شُکر کا قرآنی فلسفہ اور نعمت خدادادِ پاکستان

شُکر کا قرآنی فلسفہ اور نعمت خدادادِ پاکستان

شُکر کا قرآنی فلسفہ اور نعمت خدادادِ پاکستان

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مئی 2021

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کا بنیادی مقصد اُس دعوت و پیغام کو عام کرنا ہے جو صدیوں سے اس خطے میں ہمارے دلوں کو ایمان، محبتِ الٰہی اور محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) اطاعت الٰہی اور اطاعتِ مصطفٰے کریم (ﷺ) کے نور سے منور کیے ہوئے ہے-

میرے دوستو! یہاں میں دو گزارشات بیان کرنا چاہوں گا، ایک بطور تمہید اور دوسری بطور مغز کے - اگر ہم تمہید اور اصل نقطہ کو سمجھ جائیں تو بطور ایک قوم ہم ایک ناقابلِ تسخیر قوم بن سکتے ہیں-لیکن اگر ہم اسے سمجھنے اور اپنانے سے قاصر رہیں تو پھر جو ہمارا انحطاط بطور ایک قوم کے جاری ہے اسے روکنا ممکن نہیں تو کم ازکم ہمارے بس میں بھی نہیں- اس میں کئی پہلو پنہاں ہیں جیسا کہ بزبانِ حکیم الامت:

حرفِ پیچا پیچ و حرف نیش دار
تاکنم عقل و دلِ مرداں شکار!

’’میں نے پیچ دار (مشکل) زبان بھی استعمال کی ہے اور نیشدار (واشگاف)بھی تاکہ میں اس دور کے مردوں کے عقل و دل کو شکار کر سکوں‘‘-

اس گفتگو میں قارئین کو فلسفے اور منطِق میں الجھی بھی اور لذت سے بھر پور باتیں بھی ملیں گی لیکن ان دونوں باتوں کا مقصد عقل اور دل کی گِرہوں کو کھولنا ہے-

ایک دوسرے مقام پر حکیم الاُمّتؒ نے نظیری نیشا پوری کا ایک شعر لکھ کراپنی کتاب کا آغاز کیا کہ:

نیست در خشک و ترِ بیشۂ من کوتاہے
چوبِ ہر نخل کہ منبر نشَوَد دار کُنم

’’ میرے جنگل میں کوئی لکڑی فالتو نہیں ہے- وہ لکڑی جس سے منبر نہ بن سکے مَیں اُس سے دار (پھانسی کا پھندا) بنا لیتا ہوں‘‘-

یہاں پہ ’’منبر‘‘ عالِم کا استعارہ ہے اور’’دار‘‘ عارف کا استعارہ ہے- نظیرؔی کی زبان سے اقباؔل کہتے ہیں کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ علم کی بات کہوں اور جو بات علم کے ذریعہ نہ کہی جا سکے اُسے میں اپنے وِجدان اور معرفت سے کہتا ہوں- قرآن حکیم کا بھی یہی طریق ہے کہ بعض جگہ قرآن کریم میں احکام ملتے ہیں جن کا تعلق ہمارے ظاہر کی اصلاح سے ہوتا ہے اور بعض مقامات میں قرآن مجید میں روحانی استعارات ملتے ہیں جو ہمارے ظاہر کے ساتھ ساتھ ہمارے باطن کو بھی روشن کرتے ہیں-

اس لئے دونوں باتیں بندہ اپنے ساتھ لے کے چلتا ہے- جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ پر چلنے والے نیک بندوں کو حکم فرمایا :

’’فَاذْكُرُوْنِیْ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ‘‘[1]

’’ تم میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو ‘‘-

رب کریم فرما رہا ہے کہ اے میرے بندے مجھے یاد کرو مَیں بھی تمہیں یاد کروں گا- اسی طرح میری عطا کردہ نعمتوں کا قولاً، فعلاً اور قلباً یعنی ہراعتبار سے شکر ادا کرتے رہا کرو اور میں جو بھی نعمت بخشوں اس نعمت کو جھٹلایا نہ کرو-

’’مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَ آمَنتُمْط وَكَانَ اللهُ شَاكِرًا عَلِيْمًا ‘‘[2]

’’ اور اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم حق مانو اور ایمان لاؤ اور اللہ ہے صلہ دینے والا جاننے والا ‘‘-

یہاں سے ’’شَاكِرًا‘‘  کا ایک اور معنٰی اخذ ہوتا ہے کہ ’’شَاكِرًا‘‘ سے مراد قدر شناس بھی ہے- یعنی جب’’شَاكِرًا‘‘ کا لفظ ذات باری تعالیٰ کے لیے کہا جاتا ہے تو اس کا معنٰی’’ قدر شناس ‘‘ہو جاتا ہے- جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَاللہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌo‘‘[3]

’’اور اللہ بڑا قدر شناس ہے بُردبار ہے‘‘-

رب کریم نے یہاں بھی اپنے لیے ’’شکور‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس کا معنٰی قدر شناس ہے- مطلب یہ ہوا کہ شاکر جہاں اپنے مولیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اُس کا شکر گزار رہتا ہے وہیں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا قدر شناس بھی رہتا ہے- جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت کے طور پہ بیان فرمایا-

حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’جو بندہ قدر شناس ہو جاتا ہے وہ بنیادی طور پر اس صفتِ الٰہی سے متصف ہو جاتا ہے ‘‘-

یعنی جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کی قدر کرتا ہے وہ صفتِ الٰہی سے متصف ہو جاتا ہے- اللہ تعالیٰ نے اسی صفت کو انبیائے کرام (علیھم السلام)کیلیے بیان فرمایا- جیسا کہ سیدنا حضرت نوحؑ کے متعلق ارشادِ ربانی ہے:

’’ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ج إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ‘‘

’’اسے ان کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا بیشک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا‘‘-

اسی طرح سیدنا ابراہیم ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ النحل‘‘ میں فرمایا:

’’شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖ ج اِجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ ‘‘[4]

’’اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چُن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی‘‘-

رسول اللہ (ﷺ) کی ذات گرامی کے متعلق امام بخاریؒ نے ’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت مغیرہؓ سے روایت نقل کی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ:

’’بے شک حضور نبی کریم (ﷺ) نماز کیلئے قیام فرماتے حتیٰ کہ آپ (ﷺ) کے دونوں پاؤں مبارک یا پنڈلیاں مبارک سوج جاتیں-پس آپ (ﷺ) سے عرض کی جاتی (یارسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ) اتنی کثرتِ عبادت کیوں فرماتے ہیں) تو آپ (ﷺ) ارشاد فرماتے:  کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘-[5]

جہاں رب کریم نے شاکر کو اپنی صفت کے طور پر بیان فرمایا وہیں قرآن کریم بتاتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں رب کریم چن لیتا ہے اورجن کا چلنا، پھرنا حتی کہ اُن کا ایک ایک قول دین کی اساس بن جاتا ہے، اُن کو بھی رب تعالیٰ اس صفتِ شاکر سے متصف فرما دیتا ہے-

مومن پر شکر کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟

علامہ مجد الدین فیروز آبادی فرماتے ہیں :

’’اَلشُّكْرُ:عِرْفَانُ الْإِحْسَانِ ونَشْرُهٗ‘‘[6]

’’ شکر کامعنیٰ ہے احسان کو پہچاننا اور اس کو بیان کرنا‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ کے احسان کو پہچاننا اور اس احسان کا برملا اعتراف کرنا شکر کہلاتا ہے-

علامہ سید شریف علی بن محمد جرجانی حنفی (المتوفى: 816ھ) ’’ كتاب التعريفات‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’اَلشُّكْرُ اللُّغَوِيُّ هُوَ الْوَصْفُ بِالْجَمِيْلِ عَلَى جِهَةِ التَّعْظِيْمِ وَالتَّبْجِيْلِ عَلَى النِّعْمَةِ مِنَ اللِّسَانِ وَ الْجِنَانِ وَالْأَرْكَانِ‘‘[7]

’’شکر کا لغوی معنیٰ یہ ہے کہ نعمت پر زبان، دل یا دیگر اعضاء سے منعم کی تعظیم و تکریم کرنا‘‘-

’’منعم‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یعنی نعمتیں عطا کرنے والی- اب یہاں ایک اور چیز ایمان کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ایمان کے بھی بنیادی طور پر تین اجزاء ہیں-(1) زبان سے اقرار (2) تصدیق قلب اور (3) اعمال صالحہ-ان تین پہلوؤں سے مومن کا ایمان پہچانا جاتا ہے- یہی بات شکر پر بھی صادق آتی ہے کہ شکر کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ مومن زبان سے اس کی عطا کردہ نعمت کا اعتراف کرے- پھر دل سے اس کی تصدیق کرے کہ واقعتاً یہ نعمت مجھے عطا ہوئی-چونکہ ایمان کی تصدیق دل سے کلمہ شہادت ’’اشھد ان اللہ الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہٗ‘‘ پڑھ کر، اپنے دل کو ذات باری تعالیٰ کیلیے خالص کر کے اور دل میں تمام شکوک و شبہات کے بتوں کو نکال کر اس کی وحدانیت کی تصدیق کرناہے- لیکن شکر کی تصدیق ِ قلب کے متعلق سیدنا جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’اَلشُّكْرُ أَنْ لَّا تَرٰى نَفْسَكَ أَهْلًا لِلْنِعْمَةِ‘‘[8]

’’شکر یہ ہے کہ تم اپنے نفس کو ( اس کی) نعمت کا اہل نہ سمجھو (بلکہ اُس کا فضل سمجھو )‘‘-

یعنی حقیقتاً شکر کی تصدیقِ قلب یہ ہےکہ بندہ نعمت عطا ہونے پہ اپنے آپ کو عاجز پائےاور یہ اعتراف کرے کہ جتنی نعمتیں مجھے میرے مولا نے عطا کی ہیں مَیں ان نعمتوں کے قابل نہ تھا- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور ان کی آل کو شکر گزاری کا حکم فرمایا:

’’اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًاط وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُo‘‘

’’اے آلِ داؤد! (اﷲ کا) شکر بجا لاتے رہو اور میرے بندوں میں شکرگزار کم ہی ہوئے ہیں‘‘-

سیدنا حضرت داؤدؑ  کے شکر ادا کرنے کے متعلق امام قرطبیؒ ’’تفسیر قرطبی‘‘میں لکھتے ہیں کہ :

’’حضرت داؤد ؑ نےعرض کیا اے اللہ! میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں کیونکہ جس زبان سے تیرا شکر ادا کروں گا وہ بھی تیری دی ہوئی ہے ہر سانس تیری نعمت ہے ہر سانس میں تیری بے شمار نعمتیں ہیں- فرمایا: اے داؤد! اب تم نے میرا شکر ادا کر دیا-(گویا جب تم نے اپنے عجز کا اعتراف کر لیا تو میرا شکر ادا ہوگیا)‘‘-[9]

یعنی سیدنا داؤد ؑ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی اے میرے مولا! میرے وجود کا ایک ایک عضو حتیٰ کہ میری سانسیں بھی تیری عطا کر دہ نعمت ہیں- اگر میں تیرا شکر ادا کرنے لگوں تو شکر کی توفیق بھی تیری عطا کردہ ہے-اس لئے رب کریم نے فرمایا کہ یہی میرا شکر ہے کہ بندہ میرا شکر ادا کرنے میں خود کو عاجز پائے-

یہی بات شیخ ابو بکر شبلیؒ نے فرمائی کہ:

’’شکر ،یہ ہے کہ منعم پر نظر ہو نہ کہ نعمت پر ‘‘-

یعنی انسان کا خیال نعمت عطا کرنے والے کی طرف ہو نہ کہ نعمت کی طرف-

مثلاً جب غیر مسلم دائرہِ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کو کلمہ پڑھا کر سورہ اخلاص ’’قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ؁اَللہُ الصَّمَدُ؁ لَمْ یَلِدْ لا وَ لَمْ یُوْلَدْ ؁ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ‘‘ کے تحت توحید سمجھائی جاتی ہے- اب اس اقرار کے بعد تصدیقِ قلب بتائی جاتی ہے کیونکہ محض اقرار کافی نہیں ہے-کیونکہ بزبانِ حکیم الامت:

تو عرب ہو یا عجم ہو، تیرا لا الہ الا
لغتِ غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی

یعنی کوئی عربی ہو یا عجمی ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی افادیت اس کی روح کو نہیں پہنچتی جب تک اس کا ’’دل لا الہ الا اللہ‘‘ کی تصدیق نہیں کرتا- اس لئے اقرار اور تصدیق کے بعد اس بندے پہ اس کا عمل لازم آجاتا ہے- یہی اصول شکر کا بھی ہے کہ جب بندہ زبان و قلب سے شاکر ہو جاتا ہے تو تیسرے مرحلے میں اس کے اوپر اعمال صالحہ کی سر انجام دہی آجاتی ہے جو کہ اس کے ایمان کی علامت بھی ہے اور شاکر ہونے کی بھی-

شکر کا تیسرا مرحلہ عمل ہے- بندہ اعمال سے شکر کیسے بجا لاتا ہے؟اس میں پانچ چیزیں ہیں:

  1. شکر ادا کرنے میں خود کو عاجز پانا-
  2. بندے کے دل اور عمل میں اللہ سے محبت پیداہو جائے کہ اُس نے میری بساط سے بڑھ کے مجھے عطا کیا -
  3. بندہ اس بات کا برملا اعتراف کرے -
  4. اس دینے والے کی کثرت سے تعریف کی جائے -
  5. جو نعمت اس نے عطا کی ہے اس نعمت کو اس کی پسندیدہ جگہ پہ استعمال کیا جائے-

مثلاً اللہ نے نعمت کی صورت میں قوت بصارت، قوت سماعت، قوتِ گویائی، قوتِ پکڑ اور قوتِ چال دی ہے-اس لئے شکر گزار بندے کا عمل یہ ہوتا ہے کہ آنکھ کو وہاں استعمال نہ کرے جہاں اللہ کی ناراضگی آئے بلکہ قوت بصارت وہاں استعمال کرے جہاں رب کی رضا نصیب ہو- کان ایسی بات پہ مائل نہ ہوں جسے سننے سے اللہ کی ناراضگی ہو- زبان ہر ایسا کلمہ کہنے سے رُک جائے جس سے خدا کی ناراضگی کا شائبہ ہو-اس لئے شاکر بندے کے وجود کا ہر ہر عضو رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے سراپا خیر ہوتا ہے-

حُجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’أَنَّ الشُّكْرَ مِنْ جُمْلَةِ مَقَامَاتِ السَّالِكِيْنَ وَهُوَ يَنْتَظِمُ مِنْ عِلْمٍ وَحَالٍ وَعَمَلٍ‘‘[10]

’’بیشک شکر سالکین کے جملہ مقامات میں سےایک مقام ہے جو علم، عَمل اور حال سے ترتیب پاتا ہے ‘‘-

یعنی انسان پہلے زبان سے شکر کا اقرار، دل سے شکر کی تصدیق اور اپنے عمل سے اس کا ثبوت پیش کرتا ہے- جیسا کہ اعلیٰ حضرت ؓ فرماتے ہیں کہ :

دل ہے وہ دل جو تیری یاد سے معمور رہا
سر وہ سر ہے جو تیرے قدموں پہ قربان گیا

آنکھ کا نہ بہکنا رب کریم کا پسندیدہ عمل ہے-قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌط بِمَا یَصْنَعُوْنَ‘‘[11]

’’(اے محبوب کریم (ﷺ)!) مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں- یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے‘‘-

رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اگر ایک مرتبہ نگاہ غیر محرم کی طرف اٹھے تو وہ تمہارے لیے حرام نہیں ہے، وہ تمہارے لیے ایک مجبوری ہو سکتی ہے- لیکن جب دوسری مرتبہ بھی نگاہ اسی غیر محرم کی جانب اٹھتی ہے تو اس پر اللہ تمہاری نگاہ سےسوال کرے گا- گویا آنکھ کی بصارت پہ اللہ تعالیٰ نے ایک ادب اور اخلاق مقرر کیا ہے-اس لئے آنکھ شاکر وہ ہےجو اسی جانب اٹھے جس جانب آنکھ کا اٹھنااللہ کو پسند ہے -

شکر ایک ایسی چیز ہے جس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے قطعیت کے ساتھ بیان کیا اور اسے اپنی مشیت پر ہی محض موقوف نہیں رکھا- بلکہ قرآن کریم کی ان دو آیات میں مزید صلہ کی وضاحت فرمائی کہ :

’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ‘‘ [12]

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا‘‘-

’’وَسَنَجْزِی الشّٰکِرِیْنَ‘‘[13]

’’ اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو (خوب) صلہ دیں گے‘‘-

امام غزالیؒ نے ’’احیا ء علوم ا لدین ‘‘ میں انہی مذکورہ آیات کے تناظر میں ایک بہت ہی اہم اور لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

’’اللہ تعالیٰ نے نعمت کے شُکر پر نعمت بڑھا دینے کو قطعیت کے ساتھ ذکرفرمایا ہے اس کو اپنی مشیت پر نہیں چھوڑا جبکہ دوسری نعمتوں کو مشیت پر چھوڑا ہے چنانچہ غنی کرنے، دعا قبول کرنے، روزی دینے، مغفرت عطا کرنے اور توبہ قبول کرنے وغیرہ ، ان سب کو اپنی مشیت پر موقوف فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَآئَ‘‘[14]

’’پس عنقریب اللہ اگر چاہے گا توتمہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا‘‘-

’’بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآءَ‘‘[15]

’’بلکہ تم (اب بھی) اسی (اﷲ) کو ہی پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہے تو ان (مصیبتوں) کو دور فرما دیتا ہے‘‘-

’’ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ‘‘[16]

’’اور جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے (اپنی نوازشات سے) بہرہ اندوز کرتا ہے‘‘-

’’وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ‘‘[17]

’’اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے‘‘-

’’وَیَتُوْبُ اللہُ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ‘‘[18]

’’اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا‘‘-

ان آیات مبارک سے شکر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ شکر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کی قید نہیں لگائی بلکہ شکر کرنے پہ نعمت بڑھا دینے کا قطعی وعدہ فرمایا‘‘-

اسرائیلیات میں حضرت موسٰیؑ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسٰیؑ کوہ طور پہ اللہ رب العزت سے ہم کلام ہونے جاتے تھے- راستہ میں انہیں ایک بندہ ملا، اس نے کہا موسیٰؑ اللہ تعالیٰ کو میری عرض پیش کرنا کہ میرا رزق نہیں بڑھتا، بھوک، افلاس اور غربت ہے- تھوڑا آگے گئے، دوسرا آدمی ملا اس نے کہا کہ موسیٰؑ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میری عرض کرنا کہ میرے پاس رزق بے تحاشا ہے جو میری ضرورت سے زیادہ ہے-اس لئے میرے رزق کو میری ضرورت کے مطابق کم کیا جائے- موسیٰؑ نے عرض کیا یا اللہ! دو آدمی ہیں، ایک کہتا ہے رزق نہیں، غربت اور بھوک ہے- اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰؑ اُس بندے سے جاکر کہیں میرا شکر ادا کیا کرے، میں اس کا رزق بڑھا دوں گا-پھر عرض کی کہ دوسرے بندے نے عرض کی ہے کہ رزق ضرورت سے زائد ہے اسے کم کیا جائے- اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰؑ اُس بندے سے جاکر کہیں کہ میرا شکر کرنا ترک کردے اس کا رزق خود بخود کم ہو جاۓ گا- موسیؑ دونوں کا پیغام لے کے واپس آئے تو پہلے دوسرے بندے نے پوچھا کہ میری عرض پہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا-موسیٰؑ نےبتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس بندے سے جا کر کہو کہ میرا شکر کرنا ترک کر دے اس کا رزق خود بخودکم ہوجائے گا - اس نے کہا موسیٰؑ! یہ تو میں نہیں کر سکتا کیونکہ جب دینے والا وہ ہے تو میں اس کا شکر کیوں نہ کروں- موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ پھر تیرا رزق کم نہیں ہوگا کیونکہ جو شکر کرتا رہتا ہے اس کا رزق بڑھتا رہتا ہے- پھر پہلا بندہ ملا،اس نے پوچھا کہ میری عرض پہ اللہ تعالیٰ نے کیا اارشادفرمایا- موسیٰؑ نےبتایا کہ اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا ہے کہ اس بندے سے جا کر کہو کہ جو کچھ میں نے بخشا ہے اس پہ میرا شکر کرنا شروع کر دے رزق خود بخود بڑھ جائے گا-وہ کہنے لگا خدا نے کوئی شئے دی ہو تو شکرکروں- موسیٰ ؑنے فرمایا یہی ادا اللہ کو ناپسند ہے-

میرے دوستو! فقط روٹی، لباس اور دولت کی فراوانی ہی نعمت نہیں ہےبلکہ انسان کے وجود کا ہر ہر عضو ایک اعلیٰ ترین نعمت ہے-حتیٰ کہ آنکھ کی پلکوں کا جھپکنا بھی ایک نعمت ہے-حالانکہ یہ ایک ذرا سا عمل ہے بظاہر اس کی کوئی اہمیت نہیں لیکن اس میں بھی اللہ کی بہت سی نعمتیں ہیں- دو نعمتیں پلکوں میں ہیں، اللہ نے ہر ایک کے نیچے عضلات رکھے ہیں ان میں اوتار اور رباط ہیں جو دماغ کے پٹھوں سے متصل ہیں ان کے ذریعے اوپر کی پلک نیچے آتی ہےا ور نیچے کی پلک اوپر کی طرف جاتی ہے- ہر پلک پر سیاہ بال ہیں سیاہ بالوں میں اللہ کی نعمت یہ ہے کہ وہ آنکھ کی روشنی کومجتمع رکھتے ہیں سفیدی روشنی کو منتشر کردیتی ہے اورسیاہی جمع رکھتی ہے پھر ان بالوں کو ایک وصف میں رکھا یہ بھی ایک نعمت ہے اس سے تمہاری نگاہیں محفوظ رہتی ہیں اور ہوا میں اڑنے والے تنکے اور چھوٹے موٹے کیڑے اندر نہیں جاتے پھر پلکوں کے ہر بال میں دو مستقل نعمتیں ہیں ایک تو یہ کہ بالوں کی جڑیں نرم ہیں اور دوسری یہ کہ اس نرمی کے باوجود بال کھڑے ہیں، اوپر نیچے کی پلکیں مل کر ایک جال کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں یہ بھی اللہ کی بڑی نعمت ہے- بعض اوقات ہوا میں اڑتا ہوا غبار آنکھ کھلنے میں مانع ہوتا ہے-ا س صورت میں اگر آنکھ بند کر لی جائے تو کچھ دکھائی نہ دے آدمی اپنی آنکھیں اس طرح بند کر سکتا ہے کہ اوپر نیچے کی پلکوں کو ملا کر جال بنا لے اس طرح نظر بھی آتا رہتا ہے اور گرد و غبار سے آنکھیں بھی محفوظ رہتی ہیں پھر اگر آنکھ کے ڈھیلے پر گرد و غبار اثر انداز ہوجائے تو وہ آنکھوں کے دو چار مرتبہ کھلنے اور بند کرنے سے خود بخود زائل ہوجاتا ہے- در اصل دونوں پلکیں اس ڈھیلے سے ملی ہوئی ہیں ان کے اطراف سیدھے ڈھیلے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اسے اس طرح صاف کر دیتے ہیں جس طرح صیقل آئینہ صاف کردیتی ہے- ایک دو بار پلکوں کو اوپر نیچے کیجیے غبار خود بخود آنکھ کے گوشوں سے نکل کر باہر آجائے گا- مکھی کو آنکھ پر پلکیں نہیں دی گئیں اس لئے وہ اپنی آنکھ کے ڈھیلے کو دونوں پاؤں سے صاف کرتی رہتی ہے-

اسی طرح سانس لینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں ہیں جب انسان اندر کا سانس باہر نکالتا ہے تو قلب کا دھواں باہر نکل جاتا ہے- اگر یہ دھواں باہر نہ نکلے تو آدمی ہلاک ہوجائے اسی طرح جب انسان اندر کی طرف سانس لیتاہے تو باہر کی تازہ ہوا دل میں پہنچتی ہے- اگر یہ ہوا اندر نہ پہنچے تو دل اپنے اندر کی تپش سے خاکستر ہو جائے اور انسان ہلاک ہو جائے- دن میں چوبیس گھنٹے ہیں اور ہر گھنٹے میں انسان کم از کم ایک ہزار مرتبہ سانس لیتا ہے اور ہر سانس میں تقریباً دس لحظہ صرف ہوتے ہیں- یعنی انسان پر اللہ کی طرف سے ہر لحظہ میں ہزار نعمتیں نازل ہوتی ہیں-فقط انسان پر ہی نہیں بلکہ اس کے ہر جزوِ بدن پہ –اس لئے عقل مند وہ ہے جو ہر چیز میں نعمتیں تلاش کرے-کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کھانے پینے کی اشیاء تک محدود سمجھتا ہے وہ کم علم ہے اس کا دردناک عذاب قریب ہے-یہی وجہ ہے کہ عقل مند انسان کی نگاہ جب بھی کسی چیز پرپڑتی ہے یا جب بھی اس کے دل میں کوئی خیال گزرتا ہے وہ اس میں بھی اللہ کی نعمتیں تلاش کرتا ہے-

گویاادنیٰ سے ادنیٰ چیز کو بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کی ایسی نعمت بنایا ہے کہ اگر غور وفکر شروع کیا جائے تو انسان ورطۂ حیرت میں چلا جائے کہ کیسی کیسی نعمتیں خالق کریم نے انسان کو عطا فرما رکھی ہیں-

قرآن کریم میں غوطہ زنی کی جائے تو معلوم ہو کہ رب کریم نے مسلمانوں کو اور خاص کر مدینہ میں بسنے والوں کو ان تمام نعمتوں کے علاوہ کیا کیا نعمتیں عطا فرمائی ہیں- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘‘[19]

’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اُچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد)  اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے )اس کا شکر بجا لا سکو‘‘-

یعنی ان تمام نعمتوں کا مقصد یہ تھا کہ انسان زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور عمل کی گواہی کے ذریعے اس کا شکر بجا لائے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے اس عطا پہ تینوں مراحل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا- انہوں نے آقائے دو عالم (ﷺ)کی اطاعت اور عطا کردہ سلطنت کی حفاظت کی جیسا کہ اس کی حفاظت کا حق تھا-کیونکہ اللہ کے حضور اس کی نعمتوں کا شکر بجالایا جائے-

اس تمہید کے بعد اب بنیادی نکتے کی جانب آئیں- موت ایک برحق حکم ہےجس سے کسی کو فرار نہیں- اسی طرح قرآن مجید ہر مشکل کی کنجی، ہر مسئلے کا حل، گمراہی میں رہنمائی کا ذریعہ اور تاریکی میں نور ہے- جب سورۃ الانفال کی اس آیت کو دیکھتا ہوں تو میرے سامنے پاکستان آجاتا ہے- اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اس وقت کو یاد کرو جب تم قلیل تھے-تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے تو جس طریق سے مفسرین کرام نے مکہ کی حالت بیان کی ہے کہ مسلمان قلیل و کمزور تھے، دشمن انہیں اُچک لینا چاہتا تھا، تو میری نظر متحدہ ہندوستان میں چلی جاتی ہے، جہاں انگریزی سامراج کے بعد ہم اقلیت و کمزور تھے، ہمارے اوپردشمن غالب تھا اور ہمیں اچک لینا چاہتا تھا،ہمارا تشخص اور وجود ختم کرنا چاہتا تھا- سورہ انفال میں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں یاد کرو ہم نے تمہیں ایک محفوظ ٹھکانا عطا کیا، اپنی طاقت اور نصرت سے تمہاری مدد فرمائی، اِس سر زمین پہ رزق کے دروازوں کو کشادہ کردیا-اس لئے جب قرآن کریم کا آج پر اطلاق کیا جائے تو دیکھتا ہوں مجھے پاکستان نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اُس وقت مسلمانوں کی جماعت کو کفار کے دست ظلم سے محفوظ کیا، ان کو ایک ٹھکانا عطا کیا جس طرح اُس وقت اللہ نے مومنوں کو دشمنوں پر فتح و نصرت عطا فرمائی اللہ نے اہلیانِ پاکستان کو کمزوری اور وسائل کی کمی کے باوجود ہر محاذ پہ دشمن پر غلبہ عطا کیا اور پاک چیزوں سے رزق عطا کیا-

میرے بھائیو!جس طرح اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ میں آقا کریم (ﷺ) اور آپ کی آل و اصحاب (رضی اللہ عنھم)کو وافر پانی بخشا، ہری بھری کھیتیاں دیں، باغات دیے، تجارت کے بہترین راستے دیے، اسی طرح اس مدینہِ ثانی پاکستان کو بھی اللہ تعالیٰ نے چاروں موسم عطا فرمائے، باغات دیے، کھیتیاں بخشیں، وافر پانی اور تجارت کے اعلیٰ ترین راستے عطا فرمائے ’’لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ‘، تاکہ ہم شکر گزار بندے بن جائیں-

حضرت ضحاکؒ فرماتےہیں کہ:

’’اَلْحَمْدُرِدَاءُالرَّحْمٰنِ‘‘[20]

’’شکر رحمٰن کی چادر ہے‘‘-

شکر کیلئے سب سے پہلے اعترافِ ضروری ہےیعنی ہم پہ لازم تھا کہ ہم یہ اعتراف کرتےکہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہے- اگر یہ نہ ہوتا تو آج ہندوستان میں مسلمانوں پہ جو ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں ہمارا حال و شمار بھی ان میں ہوتا- ہمارے لئے اس سے بڑھ کر شرم سے جھک جانے کا مقام نہیں کہ ہماری قوم کے بیٹے اور بیٹیاں’’ Competitive Exam‘‘ میں گاندھی کو اپنے رول ماڈل کے طور پر لکھتے ہیں-

 تاریخ کے طالب علموں! قائداعظم محمد علی جناحؒ  کی جنگ RSS ، BJP اور گانگریس سے تھی- یہی وجہ تھی کہ قائد اعظمؒ بارہا اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ گاندھی اور جواہر لال نہرو انگریز راج کے بعد، ہندوستان میں برہمن راج مسلط کرنا چاہتے ہیں-جس وقت 1971ء میں بنگلادیش بنا، مشرقی پاکستان ٹوٹا، تو یہ جسے آج ہندوستان کی اعتدال کی جماعت کہا جاتا ہے ، اس کی لیڈر ، جواہر لال نہرو کی بیٹی مہاتما گاندھی کی پیروکار اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ اقتدار کا بدلہ لے لیا اور دو قومی نظریہ کو ہم نے بحیرہ عرب میں پھینک دیا- آج مودی بھی یہی بات کر رہا ہے-اس لئے کسی بھی مغالطے اور غلط فہمی میں نہ رہیں کیونکہ مودی بھی اندرا گاندھی، جواہر لال نہرو، موتی لال نہرو اور مہاتما گاندھی کی سوچ کا تسلسل ہے- فرق صرف یہ ہے کہ وہ بات مکاری سے کرتے تھے جبکہ مودی بات مکاری سے نہیں کرتا، وہ منافق تھے یہ منافق نہیں ہے- مودی دشمن ہے تو دشمنی کا برملا اعتراف کرتا ہے -وہ بھی دشمن تھے مگر بات کو منافقانہ طریقوں سے پردوں میں کرتے تھے-

آج ہر طرف شور برپا ہے کہ مودی’’نیشنل  رجسٹر آف سٹیزن شپ‘‘ لا رہا ہے جس کے باعث وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ’’سٹیزن آف نو کنٹری‘‘ کردیگا، یعنی بھارت کے مسلمان کسی ملک کہ شہری نہیں رہیں گے، ان کی شہریت منسوخ کی جائے گی-تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں کہ جب1937ءمیں کانگرس کو وزارتیں ملیں انہوں نے کیا کیا؟ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم ؒنے کہا تھا کہ میں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر تھا مگر میں ہندوؤں کے عزائم کو سمجھ گیا، اس لیے میں کہتا ہوں اگر مسلمان اپنی بقا چاہتے ہیں تو اپنی الگ مملکت کی جدوجہد کریں-لہذا پاکستان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے-

لیکن افسوس! ہم اس نعمت کا صحیح معنوں میں شکر ادا کرنے کی بجائے نسلی، لسانی، صوبائی اور علاقائی عصبیتوں میں بٹے رہے اور حکیم الامتؒ نے پاکستان سےوفا کا جو تصور پیش کیا تھا اس کو بھلا بیٹھے کہ:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

یاد رکھیں!جب نعمت ملنے پہ کفرکیا جاتا ہے تو از روئے قرآن نعمت کو گھٹا دیا جاتا ہے- لیکن اگر نعمت کا شکر زبان، دل اور عمل سے کیا جائے تو نعمت کو بڑھا دیا جاتا ہے-اس لئے آج پاکستان سے عزمِ وفا، اِن عصبیتوں سے نکل کر اقبالؒ اور محمد علی جناحؒ کے تصورِ پاکستان کو اپنانے کی ضرورت ہے جو پاکستان کی بنیاد ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پہ استوار کرتے ہیں-

آج کل سوشل میڈیا پہ کوئی اپنی لسانی اور نسلی بنیاد پہ تفرقے کی بات کرتا ہے- لیکن یاد رکھیں کہ یہ شناختیں محض تعارف کی ہیں-اپنے قبائل کے پرچم قومی زندگی کے پرچم نہیں ہیں-بلکہ قومی زندگی کا پرچم ایک بلند ترین قومی عزم ہوتا ہے- ایک بلند ترین روحانی شناخت پہ قوم کی بنیاد رکھی جاتی ہے لیکن افسوس ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں-

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ استعمار کی دشمنی صدّام حسین سے تھی-اگر استعمار کی دشمنی صدام حسین سے تھی تو اس کے مخبروں پہ کیوں ڈرون اٹیک ہوئے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی دشمنی صرف صدام حسین، معمر القدافی،  قاسم سلیمانی، شاہ فیصل،  بھٹو  صاحب، ضیاء الحق اور لیاقت علی خانؒ سے نہیں ہے بلکہ اُن کی دشمنی ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پڑھنے والوں سے ہے-

افسوس! کہ ہمارے معاشرے میں بھی مختلف ذرائع سے شائع اور نشر ہونے والے اشتہارات لبرل ازم اور سیکولر ازم کے نام پہ فحاشی وعریانی کو فروغ دے رہے ہیں-لیکن غضب یہ ہے کہ اس مسئلہ پہ شرفاء اورعزت دار خاموشی سادھے جبکہ بدمعاش اپنی کاوشیں کر رہے ہیں-اس لئے شرفاء کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی ندائے شرافت بلند کریں-

میرے دوستو! ہماری پہلی کمٹمنٹ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے اور اس کے بعد اس کلمہ کی بنیاد پہ قائم ہونے والی یہ عظیم ترین اسلامی، روحانی اورنظریاتی مملکت ہے- ہم فرزندِ اسلام اور فرزندِ پاکستان ہیں- ہم لسانی، سماجی، صوبائی اور نسلی عصبیتوں کی نفی کرتے ہیں-اس لئے ہم پہ یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے نونہالوں کی تربیت اس اصول پہ کریں،اُن کو یہ بتائیں کہ ہماری شناخت اور اللہ کا ہم پہ انعام کیا ہے-اس لئے جہاں ہمیں اخلاقی و روحانی تربیت کی ضرورت ہے وہاں ہمیں قومی تربیت کی بھی ضرورت ہے- کیونکہ جس عقیدہ سے ہم محبت کرتے ہیں وہ ہمیں پاکستان سے محبت سکھاتا ہے-

اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے قارئین کی توجہ اس جانب دلانا چاہوں گا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اسی موضوع سے متصل ایک اور فلسفہ سمجھایا ہے کہ جب شیطان صراطِ مستقیم سے بھٹک گیا تو اس نے کہا:

’’قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘[21]

’’اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قٔسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تاآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)‘‘-

’’ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِہِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِہِمْط وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ‘‘[22]

’’پھر میں یقیناً ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘-

آج جو نعمتِ پاکستان کو جھٹلاتا ہےاس آیتِ قرانی کی رو سے وہ شیطان کا ساتھی ہےاور جو اس نعمت کی قدر اور اس کے استحکام وسالمیت کے لئے لڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے گروہ میں کھڑا ہے-اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم رحمٰن کے قریب ہو جائیں اور شیطانی کی فکر و سوچ سے دور کریں-ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کریں جو پاکستان اور اس کی نظریاتی اساس کے خلاف بات کریں-

درج بالا گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں شکر لازم ہے- انفرادیت میں شکر کی شرائط، زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور عمل سے نمونہ پیش کرنا ہیں جبکہ اجتماعیت میں بھی یہی شرائط ہیں کہ قوم با آوازِ بلند پاکستان کو نعمتِ باری تسلیم کرے- اُس کے بعد دل سے اس بات کی تصدیق کرے اور جو شکوک و شبہات دلوں میں پل رہے ہیں انہیں زائل کر دیا جائے اور ایسے لوگ جو پاکستان اور اس کے اساسی تصور کی نفی کریں انہیں بھی اٹھا کر بارڈر پار پھینکنا چاہئے ’’پہنچے وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر ہو ‘‘  اور پھر اپنے عمل سے اُس قومی یکجہتی کا ثبوت دیا جائے- ہمیں فخر کرنا چاہیے اُن لوگوں پہ جو پاکستان پہ قربان ہوئے وہ چاہے افواجِ پاکستان سے تھے یا دیگر اداروں سے- جس نے جہاں بھی ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے نظریہ پہ معرض وجود میں آنے والی قوم پہ قربانی دی ہے وہ نہ صرف محسنِ پاکستان اور محافظِ پاکستان ہے بلکہ وہ محسن اسلام اور محافظِ اسلام ہیں-

سرِ خاکِ شہیدے برگہاے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہالِ مِلّتِ ما سازگار آمد

یعنی میں شہید کے سرہانے گیا اور اُس کی قبر پہ پھولوں کا نذرانہ پیش کیا- کیونکہ اُس کے خون نے میری ملت کو زندگی بخشی ہے-

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی خانقاہ سے اصلاحی جماعت کی یہی دعوت ہے کہ آئیں اپنی اخلاقی، روحانی تربیت کے ساتھ اپنی ملت کی نظریے اور اس کی اساس کی تربیت حاصل کریں- تاکہ ہم دینِ اسلام اور پاکستان کے صحیح نظریاتی پہرہ دار بن سکیں- اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے-آمین!

٭٭٭


[1](البقرہ:152)

[2](النساء:147)

[3](التغابن:17)

[4](النحل:121)

[5](صحیح بخاری: كِتَابُ الجُمُعَةِ)

[6]( القاموس المحيط)

[7](كتاب التعريفات)

[8]( رسالة القشيریہ)

[9](تفسیر قرطبی، زیر آیت، السباء:13)

[10]( إحياء علوم الدين)

[11](النور:30)

[12](ابراہیم:7)

[13](آلِ عمران:145)

[14]( التوبہ:28)

[15]( الانعام:41)

[16]( آلِ عمران:27)

[17]( النساء:48)

[18]( التوبہ:15)

[19](الانفال:26)

[20]( احیاء علوم الدین)

[21](الاعراف:16)

[22](الاعراف:17)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر