دستک

دستک

نوجوانوں کے نام 

نوجوان آبادی ہر قوم کاگراں قدر سرمایہ ہوتی ہے -اَقوام کے نبض شناس آبادی کے اِسی حصے کی حرارت وجرأت دیکھ کرقوم کی مجموعی صورتحال کاتجزیہ کرلیتے ہیں -نوجوانوں کے مقاصد میں قوم کا مستقبل پوشیدہ ہوتا ہے-ان کا عزم ستاروں کوبھی تسخیر کر لیتا ہے کیونکہ اُن کے حوصلوں کی لغت میں لفظ ’’ناممکن‘‘ نہیں ہوتا- ناممکن کو ممکن میں اور مشکل کوآسانی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت قدرت نے عمر کے اسی حصے کوودیعت کی ہے- جوانی میں وہ جذبہ ہے جو آزر کے بت خانے کوپاش پاش کرکے اپنے قلب میں توحیدِ الٰہی جاگزین کرلیتاہے- یہی وہ حوصلہ ہے جوکبھی مظلوم خاتون کی فریاد پہ سندھ کے راستے برصغیر پاک وہند میں اسلامی مملکت کی بنیاد رکھتاہے،توکبھی جبل الطارق پہ کشتیاں جلاکر دین حق کی سربلندی کے لئے یورپ میں پیش قدمی کرتاہے-حضرت علامہ اقبال بھی خوب جانتے تھے کہ ہندوستان کے پہاڑ سے اگر پاکستان کامجسمہ تراشنا ہے تومسلمان آبادی کے نوجوان طبقے کومتحرک کرنا ضروری ہے- اِسی لئے اُنہوں نے نوجوانوں کونشاۃ ثانیہ کی جانب راغب کیاکہ :

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کیاتونے؟            وہ کیا گردوں تھا،تُو جس کاہے اِک ٹوٹاہوا تارا؟

تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں         کچل ڈالاتھا جس نے پائوں میں تاجِ سرِدارا

دوسری جانب عبادت وریاضت ومعرفت بھی جوانی میں صحیح معنی میں ثمرآور ہوتیں ہیں -نوجوانوں کو بھی یہ یادر کھنا چاہیے کہ اِ ن کا شباب ملک وقوم کی امانت ہے -ہمارے بزرگوں نے اپنی جوانی کو رضائے الٰہی کے مطابق بسر کیا -اِ س لئے ایک زمانہ تھا کہ جب مسلمان اقوامِ عالم کے سردار تھے اور وہ علم وہنر وفنون اورفتوحات کی بے نظیر مثال بنے-لیکن بعد ازاں مسلمان اس عروج وعظمت کوبرقرار نہ رکھ سکے-اسلامی معاشرہ مجموعی طور پہ بتدریج زوال اورپستی کی جانب چل پڑا -اسلامی معاشرت کی اِس ارتقائی تنزلی کامنفی اثر نوجوانوں پہ بھی پڑا -وہ غیراخلاقی وغیر قانونی سرگرمیوں میں اُلجھ کر رہ گئے-نوجوانوں کے تُند وتیز جذبات کے طوفان نے اپنا راستہ تو بنانا ہی تھا مگر یہ صحیح جانب گامزن ہونے کی بجائے اُلٹ طرف رواں ہوگیا- علمی وعملی انحطاط پذیری نے مسلم آبادی کے متحرک حصے کو سہل پسند بنادیا-

ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ہیں ایرانی                     لہومجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

خیال کی پاکیزگی اورقلبی اِخلاص کا ختم ہونا تھا کہ نوجوان طبقہ لاشعوری طور پہ اخلاقِ حسنہ سے پیچھے ہٹ گیا-رُوحانی تربیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے اِن کے ذہنوں میں نفسیاتی خلادَر آیا-اُنہوں نے بھی اس نفسیاتی خلاکو غیر اخلاقی سرگرمیوں سے پُر کیا-وہ مسلم نوجوان جو پہلے کبھی عبادت میں محو ہوتا تو عریاں عورت بھی اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں ناکام رہتی ،لیکن آج وہ فحاشی ،بے حیائی اوربرہنگی کادل دادہ بن گیا-وہ مسلم نوجوان جو کبھی دُولتِ دُنیا سے بے نیازی کاعَلم بردار تھاوہ آج قلیل رقم کے لئے قتل وغارت برپا کردیتا ہے-وہی نوجوان جو کبھی تلواروں کے سائے تلے بھی نماز قائم رکھتاتھاآج منشیات کے حصول کے لئے اپنے خونی رشتوں کی بھی پروا نہیں کرتا-وہی مسلم نوجوان جو پہلے کبھی عورت کی عصمت کا محافظ تھا،آج دوسروں کی عزت پہ نگاہِ غلط ڈالنے کاعادی بن گیاہے-وہی نوجوان جو کبھی فسادات کے دوران غیرمسلموں کوبھی پناہ دیتا تھا آج اُس کادستِ ظلم اپنے ہی ہم مذہبوں کے گلے کاٹ رہا ہے -یہ حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی اورجدید سائنسی ایجادات نے اخلاقی برائیوں کے میدان کومزید وُسعت دی ہے- انٹرنیٹ ، جدید ذرائع ابلاغ جیساکہ انٹرٹینمنٹ میڈیا وسوشل میڈیا اپنے ساتھ ایسی ایسی برائیاں لایا ہے جو پہلے موجود نہ تھیں ،ان میں عُریانیت اور سائبرکرائم سرِ فہرست ہے اورستم یہ ہے کہ ہمارا نوجوان ان برائیوں کے ارتکاب میں تاک وماہر ہوگیا ہے-وہ ان سائنسی ایجادات سے ایسے ایسے دھوکے اورفریب دیتا ہے کہ ایجادات کرنے والے بھی انگشتِ بدندان رہ جاتے ہیں -سب سے بڑا اَلمیہ یہ ہے کہ ہمارانوجوان جذبات کی رُو میں بہہ کر بہت جلدمایوسی اورقنوطیت کاشکار ہوکرگمراہ کن فیصلے کربیٹھتا ہے- مشکل حالات میں اُسے خود سوزی و خود کشی کرناراہِ نجات نظرآتی ہے-ذرا سی گھریلوناچاقی ہوئی نہیں کہ صاحب و صاحبہ اپنی کنپٹی پہ بندوق رکھ کرفائر کردیتے ہیں -آج کانوجوان غیرمحرم مرد و عورت سے غیراخلاقی تعلق کومحبت کانام دیتا ہے اوراگر کسی وجہ سے فریق ثانی نہ مل پائے تو کمزور اعصاب مجنوں زہر کھابیٹھتا ہے-اورتو اور اگرامتحانات میں فیل ہوجائے تو گلے میں پھند اڈال کر جھول جاتا ہے - اِصلاحِ احوال کے لئے ہمارے ہاں بے شمار اَخلاقی ومذہبی تحاریک کام کررہی ہیں لیکن بدقسمتی سے رُوحانی طرزِ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ بے اثرہورہی ہیںاور یہ بھی درست ہے کہ دِین اسلام کے رُوحانی اُمور ہماری اوّلین ترجیح نہیں رہے - کیونکہ یورپ کی طرح ہم بھی مذہب کی مادی تشریحات میں مصروف ہیں - ہم اولیائے کرام کی محبت،بھائی چارہ ،برداشت،مذہبی رواداری اورتحمل وبردباری کی تعلیمات کو اپنانے میں بغیر کسی وجہ کے تاخیر کررہے ہیں جس کی وجہ سخت گیر مذہبی نظریات اورفرقہ بازی میں پھنس کررہے گئے ہیں -دِین اسلام کی عشقِ الٰہی پہ مبنی تشریحات وقت کی ضرورت ہے اورایسا معرفتِ الٰہی کے بغیر ممکن نہیں اس لئے ہمیں اب اپنی اصل کی جانب لوٹنا ہوگا-

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نوجوان اب رُوحانی طرزِتربیت اَپنائیں -رُوحانی تربیت کے لئے رہبر ورہنما کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ :-

اگر کوئی شعیب(رض) آئے میّسر                          شبانی سے کلیمی دوقدم ہے

 

رہبر ایک صدف کی مانند ہوتاہے کہ جس کی صحبت میں رَہ کر پانی کاقطرہ بھی گوہر کی شکل اختیار کرلیتاہے اوریہیں سے نوجوانوں کی رُوحانی تربیت کاآغاز ہوگا-

نوجوانوں کے نام

نوجوان آبادی ہر قوم کاگراں قدر سرمایہ ہوتی ہے -اَقوام کے نبض شناس آبادی کے اِسی حصے کی حرارت وجرأت دیکھ کرقوم کی مجموعی صورتحال کاتجزیہ کرلیتے ہیں -نوجوانوں کے مقاصد میں قوم کا مستقبل پوشیدہ ہوتا ہے-ان کا عزم ستاروں کوبھی تسخیر کر لیتا ہے کیونکہ اُن کے حوصلوں کی لغت میں لفظ ’’ناممکن‘‘ نہیں ہوتا- ناممکن کو ممکن میں اور مشکل کوآسانی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت قدرت نے عمر کے اسی حصے کوودیعت کی ہے- جوانی میں وہ جذبہ ہے جو آزر کے بت خانے کوپاش پاش کرکے اپنے قلب میں توحیدِ الٰہی جاگزین کرلیتاہے- یہی وہ حوصلہ ہے جوکبھی مظلوم خاتون کی فریاد پہ سندھ کے راستے برصغیر پاک وہند میں اسلامی مملکت کی بنیاد رکھتاہے،توکبھی جبل الطارق پہ کشتیاں جلاکر دین حق کی سربلندی کے لئے یورپ میں پیش قدمی کرتاہے-حضرت علامہ اقبال بھی خوب جانتے تھے کہ ہندوستان کے پہاڑ سے اگر پاکستان کامجسمہ تراشنا ہے تومسلمان آبادی کے نوجوان طبقے کومتحرک کرنا ضروری ہے- اِسی لئے اُنہوں نے نوجوانوں کونشاۃ ثانیہ کی جانب راغب کیاکہ:

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کیاتونے؟            وہ کیا گردوں تھا،تُو جس کاہے اِک ٹوٹاہوا تارا؟

تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں         کچل ڈالاتھا جس نے پائوں میں تاجِ سرِدارا

دوسری جانب عبادت وریاضت ومعرفت بھی جوانی میں صحیح معنی میں ثمرآور ہوتیں ہیں -نوجوانوں کو بھی یہ یادر کھنا چاہیے کہ اِ ن کا شباب ملک وقوم کی امانت ہے -ہمارے بزرگوں نے اپنی جوانی کو رضائے الٰہی کے مطابق بسر کیا -اِ س لئے ایک زمانہ تھا کہ جب مسلمان اقوامِ عالم کے سردار تھے اور وہ علم وہنر وفنون اورفتوحات کی بے نظیر مثال بنے-لیکن بعد ازاں مسلمان اس عروج وعظمت کوبرقرار نہ رکھ سکے-اسلامی معاشرہ مجموعی طور پہ بتدریج زوال اورپستی کی جانب چل پڑا -اسلامی معاشرت کی اِس ارتقائی تنزلی کامنفی اثر نوجوانوں پہ بھی پڑا -وہ غیراخلاقی وغیر قانونی سرگرمیوں میں اُلجھ کر رہ گئے-نوجوانوں کے تُند وتیز جذبات کے طوفان نے اپنا راستہ تو بنانا ہی تھا مگر یہ صحیح جانب گامزن ہونے کی بجائے اُلٹ طرف رواں ہوگیا- علمی وعملی انحطاط پذیری نے مسلم آبادی کے متحرک حصے کو سہل پسند بنادیا-

ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ہیں ایرانی                     لہومجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

خیال کی پاکیزگی اورقلبی اِخلاص کا ختم ہونا تھا کہ نوجوان طبقہ لاشعوری طور پہ اخلاقِ حسنہ سے پیچھے ہٹ گیا-رُوحانی تربیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے اِن کے ذہنوں میں نفسیاتی خلادَر آیا-اُنہوں نے بھی اس نفسیاتی خلاکو غیر اخلاقی سرگرمیوں سے پُر کیا-وہ مسلم نوجوان جو پہلے کبھی عبادت میں محو ہوتا تو عریاں عورت بھی اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں ناکام رہتی ،لیکن آج وہ فحاشی ،بے حیائی اوربرہنگی کادل دادہ بن گیا-وہ مسلم نوجوان جو کبھی دُولتِ دُنیا سے بے نیازی کاعَلم بردار تھاوہ آج قلیل رقم کے لئے قتل وغارت برپا کردیتا ہے-وہی نوجوان جو کبھی تلواروں کے سائے تلے بھی نماز قائم رکھتاتھاآج منشیات کے حصول کے لئے اپنے خونی رشتوں کی بھی پروا نہیں کرتا-وہی مسلم نوجوان جو پہلے کبھی عورت کی عصمت کا محافظ تھا،آج دوسروں کی عزت پہ نگاہِ غلط ڈالنے کاعادی بن گیاہے-وہی نوجوان جو کبھی فسادات کے دوران غیرمسلموں کوبھی پناہ دیتا تھا آج اُس کادستِ ظلم اپنے ہی ہم مذہبوں کے گلے کاٹ رہا ہے -یہ حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی اورجدید سائنسی ایجادات نے اخلاقی برائیوں کے میدان کومزید وُسعت دی ہے- انٹرنیٹ ، جدید ذرائع ابلاغ جیساکہ انٹرٹینمنٹ میڈیا وسوشل میڈیا اپنے ساتھ ایسی ایسی برائیاں لایا ہے جو پہلے موجود نہ تھیں ،ان میں عُریانیت اور سائبرکرائم سرِ فہرست ہے اورستم یہ ہے کہ ہمارا نوجوان ان برائیوں کے ارتکاب میں تاک وماہر ہوگیا ہے-وہ ان سائنسی ایجادات سے ایسے ایسے دھوکے اورفریب دیتا ہے کہ ایجادات کرنے والے بھی انگشتِ بدندان رہ جاتے ہیں -سب سے بڑا اَلمیہ یہ ہے کہ ہمارانوجوان جذبات کی رُو میں بہہ کر بہت جلدمایوسی اورقنوطیت کاشکار ہوکرگمراہ کن فیصلے کربیٹھتا ہے- مشکل حالات میں اُسے خود سوزی و خود کشی کرناراہِ نجات نظرآتی ہے-ذرا سی گھریلوناچاقی ہوئی نہیں کہ صاحب و صاحبہ اپنی کنپٹی پہ بندوق رکھ کرفائر کردیتے ہیں -آج کانوجوان غیرمحرم مرد و عورت سے غیراخلاقی تعلق کومحبت کانام دیتا ہے اوراگر کسی وجہ سے فریق ثانی نہ مل پائے تو کمزور اعصاب مجنوں زہر کھابیٹھتا ہے-اورتو اور اگرامتحانات میں فیل ہوجائے تو گلے میں پھند اڈال کر جھول جاتا ہے - اِصلاحِ احوال کے لئے ہمارے ہاں بے شمار اَخلاقی ومذہبی تحاریک کام کررہی ہیں لیکن بدقسمتی سے رُوحانی طرزِ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ بے اثرہورہی ہیںاور یہ بھی درست ہے کہ دِین اسلام کے رُوحانی اُمور ہماری اوّلین ترجیح نہیں رہے - کیونکہ یورپ کی طرح ہم بھی مذہب کی مادی تشریحات میں مصروف ہیں - ہم اولیائے کرام کی محبت،بھائی چارہ ،برداشت،مذہبی رواداری اورتحمل وبردباری کی تعلیمات کو اپنانے میں بغیر کسی وجہ کے تاخیر کررہے ہیں جس کی وجہ سخت گیر مذہبی نظریات اورفرقہ بازی میں پھنس کررہے گئے ہیں -دِین اسلام کی عشقِ الٰہی پہ مبنی تشریحات وقت کی ضرورت ہے اورایسا معرفتِ الٰہی کے بغیر ممکن نہیں اس لئے ہمیں اب اپنی اصل کی جانب لوٹنا ہوگا-

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نوجوان اب رُوحانی طرزِتربیت اَپنائیں -رُوحانی تربیت کے لئے رہبر ورہنما کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ :-

اگر کوئی شعیب(رض) آئے میّسر                          شبانی سے کلیمی دوقدم ہے

رہبر ایک صدف کی مانند ہوتاہے کہ جس کی صحبت میں رَہ کر پانی کاقطرہ بھی گوہر کی شکل اختیار کرلیتاہے اوریہیں سے نوجوانوں کی رُوحانی تربیت کاآغاز ہوگا-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر