جمہوریہ ماریشس

جمہوریہ ماریشس

جب بھی کسی قوم کے عروج و زوال کا موازنہ کرنا ہو تو اُس کی تقسیم تین درجوں ،’’حکومت ،معاشرہ اورفرد‘‘میں کی جاتی ہے پھر اُس کا موازنہ ملک کے وسائل اور ثقافت کے ترازو میں کیا جاتا ہے-اِس ترازو سے ہمیں دو طرح کی حکومتیں،معاشرے اور افراد ملتے ہیں جو رہتے تو ایک جگہ ہیں مگراُن کے خواص مختلف ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر  وہ قومیں یا تو عروج کی طرف سفر کرتی ہیں یا زوال اُن کا مقدر بنتا ہے-سب سے پہلے اگر زوال پذیر قوموں کو دیکھیں تو اُن کی خواص کچھ یوں ملتے ہیں:

تعلیم:

ایسی قوموں کے حکمران ان پڑھ ہوتے ہیں،معاشرے اورعلم سے نا واقف ہوتے ہیں اور فرد کتابوں کو کھولنا گناہ سمجھتے ہیں-

وسائل:

ایسی قوموں کے حکمران اپنے وسائل کی بجائے بیرونی امداد پر منحصر کرتے ہیں،ایسے معاشرے وسائل کی جنگ میں اپنا وقت برباد کرتےہیں اور افراد خودکفیل اور ہنر مند ہونے کی بجائے دوسرے کی آمدن پر اپنا حق جَتاتے ہیں-

نظام:

حکمران نظام کو ٹھیک کرنے کی بجائے پرانے نظام کو اپناتے ہوئے اپنے زوال کا رونا روتے ہی،معاشرے بھی نظام کی خرابی کو چھوڑ کر ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں جبکہ افراد خود کی نااہلی اور بددیانتی کو چھوڑ کر حکومت یا دوسرے افراد  پر الزام  تراشی کرتے ہیں-ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ قومیں جوتعلیم (یاد رہے کسی چیز کا علم ہونا یا کسی چیز پرسو فیصد مہارت ہونے میں فرق ہے)سے دور ہو، وسائل کی بجائے امداد پر منحصر رہتی ہو اورمہارت کی بجائے ستی و کاہلی کی زندگی گزارتی ہو وہ قوم اپنے مقدر میں زوال پذیری کو خود لکھتی ہے اور اِس کا  الزام یا تو دوسرے پر ڈالتے ہیں یا نوآبادیاتی نظام پر ڈالتے ہیں حتیٰ کہ وہ اِس چیز کا الزام بھی قدرت پر ڈالتے ہیں-اِسی لیےشاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جِس کو خیال آپ  اپنی حالت کے بدلنے کا

اب اگر دوسری طرح کی قوم کا جائزہ لیں تو ان کے موازنہ کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے  کہ وہ قومیں جوعلم دوست ہوتی ہیں جن کے حکمران ماہر اور  افراد ہنر مند ہوتے ہیں-ایسی قومیں اپنے وسائل کو استعمال کرتی ہیں اور وقت کے ایک ایک لمحہ کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے وقف کرتی ہیں جن کی زندہ مثالیں ہمیں چین، ملایشیا، آئس لینڈ،ایتھوپیا، کوریا اور جنوبی افریقہ وغیرہ  جیسے ممالک سے ملتی ہیں-ایسی قومیں اپنے پرانے وقت و نظام کے ساتھ نہیں جیتی بلکہ افراد کی تربیت سے معاشرے اور حکومت کی تشکیل دیتی ہیں جو اپنی پہچان بناتی ہیں  نہ کہ وہ غلامی و وسائل کا رونا  روتی رہتی ہیں بلکہ خود کو اِس قابل بناتی ہیں کہ دنیا میں ان کا سکہ چلتا ہے- اِیسی قوموں کی ایک چھوٹی سی جھلک ہمیں افریقہ کے ملک ماریشس کی صورت میں ملتی ہے جو قدرتی وسائل  سے محروم،تقریباً پنتیس فیصد (%۳۵)زرعی زمین  اور کئی اقوام کے گٹھ جوڑ کے ساتھ بھی دنیا کی  معیشیت میں اپنا کردار ادا کر رہا ہےکیونکہ یہ قوم اپنی غلامی یا وسائل کے نہ ہونے کا رونا نہیں رورہی بلکہ علم و ہنر کو اپنا شیوا بنا کرگز بسر کر رہی ہے- 

جغرافیہ:

براعظم افریقہ کے جنوب ،’’جمہوریہ مڈغاسکر ‘‘کے مشرق میں آٹھ سو (۸۰۰)کلومیٹر دور کھلے سمندر کی لہروں میں موجود جزیرہ جمہوریہ ماریشس کے نام سے  جانا جاتا ہےجِس کا رقبہ دو ہزار چالیس (۲۰۴۰)مربع کلو میٹر اوراِس کی ساحلی پٹی ایک  سوستر (۱۷۰)کلو میٹر ہے-اِس جزیرہ پر جولائی ۲۰۱۶ءکے مطابق تقریباً تیرہ لاکھ انچاس ہزار (۱۳،۴۹،۰۰۰)نفوس آباد ہیں جِن میں تقریباً اڑتالیس فیصد(٪۴۸) ہندو اور سترہ فیصد  (٪۱۷) مسلمان پائے جاتے ہیں جِن کی شرح ِ خواندگی تقریباً نوے فیصد (%۹۰)ہے-

تاریخی پس منظر:

دسویں صدی میں عرب  ملاحوں نے اِس خطہِ زمین (ماریشس )کو دریافت کیا مگر وہ یہاں رہائش پذیر نہ ہوئے-۱۴۹۸ءمیں پرتگالی  باشندے  ’’کیپ آف گڈ ہوپ‘‘(موجودہ جنوبی افریقہ) سے اِس خطہ پر مستقل سکونت کی بجائے سفری آرام گاہ کے طور پراستعمال کرتے تھے-۱۵۱۰ءمیں پرتگالی  ماہر جہاز رانی پیڈرو ما سکئیرنہاس (Pedro Mascarenhas)  نے اِس جزیرہ کا نام  کرائن (Cirné) رکھا-۱۵۹۸ء میں ’’ڈچ‘‘ یہاں تک آ پہنچے اور اِس علاقے کا نام  اپنے شہزادے کے نام کے ساتھ منسوب کرتے ہوئے ’’پرنس آف اورنج‘‘ رکھا اور ۱۷۱۰ءتک یہ علاقہ ڈچ قبضہ میں رہا اور اِسی دوران یہاں کئی طرح کے باشندے آباد ہوتے رہے جو زیادہ تر غلام بنا کر یہاں لائے جاتے رہے- ۱۷۱۰ءمیں ڈچ اِس علاقہ کو چھوڑ کر چلے گئے جِس کے بعد ۱۷۱۵ءمیں ’’فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ نے اِس علاقے کو  اپنے قبضہ میں لے لیا اور فرانسیسی حکومت برطانیہ کے خلاف اِس جزیرہ کو بطور ’’نیول بیس ‘‘استعمال کرتی رہی-  ۱۸۱۰ءمیں برطانوی سامراج نے فرانسیسی فوج کو شکست دے کر معاہدہِ پیرس (Treaty of Paris)کے تحت  اِس جزیرہ پر قبضہ کر لیا-اِس دورانیہ میں تقریباً پانچ لاکھ انڈین اِس جزیرے پر لائے گئے جِں میں سے صرف ڈیڑھ لاکھ افراد واپس گئے-۱۹۳۶ءمیں ڈاکٹر مورائیس نے حکومت میں مقامی باشندوں کی نمائندگی اور حقوق   کے لیےماریشین لیبر پارٹی کا قیام کیا-  ۱۹۴۲ءمیں برطانوی شہری ’’ڈونلڈ مکینزی کیمڈی‘‘ گورنر بنے اور اپنی مشاوراتی کمیٹی میں وہاں رہنے والے مختلف باشندوں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا-اِس کمیٹی کی کاوشوں کے تحت ماریشس کو برطانوی راج کے تحت داخلی حکومت کا حق دیا گیا-۱۹۵۹ءمیں ہونے والے پہلے الیکشن میں ماریشین لیبر پارٹی نے سیووساگر رامگولام (Seewoosagur Ramgoolam) کی قیادت میں فتح سمیٹی جو بعد میں بابائے قوم کے نام سے مشہور ہوئی-۱۹۶۵ءمیں لندن میں ہونے والی آئینی اجلاس میں ماریشس کی آزادی کے بارے میں غور فکر کیا گیا-آخر کار برطانوی سامراج نے مقامی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے بارہ (۱۲)مارچ ۱۹۶۸ءکو ماریشس کو آزاد کر دیا- ۱۹۹۱ءمیں مقننہ نے ماریشس کو جمہوریہ ماریشس کا نام دیا -ماریشس کی موجودہ صدر کا نام ’’آمنہ گورب‘‘(Ameenah Gurib)ہے-ماریشس افریقن یونین(AU)، اقوام متحدہ (UN)، سارک کا مبصر(SAARC observer) اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن(WTO) کا ممبر ہے-

اسلام کی آمد:

ماریشس میں اسلام کی آمد ۱۸۱۰ءمیں ہندوستان سے لائے گئے غلام مسلمانوں سے ہوئی- ہندو اکثریت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا رجحان زیادہ نہ ہوا اور تبلیغ ِ اسلام میں بھی مشکلات کا سامنا رہا -نسلی و مذہبی  فسادات  کی روک تھام کے لیے ماریشس میں حکومت تمام مذاہب کی نگرانی کرتی ہے-وہاں موجود مساجد میں سے دارلحکومت میں ۱۸۵۰ءمیں بنائی گئی جامع مسجد بہت مشہور اور قابلِ دید ہے- 

معیثیت:

جیمز میڈ(James Meade) جو کہ معیشیت میں اعلیٰ مہارت کی وجہ سے نوبل انعام یافتہ ہیں،نے۱۹۶۱ءمیں ماریشس کی معیشیت کے بارے میں  کہا کہ اِ س کی معیشیت  غیر محفوظ موسمی حا لات کی وجہ سے بہت جلد مایوس کن حالت میں چلی جائے  گی-ماریشس کی حکومت و عوام نے اِس چیلنج کو قبول کرتے ہوئےانڈسٹری  اور صنعت کے گٹھ جوڑ سے ترقی کی ایسی مثال قائم کی کہ افریقہ کے تیزی سے ترقی کرتے ممالک میں ماریشس ہراول دستے میں شامل تھا-جِس کی ۱۹۷۰ءسے لے کر ۲۰۱۰ءتک شرح  جی ڈی پی تقریباً پانچ فیصد (%۵)سے لےکر آٹھ فیصد (%۸)تک تھی جو کہ موجودہ دور۲۰۱۶ءمیں تقریباً چار فیصد (%۴)تھی-اِس کی ۲۰۱۶ء  درآمدات (جِن میں زیادہ تر انڈسٹری کا خام مال شامل ہوتا ہے)تقریباً تین (۳)بلین ڈالرجبکہ برآمدات تقریباً پانچ (۵) بلین ڈالر تھیں-

سیاحت:

ماریشس  کے سر سبز پہاڑ، شاہکار تعمیر کیے گئےشہر، گھاس سے بھرے میدان اور نیلاسمندر قدرتی حسن کا مظہر ہیں- اِسی لیے تو یہاں ۲۰۱۶ء میں تقریباً تیرہ (۱۳)لاکھ سیاح آئے جِن سے  تقریباً دو (۲)بلین ڈالر آمدن ہوئی- 

بین الاقوامی اہمیت:

سویز کنال کی انسٹالیشن سے پہلے یورپ اور ایشیاء کے درمیان ہونے والی تجارت پر نکلے جہازوں  کا سمندری پڑاؤ ماریشس میں ہوا کرتا تھا- کیونکہ اگر اِس ملک کی جغرافیائی اہمیت کا بغور جائزہ لیں تو اِس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یورپ، ایشیا اور افریقہ کے درمیان ہونے والی تجارتی راستےکے وسط میں  جزیرہِ  ماریشس ہے - سویز کینال کے  بعد ماریشس کی معیشیت کو دھچکا لگا لیکن یہ زیادہ دیر پا نہ رہا کیونکہ  ماریشس کسان  اورصنعتکار کی انتھک محنت سے دنیا میں یہ ملک اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے مشرق و مغرب کی بڑی منڈیوں میں اپنی پیداوار کی وجہ سے اپنی پہچان خود رکھتا ہے-اِس ملک میں آباد کئی علاقوں کے باشندوں کی وجہ سے اِس کے مختلف ممالک سے کافی اچھے تعلقات ہیں-

پاکستان - ماریشس تعلقات:

پاکستان اور ماریشس کے درمیان باہمی تعلقات کا آغاز ۱۹۶۸ءمیں ہوا-۲۰۰۷ءمیں دونوں ممالک کے درمیان تعلیم،صحت اور صنعت کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لیے (Preferential Trade Agreement) پر دستخط کیے گئے- ۲۰۱۶ءمیں  دونوں ممالک کے صدور (ممنون حسین اور  آمنہ گورب)کے درمیان پاکستان میں ہونے والی ملاقات میں تعاون میں مزید اضافہ پر زور دیا گیا-

اختتامیہ:

دنیا میں کوئی بھی قوم ایک دن میں یا اکیلی ترقی نہیں کر سکتی جب قومیں امداد کو چھوڑ کر تعاون کی طرف آتی ہیں تو تب اُس ’’گلوبل ویلج‘‘کا خواب پورا  ہوتا جِس میں ہر کوئی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ترقی،امن وخوشحالی میں اپنا اپنا کردار ادا کرتا ہے اِسی طرح پاکستان اور دوسرے ممالک کو مل کر ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسیع کرنا چاہیے تاکہ دنیا میں انسانیت خوشحال زندگی بسر کرتے ہوئے آپس  میں وسائل کی جنگ کو ترک کر سکیں –

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر