قرآن مجید:فصاحت وبلاغت کا حسین مرقع

قرآن مجید:فصاحت وبلاغت کا حسین مرقع

قرآن مجید:فصاحت وبلاغت کا حسین مرقع

مصنف: اپریل 2021

قرآن مجید:فصاحت وبلاغت کا حسین مرقع

اللہ عزوجل کی قدرت ہے کہ جس زمانے میں جس چیز کا شہرہ رہا اور جس فن کے وہ لوگ ماہر تھے اسی مناسبت سے اس زمانے کے انبیاء کرام (علیھم السلام) کو معجزات سے نوازا گیا-موسیٰ ؑ کے زمانے میں سحروجادو کا زور تھا تو اللہ تعالیٰ نے موسیؑ کو وہ معجزہ عطاء فرمایا کہ جادوگر دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں اور مشرف بایمان ہوئے -عیسٰیؑ کے دور میں عقل پرست غالب تھے- افلاطون، ارسطو، سقراط وغیرہ کا شہرہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ ؑ کو وہ معجزات عطاء فرمائے جس نے ان عقلاء کو بھی عاجز کردیا،جیساکہ عقلاً مادر ذار اندھے اور کوڑھی کا علاج ممکن نہیں اور مرجانے والے کے لیے دوبارہ زندگی کا امکان نہیں - لیکن اللہ عزوجل نے حضرت عیسٰیؑ کےدستِ اقدس پر مادرزاد اندھوں کو شفاء عطافرمائی اورمردے جی اٹھے-ان محیر العقول واقعات کو دیکھ کر عقل پرستوں کیلیے نبوت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا اور جب رحمۃ للعلمین ،شفیع المذنبین سیدنا محمدرسول اللہ (ﷺ)کی آمد مبارک ہوئی تو اہلِ عرب کے ہاں فصاحت وبلاغت کی قیمت سُچے موتیوں سے بھی زیادہ تھی اوراپنی زبان دانی کی بناء پہ دیگراقوام کو عجم کہتے -بلاشبہ عربی زبان کو دیگر زبانوں پہ یقینی برتری حاصل ہے -اس برتری کی وجہ عربی کاو سیع اور جامع ہوناہے جیساکہ عام زبانوں میں کسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے عموماً دو چار لفظ ہی پائے جاتے ہیں -لیکن کلامِ عرب میں ایک چیز کے معانی کوبیان کرنے کیلیے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں الفاظ تک پائے جاسکتے ہیں اور الفاظ کی یہ کثرت بلاوجہ نہیں ہے بلکہ ان میں باریک باریک معانی کا لحاظ رکھا جاتا ہے-

اتنی وسعت وجامعیت والی زبان کو اللہ عزوجل نے اس انداز میں چیلنج کیاکہ وہ اپنی مثال آپ بن گیا- اس بات پر سبھی (مسلمان ہوں یا غیر مسلمان )متفق ہیں کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) پہ نازل ہونے والی کتاب کی فصاحت وبلاغت نے لوگوں کی عقلوں کو مغلوب اور مبہوت کردیا ہے، اللہ عزوجل نے پہلے تو کئی مراحل (پورا کلام، دس سورتیں، ایک سورت،ایک جملہ) میں چیلنج فرمایا،پھرتمام فصحائے عرب(امرؤ القیس، لبید، اعشٰی، زہیر اورعنترہ وغیرہ)کوچیلنج کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(اے محبوب مکرم (ﷺ)فرما دیجئے: اگر تمام انسان اور جنات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں‘‘-(الاسراء:88) یعنی صرف جزیرۃ العرب کے لوگ نہیں بلکہ انسان وجنات بھی جمع ہوجائیں ایک دوسری کی مدد کریں پھر بھی اس قرآن مجید جیسا کلام نہیں لاسکتے-قرآن کریم کی یہ للکار14صدیوں سے زیادہ عرصے سے ہنوز باقی ہے جبکہ قرآن کی ایک سورہ لانے کی مجال انسانیت کی نہیں- اس طرح انسانیت کی اس عدم صلاحیت اور محدود  معقولیت کانتیجہ بھی واضح کردیا گیاہے کہ:’’اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں‘‘- (البقرۃ :24)

اہل عرب کے فصحاء وبلغاء وخطباء اور شعراء کے سامنے جب کلام پیش کیا گیا-تو وہ چین وسکون سے نہیں بیٹھے ،بلکہ سرجوڑ کے بیٹھ گئے - ذہن  نشین رہے کہ آج بھی کفارکو یہ چیلنج چبھتا ہے -لیکن الحمدللہ قرآن مجيد ایسی فصيح وبليغ زبان ميں نازل ہوا جس کی نظير پيش کرنے سے انسان قاصر تھے،قاصر ہيں اور قاصر رہيں گے-بلکہ اُس وقت کے فصحاء و بلغاء یہ کہنے پہ مجبور ہوگئے :’’ خدا کی قسم! یہ کسی بشر کا کلام نہيں ہے ‘‘-

حضور رسالت مآب (ﷺ) کے دور مبارک میں جب کفار نے سعی لاحاصل کی بھی تھی اورانہوں نے انتہائی غورفکر کے بعد تين الفاظ پر اعتراض کيا کہ وہ عربی محاورے کے خلاف ہيں- يہ الفاظ کُبَّار،هُذُوًااور عُجَاب تھے-جب معاملہ حضوررسالت مآب(ﷺ) میں پہنچاتو آپ (ﷺ)نے ایک دیہاتی بوڑھے کوطلب فرمایا ،جب وہ حاضرِ خدمت ہوا اور بیٹھنے لگا توآپ (ﷺ)نے حکم فرمايا :’’ادھر  بیٹھ جائيں‘‘- وہ اس طرف  بیٹھنے لگا تو آپ نے ارشاد فرمايا :’’ اُدھر بیٹھ  جائيں‘‘-جب وہ اُدھر بیٹھنے لگا تو پھر اشارہ کرکے ارشادفرمايا :’’اِدھر بیٹھ جائيں ‘‘-اس پر اس شخص کو غصہ آ گيا اور اس نے کہا :

’’اَنَا شَيْخٌ کُبَّار اءَتَتَّخِذُنِي ھُذُوًا ھٰذَا شَيئ عُجَاب‘‘(ميں نہايت بوڑھا ہوں - کيا آپ مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہيں؟يہ بڑی عجیب بات ہے)-یوں اس نے تينوں الفاظ تين جملوں ميں کہہ ڈالے-کفار لاجواب اورنامراد لوٹ گئے -

کلام ُاللہ کی فصاحت وبلاغت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ اس کے ایک لفظ کو اس کی جگہ سے ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنا چاہیں تو پوری لغت ِ عرب چھاننے کے باوجود بھی اس لفظ کا متبادل نہیں مل سکتا اوراگر اس کی ایک آیت کسی دوسرے کے کلام میں موجود ہو تو وہ اندھیری رات میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہوگی-

قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کی اس سے بڑھ کرمثال کیاہوسکتی ہے کہ جیسے لبید بن ربیعہؓ کو ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنا کلام سنانے کے لیے کہا تو انہوں نے یہ کہ کر معذرت کر لی کہ ’’جب سے قرآن مجید نازل ہوا ہے میں نے شعر کہنا چھوڑ دیا‘‘ یہ لبید کوئی معمولی شاعر نہ تھے ان کا کلام ان سبع معلقات میں شامل ہے جن کو شعراء نے بالاتفاق بے مثال تسلیم کیا تھا اور کعبے کی دیوار پر لٹکایا تھا-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر