اِسلامی تاریخ ہماری وراثت اورشناخت ہے -یہ محض داستانوں کامجموعہ نہیں ہمارے شاندار ماضی کاعکس ہے اوراگر تاریخ کا یہ عکس ہماری نظروں سے دُور ہو جائے ، یہ یاداشتیں ہمارے اَذہان سے محو ہوجائیں ،تو ہم خود کو کھوکھلا ،بے وقعت،بے وزن اوربے جان محسوس کریں گے -
تاریخ ایسا موضوع نہیں جسے ایک ہی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا جا سکے ، اسے ہر زاویۂ نگاہ سے اور ہر پہلو سے دیکھنا پڑتا ہے تبھی اُس گزرے ہوئے کل سے آج کا سبق نکل سکتا ہے - اگر تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ ہی سمجھ لیا جائے تو وہ حکایت گوئی و قصّہ خوانی سے آگے نہیں بڑھتی - اِس لئے نامور مؤرخینِ اِسلام نے یہ اصول اپنایا کہ جس طرح قرآن پاک قصہ یا واقعہ بیان کرتا ہے تو اس کا مطلب صرف بیانِ واقعہ نہیں بلکہ وہ اُس میں بیان شُدہ نتائج کی اور فلسفہ کی طرف توجُّہ دِلاتا ہے کہ دیکھو فلاں قوم کا یہ واقعہ کہ اُس نے کیسے بغاوَت کی اور اُس کا انجام کیا ہوا ؟ اسی کے برعکس فلاں قوم نے کیسے اطاعت کی اور خالقِ کائنات نے کیسے اُن کو اپنی نگہبانی و امان میں لے لیا ؟
اِس لئے کسی شخص کی تاریخ ہو ، کسی خاندان کی تاریخ ہو ، کسی قوم کی تاریخ ہو یا کسی زمانے کی تاریخ ہو اُس میں طالب علم کیئے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ زمانۂ حاضر میں اس کا کیا اثر وقوع پذیر ہورہا ہے اور مستقبل میں کیا ہوگا ؟ نیز یہ بھی کہ قوموں اور ملتوں کے عروج اور زوال کے اسباب کا پتہ چلتا ہے کہ کیسے چلن قوموں کو عروج پہ لے جاتے ہیں ؟ کیسی طرزِ حکمرانی قوم کی آئندہ زندگی کی ضمانت بنتی ہے ؟ کن صفات سے متّصف اور کن خواص سے مزیّن حُکمران قوم کے مستقبل کا سرمایہ ثابت ہوتے ہیں ؟ اِسی طرح یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کیسے چلن ، کیسا طرزِ حُکمرانی اور کیسے حُکمران قوموں کا بیڑا غرق کرکے اُن کی آئندہ نسلوں کو غُلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں ؟
اِس حوالے سے اِسلامی ہند کی تاریخ بھی کئی اسباق اور کئی بھر پور نتائج سے بھری پڑی ہے جن میں جھانک کر ہم کئی سبق حاصل کر سکتے ہیں - اگر صرف شہرِ دہلی پہ ہی نظر ڈال لی جائے تو اوراقِ تاریخ ختم ہونے میں نہیں آتے - اُس میں ایک خاص حِصّہ دہلی کے مختلف خاندانوں کے مسلمان سلاطین کا ہے -
اگر سلاطینِ دہلی کی تاریخ مجموعی طور پہ مثالی نہ بھی ہو لیکن سلطنتِ دہلی کے کچھ بادشاہ تو ایسے بھی ہیں جن کی کارکردگی ہر لحاظ سے متأثر کن ہے-بلاشبہ اسلامی ثقافت وتہذیب کے سلاطینِ دہلی کے طرزِ ہائے حکومت پہ دوررَس اثرات مرتب ہوئے -وہ مطلق العنان ضرور تھے لیکن دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے بھی کوشاں رہے -وہ اپنی علمی وعملی استعداد کے مطابق دین ِ اسلام پہ عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے رہے-اُن میں سے کچھ حکمران اَیسے بھی تھے کہ جنہوں نے اِسلامی فلاحی ریاست کے تصوّر کو اپنانے کی بھی اپنی سی سعی کی -تاریخ کے یہ اَن مٹ نقوش ہمیں آج بھی اخلاقی برتری کا احساس دلاتے ہیں اور ہمیںیاس و قنوطیت سے چھٹکارا دِلا سکتے ہیں -ماضی کے کارنامے اورناکردہ کاریاں ، عروج وزوال ہمیں حقیقت پسندانہ تجزیات کی طرف بُلاتے ہیں -
یہ بھی درست ہے کہ اَنگریز اورہندو مؤرخین نے سلاطینِ دہلی کی تاریخ مسخ کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھائے نہیں رکھامگر اِس کے باوصف ہم تاریخ کے حقیقی خدوخال دیکھ سکتے ہیں - یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر انگریز اور ہندؤں نے ایسا کیوں کیا ؟ تو جواب بہت سادہ ہے کہ تاریخ دو طرح کے لوگ لکھتے ہیں ﴿۱﴾ وہ جنہیں بادشاہ نے نوازا ہوتا ہے - ﴿۲﴾ وہ جن کو مار پڑی ہوتی ہے - کوئی بھی تاریخ دیکھیں اُس میں یہ عنصر ضرور غالب ہوتے ہیں ، مثلاً صلیبی جنگوں پہ لکھی گئی مغربی تاریخ پڑھ لیں اور مسلمانوں کی تاریخ پڑھ لیں دونوں کا نقطۂ نظر ایک ہی واقعہ پہ مختلف ہو گا ایک میں سُلطان صلاح الدین ایُّوبی کو نشانۂ تنقید بنایا گیا ہوگا اور دوسرے میں اُس کی تعریف کی گئی ہوگی - اِسی طرح سکندر اور چنگیز کی تاریخ دیکھ لیں : سکندر کو ’’سکندرِ اعظم‘‘ اِس لئے کہا گیا کہ اُس کی تاریخ اُن لوگوں نے لکھی جن کو اُس نے نوازا تھا اور چنگیز کو ’’غاصب چنگیز‘‘ اِس لئے کہا گیا کہ اُس کی تاریخ اُن لوگوں نے لکھی جن کو اُس سے مار پڑی تھی - لہٰذا ہندؤں اور انگریزوں کا اِسلامی تاریخ سے نظریاتی بیر اور نظریاتی دُشمنی ہے اگر وہ اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تاریخ لکھیں تو اپنے خود ساختہ تاریخی ہیروز کو کیسے پروموٹ کر سکیں گے ؟
سلاطینِ دہلی کے معروف خاندانوں میں ایک تُغلق خاندان بھی تھا جس نے ایک طویل عرصہ تک تختِ دہلی پہ حُکمرانی کی - تغلق خاندان میں تین نامور اورعظیم بادشاہ گزرے ہیں -
﴿۱﴾ سلطان غیاث الدین تغلق شاہ جو کہ تغلق خاندان کابانی تھا-
﴿۲﴾سلطان محمد بن تغلق شاہ
﴿۲﴾سلطان فیروز شاہ تغلق-
سلطان غیاث الدین تغلق :-
خدا جب کسی قوم کابھلا چاہے تو اِس قوم کے کسی اَیسے فرد کو برسرِ اقتدار کرتاہے کہ جس کے دِل میں حکومت ،بادشاہت اورجاہ و حشمت کی طلب معدوم ہو- دینِ اسلام میں بھی یہ اصول ہے کہ ِاسلامی ریاست میں کسی ایسے فرد کو خلافت اورنیابتِ الٰہی کی ذمہ داری نہیں سونپی جاتی کہ جو اِقتدار میں آنے کی خواہش کا بَرملا اظہار کرے - اِسلامی تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ جب ناچاہنے کے باوصف حکومت کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی-سلاطین دہلی کی تاریخ میں بھی ایسے ہی دو بادشاہوں کے نام موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنی خواہش سے نہیں بلکہ حالات کی نزاکت کی وجہ سے بادشاہت قبول کی ،ان میں سے ایک نام جلال الدین فیروز خلجی کا ہے اوردوسرا تغلق خاندان کے بانی غیاث الدین تغلق کاہے-تاریخ کہتی ہے کہ غازی بیگ ﴿غیاث الدین تغلق﴾کو بادشاہ بننے میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ اپنی ذات میں مست تھا-اُس کاشمار سلطنتِ دہلی کے اوسط درجے کے اُمرأ میں ہوتا تھا-سلطان علائو الدین خلجی کہ جس نے اسلامی فلاحی ریاست کے تصوّر کو سلطنتِ ہند پہ عملی طور پر نافذکرنے کی کوشش کی ، وہ غازی بیگ پہ بڑا مہربان تھااوراِسے دیپالپور قلعہ کا صوبے دار مقرر کیا-سلطان علائو الدین خلجی کی وفات کے بعد محلاتی سازشوں اورآپسی جنگ نے سلطنتِ دہلی کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا- اِسی دوران ایک نومسلم وزیر خسروخاں کہ جسے علائو الدین کے شہزادوں نے سر پر چڑھا رکھا تھا،اس نے بادشاہِ وقت کوقتل کردیا -یادرہے کہ خسروخاں مسلمان ہو جانے کے بعد بھی اپنے ہندو گھرانہ اورقبیلے کازیادہ وفادار تھا اور اُس نے اپنی ہندو برادری کے بل بوتے پہ بغاوت برپاکی-خسروخان نے بادشاہ علائوالدین کے خاندان پہ ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ اُن کی تفصیلات کی ورق گردانی کرتے ہوئے آدمی کی رُوح کانپ جاتی ہے -قریباً تمام شہزادوں کو قتل کردیا اور بادشاہ علائو الدین کی بیوی کو اپنے حبالۂ عقد میں لے لیا اور ہندو بلوائیوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ حرمِ سرا میں داخل ہو کر اُس کے محسن سلطان کی عزت وناموس کو تار تار کر دیں - فسادیوں نے بھی اُ س کی توقع سے بڑھ کر ظلم وستم کا بازار گرم کیا-
اَیسے نازک وقت میں سلطان علائو الدین کے مسلمان وفادار اُمرأ نے بھی چپ سادھ لینے میں عافیت جانی بلکہ اُنہوں نے غاصب خسروخاں کو سلطان ناصر الدین کے لقب سے سلطنت پہ حکمرانی کی اجازت دے دی -
’’بہرحال مسلمانوں اورشاہی خاندان پریہ بڑا نازک وقت تھا-تعجب ہوتا ہے دہلی کے شرفا اوراُن اُمرأ نے کہ جنہیں علائو الدین نے بڑی سہولتیں دیں اورجن پر بے پناہ نوازشیں کی ،یہ بربریت کس طرح برداشت کرلی اور اُن کے خون میں کیوں گرمی پیدانہ ہوئی -البتہ ابن بطوطہ کہتا ہے اس بربریت کی خبر جب ہوا کے دوش پر چڑھ کر دیپالپور اورلاہور کے صوبہ دار غازی بیگ ﴿غیاث الدین تغلق﴾تک پہنچی تو وہ غصہ اورغم کے مارے دیوانہ ہوگیا اس نے اپنی داڑھی کے بال کئی بار نوچے اوراس ظالم کے خلاف اُٹھنے کے منصوبے سوچنے لگا ‘‘ - ﴿۱﴾
غازی بیگ کاایک بیٹا فخرالدین بیگ﴿محمد بن تغلق﴾دہلی دربار سے منسلک تھا-غاصب خسروخاں کو جب غازی بیگ کے ارادوں کاپتہ چلاتو وہ فخرالدین بیگ پہ مہربان ہوگیا-
’’یہ خبرپاکر کہ خسرو خاں نے غازی بیگ کے بیٹے جونا خان ﴿فخرالدین بیگ﴾کو جو مبارک شاہ ﴿علائوالدین کافرزند﴾ کے اُمرأ میں سے تھا سواروں کی قیادت بخشی-بہت سی دولت دی اور کئی خطابات عطاکیے تاکہ باپ﴿غازی بیگ ﴾ کو قابو میں رکھا جاسکے -مگر باپ بڑا شریف اور بہت حساس مسلمان تھا -اُسے علائوالدین سے بڑی محبت وعقیدت تھی- علائو الدین نے اس پر بڑی نوازشیں کی تھیں اوروہ گوارانہ کرسکاتھا کہ اُس کے آقا کے خاندان پر یوں ظلم کیے جائیں اور ظالم مزید ظلم کرنے کے لئے زندہ رہے‘‘ -﴿۲﴾
لیکن فخرالدین نے ان مہربانیوں کو قبول نہ کیا اورموقع پاکر غازی بیگ کے پاس دیپالپور قلعہ میں پہنچ گیا-دونوں باپ بیٹے نے ظالم خسروخاں کے خلاف جنگی تیاریاں شروع کردیں - لیکن مرکزی حکومت کے خلاف کامیابی حاصل ہونا بہت مشکل تھا - سب سے پہلا مسئلہ دیگر نزدیکی قلعہ داروں کو جنگ میں شریک کرنا تھا-اِس مقصد کے لئے غازی بیگ نے اُن کو مدد کی دعوت دی مگر کسی نے کان نہ دھرا - البتہ ملتان کی فوج اپنے قلعہ دار کو قتل کرنے کے بعد آن پہنچی اور اس کے علاوہ غازی بیگ کانزدیکی رشتہ دار بہرام بھی مدد کو آیا - چونکہ غازی بیگ ایک مشہور سپہ سالار اورنیک وفرض شناس حاکم مشہور تھا اس لئے کئی چھوٹے چھوٹے منصب داروں نے بھی اس کا ساتھ دیا - یوں ایک حد تک مضبوط فوج لے کر وہ دہلی کی طر ف روانہ ہوا - دوسری جانب غاصب خسروخاں نے بھی دہلی فوج کی وفاداریاں خریدنے کے لئے شاہی خزانے کی بوریوں کے منہ کھول دئیے -دہلی فوج کے سپاہیوں کو چار چار سال کی پیشگی تنخواہیں دی گئیں -دونوں افواج میں پہلی مڈبھیڑ سرسوتی کے کنارے پہ ہوئی جس میں غازی بیگ کو فتح حاصل ہوئی-دوسری بار دہلی کے مضافات میں دونوں افواج کاآمنا سامنا ہوا -جنگ کے شروع میں خسروخاں کی فوج کوبرتری حاصل ہوئی اور قریب تھا کہ غازی بیگ کی فوج کو شکست ہوجاتی مگر وہ اوراُس کی ذاتی فوج اِس بہادری سے لڑے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا-غازی بیگ کو فتح نصیب ہوئی اور بد بخت خسرو خاں شکست کھا کر بھاگ گیا جسے بعدا زاں گرفتار کرکے قتل کردیاگیا-
غازی بیگ ﴿سُلطان غیاث الدّین تغلق﴾ فاتح کی حیثیت سے دہلی میں داخل ہوا-دہلی کے تمام قاضی اور دوسرے اُمرأ اُس کو سلام کرنے کی غرض سے آئے تو غازی بیگ نے فتح مکہ کی سنتِ نبویﷺ کااَحیائ کرتے ہوئے اُن کو معاف کردیا - وہ علائو الدین خلجی کی عقیدت میں گھوڑے سے اُتر کر اپنے آقا کے ہزار محل میں پیدل داخل ہوا اور اُس نے دہلی کے اُمرأ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ اُسے بادشاہت کی ضرورت نہیں جس مقصد کے لئے اُس نے دہلی پہ خروج کیا تھا وہ حاصل ہوگیا ہے-اُس نے کہاکہ :
’’ اے لوگو! جو سُلطان علاؤ الدین خلجی کے ماتحت رہ چکے ہو،مَیں تم میں سے کسی طرح بھی فائق نہیں ہوں -تم جیسا ایک معمولی آدمی ہوں بحمداللہ! کہ مَیں نے اپنے ولی نعمت ﴿علائو الدین ﴾کاانتقام لے لیا ہے -اب میرے ولی نعمت کی نسل میں سے کسی کو تلاش کرلو اوراُسے تخت پر بٹھا دو -ہم سب مل کراُس کی فرمان برداری کریں گے -اگر کوئی اُن میں سے زندہ باقی نہیں بچا تو اپنے میں سے جس کاانتخاب بھی بادشاہت کے لئے کرلوگے مَیں اس کی اطاعت کر لوں گا-‘‘﴿۳﴾
دہلی کے اُمرأ نے اصرار کیا کہ اگر اللہ کو اُس کا بادشاہ بننا مقصود نہ ہوتا تو وہ کیسے اِتنے قتل وغارت کے بعد کامیاب ہوتا اورکیسے سلطنت کی مضبوط فوج کو شکست دیتا ؟ لیکن سُلطان غیاث الدین تغلق نے یہ دلیل بھی رد کردی اورانکار کرتے ہوئے کہاکہ
’’میرے تخت وتاج میری کمان اورتیر ہیں - مجھے اس بات کاصدمہ ہوا کہ آقا کے شہزادوں کو بے دریغ قتل کیا گیا-باغی ﴿شاہی﴾حرم میں گھس گئے تھے ---مرتدخان خانان﴿خسرو خاں کابھائی حسام الدین ﴾نے کئی شہزادیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا-﴿میرے سامنے تین مقاصد تھے﴾ اوّل : تجدید ِ اسلام- دوم: ہندو زاد ملعونوں سے سلطنت چھین کر شاہی خاندان کے کسی زندہ بچے ہوئے شہزادے کے حوالے کر دینا اورسوم:یہ کہ اُن احسان فراموش ملعونوں کوجنہوں نے شہزادوں کا قتل کیا تھا مناسب حال سزا دینا- اگر شاہی خاندان میں سے کوئی شہزادہ موجود ہوتو اس کی بادشاہت کااعلان کرنا اگر کوئی باقی نہیں تب یہاں پر بہت سے لائق ملک ﴿اُمرأ ووزیر﴾موجود ہیں -- میرے لئے میری تلوار اورمنگولوں کاسر کافی ہے- تم لوگ تاج اورصاحبِ تاج کی دیکھ بھال کرو- ﴿۴﴾
اُمرأ دہلی نے عاجزی کرتے ہوئے اپنے سر جھکا دیے اورکہا کہ اگر آپ نے بادشاہت منظور نہ کی تو خانہ جنگی کاخدشہ ہوگااورجو عظیم کام آپ کے ہاتھوں سے سر انجام پایا ہے اُس سے آپ کی عزت دوچند ہوگئی ہے اب اگر کوئی دوسرا بادشاہ بنے گا تو وہ آپ سے قدرتی طور پہ خار کھائے گا کہ جیسے ابومسلم خراسانی نے اُمیویوں کاتختہ اُلٹ کر عباسیوں کو تخت نشین کروایا اورخود ایک اطاعت گزار سپاہی بن گیا-لیکن اس کے باوصف عباسیوں نے اُسے قتل کروادیا-اُنہوں نے کہا کہ آپ کے ہوتے ہوئے اگرکوئی دوسرا بادشاہ بنے گا تولازماً آپ سے اُس کو تحفظات ہوں گے اور وہ اَمن وسکون سے اُمورِ سلطنت انجام نہیں دے پائے گا-مذکورہ دلائل نے غازی بیگ کو لاجواب کردیا اور وہ تاجدارِ سلطنت بننے کے لئے تیار ہوگیا-اُس نے غیاث الدین کا لقب اختیار کیا اور اُمورِ سلطنت میں مصروف ہو گیا - یحییٰ بن احمد سرہندی نے غیاث الدین تغلق کے بارے میں لکھاکہ:-
’’سلطان غیاث الدین تغلق شاہ ایک مہربان اور منصف بادشاہ تھا اوراس کی طبیعت میں فطری طور پر تعمیر ،آبادکاری،دانائی،ذہانت ،عفت و عصمت اورطہارت سے ہر طرح کی دلچسپی پائی جاتی تھی-تدبیر و لیاقت ،فہم وفراست اور ذہانت وذکاوت میں وہ اپنی مثال آپ تھا-وہ نمازِ پنجگانہ ہمیشہ باجماعت اَداکرتا اورجب تک نمازِ عشائ اَدا نہیںکرلیتا تھا وہ حرم سرا میں نہیں جاتا تھا-﴿۵﴾
’’غیاث الدین تغلق ۰۲۷ہجری میں تخت نشین ہوا - وہ جب سلطنتِ ہند کابادشاہ بنا تو ملک کے نظم ونسق ، رعایا کے اخلاقِ عامہ،معیشت اور مجلسی زندگی میں بڑا فتور پیدا ہوچکاتھا -چار لاکھ پچاس ہزار جمعیت رکھنے والی علائی فوج بری طرح منتشر ہوچکی تھی اورشاہی خزانہ خالی تھا - عُمّالِ سلطنت بددِل اوربری عادتوں کے عادی ہوچکے تھے سلطنت کاکوئی شعبہ اورکوئی محکمہ ایسانہ تھا کہ جس میں کسی قسم کی کوئی ترتیب موجود ہو-شاہی محل لٹ چکے تھے---اس اچھے بادشاہ نے سب سے پہلے علائو الدین کی بیٹیوں اوربیویوں کو ڈھونڈا ،اس کے دوسرے اَعِزَّہ ﴿عزیزوں﴾کو جمع کیا -انہیں شاہی محلوں میں جگہ دی اوراُن کے مصارف کے لئے شاہانہ وِظائف مقرر کئے -علائو الدین کی بیٹیوں کے لئے موزوں رشتے تلاش کئے اوراُن بدنصیبوں کی زندگی سنوار دی -برنی کہتا ہے کہ اس اَچھے بادشاہ کی اَچھی عادتوں اورنیک باتوں کی شہرت چند دن میں دُور تک پھیل گئی اورہر جگہ کے عُمال اور رعایا کے سر اُس کے سامنے جھک گئے -نظم و نسق بہتر ہوا اوررعایا مطمئن ہوئی -اُ س نے علائو الدین کے زمانہ کے تمام مستند اورنیکوکار عُمَّال کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیا -ملک کافور ، قطب الدین مبارک ﴿علائو الدین کافرزند﴾ اور خسروخاں کی وجہ سے اُن میں سے اکثر ملازمتیں چھوڑ کر گوشوں میں جاچھپے تھے - غیاث الدین تغلق نے اُن سب کو گوشوں سے نکالا - اُن کونئی جاگیریں دیں ،خلعتیں عطا کیں اور اُنہیں مناصب پر بحال کردیا -یہ لوگ علائو الدین کے تربیت یافتہ تھے اس لئے مؤرخین کو اس پرحیرت نہیں کرنی چاہیے کہ غیاث الدین تغلق نے جادو کے زور سے صرف تین سال میں مملکت کی ہر بگڑی کل درست کردی اُس نے دن رات کاآرام ضائع کرکے دوبارہ وہی ماحول پیدا کردیا جو سُلطان علائو الدین خلجی نے قائم کیا تھا- ﴿۶﴾
وفات:-
۵۲۷ہجری میں سلطان غیاث الدین تغلق ہاتھیوں کا معائنہ کے لئے آئے تو ان کے لئے ایک نیا کوشک ﴿قصر﴾ تعمیر کیا گیا تھا -اَبھی کوشک گیلا تھا،اِس لئے ہاتھیوں کے قدموں کی دھمک سے کوشک گر پڑا - سلطان اوراس کاایک ساتھی﴿کہاجاتا ہے کہ وہ اس کا چھوٹا بیٹا تھا﴾ اس کے نیچے دَب کر جاں بحق ہو گئے- مؤرخین کا اِس اَمر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ایک حادثہ تھا یا کوئی سازش تھی -کچھ کا خیال ہے کہ غیاث الدین تغلق اوراُس کے جانشین فخرالدین بیگ ﴿سلطان محمد بن تغلق ﴾کے مابین اختلافات رُونما ہوچکے تھے - اِس لئے سلطان محمد تغلق نے سازش کے ذریعے قتل کروایا تھا - جب کہ یحییٰ بن اَحمد سرہندی نے تاریخ مبارک شاہی میں اِسے محض ایک حادثہ قرار دیا ہے اوریہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ خسروخاں سے جنگ اورجانشین نامزد ہونے سے غیاث الدین تغلق کی وفات تک محمد بن تغلق پدرِ محترم کے اَحکامات کی بجاآوری میں پیش پیش رہا- سلطان غیاث الدین تغلق کچھ وجوہات کی وجہ سے محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیائ رحمۃ اللہ علیہ سے نالاں رہتا تھا - اس لئے ایک روایت کے مطابق اُس نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دہلی طلب کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کہ َابھی دِلی دُور ہے یعنی غیاث الدین کی موت قریب ہے اوریہ بھی سچ ہے کہ غیاث الدین بھی افغان پور سے دہلی نہ پہنچ پایا اوروفات پاگیا-
تکبر با گدایانِ درِ میخانہ کمتر کن
کہ اینجا مُور برھم می زند تختِ سُلیمان را
سلطان محمد بن تغلق شاہ:-
چونکہ غیاث الدین تغلق نے اپنی زندگی میں ہی فخر الدین بیگ کو اپنا جانشین مقرر کیا تھااس لئے اُس کی وفات کے بعد تخت نشینی سہولت کے ساتھ سراَنجام پا گئی - سلطان محمد بن تغلق کی رسمِ تاج پوشی ۵۲۷ ہجری بمطابق۵۲۳۱ ئ میں اَدا کی گئی-سلاطینِ دہلی کی تاریخ میں سلطان محمد تغلق شاہ سے زیادہ متنازعہ بادشاہ شاید ہی کوئی دوسراہو-اُس کی شخصیت کے منفی اورمثبت پہلو ایک دوسرے پہ اس قدر چڑھے ہوئے اورجڑے ہوئے ہیں کہ اُن کو الگ الگ کرکے دیکھنا اِنتہائی مشکل کام ہے-وہ ایک طرف اِنتہائی سخت گیر منتظم اورترقی پسند بادشاہ تھا تو دوسری طر ف وہ ایک سفاک اوربے رحم حکمران تھا-وہ تعلیم یافتہ اورجدت پسند حاکم تھا مگر جانے کیوں اُس کے اکثر منصوبے اورمہمات ناکام ہوئیں -کامیاب منصوبہ ساز مگر خوش بختی سے محروم -نماز اور دیگر مذہبی فرائض میں پختہ کار مگر اس کے باوصف وہ اپنے مخالفین کو عبرت ناک اورغیر شرعی سزائیں دینے میں مشہور تھا-تصوف اورصوفیائ سے ایک خاص حد تک لگائو رکھتا تھا اور ساتھ ہی سخت گیر و متشدّد مذہبی نظریات کا پرچارک بھی تھا-المختصر اُس کی شخصیت خامیوں اور خوبیوں کا عجیب سا آمیزہ تھی-اُس کے بارے میں مؤرخین میں بھی بہت زیادہ اِختلاف پایاجاتا ہے- مصنفینِ جامع تاریخِ ہند نے اُس کے بارے میں مختلف مؤرخین کی آرائ تحریر کیںکہ
’’شہاب الدین القلقشندی،ابن حجر عسقلانی اوراصلاح الدین صفو نے اس کی قابلیت ،سخاوت اورغیر ملکی محققین کے ساتھ مخلصانہ سلوک کی بنا پر غیر مشروط طور پر اس کی تعریف کی ہے - ابن بطوطہ سلطان کی فیاضانہ سخاوت اور مذہبی معاملات میں دلچسپی کی تعریف کرتاہے لیکن اس کی گردن زدنیوں کی مذمت کرتا ہے - عصامی کے نزدیک سلطان ظالم ، مستبد اورایک بدعتی تھا جومکمل مذمت کامستحق تھا - برنی کے نزدیک محمد بن تغلق ’’تضادات کامرکب ‘‘ تھا- ‘‘ ﴿۷﴾
یحییٰ بن احمد سرہندی سلطان محمد تغلق کی بادشاہت کے نتائج لکھتے ہیں کہ :-
’’اُمورِ سلطنت بالکل چوپٹ ہوگئے اورنظامِ مملکت مکمل طور پر درہم برہم ہوکر رہ گیا ﴿جب ﴾ ایک طرف سے مملکت میں رُونما ہونے والے فتنوں کا سدِ باب کرنے پر توجہ دی جاتی تو دوسری طرف سے فتنوں کادَروازہ کھل جاتا- جب ایک طر ف ملک میں امن وامان برقرار کرنے کاخیال اس ﴿سلطان ﴾ کے دِل میں آتا تو دوسری طرف کوئی زبردست خلل واقع ہوجاتا اور وہ ﴿اپنی تدبیروں کے اُلٹا ہوجانے پر﴾ حیران وپریشان ہوکر رہ جاتا-سلطنت کی ﴿ مضبوط ﴾ بنیاد جو کہ گزشتہ بادشاہوں نے ڈالی تھی پوری طرح متزلزل ہوگئی -وہ جس کام کا تہیہ کرلیتا تھا ﴿اس کے نتیجے میں ﴾اختلالِ مملکت ، نقصانِ دین،اپنی تشویش ،ملک داری اور دستگاہِ شہریاری میں سے ﴿اس کے پاس﴾ کچھ بھی باقی نہ رہا-‘‘﴿۸﴾
سلطان محمد بن تغلق ایک بہادر ،جرّی مگر ظالم سپہ سالار تھا-وہ اپنے مخالفین کے معمولی جرائم پہ بھی درد ناک سزائیں دیتا-اُس کے محل کے سامنے شاید ہی کوئی دن گزرے جب کسی انسان کی لاش نہ لٹک رہی ہو - اُس کی بیشتر زندگی میدانِ جنگ کی دہشت ووحشت میں گزری اوربرسرِاقتدار آکر بھی اُس کازیادہ تر وقت بغاوتوں کو کچلنے میں صَرف ہوا -اِس کے باوصف اُس نے عالمی سطح پہ اَثر ورسوخ حاصل کرنے کے لئے کئی منصوبے بنائے مگر وہ اُن سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا-اِنہیں میں سے ایک قراچل کی مہم ہے اگر یہ کامیاب ہوتی توچین تک اس کااَثرو رسوخ قائم ہوجاتا-
قراچل ﴿کوہِ ہماچل﴾کی مہم:-
سلطان محمد بن تغلق نے مملکتِ ہند اورچین کے درمیان حائل علاقہ قراچل فتح کرنے کے لئے اَسی ہزار سواروں پہ مشتمل لشکرترتیب دیا-اس مہم کامقصد کیا تھا ؟ مذکورہ اَمر میں مورخین میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے ، کچھ کاخیال ہے کہ وہ چین فتح کرنا چاہتا تھا لیکن یہ بات حقائق کے منافی ہے- بعض کی رائے ہے کہ وہ قراچل علاقے کی عورتوں کواپنے حرم میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہ اَمر سلطان کے کردار کے تمام جائزوں کے خلاف ہے- یادرہے کہ’’ اُ س کی ذاتی زندگی پاک اوصاف تھی اوراُس کاکردار اَیسی برائیوں سے بالکل صاف تھا کہ جو ہند کے وسطی عہد کے دیگربادشاہوں کے کردار پر دَھبہ تھیں ‘‘-کچھ مؤرخین کاخیال ہے کہ وہ پہاڑی علاقے کے سرداروں کو اپنے اِقتدارِ اعلیٰ کے زیرِ اَثر لانا چاہتا ہے -یہ رائے معتبر ہے کیونکہ اَشوک اَعظم کے بعد وہ واحد حکمران تھا کہ جو’’ جنوبی ہند اورشمالی ہند ایک اکائی ‘‘کے نظریہ کاعلمبردارتھا-یحییٰ بن اَحمد سر ہندی کے مطابق:-
’’اُس ﴿سلطان محمد بن تغلق﴾ نے اپنے سواروں کو حکم دیاکہ وہاں سے جب وہ نشیبی علاقے میں آئیں تو واپسی کے راستے میں ﴿سلسلہ ٔ مواصلات برقرار رکھنے کے لئے ﴾چوکیاں بنائیں تاکہ لوٹتے وقت دُشواری نہ ہو -جب لشکر وہاں پہنچا تو حسبِ دستور چوکیاں قائم کی گئیں اورسارا لشکر سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل ﴿بھی ﴾ ہوگیا - لیکن رَسد کی کمی اورراستے کی دُشواری اِس پر غالب آئی -جو چوکیاں قائم ہوئیں تھیں اُن پر پہاڑی لوگوں نے قبضہ کرکے سب چوکیداروں کو قتل کردیا -وہ لشکر جو کہ ﴿سلسلۂ کوہِ قراچل ﴾میں داخل ہوا تھا سارے کاسارا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا-﴿اس لشکر ﴾کے اکثر سردار گرفتار ہوگئے اورکافی عرصہ تک ﴿وہاں﴾کے راجاؤں کی قید میں رہے -اس کے بعد ایسا لشکر ﴿کبھی﴾ فراہم نہ ہوا-‘‘﴿۹﴾
اِس معرکہ کے طویل واقعات کا اگر مختصر اَلفاظ میں جائزہ لیا جائے تو یہ ہے کہ اگر اُس لشکر کا سپہ سالار محمد بن تغلق شاہ کی ہدایت کے مطابق قراچل علاقہ فتح کرنے کے بعد تبت کی طرف پیش قدمی نہ کرتا تو ممکن ہے کہ اس مہم کے نتائج مختلف ہوتے -
تانبے کے سکوں کااَجرأ:-
مہم جوئی کے اخراجات اوربے جا فیاضی کے سبب جب شاہی خزانہ خالی ہوگیاتو سلطان محمد بن تغلق نے اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے سونے کے سکّوں کی جگہ تانبے کے سکّے رائج کرنے کا حکم دیا-اِس غلط فیصلے کے مضراَثرات نے سلطان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا فریبی لوگوں نے شہروں اورقصبوں میں ٹکسال قائم کرکے دَھڑا دَھڑ تانبے کے سکّے بنائے اوران کے عِوض سونا ، چاندی ،گھوڑے ،ہتھیار اوردیگر قیمتی اَشیائ خریدنا شروع کر دیں - ایسا کرنے کامنطقی نتیجہ کساد بازاری ہی کا ہونا تھا - جس کے بعد سلطان کو ایک بار پھر شاہی فرمان جاری کرنا پڑا کہ لوگ تانبے کے سکّے شاہی خزانے میں جمع کرواکے سونے کے سکے حاصل کریں -اس سے شاہی خزانے کا بھُرکس نکل گیا-
دارالحکومت کی تبدیلی :-
سلطان محمد بن تغلق نے دکن میں دَیو گری کا شہر آباد کیا جسے بعداَزاں دولت آباد کہاجانے لگااورپھر اِسے سلطنت کا نیا انتظامی شہر قرار دیا-اِس کے بعد فرمان صادر کیا کہ دہلی اورمضافات کے تمام باشندوں کو کارواں در کارواں دولت آباد میں منتقل کیا جائے اوران کے لیے مکانات خریدنے کے لئے شاہی خزانے سے پیسے دئیے گئے-کہتے ہیں کہ اس اَمر سے دہلی شہر ایسا اُجڑا کہ چنددنوں میں یہاں سے بلی اورکتے کے بولنے کی آوازیں بھی سنائی نہ دینے لگی -ایسے میں اُوباش لوگ دہلی میں داخل ہوگئے اورجو شہری یہاں رہ گئے تھے اُن کولوٹ لیاگیا-لیکن دوسری جانب تمام اَطرافی قصبات سے علمائ اورمشائخ تک کو دولت آباد میں بسایا گیا - حالانکہ دہلی ایک سو ساٹھ سال سے سلطنت کا دار الحکومت چلاآرہا تھا-دہلی کی بربادی اور دولت آباد کی آبادی بھی سلطان کا غلط فیصلہ تھا-
۲۵۷ ہجری میں یہ عجیب وغریب شخصیت کاحامل متنازعہ بادشاہ ٹھٹھہ کے قریب دریائے سندھ کے کنارے بیمار ہوکر فوت ہوگیا-
آنکہ یااز سر نخوت ننہادی برخاک عاقبت خاک شدہ ،خلق بر اومی گزرند
وہ جو کہ نخوت سے باعث اپنا پائوں خاک﴿زمین ﴾ پر نہیں رکھتا تھا ،آخر کار﴿وہ خاک میں مل کر ﴾خاک ہوگیا اورلوگ اُس ﴿کی خاک یعنی قبر﴾پر سے گزرہے ہیں-
یہ امر بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مؤرخین نے سخت ترین اِختلافات بھی کئے ہیں محمد شاہ تغلق سے لیکن اِس کے ذاتی اور نجی کردار پر کسی قسم کا کوئی دھبّہ موجود نہ ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی دینداری میں اِختلاف ہے - البتّہ اُس کا ظُلم وہ واحد گردان ہے جسے ہر باب کے ہر صیغے میں بتکرار بیان کیا گیا ہے -
سلطان فیروز شاہ تغلق:-
سلطان محمد بن تغلق کی وفات کے بعد اُس کے چچا زاد بھائی ’’فیروزتغلق‘‘کوسلطنتِ دہلی کانیا تاجدار نامزد کیا گیا اورموقع پہ موجود تمام اُمرأ نے اسے بخوشی قبول کر لیا - کچھ مؤرخین کاخیال ہے کہ سلطان محمدبن تغلق نے اپنی زندگی میںہی فیروزشاہ تغلق کو جانشین مقرر کر دیا تھا - جو بھی رائے صحیح ہو البتہ یہ اَمر یقینی ہے کہ ایک چھوٹے سے واقعہ کے سوا مجموعی طور پر بادشاہت پُر اَمن طریقہ سے فیروز شاہ تغلق کومنتقل ہوئی-مبالغہ آرائی کے بغیر بھی یہ کہنا درست ہوگا کہ سلطان فیروز شاہ تغلق اُن نیک سیرت مسلمان بادشاہوں کی فہرست میں شامل ہے کہ جن کے سبب انسانوں نے بڑے سُکھ پائے جو مطلق العنان حکمران ہونے کے باوصف اسلام کے مبلغ ،اس کے عَلم بردار اوراسلامی نظام کو بروئے کار لانے والے تھے-سلطان فیروز شاہ تغلق نے ہر اُس ظلم و زیادتی کا اَزالہ کیا جو محمد بن تغلق میں پائی جاتی تھی اورجن کے سبب رعایا کو دکھ ملے-اُس نے محمد بن تغلق کے ظلم کے طریق کو ترک کرکے رحم دلی سے حکومت کی- سلطان محمد بن تغلق کے استحصال وغصب کی روایات چھوڑ کرفلاحی ورفاہی کاموں میں مصروف ہوا اور سلطان محمد بن تغلق کے آتش مزاج طرزِحکومت کو ترک کرکے عوام سے شفقت وپیار کی طرح ڈالی -یحییٰ بن احمد سرہند اس اَمر کاذکر کرتے ہیں کہ :-
’’سلطان فیروز شاہ سلطان غازی ،غیاث الدین تغلق کے چھوٹے بھائی ،اسپد ار رَجب کا فرزند تھاچونکہ خداوندِ تبارک وتعالیٰ واھب المواھب ﴿ہے اور﴾ جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اس لئے جب اُس نے دورِ مملکت اور عہدِ سلطنت اس حلیم ،کریم، عادل، فرشتہ صفت اور مصطفی خصلت بادشاہ تک پہنچایا تو بادشاہِ مغفور ،محمد تغلق شاہ کے عہدِ سلطنت میں وجود میں آنے والی ہر طرح کی ستم گری ،شقاوت ،زیادتی ، ملک تباہی وبربادی اوررعیّت کے اَمن وسکون اور راستوں کے اَمن وامان میں بدل گئی اور ﴿ ملک میں﴾علمائ ومشائخ کی تعداد اورفروغِ علم و فضل میں اضافہ ہوا-‘‘ ﴿۰۱﴾
سلطان فیروز شاہ تغلق نے سلطان محمد بن تغلق کی توسیع پسندانہ اورظالمانہ روایت کو چھوڑ کر اَپنے چچا غیاث الدین تغلق کی قناعت پسندانہ اوراَچھی طرزِ حکومت کی روّش کواَپنایا -اُس نے باغیوں کو وحشت ناک سزائیں نہ دینے کا جواز شریعت سے پیش کیا- کیونکہ شریعت مورثی بادشاہت کوجائز تسلیم نہیں کرتی اس لئے بادشاہ کے خلاف جرائم کے لئے کسی قسم کی سزا طے نہیں کی گئی-فرشتہ کے بقول فیروز شاہ کہتا تھا کہ :-
’’مجھ سے پہلے کے بادشاہوں کی یہ کچھ عادت سی بن گئی تھی کہ معمولی معمولی جرائم پراپنی رعایا یا اپنے ماتحت عملہ کو سخت سے سخت اوربیہودہ سے بیہودہ سزائیں دیا کرتے تھے مثلاً ہاتھ پائوں کٹوا دیتے ، ناک کان کاٹ لیتے ،آنکھوں میں گرم سلائی پھراتے ،حلق میں سیسہ گرم کرکے ڈالتے ، ہاتھ پائوں میں میخیں ٹھونکتے اوراسی طرح دوسری سزائیں - میرے نزدیک یہ سزائیں غیر مشروع بھی ہیں اورظالمانہ بھی ،مَیں نے یہ سب ممنوع قرار دے دیں اوربات بات پر مسلمانوں کاخون بہانا جرم ٹھہرایا-صرف انہی سزائوں کو جاری کیاجو اِسلام نے ضروری ٹھہرائیں ، مَیں نے عقوبت وعذاب کی بجائے نرمی اوررحم دلی کو بنیادی اصول بنایا‘‘- ﴿۱۱﴾
صرف یہی نہیں فیروز شاہ سے پہلے صرف تخت نشین بادشاہ کانام خطبہ میں پڑھا جاتاتھامگر اُس نے اپنے سے پہلے والے بادشاہوں کے نام بھی خطبہ میں شامل کروائے-سابق حکمران شریعت کے بَرخلاف مالِ غنیمت میں سے چار حصے خود رکھتے تھے اورصرف پانچواں حصہ سپاہیوں کودیتے تھے لیکن فیروز شاہ نے شریعت کے مطابق مالِ غنیمت میں سے صرف پانچواں حصہ خزانے میں اورباقی چار حصے فوج میں تقسیم کرنے کا فرمان جاری کیا-اُس نے سابقہ روایت کے برعکس شاہی محلات میں سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال روک دیا-کتب تاریخ اس اَمر پہ شاہد ہیں کہ فیروز شاہ تغلق کی حکمرانی کے پہلے چھ سال میں صرف سولہ مجرموں کو سزائے موت سنا ئی گئی اوریہ وہ اشخاص تھے جو حد درجہ سرکش اورقتل وغارت کے عادی تھے -حالانکہ تاریخ گواہ ہے بادشاہ جب تخت نشین ہوتے ہیںتو کچھ اس طرح سے خون بہاتے تھے کہ اپنے پرائے کی تمیز بھی نہ رکھتے بلکہ اَپنوں کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم کرتے - یہ فیروز شاہ تغلق کا ایک اِمتیازی وَصف ہے کہ اُس نے تخت کے حصول کے لئے اوراس کے استحکام کے نام پہ قتل و غارت گری نہیں کی-
فیروز شاہ نے راتوں میں ہونے والے ایسے جلسے کہ جن میں عورتیں بھی شریک ہوتی تھیں اورلوگ وہاں پہ غیر اخلاقی حرکتیں کرتے تھے ،نہ صرف اُن جلسوں کو غیر قانونی قرار دیا بلکہ اُن میں شرکت کرنے والوں کو بھی سزائیں دیں - اُس نے بے روزگار لوگوں کو سلطنت میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر بَرسرِروزگار کیا-
فیروز شا ہ تغلق کاایک عظیم کارنامہ یہ تھا کہ سلطنت میں اَیسے غریب والدین جو اپنی جوان لڑکیوں کی شادی کرنے کی سکت نہ رکھتے تھے ،اُن کی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات شاہی خزانے سے اَدا کرنے کاحکم دیا اور یہ مدد حاصل کرنے کاطریقہ بھی نہایت آسان تھا - سراج عفیف راوی ہیںکہ اڑتیس سال کے اندر ہزاروں غریب جوان لڑکیاں شاہی خزانے سے بیاہی گئیں-
سلطان فیروز شاہ کی ایک بڑی آروز تھی کہ اس کی رعایا خوش حال ہو اورملک کی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو - یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس اَکیلے نے رِفاہِ عام کی خاطر دریائوں سے تیس نہریں نکالیں تاکہ زیادہ سے زیادہ زمین آباد ہو-اُس نے چالیس شاندار جامع مساجد بنوائیں اوربیس خانقاہیں تعمیر کیں -اُس نے تیس اعلیٰ درجے کے تعلیمی ادارے قائم کیے-اُس نے ایک سو کے قریب عمدہ سرائیں بنوائیں اورقریباً دوسو شہر آباد کیے جن میں جون پور،فیروز پوراورفیروز آباد بہت مشہور ہوئے -اُس نے تیس عظیم الشّان ڈیم ﴿پانی کے ذخیرہ کے لیے﴾ بنوائے جہاں برسات کے موسم میں دریائوں اورندی نالوں کازائد پانی ذخیرہ کیاجاتا تاکہ خشک موسم میں ملحقہ زمین سیراب ہوسکے-اُس نے مملکت کے مختلف حصوں میں سو اعلیٰ درجہ کے خیراتی ہسپتال کھولے کہ جہاں غربا ومساکین کامفت علاج کیاجاتا اور کھانا پینا بھی فراہم کیاجاتا-برنی کے بیان کی رُو سے جو خوشحالی فیروز شاہ تغلق کے عہد میں عوام کو نصیب ہوئی وہ ہندوستان کے کسی بادشاہ کے عہد میں نصیب نہ ہوئی - بلا شبہ عوام کو سب سے بڑا سُکھ ضروریاتِ زندگی کی اَرزانی سے حاصل ہوتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ فیروز شاہ تغلق کے دورمیں ضروریات زندگی سستی تھیں اورعوام کے پاس ان اشیائ کو خریدنے کے لئے روپیہ بھی تھا - اس لیے عوام کو خوش ہونا یقینی تھا-اُس کے دور میں اِکا دُکا بداَمنی کے واقعات کے سوا کوئی بڑی بغاوت بھی رُونما نہ ہوئی-قحط سالی اور وبائوں نے عوام کو جکڑانہ بڑا غیر ملکی حملہ ہوا-
یحییٰ بن اَحمد سرہندی لکھتے ہیں کہ :-
’’اُس ﴿فیروز شاہ﴾خوش بخت اورخوش قدم بادشاہ کے عہدِ سلطنت میں اُس کے انتہائی عدل و احسان کے باعث کاروبارِ مملکت ایسی خوش اَسلوبی سے چل رہا تھا کہ کسی طرف سے نہ کوئی فتنہ سراُٹھاتا تھا اورنہ کسی کومجال تھی کہ دائرہ اَطاعت سے قدم باہر نکالے - ‘‘﴿۲۱﴾
سلطان فیروز شاہ تغلق صوفیاعظام ،مشائخ کرام اوراُن کے خاندانوں سے قلبی لگائو رکھتا تھا-اُس نے حضر ت بہائو الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے شیخ زادہ صدر الدین کو شیخ الاِسلام مقرر کیا اوراُس کی طرف سے شیخ نظام الدّین،شیخ رکن الدّین اورشیخ جمال الدّین کے ورثا ئ کوبھی وِظائف دئیے جاتے -اُس نے ایک بار حضرت خواجہ فریدالدّین شکرگنج کے مزار پرحاضری دی تو اُس وقت خانقاہ کی حالت بہت خستہ تھی ،اُوقاف چھن چکے تھے اورکوئی آمدنی کی سبیل نہ تھی -فیروز شاہ نے خانقاہ کے نام نئے اُوقاف جاری کئے -اِس کے سجادہ نشین شیخ الاسلام علائو الدّین کو خلعت پہنائی اورانتظامِ خانقاہ شریف کیلئے بہت سا روپیہ نذرانہ کیااوروہاں رہنے والے درویشوں کو گزر اُوقات کے لئے زمین وقف کی اوروِظائف جاری کیے-
افسوس!بادشاہ آخری عمر میں ضعیفی کے سبب اُمورِ سلطنت اَنجام دینے کے قابل نہیں رہااوربیماری کی وجہ سے اُس کی عمر کے آخری دوسال تکلیف میں گزرے - اُس نے ماہِ رمضان ،۰۹۷ ہجری میں ۰۹سال کی عمر میں وفات پائی -اُس نے قریباً ۰۴ سال تختِ دہلی سے سلطنت ِہند پہ حکومت کی -
حوالہ جات:-
﴿۱﴾﴿مسلمان حکمران ،ص:۷۷۴﴾
﴿۲﴾﴿مسلمان حکمران ص:۷۷۴﴾
﴿۳﴾﴿مسلمان حکمران ص:۸۷۴﴾
﴿۴﴾ ﴿جامع تاریخ ہند ص:۱۸۵ ﴾
﴿۵﴾﴿تاریخِ مبارک شاہی ص:۵۷۱﴾
﴿۶﴾﴿مسلمان حکمران ص:۰۸۴﴾
﴿۷﴾﴿جامع تاریخ ہند ص:۳۳۷﴾
﴿۸﴾﴿تاریخ مبارک شاہی ص :۱۰۲﴾
﴿۹﴾﴿تاریخ مبارک شاہی ص:۸۸۱﴾
﴿۱۰﴾ ﴿تاریخِ مبارک شاہی ص:۴۰۲﴾
﴿۱۱﴾ ﴿مسلمان حکمران ص:۵۸۴﴾
﴿۱۲﴾ ﴿تاریخِ مبارک شاہی ص:۲۲۲﴾
اِسلامی تاریخ ہماری وراثت اورشناخت ہے -یہ محض داستانوں کامجموعہ نہیں ہمارے شاندار ماضی کاعکس ہے اوراگر تاریخ کا یہ عکس ہماری نظروں سے دُور ہو جائے ، یہ یاداشتیں ہمارے اَذہان سے محو ہوجائیں ،تو ہم خود کو کھوکھلا ،بے وقعت،بے وزن اوربے جان محسوس کریں گے -
تاریخ ایسا موضوع نہیں جسے ایک ہی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا جا سکے ، اسے ہر زاویۂ نگاہ سے اور ہر پہلو سے دیکھنا پڑتا ہے تبھی اُس گزرے ہوئے کل سے آج کا سبق نکل سکتا ہے - اگر تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ ہی سمجھ لیا جائے تو وہ حکایت گوئی و قصّہ خوانی سے آگے نہیں بڑھتی - اِس لئے نامور مؤرخینِ اِسلام نے یہ اصول اپنایا کہ جس طرح قرآن پاک قصہ یا واقعہ بیان کرتا ہے تو اس کا مطلب صرف بیانِ واقعہ نہیں بلکہ وہ اُس میں بیان شُدہ نتائج کی اور فلسفہ کی طرف توجُّہ دِلاتا ہے کہ دیکھو فلاں قوم کا یہ واقعہ کہ اُس نے کیسے بغاوَت کی اور اُس کا انجام کیا ہوا ؟ اسی کے برعکس فلاں قوم نے کیسے اطاعت کی اور خالقِ کائنات نے کیسے اُن کو اپنی نگہبانی و امان میں لے لیا ؟
اِس لئے کسی شخص کی تاریخ ہو ، کسی خاندان کی تاریخ ہو ، کسی قوم کی تاریخ ہو یا کسی زمانے کی تاریخ ہو اُس میں طالب علم کیئے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ زمانۂ حاضر میں اس کا کیا اثر وقوع پذیر ہورہا ہے اور مستقبل میں کیا ہوگا ؟ نیز یہ بھی کہ قوموں اور ملتوں کے عروج اور زوال کے اسباب کا پتہ چلتا ہے کہ کیسے چلن قوموں کو عروج پہ لے جاتے ہیں ؟ کیسی طرزِ حکمرانی قوم کی آئندہ زندگی کی ضمانت بنتی ہے ؟ کن صفات سے متّصف اور کن خواص سے مزیّن حُکمران قوم کے مستقبل کا سرمایہ ثابت ہوتے ہیں ؟ اِسی طرح یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کیسے چلن ، کیسا طرزِ حُکمرانی اور کیسے حُکمران قوموں کا بیڑا غرق کرکے اُن کی آئندہ نسلوں کو غُلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں ؟
اِس حوالے سے اِسلامی ہند کی تاریخ بھی کئی اسباق اور کئی بھر پور نتائج سے بھری پڑی ہے جن میں جھانک کر ہم کئی سبق حاصل کر سکتے ہیں - اگر صرف شہرِ دہلی پہ ہی نظر ڈال لی جائے تو اوراقِ تاریخ ختم ہونے میں نہیں آتے - اُس میں ایک خاص حِصّہ دہلی کے مختلف خاندانوں کے مسلمان سلاطین کا ہے -
اگر سلاطینِ دہلی کی تاریخ مجموعی طور پہ مثالی نہ بھی ہو لیکن سلطنتِ دہلی کے کچھ بادشاہ تو ایسے بھی ہیں جن کی کارکردگی ہر لحاظ سے متأثر کن ہے-بلاشبہ اسلامی ثقافت وتہذیب کے سلاطینِ دہلی کے طرزِ ہائے حکومت پہ دوررَس اثرات مرتب ہوئے -وہ مطلق العنان ضرور تھے لیکن دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے بھی کوشاں رہے -وہ اپنی علمی وعملی استعداد کے مطابق دین ِ اسلام پہ عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے رہے-اُن میں سے کچھ حکمران اَیسے بھی تھے کہ جنہوں نے اِسلامی فلاحی ریاست کے تصوّر کو اپنانے کی بھی اپنی سی سعی کی -تاریخ کے یہ اَن مٹ نقوش ہمیں آج بھی اخلاقی برتری کا احساس دلاتے ہیں اور ہمیںیاس و قنوطیت سے چھٹکارا دِلا سکتے ہیں -ماضی کے کارنامے اورناکردہ کاریاں ، عروج وزوال ہمیں حقیقت پسندانہ تجزیات کی طرف بُلاتے ہیں -
یہ بھی درست ہے کہ اَنگریز اورہندو مؤرخین نے سلاطینِ دہلی کی تاریخ مسخ کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھائے نہیں رکھامگر اِس کے باوصف ہم تاریخ کے حقیقی خدوخال دیکھ سکتے ہیں - یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر انگریز اور ہندؤں نے ایسا کیوں کیا ؟ تو جواب بہت سادہ ہے کہ تاریخ دو طرح کے لوگ لکھتے ہیں ﴿۱﴾ وہ جنہیں بادشاہ نے نوازا ہوتا ہے - ﴿۲﴾ وہ جن کو مار پڑی ہوتی ہے - کوئی بھی تاریخ دیکھیں اُس میں یہ عنصر ضرور غالب ہوتے ہیں ، مثلاً صلیبی جنگوں پہ لکھی گئی مغربی تاریخ پڑھ لیں اور مسلمانوں کی تاریخ پڑھ لیں دونوں کا نقطۂ نظر ایک ہی واقعہ پہ مختلف ہو گا ایک میں سُلطان صلاح الدین ایُّوبی کو نشانۂ تنقید بنایا گیا ہوگا اور دوسرے میں اُس کی تعریف کی گئی ہوگی - اِسی طرح سکندر اور چنگیز کی تاریخ دیکھ لیں : سکندر کو ’’سکندرِ اعظم‘‘ اِس لئے کہا گیا کہ اُس کی تاریخ اُن لوگوں نے لکھی جن کو اُس نے نوازا تھا اور چنگیز کو ’’غاصب چنگیز‘‘ اِس لئے کہا گیا کہ اُس کی تاریخ اُن لوگوں نے لکھی جن کو اُس سے مار پڑی تھی - لہٰذا ہندؤں اور انگریزوں کا اِسلامی تاریخ سے نظریاتی بیر اور نظریاتی دُشمنی ہے اگر وہ اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تاریخ لکھیں تو اپنے خود ساختہ تاریخی ہیروز کو کیسے پروموٹ کر سکیں گے ؟
سلاطینِ دہلی کے معروف خاندانوں میں ایک تُغلق خاندان بھی تھا جس نے ایک طویل عرصہ تک تختِ دہلی پہ حُکمرانی کی - تغلق خاندان میں تین نامور اورعظیم بادشاہ گزرے ہیں -
﴿۱﴾ سلطان غیاث الدین تغلق شاہ جو کہ تغلق خاندان کابانی تھا-
﴿۲﴾سلطان محمد بن تغلق شاہ
﴿۲﴾سلطان فیروز شاہ تغلق-
سلطان غیاث الدین تغلق :-
خدا جب کسی قوم کابھلا چاہے تو اِس قوم کے کسی اَیسے فرد کو برسرِ اقتدار کرتاہے کہ جس کے دِل میں حکومت ،بادشاہت اورجاہ و حشمت کی طلب معدوم ہو- دینِ اسلام میں بھی یہ اصول ہے کہ ِاسلامی ریاست میں کسی ایسے فرد کو خلافت اورنیابتِ الٰہی کی ذمہ داری نہیں سونپی جاتی کہ جو اِقتدار میں آنے کی خواہش کا بَرملا اظہار کرے - اِسلامی تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ جب ناچاہنے کے باوصف حکومت کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی-سلاطین دہلی کی تاریخ میں بھی ایسے ہی دو بادشاہوں کے نام موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنی خواہش سے نہیں بلکہ حالات کی نزاکت کی وجہ سے بادشاہت قبول کی ،ان میں سے ایک نام جلال الدین فیروز خلجی کا ہے اوردوسرا تغلق خاندان کے بانی غیاث الدین تغلق کاہے-تاریخ کہتی ہے کہ غازی بیگ ﴿غیاث الدین تغلق﴾کو بادشاہ بننے میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ اپنی ذات میں مست تھا-اُس کاشمار سلطنتِ دہلی کے اوسط درجے کے اُمرأ میں ہوتا تھا-سلطان علائو الدین خلجی کہ جس نے اسلامی فلاحی ریاست کے تصوّر کو سلطنتِ ہند پہ عملی طور پر نافذکرنے کی کوشش کی ، وہ غازی بیگ پہ بڑا مہربان تھااوراِسے دیپالپور قلعہ کا صوبے دار مقرر کیا-سلطان علائو الدین خلجی کی وفات کے بعد محلاتی سازشوں اورآپسی جنگ نے سلطنتِ دہلی کی ب