غصہ (تعلیماتِ اسلامیہ کی روشنی میں)

غصہ (تعلیماتِ اسلامیہ کی روشنی میں)

غصہ (تعلیماتِ اسلامیہ کی روشنی میں)

مصنف: شہلانور مارچ 2019

جس طرح باغ میں انواع و اقسام کے پھول اپنی اپنی بہاریں دکھا رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ خار بھی موجود ہوتے ہیں اسی طرح اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف جذبات کا مجموعہ بنایا ہے ان جذبات میں جہاں پیار، محبت، خلوص وغیرہ خوشبو بکھیرتے ہیں وہیں مثلِ خار غیظ و غضب کے جذبات بھی ہیں- اللہ تعالی نے انسان کو جتنی قوتیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں ان میں سے ایک بھی لا یعنی، بیکار اور فالتو نہیں بلکہ ہر ایک کا ایک صحیح اور جائز مصرف رکھا ہے اور ان میں سے ایک صفت بھی بندے میں نہ ہو تو انسان کو ناقص سمجھا جائے گا-غصہ و غضب کے بارے میں بھی یہی بات ہے کہ یہ صلاحیت جو ودیعت کی گئی ہے فضول نہیں کیونکہ اس کے ذریعے انسان اپنے دین ، اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے- مکروہات و ناگوار امور کے خلاف مشتعل ہو کر اقدام کرنے، خود کو اور اپنے پیاروں کو تحفظ دلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے- لیکن اس کا غلط استعمال قطعاً درست نہیں -

اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے مومن و مخلص بندوں کی متعدد صفات بیان کی ہیں وہیں ان کی یہ صفت بھی بیان کی ہے کہ :

 ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ‘‘[1]

’’اورغصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں‘‘-

اس لیے حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب‘‘[2]

’’ پہلوان وہ نہیں جو لوگوں کو پچھاڑدے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے‘‘-

 آئیے !!! اب غصہ کی حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں:-

غصہ کی حقیقت:

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’غضب یعنی غصہ نفس کے اس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دفع کرنے پر اُبھارے - غصہ اچھا بھی ہے اور برا بھی - اللہ کے لیے غصہ اچھا ہے جیسے مجاہد غازی کو کفار پر یا کسی واعظ عالم کو فساق و فجار پر یا ماں باپ کو نافرمان اولاد پر آئے؛ اور برا بھی ہوتا ہے جیسے وہ غصہ جو نفسانیت کے لیے کسی پر آئے‘‘-[3]

امام غزالی علیہ الرحمہ غصے کی حقیقت پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’آدمی کی تخلیق اس انداز میں کی گئی ہے کہ اس کی فنا ا ور بقاء  مقصود تھی لہٰذا اس میں غصہ رکھ دیا گیا- یہ حمیت و غیرت کی قوت ہے جو انسان کے باطن سے پھوٹتی ہے‘‘-[4]

مزید فرماتے ہیں:            

’’انسان کی بعض اوقات آتش غضب اتنا بھڑک اٹھتی ہے کہ اس سے انسان کے دل کا خون بھی کھولنے لگتا ہے- پھر وہ خون بدن کی دیگر رگوں میں پھیل جاتا ہے اور جب دماغ تک اس طرح پہنچتا ہے جیساکہ کھولتا ہوا پانی تو وہ خون وہاں پھیلنے کے بعد چہرے میں سرایت کر جاتا ہے جس سے غصہ کرنے والے کا چہرہ اور اس کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور کھال کا ظاہری حصہ صاف ہونے کی وجہ سے اپنے اندر موجود خون کی سرخی ظاہر کر دیتا ہے- ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انسان یہ سمجھ لے کہ وہ اپنے مغصوب(جس پر غصہ آیا) پر قدرت رکھتا ہے ورنہ اگر انسان کو اپنے سے زیادہ طاقتور پر غصہ آئے اور انتقام لینے کی امید بھی نہ ہو تو اس کا خون کھال کے ظاہری حصے سے سمٹ کر دل کے اندر چلا جاتا ہے اور الٹا خوف پیدا ہوجاتا ہے -جس سے اس کا رنگ زرد ہوجاتا ہے  اور اگر ہم پلہ شخص پر غصہ آئے اور اس پر قدرت پالینے میں شک ہو تو اس کا خون پھیلنے اور سمٹنے کے درمیان متردد ہوتا ہے جس کی وجہ سے کبھی اس کا رنگ سرخ اور کبھی زرد ہوتا ہے- نیز وہ بے چینی محسوس کرتا ہے‘‘-[5]

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ غصہ کی قوت کا مقام دل ہے- جب انسان کسی چیز کو پسند یا ناپسند کرتا ہے تو غضب و غصہ سے بھی پاک نہیں رہ سکتا - غصہ ایک فطری عمل ہے عمومًا ہم ایک جملہ سنتے ہیں کہ غصہ حرام ہے لیکن اس کے پینے پر ثواب ہے تو درست بات یہ ہے کہ غصہ مطلقاً حرام نہیں بلکہ غصہ اگر کسی باطل کی وجہ سے ہو تو قابل مذمت ہے اور اگر باطل کی بجائے حق کی وجہ سے ہو تو قابل تعریف ہے-یہی وجہ ہے کہ محبوب رب کائنات (ﷺ) نے اگر کسی پر غضب فرمایا تو اللہ رب العزت کی خاطر- -- چنانچہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ) میں فجر کی نماز تاخیر سے پڑھتا ہوں (جماعت کے بعد) کیونکہ امام طویل قرأت کرتا ہے-(راوی کہتے ہیں) میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو جتنے غصے میں اس دن نصیحت کرتے ہوئے دیکھا اس سے پہلے کبھی اتنی شدت نہیں دیکھی تھی- آپ (ﷺ) نے فرمایا: اے لوگو! تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو لوگوں کو منتشر کرتے ہیں لہٰذا جب تم میں سے کوئی لوگوں کو جماعت کروائے تو نماز کو مختصر رکھے کیونکہ اس کے پیچھے بچے،بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں ‘‘-[6]

بہر حال غصہ ایک ایسا ردعمل ہے جو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے سامنے آتا ہے- لیکن جب ہم غصے میں برس پڑنے کی بجائے اس پر قابو رکھتے ہیں اسے مناسب طریقے سے ظاہر کرتے ہیں تو یہ فائدہ مند ہوسکتا ہے-

یاد رہے!!!

غصہ میں افراط و تفریط ہر وہ حالتیں ناپسندیدہ و نقصان دہ ہیں- امام غزالی علیہ الرحمہ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ میں اس حوالے سے تین اقسام بیان فرماتے ہیں:

1.      قوت غصہ میں تفریط

2.       قوت غصہ میں افراط

3.       قوت غصہ میں اعتدال

(اِن تینوں کی تفصیل کیلئے آئندہ قسط کا انتظار کریں)

٭٭٭


[1](آل عمران : 134)

[2](صحیح مسلم، کتاب البر، رقم الحدیث : 6614)

[3](مرأۃالمناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، مفتی احمد یار خان نعیمی، جلد: 6 صفحہ :441)

[4](لباب الاحیاء، ص: 248،)

[5]( الزواجر عن اقتراف الکبائر، ص: 200،)

[6](صحیح مسلم، کتاب الصلوت، رقم الحدیث: 1044)

جس طرح باغ میں انواع و اقسام کے پھول اپنی اپنی بہاریں دکھا رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ خار بھی موجود ہوتے ہیں اسی طرح اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف جذبات کا مجموعہ بنایا ہے ان جذبات میں جہاں پیار، محبت، خلوص وغیرہ خوشبو بکھیرتے ہیں وہیں مثلِ خار غیظ و غضب کے جذبات بھی ہیں- اللہ تعالی نے انسان کو جتنی قوتیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں ان میں سے ایک بھی لا یعنی، بیکار اور فالتو نہیں بلکہ ہر ایک کا ایک صحیح اور جائز مصرف رکھا ہے اور ان میں سے ایک صفت بھی بندے میں نہ ہو تو انسان کو ناقص سمجھا جائے گا-غصہ و غضب کے بارے میں بھی یہی بات ہے کہ یہ صلاحیت جو ودیعت کی گئی ہے فضول نہیں کیونکہ اس کے ذریعے انسان اپنے دین ، اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے- مکروہات و ناگوار امور کے خلاف مشتعل ہو کر اقدام کرنے، خود کو اور اپنے پیاروں کو تحفظ دلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے- لیکن اس کا غلط استعمال قطعاً درست نہیں -

اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے مومن و مخلص بندوں کی متعدد صفات بیان کی ہیں وہیں ان کی یہ صفت بھی بیان کی ہے کہ :

 ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ‘‘[1]

’’اورغصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں‘‘-

اس لیے حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب‘‘[2]

’’ پہلوان وہ نہیں جو لوگوں کو پچھاڑدے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے‘‘-

 آئیے !!! اب غصہ کی حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں:-

غصہ کی حقیقت:

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’غضب یعنی غصہ نفس کے اس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دفع کرنے پر اُبھارے - غصہ اچھا بھی ہے اور برا بھی - اللہ کے لیے غصہ اچھا ہے جیسے مجاہد غازی کو کفار پر یا کسی واعظ عالم کو فساق و فجار پر یا ماں باپ کو نافرمان اولاد پر آئے؛ اور برا بھی ہوتا ہے جیسے وہ غصہ جو نفسانیت کے لیے کسی پر آئے‘‘-[3]

امام غزالی علیہ الرحمہ غصے کی حقیقت پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’آدمی کی تخلیق اس انداز میں کی گئی ہے کہ اس کی فنا ا ور بقاء  مقصود تھی لہٰذا اس میں غصہ رکھ دیا گیا- یہ حمیت و غیرت کی قوت ہے جو انسان کے باطن سے پھوٹتی ہے‘‘-[4]

مزید فرماتے ہیں:            

’’انسان کی بعض اوقات آتش غضب اتنا بھڑک اٹھتی ہے کہ اس سے انسان کے دل کا خون بھی کھولنے لگتا ہے- پھر وہ خون بدن کی دیگر رگوں میں پھیل جاتا ہے اور جب دماغ تک اس طرح پہنچتا ہے جیساکہ کھولتا ہوا پانی تو وہ خون وہاں پھیلنے کے بعد چہرے میں سرایت کر جاتا ہے جس سے غصہ کرنے والے کا چہرہ اور اس کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور کھال کا ظاہری حصہ صاف ہونے کی وجہ سے اپنے اندر موجود خون کی سرخی ظاہر کر دیتا ہے- ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انسان یہ سمجھ لے کہ وہ اپنے مغصوب(جس پر غصہ آیا) پر قدرت رکھتا ہے ورنہ اگر انسان کو اپنے سے زیادہ طاقتور پر غصہ آئے اور انتقام لینے کی امید بھی نہ ہو تو اس کا خون کھال کے ظاہری حصے سے سمٹ کر دل کے اندر چلا جاتا ہے اور الٹا خوف پیدا ہوجاتا ہے -جس سے اس کا رنگ زرد ہوجاتا ہے  اور اگر ہم پلہ شخص پر غصہ آئے اور اس پر قدرت پالینے میں شک ہو تو اس کا خون پھیلنے اور سمٹنے کے درمیان متردد ہوتا ہے جس کی وجہ سے کبھی اس کا رنگ سرخ اور کبھی زرد ہوتا ہے- نیز وہ بے چینی محسوس کرتا ہے‘‘-[5]

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ غصہ کی قوت کا مقام دل ہے- جب انسان کسی چیز کو پسند یا ناپسند کرتا ہے تو غضب و غصہ سے بھی پاک نہیں رہ سکتا - غصہ ایک فطری عمل ہے عمومًا ہم ایک جملہ سنتے ہیں کہ غصہ حرام ہے لیکن اس کے پینے پر ثواب ہے تو درست بات یہ ہے کہ غصہ مطلقاً حرام نہیں بلکہ غصہ اگر کسی باطل کی وجہ سے ہو تو قابل مذمت ہے اور اگر باطل کی بجائے حق کی وجہ سے ہو تو قابل تعریف ہے-یہی وجہ ہے کہ محبوب رب کائنات (ﷺ) نے اگر کسی پر غضب فرمایا تو اللہ رب العزت کی خاطر- -- چنانچہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ) میں فجر کی نماز تاخیر سے پڑھتا ہوں (جماعت کے بعد) کیونکہ امام طویل قرأت کرتا ہے-(راوی کہتے ہیں) میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو جتنے غصے میں اس دن نصیحت کرتے ہوئے دیکھا اس سے پہلے کبھی اتنی شدت نہیں دیکھی تھی- آپ (ﷺ) نے فرمایا: اے لوگو! تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو لوگوں کو منتشر کرتے ہیں لہٰذا جب تم میں سے کوئی لوگوں کو جماعت کروائے تو نماز کو مختصر رکھے کیونکہ اس کے پیچھے بچے،بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں ‘‘-[6]

بہر حال غصہ ایک ایسا ردعمل ہے جو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے سامنے آتا ہے- لیکن جب ہم غصے میں برس پڑنے کی بجائے اس پر قابو رکھتے ہیں اسے مناسب طریقے سے ظاہر کرتے ہیں تو یہ فائدہ مند ہوسکتا ہے-

یاد رہے!!!

غصہ میں افراط و تفریط ہر وہ حالتیں ناپسندیدہ و نقصان دہ ہیں- امام غزالی علیہ الرحمہ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ میں اس حوالے سے تین اقسام بیان فرماتے ہیں:

1.      قوت غصہ میں تفریط

2.       قوت غصہ میں افراط

3.       قوت غصہ میں اعتدال

(اِن تینوں کی تفصیل کیلئے آئندہ قسط کا انتظار کریں)

٭٭٭



[1](آل عمران : 134)

[2](صحیح مسلم، کتاب البر، رقم الحدیث : 6614)

[3](مرأۃالمناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، مفتی احمد یار خان نعیمی، جلد: 6 صفحہ :441)

[4](لباب الاحیاء، ص: 248،)

[5]( الزواجر عن اقتراف الکبائر، ص: 200،)

[6](صحیح مسلم، کتاب الصلوت، رقم الحدیث: 1044)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر