتے ہیں:

’’اگر دو دلائل متعارض ہوں تو حنفی فقہاء سب سے پہلےناسخ و منسوخ کے تعین کی کوشش کرتے ہیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ترجیح کی راہ اختیا ر کرتے ہیں یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر دونوں دلائل کے درمیان جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو  دونوں دلائل کے سکوت کی بات کرتے ہیں‘‘-

الغرض الہامی کلام،قرآن مجیدکو سمجھنے کے لئے وحی پر مبنی الہامی کلام(احادیث مبارکہ) کے علاوہ اس کے متعین کردہ   اصولوں کے ڈھانچےکو سمجھنا بہت ضروری ہےجس سے اس کے فہم میں مدد و معاونت حاصل ہوتی ہے-لہذا!قرآنی فہم  کے حصول کے لئے اس کے متعلقہ مخصوص طریقہ کار جس کے مطابق قانون اخذ کرنے کے  کچھ مخصوص طرقِ استدلال و استنباط کی پیروی کی جائے-باہر سے کسی  ایسے  نئے اصول کو نہ لایا جائے  جو پہلے سے موجودہ اصولوں  سے اجنبی ہو-کوئی نیا اصول متعارف نہ کرایا جائے جو مذکورہ اصولوں سے ناآشنا ہو-کسی نئے متعین کردہ اصول کو اس وقت تک قبول نہ کیا جائے جب تک تمام موجودہ اصولوں سے اس کی ہم آہنگی  ومطابقت کو یقینی نہ بنا لیا جائے-

٭٭٭


[1](تفسیر احمدیہ، ص:39)

[2](تِبیانُ القرآن،ج:1،ص:481)

[3]( تاج العروس،ج:۸،ص:353)

[4]( المفردات،ص:128)

[5](ایضاً)

[6]( کتاب التعریفات،ص:86)

[7](Outlines of Islamic Jurisprudence: P#162 N)

[8](آل عمران:7-8)

[9]( تفسیرجلالین،ج:1،ص:344)

[10](ایضاً)

[11](البقرۃ:221)

[12](طہ:5)

[13](النور:56)

[14](صحیح بخاری، کتاب الاذان)

[15](تفسیراتِ احمدیہ،ص:288)

[16](النساء:92)

[17](آل عمران:97)

[18]( تفسیرِکبیر،ج:2،ص:178)

[19](المائدہ:101-102)

[20]( تفسیراتِ احمدیہ،ص:532)

[21]( تفسیرمظہری،ج:3،ص:205)

[22](شرح مجلہ، مقالہء نمبر64،13،12)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر