شجرِسایہ دار

شجرِسایہ دار

مغرب کی ایسی ہواچلی،جس کی چکا چوند کے اثرات جہاں ہمارے روحانی کیف و سرور پہ پڑے وہاں ہماری اعلیٰ روایات اور تہذیب و ثقافت بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور لوگ اسلام کے ہر حکم کوا س کے مادی تقاضوں کے تناظر میں دیکھنے لگے-لوگوں کی ترجیحات اس قدر تبدیل ہوگئیں جس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پہلے والدین بچوں کی تربیت اس نہج پہ کرتے تھے کہ کل اگر میدانِ جہاد میں شجاعت کے جوہر دکھانے پڑیں تو اس کی ٹانگیں نہ ڈگمگائیں، مائیں بچوں کو دودھ پلاتے وقت وضوء کا اہتمام کرتیں تاکہ ان کے ابدان میں جہاں دودھ غذا بن کر جائے وہاں ان کی ارواح کو بھی جِلا ملے-

لیکن اب حالات اس کے بالکل برعکس ہیں کہ جہاد کا نام سن کر والدین کانپ جاتے ہیں، اخوت و بھائی چارے کا درس جو اسلام نے ہم کو دیا تھاوہ بھی ہم سے نسیاً منسیاً ہوتا جا رہا ہے اور ہم نفسانفسی کے عالم میں اس حدتک گرفتار ہو چکے ہیں کہ اگر ایک اسلامی ملک خانہ جنگی کا شکار ہے تو دوسرا ملک اس کے دکھ درد سمجھنے کو اپنے وقت کا ضیاع سمجھتا ہے- ملک، ملت، قوم و قبیلہ تودورکی بات آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں رشتہ داروں کی صورت میں ایک مضبوط فیملی سسٹم عطا فرمایا،اس کی بنیادیں بھی ہلتی ہوئی نظر آتی ہیں- ماں باپ، بہن بھائی، ماموں خالہ ،چچا پھوپھی وغیرہ جیسے مقدس رشتے بھی اجنبی بنتے جارہے ہیں –

آج ضرورت اس امرکی ہے کہ جہاں ہم دیگر اسلامی اقدار کا تحفظ یقینی بنائیں وہاں ’’رشتہ داروں کے حقوق‘‘کو بھی سمجھ کر عملی جامہ پہنائیں -

ذیل میں قرآن وسنت کی روشنی میں رشتہ داروں کے چند حقوق کو زیب قرطاس لانے کی سعی کرتے ہیں :

صلہ رحمی دو الفاظ ’’صِلَۃٌ‘‘ اور ’’رَحِمٌ‘‘سے مل کر بنا ہے-صلہ کے معنیٰ جوڑنے کے ہیں اور’’رحم‘‘ بطنِ مادر میں اس مقام کے لیے مستعمل ہے جہاں جنین نشوونما پاتا ہے اور مجازاً اسے رشتے داری کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے -صلہ رحمی کامفہوم وسیع ہے اس میں رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا، ان سے بقدر ِ ہمت تعاون کرنا اور ان سے ہرقسم کا حسنِ سلوک شامل ہے –

رشتہ داروں میں ’’اصول‘‘(والدہ، اس کے آگے والدین اور والد،اس کے آگے والدین )اور ’’فروع‘‘ (بیٹی، اس کی آگے اولاد اور بیٹے، اس کی آگے اولاد)اوران کے ساتھ دورونزدیک کے تمام رشتہ دار شامل ہیں-

یاد رہے! کہ انسان کی مُعاشرتی زندگی میں دو بنیادی ستونوں کا اہم کردارہے ستونِ اول نَسبی رشتہ دار اور ستون ثانی سسرالی رشتہ دار- اِنہی ستونوں پر انسانی مُعاشرے کی عمارت کا ڈھانچہ قائم ہے اس رشتے کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِھْرًا ط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا‘‘[1]

’’اور وہی ہے جس نے پانی (کی مانند ایک نطفہ) سے آدمی کو پیدا کیا پھر اسے نسب اور سسرال (کی قرابت) والا بنایا اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے‘‘-

امام سیوطی اور امام ابن ابی حاتمؒ اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) کا ارشاد نقل فرماتے ہیں :

’’ذَكَرَ اللهُ الصِّهْرَ مَعَ النَّسَبِ وَحَرَّمَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ امْرَأَةً: سَبْعًا مِّنَ النَّسَبِ وَسَبْعًا مِّنَ الصِّهْرِ، وَاسْتَوَى تَحْرِيْمُ اللهِ فِي النَّسَبِ وَالصِّهْرِ‘‘

’’اللہ پاک نے نسب کو سسرال کے ساتھ ذکر فرمایا اور چودہ (قسم) کی عورتوں کو مرد پر حرام کیا ہے،سات نسب میں سے(فلاں فلاں کا بیٹاہے فلاں کی بیٹی فلاں ہے) اورسات صہر میں سے(صِہر سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کی وجہ سے سسرالی رشتہ قائم ہوتا ہے)- پس اللہ تعالیٰ نے ’’نَسَبًا وَّ صِھْرًا ‘‘ میں حرمت کوبرابر کر دیا ہے-

’’اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَاللہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘[2]

’’(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘-

’’لَایَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَاذِمَّۃًط وَاُولٰئِٓکَ ہُمُ الْمُعْتَدُوْنَ‘‘[3]

’’نہ وہ کسی مسلمان کے حق میں قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد کا، اور وہی لوگ (سرکشی میں) حد سے بڑھنے والے ہیں‘‘-

’’اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘[4]

’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو‘‘-

’’وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا‘‘[5]

’’اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ‘‘-

’’وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ قف وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکوٰۃَ ط ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ‘‘[6]

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہوگئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہو‘‘-

’’فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَہُمْ‘‘[7]

پس (اے منافقو!) تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم (قتال سے گریز کر کے بچ نکلو اور) حکومت حاصل کر لو تو تم زمین میں فساد ہی برپا کرو گے اور اپنے (ان) قرابتی رشتوں کو توڑ ڈالو گے (جن کے بارے میں اﷲ اور اس کے رسول(ﷺ) نے مواصلت اور مُودّت کا حکم دیا ہے)-یہی وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ نے لعنت کی ہے اور ان (کے کانوں) کو بہرا کر دیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہےo

’’یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ‘‘[8]

’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے‘‘-

رشتہ داروں کے احکام احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں :

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نےمخلوق کو پیدا فرمایا اور جب اس کی تخلیق مکمل ہوئی تو( رَحِم )اللہ پاک کی بارگاہ اقدس میں عرض گزار ہوئی:یہ مقام اس کا ہے جو رشتہ داری توڑنے سے تیری پناہ چاہے، اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ قَالَتْ بَلَى يَا رَبِّ قَالَ فَهُوَ لَكِ ‘‘[9]

’’کیاتو اس بات پہ راضی نہیں کہ جوتجھے جوڑے میں اس سے تعلق جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں اس سے تعلق توڑ لوں؟عرض کی اے میرے رب!کیوں نہیں-تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:تجھے یہ شرف عطاکیا‘‘-

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنْ الرَّحْمٰنِ فَقَالَ اللهُ مَنْ وَ صَلَكِ وَصَلْتُهٗ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهٗ‘‘[10]

’’رشتہ داری ایک ایسی شاخ ہے جو رحمٰن سے ملی ہوئی ہے، پس اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے  جو تجھ سے ملے گا میں اس سے ملوں گااورجوتجھ سے تعلق توڑے گا میں اس سے قطع تعلق کروں گا‘‘-

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے  حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ  ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

’’رشتہ داری ایک ایسی شاخ ہے جو رحمٰن سے ملی ہوئی ہے جو عرض کرتی ہے -یااللہ بے شک میں کاٹ دی گئی، اے اللہ بے شک میرے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا،بے شک مجھ پر ظلم کیا گیا، یااللہ، یااللہ! حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کو جواب ارشاد فرمائیں گے: کیا تو اس بات پہ راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے میں اس سے تعلق جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں اس سے تعلق توڑ لوں؟[11]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ‘‘[12]

’’جو شخص اللہ اوریوم ِ آخرت پہ ایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے‘‘-

حضرت جبیر بن مُطعِم (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم(ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ :

’’ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ‘‘[13]

’’قطع تعلقی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘-

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ‘‘[14]

’’جوشخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہواوراس کی عمردراز ہو تواسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے‘‘-

حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی:یارسول اللہ (ﷺ) مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جومجھے جنت میں لے جائے تو لوگ کہنے لگے اسے کیا ہوا؟اسے کیاہوا؟پس رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:اسے ایک ضرورت ہے-پھر حضور نبی کریم(ﷺ)نے ارشاد فرمایا :

’’تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ ذَرْهَا قَالَ كَاَنَّهُ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ‘‘[15]

’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیا کرو اور صلہ رحمی کرو، اب اسے چھوڑدو،راوی کابیان ہے کہ گویا اس وقت حضور  پا ک (ﷺ) اپنی سواری پہ تشریف فرما تھے ‘‘-

حضرت أَبو بَكْرَہ الثَّقَفِی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کاارشادہے کہ:

’’مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَى أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ ‘‘[16]

’’ کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو اس بات کازیادہ مستحق ہوکہ اس کا وبال آخرت میں ذخیرہ رہنے کے باوجود دنیامیں بھی اس کی سزابہت جلدنہ بھگتنی پڑے، سوائے قطع رحمی اورظلم کے‘‘-

 حضرت عبداللہ بن ابی اوفی(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ ) بارگاہِ اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :آج ہمارے پاس قطع رحمی کرنے والانہ بیٹھے،تو مجلس سے ایک نوجوان اٹھااوراپنی خالہ کے پاس آیا اس حال میں کہ ان دونوں کے درمیان کچھ ناراضگی تھی، تو اس (نوجوان نے) اپنی خالہ سے معافی چاہی اور اس نے اسے معاف کر دیا-پھر وہ (نوجوان) مجلس میں واپس آگیا تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’إِنَّ الرَّحْمَةَ لَا تَنْزِلُ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ قَاطِعُ رَحِمٍ‘‘[17]

’’بلاشبہ (اللہ تعالیٰ کی) رحمت اس قوم پر نہیں اترتی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا موجود ہو‘‘-

حضرت عمر فاروق ؓنے منبر پہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

’’تم لوگ اپنے نسبوں کوسیکھا کرو،پھر صلہ رحمی کرو،اللہ کی قسم !بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوآدمیوں میں کچھ رنجش ہوتی ہے اگرایک دوسرے کو پتہ ہوکہ ہم میں رشتہ داری کا تعلق ہے تو یہ علم اسے قرابت داری کے تعلق کو بگاڑنے سے رو ک دے گا ‘‘-[18]

حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :

’’مَنِ اتَّقَى رَبَّهٗ وَوَصَلَ رَحِمَهٗ نُسِئَ لَهٗ فِي عُمُرِهٖ وَثَرَا مَالُهٗ، وَأَحَبَّهٗ أَهْلُهٗ‘‘[19]

’’جو شخص اپنے رب سےڈرتارہا اوررصلہ رحمی کرتا رہا اس کی زندگی میں تاخیر کی جائے گی اور اس کامال زیادہ ہوجاے گا اوراس کے خاندان کے لوگ اس سے محبت کریں گے‘‘-

یہ بات ذہن نشین رہے کہ صلہ رحمی یہ نہیں جوآپ سے اچھا سلوک کرے اس اچھا سلوک کیا جائے بلکہ ارشاد فرمایا:

حضرت ابوہریرہؒ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی:یارسول اللہ (ﷺ)! میرے رشتہ دار ہیں میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں،میں ان پر احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں میں ہر معاملہ میں تحمل سے کام لیتا ہوں وہ جہالت پر اترتے رہتے ہیں-

حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’ لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ فَكَاَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللهِ ظَهِيْرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ‘‘[20]

’’اگر معاملہ اسی طرح ہے جس طرح تو نےکہا ہے تو  تُو ان کے منہ میں خاک ڈال رہاہے (یعنی وہ خود ذلیل ہوں گے)اور تیرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہے گی جب تک تو اپنی اس عادت پر جَمارہے گا‘‘-

مزید ارشادرفرمایا :

حضرت عبداللہ بن عمرو(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’قَالَ لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ وَلَكِنْ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا‘‘[21]

’’بدلہ لینے والاصلہ رحمی کرنے والا نہیں ،بلکہ صلہ رحمی کرنے والاوہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تووہ اسے جوڑے ‘‘-

حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میرے خلیل (ﷺ ) نے مجھے وصیت فرمائی کہ:

’’أَنْ أَصِلَ رَحِمِي وَإِنْ جَفَانِیْ‘‘

’’میں صلہ رحمی کروں اگر چہ رشتہ دار میرے ساتھ بے رخی کا سلوک ہی کیوں نہ کریں‘‘-

حضرت سُوید بن عامر (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’ بُلُّوا أَرْحَامَكُمْ وَلَوْ بِالسَّلَامِ ‘‘[22]

’’اپنے رشتوں کو تازہ رکھو خواہ سلام ہی کے ذریعے سے ہی ہو‘‘-

یہ تمام مذکورہ فرمامین مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ رشتہ داروں سے حسن ِسلوک کی بناء انسان کوجہاں اللہ اور اس کے رسول مکرم (ﷺ)کی رضا نصیب ہوتی ہے وہاں اللہ پاک صلہ رحمی کرنے والے کے رزق وعمر میں برکت عطافرماتاہے -

٭٭٭


[1](الفرقان:54)

[2](البقرۃ:27)

[3](التوبہ:10)

[4](النحل:90)

[5](الاسراء:26)

[6](البقرۃ:83)

[7](محمدؐ:22-23)

[8](البقرۃ:215)

[9](صحیح بخاری،  کتاب الادب)

[10](ایضاً)

[11](مسند احمد)

[12](صحیح بخاری،  کتاب الادب)

[13](ایضاً)

[14](ایضاً)

[15](ایضاً)

[16]( سنن ابی داؤد ،کتاب الادب)

[17](ادب المفرد للبخای)

[18](ایضاً)

[19](مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب الادب)

[20]( صحیح مسلم، کِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَّۃِ)

[21]( صحیح بخاری، کتاب الادب)

[22](شعب الایمان باب:صلۃ الرحم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر