عظمتِ قرآن

عظمتِ قرآن

ارشادِ ربانی ہے:

’’ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً‘‘[1]

’’بے شک مَیں زمین میں اپنا نائب بنانے لگا ہوں‘‘-

حضرت آدم ؑ مسجود ملائکہ کو خلیفۃ اللہ کا منصب دے کر اہل ارض کی طرف مبعوث فرمایا اور نسلاً بعد نسلٍ نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری رہا- لہٰذا ارسال و ایحائے خداوندی ، کتب اور صحائف کی شکل میں ہوتا رہا جس سے تبشیر اور تنذیر کا عمل نبیوں اور رسولوں کےذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کے لیے رُوبہ سفر رہا- یعنی بقول شاعر:

جب آدمؑ کو رب سے خلافت ملی
تو بخشا گیا شرفِ پیغمبری
بڑھی آگے جب نسلِ انسانیت
تو دیگر رسولوں کی بعثت ہوئی

کرۂ ارض کی طرف کتب سماویہ اور صحائف قدسیہ کا سلسلہ برابر جاری رہا جن میں سے کچھ کا تذکرہ قرآن و حدیث میں وحی متلو و غیر متلوکی شکل میں ہوتا رہا-کچھ کتب اپنے باطن میں حقائق رکھنے کے باوجود ایحائے ایزدی میں مذکور نہ رہیں جس کے باعث ان کو کتب سماویہ یا انزال و تنزیلِ الٰہی کا باقاعدہ درجہ نہ مل سکا اور جو کتب اِنزال و تنزیلِ الٰہی کا باقاعدہ درجہ رکھتی ہیں وہ بھی دنیا والوں کی مکاری و فریب کاری سے محفوظ نہ رہ سکیں- سوائے آخری کتاب جو خاتم النبیین آقائے نامدار (ﷺ) پر نازل ہوئی کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود خالق کائنات نے ان الفاظ میں لیا :

’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘[2]

’’بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘-

لہٰذا بقول شاعر:

کتب کو بھی خالق نے نازل کیا
صحائف کا نبیوں کو تحفہ دیا
بچا گر تو قرآن شُبہات سے
کہ لاریب فیہِ ہے فرما دیا

تنزیل الٰہی کا یہ شاہکار جس وقت دنیا میں اپنی مہک و چمک،آب و تاب کی جلوہ نمایاں دکھانے کیلئے تشریف لایا تو اس وقت انسانیت اپنی حقیقی حیثیت کھو چکی تھی- نور سے معمور ہونے کیلئے جو بدن خاکی تیار ہوا تھا وہ کدورت کے ماحول سے آشنا ہو چکا تھا- لطافت کی سر زمین کثافت کا جامہ اوڑھے ہوئے تھی- انسانیت سوز اقوال اور مُذلِل آدمیت افعال سے وہ فضا جس کو معطر اور معنبر کاموں کے لیے ڈھالا گیا تھا وہ تعفن خیز ذخائر کی شکل اختیار کر چکی تھی یا بالفاظ دیگر:

تھی انسانیت کی مُکدر فضا
تو قرآن سے ہو گئی منور فضا
جو ہر سُو تھی بدبوئے افعالِ بد
ہوئی وہ بدل کر معطر فضا

عرب کی وحشت زدہ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو انسان کہنے سے بھی زبان میں لرزش پیداہو تی ہے کیونکہ آدم زاد کو دنیا میں جنگل کے قانون کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا تھا جس کی بدولت انسانیت کا خون اس نہج پر بہایا جا رہا تھا گویا کوئی آبشار ہو جس سے سرخیِ شفق کا گماں ہو نے لگتا تھا مگر قرآن نے اپنا یہ اعلان فرما کر کہ:

’’اِذ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖ اِخْوَانًاۚج وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا‘‘[3]

’’جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا‘‘-

اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ وادی جو خون کا منظر پیش کر رہی تھی وہ اخوت کے لالہ زار میں تبدیل ہو کر رہ گئی -

گویا بقول شاعر:

تھی وادیٔ خیالات کی خاردار
لہُو آدمی کا تھا جُوں آبشار
جو سیراب آیات سے دِل ہوئے
تو وادی یہ بنجر بنی لالہ زار

قارئین محترم!

قرآن پاک کا چونکہ اولین سبق ہی قرا ءَ ت کا تھا یعنی:

’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَآ؁ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ؁ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ؁ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ؁ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ‘‘[4]

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا-اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا -پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے-جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا-جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘-

لہٰذا قرآن پاک جس کے اسم با مسمی ہونے کیلئے جن حروف اصلیہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے وہ ’’قَ رَ ءَ‘‘ سے مشتق ہے-

چنانچہ قراءَتِ قرآن کے ساتھ ساتھ عامل ہونا ضروری ہے - آقا کریم (ﷺ)سے صحابہ کرامؓ پہلے جو قرآن سیکھتے تھے اس پر عمل کرکے مزید تحصیل ِ علم کیا کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل روایت میں ہے -

حدیثِ پاک میں ہر وہ حافظ جو قرآن پر عمل کر کے تحفیظ ِ کلامِ الٰہی کر رہا ہو اس کے درجے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ماں باپ کو صرف اُس کی قرا ءَ تِ قرآن اور حفاظتِ قرآن کے باعث ایسا تاج پہنایا جائے گا جو سورج سے بھی زیادہ روشن و تاباں ہو گا اب وہ عامل خود کتنی عز و وقار کا حامل ہو گا جس کی وجہ سے والدین کو یہ مقام ملا اس کو درج ذیل قطعہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:

جو قاری ہے عامل بھی قرآں پہ آج
یہ قرآن رکھ لے گا کل اُس کی لاج
وُہ خود ہوگا کیا؟ جس کے ماں باپ کو
ملے زیادہ چمکیلا سُورج سے تاج

قرآن کریم کی شکل میں خالق لم یزل کی طرف سے ہدایت کا منبع اور تنویر ایزدی میں شکستہ لوگوں کو فیوض و برکات کا خزینہ ملا جو ہرایک راہ رو منزل اور گم گشتہ راہ کی رہبری کرتا ہے، ظلم و جور سے انسانیت کو نجات دلاکر عدل و مساوات کا درس دیتا ہے، انسانیت کو معاشرتی انتشار سے بچا کر ایک شیرازہ میں پرودیتا ہے اور ہر قسم کے جور و استبداد کا قلع قمع کر دیتا ہے یعنی :

خزینہ ہے یہ فیض و برکات کا
معلم ہے عدل و مساوات کا
اخوت کا حامی ہے پر نور ہے
مخالف ہے ظلم اور ظلمات کا

یہی وہ کلام الٰہی ہے جس کی طرف مکمل یکسوئی اور کامل توجہ پروردگار لم یزل کی خوشنودی ورضا کا ذریعہ ہے اور جوں جوں مہارت قرآن اور توجہات الی القرآن میں اضافہ کیا جائے توں توں اس کے درجات اور کمال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ ایسا کلام ہے کہ جب سب لوگ،کیا اپنے کیا غیر، ساتھ چھوڑ جائیں گے اور کوئی بھی کام نہ آئے گا حتی کہ مال و اولاد بھی تنہا چھوڑ دیں گے، یہی کلام اپنے قاری اور عامل کا ان مشکل لمحات میں بھی ساتھ نبھائے گا -

یہ باعث خوشنودی ذوالجلال
یہ موجب ِ درجہ بدرجہ کمال
نبھائے کڑے وقت میں ساتھ جب
 نہ کام آئیں گے کچھ بھی مال و منال

حدیثِ نبوی (ﷺ) ہے:

’’اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا‘‘: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ‘‘

حدیث کا مفہوم : حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ قرآن پاک کے حافظ کو قیامت کے دن کہا جائے گا (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی) طرف چڑھتا جا - اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا پس تیری منزل وہ ہوگی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی -

اس حدیث کو اور دیگر روایات کو سامنے رکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنت کے درجے ہی اتنے ہیں جتنی قرآن پاک کی آیات ہیں یا دوسرے الفاظ میں جنت کے 6666 درجات ہیں اور ہر درجہ دنیا و مافیہا سے زیادہ عظیم ہے-

یہ جنت کے بارے روایات ہیں
 کہ درجے مساوئ آیات ہیں
 جو ماہر ہے جتنی بھی آیات کا
 تو اتنے ہی بس اُس کے درجات ہیں

قرآن کریم میں آقا کریم (ﷺ) کی دل بستگی اور دل جوئی کی خاطر اور ہماری عبرت کے سامان کے طور پر قصص ِ قرآنیہ ذکر فرمائے گئے- آقا کریم (ﷺ) خود فرماتے ہیں کہ مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا- سورۃ ہود میں انبیاء کے واقعات اور معذب قوموں کا تذکرہ موجود ہے -

ہے مذکورہ قصہ مردود بھی
 تو فرعون و شدّاد و نمرود بھی
 کہ عبرت ہے انجامِ عاد و ثمود
 جہاں آئے صالحؑ بھی اور ہُودؑ بھی

الغرض! قرآن پاک کی شان کا حتمی نظارہ کربلا میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں ایک مرد کامل نے سر تن سے جدا ہونے کے باوجود تلاوت قرآن کا حق نیزے کی نوک پہ ادا کیا کیونکہ ان کو قرآن مجید کی تعلیم رسول اللہ (ﷺ) نے خود عطا فرمائی تھی -

سمجھتا تھا منظر وہی شان کو
پڑھا جس نے نیزے پہ قرآن کو
تلاوت کی تن سے جدا ہو کے بھی
کہ تھا جانتا اصل ِ ایمان کو

٭٭٭


[1](البقرۃ:30)

[2](الحجر:9)

[3](آلِ عمران: 103)

[4](العلق:1-5)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر