تفہیم قرآن : چند بنیادی پہلو ( قسط : 1)

تفہیم قرآن : چند بنیادی پہلو ( قسط : 1)

تفہیم قرآن : چند بنیادی پہلو ( قسط : 1)

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ جولائی 2017

  اللہ رب العزت  نے روحِ آدم  اور اس کے خمیر میں فطرت کو ودیعت کردیا ہےجس کی بنیاد پر کہا’’ کہ   ہرپیدا ہونے والا بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتاہے‘‘[1]-بالفاظ دیگر یہ عیاں حقیقت ہے  کہ دینِ اسلام انسان کی  عقل،فطرت اور جبلت میں رکھا  گیاہے-انسانی پیدائش کے ساتھ ہی کچھ سوال ذہن میں جنم لیتے ہیں  کہ یہ کائنات کس نےبنائی؟ مجھے کس نے پیدا کیا ہے؟ مجھے کیوں پیدا کیا  گیاہے؟میری پیدائش میں کیا چیز کارفرما تھی؟ان تمام سوالوں کے جواب اور جہالت و تاریکی  میں ڈوبے ہوئے انسانی معاشروں کو  ہدایت کی راہ پر گامزن کرنے اورذہنِ انسانی کوشکوک و شبہات کی گرد سے صاف کرنے کے لئےوقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء اور رسل کرام(علیم السلام) تشریف لاتے رہے اور انسانی  ڈوبتے سفینے  کو ہدایت کے کنارے سے ہمکنار کرتے رہے- سابقہ انبیاء(علیم السلام)کی شریعت کا دائرہ کارمخصوص تھا-مگر ، دینِ اِسلام،آخری کتاب اور خاتم الانبیا (ﷺ) کی نبوت کا دائرہ کار اس سے مختلف تھا-یہ دین تمام برحق ادیان کا جامع، یہ کتاب تمام الہامی کتب کی جامع اور نبی آخر الزمان ()  جُملہ انبیا ء(علیم السلام)کے جملہ کمالات کے جامع- اِسلام،قرآن اور نبی آخر الزمان () آنے والے ہر زمانے کیلئے ، ہر خطۂ زمین اور ہر طبقۂ انسانی کےلئے بلا امتیاز رنگ و نسل ہدایتِ کامل بن کرتشریف لائے-

دینِ اسلام کا بنیادی و اساسی منشا و مرضی مخلوق ِ خدا کا اللہ تعالیٰ  کے ساتھ  رابطہ استوارکرنا ،تعلقِ باللہ کو بحال و قائم کرناہے-دین کی منشا کو پورا کرنے کے لئے  یعنی تعلقِ الٰہی کو پھر سے استوار کرنےکے لئےکلام ِ الٰہی اور کلامِ رسول (ﷺ) ہی  وسیلہ  ہو سکتے ہیں-یہی کلام اُس کا پتہ لگانے کا ذریعہ ہےاور یہی کلام اُس کی خبر دیتا ہے-اس ذات کی شان و رفعت معلوم کرنے کے لئے اس کے ہر حرف،لفظ،آیت میں پوشیدہ راز کا جاننا ضروری ہے کیونکہ ان کے ذریعے سے اس کی منشا و مرضی  معلوم ہوتی ہے-اس کے کلام سے ہی اس کی اطاعت بجا لائی جاسکتی ہے-ہر  حکم کی بجا آوری اور ہر  امر پرسر تسلیم خم  کرنا اور اس پرعمل پیرا ہونا اس کی وحی  کے ذریعے بھیجے گئے پیغام سے ہی حاصل ہوتاہے-چاہے وہ وحی متلو(قرآنِ مجید ) ہویا وحی غیرمتلو(حدیث پاک)ہو-اس حقیقت سے کوئی دورائے نہیں کہ اس دین کے حامل نبی()پر نازل ہونے والی کتاب پیغمبرانہ اندازِتربیت کی حامل  کتاب ہے-قرآن مجید پیغمبرانہ اوصاف کا حامل اور اس کی بندگی کے اصول و ضوابط کی تلقین ہے اور اس کا اصل موضوع انسان کوخدا سے آگاہی دیناہے،اُن کو پروردگار کی طرف متوجہ کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی عظمت کا ادراک پیدا کرنا ہے-

دینِ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے  جوسب سے بڑی خوبصورتی،حسن اورجما ل رکھا وہ یہ ہے کہ اس کو عالمگیر دین قرار دیا-دیگر تمام انبیاء و رسل(علیم السلام) کو ایک مخصوص  قوم، زمانے اور وقت  کے لئےبھیجا کہ کچھ انبیاء(علیم السلام) ایک مخصوص قوم کےلئے تشریف لاتےحتیٰ کے بنی اسرائیل میں بیک وقت ایک سے زیادہ ا نبیاء تشریف لاتے رہے ،کچھ انبیاء کوایسے پیغامات اور معجزات سے نوازا گیاجو کہ مخصوص وقت کے تقاضوں پر مبنی تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادوسر چڑھ کر  بول رہا تھا جس  کے توڑ کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو ایسے معجزات سے نوازا جس سے ان شیطانی تماشوں کاقلع قمع ہوا،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں مختلف موذی بیماریوں کی وباءزد وعام ہو چکی تھی کہ آپ علیہ السلام کو ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ  جس سے لوگ صحت یاب ہوئے،لیکن حضرت محمد الرسول اللہ()کوجامع اور عالمگیر پیغام سے  معبوث فرما کر تمام کائنات کی راہنمائی و ہدایت کےلئے آپ (ﷺ) کو آخری نبی بنا کر بھیجا اوراپنی آخری الہامی کتاب قرآن مجید کوحضور پاک()پرنازل فرما کر امت مسلمہ پر انعامِ خاص فرمایا- آپ (ﷺ) پر نبو ت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند فرما یا اور نبوت کے فریضہ کی  ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے یہ ڈیوٹی علماء اورصالحین کوسونپی دی-دینِ اسلام کو نبی کریم () کی ذاتِ مبارکہ  پر مکمل فرما کر آپ() کی سیرتِ طیبہ کو تمام عالم انسانیت کے لئے   کامِل نمونہ بنا دیا-یہ دین ایسے  اُصولوں  پر مبنی دین ہے جواپنی حیثیت میں   آفاقی ہیں کہ ان اُصولوں میں وہ  خوبصورتی  و حسن  ہےکہ ہر  تہذیب ،علاقے اور قوم کے لئے وہ یکساں اور یکسر قابلِ عمل ہیں-ہر معاشرےکے باسیوں کو  اس پر عمل کرنےکےلئے اپنے دامن میں جگہ دیتا ہے-جیسے حضور نبی کریم () کی  نبوت رنگ  و نسل کے  حدود و قیود کے دائرے سے ماورا تمام عالم انسانیت  کے لئے ہدایت ہے-ایسے ہی آپ()کی تعلیمات ہر عہد و زمانے اور علاقے کےلئے یکساں قابلِ عمل اور مفید ہے-ایسے ہی آپ ()پر نازل ہونے والی کتاب  کا پیغام بھی عالمگیر اور آفاقی  ہے-قرآن کا موضوع کوئی خاص قبیلہ،زمانہ اور علاقہ نہیں بلکہ اس کا پیغام پوری انسانیت کےلئے ہے-آپ()کی نبوت جو کہ عالمگیر  اور کل عالم  کے لئے ہے تو آپ()کا  دیا ہوا پیغام قرآنِ مجید  نبوت کے دائرے کار کے متضاد اور ایک مخصوص قوم ،علاقے اور وقت کے لئے کیسےہو سکتا  ہے؟

قرآن مجیدمیں وہ اکملیت،جامعیت،عالمگیریت و آفاقیت موجود ہے جس کا متبادل ناممکن ہے-قرآن مجید ہدایت کی واضح کتاب اور دلیلِ روشن ہے-جس سےانسان کو حق و باطل، روشنی اورتاریکی،صحیح اور غلط، سچ اور جھوٹ،توحیداور شرک میں تمیز حاصل ہوتی ہے-قرآن نےفقط کسی مخصوص زمانے اورقبیلے کے مسائل کو موضوع نہیں بنایا بلکہ پوری انسانیت کو درپیش مسائل و مشکلات کا حل اور راہنمائی کےلئے  مسلمہ اصول وضع کئے ہیں-قرآن کے عطا کردہ اصولوں کا اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اخلاقیات سے بنیادی تعلق ہے-قرآنِ مجید امت مسلمہ کے لئے مسلم تہذیب کا علم بردار اور مسلم معاشرے کی ان امنگوں کا ترجمان ہے   جن بنیادوں اور اساس کی  نوعیت کو مدنظر رکھ کر ایک معاشرتی و عمرانی تشکیل کی جائے جس کا  اہم وسیع حصہ،عمومی اخلاقی اُصولوں پر مبنی مسلمانوں کے مقاصد اور ان کی امنگوں کا   ثبوت  ہے-قرآنِ مجید کا عطا کردہ پیغام اور تعلیمات  علمی دنیا میں قابلِ قبول اور عملی لحاظ سے قابلِ تقلید ہے-’’ھدی اللناس‘‘کا پیغام اس طرف بھی  راہنمائی فرماتا  ہےکہ اس کا مطالعہ نہ صرف مسلمانوں،بلکہ غیر مسلموں کے لئے  بھی ضروری ہے-قرآن کا  آفاقی ہونے کے لئے یہی ثبوت  کافی ہے کہ یہ کُل انسانیت کے لئے ہے-اس کی تعلیمات آفاقی،دائمی اور عالمگیر  ہیں-

قانونِ اسلامی کی اساس و بنیاد وحی الٰہی اورسنتِ رسول(ﷺ)ہے-اسلامی ضابطہِ حیات کولائحہ عمل بنانے  کےلئےاسلامیِ قانون کا پہلا مصدر اور منبع قرآن ہے جس سے احکام اسلامی کو اخذ اور مستنبط کیاجاسکتا ہے-البتہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہرچیز کےمتعلق  حکم کوقرآن سےبلاواسطہ طورپر  نہیں نکالا جا سکتا بلکہ اس حکم  کی راہنمائی اور مزید وضاحت حدیث نبوی(ﷺ)سےملتی ہے-فہم قرآن وسنت کامقام ومرتبہ بطورماخذِقانون کے لحاظ سے جاننے کےلئے اسکی مثال ایک ملک کےایسےاساسی وبنیادی آئین(constitution) کی مثل ہےجس میں ایسے (BROADER PRINCIPLES) واضح   کئے جاتے ہیں  جن کی روشنی میں  جزئیات سے متعلق قانون واضح کئے جاتے ہیں-جس کو آسان الفاظ  میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے حیاتِ بنی نوع انسان  کے لئےضروری معاملات وموضوعات پر مبنی مخصوص نوعیت کے احکام کوطےفرماکرایک بنیادی ڈھانچہ (main framework)واضح کیا اور اس کے علاوہ امتِ مسلمہ کوایسے فطری،عمومی و مسلمہ  اُصول عطاکئےکہ جن کوپیشِ نظررکھتے ہوئےبدلتے وقت کےتقاضوں کی روشنی میں  باقی قوانین کواس اساسی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے بنانے اورتشکیل دینے کا اختیاردیا-جیسے ہرملک کارائج  قانون اور  کوئی بھی پارلیمنٹ میں بننے والے نئے قانون کسی  ملک کے ان اصولوں کے خلاف نہیں ہو سکتے جو کہ آئین کے واضح کردہ ہوتے ہیں،بلکہ کوئی بھی نیا قانون اس اساسی قانون کی روشنی میں طے کیا جاتا ہے-کسی بات کےبراہ راست حکم نہ ملنے پر اس کےثبوت وجواز،صحیح یا غلط کے لئے آئین کی واضح کردہ حدود وقیودسےراہنمائی حاصل کی جاتی ہے-بالفاظ دیگراسلامی قانون  کے بنیادی ماخذ(قرآن و سنت) میں کسی چیز کا ذکر نہ ملنے،موجود نہ ہونےیا پھراس مسئلے پر خاموشی ہوتواس سلسلہ میں مذکورہ بالاآئین کے واضح کردہ اصولوں کی طرح ،اس حکم کےدین ِاسلام کےکلی مقصودو مطلوب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئےایسا قانون بنایا جائے گاجو  کہ  اس کے  متعین کردہ ڈھانچےاور مقصود کے خلاف نہ ہو-  

قرآن اپنے معجزاتی وجود میں  ایسے قائم و دائم ہے کہ اس کی تعریف ِ کاملاً و اصطلاحاًمکمل  تشکیل نہیں دی جا سکی-قرآن کی تعریف یا اصطلاح واضح کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ایک محدود دائرہ میں اس کو لایا جائے-ایسی ضخیم کتب جس کا  ترجمہ و تفسیر اتنی جلدوں میں ہونے کے باوجود کوئی آج تک نہیں کہہ سکا کہ  یہ اس کتا ب کی مکمل تفسیر  ہے،تو اس کی تعریف کرکے کون  اس کو محدود کر سکتا ہے لیکن علمی میدان میں فہم و تفیہم کے لئے  اس  کی ضرورت موجودرہتی  ہے-اصولین(جواصولِ قانون کے ماہرہیں:فقہاء) کے نزدیک ایک عمومی تعریف جو مانی جاتی ہےوہ یہ ہے:

’’القرآن:ھوالکتاب المنزل علی رسول اللہ محمد (ا)لمکتوب فی دفات المصاحف، المنقول اِلیناعلی الاحرف السبع المشہورۃ نقلا متواترا‘‘ [2]

 

’’قرآن مجید وہ کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے اللہ کے رسول حضرت محمد ()پرنازل ہوئی جو مصحفوں میں لکھی ہوئی ہے اور جو ہم تک بغیر شک و شبہ کے تواتر  کے ساتھ نقل در نقل ہوکر پہنچی ہے‘‘-

قرآن مجید صرف  تاریخ کی کتاب نہیں  ہےکہ مختلف اقوام کے واقعات اس میں موجود  ہوں - نہ  محض فلسفیانہ نظریات  کی کتاب ہے کہ محض اس کا موضوع بیاں عقائد،عبادات اورعلم الکلام  ہو اور نہ ہی محض علمِ قانون،معاشیات اور کائنات کے مشاہدات کے علم  تک محدود ہو ، بلکہ  دینِ کامل  کی راہنماکتاب  کی حیثیت سے یہ زندگی کے تمام شعبوں کا  احاطہ کئے ہوئے   ہےتو اس کافہم اتنی آسانی سے ممکن نہیں-جس طرح دین اسلام مکمل دین ہے اسی طرح اس کی عطا کردہ کتاب کے مکمل مطالعے سے ہی  ہدایت و راہنمائی حاصل ہوتی ہے-اس کلام کا یہ اعجاز ہے کہ جب تک کُلی طور پر پڑھ نہ لی جائے تب تک اس کا فہم حاصل کرنا ممکن نہیں-یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ قرآ ن کی محض  کسی  ایک سورت  یا آیت سے مکمل عملی زندگی میں نفاذ ناممکن ہو جاتا ہے کہ جب تک اس کی حقیقت سے مکمل  طورپر شناسائی نہ ہو جائے-قرآن کے اندازِ بیان کو ایک خاص طریقہ استدلال اپنائے بغیرسمجھنا  محال ٹھہرتا ہےکہ فہم ِقرآن فی  القرآن  کیسے حاصل کیا جائے؟ آسان  الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک جگہ  اللہ تعالیٰ نے کسی تاریخ واقعہ  یا پھر امت کی راہنمائی کے لئے کوئی مندوب (Recommended)قسم کا حکم اشارۃً یا کنایۃً فرمایا  ہے اور دوسری  جگہ اس بات کی   وضاحت و  تفصیل خود فرمائی ہےیا اس کی وضاحت حدیثِ نبوی ()میں فرمائی گئی  ہے-اس میں کسی ایک جگہ سوالیہ و استفہامیہ انداز اختیار کیا تو جس  کا  جواب قرآن کے کسی اور مقام پر فرما دیا،یا کسی چیز کی علامت و شرائط کا ذکر دوسری جگہ وضاحت فرما کر ہدایت کا راستہ بتا  دیاکہ کس سورت و آیت کا اسباب ِنزول و شانِ نزول کیا ہے؟کون سی آیات ناسخ و منسوخ کے متعلق ہیں ؟کون سے احکامات محکم اور کون سے متشابہ آیات سے  ہیں  ؟ کون سی مجمل اور کون سی مفسر آیات ہیں؟ کون سی آیت مطلق احکامات کی حامل اور کس آیت کا حکم مقید ہے؟ لہذا! اس کاجزوی علم حاصل کرنے کے بعد کسی عمل  کا استدلال  جائز نہیں ہو گا جب تک اس کاکلی  علم حاصل نہ کیا جائے- کیونکہ محض جزویاتِ قرآن کو سمجھ کر کُل قرآن کی تفہیم پہ اُسے محمول کرنے سے  گمراہی کااحتمال بڑھ جاتا ہے  کیونکہ اس سے  قرآن فہمی میں   مغالطہ ہوگا جیسا کہ  قرآن نے خود فرمایاکہ :

’’يُضِلُّ بِهِ كَثِيْرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ  ‘‘[3]

 

’’بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس سے صرف انہی کو گمراہی میں ڈالتا ہے جو (پہلے ہی) نافرمان ہیں‘‘-

لہذا!اللہ کی خبر دینے والی کتاب  ،اسلامی قانون کا اساسی مصدر اورمسلم معاشرے کی تشکیل کے لئے اصول وضع کرنے والی کتاب کو کیسےسمجھا جائے؟ اس کے فہم میں کس چیز کی ضرورت ہوتی ہےجن میں سے چند چیدہ سوالات یہ ہیں -قرآن کو کیسے سمجھا جائے؟قرآن کی بظاہر ایک آیت کا دوسری آیت سے تعارض آرہا ہو تو کیسے حل کیا  جائے؟ناسخ و منسوخ احکامات کا علم کیسے حاصل کیا جائے؟قرآن کو سمجھنے میں زبان و بیان کے اصولوں کو کس حد تک مطالعے میں رکھا جائے؟حلال وحرام کے متعلق احکام   کومتعین کرنے ا ورمعلوم کرنے کا ضابطہ کیا ہونا چاہیے؟دین کے خصوصی و عمومی نوعیت کے احکام کو معلوم کرنے کے طریقہ کار کی بنیادکس اصول  پر رکھی جائے ؟

اِن سوالات میں سے بعض پہ مختصر نظر ڈالتے ہیں :-

عربی زبان کی معرفت:

اِس بات میں کوئی شک و شُبہ نہیں کہ قرآن پاک صرف ایک زبان میں نازل ہوا جو کہ ’’عربی‘‘ ہے وہ بھی لُغتِ قریش پہ جس میں سرورِ دو جہان () کلام فرماتے تھے - مگر اِس کے باوجود ایک حیران کُن امر یہ ہے کہ فصاحتِ عربیّہ کا کتنا بڑا بلیغ عالم کیوں نہ ہو محض اپنی عربیّت کی بُنیاد پہ قرآن کو نہیں سمجھ سکتا ، جب تک کہ اس کیلئے دیگر شرائط پوری نہ ہو جائیں   - قرآن مجید کا فہم محض کامل عربی زبان سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی محض عربی زبان پر مہارت حاصل کرلینے سے  مکمل طور پر اس کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی لغتِ عربی سے قرآن کے اصل متن کا احاطہ  کیا جا سکتا  ہے-اگر محض عربی جاننے سے قرآن کا فہم و ادراک ممکن ہوتا تو شائد وہ عرب جو غیر عرب لوگوں کو  بڑے غرور و تکبر  سے گونگا اورعجمی کہتے تھے اور نزول قرآن کے وقت بھی بہت سے عربی دان موجود تھے  اس کا فہم حاصل کر لیتے اور اگرعربی زبان  کے بیان سے اس کا محاسبہ ممکن ہوتا توعربی کی سینکڑوں تفاسیرنہ ہوتیں اور ان سینکڑوں کے ہوتے ہوئے بھی اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جا سکا-قرآن کے کلام کی فصاحت و بلاغت  کا پیمانہ ممکن نہیں کیونکہ یہی اعجازِ قرآن اور اس کی فصاحت کا منہ بولتا ثبوت  ہے کہ  اس میں موجود لفظوں کی  معنویت کی مقید کرنا ممکن نہیں-قران مجید کے اسلوب بیاں و طرزِ عمل  کو مکمل احاطہ عمل میں لانا  ایک مفسر کے بس میں نہیں کہ قرآن اپنے اندر رہتی دنیا تک،تا ابد راہنمائی حاصل کرنےکا ذریعہ و سبب  ہے-قرآن کا ترجمہ قرآن نہیں ہوتا  لیکن ترجمہ قرآن مجید کےالفاظ کا ہی ہوتا ہے اور جس کا استدلال اصولِ فقہ کے اس طریقے سے ہوسکتا ہے کہ:’’قرآن کے ترجمہ پرقرآن مجید کا اطلاق نہیں ہو گا کیونکہ قرآنِ مجید الفاظ عربیہ میں ہے‘‘-[4] ایک  ترجمہ دوسرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے - بعض علمائے ترجمہ نے اِس پہ بھی بحث و کلام کیا کہ بعض الفاظِ قرآن ایسے ہیں جن کا کسی اور زبان میں اصل متبادل لفظ موجود ہی نہیں اِس لئے ترجمہ میں بعض الفاظ محض استعارۃً استعمال کر لئے جاتے ہیں تاکہ قاری کسی حد تک معنیٰ کے متعلق گمان کر سکے کہ یہ کس جانب اشارہ ہے – اسلام عقل کا حوصلہ افزا ہونے اور عقل کو تدبر و تفکرکی طرف راغب کرنےکے باوجود اس کا مطلب  یہ نہیں کہ اسلام عقلی  آزادیٔ محض    کا دین ہے بلکہ ایک ایسا منظم دین ہے کہ ہر ایک چیز کو دین کےڈسپلن کے تابع کرتا ہے اگر عقل دین سے ماوراء ہو تو وہ عقلی دلیل قابلِ قبول  نہیں ہو گی-محض عربی جان لینے سے اسلام کو سمجھنا محال ہے،بلکہ  جس ذات کا یہ کلام  ہے اس ذات کے کلام کو سمجھنے   کے لئے  اس کے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہےاوران مسلمہ اصولوں سے اس کا فہم حاصل کیا جا سکتا ہے جو بندوں کی راہنمائی کےلئے اس کے عطا کردہ ہیں  نہ کہ اس کے کلام کے  فہم کی بنیادمحض ان الفاظ پر رکھی جائے کہ جو مختلف تہذیبوں کے ارتقاء کے ساتھ بڑھے-

گویا عربی  زبان کا یہ بھی اپنا  اعجاز ہے کہ اس کے اوپر کسی دوسری زبان کی چھاپ نہیں،بلکہ اپنی حیثیت میں  ترقی یافتہ اور مکمل  ہے-قرآن کی صحت اورحفاظت کی حقیقت بھی  اظہر من الشمس ہے-کسی کلام اور عبارت کو سمجھنے کےلئےاس کے الفاظ اور متن سے  تعلق ضروری ہے-الفاظ ہی معنی و مفہوم تک رسائی کا ذریعہ ہوتے ہیں  اگر ان میں تنقض  موجودہو تو عبارت تذبذب کا شکار ہوجاتی ہے اور کچھ متعین  کرنا مشکل ہو جاتاہے لیکن اس کے برعکس قرآنی تحقیق و توثیق،ترتیب و ترکیب،جمع اور تدوین ہر دور میں مسلمہ رہی ہے-

تدریجاًنزول:

اس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی بار نازل نہیں فرمایا بلکہ تدریجاً آہستہ آہستہ  تقریباََتئیس (۲۳)سال کی مدت میں قرآن کا نزول ہوا-جس میں تیرہ (۱۳)سال مکی دور کے اور دس (۱۰)سال مدنی دور کے ہیں-قرآن فہمی کےلئے مکی و مدنی سورتوں سے واقفیت بھی ازحد ضروری ہے کیونکہ ہر ایک میں  اپنے وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے مضمون بیان ہوئے ہیں-آپ()کے اعلان نبوت اور قرآنِ مجید کے نزول سے پہلے معاشرہ مکمل   طور پر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا انسانوں کے مزاج میں عجیب سی کیفیت تھی برائی کو فخر سمجھا جاتا تھا-قرآن  نےاپنے تدریجی نزول کے مراحل میں ایسے احکام بیان فرمائےکہ جن میں فعلِ بد سے پرہیز کا حکم کراہتاً (disapprove)فرمایا لیکن جس کی حکمت کوشروع ہی میں بہت سے اہل ایمان نےجان لیا اور انہوں نے اپنے اوپر اس کو لازم کر لیا- بعد میں جب مزاجِ انسانی شرعی احکام کوبخوشی قبول کرنے لگی تو اس چیز کے متعلق حرام کا حکم فرما دیا گیا-قرآن مجید کی آیات  کا تقریبا تئیس (۲۳)سال کی ایک طویل مدت کے دوران اتارے جانے سے قرآن کے ترقی پسند وحی کا نظریہ  اور معاشرے کی ضروریات کودیکھتے ہوئے قرآن مجید کا ایک بار نازل نہ ہونااس  کا انسانی مزاج کے مطابق تصور و تخلیق اور تشکیلِ معاشرے کا منہ بولتاثبوت ہےجیساکہ قرآن میں فرمایا گیا ہےکہ:

’’وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً کَذٰلِکَج لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰـہُ تَرْتِیْلًاo وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰـکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْراً‘‘[5]

 

’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس (رسول) پر قرآن ایک ہی بار (یکجا کرکے) کیوں نہیں اتارا گیا یوں (تھوڑا تھوڑا کر کے اسے) تدریجاً اس لیے اتارا گیا ہے تاکہ ہم اس سے آپ کے قلبِ (اطہر) کو قوت بخشیں اور (اسی وجہ سے) ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ہے (تاکہ آپ کو ہمارے پیغام کے ذریعے بار بار سکونِ قلب ملتا رہے)اور یہ (کفار) آپ کے پاس کوئی (ایسی) مثال (سوال اور اعتراض کے طور پر) نہیں لاتے مگر ہم آپ کے پاس (اس کے جواب میں) حق اور (اس سے) بہتر وضاحت کا بیان لے آتے ہیں‘‘-

شان نزول و اسباب نزول:

’’حضرت محمد الرسول اللہ ()پر قرآن مختلف مناسبت اور مختلف مقامات پر کہیں کسی حادثہ کی خبر پر،تو  کبھی لوگوں کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات  میں تدریجی طور پر نازل ہوا ان تمام واقعات کو اسبابِ نزول سے یا”شان نزول“سے تعبیر کیا گیا ہے-جس موقع کی نسبت سے کوئی آیت نازل ہو ،اسے شانِ نزول کہتے ہیں[6]-

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

’’وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰـہُ لَتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰـہُ تَنْزِیْلاً‘‘[7]

 

’’اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کرکے اتارا تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے رفتہ رفتہ (حالات اور مصالح کے مطابق) تدریجاً اتارا ہے‘‘-

اس آیت کی تفسیر حضرت علامہ قاضی ثناء اللہ ؒ تفسیر ِ مظہری میں فرماتے  ہیں کہ:

’’ہم نے اسے(وحی کو) واقعات وحادثات کے مطابق تھوڑا تھوڑا اتارا‘‘ [8]-

قرآن مجید کے نزول کامختلف مواقع پراتارے جانے کے بارے میں  مفسر قرآن حافظ عماد الدین  ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ:

’’فَرقنا‘‘ تخفیف کے ساتھ ہو تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ ہم نے قرآن کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزت پر نازل فرمایا ،پھر تیئس(۲۳) سال کے عرصے میں حالات و واقعات کے مطابق اسے قسط وار رسول اللہ ()کی طرف اتارا‘‘- [9]

عموماً قرآن مجیدکا نزول  دو (۲)حصوں میں ہوا-

’’ایک قرآن مجید کا وہ حصہ جو بغیر کسی سوال یا حادثہ  کے نازل ہوا،ایسی آیات اکثر و بیشتر ماضی کے واقعات،مختلف انبیاء (علیہم السلام)اورسابقہ امتوں کے واقعات،مستقبل میں پیش آنے والے واقعات و حالات، آخرت کے متعلق،اجر و ثواب کی نوید و وعید والی آیات اور وعید پر مبنی یعنی  عذاب  کی آیات سے تعلق رکھتی ہیں-قرآن کا یہ  حصہ بغیر  کسی سوال یا سبب کے نازل ہوا-گویا سارا قرآن  ہدایت کا منبہ ہے،لیکن قرآن مجید میں ایک ایسی آیات کی  اچھی خاصی تعداد موجود ہے جن کو اتارنےکی غرض مخلوق خدا کو سیدھی راہ دکھاناہے یہ کسی واقعے کی طرف راہنمائی یا اشارہ نہیں کرتی لیکن یہ آیات سیاق و سباق کے ساتھ ربط اور   متصل ضرور ہیں، مگر کسی سوال کے جواب میں نازل نہیں ہوئی ‘‘-[10]

’’دوسرا قرآن مجید کا وہ حصہ جس کے نزول کا سبب، کوئی سوال،واقعہ،حادثہ اوراعتراضِ مشرکین ہو-تو ان امور کےجواب میں یہ آیات نازل ہوئیں-بعض اوقات ایک آیت کے متعدد اسباب ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک سبب کی وجہ سےمتعدد آیات نازل ہوتی ہیں اور ہر چند کہ آیت کسی خاص مورد اور واقعہ میں نازل ہولیکن جمہور آئمہ اور مفسرین کے نزدیک خصوصیت مورد کی بجائے عموم الفاظ کا اعتبار کیا جاتا ہے‘‘-[11]

کسی آیت کا سبب نزول معلوم ہونے کے بعد مسئلہ یہیں  تک نہیں رکتا،بلکہ  اس کے بعد اس حکم پر بات آتی ہےکہ اس آیت میں بیان کردہ امر کا اطلاق کس پرہوگا؟آیا کہ جس کی شان میں اتری یا ہرمسلمان پر اور ساتھ ہی ان الفاظ کو دیکھا جائے گا کہ آیا نازل کردہ الفاظ ہر ایک کےلئےتھے یا مخصوص حالات واقعات  میں  کسی خاص شخص  کےلئے ہیں؟اس کےلئے دیکھا جائے گا کہ ان آیات کے’’الفاظ کا اعتبار عام ہو اور سبب خاص‘‘ تو پھر کیا حکم ہوگا اور اگر ’’سبب بھی عام ہو اور آیت کےالفاظ بھی عام ہوں ‘‘یا پھر اس کے برعکس (خاص سبب اور آیت کے الفاظ خاص ہوں) تو پھر کیا سمجھاجائے گا؟

کسی آیت کا سبب نزول کا علم اس وقت کےحالات و واقعات،سیاق و سباق سے روشناس کرواتا ہے اور مسلمانوں کو باقی تمام امتوں پر یہ شرف حاصل ہے کہ ان کے نبی()پر نازل ہونے والی وحی کے حالات و واقعات تک محفوظ ہیں-قرآن مجید کا فہم وتفسیر سبب نزول کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ جو امور، حالات اور واقعات کسی آیت کے نزول کا سبب بنے یا جن حالات کے پیشِ نظراس کا نزول ہوا ان سے واقفیت بےحد ضروری ہےکہ یہ آیت کسی حادثہ یا کسی سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے-جس کے علم سےشبہات کا ازالہ ممکن ہے اور دیگر امور میں  بھی اس سے فوائد حاصل ہوتے ہیں-

ناسخ ومنسوخ:

اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ  مجید تدریجاً حالات و واقعات کے  مطابق اتارا-انسانی  فطرت و مزاج کے مطابق مرحلہ وار تربیت فرمائی  اور بتدریج احکام نازل فرمائے-انسانی مزاج پرگراں گزرنے والے یاطبیعت  کے بر خلاف حکم یکبارگی نازل نہیں فرمائے بلکہ  مرحلہ وار فرمائے کیونکہ قرآن ”انسان سازی“ کی کتاب ہے ”انسان سازی“ یعنی انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے، یہ ایسی کتاب ہے جس میں ہروہ چیزموجودہے جس کی اسے ضرورت ہے-معاشرے کی راہنمائی کے کارفرما اصول بھی انسان سازی کے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے نازل ہوئے جس کی وجہ سے قرآن میں کوئی ناسخ و منسوخ کے تصور کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے مختلف احکام نازل ہوئے- آئمۂ تفسیر نے نسخ کی بابت بہت عُمدہ تعریفات فرمائی ہیں ، مثلاً چند ایک کو دیکھیں:

’’نسخ کا معنی ہے:کسی چیز کو زائل اور متغیر کرنا،کسی چیز کو باطل کر کے دوسری چیز کو اس کا قائم مقام کرنا‘‘[12]-

’’نسخ سے مراد کسی حکم کی مستقل یا عارضی تنسیخ ، یا کسی حکم میں کوئی ترمیم ہے‘‘[13]-

علامہ  محمد عبد العظیم زرقانی لکھتے ہیں:

’’کسی حکم ِ شرعی کو دلیلِ شرعی سے ساقط کردینا نسخ ہے‘‘[14]- 

امام رازی ؒ فرماتے ہیں :

’’ناسخ وہ دلیلِ شرعی ہے جس سے یہ معلوم  ہوتا ہے کہ اس ناسخ سے پہلے جو حکم کسی دلیل شرعی سےثابت تھا وہ حکم اب نہیں اور نسخ کی یہ دلیل پہلے حکم کی دلیل سے متاخر ہوتی ہے اور اگر ناسخ نہ ہوتا تو وہی حکم ثابت رہتا‘‘[15]-

ان الفاظ سے بات مترشح ہوتی ہے کہ ناسخ و منسوخ کو معلوم کرنے کےلئے کسی حکم کا پہلے یا بعد میں نازل ہونے کا پتہ ہو تب ہی دو احکام میں سے ان کا ناسخ یا منسوخ ہونا بتایا جا سکتا ہے  اوروقتِ نزول کا پتہ لگانے  کےلئے کسی حکم کا تدریجاً نازل ہونے،اسبابِ نزول کا پتہ ہونا ضروری ہے تب ہی کسی حکم پر عمل کیا جا سکتاہے-   قرآن مجید میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّاللہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍط بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘[16]

 

’’اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے جو (کچھ) وہ نازل فرماتا ہے (تو) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ (آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت) نہیں جانتے‘‘-

تفسیراتِ احمدیہ میں مفسرِ قرآن ملااحمد  جیون فرماتے ہیں کہ :

’’روایات میں آتا ہے کہ کافروں نے نسخ قرآن پر طعنہ دینا شروع کردیا تھا اور کہتے تھے لوگو! ذرا دیکھوتو سہی کہ مسلمانوں کے نبی اپنے اصحاب کو ایک حکم پر عمل کرنے کو کہتے ہیں اور پھر اس سے منع بھی کردیتے ہیں اور پہلے حکم کےخلاف بات کرنے کو کہتے ہیں-ان بے وقوفوں نے، اللہ تعالیٰ کے ایسا کرنے میں جو راز اور بھید پوشیدہ تھے ان کاعلم نہ ہونے کی وجہ سے ،یہ گمان فاسد ذہنوں میں بٹھائے ہوئے تھے-ان کے ایسے خیالات کی تردید میں اللہ تعالی ٰ نے سورت البقرہ کی آیت نازل فرمائی-ہم کسی آیت کو جو مخلوق کی مصلحتوں کے موافق اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہو اگر منسوخ کر دیتے ہیں یا اپنے محبوب پیغمبر(ﷺ) کے قلب انور سے بھلا دیتے ہیں تو ہم اس آیت سے بہتر آیت عطا کر دیتے ہیں جس میں بندوں کے لئے نفع اور ثواب زیادہ ہوتا ہےیا پھر نفع  وثواب کے اعتبار سے اس پہلی آیت کی طرح کی آیت عطا کر دیتے ہیں‘‘[17]  -

آپ ؒ نسخ کے مغالطہ  میں پڑے ہوؤں کو تلقین کرتے ہوئے اور متنازع  بننے سے بچنے کےلئے اصول پر مبنی نسخ کی  تعریف  ایک حقیقی اور وضاحتی معنوں میں یوں بیان  فرماتےہیں  کہ:

’’شریعت میں نسخ کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:ایسا مطلق حکم شرعی جس کے بارے میں ہمارے ذہن میں یہ بات ہو کہ وہ قیامت تک کے لئے ہے ایسے حکم کی انتہاء اور مدت ختم ہونے پر واپس لے لینا ’’نسخ ‘‘ہے‘‘[18]-

مُفسرِ قرآن مُلااحمد  جیون نسخ کی حکمت اور وجہ کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

’’لہذا!ہمارے حق میں تووہ  ایک قسم کی تبدیلی ہوگئی کیونکہ اسے واپس لے لیا گیا-حالانکہ ہم اس میں دوام سمجھےتھے-لیکن صاحب شرع کے حق میں وہ ’’بیان محض‘‘ہو گا-یعنی اسے علم  تھا کہ یہ حکم کب تک جاری رکھا جائے گا-جب اس کے علم ازلی کے مطابق اس کی مدت پوری ہوگئی تو اسے واپس لے لیا گیا -اس کی مثال ’’مقتول‘‘سے دی جا سکتی ہے-ہمیں اس کی موت کا علم نہ تھا-لیکن جس وقت قتل ہو گیاتو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی موت کا وقت بیان کردیا-لہذا اس طرح کسی حکم کی مدت پوری ہونے پر اس پر عمل  درآمد موقوف کردینا بے وقوفی  نہیں کہلاتا-اس لئے ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ سفاہت کے الزام سے پاک ہے‘‘[19]-

مشرکین  کے اعتراض کا جواب اور وضاحت اللہ  رب العزت نے یوں  فرمایا:

’’مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَاط اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیْرٌ‘‘[20]

 

’’ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے‘‘-

لوگوں کے مزاج کو شریعت میں ڈھالنے، مخلوق کی مصلحتوں کے موافق اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق مختلف احکام منسوخ ہوئے جیسے شَراب جیسی بُری،غلیظ اور قبیح بیماری لوگ بڑے فخر سے استعمال کرتے تھے جس کےاستعمال کو تدریجاًحرام فرمایا اور پہلے نازل شدہ  احکام  کو جن میں  زیادہ سخت حکم نہ تھے  ان کو منسوخ  فرمایا اور نیا حکم ناسخ فرمایا-شراب کی حرمت پر پہلا حکم جو نازل ہوا اس  کے بارے میں اللہ جل شان نے فرمایاکہ:

’’یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا‘‘[21]

 

’’آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے ‘‘-

مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدگی کاذکر فرمایا اس کے بعد شراب  کی ممانعت نماز کے دوران فرمائی جس کےبارے میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ ‘‘[22]

 

’’اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو‘‘-

اس کے بعد واضح اور قطعی حکم شراب کی حرمت کا  نازل فرما دیا-

’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[23]

 

’’اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوأ اور (عبادت کے لیے) نصب کیے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لیے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں-سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ‘‘-

(جاری ہے)                                                 


[1](تبیان القرآن،جلد:۹،ص:۱۵۵)

[2](اصول الابزدوی،ج:۱،ص:۲۳)

[3](البقرۃ:۲۶)

[4](تِبیانُ القرآن،جلد :۱،صفحہ ۴۸)

[5](الفرقان:۳۲-۳۳)

[6](اسلامی قانون ایک تعارف، ج:۱،ص:۴۸)

[7](الاسراء:۱۰۶)

[8]( تفسیرمظہری،ج:۵،ص:۵۷۶)

[9](تفسیر ابنِ کثیر،ج:۳،ص:۱۲۱)

[10](تبیان القرآن، جلد:۱، ص:۸۶)

[11](تبیان القرآن، جلد:۱، ص:۸۶)

[12]( قاموس ،ج:۱،ص:۵۳۳)

[13](اسلامی قانون ایک تعارف،جلد:۱،ص:۳۴)

[14](مناہل العرفان،ج:۲،ص:۱۰۷)

[15]( تفسیرِکبیر،ج:۱،ص:۴۳۳)

[16](النحل:۱۰۱)

[17]( تفسیرات احمدیہ،ص:۳۵)

[18](ایضاً)

[19](ایضاً)

[20](البقرۃ:۱۰۶)

[21](البقرۃ:۲۱۹)

[22](النساء:۴۳)

[23](المائدہ:۹۰)

 اللہ رب العزت  نے روحِ آدم  اور اس کے خمیر میں فطرت کو ودیعت کردیا ہےجس کی بنیاد پر کہا’’ کہ   ہرپیدا ہونے والا بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتاہے‘‘[1]-بالفاظ دیگر یہ عیاں حقیقت ہے  کہ دینِ اسلام انسان کی  عقل،فطرت اور جبلت میں رکھا  گیاہے-انسانی پیدائش کے ساتھ ہی کچھ سوال ذہن میں جنم لیتے ہیں  کہ یہ کائنات کس نےبنائی؟ مجھے کس نے پیدا کیا ہے؟ مجھے کیوں پیدا کیا  گیاہے؟میری پیدائش میں کیا چیز کارفرما تھی؟ان تمام سوالوں کے جواب اور جہالت و تاریکی  میں ڈوبے ہوئے انسانی معاشروں کو  ہدایت کی راہ پر گامزن کرنے اورذہنِ انسانی کوشکوک و شبہات کی گرد سے صاف کرنے کے لئےوقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء اور رسل کرام(﷩) تشریف لاتے رہے اور انسانی  ڈوبتے سفینے  کو ہدایت کے کنارے سے ہمکنار کرتے رہے- سابقہ انبیاء(﷩)کی شریعت کا دائرہ کارمخصوص تھا-مگر ، دینِ اِسلام،آخری کتاب اور خاتم الانبیا (ﷺ) کی نبوت کا دائرہ کار اس سے مختلف تھا-یہ دین تمام برحق ادیان کا جامع، یہ کتاب تمام الہامی کتب کی جامع اور نبی آخر الزمان ()  جُملہ انبیا ء(﷩)کے جملہ کمالات کے جامع- اِسلام،قرآن اور نبی آخر الزمان () آنے والے ہر زمانے کیلئے ، ہر خطۂ زمین اور ہر طبقۂ انسانی کےلئے بلا امتیاز رنگ و نسل ہدایتِ کامل بن کرتشریف لائے-

دینِ اسلام کا بنیادی و اساسی منشا و مرضی مخلوق ِ خدا کا اللہ تعالیٰ  کے ساتھ  رابطہ استوارکرنا ،تعلقِ باللہ کو بحال و قائم ک

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر