جس کی ہرہرادا سنت مصطفےٰﷺ

جس کی ہرہرادا سنت مصطفےٰﷺ

جس کی ہرہرادا سنت مصطفےٰﷺ

مصنف: ایس ایچ قادری اکتوبر 2016

دنیا کے اندر کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام تشریف لائے جو انسان کو اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ یاد دلاتے رہے اور مقصدِ حیات سے آگاہ کرتے رہے - اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ بیان فرما کر اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کی پہچان کراتے رہے -جب سرکار دوعالم ، نور مجسم ، امام الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو جامع صفات ،جامع کمالات ، مکمل ، اکمل ، نورالھدیٰ بنا کر مبعوث فرمایا- آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے صرف اعلانِ نبوت نہیں فرمایا بلکہ آپ نے ذاتِ الٰہی کی پہچان بھی کروائی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو وہ نور بصیرت عطا فرمائی جس کے حصول کے لئے انبیاء کرام اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا فرماتے کہ الٰہی! یہ نبوت کا منصب ہم سے لے لے اور اپنے پیارے حبیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کا امتی بنا دے -

اسی اُمّت میں نبوت کے بعد ولایت ہی اسلام کا وہ اعلیٰ معیار ہے جس میں ایک فقیر (جو مقام مرشدی پر فائز ہوتا ہے) جب بھی بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا طالب بن کر کسی ولی اللہ فقیر کے پاس جاتا ہے تو وہ طالب اللہ کو سیر’’الی اللہ‘‘ کی بجائے سیر ’’فی اللہ‘‘ کے جلوے عطا فرماتا ہے - وہ دنیا و مافیھا اور آخرت و مافیھا سے وراء الوریٰ منازل طے کراتا ہے جس سے طالب اللہ غیر ماسوی اللہ کو چھوڑ کر ذاتِ حق تعالیٰ کے نور کا مشاہدہ کرتے ہوئے وہ لذات محسوس کرتا ہے جس میں کشف و کرامات اور دوزخ و جنّت سے بیگانگی سی محسوس ہونے لگتی ہےبقول اقبال:-

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب  چیز  ہے لذتِ آشنائی

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہ  فرماتے ہیں :-

لا یحتاج جنہاں نوں ہویا فقر تنہاں نوں سارا ھُو
نظر جنہاں دی کیمیا اوہ کیوں مارن پارا ھُو

یعنی جن کی آنکھیں  سُنّت  نبوی کی پیروی کرتے کرتے نورِ مصطفوی سے روشن ہو کر کیمیاگری کا گُر سیکھ لیتی ہیں انہیں کشف و کرامات کی شعبدہ بازی میں اٹکنے کی حاجت نہیں رہ جاتی- ایسے صاحبانِ فقر ہر وقت ذات بالذات ہو کر ذاتِ الٰہی کے انوار کے مشاہدات میں مستغرق رہتے ہیں - انہیں توحید ذاتِ الٰہی کی بدولت اعلیٰ مقام نصیب ہوتا ہے -سلطان العارفین قدس اللہ سرّہ  کا فرمان ہے:-

پیکر من از توحیدش شد توحیدش در توحید
عین زاں توحید مطلق لاسوا دیگر نہ دید

’’ میرا وجود توحید حق تعالیٰ میں غرق ہو کر عین توحید ہوگیا ہے جس کی وجہ سے مجھے توحید مطلق کے سوا کچھ نظر نہیں آتا‘‘-

لیکن اصل راز کی بات یہ ہے کہ اس بلند ترین مقام پر پہنچ کر بھی صاحبانِ فقر  سُنّت  نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی اور شریعت مطہرہ کی پابندی کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتے ہیں-

سلطان العارفین قدس اللہ سرّہ  کا فرمان ہے:-

’’مجھے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہ ہی پر چلنا ہے کیونکہ جو کوئی اِس راہ سے ہٹ کر چلتا ہے وہ شقاوتِ قلبی کا شکار ہوجاتاہے‘‘-[1]

ایک مقام پر فرمایا:-

 ’’باھُونے اِستغراقِ فنا فی اللہ کا مرتبہ شریعت کی پیروی سے پایا اوراُس نے شریعت ہی کو اپنا پیشوا بنا یا‘‘-[2]

آپ قدس اللہ سرّہ  کا ہی فرمان ہے:-

’’شریعت کے حصار ہی میں دیدارِخدا ہوتاہے اِس لئے مَیں نے شریعت کی پیروی ہی سے دیدار حاصل کیا ہے‘‘-[3]

تاریخ تصوف کا جائزہ لیتے ہوئے اگر ہم تعصب کی عینک اتار پھینکیں تو ہمیں حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہ  سمیت سلسلہ تصوف کے تمام مایہ ناز بزرگ شریعت مطہرہ اور  سُنّت  نبوی کی پیروی کرتے ہوئے ہی دکھائی دیں گے- شیخ محقق ، مجدد ملّت ، شیخ الحدیث ، سیدنا شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تحصیل التعرف فی معرفۃ الفقہ والتصوف‘‘ میں ایک عنوان قائم کیا ہے کہ ’’تصوف کی بنیاد کتاب و  سُنّت  پر ہے‘‘- اس میں امام جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ ’’عقائد‘‘ کے حوالہ سے ان کا ایک قول نقل کیا ہے ، ملاحظہ ہو:-

’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی (رحمۃ اللہ علیہ) اور ان کے مریدین کا راستہ صحیح راستہ ہے‘‘-

اس کی توضیح کرتے ہوئے شیخ محقق لکھتے ہیں کہ علامہ نے صحیح راستے کی تخصیص ان کے ساتھ اس لئے کی کہ ان کے راستے کی بنیاد کتاب و  سُنّت  پر ہے- جیسا کہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

’’ہمارے طریقے کی بنیاد کتاب و  سُنّت  پر ہے- ہر وہ طریق جو کتاب و  سُنّت  کے خلاف ہو وہ مردود اور باطل ہے‘‘-[4]

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ جن کے بارے میں حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کا قول مبارک ہے کہ بایزید بسطامی ہم لوگوں میں ایسے ہیں جیسے ملائکہ میں جبرئیل- لوگوں نے حضرت بایزید بسطامی کو بتایا کہ فلاں مقام پر ایک بڑے رتبے والے شیخ ہیں- آپ ان کی زیارت کو گئے- جب قریب پہنچے تو انہوں نے قبلہ کی طرف منہ کرکے تھوکا- آپ یہ دیکھ کر اسی وقت لوٹ آئے اور فرمایا کہ:-

’’اگر شیخ کا طریقت میں قدم ہوتا تو شریعت کے خلاف نہ چلتا‘‘-[5]

اسی طرح شہنشاہِ بغداد ، سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول مبارک ہے کہ :-

’’پہلے فقہ حاصل کر پھر اللہ کے بندے (مرشدِ کامل) کے ساتھ بغیر علم کے گوشہ نشینی اختیار کر (کیونکہ) اس (علم) کا فساد اس کی اصلاح سے زیادہ ہے- اپنے علم کے مطابق عمل کے ذریعے اپنے رب کی شریعت کا چراغ اپنے ساتھ رکھ تاکہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسے علم کا وارث بنائے جسے تو نہیں جانتا ‘‘-[6]

شیخ محقق ، عبد الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ کے مقدمہ میں سیدنا شیخ عبدالقادر قدس اللہ سرّہ  کے حوالے سے ایک روایت نقل فرمائی کہ سیدنا غوث الاعظم قدس اللہ سرّہ  نے پیدا ہونے کے بعد ماہِ رمضان میں دن کے وقت اپنی والدہ کا دودھ نہیں پیا- اس کے علاوہ دس سال کی عمر میں ہی آپ کو علم ہو گیا تھا کہ آپ اللہ کے ولی ہیں پھر بھی آپ کی عبادت و ریاضت کو دیکھیں تو آپ فرماتے ہیں کہ :-

’’چالیس سال تک فجر کی نماز میں نے عشاء کے وضو سے ادا کی ہے- پندرہ سال تک عشاء کی نماز کے بعد ایک قرآن شریف ختم کرتا رہا- گیارہ سال تک ’’برج بغداد‘‘ میں عبادتِ الٰہی میں مشغول رہا- میرے اس برج میں طویل قیام کی وجہ سے لوگ اسے ’’برج عجمی‘‘ کہتے ہیں‘‘-[7]

تصوّف کے عظیم سلاسل میں سے ایک سلسلہ قادریہ آپ کی طرف ہی منسوب ہے- شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے مناقب پر مرتب کردہ کتاب ’’زبدۃ الاسرار‘‘ کے آخر میں سلسلہ قادریہ کے کچھ آداب ذکر فرمائے ہیں جن میں سے سرفہرست درج ذیل ہیں:-

’’ظاہری شریعت کی بہت زیادہ پاسداری، اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن اور رسول اللہ کی  سُنّت  کو لازما مضبوطی سے پکڑنا، قطعی طور پر سلف صالحین کے طریقے پر چلنا، اہل السنت و الجماعت کا عقیدہ رکھنا، نفس کو ریاضت کروانا اور اسے کھلا نہ چھوڑنا، طلبِ مولیٰ میں صبرجمیل اختیار کرنا، مصائب کو برداشت کرنا، دائمی کوشش، مضبوط مشقت، دینی علوم میں مشغول رہنا، فقراء کی مجالس کو اختیار کرنا، بادشاہوں اور امراء سے بے نیازی اختیار کرنا--- وغیرھا"-

سلطان العارفین ، حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہ  اپنی کتب میں خود کو مریدِ حضرت شاہ محی الدین ولی اللہ، غلامِ قادری سروری، خاکِ پائے قادری سروری، جیسے القابات سے مخاطب فرماتے ہیں- اگرچہ آپ سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس سلسلہ سے نسبت قائم ہونے سے قبل آپ کو سرورِ کائنات، آقائے نامدار، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس کی حضوری اور دستِ بیعت نصیب ہو جاتی ہے- اس مناسبت سے آپ خود کو سروری قادری فرماتے ہیں اور آپ ہی سے سلسلہ سروری قادری کا آغاز ہوتا ہے- اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:-

’’زمان و لامکان پر مکمل تصرف رکھنے والا طریقہ صرف قادری ہے اور قادری بھی دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک زاہدی قادری اور دوسرا سروری قادری- سروری قادری طریقہ وہ ہے جو اس فقیر کو حاصل ہے کہ یہ فقیر حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی مجلس میں حاضر ہوا، حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے اسے دستِ بیعت فرمایا اور خندہ پیشانی سے فرمایا ؛ خلقِ خدا کی راہنمائی میں ہمت کرو ‘- بعداز تلقین حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے اس فقیر کا ہاتھ پکڑ کر حضرت پیر دستگیر قدس سرّہ  العزیز کے سپرد کر دیا- حضرت پیر دستگیر قدس سرّہ  العزیز نے بھی سرفرازی بخشی اور خلقِ خدا کو تلقین کرنے کا حکم فرمایا یہ ان ہی کی نگاہِ کرم کا کمال ہے کہ بعد میں اس فقیر نے جب بھی کسی طالب اللہ کے ظاہر و باطن پر توجہ کی اُسے ذکر اذکار اور مشقتِ ریاضت میں ڈالے بغیر محض تصور اسم اللہ ذات اور تصورِ اسم محمد سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد سے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی مجلس میں پہنچا دیا ‘‘-[8]

اس مقام پر پہنچ کر بھی آپ نے نماز باجماعت ادا فرمائی، تہجد، نفلی نماز اور روزے بھی رکھے، حج بھی فرمایا- نکاح کی  سُنّت  بھی ادا فرمائی اور شرم حیاء کے پیکر بھی رہے - عمر بھر شرابیوں، اہلِ بدعت و سرود اور بے نمازیوں پر لعنت بھیجتے رہے- آپ نے اپنی کتاب ’’عین الفقر‘‘ میں تارکِ نماز کی سے مذمت میں جو روایت ذکر فرمائی ہے وہ شریعت مطہرہ کی خلاف ورزی کرنے والے پر آپ کے قہر و غضب کی نمایندگی کرتی ہے - اس روایت میں مراتب کی تنزلی ترتیب وار ذکر ہوئی ہے جس میں سب سے پہلے مسلمان پھر یہودی اس کے بعد نصرانی، مجوسی، منافق، مشرک، بے دین ، کافر اور پھر کتے اور خنزیر تک کا تذکرہ ہے - آخر میں خنزیر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:-

’’ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے خنزیر پیدا کیا ہے تارکِ نماز پیدا نہیں کیا‘‘-[9]

یعنی آپ کے نزدیک جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والا اس نجس العین حیوان سے بھی بدتر ہے جس کا کوئی اپنی زبان پر نام لینا گوارا نہیں کرتا-

صوفیائے کرام کی شریعت مطہرہ اور  سُنّت  نبوی کی پابندی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ تمام اعلیٰ مراتب کے صوفیاء ، علم و عمل میں کامل، اکمل ، جامع نور الھدیٰ درجے پر فائز ہونے کے باوجود کسی نہ کسی فقہی امام کی پیروی کرتے رہے- حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ امام ابو ثور کے فقہی مذہب پر تھے- شیخ شبلی امام مالک کے پیروکار تھے- شیخ حارث محاسبی امام شافعی کے پیروکار تھے- سیدنا غوث الاعظم، شیخ عبد القادر الجیلانی قدس سرّہ  العزیز امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پیروکار تھے اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُور قدس اللہ سرّہ  نے اپنی کتب میں خود کو امام اعظم ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے فقہی مسلک کا پیروکار فرمایا ہے- رحمہم اللہ اجمعین-شریعت کے ان ائمہ کی پیروی کے پسِ منظر میں تمام اولیائے کاملین کے سامنے یہ فرمان موجود رہا جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و  آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:-

’’جس نے حاکمِ شریعت کی فرمانبرداری کی تو بلاشبہ اس نے میری اطاعت کی اور جو شخص حاکمِ شریعت کی نافرمانی کرے گا تو بلاشبہ اس نے میری نافرمانی کی‘‘-[10]

سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہ  کے خانوادہ میں نویں پشت کے چشم و چراغ، بانی ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ  العزیز کی حیات مبارکہ بھی  سُنّت  مطہرہ کی پاسداری اور شریعت مصطفی کی پابندی میں گزری- آپ ظاہر و باطن کے حسین امتزاج کا ایسا گلِ یاسمین تھے جس کی خوشبو آپ کی نگاہ سے تیار کردہ ’’اصلاحی جماعت‘‘ کے صدور حضرات کی صورت میں آج پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے- آپ کی زندگی مبارک کے واقعات ، جو انہی صدور حضرات کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں، سے عیاں ہوتا ہے کہ آپ کا ہر قدم نقشِ قدمِ مصطفی کی پیروی میں ہی اٹھتا رہا-

آپ کے خاندانِ حضرت سلطان باھُو سے باہر واحد خلافت یافتہ ساتھی میاں محمد ضیاء الدین صاحب نے بتایا کہ

’’ شیخوپورہ کے ایک ساتھی کا واقعہ ہے کہ اس کے گھر اس کا دوست آیا تو بانی اصلاحی جماعت ، سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ  وہاں تشریف فرما تھے - آپ جہاں بھی جاتے لوگوں کا جم گھٹا ہو جاتا تھا- مہمان دوست کہنے لگا کہ آپ کے گھر میں آج بڑا رش ہے آپ نے بتایا نہیں -اس نے بتایا کہ میرے گھر میں آج میرے مرشد پاک آئے ہوئے ہیں -مہمان دوست کہنے لگا چلو ٹھیک ہے پھر مَیں چلتا ہوں -گھر والا کہنے لگا نہیں بھئی آجاؤ ، آپ بھی ملاقات کر لو-چونکہ وہ (مہمان دوست) اَولیائے کرام سے مناسبت نہیں رکھتا تھابلکہ تھوڑا سا شدید رویَّہ رَکھتا تھا اس لئے اُس نے کہا مَیں نہیں آؤں گا ، پھر میزبان کے بار بار اصرار پر اس نے کہا کہ چلو ایک مرتبہ زیارت کرلیتا ہوں-وہ آدمی بانی اصلاحی جماعت ، حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ  کے کمرے میں جہاں آپ تشریف فرماتھے ، لوگوں میں سب سے پیچھے آکر کھڑا ہو گیا- اس وقت بانی اصلاحی جماعت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس سرّہ  العزیز قرآن و حدیث اور تصور اسم اللہ ذات کی گفتگو فرما رہے تھے - وہ سنتا رہا اور آہستہ آہستہ آپ کے قریب ہوتا چلا گیا- جب گفتگو ختم ہوئی تو اس وقت وہ مہمان دوست آپ کے قدموں میں موجود تھا ، دست بوسی کی اور عرض کی کہ حضور سب سے پہلے مجھے ذکرِ الٰہی کا طریقہ عطا فرمائیں"-

ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ الحاج محمد نواز قادری صاحب نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے آپ کے ایک فرمان کا تذکرہ کیا ہے کہ بانی اصلاحی جماعت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ  نے فرمایا کہ :-

"میرے ذمے میرے حضور مرشد پاک نے یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ چل پھر کر مخلوقِ خدا کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم عطا کریں- مجھے دیدار الٰہی (کی لافانی دولت کی طرف دعوت) دینے کا حکم ہے اور لوگ مجھ سے دنیا (کا فانی مال و متاع) مانگتے ہیں"-

الحاج محمد نواز قادری صاحب نے آپ قدس اللہ سرّہ کا اسم اللہ ذات کے خزانے کو عام کرنے کا ایک واقعہ یوں ذکر فرمایا ہے:-

’’ایک دفعہ ایک ایسا آدمی جو آپ کا مرید نہیں تھا جب وہ آیا تو آپ نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ تو کہنے لگا بس جی زیارت کے لئے آیا ہوں ، فرمایا اچھا آپ زیارت کے لئے آئے ہیں تو ہماری طرف سے حضرت سلطان باھُو کا تحفہ (اسم اللہ ذات) لے جائیں تو آپ نے اس شخص کو بغیر مانگے اسم اعظم عطا کیا-‘‘

ایک دفعہ آپ بیمار تھے اور لاہور کے ہسپتال (CMH) میں تقریباً ایک ہفتہ زیرِ علاج رہے-جب ڈسچارج ہوئے تو وہ ڈاکٹر صاحب جو آپ کے معالج تھے وہ ملنے کے لئے آئے تو آپ نے تقریباً ایک گھنٹہ اسم اللہ ذات کے حوالے سے ان سے گفتگو فرمائی- اس واقعہ کو سلطان الفقر ششم کی ذاتی خدمت پر معمور،آپ کے خلیفہ غلام باھُو صاحب آف پہاڑپور نے پوری تفصیل سے بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تندرستی ہو یا حالتِ مرض ، آپ قدس اللہ سرّہ کو ایک ہی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ ’’کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا‘‘ کہ اللہ کا کلمہ یعنی اس کا اسم ذات بلند ہو جائے اور یہ مسلمان ’’اللہ اکبر‘‘ کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہو کر ہر قسم کی ظاہری و باطنی، انفرادی و اجتماعی، ملکی و بین الاقوامی غلامیوں کی ذلتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے ایک مرتبہ پھر قرونِ اولیٰ کے عروجِ گم گشتہ کو حاصل کرلیں-

علامہ عنایت اللہ قادری مرحوم نے ایک واقعہ اپنے ایک مضمون میں ذکر فرمایا ہےجو کہ بانی اصلاحی جماعت کے تلقین باطن کی نشاندہی کرتا ہے-آپ لکھتے ہیں کہ بانی اصلاحی جماعت سلطان محمد اصغر علی قدس سرّہ  العزیز نے ناچیز کو پہلے دن جو تربیت عطا فرمائی تھی اُس میں یقین کے مراتب پر اس طرح ارشادات فرمائے تھے :-

" سنگترہ ایک پھل ہے جس کو فرض کیا آپ نے نہیں دیکھا کسی دوست کی زبانی سنگترے کے بارے میں آپ کو معلومات ملتی ہیں تو یہ صرف علم الیقین ہے اگر وہ دوست آپ کو سنگترہ دکھا دے تو دیکھنے کے بعد عین الیقین ہوتا ہے لیکن اگر آپ اُسی دوست کو کہتے ہیں کہ اِس کا پودا اور اُس پر لگا ہوا پھل مَیں دیکھنا چاہتا ہوں تو دوست آپ کو باغ میں لے جاتا ہے وہاں آپ اُس پودے اور پودے پر لگے ہوئے پھل کو دیکھتے ہیں ، اپنے ہاتھ سے توڑتے ہیں ، چاقو چھری وغیرہ سے کاٹ کر اُس کا رَس چوستے ہیں تو اُس وقت اُس کے بارے میں آ پ کو جو یقین آ رہا ہوتا ہے وہ حق الیقین کا مرتبہ ہے اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سنا ہوا ہے کہ اللہ ہے اُسی وقت اسمِ اعظم دِکھا کر فرمایا کہ یہ ہر انسان کے دل میں ہے ، یہی فطرتِ سلیمہ ہے اِس کا تصوّر کرتے کرتے آپ کے دل میں تصوّر نظر آئے گا اور اُس میں انوار و تجلیات اُتریں گی تو آپ کو عین الیقن ہو جائے گا اور تصوّرِ اسم اللہ ذات میں اپنے آپ کو فنا کر لوگے تو اپنی موہوم ہستی مٹ جائے گی اور اُس ذات پاک کی تجلی ہی ہوگی اُس وقت حق الیقین کا مرتبہ نصیب ہوتا ہے"-

یہ تمام واقعات اس آیت کی تفسیر معلوم ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

"اُدْعُوْا اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ"[11]

"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے بلاؤ"

ولایت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ مشغولِ اطاعت رہتے-آپ کی ذاتی خدمت پر معمور ایک آپ کے ایک خلیفہ غلام باھو صاحب فرماتے ہیں کہ:-

"آپ کو جتنی بھی تکلیف ہوتی آپ نماز باجماعت ادا فرماتے تھے- ساتھیوں کے ساتھ گفتگوفرماتے تو اپنی بیماری کو ظاہر نہیں کرتے تھے- حالانکہ ایک مریض کو کوئی تکلیف ہو تو وہ پریشان رہتا ہے آپ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی- جو بھی ملنے کے لیے آتا آپ اس سے بڑے پیار سے ملتے ، اسے پورا ٹائم دیتے تھے- رات بارہ ، ایک بجے تک تو ملاقات کی یہ عام روٹین تھی- ایک بجے تک آپ لازمی بیدار رہتے چاہے محل پاک میں آپ کا قیام ہو چاہے کہیں اور، ساتھی آپ سے ملنے کے لیے آتے رہتے تھے، ان سے گفتگو کے بعد ہی آپ آرام فرماتے تھے- آپ کی تہجّد اور باجماعت نماز کی پختہ عادت مبارک تھی، چاہے آپ سفر میں ہیں ، چاہے آپ ہاسپٹل میں ہیں، میرا جتنا بھی سفر آپ کے ساتھ رہا، اس میں نمازِ تہجّد اور فجر کی نماز باجماعت آپ کی پکی روٹین تھی- شکار گاہ میں بھی آپ کے دو چار روز گذرتے وہاں بھی آپ باجماعت نماز ادا فرماتے تھے- جو لوگ آپ کو دیکھتے تو بڑے متاثر ہوتے کہ آج تک ہم نے کوئی ایسا شکاری نہیں دیکھا، شکاری آتے ہیں شکار کرکے چلے جاتے ہیں لیکن کسی کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یہاں تو باجماعت نماز اور شرعی طریقے سے شکار کیا جاتا ہے"-

بانی اصلاحی جماعت ، سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ  کو بچپن ہی سے رواجی غلاظتوں سے متنفر تھے اور بچپن ہی سے اپنے حضور مرشد پاک کے حکم کے تحت گھڑسواری ، نیزہ بازی کو پسند فرماتے -اپنے حضور مرشد پاک ہی سے گھڑ سواری اور نیزہ بازی کی تربیت لی تھی آپ عظیم مرتبے کے شاہ سوار تھے ملک بھر میں نیزہ بازی کے کھیل میں حصہ لیتے آپ نے ایک بہت بڑا کلب ’’ محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان کلب آف پاکستان ‘‘ کے نام سے بنایا جس کی سر پرستی تاحیات فرمائی -اپنے "تھان" پر اعلیٰ نسل کے خوبصور ت گھوڑے وراثتی طور پر رکھے اپنے تھان مبارک کا کوئی گھوڑا کبھی فروخت نہیں کیا - گھوڑوں کی نگرانی اور دیکھ بھال خود فرماتے اکثر و بیشتر جب گھوڑوں کا معائنہ کر نے کے لئے اصطبل میں تشریف لے جاتے تو اپنے گھوڑوں کو اپنے ہاتھ مبارک سے چارہ ڈالتے اور دانہ پانی کرتے تھے گھوڑوں کے جسم کی صفائی اپنے ہاتھ مبارک سے ہی فرمالیا کرتے تھے - سُنّت  رسول کے مطابق گھوڑوں کے نام بھی رکھتے تھے -تقریباً تمام گھوڑوں کی پیشانیوں پہ اپنا ہاتھ مبارک پھیرتے ، گردنوں پر ہاتھ مبارک پھیرتے اور پنڈلیوں تک بھی ہاتھ مبارک پھیر کر گھوڑوں کی حوصلہ افزائی فرماتے ،یہ فریضہ بھی  سُنّت  مطہرہ کے تحت ساری زندگی ادا کرتے رہے -

اس عمل کو سر انجام دیتے ہوئے آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ فرمان تھا کہ

’’گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک بھلائی رکھ دی گئی ہے‘‘-[12]

میاں محمد ضیاء الدین صاحب بانی اصلاحی جماعت کی مسجد سے محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:-

"مسجد کی تعمیر کے لئے تمام میٹریل پر بڑی خصوصی نگرانی فرماتے حتیٰ کہ کچھ پتھر مبارک خریدنے کے لئے آپ کراچی تشریف لے گئے اور مارکیٹ Visitکر کے خود خرید کر لائے، اسی طرح دومینار مبارک جو آپ کو پسند نہیں تھے جن پر خطیر رقم خر چ ہوچکی تھی اس کو نہ دیکھا بلکہ مسجد کے ساتھ، اللہ کے گھر کے ساتھ محبت کا جو تقاضا تھا اس کو غالب کر کے مینار شہید کرواکر دوبارہ تعمیر کروائے- اکثر انجنینئرز اوردانشور لوگ جب آتے ہیں تو مسجد کی زیب و آرائش اور تعمیر کو دیکھ کر ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں ، لاہور کے ایک ریٹائرڈ سول انجینئر جب وہاں تشریف لائے تو وہ سَر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اس مسجد کو ڈیزائن کس نے کیا ہے؟اس کی ایک ایک چیز کمال کی بنی ہوئی ہے تو ہم نے اسے بتایا کہ یہ کسی آرکیٹیکچر نے نہیں بلکہ سلطان الفقر ششم نے خود ہی ڈیزائن فرمائی ہے -پوری زندگی میں اپنے اصطبل سے ایک گھوڑا فروخت کیا تھا اور اس کی بھی ضرورت اس لیے پڑی تھی کہ اس گھوڑے کی رقم اس مسجد پر خرچ فرمائی اس عظیم بابرکت مسجد خوبصورت طریقے سے تعمیر فرمایا پوری مسجد کی اندرونی دیواروں پر چھت سمیت شیشہ کاری کا کام کر وایا مسجد کا نام ’’ نوری مسجد‘‘ رکھا"-

مسجد کی تعمیری  کام میں دلچسپی کے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کافرمان آپ کے پیشِ نظر تھا کہ

’’جس نے اللہ کے لئے مسجد تعمیر کی تو اللہ تعالیٰ اس جیسی جنّت میں بھی تعمیر فرما دے گا‘‘-[13]

چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ ، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے بانی اصلاحی جماعت ،سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ  کے درسِ قرآن کی منظر کشی کچھ یوں ارشاد فرمائی ہے:-

’’ آپ ہمیشہ درس میں ، گھر میں بھی آپ ’’نور العرفان‘‘ (اعلی ٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمۂ قرآن) کا درس دیتے تھے ، مریدین کو بھی آپ ’’نور العرفان‘‘ کا درس دیتے تھے - بلکہ آپ کی ترتیب مبارک یہ تھی کہ آپ قرآن کریم جو قاری غلام رسول صاحب ( اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے) نے جو تلاوت کی ہے اور ان کے ساتھ وجیہہ السیما عرفانی صاحب کا ترجمہ آپ سنتے تھے اور کبھی کبھار آپ کے ساتھ مختلف علماء ہوتے تھے ، سلطان معظم علی صاحب ، حاجی محمد نواز صاحب ،مفتی صالح محمد صاحب ، مفتی اشفاق احمد صاحب ،تو قرآن پاک کی آیات کا جب وہ ترجمہ ہوتا پھر سٹاپ کی جاتیں پھر یہ علماء اس کی تشریح کرتے تھے تو یہ پوری پوری رات اس نشست میں گذر جاتی تھیں اور قرآن پاک کے اوپر گفتگو ہوتی تھی، جو حضور کے فقیر تھے ، آپ کی خدمت میں رہنے والے وہاں بیٹھے دیکھتے تھے اسے ، سنتے تھے، سوالات کرتے تھے اور آپ   قرآن پاک کے اَسرار و رموز جو اس کے باطنی حوالے سے خاص کر ہیں اس کی شرح فرماتے تھے-

خاص کر جب آپ سلطان العارفین کی بات فرماتے ، تصوّرِ اسم اعظم کی جب آپ وضاحت فرماتے تو آپ کا رنگ ، آپ کی باڈی لینگوئج ، آپ کے اشارے ، آپ کے بیٹھنے کا انداز ، آپ کا طور طریقہ وہ یکسر بدل جاتا تھا، بالکل ایسے چہرہ مبارک آپ کا ہوتا تھا ، اندھیرے میں بھی آپ دیکھیں تو وہ چمک رہا ہوتا تھا- ‘‘

یقینا آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وہ فرمان تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:-

’’قرآن کا عالم (قیامت کے روز) معزز فرشتوں اور محترم و معظم انبیاء کرام کے ساتھ ہوگا‘‘-[14]

آپ قدس اللہ سرّہ   اہل علم کی بے پناہ عزت فرمایا کرتے تھے -علماء کرام سے ملاقات اور دعوت کے لئے خود تشریف لے جاتے تھے ہر سال پورے ملک میں ایک مخصوص دورہ فرماتے اورہر ضلع میں ضلعی سطح پر ایک عظیم الشان میلاد مصطفیٰ اکا انعقاد بھی فرماتے تھے پاکستان کے نامور اور جیّد علماء کرام کو پیار سے دعوت دیتے تھے -اُن کی تقاریر انتہائی ذوق سے سماعت فرماتے ، پیار بھرے لہجے میں ان کو داد دیتے تھے -بڑی عزت و احترام کے ساتھ تنظیم اور جماعت کے بارے میں علماء کرام اور مشائخ عظام سے مشاورت بھی فرماتے تھے -ہر سال ۱۲،۱۳ اپریل کو ایک عظیم الشان میلاد مصطفیٰ کا انعقاد فرماتے ملک بھر سے نامور علمائے کرام اور مشائخ عظام کو خود دعوت دے کر محفل میں شریک فرماتے بہت سے علمائے کرام کو تلقین و ارشاد فرماتے اور طلب کرنے پر انہیں اسم اعظم بھی عطا فرماتے-

بانی اصلاحی جماعت کے عمدہ اخلاق کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے ذاتی معالج ڈاکٹر رفاقت سلطان وٹوصاحب فرماتے ہیں کہ :-

"گذشتہ تیس سال بحیثیت فزیشن اور ڈاکٹر کے مجھے دس لاکھ سے زیادہ مریضوں کو ملنے ، ان کی سائیکی پڑھنے اور ان کو جاننے کا موقعہ ملا ہے اور پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں اور آپ بھی اس سے متفق ہوں گے کہ جتنی شفقت اور محبت حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ میں تھی اور کسی شخصیت میں مَیں نے نہیں پائی - آپ بہت زیادہ برداشت کرنے والے ، صبر کرنے والے ،خلیق اور دوسرے کی بات بہت غور سے سننے والے تھے جیسا کہ آپ نے ایک واقعہ سنا ہوگا کہ حضور پاک ﷺ کو ملنے کے لیے ایک عورت آئی وہ کچھ فاتر العقل تھی تو اس نے بات بہت لمبی کردی تو صحابہ کرام کو اس پر تھوڑی سی ناراضگی اور تکلیف محسوس ہوئی تو حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ اس کی بات میں نہ سنوں تو اور کون سنے گا- یہی خلقِ محمدی ، ہماری ہزاروں ملاقاتیں اپنے مرشد حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ سے ہوئیں تو یہی خلقِ محمدی آپ میں بدرجہ اَتم پایا- اس موقعہ پر اپنی ایک آبزرویشن ہے کہ جب ہم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ سے ملتے تھے تو آپ باری باری تمام لوگوں سے ان کا حال پوچھتے اور توجہ ، شفقت اور پیار سے ان کو دیکھتے تھے تو واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ آپ کی آنکھوں سے کوئی ایسی پیار بھری، نور بھری کوئی شعاعیں نکلتی ہیں کہ انسان کے دل پر اثر کرتی ہیں"-

بانی اصلاحی جماعت کے اس اعلیٰ کے پیشِ نظر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اخلاقِ کریمانہ تھا – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ :-

"تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق تم میں سب سے اچھا ہے"-

بانی اصلاحی جماعت ، سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ  کی غریب پروری کا تذکرہ کرتے ہوئے خلیفہ غلام باھُو فرماتے ہیں کہ :-

" آپ کی ایک روٹین مبارک تھی آپ صدقہ کرتے تھے- اکثر آپ سورۃ یسین نکال کر قرآن پاک اپنے سر مبارک پر رکھ لیتے تھے، پھر قاری نصراللہ صاحب کو فرماتے کہ اس میں پیسے رکھو- قاری صاحب (جو کہ خزانچی خلیفہ تھے) کی جیب سے جو بھی نکلتا اسے قرآن پاک میں رکھ دیتے تھے پھر وہ پیسے کسی غریب کو دے دیے جاتے"-

غریب پروری کا ایک واقعہ سناتے ہوئے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی تنظیمی باڈی کے ایک ممبر عامر طفیل صاحب فرماتے ہیں کہ:-

"بند ہ ناچیز نے جو وقت سلطان الفقر ششم کی بارگاہ میں گزارا ہے- مَیں نے بہت قریب سے دیکھا کہ سلطان الفقر ششم کا حضور رسالت مآب ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے عین مطابق تھا - ۱۹۹۴ء کی بات ہے سلطان الفقر ششم ایک ساتھی کے گھر تشریف لے گئے لیکن ان کی غربت ، افلاس کی حالت یہ تھی کہ گھر میں صرف ایک کمرہ تھا اور مرشد پاک کے شایانِ شان بٹھانے کی جگہ نہ تھی - وہ ساتھی ایک طرف تو بہت خوش تھا کہ مرشد پاک گھر تشریف لے آئے تو دوسری طرف سے اندر سے بے چارہ ٹوٹ چکا تھا کہ اب میں اپنے مرشد پاک کو  کہاں بیٹھاؤں ،کوئی ایسی جگہ ہی نہیں -اسی طرفِ محبت سے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلکا تو حضور مرشد پاک نے فرمایا ’’ نہیں بیٹا نہیں  ایہہ اساڈا اپنا گھر ہے‘‘ کرسی پر تشریف فرمائے اور دعائے خیر فرمائی -

کچھ ٹائم ہی بعد حضور مرشد نے اس ساتھی کا وہ گھر اپنی شفقت سے خود آپ نے تعمیر کروایا -اس کے علاوہ آپ زیادہ تر مساکین، غربا ء میں وقت گزارتے- حضور مرشد پاک کیساتھ سفر کرنے کا اتفاق ہوا -غالبا اسلام آباد سے واپس آرہے تھے تو ایک معذورشخص سڑک کنارے مانگ رہا تھا - گاڑی تیزی سے اس شخص کے پاس سے گزر گئی تو آپ کی نظر مبارک جب اس شخص پر پڑی تو آپ نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ گاڑی پیچھے لے جاؤ -اس کے پاس جاکر تین ہزار روپے اس معذور شخص کو آپ نے عطا فرمایا- حضرت سلطان باھُو کے مزار مبارک پر جب تشریف لے جاتے تو سوالی آپ کا انتظار کر رہے ہوتے تھے- حاضر ی سے واپسی پر ان کی ایک لائن لگ جاتی تو آپ کے پاس جتنی بھی رقم ہوتی وہ اُن سائلین میں تقسیم فرمادیتے -جس کو دریا دلی کہتے یہ مَیں نے سلطان الفقر ششم کی بارگاہ میں رہ کر دیکھا ہے اس کے علاوہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ کی نسبت والے لوگ خود یا ان کی اولاد میں کوئی بھی حاضری دیتے تو ان کے طلب کیے بغیر حضور ان کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتے تھے بلکہ اکثر وہ خاندان جن کا دادا حضور مرشد پاک کی معیت میں وقت گزرا ان کی مکمل کفالت فرماتے - تنظیم میں موجود تمام مستحق ساتھیوں کو بڑی رازداری سے نوازتے- اور ہماری خوش نصیبی ہے کہ یہ سلسلہ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب نے الحمدللہ اب تک  جاری و ساری رکھا ہواہے "-

بانی اصلاحی جماعت کا یہ سارا عمل اس حدیث پاک پیروی میں تھا کہ :-

’’بیواؤں اور مساکین کی مدد کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے‘‘-[15]

نیز یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان پر عمل درآمد تھا جس میں آپ نے فقراء اور مساکین کی محبت کا تذکرہ فرمایا ہے-حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:-

’’ہر چیز کی ایک چابی ہے اور جنّت کی چابی فقراء ، مساکین اور صبر کرنے والوں سے محبت ہے- یہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے ہم مجلس ہوں گے‘‘-[16]

  آپ قدس اللہ سرّہ  اصلاحی جماعت کے مستقبل کے حوالے سے اکثر یہی فرماتے تھے کہ یہ کام ہم نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ روضہ پاک والوں(یعنی حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی مرضی سے شروع کیا ہے وہی اس کے نگہبان ہیں ہم تو صرف اُن کی غُلامی کر رہے ہیں - آپ اکثر یہ واقعہ بھی بیان فرماتے تھے کہ مجھے اصلاحی جماعت چلانے کا حکم اور اِس کی ساری ترتیب خود حضرت سلطان باھوقدس اللہ سرّہ  نے ارشاد فرمائی ہے- آپ جماعت اور تنظیم کا ہر فیصلہ روضہ پاک اور محل شریف والوں کی رضا اور حکم سے ہی فرماتے تھے – صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ چیز ہم نے ڈیوٹی میں رہتے ہوئے بارہا مرتبہ نوٹ کی کہ آپ قدس اللہ سرّہ  جب بھی حضرت سُلطان صاحب یا حضور پیر صاحب یا اپنے مرشد پاک یعنی ہمارے حضور دادا مرشد پاک کے محل میں جاتے تو وہاں حاضری کا دورانیّہ طویل ہوتا تھا -

حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ پاکستان ہی نہیں اس خطے کے مشائخ میں سے وہ واحد ہستی تھے ، وہ واحد شخصیت تھے جن کے مریدین میں اہلسنت (بریلوی)، شیعہ اور دیوبند مکتبہ فکر کے لوگ بھی ہیں جو بھی آئے آپ نے انہیں قبول کیا، ان کی اصلاح کی اور طلبِ حق تعالیٰ کے راستے پہ اُن کو گامزن فرمایا  - لوگ جب بیعت ہوتے تھے تو لوگ اپنی فقہ کے مطابق سوال کرتے تھے کہ حضرت صاحب ہماری فقہ تو آپ سے نہیں ملتی ہے ہم کیسے اس کو آگے چلائیں گے؟ تو آپ فرماتے کہ چار پانچ چیزوں میں کبھی مت پڑنا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب گناہ معاف فرمائے گا- شرک سے آپ منع فرماتے تھے بلکہ جب آپ بیعت فرماتے تھے توگناہوں سے توبہ کرواتے ہوئے سب سے پہلے آپ شرک سے توبہ کرواتے تھے کیونکہ شرک وہ گناہِ عظیم ہے کہ گناہ زمین و آسمان جتنے بھی ہوں وہ معاف کر دیے جائیں گے شرک کبھی معاف نہیں کیا جائے گا-پھر آپ فرماتے تھے کہ انبیاء کرام علیھم السلام بالخصوص حضور نبی پاک ﷺ کی گستاخی نہ ہو یعنی قول ، فعل ، عمل حتیٰ کہ کسی بھی حرکت و سکنت سے یہ معمولی سا اشارہ بھی نہ ہو جس سے کہ بارگاہِ مصطفےٰ ﷺ میں بے ادبی کا ہلکا سا شائبہ بھی پیدا ہو ، حضور کے اہلِ بیت اطہار کی گستاخی نہ ہو، حضور کے صحابہ کرام ، جمیع صحابہ کرام کسی کی بھی گستاخی نہ ہو، پھر جنتے بھی سلاسل کے صوفیاء ہیں ان کی گستاخی نہ کرو اور کسی سے بغض نہ رکھو اور یہ کہ پھر ان کی خدمت میں توہین آمیز کلمات نہ کہے جائیں اس کے علاوہ آپ اپنا فقہ یا عقیدہ رکھتے ہیں اس میں آپ اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں وہ گناہ معاف ہوسکتے ہیں لیکن یہ ایسے گناہ ہیں چاہے وہ انبیاء کرام ، چاہے وہ حضور کے اہلِ بیت ہوں ،چاہیے وہ صحابہ کرام ہوں ، چاہے وہ اولیاء اللہ ہوں ان میں سے کسی ایک سے متعلق بھی توہین آمیز کلمہ لانا ، توہین آمیز بات کرنا یہ بندہ کو ایمان سے خارج کر دیتی تھی ، یہ ایک باؤنڈری تھی آپ فرماتے تھے یعنی حد تھی جس کو نہیں پھلانگنا – آپ کا یہ عمل مبارک بھی عین حکمِ مصطفےٰ ﷺ کے مطابق تھا  جیسا کہ بخاری شریف میں ایک حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-

’’جس نے میرے ولی (دوست) سے دشمنی کی پس تحقیق میں اس کے ساتھ اعلانِ جنگ کرتا ہوں‘‘-[17]

اصلاحی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے اکثر نوجوان ہیں-   بانی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ، سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ  نے نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ فرمائی کیونکہ نوجوان کسی بھی قوم میں مستقبل کے معمار ہوتے ہیں- عین نوجوانی میں اصلاحی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے ساتھی محمد عامر طفیل صاحب اپنی روداد اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:-

" مَیں جب اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ جب سلطان الفقر ششم کی جماعت کا میسج ہمیں ملا اور پھر حضور مرشد پاک کی بارگاہ کی حاضری نصیب ہوئی تو احسن طریقے سے مرشد کریم نے ظاہر اور باطن کے حوالے سے تربیت فرمائی -یقینا کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد بندہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور یقینا وہ مسلمان ہے لیکن اس کلمہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے جیسا کہ اقبال نے فرمایا ہے:

مٹا دیا میرے ’’ساقی نے‘‘ عالَمِ من و تو
پلا کے مجھ کو مئے لا الہ الا ھُو

اس کی عملی تفسیر مرشد کریم کی بارگاہ سے نصیب ہوئی ہے -اس طرح سے باقی تنظیموں ، تحریکوں کے مبلغین کو مبلغ کہا جاتا ہے لیکن سلطان الفقر ششم نے جو اصلاحی جماعت کا مبلغ ہوتا ہے اس کے لیے لفظِ صدر تجویز فرمایا - اس صدر کی شرح کیا ہے؟ کہ جس کا سینہ خالصتا ًاسلام کے لیے کھول دیا جائے ، جس کا سینہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عرفان کے لیے ، اللہ کی معرفت کے لیے کھول دیا جاتا ہے اس کو آپ صدر فرماتے ہیں - اس پُرفتن دور میں اگر میرے مرشد کریم اصلاحی جماعت کا پرچم بلند نہ فرماتے توپتہ نہیں ہمارا کیا حال ہوتا ؟ ہمارا نام و نشان بھی اس دُنیا میں باقی نہ رہتا - جس طرح آپ حضرات اپنے گردو پیش دیکھتے ہیں کہ ہر سمت مادیت کی یلغار ہے ، فحاشی عریانی کس طرح عروج پر ہے ؟ انسانی اقدار کس طرح پامال ہو رہی ہیں تو جب تک ایسی شخصیت کے قدموں میں بیٹھنا نصیب نہ ہوکہ جس کی نگاہ سے دلوں کے اندر وہ نور پیدا ہوتا ہے ، وہ روشنی پیدا ہوتی ہے، حقیقی اِسلام کو سمجھنے کی وسعت پیدا ہوتی ہے -میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ساری زندگی ایک سجدہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کرتا رہوں تو شاید میں اس ایک نگاہ کا شکر ادا نہیں کرسکتا جو میرے مرشدِ کریم نے اس گنہگار پر اپنی شفقت بھری نظر فرمائی اور اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ اس پُرفتن دور میں حضور مرشد پاک کی توفیق نصیب ہے اور ہم اسی دُنیا میں رہ کر حضور مرشد پاک کے اس نظریے پر چل رہے ہیں جو نظریہ رسالتمآب ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو عطا فرمایا تھا" -

عامر طفیل صاحب جیسے کئی نوجوانان ہیں جو بانی اصلاحی جماعت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ  کی نگاہِ شفقت سے اسلام کے علمبردار بن چکے ہیں- نوجوانوں کی اصلاح فرمانا وہی سنت ہے جس کا تذکرہ نوجوان صحابی رسول حضرت جُندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک روایت میں فرمایا ہے کہ:-

’’ہم نبی پاک (ﷺ)کے ساتھ ہوتے تھے- ہم زور آور جوان تھے- ہم نے (آپ ﷺ سے ) قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان سیکھا- پھر ہم نے قرآن سیکھا تو اس نے ہمارے ایمان کو اور بڑھا دیا‘‘-[18]

بانی اصلاحی جماعت کی عاجزی و انکساری کا تذکرہ کرتے ہوئے اصلاحی جماعت کے مرکزی ناظم اعلی حاجی محمد نواز صاحب نے فرمایا کہ:-

"ایک مرتبہ میں بانی ٔاصلاحی جماعت کے ساتھ اُوچھالی سے واپس دربار شریف پر آرہے تھے تو راستے میں خالق آباد آتا ہے وہاں آپ کچھ دیر کے لیے رکے-وہاں آپ کے مریدین تھے ایک مرید نے عرض کیا کہ حضور آپ بیان نہیں فرماتے جبکہ آپ کے بھائی صاحبان حضرت سلطان محمد فاروق صاحب اور حضرت سُلطان محمد معظم علی صاحب بیان فرماتے ہیں آپ بیان کیوں نہیں فرماتے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے لیے حکم نہیں ہے - یہ بات فرمانے کے بعد فرمایا کہ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہمارے لیے یہ حکم ضرور ہے کہ ’’ہونویں سونا تے سڈاویں سکہ ‘‘پھر فرمایا کہ ہماری ڈیوٹی بولنے والے بنا نا ہے" -

اس بات کی مزید توضیح کرتے ہوئے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا:-

" پاکستان کے ایک بہت بڑے سیاسی راہنما سے میری ملاقات ہوئی تو مَیں نے انہیں جماعت کا ، بانی ٔجماعت کا تعارف کروایا اور جماعت کے نظریے کا تعارف کروایا - جماعت پاک کے نظریے میں جو طاقت اور قوت ہے وہ نظریے کی صداقت کی وجہ سے بولتی ہے جسے عمومی طور پر صحافیانہ لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے - یہ نظریہ بالکل پاکیزہ ، تمام قسم کی سیاسی ڈرامہ بازیوں اور تفرقہ پرستانہ فسادات سے مبرا اور پاک ہے ، اُن سے مَیں نے کارکنوں کے حوالے سے بھی تعارف کروایا کہ پاکستان میں اتنے کارکن ہیں وہ خود ہمارے پروگرام میں ایک مرتبہ تشریف لے کر آئے، جب انہوں نے وہاں پر کارکنوں کا ڈسپلن دیکھا ، وہاں جو گفتگو کی گئی اس گفتگو کو سنا ، چند لوگوں سے انہوں نے جو سوالات کیے ان لوگوں کے چہروں پر جو طمانیت، اطمینان مسکراہٹ اور تبسم کو دیکھا ، ان کی جو کمٹمنٹ تھی، ان کی آڈیالوجیکل کلیرٹی جو تھی اس کو جب انہوں نے دیکھا تو بہت زیادہ متأثر ہوکر وہ اس پروگرام سے واپس گئے جب میں اظہارِ تشکر کے لیے دوبارہ ان سے ملاقات کے لیے گیا تو وہ مجھے یہ کہنے لگے کہ

’’صاحبزادہ صاحب مجھے حضرت صاحب ( حضور بانی اصلاحی جماعت) کی کوئی تحریرپڑھنے کے لیے مل سکتی ہے ؟‘‘

تو میں نے کہا کہ ’’حضرت صاحب نے کوئی تحریر نہیں لکھی‘‘-

پھر کہنے لگے کہ ’’مجھے حضرت صاحب کی کوئی تقریر مل سکتی ہے؟ جو میں دیکھ سکوں یا اس کی آڈیو ہو تو میں سن سکوں‘‘ -

تو میں نے کہا کہ ’’حضرت صاحب نے کبھی تقریر نہیں فرمائی تھی‘‘ -

وہ بالکل ورطۂ حیرت میں چلے گئے اور بڑی حیرت سے مجھے کہنے لگے :

’’تو پھر کارکنوں میں اتنی کمٹمنٹ کیسے ہے؟ قائدین یا تو تقریر کے ذریعے اس طرح کی سحر انگیزی ان میں پیدا کرتے ہیں ، ان کی فکر کو پختہ کرتے ہیں ، یا تو تحریر لکھتے ہیں ، یا وہ تقریر کرتے ہیں اور اکثر دونوں کام کرتے ہیں تو یہ کیسے قائد ہیں ، کیسے بانی تھے ، یہ کیسے داعی تھے جنہوں نے نہ تو تقریر کی ، نہ تو تحریر لکھی اور میں اور حیران ہو گیا ہوں کہ لوگوں میں یہ اتنی کمٹمنٹ انہوں نے کیسے پیدا کر دی ہے؟‘‘

یہ وہ بات ہے جسے علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

ان چند صفحات میں بانی اصلاحی جماعت کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ممکن نہیں- لیکن آخر میں ایک بات کا تذکرہ ضرور کرنا چاہوں گا کہ آج کل نوجوان دوستوں

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر