پاکستانی معاشرہ اور بڑھتی ہوئی شرح طلاق

پاکستانی معاشرہ اور بڑھتی ہوئی شرح طلاق

پاکستانی معاشرہ اور بڑھتی ہوئی شرح طلاق

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ جولائی 2016

اسلامی معاشرے کی بنیاد اور اکائی خاندان یا کنبہ ہے جس کا آغاز میاں بیوی سے ہوتا ہے- پھر یہ سلسلہ ان کی آئندہ نسلوں تک چلا جاتا ہے اور یوں اسلامی معاشرت وجود میں آتی ہے- اس معاشرت کو نمو اور حیات مہیا کرنے کی غرض سے شریعتِ اِسلامی نے مرد اور عورت کے تعلقات کو پاکیزہ انداز اور خاص اسلوب کے تحت مربوط کیا ہے جس کو اصطلاحاً نکاح کہتے ہیں- نکاح وہ اہم طریقہ ہے جس کے واسطے سے انسان کی جبلّی ضروریات پوری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منظم معاشرہ وجود میں آتا ہے جس سے تہذیب کا سفر جاری و ساری ہے- نکاح کا لغوی معنی اشیائ کو   ’’ایک جگہ یکجا کرنا‘‘ یا ’’جمع کرنا‘‘ ہے- کسی شے کا آپس میں ’’پیوست ہونے‘‘ یا ’’جذب‘‘ ہونے پر لفظِ نکاح بولا جاتا ہے- ﴿سعدی ابوحبیب، القاموس الفقہی لغتۃ و اصطلاحا﴾

شریعت میں نکاح سے مراد عقد ہے جس کے معنی گانٹھ یا گرہ لگانے کے ہیں- چونکہ عورت اور مرد نکاح کے ساتھ ایک بندھن میں باندھ دیئے جاتے ہیں اس لئے نکاح کو عقد سے بھی موسوم کیا جاتا ہے- نکاح صرف دو انسانوں کے جسمانی ملاپ کا نام نہیں بلکہ یہ دو روحوں کے ملن کا نام ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک رشتۂ ازدواج سے کئی انسانی کنبے ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی اور غمگسار بن جاتے ہیں- اُن کنبوں کی بیگانگی، یگانگت میں بدل جاتی ہے اور اجنبیت، اپنائیت میں اس طرح بدل جاتی ہے کہ خاندان ایک دوسرے کے لئے قربانی اور ایثارکے لئے نہ صرف ہمہ وقت تیار رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے ہیں اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں- اس کی بنیادی وجہ اسلام کے وہ عظیم اور آفاقی معاشرتی قوانین ہیں جن کی بدولت انسانی سوچ میں محبت، ہمدردی، غمگساری، اپنائیت، اُنس اور ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے کا جذبہ ابھرتا ہے-

اسلام نکاح کرنے کو نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ بنی نوع انسان کو نکاح کی طرف راغب بھی کرتا ہے اس بات کا اندازہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﴿w﴾ کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ﴿w﴾ نے فرمایا :

’’النکاح من سنتی‘‘ ﴿ابن ماجہ ، کتاب النکاح﴾

’’نکاح میر ی سنت ہے‘‘ -

آئمۂ دین نے نکاح کے جو خُطبے ترتیب دیئے اُس میں انہوں نے اِس حدیث کے ساتھ آقا کریم ﴿a﴾ کی ایک اور حدیث پاک کو متصل کر کے پڑھا جس کا معنیٰ ہے ’’اور جو میری سُنّت سے بے رغبتی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘- آئمہ کرام نے اِن دونوں احادیث کو ملا کر پڑھنے سے یہ درس ارشاد فرمایا کہ نکاح آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سُنّت ہے اور جو آدمی اِس سُنّتِ مبارک سے بے رغبت ہے وہ تعلیماتِ اسلامی کے خلاف چل رہا ہے- اِس سُنّت پہ عمل پیرا ہونے سے معاشرے میں شرم و حیا اور عفت و عصمت کو فروغ ملتا ہے جس سے انسانیّت کی تکریم پامال ہونے سے محفوظ ہو جاتی ہے-

اسلام نے صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لئے جہاں عائلی زندگی کو ضروری قرار دیا ہے ﴿یعنی حضور اکرم ﴿w﴾ نے مجرد زندگی گزارنے سے منع فرمایا ہے﴾ وہاں زندگی کو بہترین اسلوب سے بیتانے کے لئے اصول و قوانین مقرر فرمائے اور ہدایات بھی جاری کی ہیں جن پر عمل درآمد کر کے ہر مسلمان اپنی زندگی خوش و خرم گزار سکتا ہے- اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ برتائو کے لئے خلوصِ نیت، صلہ رحمی، محبت اور شفقت کے برتاؤ کا درس دیا ہے لیکن اگر کبھی رویے اور سلوک میں کسی بھی وجہ سے بھول چوک ہو جائے تو اسلام ہمیں برداشت، صبر و تحمل، عفو و درگزر کا درس دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ عزت و تکریم، ادب و احترام اور حیائ اسلامی معاشرے کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے- ان اَقدار کو اپنانے سے خاندان، مضبوط اور محبت و الفت کے جذبات سے لبریز رہنے کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑے اور دنگا و فساد سے محفوظ رہتا ہے- اگر ہم ان خصوصیات پر غور کریں تو یہ روایات معاشرے میں یکجہتی اور یگانگت پیدا کرنے میں ہمارے معاون ہیں اور ساتھ ہی معاشرے سے بیزاری، عداوت اور نفرت کو ختم کرتا ہے-

قابل صد افسوس مقام ہے کہ یہ اعلیٰ اسلامی اقدار آہستہ آہستہ ہمارے معاشروں سے رخصت ہو رہی ہیں اُن کی جگہ مغربی مادر پدر آزاد عادات کی معاشرے میں نفوذ پذیری ہو رہی ہے- جس کے نتیجے میں برداشت اور صبر، ایک دوسرے کا احترا م اور عزت نفس کا خاتمہ ہو رہا ہے اور اس کا اثر خاندان پر بھی پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں خلع اور طلاق کے رجحانات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے- پیغمبرِ اسلام ﴿w﴾ نے نکاح کو پسند فرمایا اور طلاق و خلع کو ناپسند فرمایا-

طلاق کے لفظی معنی کسی شے کو’’ ترک‘‘ کرنا یا اس سے ’’چھٹکارا‘‘ حاصل کرنا ہیں ﴿مفردات ، امام راغب اصفہانی﴾-

کسی بندھے ہوئے جانور کی رسی کھول کر اسے رہا کر دینے پر عرب طلاق کا لفظ استعمال کرتے ہیں- ﴿امام سرخسی: المسبوط، مصر، مطبع السعادۃ﴾-

جب میاںبیوی کے مابین الفت باقی نہ رہے اور طلاق کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو شریعت کا بتایا ہوا راستہ اختیار کر کے بذریعہ طلاق جدائی بہتر ہے- لیکن میاں بیوی کے مابین تفریق اور جدائی اللہ کے نزدیک پسندیدہ فعل نہیں- حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ:-

’’ابغض المباح الی اللّٰہ تعالی الطلاق‘‘ ﴿سنن ابی داؤد ، کتاب الطلاق﴾

’’طلاق حلال ﴿اشیائ﴾ میں سے اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین شے ہے‘‘-

ایسے ہی خلع کے بارے میں فرمایا کہ:-

’’ایما امراۃ سالت زوجھا الطلاق من غیر باس حرم اللّٰہ علیھا ان تریح رائحۃ الجنّۃ‘‘ ﴿مستدرک علی الصحیحین﴾

’’جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی شدید ضرورت کے طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہے‘‘-

اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ طلاق کے ذریعے جدائی اور تفریق پیدا کرنا شیطان کا محبوب مشغلہ ہے تو یہ غلط نہ ہوگا- ایک حدیثِ پاک کے مفہوم سے پتہ چلتا ہے کہ ابلیس اپنے چیلوں کو دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے زمین پر بھیجتا ہے- ہر ایک کچھ نہ کچھ کر کے واپس جا کر اپنی کار گزاری ابلیس کو سناتا ہے مگر وہ ان کے کام سے مطمئن نہیں ہوتا- لیکن ایک چیلا جب آ کر یہ خبر سناتا ہے کہ اس نے میاں بیوی کے درمیان فتنہ و فساد ڈال دیا ہے تو ابلیس خوشی کے مارے اسے گلے لگا لیتا ہے- ﴿مشکوۃ، کتاب الایمان، باب الوسوسہ﴾

اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان فتنہ و فساد تمام شیطانی فتنوں سے بڑھ کر ہے- اس ایک فتنے سے بے شمار فتنے اور پریشانیاں پھوٹتی ہیں جس سے معاشرہ بُری طرح متاثر ہوتا ہے- دو افراد کا مسئلہ بڑھتے بڑھتے دو خاندانوں بلکہ کئی خاندانوں کا مسئلہ بن جاتا ہے- اگر صلح کی صورت نہ بنے اور تفریق میں اضافہ ہوتا جائے تو دو افراد ہی نہیں دو خاندان جدا ہو جاتے ہیں- یوں ایک گھر کا جھگڑا بڑی حد تک معاشرتی نظام کی خرابی کا باعث بن جاتا ہے اور اگر ایسا کثرت سے ہونے لگے تو اس کے منفی اثرات معاشرے میں بیماری ، ضعف اور ناتوانی پیدا کر دیتے ہیں اور معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی چلی جاتی ہیں- اس لئے اسلام میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے کو سخت نا پسند کرتا ہے اور اس سے بچنے کے لئے احکامات دیتا ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لئے ہیں- اسی لئے اسلام نے جہاں عورت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے فرائض پوری طرح ادا کرے وہیں مرد کو بھی عورت کے حقوق پورے کرنے کا حکم دیا ہے- مگر بد قسمتی سے تربیت اور اخلاقیاتِ اسلام سے دُوری کی وجہ سے مرد و خواتین ایک دوسرے کیلئے ایک دوسرے پہ عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں ہوتے ، یوں وہ ’’برداشت‘‘ کی بجائے ’’انا‘‘ کو زندگی گزارنے کا بہتر اسلوب گردانتے ہیں جس وجہ سے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں اور نتیجہ علیحدگی پہ نکلتا ہے-

طلاق جہاں خود میاں بیوی کی ذہنی، نفسیاتی اور روحانی زندگی کو متاثر کرتی ہے وہیں اُس کی زد میں آنے والے کنبے بھی شدید اذیت سے گزرتے ہیں جو کئی مرتبہ طیش و انتقام کی وجہ سے خاندانی دشمنیوں تک بات بڑھا دیتے ہیں- اِسی طرح بچے خاص کر اِس کوفت اور اذیت کا سامنا کرتے ہیں اور جُرمِ ناکردہ کی سزا ساری زندگی بھگتتے ہیں-

بچوں پر طلاق کے اثرات:

والدین بچوں کے لئے سائبان کا درجہ رکھتے ہیں- اگر والدین کا باہمی رشتہ ٹوٹ جائے تو سب سے زیادہ اور دور رس اثرات بچوں پر مرتب ہوتے ہیں- اگر والدین کے مابین طلاق واقع ہو جائے تو عموماً بچے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں اور ان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے- ایسے بچے مستقبل میں رشتوں کو نبھانے اور عملی زندگی میں عام بچوں کی مانند نہیں ہوتے بلکہ ایک خلائ اور احساسِ کمتری ان پر سوار رہتی ہے- ماں باپ کے اس عمل کی وجہ سے ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے- اگر بچے بہت چھوٹے ہوں تو وہ اس عمل کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہمارے والدین ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں رہ رہے اور اگر ان کی عمر اتنی ہو کہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ ہمارے والدین کے درمیان کیا معاملات طے پا رہے ہیں تو ان حالات میں کوئی بھی موثر کردار ادا نہ کر سکنے کے باعث اپنے ہی جی میں کڑھتے رہتے ہیں- غصہ اور شدت ان کی طبعیت کا حصہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے جوں جوں وہ بڑھے ہوتے ہیں ان میں منفی عوامل کی طرف رجحان بڑھتا جاتا ہے- خصوصاً جب وہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں ان بچوں کے ساتھ ملتے ہیں جو اپنے دونوں والدین کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں ان کا اپنے والدین کے ساتھ پیار اور محبت اور بچوں کے ساتھ والدین کا مشفقانہ برتائو طلاق شدہ والدین کے بچوں میں محرومی کے احساس کو مزید اُجاگر کرتا ہے- وہ خود کو عضو معطل کی مانند تصور کرتے ہیں جس کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوتی جس کے باعث ان کو کم عمری میں ہی دھتکار دیا گیا ہو اور سارے واقعہ کے ذمہ دار وہ خود کو تصور کرتے ہیں- اس سے بڑھ کر یہ کہ اس معاملے میں وہ اپنے دل کی بات کو لبوں تک نہیں لا سکتے اس طرح وہ خود سے ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی ان کا جواب اپنے آپ کو دیتے ہیں- ان کا بچپن دل و دماغ کی نہ سلجھنے والی گتھیوں کو سلجھانے بلکہ مزید الجھانے میں گزر جاتا ہے- ایسے بچے اپنے آپ کے ساتھ لڑتے رہتے ہیں ، اپنے جذبات اور احساسات کا کھُل کر اظہار نہیں کر پاتے ا ندر ہی اندر کڑھنے اور سلگتے رہنے کے باعث وہ زندگی میں احساسِ کمتری اور عدم تحفظ کا مستقل بنیادوں پر شکار ہو جاتے ہیں- احساسِ کمتری کا خلائ بچوں کے ساتھ کسی عفریت کی طرح چمٹ جاتا ہے اور اگر مناسب سہارا نہ ملے تو بچے اوائل جوانی میں ہی اپنا دھیان بانٹنے کی خاطر نشہ آور اشیائ کا بھی سہارا لینا شروع کر دیتے ہیں جن سے ان کی زندگی تباہی اور بربادی کی طرف چل پڑتی ہے- کئی بچے منفی رُجحانات میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے مثبت سوچ اور مثبت رویّے سے محروم ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ زندگی بھر کی ناکامیاں ہوتی ہیں- اکثر بچے سوتیلے والد یا حالات کے تھپیڑوں سے تنگ آ کر اوائل جوانی ہی سے چوری چکاری، منشیات، بدکاری، غلط صحبت اور دیگر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں-

آج کل جس طرح سکولز اور کالجز میں ’’پیرینٹس ڈے‘‘ وغیرہ کی تقاریب ہوتی ہیں جس میں بچوں کے والدین کی شرکت لازمی ہوتی ہے ان مواقع پر ایسے بچے خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں- اسی طرح یہ بچے یاداشت کی کمی اور چیزوں پر پوری طرح توجہ نہ دے سکنے کی وجہ سے عموماً تعلیمی میدان میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں- اس کے ساتھ ساتھ ایسے بچے خیالی دنیا میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں جہاں وہ اپنے دماغ میں ایک مکمل پر امن اور محبت سے بھر پور دنیا تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں- جس کے باعث ان کی توجہ تعلیمی سرگرمیوں سے زیادہ اپنے اندر کی دنیا میں ہوتی ہیں جہاں وہ اپنی سوچوں کے ذریعے وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ان کی زندگی ان کو مہیا نہیں کرتی- اس طرح کے نفسیاتی عوامل اور عوارض کا بچے شکار رہتے ہیں اور عملی زندگی میں اس طرح کامیابیاں سمیٹنے میں ناکام رہتے ہیں- بچوں کو ان نفسیاتی اور ذہنی اذیت سے بچانے کا واحد حل یہی ہے کہ طلاق اور خلع سے حتی الامکان بچا جائے-

دنیا میں طلاق کا بڑھتا ہوا رُجحان:

معاشروں میںعدم برداشت کے باعث عصرِ حاضر میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رُجحان نے عالمگیر صورت اختیار کر لی ہے جس سے فیملی یونٹ کا شیرازہ بکھر رہا ہے- ۳۱۰۲ئ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے-

۷۵۲ ممالک میں سے شرح طلاق میں سر فہرست ممالک کا نام درج ذیل ہے-

﴿۱﴾ روس ﴿۲﴾ بیلا روس ﴿۳﴾ یوکرین ﴿۴﴾ مالدوا ﴿۵﴾ لیتھونیا ﴿۶﴾ امریکا ﴿۷﴾ کیوبا ﴿۸﴾ برموڈا ﴿۹﴾ کیمن آئی لینڈ ﴿۰۱﴾ چیک ری پبلک-

اس فہرست سے حقیقت کھل کر واضح ہوتی ہے کہ ان ممالک میں سے اکثر کا تعلق مشرقی یورپ سے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے اس بڑھتے رُحجان سے مشرقی ممالک متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے اور متاثر ہونے والے مشرقی ممالک میں سے بعض مسلم ممالک مثلاً ملائیشیا، ترکی، سعودی عرب، ایران، پاکستان، کویت اور متحدہ عرب امارات قابلِ ذکر ہیں- پاکستان میں اکیسویں ﴿۱۲﴾ صدی کے اوائل سے شرح طلاق میں اضافہ ہونے لگا ہے اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے- طلاق سے متاثرہ خاندانوں کے افراد صحت، نفسیات اور معیشت وغیرہ کے اعتبار سے متأثر ہو رہے ہیں اور اس مسئلے کے سبب دیگر سماجی برائیاں جنم لے رہی ہیں- ﴿پاکستان جنرل آف اسلامک ریسرچ، اسلامک ریسرچ سنٹر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان﴾

پاکستان میں طلاق کا بڑھتا ہوا رُجحان:

معروف انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹو ڈے ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق لاہور شہر میں گزشتہ دِہائی کے دوران شرح طلاق میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے- اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر خلع اور طلاق کے سو ﴿۰۰۱ یعنی سالانہ ۰۰۵،۶۳﴾ سے زائد کیسسز فیملی کورٹس میں رجسٹرڈ ہو رہے ہیں- طلاق کے اس بڑھتے ہوئے رُجحان سے معاشرے کا کوئی طبقہ بھی ایسا نہیں جو متاثر نہ ہوا ہو- نہ صرف اَپر کلاس بلکہ مڈل اور لوئر کلاس طبقہ اس سے شدید متاثر ہے- ایک محتاط اندازے کے مطابق فروری۵۰۰۲ئ تا جنوری ۸۰۰۲ئ تک صرف لاہور شہر میں پچہتر ہزار ﴿۰۰۰۵۷﴾ کیسیز رجسٹرڈ ہوئے- اگر ان کا اوسط تخمینہ لگایا جائے تو روزانہ کی بنیاد پے یہ انہتر ﴿۹۶﴾ کیسیز بنتے ہیں- اسی طرح فروری ۸۰۰۲ئ تا مئی ۱۱۰۲ئ تک رجسٹرڈ ہونے والے کیسیز کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ایک اکتالیس ﴿۱۴۱،۴۲،۱﴾ ہے- اگر ان کاا وسط تخمینہ لگا یا جائے تو واضح ہو تا ہے کہ یومیہ ایک سو تیرہ ﴿۳۱۱﴾ کیسیسز بنتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ صرف تین سال کے مقابلے میں سال ۱۱۰۲ئ کے دوران اکسٹھ ﴿۱۶﴾ فیصد اضافہ ہوا- اسی طرح دو لاکھ انسٹھ ہزار چونسٹھ ﴿۴۶۰،۹۵،۲﴾ کیسیز خلع کے دائر ہوئے-۵۰۰۲ئ سے ۱۱۰۲ئ تک طلاق اور خلع کے چار لاکھ اٹھاون ہزار دو سو پانچ ﴿۵۰۲،۸۵،۴﴾ کیسیز عدالتوں میں رجسٹرڈ ہوئے اور یہ ڈیٹا صرف لاہور کا ہے- اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے- اسی طرح اگر کراچی کا ذکر کیا جائے تو جنوری ۵۰۰۲ئ تا جنوری ۸۰۰۲ئ کے دوران فیملی کورٹس میں طلاق اور خلع کے چونسٹھ ہزار آٹھ سو﴿۰۰۸،۴۶﴾ کیسیز کا اندارج ہوا اور ۸۰۰۲ئ تا ۲۱۰۲ئ میں رجسٹرڈ ہونے والے کیسیز کی تعداد بہتر ہزار نو سو ﴿۰۰۹،۲۷﴾ ہے- اسی طرح کراچی کی تمام فیملی کورٹس اور شہری حکومت کی مصالحتی کمیٹیوں میں طلاق اور خلع کے رجسٹرڈ ہونے والوں کیسیز کی تعداد کا مجموعہ پچہتر ہزار چوّن ﴿۴۵۰،۵۷﴾ بنتا ہے- جس کی سالانہ اوسط اٹھارہ ہزار ﴿۴۶۷،۸۱﴾ بنتی ہے جبکہ بیس فیصد کیسیز ایسے ہیں جو رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور معاملہ دو خاندانوں کے مابین ہی رہتا ہے- یہ چوبیس ﴿۴۲﴾ مارچ ۳۱۰۲ئ کی رپورٹ ہے- ﴿پاکستان جنرل آف اسلامک ریسرچ، اسلامک ریسرچ سنٹر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان﴾

روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور کے مطابق گزشتہ سال ۵۱۰۲ئ میں سال ۴۱۰۲ئ کے مقابلے میں کیسز میں تیس ﴿۰۳﴾ فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے-

پاکستان میں شرح طلاق میں اضافے کے اسباب:

پاکستان میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے بے شمار اسباب اور وجوہات ہیں- ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

﴿الف﴾ قانون:

حیرت ہے جس معاشرے میں آئے روز طلاق سے گھر اجڑتے ہوں، بچے یتیم ہوں، با سہارے بے سہارا ہوں اور پھر بھی وہ معاشرہ اس عذاب کے اسباب پر توجہ نہ دے تو ایسے معاشرے کے نصیب میں غم و تکالیف نہ ہوں تو اور کیا ہو گا-

اگر پاکستان کی دو سو ﴿۰۰۲﴾ ملین عوام سے طلاق کے متعلق قانون کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اکثر لوگ اس قانون سے ہی ناواقف ہیں جو ان کے فیملی یونٹ کو ٹوٹنے سے بچاسکتا ہے، جو ان کے ہنستے بستے گھروں کو اجڑنے سے بچنے کا آخری موقع فراہم کرتا ہے، جو انہیں جلد بازی و غصے کے فیصلوں سے نکال کر، صبر و تحمل اور مل بیٹھ کر سوچنے کا وقت دیتا ہے، جو انہیں اس جائز کام سے روکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے-

مسلم فیملی لائ آرڈیننس 1961 سیکشن ﴿7﴾:

مسلم فیملی لائ آرڈیننس ۱۶۹۱ئ کا سیکشن سات ﴿۷﴾ طلاق کے طریقہ کار کو وضع کرتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی پاکستانی مسلمان طلاق دینا چاہے گا وہ سیکشن سات ﴿۷﴾ میں بیان کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کا قانونی طور پر پابند ہوگا- اس سیکشن کے تحت شوہر طلاق کا تحریری نوٹس متعلقہ یونین کونسل کے چیئرمین کو بھجوائے گا- نوٹس ملنے کے تیس ﴿۰۳﴾ دن کے اندر چیئرمین ثالثی کونسل بنا کر دونوں فریقین کو صلح و مفاہمت کا موقع دے گا-

اس سکیشن کی عوام میں بھر پور آگاہی اور اس پر سختی سے عمل درآمد کر کے سینکڑوں خاندانوں کو ذلت و رسوائی سے بچایا جا سکتا ہے تا کہ آئندہ ع ن گ PLD 1963 SC 51 اور ب بی بی PLD 1988 SC  186 جیسے کیسز سے بچا جا سکے- لیکن عموماً لوگ بیک وقت تین طلاقیں جاری کر دیتے ہیں جس کے بعد صلح یا رجوع کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں-

۲۰۰۱ئ میں مسلم فیملی کورٹ ایکٹ ۴۶۹۱ئ کے سیکشن دس ﴿۰۱﴾ دفعہ پانچ ﴿۵﴾ کی ترمیم کے بعد خلع کے ذریعے طلاق کا عمل آسان ہونے کے باعث شرح طلاق میں اضافہ ہوا ہے- ان تبدیلیوں کی وجہ، عورتوں کو فوری انصاف کی فراہمی قرار دیا گیا- ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ بعض اوقات طلاق کے بنا کوئی چارہ نہیں ہوتا اور عورتیں انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہوتی ہیں اور مرد اُن کو طلاق نہیں دیتے بلکہ ان کی زندگی سولی پر لٹکا رکھتے ہیں- جس کی وجہ سے نہ وہ اپنے گھر رہ سکتی ہیں اور نہ یہ دوسری شادی کر کے اپنا گھر بسا سکتی ہیں اس وجہ سے ایک بھر پور اور طویل جدوجہد کے بعد فیملی ایکٹ میں ترامیم کی گئی ہیں- اس طرح کے کیسز میں تو اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ آئینی ترمیم بہتر ہے لیکن مجموعی طور پر فوری انصاف کے نام پر جس طرح لاکھوں گھرانے طلاق سے متاثر ہو رہے ہیں اس کی بہتر پیش بندی کے لئے حکومت کو اس کا حل کرنا چاہیئے اور پالیمنٹ کے نمائندوں کو نالیوں گلیوں کے جھوٹے فریبی وعدوں کی بجائے پارلیمان کا اصل کام یعنی مؤثر قانون سازی کرکے معاشرے کو ایسے سانحات سے محفوظ کرنے کی ترکیب و تدبیر کرنی چاہیئے- موجودہ فیملی ایکٹ کے تحت اگر کوئی عورت صرف یہ کہہ دے کہ وہ طلاق چاہتی ہے تو بغیر کسی شہادت کے صرف اس کے انکار پر عدالت طلاق جاری کر دیتی ہے- یعنی عورت کا ایک انکار موجودہ قانونی نظام میں طلاق کے لئے کافی ہے- ایک اسلامی ریاست ہونے کے باوجود ہمارے ہاں فرسودہ ’’اینگلو سیکسن لأ‘‘ پریکٹس کیا جاتا ہے- ’’اینگلو سیکسن لأ‘‘ کی بہت سی خرابیاں ہیں، اِس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر یہ ﴿یعنی اینگلو سیکسن لأ﴾ انصاف کرے تو قانون قتل ہوتا ہے اور اگر اس کے برعکس یہ قانونی تقاضے پورے کرے تو انصاف قتل ہو جاتا ہے- ہمیں ایسے مدبرین اور بلند پایہ مفکرین کی ضرورت ہے جو ہماری معاشرتی روایات و اقدار سے ہم آہنگ جدید قانونی نظام تشکیل دے سکیں جو قرآن و سُنّت کے مطابق ہو-

﴿ب﴾ تربیت کی کمی:

تربیت کی کمی پاکستانی معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کے باعث بہت سی خرابیوں کے ساتھ ساتھ معاشرے میں طلاق کی شرح میں اضافہ بھی ہو رہا ہے- اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اولاد ﴿بیٹے اور بیٹیاں دونوں﴾ بہت اچھے عادات اور اطوار کی مالک ہے اور یہ تمام خاندانی مسائل اور نزاکتوں سے واقف ہیں- اس خوش فہمی کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کے ساتھ ان موضوعات پر زیادہ گفتگو نہیں کرتے جن سے خاندانی مسائل کا حل ممکن ہو سکے- اس کے ساتھ ساتھ جنریشن گیپ بھی ایک بڑی وجہ ہے جو کہ اچھی تربیت کرنے میں رکاوٹ کا باعث ہے- جس کی وجہ سے والدین اور بچوں میں زیادہ گفتگو نہیں ہوتی- ہمارے معاشرے میں عموماً والدین کے ساتھ اور خصوصاً والد کے ساتھ بچوں کی برائے نام گفتگو ہوتی ہے- جس کی وجہ سے اہم اور نازک مسائل پر بچے اور والدین دونوں کھل کر اپنی آرائ کا اظہار نہیں کر سکتے اور اس طرح بچے تربیتی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں- اس طرح عموماً بچوں میں صبر اور برداشت کی کمی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیںکر سکتے اور کسی دوسرے کی رائے کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے- یہ رویہ ان کے ذہنوں میں دائمی صورت اختیار کر جاتا ہے لہٰذا ان میں کسی کی بات کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہو جاتا ہے اور جب وہ بچے بلوغت کے بعد شادی کی عمر کو پہنچتے ہیں تو اپنے رویے میں اس قدر پختہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کا تبدیل ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور شادی کے بعد اس برداشت کی کمی اور صبر کے فقدان کی وجہ سے وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کو تباہ کر بیٹھتے ہیں-

اگر بچپن سے بچوں کی مناسب انداز میں تربیت کی جائے اور ان میں رشتوں کی اہمیت، احترام اور تقدس کا شعور پیدا کیا جائے اور رشتوں میں اُن کی ذِمّہ داریوں کا احساس دلایا جائے تو قوی اُمّید ہے کہ بڑھے ہوکر ان میں رشتوں کو مؤثر اور اچھے انداز میں نبھانے کی صلاحیت زیادہ ہوگی اور رشتوں کے احترام اور اُن کے نبھانے میں اپنی ذِمّہ داریوں کے احساس کے باعث صبر اور برداشت کے جذبہ سے گھرانہ محبت اور سکون کا مرکز بن سکے گا- بچپن میں مناسب تربیت کے باعث اَنا پرستی کا بھی خاتمہ ممکن ہے اور غلطی کی صورت میں معذرت کرنے اور معاف کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوگا- بزرگانِ دین اَولیا اللہ کی بے شمار حکایات اور ارشادات موجود ہیں جن میں وہ ہمیشہ یہ تلقین کرتے تھے کہ معذرت کرنے میں بھی اور معاف کرنے میں بھی، دونوں میں پہل کرنی چاہئے-

اسی طرح اگر بچیوں کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ پروفیشنل تعلیم کے ساتھ ساتھ اُمورِ خانہ داری میں بھی ماہر ہوں اور ان کی زبان بے قابو نہ ہو بلکہ وہ کچھ کہنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے اور ان کے اثرات ہماری زندگی پر کیا پڑیں گے تو اس بات کا احساس بہت سے گھر اُجڑنے سے بچا سکتا ہے- مناسب تربیت کی وجہ سے بچیوں کی توقعات بہت زیادہ نہیں بڑھتیں اور وہ اپنے گھر کے ماحول اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتی ہیں- جس سے ان کے اس ایثار کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے- اسی طرح بچیوں کی تربیت کے سلسلے میں ان کے سامنے حضرت خدیجہ ﴿k﴾، حضرت عائشہ صدیقہ ﴿k﴾ اور سب سے بڑھ کر حضرت فاطمۃ الزہرہ ﴿k﴾ کی زندگی بطور نمونہ پیش کرنا ہوگا-

علامہ اقبال (رح)نے بڑے خوبصورت انداز میں مسلمان بیٹیوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ اے میری بیٹی تیری رول ماڈل سیدۃ النسائ خاتونِ جنت فاطمۃ الزہرہ (رض)ہونی چاہیے اور تمہیں ہر معاملے میں ان کی زندگی سے رہنمائی لینی چاہیے:-

نوری و ہم آتشی فرمانبرش

گم رضائش در رضائے شوہرش

’’ساری نوری اور ناری مخلوق آپ ﴿k﴾ کی فرمانبردار تھیں لیکن آپ ﴿k﴾ نے اپنی رضا اپنے شوہر کی رضا میں گم کر دی‘‘- ﴿اسرار و رموز، درمعنی ایں کہ سیدۃ النسائ فاطمۃ الزہراہ ﴿k﴾ اسوہ کاملہ ایست برائے نسائ اسلام﴾

یعنی اپنی زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جو آپ ﴿k﴾ کے شوہر حضرت علی ﴿h﴾ کی رضا کے بر خلاف ہو- یاد رہے کہ حضرت فاطمہ ﴿k﴾ جنت کی خواتین کی سردار ہیں- اتنے اعلیٰ اور ارفع مقام کی حامل ہونے کے باوجود اپنے شوہر کی فرمانبرداری اور اطاعت میں آپ (رض)کامل نمونہ ہیں- مرد حضرات کے لئے حضور اکرم ﴿w﴾ کی ازدواجی زندگی کامل نمونہ ہے اگر اس کو اپنا لیا جائے تو کوئی مشکل ہی نہیں کہ طلاق معاشرے سے ناپید ہو جائے- آقا علیہ السلام اپنی ازواج مطہرات سے بے حد شفقت فرماتے اور محبت فرماتے- سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ کے وصال کے بعد جب کبھی آپ کے ہاں بکری کا گوشت ہوتا آپ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی سہیلیوں میں بطورِ تحفہ ضرور بھیجتے اس لئے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی یہی روٹین تھی- ﴿’’بخاری‘‘ ، کتاب المناقب و’’ المستدرک‘‘ ، کتاب البر و الصلۃ﴾ اِسی طرح آپ کے زمانے کا عرب معاشرہ وہ تھا جس میں عورت اور غُلام کو ایک ہی درجہ پہ رکھا جاتا تھا اور خاص کر عورت کو جوتی کی نوک پہ رکھنا باعثِ فخر سمجھا جاتا تھا لیکن آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دیگر دساتیر کی طرح اِس دستورِ زمانہ کو بھی تبدیل فرمایا- خاص کر یہ فرما کر کہ مجھے تین چیزیں پسند ہیں ﴿۱﴾ نماز ﴿۲﴾ عورت اور ﴿۳﴾ خوشبو -﴿سنن النسائی، کتاب عِشرۃُ النسائ﴾

جب بیوی سے اظہارِ شفقت عیب سمجھا جاتا تھا تو حضور نبی کریم ö نے اپنے طرزِ عمل سے انسانیّت کیلئے مثال قائم فرمائی- ایک مرتبہ ایک صحابیٔ رسول نے بھری مجلس میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ö ! آپ کو دُنیا میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ تو آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا عائشہ سے ﴿k﴾! وہ صحابی ذرا جھجک گئے اور دوبارہ عرض کی کہ یا رسول اللہ ö ! میرا مطلب تھا کہ مردوں میں کس سے؟ تو آپ نے سیّدنا ابوبکر صدیق کا نام لینے کی بجائے فرمایا کہ ’’عائشہ کے باپ سے ‘‘ ﴿i﴾- ﴿بخاری، کتاب المناقب﴾

اِس محبت کی نسبت بھی اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف کی-

 اگر مرد اپنی جھوٹی انانیت کے پنجرے سے باہر نکل کر اُسوۂ رسول ö میں جھانکے اور عمل کیلئے نصیحت حاصل کرے تو راحت و سکون سے بھرپور زندگی گزار سکتا ہے، روز روز کے جھگڑوں اور طلاق جیسی مصیبت سے بچ سکتا ہے-

 

﴿ج﴾ آدابِ گفتگو سے نا واقفیت:

آدابِ گفتگو ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے باعث بڑے بڑے مسائل کا حل بھی ممکن ہے- لیکن افسوس کہ معاشرہ میں سے آہستہ آہستہ حسنِ گفتگو ختم ہوتا جا رہا ہے- بس ہر فرد اپنی بات اپنے انداز میں کہہ دینے کی خواہش میں مبتلا ہے اور کسی کی بات سننے کو تیار نہیں- اس پر مستزاد یہ کہ یہ کہنا بھی اس انداز میں کہ اگر کسی پر گراں گزرتا ہے تو ہماری بلا سے- لیکن اگر آداب گفتگو کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور خصوصا زوجین ﴿میاں بیوی﴾ اگر اس صفت کو اپنا لیں تو گھر ٹوٹنے کی نوبت نہ آئے- آج کل تعلیمی اداروں اور میڈیا پر آزادیٔ اظہار کے نام پر یہی سکھایا جا رہا ہے کہ بولو، بولنا تمہارا حق ہے اگر بولو گے نہیں تو اپنا حق کیسے حاصل کرو گے- اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بولنا ضروری ہے لیکن اس سے بھی ضروری یہ جاننا ہے کہ کیا بولنا ہے، کس طرح بولنا ہے، کتنا بولنا ہے، کس وقت بولنا ہے، لیکن ان آداب سے بے بہرہ افراد بس اپنی ہی کہے چلے جاتے ہیں- جس کا خمیازہ بعد میں انہیں اور ان کے خاندانوں کو بھگتنا پڑتا ہے-

بڑوں کی کہاوَت ہے کہ بچہ والدین سے سیکھتا ہے کہ کیسے بولنا ہے اور نوجوان درسگاہ میں سیکھتا ہے کہ کیا بولنا ہے جبکہ دانا شخص زندگی کے تجربات سے سیکھتا ہے کہ کیا نہیں بولنا-

یہ زبان ہی ہے کہ جس سے دشمنیاں بھی یارانے میں تبدیل ہوسکتی ہیں اور بعض اوقات اسی کی بدولت ہنستے بستے گھر اُجڑ جاتے ہیں- اسی طرح کچھ کہنے کے لئے الفاظ کا چناؤ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر اچھے اور بہتر الفاظ کا استعمال کیا جائے تو معاملات جلد سلجھ جاتے ہیں اور سلجھے حالات مستحکم ہو جاتے ہیں-

اگر ہم اپنے ارد گرد کا بغور جائزہ لیں تو یوں لگے گا کہ فی زمانہ آدابِ گفتگو کا ہماری زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں رہا بلکہ ہم ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے تند و تیز زبانیں استعمال کرتے ہیں- نیز ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال نہ کرنا بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے جس سے میاں بیوی بھی متاثر ہوتے ہیں اور وہ بسا اوقات سب کے سامنے ایک دوسرے کو بے عزت کرتے ہیں- اس امر میں شک نہیں کہ اس فعل کا زیادہ ارتکاب مرد حضرات کی طرف سے ہوتا ہے اور یہی بے لگام زبانیں آپس کے رشتہ کو کمزور کرنے اور دلوں کی دوری کا باعث بن جاتی ہیں اور نوبت آخر کار طلاق تک جا پہنچتی ہے- اگر والدین اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی زندگیوں پہ کوئی بہت بڑا احسان کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اُن کی زبان کو حوصلہ کی لگام دے کر اُس کی باگیں اخلاق کے ہاتھوں میں تھما دیں-

﴿د﴾ خاندانی رویے اور بے جا مُداخلت:

معاشرتی اعتبار سے اگر دیکھیں تو عورت کا خاندان مرد کے خاندان کی نسبت تھوڑا کمزور تصور کیا جاتا ہے اور عورت والے جس گھر میں اپنی لڑکی بیاہتے ہیں ان سے ذرا دب کر رہتے ہیں- ایسے میں مرد یہ خود بخود تصور کر لیتا ہے کہ وہ زیادہ عزت دار ہے اور اس کی بیوی کے خاندان کا اس کی عزت اور تکریم کرنا فرض ہے جبکہ وہ اپنی بیوی کے سامنے اپنے ساس سسر کی اور بیوی کے خاندان کی بلا وجہ برائیاں کرنا معمول سمجھتا ہے- بیوی کی جانب سے اپنی ساس کے ساتھ اچھے تعلقات اور لڑائی جھگڑے نہ کرنا معجزے میں شامل ہے- ساس اور بہو کا جھگڑا طلاق کے وارد ہونے میں بڑا فیکٹر ہے بلکہ ساس بہو کا جھگڑا ہمارے فوک وزڈم میں کئی لیجنڈری کہاوتوں کا سبب ہے- ایسی ساسوں کا اپنے دامادوں کے ساتھ ناروا سلوک اور بیٹیوں کے گھروں میں بے جا مداخلت بھی طلاق کی وجوہات میں سے ہے- اُصولی طور پہ لڑکی اور لڑکے دونوں کے والدین اور رشتہ داروں کو ایک دوسرے کے معاملات میں بے جا مُداخلت نہیں کرنی چاہئے- کئی مرد حضرات کی اپنے والدین سے وابستگی جذباتی حد تک ہوتی ہے ایسے میں ان کے سسرالیوں کی طرف سے گھر الگ کرنے کا مُطالبہ جب مرد حضرات کے وسائل اور مسائل کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتا تو ایسے خاموش جھگڑے پیدا ہوتے ہیں جو طلاق پہ منتج ہوتے ہیں- اِسی طرح بعض خواتین پروپیگنڈا اور چغلی کی عادت سے مجبور بلکہ مقہور ہوتی ہیں تو ایک شیطانی چیلے کے طور پہ اُن کا سافٹ ٹارگٹ کانوں کے کچے میاں بیوی ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کی مداخلت بھی عموماً علیحدگیوں کی وجہ بن جاتی ہے-

﴿ہ﴾ سماجی رویے :

چھوٹی چھوٹی باتیں ہر گھر میں ہوتی ہیں جن سے درگزر سے کام لیتے ہوئے ختم کر دینا چاہیئے لیکن دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی ان باتوں سے صرفِ نظر کرنا بھی چاہے تو ارد گرد رہنے والے افراد ان باتوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جس سے معمولی بات بھی بڑھ جاتی ہے- عموماً خواتین اس کام میں پیش پیش ہوتی ہیں- اس طرح آپس میں غلط فہمیاں بڑھتی ہیں اور دِلی رنجشوں میں اضافہ ہوتا ہے- جبکہ مسائل کو سلجھانے کے لئے بہت کم افراد آمادہ نظر آتے ہیں جبکہ اکثریت پرانی باتوں کو بار بار دہرا کر فریق ثانی کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہے اور مَیں حق پر- اس کے ساتھ ساتھ اپنے رویے پر معذرت کرنے کی ہمت اور معاف کر دینے کا جذبہ ناپید ہونے کے باعث بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے- ایسے ہی ہمارے ہاں بات کرنے کے لئے عقل و ہوش سے زیادہ جذبات کا سہارا لیا جاتا ہے جس میں طیش کا عنصر زیادہ ہوتا ہے- اور عمومی رویہ میں ہم اپنے آپ کو بہت غصیلا اور کوئی بھی بات برداشت نہ کرنے والا ثابت کر نا چاہتے ہیں اور اس رویے پر نہ صرف فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ شیخی بھی بگھارتے ہیں- اِسی انا پرستی اور جھوٹی عزت کی وجہ سے بات کو بڑھاتے ہوئے طلاق تک لے جاتے ہیں-

﴿و﴾ دین سے دوری:

دین اور دینی تعلیمات سے دوری بھی معاشرے میں طلاق کے اضافے کا باعث ہے- اگر معاشرہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو اور شریعت کو اپنے سامنے رکھے تو طلاق کے رجحان میں کمی واقع ہو سکتی ہے- اِس وقت مادیت پرستی عروج پر ہے اور دینی تعلیمات کو عملی زندگی میں اپنایا نہیں جا رہا- مثال کے طور پر ہمارے معاشروں میں عورتوں کی ذمہ داری گھر کے کام کرنا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا فرض ہے لیکن ان کے حقوق سے اکثر غافل رہتے ہیں- جب عورتیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں اور حقوق بھی وہ جو شریعتِ اِسلام نے اُن کو دیئے ہیں تو اس مطالبے پر بھی ان سے گھروں میں لڑائی جھگڑے اور مار پیٹ شروع ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے- اگر مرد حضرات اسلام کے اصولوں کی روشنی میں عورتوں کے مقرر کردہ حقوق ان کو دیتے رہیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ گھر میں لڑائی یا فساد کا گزر بھی ہو سکے- اِسی طرح خواتین بھی اپنی ذِمّہ داریوں سے ناآشنا ہوتی ہیں کہ اُن پہ کیا اخلاقی فرائض عائد ہوتے ہیں- اگر زوجین کا تعلُّق اسلامی تعلیمات سے پختہ رہے تو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول پاک ﴿w﴾ کے احکامات اور اُن احکامات کے عملی نمونے یعنی سلف صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ اُن میں استقامت اور نیکی پیدا کرے گا جس سے زندگی غیر مستحکم ہونے سے محفوظ رہتی ہے-

﴿ز﴾ انا پرستی:

پاکستان میں طلاق کی وجوہات میں سے ایک سبب میاں اور بیوی کی ہٹ دھرمی، ضد، غیر لچکدار رویہ اور انانیت بھی ہے- جس کو باہمی سمجھوتے اور لچکدار رویے سے ختم کیا جاسکتا ہے کیونکہ شادیاں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب انا پرستی نہیں ہوتی- لیکن فی زمانہ نئی نسل میں انانیت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے- جس کی وجہ سے میاں اور بیوی سمجھوتے کے لئے تیار نہیں ہوتے- سمجھوتے اور نرم رویہ اپنانے کو وہ اپنی کمزوری سمجھتے ہیں- اس لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پہ تکبر، انانیت اور غرور سے منع کیا اور اسے عملِ شیطان میں شمار کیا ہے اور اس کی بجائے عفوو در گزر، عاجزی و انکساری اور رحم کرنے کی تلقین فرمائی ہے- جب ہم عاجزی و رحم کو چھوڑ کر جھوٹی اناؤں کے پیچھے پڑیں گے تو رشتوں کا بھیانک انجام یقینی ہوگا-

﴿ح﴾ جبری شادیاں:

طلاق کی وجوہات میں ایک وجہ جبری شادیاں بھی ہیں جن میں والدین کسی مجبوری یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے بے جوڑ، زبردستی شادیاں کر دیتے ہیں- جو بعد میں نبھ نہیں سکتیں اور نتیجہ طلاق کی صورت میں برآمد ہوتا ہے- ایسے مضبوط اور پاکیزہ رشتہ کی بنیاد پاکیزہ محبت پر ہونی چاہئے نہ کہ مجبوریوں پہ- اگر مجبوری زیادہ ہی شدید ہو جائے تو پھر اُسے مجبوری نہ رہنے دیا جائے بلکہ محبت، خلوص اور اخلاصِ نیّت میں بدلا جائے- ایسے فیصلے مرد اور عورت اور خاندان کی باہمی رضا مندی سے ہونے چاہئیں نہ کہ کوئی ایک فرد یا خاندان کے افراد اپنی مرضی کا فیصلہ نوجوانوں پر ٹھونس دیں جس کے باعث نوجوان اپنی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ بے رغبتی سے گزار دیں-

﴿ط﴾ غربت اور بے روزگاری:

فی الوقت ملک میں طلاق کی شرح میں اضافے کا ایک خاص سبب غربت اور بے روزگاری بھی ہے- بے روزگاری اور غربت کے باعث انسانی نفسیات پر بے پناہ اثر ہوتا ہے اور انسان ڈیپریشن، پریشانی، بے چینی، خوف اور بے یار و مددگاری کے احساس میں گھِرا رہتا ہے جس کے باعث گھر میں ناچاقی اور جھگڑے معمول بن جاتے ہیں- ایسی کیفیات میں مرد عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے اور غربت کے باعث نان و نفقہ دینے میں بھی ناکام رہتا ہے اور یہ دونوں وجوہات پاکستان میں طلاق اور خلع کا باعث ہیں- اگر ہم عدالت میں طلاق اور خصوصاً خلع کے دائر کیسیز کا جائزہ لیں تو ایک محتاط اندازے کے مطابق اَسّی ﴿۰۸﴾ فیصد سے زائد کیسیز میں وجہ خلع تشدد اور نان و نفقہ نہ دینا بیان کی گئی ہوتی ہے- اسی طرح لڑکے والوں کا لڑکی والوں کی طرف سے زیادہ جہیز کی توقع اور جہیز نہ ملنے کے باعث طلاق دے دینا بھی معمولی بات سمجھا جاتا ہے-

﴿ی﴾ ماس میڈیا :

آج کل ہمارے معاشرے پر سب سے زیادہ اثر غیر مثبت، غیر تعمیری، فضول، انتشار انگیز، فتنہ خیز، فساد آمیز اور منفی میڈیا کا ہے- میڈیا ذہن سازی کا کام کرتا ہے- انٹرٹینمنٹ میڈیا ان دنوں میں جس طرح فحاشی و کمینگی سے لبریز اور اخلاق باختہ ڈرامے اور فلمیں دکھا رہا ہے اور جس طرح کے فضول، لغو، بکواس، گھٹیا، غیر اخلاقی، فحش انگیز اور غیر قانونی ’’مارننگ شو‘‘ ہو رہے ہیں اس کے دور رَس نتائج ہماری آئندہ نسلوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں- میڈیا پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں جس طرح کے فنڈڈ ﴿Funded﴾ موضوعات زیر بحث لائے جا رہے ہیں ان سے متاثر ہو کر نوجوان نسل اور خصوصاً عورتیں وہی کچھ کرنا چاہتی ہیں- ان ڈراموں میں گھر سے بھاگ کر یا محبت کی شادی، اپنا آپ منوانا، آزادیٔ اظہار کے نام پر کسی کو کچھ بھی کہہ دینا، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں، پاک و لائقِ احترام رشتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات وغیرہ کو اس طرح عکس بند کر کے دکھایا جاتا ہے جس سے ناپختہ ذہن بجائے اس پر تنقید کرنے یا اُن سے مجتنب ہونے کے ان سے متاثر ہو جاتے ہیں- اس کے علاوہ جس طرح ڈراموں اور فلموں میں معاشرے کی صورت کو مسخ کر کے دکھایا جاتا ہے جس میں نمود و نمائش کا عنصر حد سے بڑھا ہوا ہوتا ہے اور لڑکیاں بالیاں اس سے متاثر ہو کر شوہروں سے توقعات کو خوب بڑھا لیتی ہیں- جب ان کی شادی شدہ زندگی میں وہ عوامل وقوع پذیر نہیں ہوتے تو ان کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں- جس کے باعث گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے-

﴿ک﴾ سوشل میڈیا / موبائیل:

دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ اِس اہم عُنصر کو بھی قطعاً نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جو کہ آج ایک زہرِ قاتل کی طرح اِس معاشرے کو ہلاک کر رہا ہے- ایسے بے شمار واقعات روزانہ کی بُنیاد پہ رپورٹ ہوتے ہیں جن کے مُطابق موبائل، ٹیب، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط اور مشکوک استعمال کی وجہ سے بھی کئی خاندان اُجڑ چکے ہیں- پاکستان جرنل آف اسلامک ریسرچ میں شائع شُدہ تحقیق کے مطابق ’’گزشتہ دو برسوں میں دنیا میں ہونے والی طلاقوں میں سے ایک تہائی طلاقوں کا سبب کسی نہ کسی طرح ’’فیس بک ‘‘﴿Facebook﴾ رہا ہے‘‘ -

قرآن پاک کی آخری سورۃ سینے میں پیدا ہونے والے وسوسے سے متعلق ہے کہ اے اللہ ایسے خنّاس سے بچا جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں، ایسے خنّاس انسانوں میں بھی ہیں اور جنات میں بھی- انسان کے پیدا کردہ خنّاسوں میں سوشل میڈیا اور موبائیل فون بھی ہیں جو میاں اور بیوی کے درمیان دونوں طرف کی بدگمانیوں کو پیدا کرتے ہیں-

اگر اعتماد قائم ہو اور کوئی بد گمانی نہ ہو تو ازدواجی رشتہ سیسہ پلائی دیوار سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے لیکن اگر ایک دوسرے پہ یا کسی ایک کو دوسرے پہ شک یا شُبہ پیدا ہوجائے تو یہ مضبوط رشتہ کچے دھاگے سے بھی کمزور ہو جاتا ہے جو ایک معمولی سے جھٹکے سے ٹوٹ جاتا ہے-

اِس لئے ہم نے جس سوشل میڈیا اور موبائیل فون کو اپنی ناجائز اور خواہ مخواہ کی ضرورت بنا لیا ہے ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ یہ ہمارا گھر ٹوٹنے کا باعث بھی بن جاتا ہے- والدین اور بھائیوں کو اس بارے احتیاط کرنی چاہئے خاص کر جہاں ناپختہ ذہن کے بچے بڑے ہو رہے ہوتے ہیں انہیں لازماً اس سے دُور رکھنا چاہئے- ایسی کئی مثالیں ہر روز کے اخبار پہ بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور خاص کر علاقوں کے سیاسی لوگ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ فون کال یا سوشل میڈیا چیٹ ﴿Chat﴾ کے ذریعے مُلک کے ایک کونے سے لڑکی بھاگ کر کسی دوسرے کونے میں چلی جاتی ہے وہاں سے بر آمدگیاں ہوتی ہیں- اَب تو کئی مکروہ مافیا یہ کام بزنس کے طور پہ کرتے ہیں کہ رانگ کال یا سوشل میڈیا چیٹ ﴿Chat﴾ کے ذریعے ناپختہ ذہن کی بچیوں کو محبت کے جھانسے میں گمراہ کیا اور پھر جذبات کے سبز باغوں کی جنّت دکھا کر دہلیز پھلانگنے کی راہ دکھائی اور اپنے نرغے میں پھنسا کر جسم فروشی کے مکروہ دھندوں کی جہنم میں جھونک دیا جہاں نہ وہ مرتی ہیں نہ جیتی ہیں بلکہ ہر روز ایک نئی موت مرتی ہیں- اِس طرح کئی مرد حضرات بھی ناجائز دوستیاں رکھنے کی وجہ سے گھر والوں کی نظر میں آجاتے ہیں اور معاملات علیحدگی تک جا پہنچتے ہیں -

﴿ل﴾ محبت کی شادیاں:

طلاق کی وجوہات میں ایک وجہ ایسی شادیاں بھی ہیں جو والدین اور خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے خوابوں کے شہزادے کی تلاش میں گھر کی چار دیواری اور ماں باپ کی عصمت کو داغدار کرکے، گھر سے بھاگ کر کی جاتی ہیں- بھلا ایسا خود غرض انسان کیسے خوشحال زندگی گزار سکتا ہے جس نے کئی افراد کو خون کے آنسو رُلا دیا ہو- ایسی خواتین کی نہ والدین کے ہاں عزت رہتی ہے نہ سسرالیوں کے نزدیک کوئی اہمیت ہوتی ہے- ایسی شادیوں کا نتیجہ بھی سوائے طلاق، مایوسی اور عمر بھر کے طعنوں کے کچھ نہیں نکلتا-

محبت کی شادی سے مراد ایسی شادی نہیں جس میں محبت نہ ہو بلکہ ایسی شادی ہے جس میں نکاح سے پہلے ناجائز محبت کی جاتی ہے کیونکہ اگر نکاح سے پہلے کسی سے محبت کا ناجائز رشتہ قائم ہو جائے اور خدا نخواستہ کسی وجہ سے اس سے نکاح نہ ہو سکے تو پھر ایسے افراد کا کسی اور جگہ شادی کرنے کو من ہی نہیں چاہتا ہے اور اگر زور زبردستی سے شادی کر دی جائے تو نہ خاوند بیوی کو وہ محبت دے سکتا ہے اور نہ بیوی خاوند کو جس کا نتیجہ سوائے جدائی کے کچھ نہیں نکلتا-

اگر انسان کی اسی سے شادی ہو جائے جس سے وہ محبت کرتا ہے پھر بیوی شادی کے بعد بھی اسی طرح محبوبہ بن کر رہنا چاہتی ہے جیسے وہ شادی سے پہلے ہوتی ہے جو کہ سسرال کے فیملی ماحول میں ممکن نہیں ہوتا اور اگر خاوند اس کی کوشش کرتا بھی ہے تو اس کی والدہ کے دل میں اپنی بہو سے خواہ مخواہ کا حسد پیدا ہو جاتا ہے جو چھوٹے موٹے جھگڑوں سے بڑھتا ہوا یا تو ماں باپ سے علیحدگی کا سبب بن جاتا ہے یا پھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نوبت آ جاتی ہے- بعض اوقات نکاح سے پہلے کی ناجائز محبتیں کسی موڑ پر آکر انسان کو ناجائز تعلقات بنانے کی طرف بھی راغب کر دیتی ہیں جس کا نتیجہ خاندان کی تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا- صرف جوانی میں ہی محبت کا یہ شدید وار کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ یہ محبت نہیں بلکہ جبلّی نفسانی و شہوانی خواہشات کا بہاؤ ہوتا ہے جو جیسے ہی پورا ہوتا ہے تو معاشرتی مسائل اور دیگر رکاوٹیں سر اٹھانے لگتی ہیں-

طلاق کی روک تھام کے لئے تجاویز :

﴿الف﴾ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو نا:

اگر ہم صیحح معنوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو طلاق کی شرح میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے- طلاق چونکہ ایک جائز اور حل?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر