عظمتِ قرآن بطور مآخذ قانون

عظمتِ قرآن بطور مآخذ قانون

عظمتِ قرآن بطور مآخذ قانون

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ جون 2017

اللہ رب العزت نے دینِ اسلام کو دینِ کامل،نبی کریم(ﷺ)کی ذاتِ مبارکہ  کو آخری نبی کی صورت میں جلوہ گر فرما کر سیرتِ طیبہ کو تمام عالم انسانیت کےسامنے  کامِل نمونے کے طور پر  پیش کر کے انعامِ خاص فرما یا-آپ(ﷺ)کے بعد نبوت کا دروازہ بندہوا اور اپنی آخری الہامی کتاب قرآن مجید کو   حضرت محمد رسول اللہ(ﷺ)پرلفظاً و معناً نازل فرمائی جوکہ بلا شک و شبہ متواتر ذرائع سے نقل درنقل ہم تک پہنچی-امتِ مسلمہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ ایسا دستورِ حیات اورآئینِ زندگی  رکھتی ہے جو کلام ِ الٰہی کی صورت میں موجود ہے جس سے تا ابد راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے-مستشرقین بالخصوص مغربی قانون دان قرآن مجیدفرقانِ حمیدکا بطورِ ماخذِ قانون کےعظمت و شان کا اعتراف یوں کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی مذہبی کتاب ہے جو کہ مذہب  کے علاوہ بھی تمام موضوعات پر رہنمائی فراہم کرتی ہے،یا یہ فقط مذہبی کتاب نہیں  کہ جس کا خالصتاً موضوع بیاں محض عقائد،عبادات و علم الکلام  کے فلسفے تک محدود ہو بلکہ دینِ اسلام  کا دینِ کامل ہونے کے کی حیثیت سے یہ کتاب زندگی کے تمام شعبوں کے لئے لائحہ عمل دیتی ہے-جس کاذکر  ’’Professor Massimo Campanini ‘‘نےاپنی کتاب میں ان الفاظ سے کیا ہے:

“The Quran has normative features and is not only a religious but also a system of rules.[1]

’’قرآن معیاری خصوصیات رکھتا ہےاور نہ صرف ایک مذہبی بلکہ قوانین کا ایک نظام ہے‘‘-

قران مجید بذاتِ خود اور  اس کی ادبی ساخت کوبھی عربی زبان سےبھی   مکمل طور پر بیان نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ لغتِ عربی کے تمام قوائد و ضوابط سے قرآن کے اصل متن کا احاطہ  کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس کافہم ِکامل حاصل کیا جا سکتا ہے ( ادبی لحاظ سے زبان اتنی وسیع ہے کہ ہر وقت معانی اور مفاہیم کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں)-یہی اعجازِ قرآن ہے کہ  اپنے اندر وہ معنویت رکھتا ہے کہ جس کا محاسبہ ممکن نہیں اس کی زبان کا ادراک اس فصاحت پر مبنی ہے کہ جس کا ادراک محض عقلِ انسانی سے کرنا  ناممکن  ہے جس کی مثال عرب کےوہ باسی ہیں جو اپنی زبان اور بیان کی مہارت اس  کمال درجہ کی  رکھتے تھےکہ دوسروں کوبڑےفخر سےگونگا(عجمی) گردانتے تھےلیکن قرآن جیسی ایک آیت مقابلے میں لا سکنا تو کجا بلکہ قرآن کے مفہوم کو سمجھنے سے بھی عاری تھے-جب ہم قرآن کے منفرد ادبی انداز کا جواب پانے کے لیے عربی ادب کو دیکھتے ہیں تو ہم اس کے اور کلامِ الٰہی  کے درمیان مکمل طورپر باہمی تعلق نہیں پاتے-باالفاظ دیگر الہامی کتاب ہونے کےاس کافہم و ادراک  کے لئے محض عربی زبان سے واقفیت اور عرب ماحول شناسی کافی نہیں بلکہ نہ صرف عقلِ انسانی اور دیگرعلوم سے واقفیت ضرور ی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ الہامی علم سے تعلق نہایت ضروری ہے ورنہ مختلف تہذیبوں کے ساتھ ارتقاء پانے والے  الفاظ اس کی وضاحت کرنے سےقاصرہیں-اسی لئے  علماء اُصولِ فقہ  نےقرآن کی تعریف میں فرمایا کہ:

’’قرآن کے ترجمہ پرقرآن مجید کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ قرآنِ مجید الفاظ عربیہ میں ہے‘‘- [2]

قران مجید کے اسلوب و طرزعمل وبیاں کومکمل طور پر احاطہ عمل میں لانا کسی ایک مفسر کے بس کی بات  نہیں کہ قرآن اپنے اندر رہتی دنیا تک کی تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے جبکہ مفسر قرآن میں موجود کسی حکم و لفظ کی اپنے عصر کو درپیش چیلنجز کے مطابق تفسیر بیان کرتاہےاور منطقی و قیاسی طریقہ استدلال سے قانون اخذ کرتا ہےجبکہ قرآن ہروقت تغیر پذیر  حالات کے مطابق رہنمائی کرتا ہے-جس کی  زندہ مثال بہت  سی ضخیم تفاسیر ہونے کے باوجود مسلسل نئی تفاسیر کا نئی جہتوں سے سامنے آنا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے-

’’قرآن اسلامی قانون کا بنیادی مأخذ ہے لیکن یہ کوئی’’ کوڈیفائڈ‘‘شکل میں نہیں-مأخذ عربی زبان کا لفظ ہےاس سے ملتے جلتے کئی الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں، جیسے مصدر وہ جگہ ہے جہا ں سے کوئی شے صادر ہوتی ہو-مخرج وہ مقام ہوتا ہے جہاں  سے کوئی چیز خارج ہوتی ہو-اسی طرح مأخذ وہ جگہ ہے جہاں سے کچھ اخذ کیا جائے یا حاصل کیا جائے-اخذ کی جمع مآخذہے-شرعی اصطلاح میں مأخذ وہ مقام ہے جہاں سے شرعی احکام اخذکئے جاتے ہیں-مآخذ کو تشریعی مصادر بھی کہتے ہیں-بعض فقہاء انہیں اصول احکام اور کچھ فقہا انہیں ادلتہ الاحکام کہتے ہیں‘‘- [3]

پوری امت کا اتفاق  ہے کہ قرآن قانونِ الٰہی کا پہلا ذریعہ ہے اور در حقیقت دیگر تمام مآخذ کی اصل اور بنیاد یہی ایک کتاب ہےجس سے باقی مصادر و مخرج کاثبوت ملتا ہے یہ تمام انسانی اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے جیساکہ اخلاقی،روحانی،قانونی اور عالمی پہلوؤں کا- زمانۂ حاضر کےمعروف مستشرق اور یونیورسٹی آف نیو یارک کے پروفیسر ڈاکٹر ولیئم سی چیٹک نے بھی اپنی تحقیق میں اہلِ مغرب کو اِسی جانب متوجہ کیا ہے کہ اسلام کے جملہ علوم کی طرح قانونِ اسلامی یعنی فقہ کی اساس و بُنیاد بھی قرآن کریم ہی سے مآخذ ہ-ولیئم سی چیٹک لکھتے ہیں :

’’عمل کے بارے میں قرآنی تعلیمات کو منظم انداز میں پیش کرنے کی مثال فقہ ہے-سو فقہ کی ’’اصل‘‘ یا اوّلین مآخذ بھی قرآن ہی ٹھہرتا ہے-قرآنی تعلیمات پر بُنیاد رکھ کر اور اس میں حدیث اور دیگر مآخذ سے استفادہ کے ذریعے اضافہ کرکے فقہائے اسلام نے اسلامی علوم کے ایک بڑے شُعبے کی بُنیاد رکھی[4] ‘‘-

قرآن مجیدمیں کچھ موضوعات جو کسی معاشرےمیں بنیادی عناصر کےطورپرضروری نوعیت کے حامل ہوتےہیں ان معاشرتی عوامل کے بارے میں خاص قسم کی آیات کریمہ کو اُتار کر قانونی احکامات دئیے گئےہیں-جو آیات تشکیل ِمعاشرے کےمتعلق بالخصوص نازل ہوئیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

‘‘There are approximately six hundred verses in the Quran that indicate the “ahkam” of Islamic law. Approximately five hundred of these pertain to the Ibadat and the reasoning to crimes, personal law and other mu’amalat (transactions). To be specific, about 70 verses pertain to family law, 80 to trade and finance, 13 to oath, 30 to crimes and sentencing,10 to constitutional and administrative matters, 25 to international law and prisoners of war, while the rest pertain to ibadat.’’[5]

’’قرآن مجید میں تقریباً چھ سو(۶۰۰) آیات موجود ہیں جن سےاسلامی قانون کے احکام کی نشاندہی  ہوتی ہے-ان میں سے تقریباً پانچ سو(۵۰۰) آیات عبادات کے متعلق ہیں اور دیگرآیات سے جرائم،پرسنل لا(انفرادی یا ذاتی قانون)اور دیگرمعاملات کا استدلال )حاصل ہوتا ہے-بالخصوص ستر (۷۰) آیات سے عائلی قوانین، اسی(۸۰)سےتجارت اور مالیاتی(دیوانی نوعیت کے)،تیرہ(۱۳)سے شہادت و قسم،تیس (۳۰)سے جرم وسزا(فوجداری نوعیت کے)،دس (۱۰)سے آئینی اور انتظامی معاملات (نظامِ حکومت)، پچیس(۲۵) سےبین الاقوامی قانون اور جنگی قیدیوں(صلح وجنگ اور دوسری ریاستوں کے ساتھ  معاہدہ کرنے کے رہنما اُصول  پر مبنی ) کے متعلق احکامات  حاصل ہوتے ہیں،جبکہ باقی آیات   عبادات سے متعلق ہیں‘‘-

قرآن مجیدنےکچھ موضوعات کاحکمِ خاص فرمانے کے علاوہ عمومی اُصول (General Principles)متعارف کروائے ہیں جن کی روشنی میں باقی قوانین تشکیل دئیےجاسکتےہیں-دوسرےالفاظ میں قرآن نے کچھ قانون تو بلاواسطہ عطا کئے ہیں  اس کے ساتھ ہی کچھ اصول دیئے ہیں کہ جن کی روشنی میں نئے مسائل کو حل کیا جا سکتاہے-

اصول سے مراد:اصول کے لغوی معنی ہیں قاعدہ،طورطریقہ،بنیادیں یا جڑیں وغیرہ اور یہ جمع ہے اصل کی‘‘-[6]

وہ اُصول اپنی حیثیت میں ایسے  آفاقی نوعیت کے ہیں کہ ان اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کےتقاضوں کے  مطابق نئے قانون انہیں اصولوں کی روشنی میں ترتیب دئیے جا سکتےہیں اور یہی اُصول  ہی اسلام میں وہ  خوبصورتی پیدا  کرتے ہیں کہ یہ مختلف تہذہبوں کو اپنے اندر جذب کرنےکی صلاحیت رکھتاہے اور ہر معاشرےکو اپنے سے دامن گیر کر لیتا ہے اور یکسر معاشرتی تبدیلیوں کو اپنے اندر سمونےکی قوت و طاقت رکھتے ہیں-قرآن  نے اپنے دئیے ہوئے  اصولوں سے وہ نئےقانون تشکیل دینے کے لئے حدود و قیود واضح کر دی ہیں کہ جن سے تجاوز کر کےکوئی اسلامی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)قانون وضع نہیں کر سکتی-قرآن کےاُصولوں،قرآن کےبحیثیت اجتماعی طرزبیان سےاستدلال کرتے ہوئے اور مقاصد شریعت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پروفیسر ’’Havva G. Guney-Ruebenacker‘‘  جو کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی شعبۂ قانون میں ہیں اور  ’’traditional law  Islamic‘‘پر’’expertise‘‘ رکھتی ہیں قرآن کے بطورِ ماخذ قانون کایوں برملااعتراف کرتے ہیں-

The Qur’an deals with legal and social issues at a secondary level and only to the extent necessary to give some guide lines to pursue the higher principles, purposes and policies of divine revelation, called ‘Maqasid al-Shari’ah,’ such as protection of human life, human reason, offspring (protection of family), right to property and freedom of speech.” [7]

’’قرآنِ مجید ثانوی سطح پرقانونی اور سماجی مسائل سے نمٹتا ہے اورصرف ضروری حد تک  اعلیٰ اصولوں،مقاصد اور وحی الہی کی مصلحت و حکمت کو حاصل کرنے کےلئے راہنما اُصول دیتا ہے جو کہ مقاصدِ شریعہ کہلاتےہیں جیسے کہ حیاتِ انسانی،عقلِ انسانی،خاندانی نظام،حقِ جائیداد اور آزادی اظہار کا تحفظ‘‘-

قرآنِ مجید  بنیادی طور پر اپنی اندرونی ساخت میں اُن آفاقی و ابدی اصولوں پر عبارت ہیں جو ہر وقت و ہر لحظہ غیر مبدل و غیر متغیر  ہیں جس کا اندازہ اس کی فصیح و بلیغ زبان،اس کےاجمالی اندازِ بیان اوراس میں  پائے جانے والے آفاقی و عالمگیر نوعیت  کے اُصولوں  سے  واضح ہیں- مگر اپنے بنیادی اُصولوں کے بعد ثانوی معاملات کوطے کرنے کےلئے  مسلمانوں کے دائرہ اختیار میں دیا ہے کہ جو غیرمستقل،مسلسل تغیر پذیری کےمراتب و مراحل سے ہم کنار ہوتے ہیں اپنےبنیادی،مستقل اور آفاقی اصولوں کو متعارف کروانے کے بعد  اُن اُصولوں کی روشنی میں قانون خود بنانے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جن کووہ اپنی بصیرت کے ذریعے حل کر سکتے ہیں-انہی قرآن کےعطاکردہ آفاقی اُصولوں کوسمجھنے کےبعد جو کہ اپنی حقیقت میں سچے ہیں فرانسیسی ڈکٹیٹر نپولین نےیہ امید ظاہرکی تھی کہ ان کودنیامیں نافذ کر کے تمام ممالک کے لوگوں کےلئے متحدو یکساں حکومت قائم کی جاسکتی ہے-جس کا اعتراف وہ  یوں کرتاہےکہ:

‘‘I hope the time is not far off when I shall be able to unite all the wise and educated men of all the countries and establish a uniform regime based on the principles of Qur'an which alone are true and which alone can lead men to happiness’’.[8]

’’مجھے امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب میں اس قابل ہو جاؤں گا کہ تمام ممالک کے دانش مند اور تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کے  اصولوں کی بنیاد پر اکٹھا کر کے ایک حکومت تشکیل دوں گا کیونکہ صرف یہ ہی وہ اصول ہیں  جو سچےہیں  اور جولوگوں کو خوشی مہیاکرسکتےہیں‘‘-

قرآن اسلامی اقدار کی ماخذ کتاب جس کا  اہم حصہ وسیع،عمومی اخلاقی اُصولوں کے متعلق مسلمانوں کے مقاصد اور ان کی امنگوں کی ہدایات پر مشتمل ہے-قرآن کے تدریجاً نزول اور ناسخ ومنسوخ کے تصور کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی آیات  کا تقریباً تئیس(۲۳) سال کی ایک طویل مدت کے دوران اتارے جانے سے قرآن کے ترقی پسند وحی اور معاشرے کی ضروریات کودیکھتےاور  پورا کرتے ہوئے تمام قرآن مجید کا ایک بار نازل نہ ہونا قرآن کا تصورِ تشکیلِ معاشرے کا منہ بولتا ثبوت ہے-قرآن کے عطا کردہ اوراس سے  اخذ کردہ  اصولوں کا اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اخلاقیات سے بنیادی تعلق ہے-قرآن کا تخلیقِ معاشرہ کے لئے دیئے گئے اصولوں کا اعتراف ’’N.J.Coulson  ‘‘جو کہ ’’اؤرئنٹیل سکول آف لاء ،یونیورسٹی آف لندن‘‘ کے پروفیسرتھے  ان الفاظ میں کرتےہیں-

‘‘Naturally enough therefore the religious message of the founder-prophet of Islam, the purpose of which included the establishing certain basic standards of behavior for the Muslim community, precedes, both in point of time  emphasis, his role as political legislator. Accordingly so called legal matter of the Quran consists mainly broad and general propositions as to what the aims and aspirations of Muslim society should be.’’[9]

’’لہٰذا فطری طور پہ بانیٔ اسلام حضرت محمد(ﷺ) کا مذہبی پیغام اس مقصد کے لیے کافی ہے جو کہ مسلم معاشرے کے رویوں کے بنیادی معیار کو قائم کرتا ہے-نتیجتاً ان  کے سیاسی مجتہدکے طور پر کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے،اسی طرح  قرآن مجید سے موسوم قانونی معاملات وسیع معانی پر مشتمل ہیں کہ  مسلم معاشرے کے مقاصد  اور امنگیں کیا ہونے چاہیں‘‘-

تمام  فقہا و ماہرینِ اصول اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن اسلامی قانون کا پہلا بنیادی مأخذ ہے تاہم یہ اسلامی قانونی نظام کی بنیادی قانون سازی  کےلئے اصول اور ڈھانچہ فراہم کرتا ہے-اس کی بطورِ مأخذ مستند ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ بلاواسطہ کلامِ الٰہی ہےاور دیگرذرائع مأخذ اسلامی قانون کو سند اور ’’validity‘‘قرآن سے ہی ملتی ہے-قرآن کو سمجھنے کے  لئےقرآن کے’’recognize‘‘ کردہ دیگر مأخذ  سے رجوع و معاونت ضروری ہوجاتی ہےکہ الہامی کلام،قرآن مجیدکو سمجھنے کے لئے وحی پر مبنی الہامی کلام(احادیث مبارکہ)اورعقلِ انسانی جو وحی کے تابع ہو الہامی کلام کی تعبیر و تشریح کرنے اور فہم کے لئےمددکرتی ہیں-

٭٭٭


[1](Campanini, M. (2016). The Qur'an: the basics.P#55 Routledge)

[2](تِبیانُ القرآن،جلد:۱،ص:۴۸)

[3](اسلامی قانون ایک تعارف،جلد:۱،ص:۱۹)

[4] (The Vision of Islam, P# 43)

[5](Outlines of Islamic Jurisprudence: P#148.)

[6](فیروز اللغات اردوجامع،ص:۱۰۲)

[7](http://www.averroes-foundation.org/articles/islamic_law_evolving.html)

[8]( Napolean Bonaparte as Quoted in Christian Cherfils, ‘Bonaparte et Islam,’ Pedone Ed., Paris, France, 1914, pp. 105, 125)

[9](Coulson, N. J. (2011). A history of Islamic law.P#11 EDINBURGH UNIVERSITY PRESS)

اللہ رب العزت نے دینِ اسلام کو دینِ کامل،نبی کریم(ﷺ)کی ذاتِ مبارکہ  کو آخری نبی کی صورت میں جلوہ گر فرما کر سیرتِ طیبہ کو تمام عالم انسانیت کےسامنے  کامِل نمونے کے طور پر  پیش کر کے انعامِ خاص فرما یا-آپ(ﷺ)کے بعد نبوت کا دروازہ بندہوا اور اپنی آخری الہامی کتاب قرآن مجید کو   حضرت محمد رسول اللہ(ﷺ)پرلفظاً و معناً نازل فرمائی جوکہ بلا شک و شبہ متواتر ذرائع سے نقل درنقل ہم تک پہنچی-امتِ مسلمہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ ایسا دستورِ حیات اورآئینِ زندگی  رکھتی ہے جو کلام ِ الٰہی کی صورت میں موجود ہے جس سے تا ابد راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے-مستشرقین بالخصوص مغربی قانون دان قرآن مجیدفرقانِ حمیدکا بطورِ ماخذِ قانون کےعظمت و شان کا اعتراف یوں کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی مذہبی کتاب ہے جو کہ مذہب  کے علاوہ بھی تمام موضوعات پر رہنمائی فراہم کرتی ہے،یا یہ فقط مذہبی کتاب نہیں  کہ جس کا خالصتاً موضوع بیاں محض عقائد،عبادات و علم الکلام  کے فلسفے تک محدود ہو بلکہ دینِ اسلام  کا دینِ کامل ہونے کے کی حیثیت سے یہ کتاب زندگی کے تمام شعبوں کے لئے لائحہ عمل دیتی ہے-جس کاذکر  ’’Professor Massimo Campanini ‘‘نےاپنی کتاب میں ان الفاظ سے کیا ہے:

“The Quran has normative features and is not only a religious but also a system of rules.[1]

’’قرآن معیاری خصوصیات رکھتا ہےاور نہ صرف ایک مذہبی بلکہ قوانین کا ایک نظام ہے‘‘-

قران مجید بذاتِ خود اور  اس کی ادبی ساخت کوبھی عربی زبان سےبھی   مکمل طور پر بیان نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ لغتِ عربی کے تمام قوائد و ضوابط سے قرآن کے اصل متن کا احاطہ  کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس کافہم ِکامل حاصل کیا جا سکتا ہے ( ادبی لحاظ سے زبان اتنی وسیع ہے کہ ہر وقت معانی اور مفاہیم کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں)-یہی اعجازِ قرآن ہے کہ  اپنے اندر وہ معنویت رکھتا ہے کہ جس کا محاسبہ ممکن نہیں اس کی زبان کا ادراک اس فصاحت پر مبنی ہے کہ جس کا ادراک محض عقلِ انسانی سے کرنا  ناممکن  ہے جس کی مثال عرب کےوہ باسی ہیں جو اپنی زبان اور بیان کی مہارت اس  کمال درجہ کی  رکھتے تھےکہ دوسروں کوبڑےفخر سےگونگا(عجمی) گردانتے تھےلیکن قرآن جیسی ایک آیت مقابلے میں لا سکنا تو کجا بلکہ قرآن کے مفہوم کو سمجھنے سے بھی عاری تھے-جب ہم قرآن کے منفرد ادبی انداز کا جواب پانے کے لیے عربی ادب کو دیکھتے ہیں تو ہم اس کے اور کلامِ الٰہی  کے درمیان مکمل طورپر باہمی تعلق نہیں پاتے-باالفاظ دیگر الہامی کتاب ہونے کےاس کافہم و ادراک  کے لئے محض عربی زبان سے واقفیت اور عرب ماحول شناسی کافی نہیں بلکہ نہ صرف عقلِ انسانی اور دیگرعلوم سے واقفیت ضرور ی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ الہامی علم سے تعلق نہایت ضروری ہے ورنہ مختلف تہذیبوں کے ساتھ ارتقاء پانے والے  الفاظ اس کی وضاحت کرنے سےقاصرہیں-اسی لئے  علماء اُصولِ فقہ  نےقرآن کی تعریف میں فرمایا کہ:

’’قرآن کے ترجمہ پرقرآن مجید کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ قرآنِ مجید الفاظ عربیہ میں ہے‘‘- [2]

قران مجید کے اسلوب و طرزعمل وبیاں کومکمل طور پر احاطہ عمل میں لانا کسی ایک مفسر کے بس کی بات  نہیں کہ قرآن اپنے اندر رہتی دنیا تک کی تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے جبکہ مفسر قرآن میں موجود کسی حکم و لفظ کی اپنے عصر کو درپیش چیلنجز کے مطابق تفسیر بیان کرتاہےاور منطقی و قیاسی طریقہ استدلال سے قانون اخذ کرتا ہےجبکہ قرآن ہروقت تغیر پذیر  حالات کے مطابق رہنمائی کرتا ہے-جس کی  زندہ مثال بہت  سی ضخیم تفاسیر ہونے کے باوجود مسلسل نئی تفاسیر کا نئی جہتوں سے سامنے آنا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے-

’’قرآن اسلامی قانون کا بنیادی مأخذ ہے لیکن یہ کوئی’’ کوڈیفائڈ‘‘شکل میں نہیں-مأخذ عربی زبان کا لفظ ہےاس سے ملتے جلتے کئی الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں، جیسے مصدر وہ جگہ ہے جہا ں سے کوئی شے صادر ہوتی ہو-مخرج وہ مقام ہوتا ہے جہاں  سے کوئی چیز خارج ہوتی ہو-اسی طرح مأخذ وہ جگہ ہے جہاں سے کچھ اخذ کیا جائے یا حاصل کیا جائے-اخذ کی جمع مآخذہے-شرعی اصطلاح میں مأخذ وہ مقام ہے جہاں سے شرعی احکام اخذکئے جاتے ہیں-مآخذ کو تشریعی مصادر بھی کہتے ہیں-بعض فقہاء انہیں اصول احکام اور کچھ فقہا انہیں ادلتہ الاحکام کہتے ہیں‘‘- [3]

پوری امت کا اتفاق  ہے کہ قرآن قانونِ الٰہی کا پہلا ذریعہ ہے اور در حقیقت دیگر تمام مآخذ کی اصل اور بنیاد یہی ایک کتاب ہےجس سے باقی مصادر و مخرج کاثبوت ملتا ہے یہ تمام انسانی اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے جیساکہ اخلاقی،روحانی،قانونی اور عالمی پہلوؤں کا- زمانۂ حاضر کےمعروف مستشرق اور یونیورسٹی آف نیو یارک کے پروفیسر ڈاکٹر ولیئم سی چیٹک نے بھی اپنی تحقیق میں اہلِ مغرب کو اِسی جانب متوجہ کیا ہے کہ اسلام کے جملہ علوم کی طرح قانونِ اسلامی یعنی فقہ کی اساس و بُنیاد بھی قرآن کریم ہی سے مآخذ ہ-ولیئم سی چیٹک لکھتے ہیں :

’’عمل کے بارے میں قرآنی تعلیمات کو منظم انداز میں پیش کرنے کی مثال فقہ ہے-سو فقہ کی ’’اصل‘‘ یا اوّلین مآخذ بھی قرآن ہی ٹھہرتا ہے-قرآنی تعلیمات پر بُنیاد رکھ کر اور اس میں حدیث اور دیگر مآخذ سے استفادہ کے ذریعے اضافہ کرکے فقہائے اسلام نے اسلامی علوم کے ایک بڑے شُعبے کی بُنیاد رکھی[4] ‘‘-

قرآن مجیدمیں کچھ موضوعات جو کسی معاشرےمیں بنیادی عناصر کےطورپرضروری نوعیت کے حامل ہوتےہیں ان معاشرتی عوامل کے بارے میں خاص قسم کی آیات کریمہ کو اُتار کر قانونی احکامات دئیے گئےہیں-جو آیات تشکیل ِمعاشرے کےمتعلق بالخصوص نازل ہوئیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

‘‘There are approximately six hundred verses in the Quran that indicate the “ahkam” of Islamic law. Approximately five hundred of these pertain to the Ibadat and the reasoning to crimes, personal law and other mu’amalat (transactions). To be specific, about 70 verses pertain to family law, 80 to trade and finance, 13 to oath, 30 to crimes and sentencing,10 to constitutional and administrative matters, 25 to international law and prisoners of war, while the rest pertain to ibadat.’’[5]

’’قرآن مجید میں تقریباً چھ سو(۶۰۰) آیات موجود ہیں جن سےاسلامی قانون کے احکام کی نشاندہی  ہوتی ہے-ان میں سے تقریباً پانچ سو(۵۰۰) آیات عبادات کے متعلق ہیں اور دیگرآیات سے جرائم،پرسنل لا(انفرادی یا ذاتی قانون)اور دیگرمعاملات کا استدلال )حاصل ہوتا ہے-بالخصوص ستر (۷۰) آیات سے عائلی قوانین، اسی(۸۰)سےتجارت اور مالیاتی(دیوانی نوعیت کے)،تیرہ(۱۳)سے شہادت و قسم،تیس (۳۰)سے جرم وسزا(فوجداری نوعیت کے)،دس (۱۰)سے آئینی اور انتظامی معاملات (نظامِ حکومت)، پچیس(۲۵) سےبین الاقوامی قانون اور جنگی قیدیوں(صلح وجنگ اور دوسری ریاستوں کے ساتھ  معاہدہ کرنے کے رہنما اُصول  پر مبنی ) کے متعلق احکامات  حاصل ہوتے ہیں،جبکہ باقی آیات   عبادات سے متعلق ہیں‘‘-

قرآن مجیدنےکچھ موضوعات کاحکمِ خاص فرمانے کے علاوہ عمومی اُصول (General Principles)متعارف کروائے ہیں جن کی روشنی میں باقی قوانین تشکیل دئیےجاسکتےہیں-دوسرےالفاظ میں قرآن نے کچھ قانون تو بلاواسطہ عطا کئے ہیں  اس کے ساتھ ہی کچھ اصول دیئے ہیں کہ جن کی روشنی میں نئے مسائل کو حل کیا جا سکتاہے-

اصول سے مراد:اصول کے لغوی معنی ہیں قاعدہ،طورطریقہ،بنیادیں یا جڑیں وغیرہ اور یہ جمع ہے اصل کی‘‘-[6]

وہ اُصول اپنی حیثیت میں ایسے  آفاقی نوعیت کے ہیں کہ ان اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کےتقاضوں کے  مطابق نئے قانون انہیں اصولوں کی روشنی میں ترتیب دئیے جا سکتےہیں اور یہی اُصول  ہی اسلام میں وہ  خوبصورتی پیدا  کرتے ہیں کہ یہ مختلف تہذہبوں کو اپنے اندر جذب کرنےکی صلاحیت رکھتاہے اور ہر معاشرےکو اپنے سے دامن گیر کر لیتا ہے اور یکسر معاشرتی تبدیلیوں کو اپنے اندر سمونےکی قوت و طاقت رکھتے ہیں-قرآن  نے اپنے دئیے ہوئے  اصولوں سے وہ نئےقانون تشکیل دینے کے لئے حدود و قیود واضح کر دی ہیں کہ جن سے تجاوز کر کےکوئی اسلامی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)قانون وضع نہیں کر سکتی-قرآن کےاُصولوں،قرآن کےبحیثیت اجتماعی طرزبیان سےاستدلال کرتے ہوئے اور مقاصد شریعت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پروفیسر ’’Havva G. Guney-Ruebenacker‘‘  جو کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی شعبۂ قانون میں ہیں اور  ’’traditional law  Islamic‘‘پر’’expertise‘‘ رکھتی ہیں قرآن کے بطورِ ماخذ قانون کایوں برملااعتراف کرتے ہیں-

The Qur’an deals with legal and social issues at a secondary level and only to the extent necessary to give some guide lines to pursue the higher principles, purposes and policies of divine revelation, called ‘Maqasid al-Shari’ah,’ such as protection of human life, human reason, offspring (protection of family), right to property and freedom of speech.” [7]

’’قرآنِ مجید ثانوی سطح پرقانونی اور سماجی مسائل سے نمٹتا ہے اورصرف ضروری حد تک  اعلیٰ اصولوں،مقاصد اور وحی الہی کی مصلحت و حکمت کو حاصل کرنے کےلئے راہنما اُصول دیتا ہے جو کہ مقاصدِ شریعہ کہلاتےہیں جیسے کہ حیاتِ انسانی،عقلِ انسانی،خاندانی نظام،حقِ جائیداد اور آزادی اظہار کا تحفظ‘‘-

قرآنِ مجید  بنیادی طور پر اپنی اندرونی ساخت میں اُن آفاقی و ابدی اصولوں پر عبارت ہیں جو ہر وقت و ہر لحظہ غیر مبدل و غیر متغیر  ہیں جس کا اندازہ اس کی فصیح و بلیغ زبان،اس کےاجمالی اندازِ بیان اوراس میں  پائے جانے والے آفاقی و عالمگیر نوعیت  کے اُصولوں  سے  واضح ہیں- مگر اپنے بنیادی اُصولوں کے بعد ثانوی معاملات کوطے کرنے کےلئے  مسلمانوں کے دائرہ اختیار میں دیا ہے کہ جو غیرمستقل،مسلسل تغیر پذیری کےمراتب و مراحل سے ہم کنار ہوتے ہیں اپنےبنیادی،مستقل اور آفاقی اصولوں کو متعارف کروانے کے بعد  اُن اُصولوں کی روشنی میں قانون خود بنانے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جن کووہ اپنی بصیرت کے ذریعے حل کر سکتے ہیں-انہی قرآن کےعطاکردہ آفاقی اُصولوں کوسمجھنے کےبعد جو کہ اپنی حقیقت میں سچے ہیں فرانسیسی ڈکٹیٹر نپولین نےیہ امید ظاہرکی تھی کہ ان کودنیامیں نافذ کر کے تمام ممالک کے لوگوں کےلئے متحدو یکساں حکومت قائم کی جاسکتی ہے-جس کا اعتراف وہ  یوں کرتاہےکہ:

‘‘I hope the time is not far off when I shall be able to unite all the wise and educated men of all the countries and establish a uniform regime based on the principles of Qur'an which alone are true and which alone can lead men to happiness’’.[8]

’’مجھے امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب میں اس قابل ہو جاؤں گا کہ تمام ممالک کے دانش مند اور تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کے  اصولوں کی بنیاد پر اکٹھا کر کے ایک حکومت تشکیل دوں گا کیونکہ صرف یہ ہی وہ اصول ہیں  جو سچےہیں  اور جولوگوں کو خوشی مہیاکرسکتےہیں‘‘-

قرآن اسلامی اقدار کی ماخذ کتاب جس کا  اہم حصہ وسیع،عمومی اخلاقی اُصولوں کے متعلق مسلمانوں کے مقاصد اور ان کی امنگوں کی ہدایات پر مشتمل ہے-قرآن کے تدریجاً نزول اور ناسخ ومنسوخ کے تصور کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی آیات  کا تقریباً تئیس(۲۳) سال کی ایک طویل مدت کے دوران اتارے جانے سے قرآن کے ترقی پسند وحی اور معاشرے کی ضروریات کودیکھتےاور  پورا کرتے ہوئے تمام قرآن مجید کا ایک بار نازل نہ ہونا قرآن کا تصورِ تشکیلِ معاشرے کا منہ بولتا ثبوت ہے-قرآن کے عطا کردہ اوراس سے  اخذ کردہ  اصولوں کا اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اخلاقیات سے بنیادی تعلق ہے-قرآن کا تخلیقِ معاشرہ کے لئے دیئے گئے اصولوں کا اعتراف ’’N.J.Coulson  ‘‘جو کہ ’’اؤرئنٹیل سکول آف لاء ،یونیورسٹی آف لندن‘‘ کے پروفیسرتھے  ان الفاظ میں کرتےہیں-

‘‘Naturally enough therefore the religious message of the founder-prophet of Islam, the purpose of which included the establishing certain basic standards of behavior for the Muslim community, precedes, both in point of time  emphasis, his role as political legislator. Accordingly so called legal matter of the Quran consists mainly broad and general propositions as to what the aims and aspirations of Muslim society should be.’’[9]

’’لہٰذا فطری طور پہ بانیٔ اسلام حضرت محمد(ﷺ) کا مذہبی پیغام اس مقصد کے لیے کافی ہے جو کہ مسلم معاشرے کے رویوں کے بنیادی معیار کو قائم کرتا ہے-نتیجتاً ان  کے سیاسی مجتہدکے طور پر کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے،اسی طرح  قرآن مجید سے موسوم قانونی معاملات وسیع معانی پر مشتمل ہیں کہ  مسلم معاشرے کے مقاصد  اور امنگیں کیا ہونے چاہیں‘‘-

تمام  فقہا و ماہرینِ اصول اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن اسلامی قانون کا پہلا بنیادی مأخذ ہے تاہم یہ اسلامی قانونی نظام کی بنیادی قانون سازی  کےلئے اصول اور ڈھانچہ فراہم کرتا ہے-اس کی بطورِ مأخذ مستند ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ بلاواسطہ کلامِ الٰہی ہےاور دیگرذرائع مأخذ اسلامی قانون کو سند اور ’’validity‘‘قرآن سے ہی ملتی ہے-قرآن کو سمجھنے کے  لئےقرآن کے’’recognize‘‘ کردہ دیگر مأخذ  سے رجوع و معاونت ضروری ہوجاتی ہےکہ الہامی کلام،قرآن مجیدکو سمجھنے کے لئے وحی پر مبنی الہامی کلام(احادیث مبارکہ)اورعقلِ انسانی جو وحی کے تابع ہو الہامی کلام کی تعبیر و تشریح کرنے اور فہم کے لئےمددکرتی ہیں-

٭٭٭



[1]( Campanini, M. (2016). The Qur'an: the basics.P#55 Routledge)

[2](تِبیانُ القرآن،جلد:۱،ص:۴۸)

[3](اسلامی قانون ایک تعارف،جلد:۱،ص:۱۹)

[4] (The Vision of Islam, P# 43)

[5]( Outlines of Islamic Jurisprudence: P#148.)

[6](فیروز اللغات اردوجامع،ص:۱۰۲)

[7](http://www.averroes-foundation.org/articles/islamic_law_evolving.html)

[8]( Napolean Bonaparte as Quoted in Christian Cherfils, ‘Bonaparte et Islam,’ Pedone Ed., Paris, France, 1914, pp. 105, 125)

[9]( Coulson, N. J. (2011). A history of Islamic law.P#11 EDINBURGH UNIVERSITY PRESS)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر