پاکستان میں بڑھتی ہوئی رشوت

پاکستان میں بڑھتی ہوئی رشوت

پاکستان میں بڑھتی ہوئی رشوت

مصنف: محمد ذیشان دانش جنوری 2017

انفرادی سطح  پر احساس جرم ،احساس ندامت  پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے،لیکن اگر احساس جرم نہ ہو تو ندامت نہیں ہو سکتی اور جب تک کسی جرم پر ندامت نہ ہو اس جرم کاخاتمہ نہیں ہو سکتا ہے،حکومتی اور ریاستی سطح پر قانون پر عملدرآمد کر کے جرم کی روک تھام کی جاتی ہے، کسی بھی جرم کا اثر معاشرے پر  بلا واسطہ یا بالواسطہ  ہوتا ہے، خواہ وہ جرم چھوٹی نوعیت کا ہو یا بڑی ،سماج میں بسنے والے اس جرم سے متاثر ضرور ہوتے ہیں،اکثر اوقات ،بعض جرائم ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم چھوٹا سمجھتے ہیں لیکن ان کے اثرات معاشرے پر بہت بُرے ، بڑے  اور دیر پا ہوتے ہیں ،انہی میں سے ایک  رشوت بھی ہے- 

رشوت کو سمجھنے کے لئے آسان الفاظ میں اس کی تعریف یہ ہے کہ:  ’’کوئی بھی قانونی یا جائز کام سر انجام دینے کے لئے، ناجائز فوائد مثلا  (رقم،مراعات،تحائف  و دیگر اشیاء) دیئے جائیں تاکہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے، رشوت کہلاتا ہے‘‘-  رشوت وہ جرم ہے جس میں دو فریق شامل ہوتے ہیں بسا اوقات ایک فریق مجبور ہوتا ہے جسے کام کروانا ہوتا ہے اور دوسرا فریق طاقتور جس نے کام کرنا ہوتا ہے-  بعض اوقات جس نے کام کرنا ہوتا ہے وہ رشوت طلب کرتا ہے اور جس نے کام کروانا ہوتا ہے وہ دینے پر مجبور، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس نے کام کروانا ہوتا ہے وہ کام کرنے والے کو، رشوت  لینے کی ترغیب دے کر رشوت لینے پر آمادہ کرتا ہے-  بظاہر یہ ایک چھوٹا سا جرم نظر آتا ہے لیکن  اس کے نتائج اس قدر خطرناک ہیں کہ ہادی برحق (ﷺ)نے فرمایا:

’’لعنۃ اللہ علی الراشی و المرتشی‘‘[1]

’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر اللہ پاک کی لعنت ہو‘‘-

رشوت کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟،شاید اس کا کھوج نہ مل سکے،لیکن قرین از قیاس یہی ہے کہ جب انسانی معاشرت وجود میں آئی  اور انسان شیطان کے بہکاوے میں آیا تو رشوت کے شیطانی چکر کا آغازہوگیا- شروع میں یہ ناجائز اور غیر قانونی کاموں کی سر انجام دہی کے لئے استعمال ہوتی ہو گی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی ذہنی اختراعات کی بدولت اس میں جدت اور تیزی آتی گئی اور آج ہمارا معاشرہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ جائز اور قانونی کام کے لئے بھی رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے،بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اب رشوت کے بغیر کام اور خصوصاًسرکاری کام کی سر انجام دہی ممکن ہے تو تھورا مضحکہ خیز سا معلوم ہوتا ہے-اسی لئے  یہاں چند جملے زبان زدِ عام ہیں،  معذرت اور بصد معذرت لکھ رہا ہوں ،’’  پاکستان میں کام کروانا ہو تو ، باوا  اور پاوا چلتا ہے (باوا: نوٹ جن پر قائداعظم کی تصویر ہوتی ہے-  پاوا : پاور ، طاقت)  - کام کروانا ہے تو بابا جی ( نوٹ ) چلاؤ-  یہ پاکستان ہے یہاں سب بکتا ہے، یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے-  نوٹ دکھانے تھے، تاکہ اس کا کام کرنے کا موڈ بنتا وغیرہ وغیرہ‘‘-یہ وہ چند جملے ہیں جن سے ہم سب واقف بھی ہیں  اور ان کا مطلب اور مفہوم بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں- 

رشوت ہمارے معاشرے میں اس قدر نفوذ پذیر ہو چکی ہے کہ ہم نے بحیثیتِ قوم اس کو جرم و گناہ سمجھنا  ہی چھوڑ دیا ہے بلکہ ہم اس قدر گر چکے ہیں کہ ہم نے اسے سسٹم کا حصہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیا ہے- رشوت اب ہمارے نظام میں رشوت نہیں رہی بلکہ کام کروانے کے لئے لازمی جز بن چکی ہے اور ہم  جو کام کروانا چاہتے ہوں اس کے اخراجات میں باقاعدہ طور پر رشوت دینے اور کام کرنے کے لئے رشوت کی رقم مختص کرتے ہیں -  معاشرتی زوال پذیری کی اس سے بڑی علامت اور کیا ہو گی کہ ہمارے ہاں اب رشوت کا  مفہوم ہی بدل گیا ہے-اب رشوت ،رشوت نہیں بلک تحفہ، مٹھائی یا  انعام ہو چکی ہے، جس کو لینے اور دینے میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی - اگر کسی کو کہا جائے کہ رشوت نہیں  دینی تو سسٹم کا رونا شروع ہو جاتا ہے جس میں رشوت دیئے بنا کام کی تکمیل ممکن نہیں تو ہم کیا کریں اب نظام کے ساتھ تو چلنا ہے ،وغیرہ وغیرہ کی باتیں سننے کو ملتی ہیں  - 

کسی بھی محکمہ یا ادارہ کا  اکاؤنٹ یا  فنانس ڈیپارٹمنٹ  ایسا ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے جس نے محکمہ یا  ادارہ کے اخراجات اور منافع وغیرہ سب کا حساب ریکارڈ کرنا ہوتا ہے، اگر ان سے پوچھا جائے کہ جو رشوت دی گئی وہ کس ہیڈ میں لکھتے ہو،ظاہر ہے وہ رشوت کا ہیڈ تو اپنے کھاتوں میں نہیں  بنا سکتے ، تو وہ اس کو گفٹ، یا اضافی اخراجات کی مد میں ڈالتے ہیں او ر وہ جو چیز یا پراڈکٹ بناتے ہیں،رقم اس کے اخراجات میں شامل کرتے ہیں جس کا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے-  مثال کے طور پر ایک دوا ساز کمپنی ہے  جو ایک دوائی  بناتی ہےاور اسی فارمولے کے ساتھ وہی دوائی دوسری دوا ساز کمپنی بھی بنا رہی ہے،لیکن اوّل الذکر کمپنی کی دوائی  کی قیمت،ثانی الذکر کی دوائی سے مہنگی ہے،لیکن اوّل الذکر کمپنی کا نما ئندہ،جناب  محترم ڈاکٹر صاحب سے عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہماری کمپنی نے ایک سکیم متعارف کروائی ہے جس کے تحت اگر کوئی ڈاکٹر صاحب ہماری کمپنی کی دوائی کی فروخت میں معاون ثابت ہوتے ہوئے ہمارا اتنا ہدف پورا کرتے ہیں تو کمپنی ڈاکٹر صاحب کے کلینک کو رینوویٹ کر دے گی،یا فریج لے کر دے گی تاکہ آپ کے کلینک میں دوائیں خراب نہ ہوں،اسی طرح ڈاکٹر صاحب کو بمعہ اہل و عیال فلاں ملک کا وزٹ کروائے گی،یا اسی پیکج میں رہتے ہوئے اگر ڈاکٹر صاحب بمعہ اہل و عیال عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہیں تو عمرہ کی ادائیگی کے لئے کمپنی معاون ہو گی جس سے یقیناً خیر و برکت میں اضافہ ہو گا- اب ڈاکٹر صاحب جانتے ہوئے بھی کہ دوسری کمپنی کی دوائی اور پہلی کمپنی کی دوائی میں کوئی فرق نہیں، بلکہ دوسری کمپنی کی دوائی سستی ہے اور دونوں کی کوالٹی بھی ایک جیسی ہے،پہلی کمپنی کی دوائی لکھ کر مریضوں کو دیں گے کہ جناب یہ کھائیں، اس سے بہت افاقہ ہو گا- تو ڈاکٹر صاحب کے فارن ٹور یا عمرہ کا بوجھ تو غریب عوام پر ہی پڑے گا جس کے پیسے کمپنی کسی نہ کسی مد میں اخراجات میں ڈال کر دوائی کی قیمت میں شامل کرے گی-

ایسے ہی  اگر کسی نے اپنا تبادلہ دیہی علاقے سے شہری علاقے میں کروانا ہو تو ، افسران یا مجاز اتھارٹی کو کتنے پیسے دینے ہیں،اس کا ریٹ کیا ہے، سب جانتے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص بہت لالچی ہے اس کام کا ریٹ اتنا ہے لیکن وہ مجھ سے اتنے پیسے اضافی مانگ رہا ہے اب جو رشوت دے کر وہ سیٹ حاصل کرے گا تو وہ پیسے آخران سائلین کو ہی ادا کرنے پڑیں گے جو وہاں کام کروانے کے لئے آئیں گےاور چونکہ سائلین جانتے ہیں کہ ہم نے رشوت دے کر کام کروانا ہے لہٰذا وہ راضی با رضا رشوت مٹھائی کے نام پر دیں گے- کہنے کا مطلب یہ کہ رشوت اب رشوت نہیں رہی بلکہ نظام کا حصہ بن چکی ہے جس سے ہم سب تنگ ہیں اور اس کا شکار بھی لیکن اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہے ، اِس احساسِ کمتری کے سبب کہ ’’ہماری آواز کیا کر لے گی‘‘ - میری ناقص رائے میں رشوت سے بڑا فتور اپنے آپ سے نا امُیدی ہے -رشوت اس معاشرے سے ختم نہیں ہو پائے گی، جب تک ہم معاشرہ کو تبدیل نہیں کریں گے- معاشرے کی تبدیلی یعنی انسانی رویوں میں تبدیلی سے ہی رشوت کا خاتمہ ممکن ہے-

حضرت علی (﷜)کے قول مبارک کا مفہوم ہے کہ  :’’ کفر کی بنیاد پر تو معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر نہیں‘‘- رشوت معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہے اور انصاف اور عدل کا خاتمہ کرتی ہے - عدل کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز یا جگہ جس کے لائق ہو اسی کو دی جائے،جس کا مفہوم سمجھنے کے لئے ہم انگریزی کا لفظ میرٹ (Merit) کا استعمال کرتے ہیں-  عدل کے برعکس جس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے اسے ظلم کہتے ہیں- ظلم کی تعریف یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو ایسی چیز دے دینا جس کا وہ حق دار نہ ہو - رشوت  سے ظلم کی ابتدا ہوتی ہے،حق دار کا حق مارا جاتا ہے، ناانصافی کو فروغ ملتا ہے، امن ِ عامہ میں خلل پڑتا ہے ، جس کا حق مارا جاتا ہے وہ مایوس ہوتا ہے  جس کی وجہ سے مایوسی آہستہ آہستہ فروغ پاتی ہے اور کچھ کر گزرنے کا عزم نوجوانوں میں ناپید ہو جاتا ہے-اقرباء پروری کا رجحان بڑھتا ہے، جس سے نااہل لوگ، فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں جو کہ ریاست کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے، قانون اور آئین کی دھجیاں بکھرتی ہیں اور معاشرے کا انصاف اور عدل سے اعتماد  اٹھ جاتا ہے ،غریب مزید پامال ہو جاتے ہیں، امیر من مانیاں کرتے ہیں-  عوام محنت اور میرٹ کی بجائے شارٹ کٹ پر اعتماد کرنا شروع کر دیتی ہے-  احساسِ مروّت ختم ہو جاتا ہے ، دولت کی ہوس میں اضافہ ہوتا ہے- 

سرکار کا کام ہے کہ رشوت کے خلاف جو قانون سازی کی گئی ہے اس کا اطلاق کرے اور اور معاشرے کو اس ناسور سے بچائے تاکہ معاشرہ اور نظام ترقی کی جانب سفر کر سکے-  ساتھ ساتھ علمائے کرام جمعہ کے اجتماعات میں اس ناسور کے نقصانات سے عوام کو روشناس کروائیں ، اساتذہ بچوں کو سکولوں میں رشوت نہ دینے اور نہ لینے کی ترغیب دلائیں ،معاشرے سے رشوت کا خاتمہ شاید ممکن ہو سکے-

٭٭٭



[1](سنن ابن ماجہ، کتاب الاحکام)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر