بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں

بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں

بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ مارچ 2018

مسلم انسٹیٹیوٹ نے معروف صحافی، مصنف و ناول نگار اور ماہنامہ مراۃ العارفین انٹرنیشنل کے ایڈیٹر جناب طارق اسماعیل ساگر کی تازہ کتاب ’’بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں‘‘کی تقریب رونمائی اسلام آبادمیں منعقد کی-یہ تقریب دو سیشنز پہ مشتمل تھی پہلے سیشن میں صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے افتتاحی کلمات ادا کیے اور جناب عبداللہ گل (D.G MESAAC ) ، جناب ظفر بختاوری (سابقہ صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس)، بریگیڈئیر (ر) آصف ہارون راجہ (دفاعی تجزیہ نگار)، جناب رانا عبدالباقی (کالم نگار)نے اظہارِ خیال کیا-دوسرے سیشن میں عزت مآب نواب آف جونا گڑھ جہانگیر خانجی، جناب طارق اسماعیل ساگر (کتاب کے مصنف)، بریگیڈئیر (ر) اختر نواز جنجوعہ (دفاعی تجزیہ نگار) جناب احمد قریشی (اینکر پرسن) نے اظہار خیال کیا-مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے-تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی-

تقریب میں مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

کتاب لکھنا کوئی آسان کام نہیں یہ ایک صبر آزما مہم ہے جس کے لیے حقائق کی تلاش اور ان پہ تحقیق کر کے ان کو ایک کتاب کی شکل دینا پڑتی ہے-ادیب، شاعر، دانشور، ناول نگاراور افسانہ نگار کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتے ہیں اور یہ معاشرے میں صحت مند رجحانات کو فروغ دیتے ہیں- ساگر صاحب نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے- یہ امر تشویش ناک ہے کہ ہمارے ہاں ایک جانب تو کتاب پڑھنے کا رجحان ماند پڑ رہا ہے اور دوسری جانب بھارت پہ کتابیں لکھنے کے رجحان میں بھی کمی آرہی ہے- ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا اور 1971ء میں پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دینے کے بعد وہ اس کے مزید ٹکرے کرنے کے درپے ہے- پاکستان میں اردو زبان میں سنجیدہ اور غیر معمولی کتابیں بہت کم لکھی گئی ہیں اور جو لکھی بھی گئی ہیں وہ سیاسی موضوعات پر ہیں وہ اکثر پاکستان کے داخلی مسائل کا احاطہ کرتی ہیں جبکہ علاقائی اور عالمی معاملات اور مسائل پر بہت کم لکھا گیا ہے-

بھارت نے گاندھی اور جواہر و لعل نہرو سے لے کر آج تک اقلیتوں کو تحفظ دینے کا جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور پوری دنیا کو خاص طو ر پر مسلم دنیا اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو اپنے اس لبادہ کی آڑ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم تو بہت مسلم دوست ہیں-لیکن بی جے پی کے آنے اور بابری مسجد کی شہادت کے واقعہ کے بعد جس طرح سے ہندو انتہا پسندوں کا لوگوں کو ادراک ہوا کہ اصل ہندو ذہنیت کیا ہےتو بھارت کے چہرے سے ہر ایک نقاب اٹھ گیا ہے-

بھارت میں جو علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں ان میں سے بیشتر 1947ء سے چل رہی ہیں-ایک لحاظ سے دو قومی نظریے کی توسیع ہیں کیونکہ دو قومی نظریہ یہ تھا کہ ہندوستان میں ایک نہیں ایک سے زیادہ قومیں رہتی ہیں اور مسلمانوں کو اپنے ثقافتی، سماجی اور مذہبی مقاصد کے لئے الگ ملک چاہیے-جو علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ان کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ لوگ اپنے حقوق چاہتے ہیں جو حقوق ان کو بھارتی حکومت دینے کے لئے تیار نہیں ہے اور قائداعظمؒ کی یہی فکر تھی کہ اگر ہندوستان متحدہ رہا تو بحیثیت قوم ہمیں ہمارے حقوق نہیں مل سکیں گے-اس لحاظ سے ساگر صاحب کی یہ کتاب بھارتی علیحدگی پسند تحریکیں بڑی اہم پیش رفت ہے-

’’بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں‘‘ ایک بہت دلچسپ کتاب ہے جس میں مصنف بڑے سیاق و سباق کے ساتھ لکھتا ہے اور ریفرنس دیتا ہے اس وقت انڈیا کے اندر جتنی تحریکیں چل رہی ہیں انہوں نے ایک ایک پر سیر حاصل بحث کی ہے-نہ صرف بحث کی ہے بلکہ ان کی وضاحت بھی حوالے کے ساتھ کی دی ہے-ایک چیز جو شعوری اور لا شعوری طور پر طارق اسماعیل ساگر کی 64 یا 65 کتابوں میں اور دوسرے ڈراموں میں گھومتی ہے وہ مملکت خداداد ہے ان کی ہر تحریر پاکستان کی طرف توجہ دلاتی ہے-پاکستان ایک عطیہ خدا وندی ہے جو پاکستان سے جڑا اللہ نے اس کو عزت دی- ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ’’perception management‘‘کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے- بھارت دنیا کے سامنے یہ مؤقف پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ بھارت دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے اور پاکستان دہشت گردی کی آماج گاہ ہے-پراپیگنڈا کی جنگ میں بھارت خود کو چمکتا اور پاکستان کو امن اور سلامتی کا دشمن قرار دیتا ہے-1971ء کے سانحہ کے بعد بھارت میں اس جنگ پہ 250 کتب لکھی گئیں تاکہ اپنا مکروہ چہرہ چھپا کر پاکستان کی فوج کو مورد الزام ٹھہرایا جائے-اس ضمن میں بھارت اس سانحہ کو اپنا رنگ دینے میں کامیاب رہا جس کی بڑی وجہ ہماری مفاہمت پسندانہ پالیسی اور ہمارے مصنفین کا بھارتی اور مغربی مصنفین کی تائید کرنا ہے-پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا یہ سلسلہ 11/9 کے بعد بھارت، اسرائیل، امریکہ اور افغانستان کے کچھ حلقوں کے گٹھ جوڑ سے شدت اختیار کر گیاہے- طارق اسماعیل ساگر نے آپ کے سامنے ایک مکمل بیانیہ رکھ دیا ہے کہ آپ کے متعلق جو ایک ملک باتیں کرتا ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، علیحدگی پسند تحریکیں ہیں تو ہم کیوں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں؟ ہم کیوں کسی فورم پر انڈیا کا نام لیتے ہوئے ہچکچاتے ہیں؟ جبکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اٹھ کر بات کریں- یہ ملک ہے تو ہم ہیں اور اگر یہ ملک نہیں ہے تو ہمارا نام و نشان تک نہیں ہوگا-

طارق اسماعیل ساگر کی کتاب ’’بھارتی علیحدگی پسند تحریکیں‘‘ دراصل یہ ایک ایسے تھنک ٹینک کی نشاندہی کرتی ہے جو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے اپنی جد و جہد کو ایک طویل عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہے-دنیا بھر میں عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے حوالے سے تھنک ٹینکس کی رائے پہ اپنے آپ کو آگے بڑھاتی ہیں-پاکستان کے حوالے سے یہ جدوجہد بہت زیادہ اہمیت اس لئے رکھتی ہے کہ یہ ہماری قوم اور وطن کی آگاہی کے لئے ہے-جو سازشیں پاکستان میں ہوتی رہی ہیں اس کی نشاندہی کرتی ہے قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے ساگر صاحب کی یہ کاوش بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس میں انہوں نے بہت ساری تحریکوں کا تذکرہ کیا ہے- بھارت بنگلہ دیش کو علیحدہ ملک بنانے کے باوجود اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر قائم ہے اور پاکستان میں اب بھی اسی طرح کی تخریب کاری میں شامل ہے-بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو ساری تربیت بھارت میں دی جاتی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی افواج بڑی جدوجہد کے ساتھ فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں بھی اس کا مقابلہ کر رہی ہےتو یہ آگاہی ہمیں قومی پالیسیاں مرتب کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے-اب پاکستان مشرقی پاکستان کی طرح 1000 کلومیٹر دوری پر نہیں ہے پاکستان کا ایک ایک بچہ اٹھ کھڑا ہو گا-

اس کتاب میں تمام علیحدگی پسند تحریکوں کا سیر حاصل تفصیلات کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے اور ساگر صاحب نے تمام تحریکوں کی تمام تاریخ، انتظامی، فکری اور آپریشنل معاملات اور ان کے بھارت کی سلامتی امور کے اندرونی معاملات پر اثر ات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے-اس لیے یہ کتاب تاریخی دستاویز سے زیادہ ایک تجزیاتی تصنیف کے طور پر سامنے آئی ہے- اسی کتاب کو ہر شخص کو پڑھنا چاہیے جو بھارت کے سیاسی منظر نامے کے متعلق آگاہی رکھنا اور خاص کر اس پر تحقیق کرنا چاہتا ہےاس کے لئے یہ کتاب بطور ایک بڑے حوالہ کے کام آسکتی ہے- بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کی ایک بڑی وجہ اس معاشرہ میں موجود ذات پات کا نظام ہے- بھارت میں ایک چھوٹی برہمنوں کی اقلیت پورے بھارت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے محرومیاں جنم لیتی ہیں-مزید براں بھارت کے آپریشن گرین ہنٹ میں بھی اقلیتوں کو کچلا جا رہا ہے اور ان کے خلاف سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں- بھارت میں ایک سو سے زائد دہشت گرد تنظیمیں ہیں لیکن بھارت کی حکومت نے ابھی تک کسی کو بلیک لسٹ نہیں کیا -

حکومت کو چاہیے کہ اس کتاب کا انگلش ترجمہ کروا کر اس کتاب کی رونمائی واشنگٹن یا نیویارک میں کروائے اور ہمارے قریب مختلف ممالک کے اہم اہم دارالخلافہ میں اس کتاب کی رونمائی ہو-پاکستان کے لوگوں میں اپنا مؤقف دنیا کو دینے کی صلاحیت ہے اس لئے اس طرح کے ہم خیال لوگ اکھٹے ہو نے چاہیں تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن رہے- 

 

٭٭٭

مسلم انسٹیٹیوٹ نے معروف صحافی، مصنف و ناول نگار اور ماہنامہ مراۃ العارفین انٹرنیشنل کے ایڈیٹر جناب طارق اسماعیل ساگر کی تازہ کتاب ’’بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں‘‘کی تقریب رونمائی اسلام آبادمیں منعقد کی-یہ تقریب دو سیشنز پہ مشتمل تھی پہلے سیشن میں صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے افتتاحی کلمات ادا کیے اور جناب عبداللہ گل (D.G MESAAC) ، جناب ظفر بختاوری (سابقہ صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس)، بریگیڈئیر (ر) آصف ہارون راجہ (دفاعی تجزیہ نگار)، جناب رانا عبدالباقی (کالم نگار)نے اظہارِ خیال کیا-دوسرے سیشن میں عزت مآب نواب آف جونا گڑھ جہانگیر خانجی، جناب طارق اسماعیل ساگر (کتاب کے مصنف)، بریگیڈئیر (ر) اختر نواز جنجوعہ (دفاعی تجزیہ نگار) جناب احمد قریشی (اینکر پرسن) نے اظہار خیال کیا-مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے-تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی-

تقریب میں مقررین کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

کتاب لکھنا کوئی آسان کام نہیں یہ ایک صبر آزما مہم ہے جس کے لیے حقائق کی تلاش اور ان پہ تحقیق کر کے ان کو ایک کتاب کی شکل دینا پڑتی ہے-ادیب، شاعر، دانشور، ناول نگاراور افسانہ نگار کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتے ہیں اور یہ معاشرے میں صحت مند رجحانات کو فروغ دیتے ہیں- ساگر صاحب نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے- یہ امر تشویش ناک ہے کہ ہمارے ہاں ایک جانب تو کتاب پڑھنے کا رجحان ماند پڑ رہا ہے اور دوسری جانب بھارت پہ کتابیں لکھنے کے رجحان میں بھی کمی آرہی ہے- ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا اور 1971ء میں پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دینے کے بعد وہ اس کے مزید ٹکرے کرنے کے درپے ہے- پاکستان میں اردو زبان میں سنجیدہ اور غیر معمولی کتابیں بہت کم لکھی گئی ہیں اور جو لکھی بھی گئی ہیں وہ سیاسی موضوعات پر ہیں وہ اکثر پاکستان کے داخلی مسائل کا احاطہ کرتی ہیں جبکہ علاقائی اور عالمی معاملات اور مسائل پر بہت کم لکھا گیا ہے-

بھارت نے گاندھی اور جواہر و لعل نہرو سے لے کر آج تک اقلیتوں کو تحفظ دینے کا جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور پوری دنیا کو خاص طو ر پر مسلم دنیا اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو اپنے اس لبادہ کی آڑ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم تو بہت مسلم دوست ہیں-لیکن بی جے پی کے آنے اور بابری مسجد کی شہادت کے واقعہ کے بعد جس طرح سے ہندو انتہا پسندوں کا لوگوں کو ادراک ہوا کہ اصل ہندو ذہنیت کیا ہےتو بھارت کے چہرے سے ہر ایک نقاب اٹھ گیا ہے-

بھارت میں جو علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں ان میں سے بیشتر 1947ء سے چل رہی ہیں-ایک لحاظ سے دو قومی نظریے کی توسیع ہیں کیونکہ دو قومی نظریہ یہ تھا کہ ہندوستان میں ایک نہیں ایک سے زیادہ قومیں رہتی ہیں اور مسلمانوں کو اپنے ثقافتی، سماجی اور مذہبی مقاصد کے لئے الگ ملک چاہیے-جو علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ان کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ لوگ اپنے حقوق چاہتے ہیں جو حقوق ان کو بھارتی حکومت دینے کے لئے تیار نہیں ہے اور قائداعظم(﷫) کی یہی فکر تھی کہ اگر ہندوستان متحدہ رہا تو بحیثیت قوم ہمیں ہمارے حقوق نہیں مل سکیں گے-اس لحاظ سے ساگر صاحب کی یہ کتاب بھارتی علیحدگی پسند تحریکیں بڑی اہم پیش رفت ہے-

’’بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں‘‘ ایک بہت دلچسپ کتاب ہے جس میں مصنف بڑے سیاق و سباق کے ساتھ لکھتا ہے اور ریفرنس دیتا ہے اس وقت انڈیا کے اندر جتنی تحریکیں چل رہی ہیں انہوں نے ایک ایک پر سیر حاصل بحث کی ہے-نہ صرف بحث کی ہے بلکہ ان کی وضاحت بھی حوالے کے ساتھ کی دی ہے-ایک چیز جو شعوری اور لا شعوری طور پر طارق اسماعیل ساگر کی 64 یا 65 کتابوں میں اور دوسرے ڈراموں میں گھومتی ہے وہ مملکت خداداد ہے ان کی ہر تحریر پاکستان کی طرف توجہ دلاتی ہے-پاکستان ایک عطیہ خدا وندی ہے جو پاکستان سے جڑا اللہ نے اس کو عزت دی- ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ’’perception management‘‘کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے- بھارت دنیا کے سامنے یہ مؤقف پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ بھارت دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے اور پاکستان دہشت گردی کی آماج گاہ ہے-پراپیگنڈا کی جنگ میں بھارت خود کو چمکتا اور پاکستان کو امن اور سلامتی کا دشمن قرار دیتا ہے-1971ء کے سانحہ کے بعد بھارت میں اس جنگ پہ 250 کتب لکھی گئیں تاکہ اپنا مکروہ چہرہ چھپا کر پاکستان کی فوج کو مورد الزام ٹھہرایا جائے-اس ضمن میں بھارت اس سانحہ کو اپنا رنگ دینے میں کامیاب رہا جس کی بڑی وجہ ہماری مفاہمت پسندانہ پالیسی اور ہمارے مصنفین کا بھارتی اور مغربی مصنفین کی تائید کرنا ہے-پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا یہ سلسلہ 11/9 کے بعد بھارت، اسرائیل، امریکہ اور افغانستان کے کچھ حلقوں کے گٹھ جوڑ سے شدت اختیار کر گیاہے- طارق اسماعیل ساگر نے آپ کے سامنے ایک مکمل بیانیہ رکھ دیا ہے کہ آپ کے متعلق جو ایک ملک باتیں کرتا ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، علیحدگی پسند تحریکیں ہیں تو ہم کیوں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں؟ ہم کیوں کسی فورم پر انڈیا کا نام لیتے ہوئے ہچکچاتے ہیں؟ جبکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اٹھ کر بات کریں- یہ ملک ہے تو ہم ہیں اور اگر یہ ملک نہیں ہے تو ہمارا نام و نشان تک نہیں ہوگا-

طارق اسماعیل ساگر کی کتاب ’’بھارتی علیحدگی پسند تحریکیں‘‘ دراصل یہ ایک ایسے تھنک ٹینک کی نشاندہی کرتی ہے جو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے اپنی جد و جہد کو ایک طویل عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہے-دنیا بھر میں عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے حوالے سے تھنک ٹینکس کی رائے پہ اپنے آپ کو آگے بڑھاتی ہیں-پاکستان کے حوالے سے یہ جدوجہد بہت زیادہ اہمیت اس لئے رکھتی ہے کہ یہ ہماری قوم اور وطن کی آگاہی کے لئے ہے-جو سازشیں پاکستان میں ہوتی رہی ہیں اس کی نشاندہی کرتی ہے قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے ساگر صاحب کی یہ کاوش بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس میں انہوں نے بہت ساری تحریکوں کا تذکرہ کیا ہے- بھارت بنگلہ دیش کو علیحدہ ملک بنانے کے باوجود اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر قائم ہے اور پاکستان میں اب بھی اسی طرح کی تخریب کاری میں شامل ہے-بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو ساری تربیت بھارت میں دی جاتی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی افواج بڑی جدوجہد کے ساتھ فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں بھی اس کا مقابلہ کر رہی ہےتو یہ آگاہی ہمیں قومی پالیسیاں مرتب کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے-اب پاکستان مشرقی پاکستان کی طرح 1000 کلومیٹر دوری پر نہیں ہے پاکستان کا ایک ایک بچہ اٹھ کھڑا ہو گا-

اس کتاب میں تمام علیحدگی پسند تحریکوں کا سیر حاصل تفصیلات کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے اور ساگر صاحب نے تمام تحریکوں کی تمام تاریخ، انتظامی، فکری اور آپریشنل معاملات اور ان کے بھارت کی سلامتی امور کے اندرونی معاملات پر اثر ات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے-اس لیے یہ کتاب تاریخی دستاویز سے زیادہ ایک تجزیاتی تصنیف کے طور پر سامنے آئی ہے- اسی کتاب کو ہر شخص کو پڑھنا چاہیے جو بھارت کے سیاسی منظر نامے کے متعلق آگاہی رکھنا اور خاص کر اس پر تحقیق کرنا چاہتا ہےاس کے لئے یہ کتاب بطور ایک بڑے حوالہ کے کام آسکتی ہے- بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کی ایک بڑی وجہ اس معاشرہ میں موجود ذات پات کا نظام ہے- بھارت میں ایک چھوٹی برہمنوں کی اقلیت پورے بھارت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے محرومیاں جنم لیتی ہیں-مزید براں بھارت کے آپریشن گرین ہنٹ میں بھی اقلیتوں کو کچلا جا رہا ہے اور ان کے خلاف سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں- بھارت میں ایک سو سے زائد دہشت گرد تنظیمیں ہیں لیکن بھارت کی حکومت نے ابھی تک کسی کو بلیک لسٹ نہیں کیا -

حکومت کو چاہیے کہ اس کتاب کا انگلش ترجمہ کروا کر اس کتاب کی رونمائی واشنگٹن یا نیویارک میں کروائے اور ہمارے قریب مختلف ممالک کے اہم اہم دارالخلافہ میں اس کتاب کی رونمائی ہو-پاکستان کے لوگوں میں اپنا مؤقف دنیا کو دینے کی صلاحیت ہے اس لئے اس طرح کے ہم خیال لوگ اکھٹے ہو نے چاہیں تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن رہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر